Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کچھ فراق صاحب کے بارے میں

محمد حسن عسکری

کچھ فراق صاحب کے بارے میں

محمد حسن عسکری

MORE BYمحمد حسن عسکری

    فراق صاحب نے اپنی کسی غزل میں کہا ہے،

    ’’حقیقتوں کے خزانے لٹا دیے میں نے‘‘

    اس پر کسی صاحب نے اعتراض کیا کہ فراق صاحب ذرا بتائیں تو سہی کہ انہوں نے اپنی غزلوں میں کون سی حقیقتوں کے خزانے لٹائے ہیں۔ خیر، یہ بات تو بعد میں دیکھیں گے فراق صاحب نے کیا کیا ہے کیا نہیں۔ پہلے تو سوال یہ آتا ہے کہ شاعری سے ہم اس قسم کی توقع بھی رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔

    در اصل شاعری کے متعلق ہمارے یہاں عام لوگ جس طرح سوچتے ہیں اس پر انیسویں صدی کی انگریزی تنقید کا بڑا اثر پڑا ہے۔ اس کے ساتھ ترقی پسندوں کے نظریے اس بری طرح گڈمڈ ہو رہے ہیں کہ ہم لوگ شاعری پڑھنا ہی بھول گئے۔

    ہمیں یہ فکر نہیں ہوتی کہ شعر اچھا ہے یا برا۔ یا شعر ہوا بھی کہ نہیں۔ اس کے بجائے ہم شعرمیں کوئی ایسا خیال یا نظریہ حیات ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں جسے تحریری اندازمیں بیان کیا جا سکے۔ یعنی ہم شاعری کو فلسفے یا سیاست یا معاشیات کا نعم البدل سمجھتے ہیں۔ جس میں خوبی یہ ہے کہ جو بات فلسفی بھاری بھرکم طریقے سے کہے گا وہ شاعر ہلکے پھلکے لفظوں میں کہہ دیتا ہے اور وہ ذہنی محنت سے بچ جاتے ہیں۔ ہمارے شاعر اور ان کے پڑھنے والے دونوں کے دونوں یہ بھول چکے ہیں کہ شعر میں ایک بات ایسی بھی ہوتی ہے کہ جو نثر میں نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ اس خیال پرستی کے دورمیں اگر شعر کی جمالیاتی حقیقت پر زور دیا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔

    لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ شعر ایک جمالیاتی چیز سہی لیکن انسانی تجربے اور کائنات کی ماہیت کی تفتیش کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ یہ بات ذرا بلند بانگ معلوم ہوتی ہے اسے بھی چھوڑیئے۔ فرائڈ نے سیکڑوں مثالیں دے کر یہ بات واضح کر دی ہے کہ آپ ایک لفظ ایسا نہیں کہہ سکتے جو مہمل ہو اور جس کا تعلق بولنے والے کی ذات سے نہ ہو۔ تو شعر کامیاب ہو یا ناکامیاب اس کے ساتھ شاعر کی ذات معرض بحث میں ضرور آتی ہے۔ پھر آپ کوئی چھوٹے سے چھوٹا جملہ ایسا نہیں کہہ سکتے جس میں کوئی نہ کوئی فلسفہ نہ نکلتا ہو۔ یعنی ہم اپنی معمولی سے معمولی باتوں میں بھی انسانی زندگی اور کائنات کے متعلق کسی نہ کسی رویہ کا اظہار ضرور کرتے ہیں، چاہے اس کا دائرہ کتنا ہی تنگ کیوں نہ ہو۔

    چونکہ شعر میں بھی لفظ استعمال ہوتے ہیں لہذا شعر بھی اسی قسم کی ذاتی یا کائناتی معنویت سے خالی نہیں ہو سکتا۔ پھر چونکہ شعر میں جمالیاتی نظم کے علاوہ کسی نہ کسی قسم کا جذباتی یا فکری نظم بھی رونما ہوتا ہے، جس سے ایک اشارہ یہ نکلتا ہے کہ شاعر نے خود حقیقت میں بھی کسی نہ کسی طرح کا نظم محسوس کیا ہے۔ اس لئے شعر میں غیر جمالیاتی معنویت عام گفتگو کی بہ نسبت زیادہ ہونی چاہئے، لہٰذا اگر ہم شعر میں کسی طرح کی حقیقت یا صداقت ڈھونڈیں تو یہ بھی شعر کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ کسی شعر کی عظمت کا فیصلہ محض شعری یا جمالیاتی اقدار کے اندر رہ کے ہوتا ہے۔ شعر میں حقیقتوں کے خزانے تلاش کرنے سے پہلے ہمیں یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ شعر کی حیثیت سے یہ چیز کیسی ہے۔ اس کے بعد چاہے ہم اس شعر کی مدد سے شاعر کی نفسیات سمجھنے کی کوشش کریں چاہے کائنات کی ماہیت کے بار ےمیں چھان بین کریں۔

    فراق صاحب کے متعلق کچھ کہنے سے پہلے یہ تمہید اس لئے ضروری تھی کہ آپ میری باتوں سے کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ میں فراق صاحب کی شاعری کو سائنس کی حیثیت سے اہم خیال کرتا ہوں۔

    شاعری کو شاعری سمجھ کر پڑھنے کے بعد ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں ہمیں کس قسم کی حقیقت ملتی ہے۔ نفسیاتی، سماجی، فلسفیانہ حقیقتوں کے بارے میں تو خیر ادبی تنقید ہمیں روز ہی کچھ نہ کچھ بتاتی رہتی ہے۔ لیکن ادب میں ایک اور قسم کی حقیقت بھی ملتی ہے۔ کائنات کی بنیادی، مرکزی، بلکہ جوہری قوت کا احساس۔ اس قوت کے مختلف نام ہو سکتے ہیں۔ اطالوی فلسفی دیواتنے نے اسے وہ اصول بتایا ہے جو اپنے آپ سے اپنے آپ عمل کرتا ہے اورجسے حرکت میں آنے کے لئے کسی خارجی قوت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ دیواتنے نے پوری انگریزی شاعری کا تجزیہ اس حساب سے کیا ہے کہ اس اصول کا احساس کس شاعر میں کس حد تک ہے اور کس شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسی چیز کا دوسرا نام ’’اورگون‘‘ ہے جسے ماہر نفسیات ولہم رائخ نے دریافت کیا ہے۔

    جو قوت فلسفیوں کے یہاں محض ایک مفروضہ تھی اسے رائخ نے ایک علمی حقیقت بنا دیا ہے۔ جس کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ جس سے اسی طرح کا کام لیا جا سکتا ہے جیسے بجلی سے۔ یہ قوت پوری کائنات کا جوہر ہے اور ہرنامیاتی جسم میں موجود ہے۔ انسان کا جسم اور دماغ دونوں اس قوت کے تابع ہیں۔ یوں تو یہ قوت ہر آدمی کے جسم میں کسی نہ کسی مقدار یا شدت کے ساتھ لہریں لیتی رہتی ہے۔ لیکن اس کا احساس اور ادراک ہر آدمی کو حاصل نہیں ہوتا۔ رائخ کے خیال میں بیٹوون نے اس قوت کو موسیقی کی شکل میں محسوس کیا اور وان گوگ نے سبزرنگ کی صورت میں۔ اس قوت کے براہ راست اظہار کا ذریعہ الفاظ نہیں ہیں۔ ان کی حیثیت ثانوی ہے۔ اس کے باوجود آدمی کے الفاظ ہمیں بے کم و کاست اور نہایت سچائی کے ساتھ بتا دیتے ہیں کہ اس کا جسم اور دماغ اورگون کی قوت کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے۔ پوری طرح صحت مند جسم اور دماغ وہ ہے جس میں ’’اورگون‘‘ کی لہریں بغیر کسی رکاوٹ کے دوڑتی ہیں۔

