Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کچھ غزل کے بارے میں

عزیز الحق

کچھ غزل کے بارے میں

عزیز الحق

MORE BYعزیز الحق

    شاعری کا اپنا ایک مخصوص رنگ اور ڈھنگ ہوتا ہے۔ اس دعویٰ کو درست ماننے والوں کی آج بھی اسی قدر بہتات ہے جس قدر اقبالؔ اور میراجیؔ کے زمانوں میں تھی۔ شہرت بخاریؔ ہوں کہ سید سبطِ حسن، قیوم نظر ہوں کہ پروفیسر انجم رومانی، ناصر کاظمی ہوں کہ فیض صاحب، سبھی اس دعوےٰ کو کسی نہ کسی حدتک ضرور سچ سمجھتے ہیں۔ اور اس سچائی کا اظہار اصولاً اور عملاً کرتے رہتے ہیں۔ یہ دعویٰ بجائے خود شاید اس قدر قابل اعتراض نہ ہو لیکن جن سیاق و سباق میں اسے پیش کیا جاتا ہے اور جس انداز میں اسے قبول کیا جاتا ہے اس کے پیش نظر اس دعویٰ کی صحت کو چیلنج کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ذیل کی سطریں اسی ارادے کے تحت تحریر کی جارہی ہیں۔

    شاعری کااپنا ایک مخصوص رنگ اور ڈھنگ ہوتاہے۔ اس دعوے کو درست ماننے والوں سے اگر کوئی مجھ سا اکھڑ دماغ بحث کرنے لگے تو اسے جلد ہی اس حقیقت کا پتہ لگ جائے گا کہ یہ حضرات شاعری سے مراد غزل کی شاعری لیتے ہیں کہ ان حضرات کے ہاں شاعری ادب بلکہ حقیقت اور صداقت تک کوسمجھنے اور پرکھنے کی کسوٹی ہے، روایت اور اردو شاعری کی روایت کے محل میں ایک غزل ہی ہے جو ابھی تک تخت پہ ٹھسے سے بیٹھی نظر آتی ہے (کہ مسدس بیچاری کو مولانا حالی نے عرب کے ریگزا روں میں پیاسا مروادیا، قصید ے رائٹرگلڈ کے ایوانوں میں جابسے اور مثنوی کو انتظار حسین صاحب اپنی بیٹھک میں لے گئے)

    چنانچہ شاعری کے مخصوص رنگ اور ڈھنگ سے مراد محض غزل کامخصوص لب و لہجہ، انداز بیان، طرزادا، وغیرھم رہ گیا ہے۔ لہٰذا جہاں کوئی شعری صنف ایسی نظر آتی ہے کہ جو اپنی خصوصیات میں غزل سے لگانہ کھاتی ہو تو فوراًشور برپا ہوتا ہے کہ شاعری کا اپنا مخصوص انداز ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

    شاعری کا اپنا ایک مخصوص انداز ہے، یعنی غزل کا اپنا ایک مخصوص انداز ہے۔ یہ دوسری بات اپنی جگہ کافی حدتک درست ہے۔ غزل کاواقعی ایک مخصوص انداز ہے، جس کی روشنی میں اہل بصیرت نے لفظِ تغزل نکالا ہے۔ اور اسے شاعری کی شرط اولین قرار دیا ہے۔

    غزل کا یہ مخصوص رنگ جس کی مجرد شکل تغزل قرار پائی ہے کہا ں ہے؟ اس سوال کا جواب اگر ہم اساتذہ کی غزلوں کے توسط سے فراہم کرنے کی کوشش کریں تو دیکھیں گے کہ تغزل نام ہے سنگ دل محبوب کے بالمقابل اپنے مجروح جذبات واحساسات کے مخصوص انداز بیان کا۔

    روایتی غزلوں میں گنتی کے موضوعات ہیں۔ جن پر شاعر اپنے اپنے طور پر طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ ان موضوعات میں شاعر کا اپنے محبوب سے متعلق عشقیہ کیفیات کااظہار و بیان سب سے پیش پیش ہے۔ کم و بیش ۷۰، ۷۵ فی صد اشعار ہر استاد غزل کے ہاں انہیں عشقیہ کیفیتوں پر مبنی مل جائیں گے۔

