خمارؔ کی سرور آگیں شاعری
نیاز فتح پوری نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’دو طرح کے فنکاروں پر کچھ لکھنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ایک تو وہ کہ جن پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہو اور دوسرے وہ کہ جن پر کچھ نہ لکھا گیا ہو‘۔خمارؔ بارہ بنکوی کا شمار ثانی الذکر میں کیا جانا چاہیے۔سخت حیرت ہوتی ہے کہ خمارؔجیسے البیلے اور کیف آگیں شاعر کے متعلق بعینہ اردو ادب میں کچھ نہیں لکھا گیا۔اور یہاں وہاں سے اگر کچھ مل بھی جائے تو اس سے کسی حتمی فیصلہ پر پہنچنا محال ہوگا۔
خمارؔ،خالص تغزل کا شاعر،تغزل کا یہ عالم کہ نعتوں ،منقبتوں اور سلاموں پر بھی اسی تغزل کا اثر دکھائی پڑتا ہے۔شعوری لا شعوری طور پر خمارؔ خود کو تغزل سے دور نہیں رکھ پائے۔اردو شاعری کی تثلیث،رندی،عاشقی اور تصوف میں اول الذکر دومیلان پر ہی خمارؔ نے اکتفا کیا۔ان کی شاعری میں نہ انسان کی شکست و ریخت کے کرب ناک واقعات درج ہوئے اور نہ غم ِ روزگار کو دخل رہا۔فن برائے فن کے قائل خمارؔ معشوق کے گالوں اور بالوں کے علاوہ کبھی کچھ سوچ نہ سکے۔جس کا اظہار ان کی شاعری سے ہوتا ہے۔لیکن یہ اظہار ِ عشق و معاشقہ بھی تہذیبی رکھ رکھائو رکھتا ہے۔ان کا معشوق حسرتؔ کی محبوبہ کی طرح پردہ داری کو مقدم جانتا ہے اور خمارؔ بھی اوٹ اوٹ جھانکنے میں زیادہ حظ محسوس کرتے ہیں۔چہ جائیکہ خمارؔ کی محبوبہ نشاط النساء بیگم کی سی پاکیزگی حاصل نہ کر پائے۔
ایک طویل عرصے تک خود کو کسی ایک ہی زاویہ ء فکر پر قائم رکھنا بھی بجائے خود اک کمال ہے۔وگرنہ انسانی نفسیات ہر دہائی اپنی اساس بدلتی رہتی ہے۔جگر مرادآبادی کی شاگردی قبول کرنے کے باوجود خمارؔکا رنگ ِ سخن جگرؔ سے قدرے مختلف ہے۔رندی و عاشقی میں خمارؔعاشقی کو ترجیح دیتے ہیں۔مجھے یہ بات بھی کہنے دیجیے کہ عبدالحمید عدم ؔلاہوری،جگر ؔمراد آبادی اور اصغرؔ گونڈوی،ان تینوں کی شاعری کسی ایک ہی دائرہ ء فکر کے ارد گرد گھومتی ہے۔عدم خرابات،جگر عاشقی اور اصغر تصوف۔میں بہت احتیاط اور ذمے داری کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ مذکورہ تینوں ہی شاعرکے یہاں متعدد مرتبہ مضامین کی تکرار بری طرح کھلتی ہے۔عدم کی مے پرستی،جگر کی عاشقانہ سر مستی اور اصغر کی تصوف مزاجی اول اول تو خیر قاری بہ ہزار دلچسپی پڑھ لیتا ہے لیکن پھر ان کی تکرار ناقابل ِ مطالعہ بنتی جاتی ہے۔اس کے بر خلاف خمارؔکے یہاں آپ مکمل شعری مجموعہ پڑھتے جایئے لیکن کہیں بوریت محسوس نہ ہوگی۔اب ظاہر ہے کہ خمارؔ بھی موضوعیت کے ضمن میں مذکورہ بالا تینوں فنکار سے ہی ہم قبیلہ ہیں تاہم خمارؔ کی شاعری کا تنوع اور تازہ کاری قرات پر بار نہیں ہوتی۔میری نظر میں یہ کسی بھی یک موضوعی شاعر کے لیے نشان ِ امتیاز ہوتا ہے۔
خمارؔ کی شاعری میں بلا کی غنائیت موجود ہے۔ان کے یہاں مصرعے کچھ اس طرح سجے سجائے اور ڈھلے ڈھلائے ہوئے ہوتے ہیں کہ نغمی خود بہ خود پیدا ہوتی جاتی ہے۔پڑھتے وقت قاری ایک نوع کا لطف محسوس کرتا ہے۔ایک خاص لفظیات اور اساس ِ شعر کے ساتھ زندگی بھر ثابت قدم رہنا بھی خمارؔ ہی کا خاصہ ہے۔خمارؔ کی شاعری میں عشق و معاشقہ کے مضامین والہانہ پن اور جمالیاتی کیف سے معمور ہوتے ہیں۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہر مرتبہ یہی جمالیات ایک نئے ڈھب میں ایک نئے طور پر سامنے آتی ہے۔جو میری اپنی دانست میں تازہ کاری کی عمدہ مثال ہے۔
بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم
قسطوں میں خود کشی کا مزہ ہم سے پوچھیے
وہ جان ہی گئے کہ ہمیں ان سے پیار ہے
آنکھوں کی مخبری کا مزہ ہم سے پوچھیے
برسے بغیر ہی جو گھٹا گھر کے کھُل گئی
اک بے وفا کا عہد ِ وفا یاد آگیا
مجھ کو محرومی ِ نظارہ قبول
آپ جلوے نہ اپنے عام کریں
دل کو ترک ِمحبت پہ کیا کیا ہے ناز
لیکن ان کا اگر سامنا ہوگیا
جھنجھلائے ہیں ،لجائے ہیں،پھر مسکرائے ہیں
کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں
آہ جن اشکوں کو پی جانا پڑا
اف جو دریا رخ بدل کر رہ گئے
حسن کی مہربانیاں،عشق کے حق میں زہر ہیں
حسن کے اجتناب تک عشق کی زندگی سمجھ
عقل کہے کہ بار بار ان کو نہ آزمایئے
عشق کہے کہ ایک بار اور فریب کھایئے
آہ وہ آنسو جو آنکھوں ہی میں ہو جاتے ہیں گم
ہائے وہ مطلب جو لفظوں سے ادا ہوتا نہیں
حسن معصوم کو آمادئہ بیداد کیا
مجھ کو خود میری تمناوئوں نے برباد کیا
آپ کو جاتے نہ دیکھا جائیگا
شمع کو پہلے بجھاتے جایئے
آگے جبین ِ شوق تجھے اختیار ہے
یہ دیر ہے،یہ کعبہ ہے،یہ کوئے یار ہے
الفاظ میں نہ ڈھونڈ مری بے قراریاں
اے بے خبر زباں نہیں مرا دل بے قرار ہے
موضوعاتی مطالعہ میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ خمارؔکے یہاں رموز ِعشق کی معاملہ بندی،رندی،دوستوں کے تلخ تجربات کا ذکر،حضرت ِ واعظ سے روایتی چھیڑ چھاڑ اور بعضے حقائق ِ زیست۔ان تمام میں عشق کا تناسب قدرے زیادہ بنتا ہے۔جس کی چنداں مثالیں اوپر درج کی گئی ہیں۔
عشق کی معاملہ بندی میں خمارؔ کے یہاں اکتاہٹ کہیں نہیں ملتی۔ان کے عشق اور معاملات ِ عشق کی صحت مندی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ رومانیت کی الہڑ بازی سے ان کی شاعری پاک ہے۔عشق کی یہی شستگی اور شائستگی انھیں اپنے ہم عصروں کے ہجو م سے مستثنیٰ کرتی ہے۔بلکہ مجھے یہ عرض کرنے دیجیے کہ چنداں مقامات پر خمارؔ کے محبوب یا معشوق کی پاکیزگی حضرت ِ حسرتؔ سے بھی آگے بڑھ گئی۔شرافت ِ عشق یا تطہیر عشق کے معاملہ میں خمارؔ کا وہی شعری رویہ دیکھنے کو ملتا ہے جو مولانا حسرتـؔ موہانی نے اپنایا تھا۔کئی ایک جگہ خمارؔ کی عشقیہ دردمندی اپنے مواج دھارے کے ساتھ کائنات ِ شاعر کو ڈانوڈول کرتی نظر آتی ہے۔خمارؔ کے یہاں عشق کی واردات بہت زیادہ طنطنے یا شور غل کے ساتھ رقم نہیں ہوئی، بلکہ محسوس ہوتا ہے شاعرکی خلوت میں بقول خلیل فرحتؔ کارنجوی ’’آپ ہی ہوگئے مخاطب آپ ہی فرماتے گئے‘‘ کی سی کیفیت ہے۔خمار کا عشق بہ زور اور بہ بانگ ِ دہل خود کو منوانے پر ہر گز آمادہ نہیں۔ان کی شاعری اپنے عشق کو ،سرگوشی کے ساتھ میٹھے لہجے میں، تسلیم کروانے کا ہنر جانتی ہے۔
روز ِ ازل سے ہی عشق کا موضوع نظم و نثر،ہر دو جانب چھایا ہواہے۔اور بہ خدا، یہ عنوان ہی کچھ ایسا ہے کہ اسے کوئی زمانوی قید نہیں ہے۔یہی ایک وہ موضوع ہے جو ہر عمر کے قاری کے لیے موزوں ثابت ہوتا ہے۔ملّا صائب اصفہانی نے کیا خوب کہا تھا ؎
