کچھ ادب کے بارے میں
اس موضوع پر ہر زبان میں اس قدرلکھا جاچکا ہے کہ اب نئی بات کہنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے لیکن ادب کا تعلق انسان کی ذہنی اور جذباتی زندگی نیز داخلی اور خارجی کشمکش سے ہے۔ اس لیے ہر آدمی کو حق حاصل ہے کہ وہ اس موضوع پر آزادانہ سوچے اور نتائج اخذ کرکے ان کا اظہار کرے۔ نیز جس طرح زندگی کی پرپیچ گتھیوں کو سلجھانے اور اس کے نشیب و فراز کا جائزہ لینے میں ہر شخص اپنے مخصوص ذرائع استعمال کرسکتا ہے۔ اس طرح ادب کی تشریح اور تعبیر بھی ہر شخص اپنی مخصوص ذہنی افتاد کے مطابق کرسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسانی ذہن نے عالم گیر تعلقات و تجربات کے زیر اثر ہمہ گیر مسائل کے تدبر میں خاصی ہم آہنگی پیدا کرلی ہے۔ اندازِ فکر کے اس توازن اور یکسانیت کے نتیجے میں ہر نئی آواز بھی کسی پرانے ساز کی صدائے بازگشت معلوم ہوتی ہے۔ حلانکہ آواز کے زیر و بم اور سرتال میں فرق موجود ہوتا ہے صرف غور کی ضرورت ہے۔
ادب اور زندگی کا تعلق اب متفقہ اور مسلمہ حقیقت ہے۔ فن پارے کی تشکیل زندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبنے اور اس کی حقیقتوں اور دلآویزیوں میں منہمک ہونے سے بطور ردِّعمل کے ہوتی ہے۔ کچھ حالات یا واقعات فن کار پر شدید تاثر پیدا کرکے اسے ذہنی ہیجان میں مبتلا کردیتے ہیں۔ دردِ دل کا بیان اس کے اضطراب کاعلاج اور ذہنی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں قدرت نے فن کار کی تخلیقات کو اس کی داخلی کشمکش اور الجھن کاعلاج بنادیاہے۔ اور یوں تخلیق کالامتناہی سلسلہ جاری ہے۔
لیکن ادب پارہ صرف ادیب کے لاشعوری کیفیات کی نقش آرائی سے مخصوص نہیں۔ یہ ادب کا صرف ایک حصہ ہے۔ فرد صرف اپنے ذاتی تجربات ہی سے اثر پذیر نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کے تجربات بھی اسے عبرت اور نصیحت کا درس دیتے ہیں۔ یا حسد اور رشک میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ انسانی علم کچھ تو ذاتی مشاہدات پر مبنی ہوتا ہےاور کچھ گزشتہ واقعات کو پڑھ کر یا سن کر حاصل کیا جاتا ہے۔ ادراک کی یہ نوعیت ادب کی بیشتر اصناف مثلاً داستان، انشائیہ، ایپک اور ڈراما وغیرہ کو جنم دیتی ہے۔ اس صورت میں فن کار دوسروں کی زبانی اپنی قلبی کیفیت کا بیان کرتا ہے، یعنی اگر یہی کیفیت مجھ پر گزرتی تو میرا ردِّعمل کیا ہوتا؟
ادب اور سماج کی مشترکہ قدر زبان ہے۔ کوئی ادیب زبان پر پورے قابو کے بغیر اظہار و ابلاغ کے مراحل سے بخوبی عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ الفاظ اور معانی کے ارتباط کی بحث اب پرانی ہوچکی ہے۔ مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خیالات کو موزوں الفاظ کے قابل میں ڈھالنا اب بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ہمارے قدیم علمائے انتقاد الفاظ کو معانی سے علیحدہ وجود دے کر سمجھتے تھے۔
حروف کے ربط سے جو اشکال الفاظ کا وجود پاتی ہیں وہ خودبعض آوازوں کی علامت ہیں۔ اور اس طرح وہ آوازیں مخصوص خیالات کی علامت ہیں۔ یہ آوازیں عالم اور جاہل دونوں ہی استعمال کرتے ہیں۔ مگر ایک کا ذخیرہ الفاظ کم اور دوسرے کا زیادہ ہوتا ہے۔ ایک اپنے خیالات اور جذبات کے ہر پہلو کو صرف ایک لفظ میں سمودیتا ہے اور دوسرا اپنے جذبات کو الفاظ کاجامہ پہنانے سے قاصر رہتا ہے۔ بلکہ ہم اور آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک کے تجربات اور مشاہدات کا ذخیرہ جتنا کم ہے۔اس کے جذبات اور تخیلات بھی اسی قدر سادہ ہیں۔ دوسرے کے تجربات اور مشاہدات کا ذخیرہ جتنا متنوع اور پیچیدہ ہے۔ اس کے جذبات اور تخیل کی حدود بھی اسی قدر وسیع اور رنگارنگ ہیں۔ ظاہر ہے کہ دونوں ایک قسم کی زبان استعمال نہیں کرپائیں گے۔ اور نہ ہی ان کے لیے یہ ضروری ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آرائش کلام کی غایت تخلیق سے محبت ہے یا جذبات کا تنوع۔ دونوں صورتوں میں جمال کا دخل ہونے کی وجہ سے دلکشی موجود ہوتی ہے۔ مگر ایک شاہد معنی کے پاؤں کا بوجھل زیور ہے اور دوسرا اظہار و ابلاغ کا ناگزیر ذریعہ۔ اس نکتہ کی مزید وضاحت کے لیے یوں کہا جاسکتا ہے کہ جب جذبہ پیچیدہ او رمتنوع ہوتا ہے تو فن کار کو مجاز کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اس طرح تخلیق نادانستہ طور پر پرتکلف اور آراستہ ہوجاتی ہے۔ لیکن جب محسنات کا استعمال صرف بطورِ آرائش ہو تو مقصدِ تخلیق پورا نہیں ہوتا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ادیب اور ادب پارے کی درجہ بندی اور معیار متعین ہوتےہیں۔ یعنی مقصد (کیا کہا) اور انداز (کیسے کہا) کی پرکھ ہوتی ہے۔ اس بحث سے یہ نتیجہ بھی نکلا کہ محض آرائش کے جرم میں کوئی کلام مردود نہیں ہوتا بلکہ دلکشی جہاں قدرتی ہو وہ خط اور نشاط کا موجب ہوتی ہے۔
اقدارِ حیات کی بنیادیں اخلاق پر استوار ہوتی ہیں۔ اس لیے زندگی اور ادب کی دوسری مشترک قدر اخلاق ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ ادب اور اخلاقیات کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ دنیائے ادب کے عظیم شاہکار نیکی اور بدی کی آویزش کی داستان ہیں۔ اس سے بلاشبہ بڑے بڑے اخلاقی اسباب اخذ ہوتے ہیں۔ ملٹن کی فردوسِ گم گشتہ ہو یا ٹالسٹائی کا ناول ’’رستخیز‘‘ فردوسی کا شاہنامہ ہو یا جامی کی زلیخا شیکسپیئر کا کنگ لیئر ہو یا دانتے کی ڈیوائن کامیڈی سب کا مشترکہ موضوع اعلیٰ اور سفلی اقدار کی کشمکش ہی ہے۔ نتائج کےلحاظ سے دیکھا جائے تو بالآخر نیکی بدی پر غالب آجاتی ہے۔ گویانیکی کے فروغ اور تمدن کے ارتقاء میں ادب نے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
ان امور کے باوجود یہ خیال گمراہ کن ہوگا کہ ادب صرف پندونصائح کا نام ہے۔ خشک واعِظ ادیب نہیں بن سکتا۔ ادب بنیادی طور پر تفریح کا ذریعہ ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.