    باقی میں سے ۱۰، ۱۵ فیصد شاعر اور خدا کے تعلق سے متعلق ہوں گے تو کوئی اتنے ہی مروجہ فلسفۂ تصوف کی مختلف (STATEMENTS) باقی ماندہ شاعر اپنے اردگرد کے سماجی ماحول کا خاکہ پیش کر رہا ہوگا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

    غزل کو ایک مخصوص رنگ دینے میں ویسے تو ۷۰، ۷۵ فی صد عشقیہ شعر ہی کافی ہیں۔ لیکن یہ رنگ اس حقیقت کے باعث اور بھی چوکھا ہوجاتاہے کہ اساتذہ حقیقتِ اولیٰ کو مجاز اعلیٰ ہی کی ارتقائی شکل جانتے تھے۔ لہٰذا خدا سے ہم کلام ہوتے ہوئے بھی ان کااندازِ سخن ویسا ہی ہوتا تھا جیسا کہ محبوب سے اس کی کم ظرفی پہ طعنے دیتے ہوئے۔ دونوں جہاں دے کے وہ سمجھا میں خوش ہوا* یاں آپڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ غزل کا مخصوص اندازِ بیان روایتی شعرا ءکے اس یونیورسل موضوع کا مرہون ہے کہ جسے حرفِ عام میں عاشقی معشوقی کہا جاتاہے۔

    غزل کا انداز بیان عاشق کا اندازِ سخن ہے کہ جو اپنے معشوق سے کبھی اس کے مسلسل جور و ستم کا شکوہ کرتا ہے۔ تو کبھی اپنی ’’انا‘‘ کو تسکین دینے کی خاطر اس سے قطعاً بے اعتنائی کااظہار کرتاہے۔ کبھی رقیبان روسیاہ کے تصور سے سیخ پا ہوجاتا ہے۔ تو کبھی وصل کی لذتوں کی سرشاری، مستی میں اپنے محبوب کے بالمقابل کسی اور کو خاطر میں نہیں لاتا۔

    اب اگر یہ بات درست ہے کہ غزل کااندازِ بیان عاشق کے انداز سخن ہی کا دوسرا نام ہے۔ تو یہ بات بھی درست ہوگی کہ شاعری میں عاشقی معشوقی کے غائب ہوجانے پر، یا عاشق کے انداز سخن کے بدلے جانے پر غزل کامخصوص یعنی روایتی انداز بیان شاعری سے مفقود ہوجائے گا۔ شاعری تغزل سے عاری ہوجائے گی۔ اور ان اصحاب کو کہ جو شعر اورتغزل میں چولی دامن کا ساتھ سمجھتے ہیں۔ شاعری شاعری نہیں بلکہ لفظوں کابے کار، بے کیف، بے ربط گورکھ دھندا دکھائی دینے لگے گی جس سے اگر کوئی اثر قبول کیا جاسکتا ہے تو محض اس شکل میں کہ تغزل نواز حضرات اپنے غم و غصے کے فروغ پاتے جذبات کو انتہائی غیرشاعرانہ شکل میں محفل والوں کے سروں پر دے ماریں۔ چنانچہ یہی ہواہے، یہی ہو رہاہے۔ او ریہی ہوگاکہ آج کا زمانہ کل کے دور سے الگ ہوگیا ہے۔

    کل کے دور میں نواب اور بادشاہ تھے، ان کے دربار تھے، ان درباروں میں عالموں فاضلوں کی ریل پیل تھی، محفلیں تھیں، مشاعرے تھے۔ شرفا تھے، شرفا کے طور طریقے تھے۔ حسن سلیقہ تھا، حسن بیان تھا، حسن طلب تھا۔ مرحبا مرحبا اور مکرر، مکرر تھا۔ بوئے گل تھی۔ چراغوں کا دھواں تھا۔ ہائے کیا زندگی تھی! اور آج کے دور میں حلقہ ارباب ذوق ہے۔ پاک ٹی ہاؤس، پبلشرز یونائیٹڈ ہے اور پرنٹنگ پریس ہے۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان ہے، دفتری انگریزی بولنے والے دس بیس شاعر کلرک ہیں۔ ان کی غلیظ زندگیاں ہیں۔ ان کے گندے بچے ہیں ان کے گندے انداز ہیں۔ ان کی گھٹیا زبان ہے۔ لعنت اس دور پر۔

    ہائے وائے کیجیے اس طرزِ حیات پر کہ جو دم توڑ گیا ہے۔ یا برا بھلا کہیے اس زندگی کو کہ جو آج کا مقدر ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بات ہونی تھی، ہوگئی ہو رہی ہے او رہوجائے گی۔ محض واویلا سے کچھ نہ ہوگا۔ اگر کچھ کرنا مقصود ہے تو ادب کو، ادبی تحریکات کو، حالات و واقعات سے تاریخ کے بہاؤ سے بدلتی ہوئی زندگی سے متعلق کرکے دیکھنا اور سمجھنا ہوگا کہ وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں ہوا کرتی۔

    آج کی زندگی کل کی زندگی سے اس قدر ہمہ گیر انداز میں الگ ہوچکی ہے، ہو رہی، ہوتی جارہی ہے کہ اس کے ایک ایک جزوی شعبے تک میں نئے اور پرانے کی تفریق عیاں ہے۔ اٹھنے بیٹھنے، گفتگو کرنے، لباس پہننے، گھروں میں چیزوں کی تزئین کرنے کے خارجی مظاہرسے لے کر بین الخلقی شقوں، تہذیبی اصولوں، عقیدوں، رسموں رواجوں، نفسیاتی سوچوں، جذبوں، فلسفیانہ کاوشوں اور مذہبی قدروں تک، ہر ہر حرکت پہلے کے اطوار و طرائق سے جدا ہے یا جدا ہوئی چاہتی ہے۔

    میرے بہنوئی علی گڑھ کی طالب علمی کے زمانے میں قرآن و سنت کی شدید پابندی کے باعث ان کے ساتھیوں کو مولوی نظر آتے تھے، لہٰذا ’’مول‘‘ کہلاتے ہیں۔ میری آپا بھی انہیں اسی نام سے پکارتی ہیں۔

    میرے بہنوئی، ان کے آفس کے ایک دو احباب، میں اور میری لیبارٹری کے ساتھی ورکرز ہم سب ایک صاحب سے میتھ پڑھتے ہیں اور وہ صاحب اکرام الحق کہلاتے ہیں۔ اور رشتے میں میرے چھوٹے بھائی ہیں۔ وہ عمر میں مجھ سے دوڈھائی برس چھوٹا ہے او رمیرے بہنوئی اور ان کے ساتھیوں سے ۱۵، ۱۲ برس، کلاس میں اس کی بات قبول تو کی ہی جاتی ہے لیکن ان باتوں کو بلاچون و چرانہیں مانا جاتا ہے بلکہ بحث ہوتی ہے۔ گروہ بنتے ہیں کچھ بڑے چھوٹے ایک طرف اور کچھ چھوٹے بڑے دوسری طرف! اور یہ بحث میری بیٹھک میں چل رہی ہوتی ہے۔ اور ساتھ والے کمرے سے میری بیوی چائے بناکر لاتی اور پلاتی جاتی ہے۔ اور بعد میں کبھی اپنے لائٹ موڈ میں، مجھے الفا، پائی ڈیلٹا کہتی ہے۔ اور مذاق کرتی ہے اور یہ تمام باتیں میرا سب سے چھوٹا بھائی دیکھ سن کر اباجان کو بتاتا ہے۔ تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم میاں بیوی ہنسی خوشی سے رہ رہے ہیں۔ اور یہ تمام باتیں آپ کو سناتا ہوں کہ مجھے اپنے ایک نتیجے کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں مثال درکار ہے۔ اور مثال اگر اس پبلک سیکٹر سے لائی جائے جس سے واقفیت نسبتاً زیادہ ہوکر بہتر رہتی ہے۔ اور یہ تمام باتیں اب پبلک سیکٹر سے تعلق رکھتی ہیں۔ زنان خانے، حمام خانے یا خواجہ سراؤں کی زیرنگرانی پروان چڑھتی (PRIVACY) سے نہیں کہ آج کی زندگی کل کے دور کو دھوکا دے گئی ہے۔

    اس دھوکہ دہی کی واردات میں دربار ڈھے گئے ہیں، وظیفہ خوار شاعروں کے مکان بک گئے ہیں۔ اور ان درباروں اور مکانوں کی مجلسی زندگی حدپارہ ہوکر بکھر گئی ہے جس کا ایک ذرہ میں نے شیزان میں دیکھا ہے۔ ان کے بیروں کے آداب کی شکل میں اور ایک ٹکڑاشہرت بخاری اور باقر رضوی صاحب کے ذہن سے اٹکاپایا ہے، اور وہ بھی آخری سنبھالا لینے کو ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

    ایسے میں، اس کایا کلپ کے دورمیں، شادی سے اس بات اور انداز کی توقع کرنا کہ جو درباروں، رئیسوں اور ان کی مجلسی زندگیوں سے متعلق ہے۔ خوابِ خرگوش ہے، جسے جاگتے میں سونے والے دیکھ رہے ہیں۔ اور بھی کچھ دیر اور دیکھا کریں گے۔

    تغزل اگر روایتی عاشق کا اندازِ سخن ہے تو یہ اندازِ سخن روایتی مجلسی زندگی احساسِ زندگی سے منسلکہ طور طریقوں اور سلیقوں سے وابستہ ہے، ایسے میں روایتی مجلسی زندگی کاشیرازہ بکھر جانے پر عاشقی کااندازِ سخن بدلاگیا ہے۔ لہٰذا کل کے حسنِ سلیقہ اور حسنِ طلب والے اسے پہچاننے اور ماننے اور اس سے اثر قبول کرنے سے قاصر ہیں۔ اور قاصر رہیں گے۔

    آج کاشاعر مڈل کلاس کا دس بارہ جماعتیں پڑھا ہوا شاعر ہے جسے اپنی نظمیں کسی دربار اکبری میں پیش نہیں کرنی ہیں۔ بلکہ حلقۂ اربابِ ذوق میں پڑھنی اور ادبِ لطیفہ میں چھپوانی ہیں۔ جن کے سننے پڑھنے والے متوسط طبقے کے ذہن و زندگی کے حامل ہیں۔ اس طبقے کی مجلسی زندگی دہلی اور لکھنؤ کے نوابوں کی مجلسی زندگی سے یکسر مختلف ہے۔ اس اختلاف میں وہ بات بھی شامل ہے جسے گفتگو کہتے ہیں اور گفتگو کا وہ حصہ بھی جسے حسنِ سلیقہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ آج کاشاعر اول تو اس طریقے کاعشق ہی نہیں کرتا۔ کہ جیسا کل کے درباری شاعر کاتخیل تھا۔ اور اگر اس سے ملتے جلتے جذبے اس کے ذہن و دل میں بس بھی جائیں تو بھی وہ انہیں اس انداز میں بیان نہیں کرتا کہ جیسا کل کا عاشق کیا کرتا تھا۔

    خود ہی سوچیے کہ آپ اپنی محبوبہ سے عشق جتانے کواسے کارلس گارڈن لے جائیں۔ اپنے پٹارے سے دو براق سے کبوتر اس کے کھردرے ہاتھوں میں تھمادیں۔ اور پھر اسے باتوں میں لگائیں کہ بے خیالی میں اس کے ایک ہاتھ کا کبوتر اڑجائے اور پھر آپ چونک کر پوچھیں کہ کبوتر کیا ہوا اوروہ کہے اڑگیا اورآپ کہیں کیسے اور وہ کہے ایسے اوردوسرا کبوتر بھی اڑادے۔ ایسے میں آپ اپنے آپ کو کیا کہیں گے، اب تو فلموں میں بھی اگر ایسے سین پیش کیے جائیں تو پبلک کہتی ہے، کیا فلمی عشق ہے، اور پھر سیٹیاں!

    ایسے میں آپ ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ کہ آج کی شاعری سے تغزل غائب ہوگیا ہے۔ قبلہ ہماری زندگیوں سے، ہمارے مجلسی آداب و اطوار سے، ہمارے اٹھنے بیٹھنے سے، بول چال سے، جذبوں سے، سوچ سے، ہمارے تمام تر شعبہ ہائے حیات سے تغزل غائب ہو چکا ہے۔ اور آپ محض شاعری کا رونا روتے جارہے ہیں۔ آپ روتے رہیے کہ کل کاگدھا بہ مع اپنے سینگھوں کے عدم کو سدھار گیا ہے۔ آپ کو اسی بات کا حق ہے کہ آج کا دور کل والوں کو ماتم کرنے کا حق دیتا ہے۔ آپ ہی آج والوں سے ہنسنے بولنے کاحق بھی چھیننا چاہتے ہیں کہ جو بات مگر آپ کے اختیار میں نہیں۔

    آداب عرض قبلہ۔ خدا حافظ!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے