کرشن چندر کی افسانہ نگاری
ترقی پسند تحریک سے وابستہ حقیقت نگاروں میں کرشن چندر سب سے زیادہ مقبول اور سب سے زیادہ معتوب افسانہ نگار ہیں۔ چوں کہ ان کی تخلیقات کی تعداد بہت زیادہ ہے اور انھوں نے تکنیک کے بے شمار تجربے کیے ہیں، اس لیے انھیں خالص حقیقت نگار تسلیم کرتے ہوئے ان کے فن پر بھرپور گفتگو کرنا یا کسی ایک تکنیک کی نشاندہی کرنا، ناقدین کے لیے نہایت مشکل امر ہے۔
زیادہ لکھنے والوں کی یہ ٹریجڈی ہوتی ہے کہ بعض اوقات ان کے معرکۃ الآرا فن پارے بھی نسبتاً کمزور تحریروں کی بھیڑ میں گم ہو جاتے ہیں اوران کی فنی صلاحیتوں سے متعلق کوئی واضح اور حتمی رائے قائم نہیں ہو پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بعض اہم ناقدین نے کرشن چندر کو فنی نقطۂ نظر سے کمزور افسانہ نگار ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ خاص طور پر کردار نگاری کے سلسلے میں کرشن چندر کی ناکامیوں کا اکثر ذکر ہوا ہے۔ وارث علوی فر ماتے ہیں،
’’کرشن چندر اپنے افسانوں میں کردار نگاری نہیں کرتے، کرداروں کا طنزیہ، مزاحیہ یا جذباتی Bio-Data دیتے ہیں، جو صحافتی طریقۂ کار ہے۔‘‘ (اردو افسانہ روایت اور مسائل، ص:322)
صرف کردار نگاری کے متعلق ہی نہیں بلکہ واقعہ نگاری اور پلاٹ جیسے عناصر پر بھی وارث علوی کی یہی رائے ہے۔ اقتباس،
’’کرشن چندر کا آرٹ بنیادی طورپر تاثراتی آرٹ ہے۔ کردارنگاری، پلاٹ، واقعہ نگاری ان کے بس کا روگ نہیں۔‘‘ (اردو افسانہ روایت اور مسائل، ص:354)
دراصل کرشن چندر کے تخلیقی ذہن نے کردار نگاری، پلاٹ کی تشکیل اور واقعہ نویسی میں حقیقت نگاری کے روایتی اصولوں سے انحراف کیا ہے۔ لہٰذا اگر ہم ان کی تخلیقات کے فنی عناصر کو حقیقت نگاری کے پرانے پیمانوں سے ناپیں گے تو یقیناً مایوسی ہوگی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ محض کردار نگاری ان کا مقصد نہیں ہوتا یا بقول وارث علوی وہ اپنے افسانوں میں کردار نگاری نہیں کرتے، کرشن چندر کے چند کردار اپنے خارجی و داخلی امتیازات کے سبب آج تک قارئین کے ذہن پر چھائے ہوئے ہیں۔ مثلاً ایک پس ماندہ طبقے کا نہایت مفلسی کی زندگی گذارنے والا کردار کالوؔ۔
اگر ہم اس کردار کا تجزیہ حقیقت نگاری کے مسلمہ اصولوں کے حصار سے باہر آکر کریں تو شاید ان کی تکنیک کو سمجھنے میں کسی حد تک کامیاب ہو سکیں۔ حالانکہ اس افسانے کا عنوان کالوؔ کے نام پر رکھا گیا ہے مگر اس میں موجود دوسرے کرداروں کی زندگی کے واقعات کو مصنف نے زیادہ اہمیت دی ہے اور ان کی زندگی پر ایسے زاویے سے روشنی ڈالی ہے کہ کالوؔ کے کردار کی تاریکی پوری طرح کینوس پر پھیل جاتی ہے۔
افسانے کاراوی خود افسانہ نگار ہے۔ شروع میں ہی قارئین پر ظاہر ہو جاتا ہے کہ ایک حساس فن کار یعنی پس ماندہ طبقے کا ہمدرد ایک ترقی پسند ادیب بھی کالوؔ کو، جس کی معاشی حالت بہت خراب ہے، مستقل نظر انداز کر رہا ہے اور اسے اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ اس کی بےکیف و بے رنگ زندگی پر کوئی افسانہ لکھا جائے۔ اپنے حوالے سے پورے سماج پر طنز کرنے کا یہ انداز انوکھا بھی ہے اور پراثر بھی۔ افسانے کا آغاز ان جملوں سے ہوتا ہے،
’’میں نے اس سے پہلے ہزار بار کالوؔ۔۔۔ کے بارے میں لکھنا چاہا ہے لیکن میرا قلم ہر بار یہ سوچ کر رک گیا کہ کالوؔ کے متعلق لکھا ہی کیا جا سکتا ہے۔ مختلف زاویوں سے میں نے اس کی زندگی کو دیکھنے پرکھنے، سمجھنے کی کوشش کی ہے لیکن کہیں وہ ٹیڑھی لکیر دکھائی نہیں دیتی جس سے ایک دلچسپ افسانہ مرتب ہو سکتا ہے۔‘‘
یہاں براہ راست کردار تخلیق کرنے کی بجائے اپنے تخلیقی عمل میں قارئین کو شریک کرنے کے اِ س طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کرشن چندر نے افسانے میں روایتی کردار نگاری کے عوض ایک نادر تکنیک کا تجربہ کیا ہے۔ افسانے کے کرداروں کے علاوہ نہ صرف یہ کہ افسانہ نگار خود ایک کردار بن جاتا ہے بلکہ قاری کو بھی افسانے کا ناگزیر کردار بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افسانہ نگار کبھی خود سے ہم کلام ہوتا ہے، کبھی اپنے کرداروں سے اور کبھی قارئین سے۔ دراصل افسانہ نگار تخلیقی عمل کے دوران جن مراحل سے گزر رہا ہے، ان میں قاری کو بھی شریک کرتا جا رہا ہے۔ اس تکنیک کے کامیاب تجربے کے اثرات قاری پر کچھ اس طرح مرتب ہو رہے ہیں کہ وہ تخلیقی عمل میں شامل ہوکر ایک تخلیق کار کا درجہ حاصل کر لیتا ہے اور اس طرح مصنف اپنا دکھ قاری کے دل میں منتقل کرکے اسے سماج کے لیے اپنی ذمے داری کا احساس دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
کرشن چندر اس افسانے میں مصوّری کی وہ تکنیک استعمال کرتے ہیں جس میں سادہ کینوس پر مختلف رنگ بکھیر کر درمیانی حصہ سفید چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہی سفید حصہ اصل آرٹ ہوتا ہے۔ افسانے میں کرشن چندر کالوؔ کی بجائے ان کرداروں کی زندگی کے مختلف واقعات بیان کرنے لگتے ہیں جن سے کالوؔ متعلق ہے اور جن کی معاشی حالت اس سے کچھ بہتر یا بہت بہتر ہے۔ لہٰذا وہ کبھی اسپتال کے کمپاؤنڈر خلجی، ریشماں، بیگماں، نوراں کے قصے یا نمبردار اور پٹواری کے لڑکوں کے عشق کی داستانیں بیان کرتے ہیں تو کبھی بختیار، اس کی بیوی اور بختیار کی ماں کے گھریلو مسائل، حتی کہ ساس بہو کے معمولی جھگڑے تک کا تذکرہ کرتے ہیں مگر کالوؔ محض ان کرداروں کا سایہ بن کرہی اسپتال کے اسٹیج پر نظر آتا ہے۔
کرشن چندر کا کمال یہ ہے کہ کالو کا دھندلا سایہ افسانے کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے قاری کے ذہن پر واضح خدّوخال کے ساتھ اس طرح حرکت و عمل میں مصروف نظر آتا ہے جیسے کرشن چندر نے شعوری طور پر قاری کے ذہن کو ایک اسٹیج اور کالو کو اس ڈرامے کا مرکزی کردار بناکر پیش کیا ہو۔
کرشن چندر نے بیشتر افسانوں میں انسانوں اور جانوروں کے علاوہ بے جان چیزوں کو بھی کردار بنایا ہے۔ اس نوع کے افسانوں میں ’’غالیچہ‘‘ اور ’’اور دو فرلانگ لمبی سڑک‘‘ ان کے مشہور افسانے ہیں۔ وہ ایک بےجان شے یعنی سڑک کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں،
’’اس کا رنگ کبھی نہیں بدلتا، اس کی ہیئت میں تبدیلی نہیں آتی۔ اس کی صورت میں روکھاپن بدستور موجود ہے۔ جیسے کہہ رہی ہو، مجھے کسی کی کیا پروا ہے؟‘‘ (دو فرلانگ لمبی سڑک)
آگے لکھتے ہیں،
’’یہ کیا سوچتی ہے؟ یا شاید سوچتی ہی نہیں، میرے سامنے ہی ان نو سالوں میں اس نے کیا کیا واقعات حادثے دیکھے۔ ہر روز ہر لمحہ کیا نئے تماشے نہیں دیکھتی؟ لیکن کسی نے اسے مسکراتے نہیں دیکھا، نہ روتے ہی۔‘‘
(دو فرلانگ لمبی سڑک)
اسی طرح جب کالوؔ مکئی کا بھٹا اپنے ہاتھوں سے بھونتا ہے تو وہ بھٹا ایک جیتا جاگتا کردار بن جاتا ہے اور کالوؔ سے اس کا گہرا تعلق اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس سماج میں ایک پس ماندہ طبقے کے بے حیثیت شخص کا رشتہ انسانوں کی بجائے محض جانوروں اور غیر جاندار چیزوں تک ہی محدود ہے۔ اس ضمن میں ایک اقتباس ملاحظہ ہو،
’’نہایت آہستہ آہستہ بڑے سکون سے، بڑی مشاقی سے وہ بھٹے کو ہرطرف سے دیکھ دیکھ کر بھونتا جیسے وہ برسوں سے اس بھٹے کو جانتا ہو۔ ایک دوست کی طرح وہ بھٹے سے باتیں کرتا۔ اتنی نرمی اور مہربانی اور شفقت سے وہ اس سے پیش آتا گویا وہ بھٹا اس کا رشتے دار یا سگا بھائی ہو۔۔۔ میرے خیال میں خود بھٹے کو یہ اندازہ ہو جاتا تھا کہ کالوؔ۔۔۔ اس سے محبت کرتا ہے، ورنہ محبت کے بغیر اس بےجان شے میں اتنی رعنائی کیسے پیدا ہو سکتی تھی۔‘‘
کرشن چندر پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد کی ترسیل اور پیغام کی تبلیغ کے لیے افسانے میں راست بیانیہ اور غیر ضروری وضاحت سے کام لے کر اشاروں کنایوں میں بات کہنے کے حسن کو مجروح کر دیتے ہیں، لیکن اگر ہم تھوڑا سا زاویہ بدل کر ان کے افسانوں پر نظر ڈالیں تو ان کی وضاحتیں بھی کسی ان کہی اور پوشیدہ بات کا اشارہ معلوم ہوں گی۔ مثلاً اس افسانے میں کئی مقامات پر یہ کہنے کی گنجائش نکل سکتی تھی کہ ’’کالوؔ کی حیثیت انسانوں کے سماج میں فقط ایک جانور جیسی تھی۔‘‘ لیکن اس Authorial Statement سے انھوں نے اجتناب کیا ہے اور چرند پرند سے کالو کی گہری دوستی دکھاکر یا بیوی تو کیا، اس کے لیے بیوی کا تصور بھی نہ ہونے کے سبب، بیوی کی انگلیوں کی بجائے گائے کی زبان سے سر سہلواکر، یہاں تک کہ بے جان چیز سے گفتگو کرواکر یعنی اسے جانوروں اور بےجان چیزوں سے Identify کرکے ان جیسا ہی بےحیثیت، بے وقعت، بےزبان اور بےجان Creature ثابت کرنے کا فنی حربہ استعمال کیا ہے۔
اس کے علاوہ جب جب اس کا انسانوں سے واسطہ پڑا ہے، تب تب انسانوں نے اس کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جو رویہ کام آنے والے پالتو جانوروں کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے۔ ایک موقع پر جب بختیار چپراسی کی ماں اپنی بہو سے ناراض ہوکر کہیں چلی جاتی ہے تو ہر ایک کے کام آنے والا کالوؔ بختیار کی مدد کے لیے گھنے جنگل میں ماں کو ڈھونڈنے اس کے ساتھ جاتا ہے اور اپنی جانب سے گہری وابستگی اور قریبی تعلق دکھاتے ہوئے کہتا ہے کہ،
’’میرا خیال ہے وہ نکر گئی ہوگی تمھارے ماموں کے پاس۔‘‘
ہوتا بھی یہی ہے۔ بختیار کی ماں انھیں نکر کے دو کوس اِدھر مل جاتی ہے۔ یعنی بختیار سے زیادہ کالو کو اندازہ ہے کہ بختیار کی ماں اس وقت کہاں گئی ہوگی۔ یہ واقعہ انسانوں کے ساتھ اس کے ذاتی اور گہرے تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مگر سماج کے دوسرے افراد اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، اس کا اندازہ اس منظر سے ہوتا ہے جب کالو اور بختیار بےہوش ماں کو باری باری گود میں اٹھاتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں : اقتباس،
’’اور جب وہ گھر واپس پہنچے تو بالکل اندھیرا ہو چکا تھا اور انھیں واپس آتے دیکھ کر بچے رونے لگے اور کالوؔ ایک طرف ہوکے کھڑا ہو گیا اور اپنا سر کھجانے لگا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ پھر اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور وہاں سے چلا آیا۔‘‘
وہی کالوؔ جو چند لمحے قبل بختیار کی ماں کو ڈھونڈنے جنگل جنگل مارا مارا پھرا تھا، جس نے گہری اپنائیت کے جذبے کا اظہار کیا تھا اور جو بختیار کی بے ہوش ماں کو اپنی گود میں اٹھاکر لایا تھا، اب ایک کونے میں تنہا کھڑا سر کھجا رہا ہے اور پھر چپکے سے وہاں سے باہر چلا جاتا ہے، گویا نسل آدم سے اس کا کوئی رشتہ ہی نہیں۔ یعنی موضوع کے لحاظ سے اس کہانی کا سب سے بڑا مسئلہ کالوؔ کے وجود، اس کے Existence کا مسئلہ ہے۔
کرشن چندر کی فن کاری یہ ہے کہ انھوں نے اس کا ایسانام رکھا ہے، جس سے اس کے مذہب کا اندازہ نہیں ہوتا۔ جب اس کے وجود کو انسان کا درجہ ہی نہیں دیا جا رہا ہے تو مذہب کیسا؟ البتہ لفظ کالوؔ اس کی زندگی کی سیاسی یعنی تاریکی کی طرف اشارہ ضرور کرتا ہے۔ اس سے قبل اچھوتوں پر لکھے گئے افسانوں میں Untouchability کے مسئلے کو ایک بڑے مسئلے کے طوپر پیش کیا جاتا تھا۔ حالانکہ اگر کسی شخص کے ساتھ چھوت چھات کا برتاؤ کیا جاتا ہے توک م ازکم یہ طے ہے کہ اس کے وجود کو تسلیم کیا جا رہا ہے، مگر کالو کا المیہ یہ ہے کہ اس کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا گیا اور سماج کے ہر طبقے نے اسے ناقابل اعتنا سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ اسی لیے کرشن چندر کالو سے ہم کلامی کے انداز میں، اس کی حالت سدھار نے کا تقاضا، سماج کے مختلف افراد اور مختلف طبقوں سے کرتے نظر آتے ہیں۔
کرشن چندر کے افسانوں کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے بیشتر افسانوں میں کوئی ایک مرکزی کردار نہیں ہوتا بلکہ افسانے کا ہر واقعہ فرد کی نہیں، افراد کی داستان بیان کرتا ہے۔ وہ اجتماعی صورت حال پر نظر انداز رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ کسی ایک کردار، ایک خاندان، ایک گروہ یا ایک طبقے کے تقریباً ایک جیسے لوگوں کی زندگی کے محض کسی ایک گوشے کو اجاگر نہیں کرتے۔ ہاں ان افسانوں میں اسٹیج کے طورپر تو کوئی ایک ہی مقام استعمال کیا جاتا ہے مگر اس پر عمل و حرکت کرنے والے کردار الگ الگ شخصیت، ذہنیت اور حیثیت کے مالک ہوتے ہیں، پھر ان کرداروں کی زندگی کے متضاد پہلوؤں پر اس طرح روشنی ڈالی جاتی ہے کہ مکمل معاشرے کے مختلف رنگوں کو ایک نظر میں دیکھا جا سکے۔
ان کا یہ طریقۂ کار کولاژ کی تکنیک سے بہت مماثلت رکھتا ہے اور قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ کرشن چندر زندگی کی تصویر کے اس رُخ کو دکھانا چاہتے ہیں جہاں کسی ایک کردار کی زندگی کے مختلف پہلو نظر آنے کی بجائے مختلف کرداروں کا کوئی ایک مشترک پہلو نمایاں ہو رہا ہو۔ اسی لیے وہ خارجی اور سامنے کی حقیقتوں کو بیان کرنے کی بجائے داخلی اور پوشیدہ حقیقتوں کو بیان کرتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال ’’مہالکشمی کا پل‘‘ ہے۔ مہالکشمی کا پل پر سوکھنے والی چھ ساڑیوں کے مختلف رنگوں کے حوالے سے مختلف کرداروں کی زندگی کے ایک ہی رنگ کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ رنگ جو کئی رنگوں کے امتزاج سے بنتے ہیں، ان میں کوئی نہ کوئی ایک رنگ مشترک ہوتا ہے۔ اسی اشتراک پر کرشن چندر کی نظر ٹھہرتی ہے اوروہ اسے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ الگ الگ افراد کی زندگی اجتماعی زندگی بن کر ایک ہی نظر میں دیکھی جا سکے۔ وہ قاری سے یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ بھی ایک نظر میں دیکھے اور ایک ہی نظر سے دیکھے۔
وہ افسانے جن میں ہیئت اور تکنیک کے کامیاب تجربے کیے گئے ہیں، ان میں ’’غالیچہ‘‘ بھی ایک قابل ذکر افسانہ ہے۔ اس افسانے میں غالیچے کو نہ صرف ایک کردار بناکر پیش کیا ہے بلکہ مہالکشمی کا پل کی مانند غالیچہ بھی ایک اسٹیج بن جاتا ہے، ایسا اسٹیج جو فنکار کے دل، ذہن، فلسفے اور فکر کی تمثیل بھی ہے، جہاں سے وہ آپ بیتی اور جگ بیتی سننے سنانے بلکہ دیکھنے دکھانے کا کام کر رہا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو ’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘، ’’گڑھا‘‘ اور ’’بالکونی‘‘ میں بھی کرشن چندر نے کسی مقام یا شے کو اسٹیج کی طرح استعمال کرکے مختلف کرداروں کی ایسی داستانیں بیان کی ہیں جو نقطۂ عروج پر پہنچ کر قاری کے منتشر تا ثرات کو وحدتِ تاثر میں تبدیل کر دیتی ہیں۔
بالکونی کو مصنف نے ایک ایسے اسٹیج کی شکل دی ہے، جہاں سے وہ اپنے عہد کے متعدد کرداروں کی زندگیوں پر مخصوص زاویے سے روشنی ڈالنا چاہتا ہے۔ اس اسٹیج پر،
’’بینکر بھی تھے اور تاجر بھی، ٹھیکے دار بھی تھے اور پانچ بچوں والی مائیں بھی، طالب علم بھی تھے اور طالبِ دیدار بھی۔ طرح طرح کے لوگ، مرہٹے، ایرانی، اینگلو انڈین، ڈوگرے، پنجابی، دہلوی، مختلف زبانیں، مختلف لباس، عجیب عجیب باتیں، انوکھے تبسم، نرالے قہقہے، کائنات کی ساری بوالعجبیاں اس بالکونی میں اکھٹی ہو گئی تھیں اور یہ سب عجیب لوگ غروب آفتاب کا منظر دیکھنا پسند کرتے تھے۔ یہ بڑے غیر رومانی لوگ تھے۔ ان کی زندگی کا نصب العین روپیہ تھا۔ لیکن یہ لوگ اکثر حالتوں میں دو ہزار میل چل کر گلمرگ کی شفق دیکھنے آتے تھے۔ مشینی دور میں ہر انسان روپیہ چاہتا ہے۔ سرمایہ داری نے اس کی زندگی کو تلخ، اس کے دل کو کمینہ، اس کی روح کو غلیظ بنا دیا ہے لیکن خوبصورتی کی حس ابھی مٹی نہیں۔ وہ انسان کی کائنات کے کسی گوشے میں کسی زخمی کبوتر کی طرح ابھی تک تڑپ رہی ہے، نہیں تو شفق دیکھنے کے لیے اس قدر بےقراری کیوں؟‘‘ (بالکونی)
اگر ہم اس بالکونی کو اور یہاں موجود افراد کو حقیقی معنوں میں تصور کریں گے تو مصنف کے عندیے تک پہنچنے میں مشکل ہوگی۔ دراصل یہ ایسی حقیقت نگاری ہے جہاں استعاراتی، تمثیلی اور علامتی اسلوب میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس نفسی نفسی کے دور میں بھی انسان کے لیے جمالیاتی حِس کی تسکین کے سامان تلاش کرنا ایک ناگزیر عمل ہے۔ اس افسانے میں کرشن چندر نے چند کرداروں کے حوالے سے ہندوستانی سماج کی صورتِ حال پیش کرنے کے لیے ایک خط کو وسیلہ بنایا ہے۔ وہ زندگی کے تجربات کو خط میں اس طرح درج کرتے ہیں گویا یہ خط کاغذ پر نہیں، براہِ راست قاری کے ذہن کے پردے پر لکھا جا رہا ہو۔ کرشن چندر کے بیشتر افسانوں کی طرح ’’بالکونی‘‘ میں بھی بیک وقت کئی قصے ایک ہی مقام پر رونما ہوتے ہیں اور مختلف کردار اپنی اپنی داستانیں بیان کرکے مرکزی قصے کی تعمیر و تشکیل کرتے ہیں۔ اس طرح ذیلی قصوں اور کرداروں کے بےشمار پہلو افسانے کے اختتام پر پہنچتے پہنچتے آپس میں یوں ضم ہو جاتے ہیں کہ ایک نیا پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے اور افسانہ قاری کے ذہن پر گہرا اور واحد تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
کرشن چندر نے ’’دو فرلانگ لمبی سڑک’’میں بھی سپاٹ بیانیہ اور روایتی حقیقت نگاری سے پرہیز کرتے ہوئے ’’دوفرلانگ لمبی سڑک‘‘ کو آج کی دنیا کا استعارہ بناکر پیش کیا ہے۔ سماج میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی عکاسی کرشن چندر نے اس افسانے میں ایک سڑک کے حوالے سے اشاراتی اور علامتی انداز میں نہایت فن کاری کے ساتھ کی ہے۔
الغرض کرشن چندر کا یہ انداز ان کے افسانوں کو اکہری حقیقت نگاری، روایتی کردار نگاری اور سطحی واقعہ نگاری کے افسانوں سے مختلف کرتا ہے بلکہ ایک نئے طرز کے پلاٹ کی تعمیر بھی ہوتی ہے۔ یہی اسلوب کرشن چندر کو اپنے ہم عصروں سے ممتاز و منفرد بناتا ہے اور وہ تکنیک کی سطح پر تجربے کرنے والے فن کاروں میں ایک اہم مقام حاصل کر لیتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.