گرفتم سہل سوز ِ عشق را اول،ندانستم
کہ صد دریائے آتش از شرارے می شود پیدا
اردو فارسی شاعری میں ہزار ہا کتابیں اسی موضوع ِ خاص پر رقم ہوئی ہیں۔ایک ہی ہدف پرسیکڑوں نشانہ باز لاتعداد تیر لگا چکے ہیں۔اب جب آپ خمار کے یہاں یہی عنوان پڑھتے ہیں تو اول صفحے سے ہی تازہ کاری کی ایک دنیا آباد نظر آتی ہے۔ان کے شعری مجموعہ ’’ شب تاب‘‘ کی پہلی غزل سے ہی مشاہداتی ندرت محسوس ہوئی جاتی ہے۔
بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم
قسطوں میں خود کشی کا مزہ ہم سے پوچھیے
شاہ حاتم دہلوی سے لے کر جگر مراد آبادی تک نجانے کتنے شاعروں نے معشوق کو بھولنے اور اس کی اذیت کو بیان کیا ہے لیکن آپ محسوس کیجیے کہ رفتہ رفتہ بھولنا اور اس بتدریج بھولے جانے کو قسطوں میں خود کشی سے تعبیر کرنا کیسی نئی بات ہے۔اور پھر بعینہ جب شعری تناسب نکالا جائے تو کس قدر حسین تناسب نکلتا ہے،بھولنا مرادف خود کشی،رفتہ رفتہ مرادف قسط وار۔یہی وہ شعری حسن ہے جو خمارؔکی شاعری کو زندہ رکھے گا۔
ٹھیک اسی طرح الفاظ کے انتخاب میں بھی خمارؔ بڑی قدرت رکھتے ہیں۔’’آنکھوں کی مخبری کا مزہ ہم سے پوچھیے‘‘،اس مصرع میں لفظ ’مخبری‘ہرچند کہ غیر شعری ہے بلکہ ایسے نازک مقام پر اس قدر سخت اور کرخت لفظ کسی صورت روا نہ ہوتالیکن خمارؔ کی ماہرانہ چابکدستی کی داد ہی دیتے بنتی ہے کہ ایک غیر شعری لفظ کو بھی شعری پیرائے میں کچھ اس ڈھب سے پیش کیا ہے کہ مکمل شعر کی اساس بنا دیا۔’برسے بغیر ہی جو گھٹا گھر کے کھل گئی‘،ایفائے وعدہ نہ ہونے کے لیے کس قدر حسین اور لطیف استعارہ خمارؔ نے بروئے کار لایا ہے۔محض اس استعارے سے شعر میں بلا کی جاذبیت پیدا ہوگئی ہے۔خمارؔ کے یہاں میں نے جو ایک بات شدت سے محسوس کی ہے وہ ان کی سلاست اور ندرت ِ خیال ہے۔
؎ مجھ کو محرومی ِ نظارہ قبول
آپ جلوے نہ اپنے عام کریں
جلوئوں کے عام ہونے سے عاشق کو کوفت پہنچتی ہے،اس مضمون کو کئی اساتذہ نے باندھاہے لیکن خمارؔ کے یہاں یہ مضمون جس تازہ کاری اور ندرت کے ساتھ نظم ہوا ہے وہ حدیث ِ دیگرے۔یہی وہ شاعرانہ وصف ہے جو خمارؔ کو منتہائے خصوص تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
حضرت ِ جوش کی زمین ’’سوز ِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا‘‘ میں خمارؔ کی غزل بھی بڑی روانی رکھتی ہے۔اور مندرج شعر میں مصرع ثانی ’مجھ کو خود اپنی تمناوئوں نے برباد کیا‘ بے ساختہ اور بولتا ہوا مصرع ہے۔ایسے مصارع شاعر کے قلب میں اتارے جاتے ہیں،جسے اصطلاحاً آمد سے معنون کیا جاتا ہے۔
میرے آبائی وطن کارنجہ لاڈ کے ایک کل ہند مشاعرے میں حضرت ِ خمارؔ تشریف لائے تھے۔وہاں خمارؔ نے شعر پڑھا۔
الفاظ میں نہ ڈھونڈ مری بے قراریاں
ظالم! زباں نہیں مرا دل بے قرار ہے
اب جو میں ’شب تاب‘ دیکھتا ہوںتو اس شعر کا مصرع ثانی کچھ تبدیلی کے ساتھ شائع ہوا ہے۔خدا جانے کیا معاملہ رہا ہو لیکن دوسرے مصرع سے اگر لفظ ’’ظالم‘‘ نکال دیا جائے تو بیان کا زور یکسر ختم ہوجاتا ہے۔
اردو زبان کی چاشنی اور استادانہ مہارت کے یہ نمونے بھی ملاحظہ فرمائیں،
نازاں تھے ضبط ِ غم پہ بہت حضرتِ خمارؔ
رو رو دیے جو پیار کے دن یاد آگئے
آپ نے دن بنا دیا تھا جسے
زندگی بھر وہ رات یاد آئی
اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے
وہ آبھی جائیں تو آئے نہ اعتبار مجھے
جشن ِ سجود پائے صنم پہ منایئے
یہ کفر ہے تو کفر پہ ایمان لایئے
سنا ہے ہمیں وہ بھلانے لگے ہیں
تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں
پایا انہیں تو ہجر کے صدمے رلا گئے
منزل ملی تو راہ کے غم یاد آگئے
عاشقی بقید ِ شوق،کفر ہے عاشقی نہیں
اس کی خوشی پہ جان دے،تیری خوشی خوشی نہیں
افشائے راز ِ عشق کا خطرہ نہیں رہا
دھمکی میں رازداروں کے آنے کے دن گئے
مندرجہ بالا اول شعر میں ’رو رو دیے‘ محاورہ سیدھے دل میں اتر جاتا ہے۔شاعر جس کرب اور جس جذبے کو قاری تک پہنچاچاہتا ہے اس عمل میں سر بہ سر کامیاب نظر آتا ہے۔دوسرے شعر کا مضمون ہر چند کہ بری طرح پامال ہے تاہم حضرت ِ خمارؔکی مشاقی اور خدا داد تخلیقیت کا کیا کہنا کہ کمال درجے کی تازہ کاری کے ساتھ ایک پامال موضوع کو بھی نئے انداز میں نظم کردیا۔تیسرے شعر میں بھی بلا کی روانی ہے۔عاشق کی وارفتگی کا ذکر اس سے اچھا اور کیا ہو سکتاہے۔اسی مضمون کو مرحوم خلیل فرحت ؔکارنجوی والد ِ بزرگ وار نے یوں باندھا تھا ؎
دل سے مرے تنہائی کی شدت نہیں جاتی
اب تو بھی چلا آئے تو وحشت نہیں جاتی
چوتھے شعر کا مصرع ’یہ کفر ہے تو کفر پہ ایمان لایئے‘،،،اے ہے! کیا غنائیت ہے،مصرع اس درجہ شگفتہ ہے کہ از خود نغمگی پیدا کرلے۔کچھ اسی نہج کے مصارع اور اشعار خمارؔ کی مقبولیت کا سر چشمہ رہے ہیں۔شبلی نعمانی اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’موازنہ انیس و دبیر‘‘ میں فرماتے ہیں کہ :
’’ترکیب ِ الفاظ کے لحاظ سے شعر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ کلام کے اجزا کی جو اصلی ترتیب ہے وہ بحال ِ خود قایم رہے ۔نظم کا درحقیقت سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ اگر اس کو نثر کرنا چاہیںتو نہ ہو سکے۔اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب شعر میں الفاظ کی وہی ترتیب قایم رہے جو نثر میں معمولاً ہوا کرتی ہے‘‘۔ اب آپ مولانا شبلی کی رائے کو سامنے رکھیے اور غور کیجیے کہ واقعی خمارؔ اس کسوٹی پر بھی کھرے اترتے ہیں۔
خمار کی عشقیہ شاعری پڑھتے وقت یہ بات بھی میں نے محسوس کی ہے کہ خمارؔ کے یہاں پھوہڑ پن نہیں ہے۔وہ فکر کرتے ہیں اور خوب کرتے ہیں نیز اپنے خیال کو خوبصورت سانچے میں ڈھالنے پر بھی قادر نظر آتے ہیں۔بلاغت ِ کلام کے لیے صرف یہی ضروری نہیں کہ بہت سنگین اور ادق فلسفیاتی مضامین نظم کیے جائیں۔بلکہ اس کا انحصار طرز ِ فکر اور اسلوب ِ بیان پر ہوتا ہے،پھر چاہے کوئی مضمون رقم کرلیں۔خمارؔ کے ہم عصروں میں بعضے شعراء کے یہاں عشق کے نام پر محض پھوہڑ پن رقم ہو گیا ہے۔چاہے وہ ارباب ِ ذوق ہوں،رومانیت والے ہوں یا ترقی پسند۔عشق اور وارداتِ عشق کانظم ہونا اس قدر آسان نہیں جتنا محسوس ہوتا ہے۔اسی فریب میں لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیںاور پھر سوائے الہڑ پن کوئی دوسرا نتیجہ ان کی شاعری سے اخذ کرنا مشکل ہوجاتا ہے جس کی ایک مثال اختر شیرانی ہیں۔سلمہ سے دل لگا کر،،،،جہاں ریحانہ رہتی تھی،،وغیرہ وغیرہ۔
یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ خمارؔ کی شاعری رکاکت یا فحاشت سے یکسر پاک ہے۔انھوں نے مضامین کے نظم کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیاہے کہ کہیں ذم کا پہلو نہ نکل آئے یا کہیں ذو معنویت نہ ظاہر ہو۔
خمارؔ کی شاعری میں عاشق ناکام ضرور ہے لیکن صرف بازی سے۔حوصلہ و عزم تو اب بھی اس کے پاس ہے جس سے وہ ہمیں زندہ رہنے اور عشق کرنے کا فن سکھاتا ہے۔اب ظاہر ہے کہ محبت ہی زندگی ہے بقول خلیل فرحت ؔمرحوم ؎
محبت وجہ ء تخلیق ِ جہاں ہے
محبت زینت ِ کون مکاں ہے
اس لحاظ سے غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بلواسطہ خمارؔ ہمیں زیست کرنے کا ہنر سکھاتے ہیں۔وہ ہمیں ہماری ہر شکست پر حوصلہ بخشتے ہیں،اور یہی وہ جذبہ ء ہمدردی ہے جو دیر تک قاری کو باندھے رکھتا ہے۔خمارؔکی شاعری سمجھنے کے لیے قاری کو دور کی کوڑی نہیں لانی پڑتی۔ان کا ہر شعر سیدھے سیدھے دل میں اتر جاتا ہے۔بغیر ذہنی مشقت کے خمارؔ ترسیل سر انجام دیتے ہیں۔بہت سیدھے سادھے اور بالکل سامنے کے موضوعات کو خمارؔ نے ہاتھ لگایا ہے۔جس کی ایک وجہ شاید یہ بھی رہی ہو کہ خمارؔ کا ذریعہ معاش مشاعرے ہی ہوا کرتے تھے اور گزشتہ پچاس برسوں میں ہر ذی فہم یہ بات جانتا ہے کہ مشاعروں میں تصوف کے ادق اور پیچیدہ رموز،انسانی شخصیات کے گہرے فلسفیانہ مضامین والی شاعری سے شاعر بہت لمباسفر طے نہیں کر سکتا۔شاید اسی لیے خمارؔ نے ایسے سخت مضامین کو نہ چھونے میں ہی بہتری سمجھی ہو۔بقول جگرؔ،
لطف کچھ دامن بچا کر ہی گزر جانے میں ہے
لیکن باوجود اس کے،خمارؔ کی عوامی شاعری یا پھر مشاعراتی شاعری عامیانہ نہیں ہے۔ان کی مشاعروں والی شاعری میں بھی فکر کا عنصر پایا جاتا ہے۔نیاز فتح پوری نے لکھا ہے کہ ’’میں کسی شاعر کے کلام پر گفتگو کرنے سے قبل یہ دیکھتا ہوں کہ وہ فطرت کی جانب سے شاعر بنا کر بھیجا گیا ہے یا وہ اپنے آپ کو شاعر کی حیثیت سے پیش کرنے میں فطرت سے جنگ کررہا ہے‘‘(نگارلکھنو،بہادر شاہ ظفرؔ نمبر،ظفر ؔکی شاعری از مدیر ،جنوری۱۹۳۰ صفحہ نمبر ۳ )اس ضمن میں بلا خوف ِ تردد یہ عرض کرتا ہوں کہ خمارؔ فطرت کی جانب سے شاعر بنا کر اتارے گئے تھے۔ان کی شاعری میں غضب کی تخلیقیت اسی بات کا اشارہ کرتی ہے۔
خمارؔ کا شمار ان حساس ترین شاعروں میں کیا جانا چاہیے جنہیںخوشی کی بجائے غم عزیز ہو۔جو عارضی مسکرانے پہ مستقل اداسی کو مقدم جانتے ہوں۔جن کے نزدیک غم ِ دلبراں بھی نعمت ِ عظمیٰ سے کسی طور کم نہ ہو۔لیکن اور شاعروں کی طرح (بشمول فانیؔ)خمارؔ کسی صورت یاسیت یا قنوطیت کے شکار نہیں ہیں۔ان کے یہاں غم ِ دلبر بھی غم ِ آفاق کی مانند توانا اور صحت مند نظر آتا ہے۔وہ اپنی شکستگی بخوشی و مردانہ وار قبول کرتے ہیںنیز بڑے حوصلے اور امنگ کے ساتھ نبرد آزما ہوتے ہیں۔وہ غم ِ آفاق کو غم ِ عاشقاں بنا کر رسوا کرنے کے قائل نہیں بلکہ غم ِ عاشقاں اور غم ِ حیات کو غم ِ آفاق میں ڈھال کر اس کا وقار بڑھانے میں ماہر ہیں۔ان کی خود داری ِ طبع کسی نا مرادی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔خود ارشاد فرماتے ہیں کہ ؎
عشق ہے تشنگی کا نام،توڑ دے گر ملے بھی جام
شدت ِ تشنگی نہ دیکھ،لذت ِ تشنگی سمجھ
عشق عاشقی کے بعد خمارؔ نے جن موضوعات کو (گاہے گاہے ہی سہی)ہاتھ لگایا ہے ان میں حضرت ِ ناصح اور ان کے ساتھ شوخی،دوست نما دشمن یا دشمن نما دوست قابل ِ ذکر ہیں۔لیکن ان موضوعات کا تناسب ایک غزل میں ایک آدھ شعر تک ہی محدود ہے۔
کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آگیا
دل سلگتا رہا آشیانے کے بعد
آگ ٹھنڈی ہوئی اک زمانے کے بعد
موت آئے تو دن پھریں شاید
زندگی نے تو مار ڈالا ہے
انسان جیتے جی کرے توبہ خطائوں سے
مجبوریوں نے کتنے فرشتے بنائے ہیں
مسکرانا کسے عزیز نہیں
ڈرتے ہیں غم کے انتقام سے ہم
کبھی ہوا جو انھیں میرے درد کا احساس
مرا نصیب پکارا کہ دیکھتا ہوں میں
سبھی کچھ ہو رہا ہے اس ترقی کے زمانے میں
مگر یہ کیا غضب ہے آدمی انساں نہیں ہوتا
ننگ ِ چمن تھا میرا نشیمن ،سو لٹ گیا
اب واقعی بہار مکمل بہار ہے
کہاں ہے برق مرے گلشن ِ تصور میں
بعینہ وہی سج دھج ہے آشیانے کی
نظر میں ہے جلتے مکانوں کا منظر
چمکتے ہیں جگنو تو دل کانپتا ہے
حقائق ِ زیست اور تلخ تجربات کو بھی حضرت ِ خمارؔنے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ نظم کیاہے۔میرا عقیدہ ہے کہ کسی فرد کی شکست ِ ظاہری اس وقت تک تکمیل کو نہ پہنچے گی جب تک وہ اپنے حوصلے سے نہ ہار جائے۔اس موضوع پر بھی خمار سے بالکل نئے مضمون رقم ہوگئے ہیں۔
انسان جیتے جی کرے توبہ خطائوں سے
مجبوریوں نے کتنے فرشتے بنائے ہیں
اس شعر کی جس قدر تعریف کی جائے سو وہ کم۔ایک آفاقی صداقت کس خوبصورتی اور سلاست کے ساتھ خمار نے نظم کر لی ہے۔انسانی شخصیت کے اس پہلو پر ماہر ِ نفسیات نے کئی کئی کتابیںلکھ رکھی ہیں لیکن ایسی ترسیل تو شاید ان کے بھی نصیب میں نہیں۔یہ شعر خمار کے ان شعروں میں سے ایک ہے جس پر طبیعت جھوم جھوم اٹھے۔مصرع اولیٰ کا دعویٰ اور ثانی کی دلیل نے شعر کو سرمہء دنبالہ دار بنا دیا ہے۔کوئی غیر شاعر محض اس جیسا ایک شعر کہہ لے تو میں اسے شاعر تسلیم کرلوں۔ـ’میرا نصیب پکارا کہ دیکھتا ہوں میں‘ میں بیان کا زور شعر کو عرش ِ بریں تک لے گیا ہے۔’’دیکھنا‘‘ کو کس قدر درست اور موزوں محل پر استعمال کیا گیا ہے اور اس ایک لفظ نے بعینہ شعر کو وہ تیور عطا کیے ہیں کہ حضرت ِ جوشؔ یاد آگئے۔۔فرداً تمام اشعار پر تنقید طوالت کے خوف سے روکی جاتی ہے۔
عشق وحقائق ِ زیست کے بعدخمارؔ کے یہاں تیسرا اہم موضوع دوست ہے۔اس سلسلے کے اشعار ملاحظہ کریں۔
غم تو ہے عین زندگی لیکن
غمگساروں نے مار ڈالا ہے
غم جان بھی لے لے تو گوارا ہمیں لیکن
غمخواروں کے احسان سے اللہ بچائے
دشمنوں سے پیار ہوتا جائیگا
دوستوں کو آزماتے جایئے
دوستوں کی جو یاد آتی ہے
دوستی کانپ کانپ جاتی ہے
الٰہی مرے دوست ہوں خیریت
یہ کیوں گھر میں پتھر نہیں آرہے ہیں
یاد کرنے پہ بھی دوست آئیں نہ یاد
دوستوں کے کرم یاد آتے رہے
تیسرا شعر’’دشمنوں سے پیار ہوتا جائیگا‘‘،دوستی کی اس سے اچھی وضاحت اور کیا ہو سکتی ہے۔کوئی عجب نہ ہوگا کہ زخم خوردگان ِ رفیق ایسے شعروں پہ جھوم اٹھیں۔آپ بیتی کو جگ بیتی اور جگ بیتی کو آپ بیتی بناتے وقت کئی ایک حضرات غوطہ کھا جاتے ہیں۔اس معاملے میں دامن ِ فن بچاتے بچاتے قدم اٹھانے پڑتے ہیں اور بہت کم شعرا اس فن میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔وگرنہ اظہار ِ مافی الضمیر تو کوئی مشکل کام نہیں۔بلا شبہ اردو غزل کے اولین جدید شاعر ابوالمعانی میرزا یگانہ چنگیزی (میرے معنوی استاد)اس فن میں صد فیصد کامیاب ہوئے ہیں اور اب جب ذکر ِخمارؔچل رہا ہے تو مجھے عرض کرنے دیجیے کہ آپ بیتی کو جگ بیتی اور جگ بیتی کو آپ بیتی کر لینے میں خمارؔ بڑی حد تک کامیاب ہیں۔شاعر جتنے اشعار تخلیق کرتا ہے ،کوئی ضروری نہیں کہ ان میں درج بیانات یا واقعات خود شاعر سے ہو گزرے ہوں۔بعض مرتبہ خود بیتی ہوتی ہے اور بعضے جگ بیتی۔ان دونوں کا باہمی امتزاج ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔خمارؔ کے یہاں دوست نما دشمن سے متعلقہ جتنے اشعار ہیں وہ اس کلیے پر پورے اترتے ہیں۔
اس کے بعد خمارؔ کے یہاں زہد و ورع و پندسے علاقہ رکھتی ہوئی چھیڑ خانی دیکھنے کو ملتی ہے،لیکن لطف کی بات تو یہ ہے کہ یہ شوخی کبھی سنجیدگی میں نہیں بدلتی۔ملاحظہ فرمائیں۔
محبت کو سمجھنا ہے تو زاہد خود محبت کر
کنارے سے کبھی اندازہ ء طوفاں نہیں ہوتا
تیری باتوں کو میں نے اے واعظ
احتراماً ہنسی میں ٹالا ہے
سمجھاتے قبل ِ عشق تو ممکن تھا بنتی بات
ناصح غریب اب ہمیں سمجھانے آئے ہیں
تم جیسے ہی بندوں کے دم سے،دوزخ ہے یہ پر رونق دنیا
مے خانے سلامت اے واعظ،جنت کے تمہیں حقدار سہی
اول شعر کا پہلا مصرع کس قدر بولتا ہوامصرع ہے۔اور ایک پامال موضوع خمارؔ کے یہاں تازگی کے ساتھ در آیا ہے۔اسی مضمون کو میرزا یگانہؔ نے باندھا اور قلم توڑ کر رکھ دی کہ اب اس کے بعد اس سے اچھا اور کہیں نہ ہوگا۔فرماتے ہیں،
جیسے دوزخ کی ہوا کھا کے ابھی آیا ہو
کس قدر واعظ ِ مکار ڈراتا ہے مجھے
دوسرے شعر میں لفظ’’احتراماً‘‘ نے شعر کو دو آتشہ کردیا ہے۔اس ایک لفظ میں کتنے طوفان چھپے بیٹھے ہیں جو ہنسی میں ٹل جانے کی بناء پر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔خمارؔ کی بذلہ سنجی اور شوخی ِ طبع کا جواب نہیں۔
اب اس کے بعد ایک اہم اور آخری موضوع کائنات ِ انگبیں ہے جسے ہم رندی سے جانتے ہیں۔
گزرے ہیں مے کدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دور عادتاً بھی قدم لڑکھڑائے ہیں
جام بہ دست و مے بہ جام،یوں ہی گزار صبح و شام
زیست کی تلخی ِ مدام کو،پی کے پلا کے بھول جا
قابل ِغور بات یہ ہے کہ رندی اور خمارؔ جزو ِلاینفک ہیں لیکن باوجود اس کے خمارؔ کے یہاں یہ موضوع کچھ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔کہیں کہیں بر سبیل ِ تذکرہ آجائے تو آجائے۔بمقابلہ ء جگر،خمارؔ نے رندی کو اپنی شاعری پر حاوی نہیں ہونے دیا۔وہ جانتے تھے ، گو کہ شراب کا سرور جلد نہیں اترتا تاہم شراب کے موضوعات اور منظر نامے بہت جلد دھندلے پڑجاتے ہیں۔ان کی مقبولیت عارضی ہوتی ہے۔وگرنہ کیا وجہ ہے کہ ریاض خیر آبادی جیسا بلند فکر شاعر محض خرابات کی وجہ سے فراموش کر دیا گیا۔عدم لاہوری کے مجموعے ’’خرابات‘‘ کو بھی نسیانی دیمک چاٹ گئی۔غرض کہ اس موضوع کو فارسی شاعری میں ہوتوہو،اردو شاعری میں دوام حاصل نہیں ہے۔تمدن کی بدلتی قدریں اسے بے کم و کاست قبول نہیں کر پاتیں۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ ایسے معاملات میں شعر محض شاعر کا ذاتی اظہار ہو کر رہ جاتا ہے۔ایسی فکر کو آفاقیت کا لمس نہیں ملتا۔بہر حال۔
مضمون کے خاتمے پر یہ آخری زمرہ بھی ملاحظہ کریں کہ ہر شاعر اپنے پیش روئوں سے کسی نہ کسی زاویے سے ضرور اثر قبول کرتا ہے۔شعوری لاشعوری،ہر دو حالت میں شاعر پر اپنے آفریدہ پیش رو کا پرتو ضرور دکھائی پڑتا ہے۔اپنی اس بات کی صراحت کے لیے خمارؔ کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں۔
میرزا غالب ؔ کا مشہور ِ زمانہ شعر ؎
عشرت ِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
یا پھر،
رنج سے خو گر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑی مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں
خمارؔ فرماتے ہیں ؎
رنج حد سے گزر کر خوشی بن گیا
ہوگئے پار ہم ڈوب جانے کے بعد
خمارؔ کے مصرع ثانی سے اثر لیتے ہوئے مرحوم خلیل فرحتؔ کارنجوی نے کہا تھا،
ڈوب جانا پار ہونے سے بھی ہے بہتر مگر
کون فرحتؔ کی سنے گا،ڈوب کر دیکھے گا کون
غالبؔ کا شہرہ ء آفاق شعر ؎
دل کو تھاما ہاتھ ان کا تھام کے
میرے دونوں ہاتھ نکلے کام کے
خمارؔ فرماتے ہیں،
ہاتھ ہٹتا نہیں ہے دل سے خمارؔ
ہم انھیں کس طرح سلام کریں
غالبـؔ کا خوبصورت شعر،
سفینہ جب کہ کنارے سے آ لگا غالبؔ
خدا سے کیا ستم و جور ِ ناخدا کہیے
خمارؔ نے کہا کہ،،
مر مر کے طے ہوا سفر ِ زندگی مگر
منزل جب آگئی ہے تو کیا یاد کیجیے
ابولاثر حفیظ جالندھری فرماتے ہیں ؎
منظور منظور اے اہل ِ دنیا
اللہ میرا باقی تمہارا
خمارؔ نے کہا کہ،
بخش دے یارب اہل ِ ہوس کو بہشت
مجھ کو کیا چاہیے تجھ کو پانے کے بعد
خمارؔ کے یہاں ایسے کئی مقامات ہیں جہاں اساتذہ کا اثر صاف دکھائی دیتا ہے لیکن طوالت کے زیر ِ خوف مندرجہ بالا اشعار پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ہر حساس آدمی کی طرح خمارؔ بھی انقلاب ِ زمانہ اور ستم ظریفی ِ حالات سے نبرد آزما ہوتے نظر آتے ہیں۔روح فرسا سانحات ہوں یا تباہ کن واقعات،خمارؔ یہاں بھی اپنے قلم کی بوقلمونی کا اظہار کرتے ہیں۔۔۱۹۴۷ کے شرمناک فساد سے متاثر ہو کر کہی گئی نظم اسی جذبے کی غماز ہے۔
ملاحظہ فرمائیں،
وقت نے انگڑائی لی ہے آجکل
چشم ِ شاعر میں نمی ہے آجکل
زندگی کا ذکر کیا اس دور میں
موت بھی سہمی ہوئی ہے آجکل
خمارؔاور مشاعرے،یہ عنوان ایک علیحدہ مقالہ کا متقاضی ہے لہٰذا فی الوقت اس پر بحث عبث ہوگی۔ہاں البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ خمارؔ کا ترنم بے حد پختہ تھا۔اور محض ایک یا دو ترنم پر ہی پڑھا کرتے تھے۔اسی خاطر ایک یا دو ہی بحور میں زیادہ سے زیادہ غزلیں نظر آتی ہیں۔ہم اسے خمارؔ کی پیشہ ورانہ ضرورت سے معنون کرسکتے ہیں۔بہر کیف۔نیاز فتح پوری نے مولانا حسرت موہانی کے متعلق کہا تھا کہ ’’ان کی شاعری شباب کی شاعری تھی جو شباب ہی کے ساتھ رخصت ہوگئی‘‘ یا پھر دور ِ حاضر کے نقادوں کی ساحرؔ کے متعلق رائے کہ ساحرؔ کی شاعری ایک مخصوص عمر میں پڑھنے کی چیز ہے،لیکن اس کے بر عکس خمارؔ کی شاعری،دوامی شاعری ہے۔کہ جب تک عشق کا نام باقی رہیگا،خمارؔکی شاعری زندہ رہے گی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.