کچھ وحید اختر کے بارے میں
ممتاز شاعر اور نقاد وحید اختر 12 اگست 1934 کو اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ اردو شاعری میں وہ منفرد شناخت کے حامل ہیں۔ جدیدیت کی تحریک کو نہ صرف اپنی شعری خدمات عطاکیں بلکہ اپنے مضامین کے ذریعے بھی انھوں نے جدیدیت کی تعبیر و تشریح کی کوشش کی۔ انھوں نے جدید طرز کے مرثیے لکھ کر اس صنف کا دائرہ وسیع کیا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں درس وتدریس سے منسلک رہے۔ مندرجہ ذیل کتابیں انھوں نے یادگار چھوڑی ہیں،
پتھروں کا مغنی۔ (1966)
شب کا رزمیہ۔ (1973)
زنجیر کا نغمہ۔ (1982)
کربلا تا کربلا (1991)
خواجہ میر درد ( تصوف اور شاعری )
13 دسمبر 1996 کو دہلی میں انتقال ہوا۔
کچھ وحید اختر کے بارے میں
وحید اختر کی ذہانت اور علمیت نے ان کی تخلیقات کو استحکام بخشا ہے۔ علمیت تخلیق کار کو ایک خاص دائرے کا قیدی بھی بنا دیتی ہے۔ وہ مخصوص فکری اور لسانی دائرے میں رہ کر ادب اور زندگی کے بارے میں سوچتا ہے۔ وحید اختر نے تاریخی اور تہذیبی حوالوں کو خالص ادب یا ادب کے ادبی معیار کے نام پر نظرانداز نہیں کیا۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ وحیدا ختر تاریخ اور تہذیب کو بعض جوشیلے اور انتہا پسند ترقی پسندوں اور جدیدیوں دونوں سے مختلف اندازمیں دیکھتے ہیں۔ جدیدیوں نے تاریخ اور تہذیب کو اہمیت تو دی مگر خالص ہنرمندی کے تصور کے سبب تاریخ ا ور تہذیب سے سچی اور گہری وابستگی قائم نہیں ہوسکی۔ ترقی پسندوں کا مسئلہ تاریخ کو ادب بنانا تھا۔ وہ بھی اس طرح کہ تاریخی حقائق کی تجرید نہ ہوسکے۔ ان انتہاؤں کے درمیان وحیدا ختر نے جو رویہ اختیار کیا اس میں اپنی ہنرمندی اور تاریخی و تہذیبی حوالوں کا احترام ہے۔ وحیدا ختر کی نثری اور شعری دنیا اس لیے وسیع ہے کہ انھوں نے فکر و اظہار کی سطح پر کوئی پابندی قبول نہیں کی۔ ترقی پسندی سے ان کی شکایت یہ تھی کہ اس نے خود کو فارمولائی بنا لیا۔ جدیدیت اس روش کے خلاف بطورا حتجاج سامنے آئی مگر وہ بھی رفتہ رفتہ فارمولے کی نذر ہوگئی۔ وحیدا ختر نے ’زنجیر نغمہ‘ میں پس نوشت کے تحت لکھا ہے۔ ’’خاص قسم کی آزادی کا پابند ہوجانا نئی طرح کی پابندی ہے۔‘‘
خلیل الرحمن اعظمی پہلے نقاد ہیں جنھوں نے وحید اختر کی شاعری کو اس کے اصل سیاق میں دیکھنے کی کوشش کی۔ نظریاتی طور پر وحید اختر اور خلیل الرحمن اعظمی جدیدیت کے حامی اور طرفدار تھے۔ دونوں نے اپنے مضامین کے ذریعہ جدیدیت کی روح کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ وحیدا ختر نے شاعری کو جدید بنانے کی اس طرح کوشش نہیں کی جس کی مثالیں ان کے معاصرین کے یہاں ملتی ہیں۔ جس نقاد نے تواتر کے ساتھ جدید حسیت کو موضوع گفتگو بنایا اس کی شاعری کا مکمل طور پر جدید نہ بن پانا ایک واقعہ ہے۔ آخر کوئی تو بات ہے کہ وحید اختر کی شاعری جدیدیت کی نمائندہ شاعری نہیں بن سکی۔ خلیل الرحمن اعظمی ’پتھرو ں کا مغنی‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’جن لوگوں نے وحید اختر کی بعض نظمیں اور غزلیں اِدھر اُدھر سے پڑھی ہوں گی یا خود ان کی زبان سے سننے کا موقع انھیں ملا ہوگا ممکن ہے ان کا پہلا تاثر یہ ہو کہ یہ شاعری اپنے انداز۔ و اسلوب کے اعتبار سے اس شاعری سے کچھ مختلف نہیں ہے جسے ہم ترقی پسند شاعری کہتے آئے ہیں۔ اس لیے کہ نئی نسل کے بہت سے دوسرے شعرا کے برخلاف ان کے یہاں اختصار اور پیچیدگی کے بجائے پھیلاؤ اور صراحت ملتی ہے۔‘‘ (ص 216)
وحید اختر کا مسئلہ نئی حسیت تھی، اسلوب نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ شعوری اور غیرفطری طور پر نظم کو ہیئتی بنانے کی کوشش کرتے۔ روایت ان کے لیے آسیب نہیں تھی اور وہ کسی اسلوب کو فیشن میں رد کرنا نہیں چاہتے۔ ایک ہی نظم میں واقعے کی مناسبت سے کئی اسالیب سے کام لیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے وحیدا ختر کی نظموں کے بعض مصرعے اضافی معلوم ہوں مگر تخلیق کار کی طبیعت کی روانی اور وفور کہاں جاکر دم لے گی اس کا فیصلہ کوئی نقاد یا قاری تو نہیں کرسکتا۔ خلیل الرحمن اعظمی نے یہ بھی لکھا ہے، ’’لیکن اس مجموعہ کو شروع سے آخر تک پڑھنے کے بعد ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان نظموں اور غزلوں میں ہمیں جو فضا ملتی ہے اور اس کے اندر سے شاعر کی جو شخصیت ابھرتی ہے وہ اپنے پیش روؤں سے بالکل مختلف ہے۔ ان نظموں اور غزلوں کا شاعر اپنے جسم کے اعتبار سے اپنے بزرگ معاصرین سے مشابہ ہو تو ہو اپنی روح اپنے باطن کے اعتبار سے وہ ایک نئے وجود کا حامل ہے۔‘‘
وحید اختر کی نظموں میں خودکلامی کا وہ انداز نہیں ہے جسے عموماً جدیدیت سے وابستہ شاعری کے لیے لازمی تصور کیا گیا۔ وحید اختر نے کبھی خودکلامی کو ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ ان کے تخلیقی اور تنقیدی ذہن میں کسی بھی رجحان یا رویے کا اصل سیاق ہوتا ہے۔ ایک جگہ کوئی چیز غیراہم اور اوڑھی ہوئی معلوم ہوسکتی ہے اور دوسری جگہ وہ چیز برجستہ اور مناسب ہوسکتی ہے۔ نئی نظم کی تنقید میں جب نظم کو سیاق سے کاٹ کر دیکھا گیا تو غیرضروری طور پر انتشار کی کیفیت پیدا ہوئی۔ وحید اختر نے اپنی نظموں کو کسی خاص ہیئت اور فکر کا پابند نہیں بنایا۔ ان کی بعض نظموں کو پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ پابندی اور بغاوت کا سفر ایک ساتھ جاری رہتا ہے اور کبھی الگ لگ بھی۔ نظم کی خارجی ہیئت پہلے ہی قاری کو متوجہ کرلیتی ہے۔ آزاد اور پابند نظم میں بہتر کون سی ہیئت اور آزاد نظم کہنے کا حق کسے حاصل ہے، یہ سب باتیں وحید اختر کی نظم نگاری کے سیاق میں اہمیت اختیار کرلیتی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ 60، 70 کی دہائی میں آزادا ور نثری نظم کے تخلیقی عجز کو چھپانے کا وسیلہ بنایا گیا۔ وحید اختر کی نظم یہ بتاتی ہے کہ کسی ہیئت کو اختیار کرنا اپنے تخلیقی عمل اور تخلیقی تقاضے کا خیال رکھنا ہے۔ اول و آخر تو تخلیقی حسیت ہے۔ انھوں نے تخلیقی سطح پر یہ بھی بتایا کہ نظم کہنے کے لیے فکر و خیال کی دنیا کا وسیع ہونا ضروری ہے۔ وسعت کے بعد بھی مختصر نظم بامعنی ہوسکتی ہے۔ مختصر نظم کے چھوٹے بڑے مصرعے غزل کے مصرعوں کی طرح بامعنی اور معنی آفریں ہوسکتے ہیں لیکن اس کے لیے ذہن کا بڑا ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں منیرنیازی اور شہریار کی مختصر نظمیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
وحید اختر نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اقبال کے ساتھ عظیم شاعری کا تصور بھی رخصت ہوگیا، گویا اقبال کے بعد جو شاعری سامنے آئی اس میں عظمت کے عناصر تو تھے لیکن یہ عظیم نہیں تھی، وحید اختر کے ذہن میں وہ اقدار ہیں جن سے کوئی شاعری علم و ذہانت کے ساتھ عظمت کے مقام پر فائز ہوتی ہے۔ جب عقیدہ اور تصور متزلزل ہو اور انسان فکر و احساس کی سطح پر چھوٹے چھوٹے گھروندے بنا رہا ہو ایسے میں کسی ایسی شاعری کا وجود میں ا ٓنا دشوار ہے جو انفرادی ہونے کے ساتھ ساتھ کائناتی بھی ہو۔ وحید اختر نے اپنی شاعری میں اس کائناتی آہنگ کو برتنے کی کامیاب کوشش کی۔ ’شب کا رزمیہ‘ کی پہلی نظم ’شاعری‘ ہے۔ یہ نظم شاعر کا نظریۂ شعر بھی ہے اور نظریۂ کائنات بھی۔ یہ ایک آزاد نظم ہے جس میں شاعر کا تخیل اپنی ذات کے زنداں سے نکل کر کائنات میں باہیں ڈال دیتا ہے۔ وہ زماں مکاں کی سیر کرتا ہوا ذات کی طرف آتا ہے۔ اس درمیان اسے زندگی اور کائنات کی مختلف سچائیاں متوجہ کرتی ہیں۔ ان سچائیوں کا رشتہ زندگی کی تلخ سچائیوں سے ہے۔ آپ انھیں زندگی کی بدصورتیاں کہہ لیجیے،
خلوت ِ ذات کے محبس میں وہ بے نام اُمنگ
جس پہ کونین ہیں تنگ
چھان کر بیٹھی ہے جو وسعت ِ صحرائے زماں
جس کو راس آنہ سکی رسم ورہِ اہلِ جہاں
نشۂ غم کی ترنگ
خود سے بھی بر سرِ جنگ
پستیِ حوصلہ و شوق میں ہے قید وہ رُوحِ امکاں
شو رِ بزمِ طرب و شیونِ بزم ِ دل میں
دہر کی ہر محفل میں
جس نے دیکھی ہے سدا عرصۂ محشر کی جھلک
بوئے بازارمیں گُم کردہ رہی جس کی مہک
عالم ِ آب و گل میں
جہد کی ہر منزل میں
اپنے ہی ساختہ فانوس میں ہے قید وہ شعلے کی لپک
نظم کے ابتدائی یہ دو بند جس فکری بلندی اور کائناتی آہنگ کا پتہ دیتے ہیں وہ وحید اختر کی پوری شاعری میں موجود ہے۔ ان میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس سے ہم مانوس نہ ہوں مگر شاعر انھیں جس طرح برتنے میں کامیاب ہوا ہے وہ فکری بلندی کے ساتھ لسانی اظہار کی بھی تو بات ہے۔ یہ وہ لسانی اظہار ہے جو لفاظی اوربے معنی لسانی جزیرہ نہیں۔ بہت غور و فکر کے بعد زبان نے اپنا عمل شروع کیا ہے۔ پہلا ہی مصرعہ بظاہر جدیدیت کا زائیدہ معلوم ہوتا ہے۔ ’خلوت ذات کے محبس میں وہ بے نام امنگ‘ مگر اس بے نام امنگ پر کونین تنگ بھی تو ہے۔ ذات سے کائنات تک کا یہ سفر کس قدر صبر آزماہے مگر دیکھیے اس امنگ کو بالآخر پناہ خلوت ذات ہی میں ملی۔ یہاں کوئی نظریہ تیرتا نظر نہیں آتا۔ ایک شعلہ فطری طور پر بھڑکتا ہے مگر اس شعلے کی پرورش و پرداخت میں ایک باشعور تخلیقی ذہن نے حصہ لیا ہے جس کے پاس نظر اور نظریے کی وہ دولت ہے جس سے نہ انسانی اقدار کو خطرہ ہے اور نہ شعر و ادب کی بنیادی قدروں کو۔ اس عمل میں تشکیک بھی سر اٹھاتی ہے اور غم و غصہ بھی۔ یقین کی شمع بھی روشن ہوجاتی ہے اور بے یقینی کے اندھیرے بھی راستہ روکتے ہیں۔ یہ حقائق وحیدا ختر کے یہاں زندگی اور ادب دونوں کو قوت بخشتے ہیں۔ وحید اختر نے زندانِ ذات کو کائنات کا مرکز قرار دیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ زندان ذات کی صورت نئی شاعری میں ایک جیسی نہیں ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.