    رائخ کی تحقیقات کو میرے خیال میں ابھی تک ادب اور فن کے مطالعے کے لئے استعمال نہیں کیا گیا۔ البتہ خود رائخ نے چلتے چلاتے دو چار اشارے ضرور کئے ہیں۔ رائخ کی کتاب پڑھتے ہوئے میں فراق صاحب کے بارے میں قطعا نہیں سوچ رہا تھا۔ لیکن رائخ کے نظریات سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے مجھے اپنے آپ سے اپنے آپ فراق صاحب کے شعر یاد آتے چلے گئے اورمجھے کچھ ایسا محسوس ہوا کہ اورگون کا جیسا ادراک فراق صاحب کو حاصل ہے، وہ کسی دوسرے اردو شاعر کو نصیب نہیں ہوا۔ حال یہ ہے کہ رائخ کے لئے ہر چھوٹے سے چھوٹے خیال کے مقابل آپ فراق صاحب کے دس پندرہ شعر لکھ سکتے ہیں۔ میں یہاں صرف دو چار مثالیں پیش کر سکوں گا۔

    ایک سیدھی سی بات تو فراق صاحب کے شعروں کی صوتی کیفیت ہی ہے۔ رائخ کے خیال میں ذہنی اور جسمانی طور پر پوری طرح صحت مند آدمی وہ ہے جو اپنا سانس حلق سے لے کر پیٹ تک محسوس کر سکے۔ جس آدمی کا سانس بیچ میں رک جاتا ہے اس کے اندر اورگون کی لہریں بھی آزادی کے ساتھ نہیں چل سکتیں اور اس کی شخصیت بھی مریضانہ ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ آدمی کی آواز اور بولنے کے طریقے سے اندازہ لگاتے ہیں کہ اس کا کردار کیا ہوگا۔ اب آپ فراق صاحب کا کلام پڑھ کے دیکھ لیجئے۔ ایسے شعر صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کا سانس گہرا ہو۔ اس بات کو محض لطیفہ نہ سمجھئے۔

    آج تک کسی اردو شاعر نے لمبی اور گہری۔۔۔ VOWEL SOUNDS)) اس تعداد میں اور اس طرح استعمال نہیں کی، جیسے فراق صاحب نے کی ہیں۔ ان کی آوازوں کا استعمال ہی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جسم کے اندر لہریں آگے بڑھ کر کائنات کی لہروں سے ملنا چاہتی ہیں۔

    یہاں سے دوسری بات نکلتی ہے۔ رائخ کے خیال میں عام آدمی اپنے آپ کو فضا میں بہنے والی اورگون کی لہروں سے بچاتے رہتے ہیں۔ لیکن صحت مند آدمی وہ ہے جو اپنے اندر کی لہروں کو کائناتی لہروں سے مل جانے دے۔ کمزور جسمانی اور ذہنی نظام کے آدمی کو جب یہ چیز پیش آجاتی ہے تو وہ پاگل ہو جاتا ہے یا اسے بھوت پریت نظر آنے لگتے ہیں یا وہ اپنے آپ کو دنیا کا بادشاہ سمجھنے لگتا ہے۔ لیکن تندرست آدمی ان لہروں کے ارتباط سے ایک نئی توانائی اور ایک نیا سرور حاصل کرتا ہے۔ فراق صاحب کے اشعار میں عاشق، محبوب اور کائنات کس طرح گھل مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔ یہ تو ایسی بات نہیں جو میں آپ کو یاد دلاؤں۔ بہرحال نمونہ کا ایک شعر پھر سے پڑھ لیجئے۔

    تارے بھی ہیں بیدار زمیں جاگ رہی ہے

    پچھلے کو بھی وہ آنکھ کہیں جاگ رہی ہے

    رائخ کے نزدیک اورگون کی قوت کا ایک اظہار زبردست تاریخی تحریکیں بھی ہیں۔ تندرست آدمی جس طرح کائنات سے اپنا رشتہ جوڑتا ہے اسی طرح بڑی سیاسی تحریکوں سے بھی اپنے آپ کو وابستہ کرتا ہے، جو آدمی سیاست سے متعلق کوئی رائے دینے سے گریز کرے وہ رائخ کے خیال میں ذہنی اور جسمانی مریض ہے۔ کچھ اسی قسم کی بات دیوانتے بھی ورڈز ورتھ کے بارے میں کہہ چکا ہے۔ دوسرے لوگ تو اسے شاعر فطرت یا انسانی ذہن کا شاعر ہی بتاتے ہیں، لیکن دیوانتے نے اسے تاریخ کا شاعر کہا ہے۔ کیونکہ ورڈز ورتھ نے انقلاب فرانس کی تحریک میں خدا کا جلوہ دیکھا۔

    فراق صاحب جس قسم کی سیاست سے دلچسپی رکھتے ہیں، میں ذاتی طور سے تو اپنے آپ کو اس سے وابستہ نہیں کر سکتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اگر فراق صاحب کسی نہ کسی عالمگیر سیاسی تحریک سے دلچسپی نہ رکھتے تو ان کا عشق ایسا نہ ہوتا۔ نہ وہ ایسی عشقیہ شاعری کر سکتے۔ کائناتی قوت کا فراق صاحب کو صرف احساس ہی نہیں بلکہ شعور بھی حاصل ہے۔ ’’حیات محض‘‘ کا فقرہ ان کے شعروں میں باربار آتا ہے اور وہ اسے زندگی کی ثانوی شکلوں سے بالکل الگ کر کے دیکھتے ہیں مثلاً۔

    دور حیات محض تھا اس کے حریم ناز میں

    کیف و اثر کا ذکرکیا زیست کا بھی نشاں نہ تھا

    یہاں ’’حیات محض‘‘ کے ساتھ ’’دور‘‘ کا لفظ بھی قابل غور ہے کیونکہ اورگون کی قوت ساکن نہیں رہتی بلکہ لہریں لیتی ہے۔

    اورگون کے مشاہدے اور مطالعے کے بعد رائخ نے جو نفسیاتی اصول وضع کئے ہیں، ان کی بھی بہت سی مثالیں فراق صاحب کے یہاں ملتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اصول انہوں نے اپنی شاعرانہ بصیرت کے ذریعے دریافت کئے ہیں۔ مثلا رائخ کہتا ہے کہ ہر آدمی اورگون کی قوت کو صرف ایک مخصوص مقدار تک برداشت کر سکتا ہے۔ اس کی زیادتی کو سہار لے جانا، ہر آدمی کے بس کا کام نہیں۔ مثال کے طور پر رائخ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ ایک صاحب کی بیوی جنسی طور سے بے حس تھی۔ انہوں نے بیوی کو علاج کے لئے رائخ کے پاس بھیجا۔ جب وہ ٹھیک ہوکے واپس گئی تو تیسرے چوتھے دن وہ پاگل خانے تشریف لے گئے۔ اب اس کے بعد فراق صاحب کا یہ شعر پڑھئے،

    کہاں ہر ایک سے بار نشاط اٹھا ہے

    بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی

    اس شعر کا ایک ایک لفظ شاعرانہ بھی ہے اور سائنٹیفک بھی۔ اورگون کی لہریں سرور یا نشاط ہی کی شکل میں محسوس ہوتی ہیں۔ اس قوت کی زیادتی، ٹھیٹ معنوں میں بعض لوگوں کے لئے بار بن جاتی ہے۔ آپ آلوں سے ناپ کے دیکھ سکتے ہیں کہ کون آدمی کتنی مقدار سہار سکتا ہے۔’’بلائیں‘‘ بھی محض استعارہ نہیں ہیں۔ جو لوگ اور گون کی شدت کو اپنے قابو میں نہیں رکھ سکتے، انہیں واقعی بھوت پریت نظر آنے لگتے ہیں، اور محبت بھی واقعی محض اصطلاحی لفظ ہے۔ فراق صاحب عام طور سے محبت کے ساتھ سپردگی کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی اورگون کی حرکت کا صحیح بیان ہے۔ عام طور سے لوگ اپنے اعصابی اور ذہنی نظام کو ’’بکتربند‘‘ رکھتے ہیں۔ نہ باہر کی لہروں کو اپنے اندر آنے دیتے ہیں نہ اندر کی لہروں کو باہرنکلنے دیتے ہیں۔

    محبت کی صلاحیت اسی آدمی میں ہوتی ہے جو اندر کی لہروں کو محبوب کے سپرد کر سکے، یا قوت کے ان دو دائروں کو آپس میں گھل مل جانے دے۔ فراق صاحب کے شاعرانہ الفاظ اصطلاحی اس وجہ سے بن گئے ہیں کہ جن لفظوں کو ہم استعارہ سمجھتے ہیں وہ رائخ کے نزدیک آدمی کے اندر قوت کی کیفیت کا بالکل صحیح بیان ہوتے ہیں۔ شاعر کے الفاظ ’’علمی‘‘ یوں بن جاتے ہیں کہ اسے اورگون کا ادراک اوروں کی بہ نسبت زیادہ حاصل ہوتا ہے۔اسی اصول کی بنیاد پر اردو شاعروں کا مطالعہ کر کے دیکھ لیجئے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہماری یہاں بکتر بند شخصیتیں کتنی ہیں اور آزاد شخصیت کس کس کی ہے اور کس حد تک۔

    اب ایک آخری مثال اور۔۔۔ فرائڈ کے نزدیک خود اذیتی اس طرح پیدا ہوتی ہے۔ آدمی کے اندر دو رجحانات ہوتے ہیں، ایک تو جنسیت، دوسرے موت کی خواہش۔ جب یہ دوسری چیز غالب آ جاتی ہے تو آدمی لذت کے بجائے اذیت ڈھونڈنے لگتا ہے۔ رائخ کے نزدیک موت کی خواہش کوئی چیز نہیں، نہ آدمی اذیت کی تلاش کرتا ہے۔ آدمی لذت یا نشاط ڈھونڈتا ہے۔ لیکن خارجی ماحول کے زیر اثر آدمی اس قابل ہی نہیں رہتا کہ نشاط حاصل کر سکے یا اس میں نشاط کو سہارنے کی صلاحیت نہیں رہتی۔ چنانچہ اذیت کی تلاش ہمیشہ لذت پرختم ہوتی ہے۔ خودکشی کے بھی یہی معنی ہیں۔ آدمی کو اس کے سوا لذت کے حصول کا اور کوئی طریقہ دکھائی نہیں دیتا۔ خود اذیتی کے صرف یہ معنی ہیں کہ آدمی لذت ڈھونڈتا ہے لیکن لذت کی تاب نہیں رکھتا۔ (یہ نظریہ پیش کرنے پرفرائڈ نے رائخ کو کمیونسٹ کہہ دیا تھا) اس تصریح کے بعد فراق صاحب کا یہ شعر پڑھ لیجئے۔

    تمہیں تو اہل ہوس امتحاں سے بھاگ چلے

    یہ کیا ضرور کہ ہوتی تو موت ہی ہوتی

    ’’اہل ہوس‘‘ کو آج تک کسی اردو شاعر نے اس طرح نہیں سمجھا۔ عام طور سے ہماری شاعری میں بوالہوس وہ ہے جو ہمیشہ لذت اور نشاط حاصل کرتا ہے۔ فراق صاحب نے کہا ہے کہ بوالہوس نشاط کی تاب ہی نہیں رکھتا۔ اسے ہر وقت پیاس لگتی ہے۔ مگر پانی پینے کے بجائے اسے مرنا قبول ہے۔ یہی کچھ رائخ نے بیان کیا ہے۔ خیر یہاں تو میں صرف دو چارمثالیں دے سکا ہوں۔ اگرخدا نے توفیق دی تو میں رائخ کے نظریات کی روشنی میں فراق صاحب کی شاعری کسی نہ کسی دن ضرور پیش کروں گا۔ بس مشکل یہ ہے کہ رائخ کے نظریات کا استعمال ابھی مغرب کی تنقید میں بھی نہیں شروع ہوا۔ بات یہ ہے کہ رائخ کے یہاں روحانیت کی سخت کمی ہے اور یہ چیز یونگ کے یہاں بڑی فراوانی سے موجود ہے۔اس لیے روحانیت زدہ ادبی نقاد ابھی تک یونگ میں الجھے پڑے ہیں۔ حالانکہ رائخ کے مقابلہ میں یونگ محض داستان گو معلوم ہوتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے