Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کیا غزل نیم وحشی صنف سخن ہے؟

سید عبد اللہ

کیا غزل نیم وحشی صنف سخن ہے؟

سید عبد اللہ

MORE BYسید عبد اللہ

    نگار کے جنوری فروری ۱۹۴۲ء کے پرچے میں پروفیسر کلیم احمد کا ایک مضمون ’بزم نگار‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں پروفیسر صاحب موصوف نے ’غزل‘ کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ راقم الحروف غزل کے ان کٹر حامیوں میں سے نہیں ہے کہ اس کو غزل کے عیوب بھی محاسن نظرآئیں۔ نہ وہ ان لوگوں میں سے ہے جو غزل میں کسی اصلاح اور تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتے۔ باایں ہمہ یہ مجھے اعتراف کرنا چاہیے کہ میں پروفیسر صاحب موصوف کے بعض مصلحانہ بلکہ انقلابی افکار کو نہیں سمجھ سکا۔ جو انہوں نے شوق علو اور جوش اصلاح میں نہایت الجھے ہوئے انداز میں ظاہر کیے ہیں۔

    ہماری موجودہ غلامی کے ہزاروں برے نتائج میں سے ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ اکثر حضرات ناظرین و سامعین کو خواہ مخواہ مرعوب کرنے کے لیے کسی جدید و قدیم یورپین نظریہ کا نام لے لیتے ہیں۔ اور اس کے اعتماد پر اپنے دلائل کو زوردار بنالیتے ہیں۔ ہمارے نقاد پروفیسر کلیم الدین صاحب نے بھی ایساہی کیا ہے۔ وہ اپنے مضمون کو اس دعویٰ کے ساتھ شروع کرتے ہیں کہ وحشی اپنے آرٹ میں ’’صورت‘‘ اور رتکمیل کا دلدادہ ہے اس بنا پر وہ فرماتے ہیں کہ ’’غزل بھی ایک نیم وحشی صنفِ ادب ہے اور یہ حقیقت اس قدر بین ہے کہ مزید تشریح کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‘‘

    سب سے پہلے تو یہ معلوم کرنا چاہیے کہ پروفیسر صاحب نے اپنے خالی خولی دعویٰ کو ایک بین حقیقت کیسے قرار دے دیا جس کے لیے وہ مزید تشریح کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ یہ سوال کہ آرٹ کی تنقید کے لیے کسی فنی کار نامہ کے حسن کی پرکھ جزءاًجزءاًکرنی چاہیے یا مجموعاً، ابھی غیر فیصلہ شدہ نزاع ہے۔ کسی شاہکار کے مختلف اجزا میں اس درجہ ’’ربط تجانس‘‘ کا پیدا کرلینا کہ اس میں وحدتِ بسیط اور ہیت موحدہ پیدا ہوجائے بجائے خود بہت قابل ستائش تخلیقی کارنامہ ہے۔ لیکن اس کے برعکس مختلف اجزا کا انفرادی کمال خواہ اس کے مختلف اجزا میں کچھ تفاسیر اور تبائن بھی موجود ہو، حسن اور تکمیل صورت کے منافی نہیں۔ کیونکہ بعض صورتوں میں خود تفاسیر اور تضاد بھی تناسب اور تجانس پیدا کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ جس کو اصطلاحاً قانون تقابل کااثر کہا جاسکتا ہے۔ بہرحال اس معاملہ میں دونوں طرف دلائل موجود ہیں۔ اور یہ مسئلہ اس درجہ مختلف فیہ ہے کہ اس کے متعلق کوئی حتمی اور قطعی رائے نہیں دی جاسکتی۔ آرتھر سیویل نے اپنی کتاب Physiology of Beanty میں آر، ڈبلیو، چرچ نے میں An Essay on Gitrical Opprcaite اور گلبرٹ کوہین نے A History of Eastthetics میں جزو اور کل کی بحث اتنے دلآویز انداز میں کی ہے کہ اس پر اضافہ کرنا ممکن نہیں۔ در ایں حالات ڈاکٹر صاحب کا یہ دعویٰ کہ یہ ایک بین حقیقت ہے، بالکل بے دلیل ہے۔ دراصل غزل پر ’’ریزہ خیالی‘‘ کا الزام نیا نہیں بہت پرانا ہے۔ پروفیسر گب نے عرصہ ہوا اپنی ’’تاریخ شعر عثمانیہ‘‘ جلد اول، میں غزل کے متعلق یہی شکایت کی تھی۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے مغربی مصنفین اور ان کے پیرو ہندوستانی نقاد اس پر معترض ہو رہے ہیں (جن میں مسٹر احمد کریم فضلی آئی سی ایس بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے ’’فارسی غزل‘‘ پر ایک عالمانہ مقالہ لکھا ہے)

    میں خیال کرتا ہوں کہ ہمارے ڈاکٹر کلیم الدین بھی غزل کے معاملہ میں کچھ گب وغیرہ کے خیالات ہی کو دہرا رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ غلط ہے کہ غزل میں مختلف اشعار ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں۔ بقول مولانا حالیؔ محض اختلافات عیب نہیں۔ تاآنکہ وہ اختلاف تناقض نہ بن جائے۔ غزل کے بلند پایہ اساتذہ کے کلام میں تناقض بہت کم پایا جاتا ہے۔ بلکہ بعض اساتذہ کے ہاں بے شمار مسلسل غزلیں ملتی ہیں۔ اردو میں، میر، سودا، مومنؔ، غالبؔ، حسرت موہانی وغیرہ نے اور سعدی، حافظ، فغانی اور نظیری وغیرہ نے فارسی میں بہت سی مسلسل غزلیں لکھی ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غزل کے لیے لازمی نہیں کہ اس کا ہر شعر دوسرے سے ضرور مختلف ہو۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ عام طور پر شعراء اس تسلسل کے قاعدہ کی پابندی نہیں کرتے۔ اور کم پایہ شعراء کے اشعار میں نمایاں تناقضات بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن ہمیں کم پایہ شعرا ءسے اس بحث میں کوئی سروکار نہیں۔

    غرض یہ صحیح ہے کہ غزل میں (جیسی کہ وہ اب تک چلی آئی ہے) اختلافِ مضمون زندہ حقیقت ہے۔ جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس اختلاف کو تناقض نہیں سمجھنا چاہیے۔ اساتذہ اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ رندانہ اور زاہدانہ، فرحیہ اور المیہ، یاسیہ اور رجائیہ مضامین ایک غزل میں جمع نہ ہوجائیں تاکہ تناقض مضمون سے مطلوبہ اثر زائل نہ ہوجائے۔ مثلاً مرزا غالبؔ کی مندرجہ ذیل غزل ملاحظہ ہو۔

    مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

    جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے

    اس غزل کے مختلف اشعار میں نہایت لطیف اور دلکش ربط موجود ہے۔ لیکن اگر ربط و تسلسل موجود نہ ہو اور تمام اشعار کے مضامین مختلف بھی ہوں تب بھی مجموعی حسن میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اور ہر شعر میں الگ الگ مضمون ادا کرنے سے غزل حقیقت میں بلند پایہ خیالات کا عمدہ مجموعہ بن جاتی ہے۔ لیکن ہمارے پروفیسر صاحب اس تنوع مضمون کو پراگندگی خیال کا مترادف قرار دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں۔ کہ ’’غزل اور شعر مفرد نیم وحشی صنفِ شاعری ہونے کی وجہ سے کسی تہذیب یافتہ دماغ کو تسلی نہیں بخشتے۔ اس کا سبب غزل کی پراگندگی اور شعر مفرد کی تنگ دامانی ہے، لیکن میرے خیال میں ان کا یہ دعویٰ بلادلیل ہے۔ اس لیے کہ مفرد شعر اکثر اپنی تنگ دامنی کے باوجود بلند حقائق کا حامل ہوتا ہے۔ بشرطیکہ کہنے والا ماہر کامل ہو۔ بلاغت کاکمال مفرد اشعار سے ہی ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مفرد اشعار کی یہ صفت کہ نہایت آسانی سے یاد ہوجاتے ہیں۔ خوداُن کی کشش کا باعث ہے۔ دنیا میں جس قدر اشعار ضرب الامثال بن کر زبانِ زدعوام و خواص ہیں۔ اور صدیوں سے لوگوں کو یاد ہیں ان میں سے بیشتر مفردہی ہوتے ہیں۔ حکمت و فلسفہ کے نکات، جذبات صادقہ، سوزوگداز اور درد کی باتیں۔ اکثر مفرد اشعار میں مل جاتی ہیں۔

    مثنوی اور قصیدوں میں سے جو اشعار لوگوں کو یاد ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے ربط ماسبق کی وجہ سے نہیں بلکہ انفرادی حسن اور جامع مضمون کی وجہ سے پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔ باقی رہا تنوع تو انسان فطری طور پر تنوع پسند واقع ہوا ہے۔ ایک ہی غزل میں بجائے ایک جذبہ و تجربہ کے بہت سے اسرار و طلسمات بیان ہوجائیں تو اس سے تاثیر میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اس ضمن میں ہمارے پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ شعر میں کسی ایک جذبہ یا خیال یا جزئی مشاہدہ کی ترجمانی تو ممکن ہے۔ لیکن ان کی ابتدا، ان کی غرض و غایت ان کادوسرے جذبات و خیالات و مشاہدات سے تعلق یہ سب باتیں ایک شعر میں نہیں سماسکتیں۔ ارشاد صحیح ہے۔ لیکن ان سب باتوں کو ایک شعر میں کھپانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ شاعر جب شعر کہتا ہے تو اس کا مطلب کسی تجربہ یا مشاہدہ کی ترجمانی کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس ترجمانی کا طریقہ نثر سے مختلف ہونا چاہیے۔ یعنی شاعر کو نثر کی مخصوص تفصیل سے بچنا چاہیے۔ بلکہ جزئیات کو بیان کرتے ہوئے باقی کو ترک کردینا چاہیے۔ تاکہ خود تخیل مطلوبہ اثر حاصل کرسکے۔ اسی لیے شاعر اور آرٹسٹ اکثر اختصار و ایما کو تفصیل اور صراحت پر ترجیح دیتے ہیں۔ اور اپنے شاہکار کی مصوری میں کئی جزئیات و تفصیلات کو ترک کر دیتے ہیں۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے محذوف اجزا و احساسات کو پڑھنے والوں کا ذہن خود تلاش کرلے گا۔

    آرٹ اور شاعری میں محذوفات وہی کام دیتے ہیں جو بعض معاملات میں تفصیل اور جزئیات سے لیا جاتا ہے۔ چونکہ آرٹ کو سمجھنے کے لیے ایک خاص قسم کی تربیت ذہنی ضروری ہوتی ہے۔ جس کی بدولت کسی معین آرٹ کی عقبی بنیاد خود بخود سمجھ میں آسکتی ہے۔ اس لیے اگر کسی تجربہ کو بیان کرتے ہوئے تفصیل سے کام نہ لیا جائے تو اس سے ہماری تسکین میں کمی واقع نہیں ہوتی۔

    اسی طرح ’’ایمائیت‘‘ اور ’’ابہام‘‘ (SUGGESTIVENESS) اور (AM BIGUITY) ابھی آرٹ کے نقطہ نظر سے مسلمہ ممداتِ حسن میں سے ہیں۔ جن کی دلکشی اور دلآویزی سے شاید کسی کو انکار نہیں ہوگا۔ اس معاملہ میں ذہن اور خیال جس قدر محذوفات کی تلاش کرے گا۔ اسی قدر لطف زیادہ آئے گا۔ تعجب ہے کہ پروفیسر صاحب اپنے جوش اصلاح میں ان سب حقائق سے اعراض فرما رہے ہیں۔

    حقیقت یہ ہے کہ جس قدر دنیا کو غزل کی ضرورت ہے۔ آج سے پہلے کبھی نہ تھی۔ موجودہ زندگی کی مصروفیتیں اور پرہنگامہ نظام اس بات کا متقاضی ہے کہ تمام تفریحی امور میں اختصار کو مدنظر رکھا جائے۔ تھیئٹر کے مقابلہ میں سنیما، ناول کے مقابلہ میں افسانے اور افسانچے، ڈرامہ کی جگہ مختصر اور یک مجلسی ڈرامے سب اسی انسانی اختصار پسندی کا پتہ دیتے ہیں۔

    ہمارے قد ماءطبعاً جفاکش، محنتی اور تفصیل و استیعاب کے دلدادہ تھے۔ ان میں سے ایک کئی کئی جلدوں میں اپنے شاعرانہ کارناموں کو مرتب کرتا تھا۔ نظامی کے پنج گنج اور جامیؔ کے ہفت اورنگ اور خسرو کے ہشت بہشت اسی طویل نظم گوئی کے نشانات ہیں۔ لیکن آج کا کوئی شاعر شاید یہ محنت گوارا کرنا پسند نہ کرے۔ اس لیے کہ زندگی کے اوضاع و اطوار اتنے مختلف ہوگئے ہیں۔ اور فرصت اتنی کمیاب ہو رہی ہے کہ اس قدر طویل نظموں کے کہنے اور سننے کے لیے ممکن ہے کبھی وقت ہی میسر نہ آسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اب یورپ میں بھی انتخابات کی طرف خاص توجہ ہو رہی ہے۔ پس ان حالات میں غزل کا اختصار اس کی زندگی کی کفالت کرتا ہے۔

    جن لوگوں نے غزل کا ڈھانچہ تیار کیا وہ نیم وحشی نہیں بلکہ انتہائی طور پر مہذب تھے۔ انہوں نے اپنے دوسرے طویل کارناموں کے ساتھ ساتھ یہ لطیف، سبک، ایمائی اور مختصر صنف بھی ایجاد کی جس کا عملی پہلو روز مرہ زندگی کے اعتبار سے طویل نظموں کے مقابلہ میں بدرجہا اہم ہے۔ وہ شعر کے اثر کو جانتے تھے۔ اور یہ بھی سمجھتے تھے کہ ایک اچھا شعر ہزاروں طویل نظموں کے مقابلہ میں روح کو زیادہ تسکین بخشتا ہے اور مطمح نظر میں زیادہ انقلاب پیدا کرسکتا ہے۔ اسی لیے ایڈگرایلن پو نے کہا ہے کہ ’’طویل نظموں میں شعریت کا فقدان ہوتا ہے‘‘ ۔

    غزل کی ساخت میں ہم آہنگی اور ربط کا عنصر مفقود نہیں۔ خود قافیہ اور ردیف کی پابندی ایک وحدت آفرین عنصر ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ہم قافیہ الفاظ کی تکرار بے حد غنائی اہمیت رکھتی ہے۔ اور اپنی موسیقیت سے اتنا اثر پیدا کرتی ہے کہ غزل کا اختلاف مضمون اس کی موسیقیت اور اثر تناسب کو توڑ نہیں سکتا۔ بلکہ تربیت یافتہ ذہن ہم قافیہ الفاظ کی تکرار سے حد درجہ محظوظ ہوتے ہیں۔

    افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب ردیف و قافیہ کی پابندی کو متغزلین کی آسان پسندی خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ واقعہ اس کے برعکس ہے۔ اچھی غزل لکھنا نہایت ہی دشوار کام ہے۔ اساتذہ عمدہ غزل لکھنے کے لیے بہت اہتمام کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ طالب آملی نے اس شعر کے مصرعہ اول کو لکھنے اور سنوارنے میں چھ ماہ صرف کیے تھے،

    زغارتِ چمنت بر بہار منتہاست

    کہ گل بدستِ تواز شاخ تازہ ترماند

    امیرمینائی فرماتے ہیں،

    خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے

    تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ ترکی صورت

    یہی وجہ ہے کہ غزل کے میدان میں بلند پایہ اساتذہ کی تعداد بہت کم ہے۔ اور خود فارسی شاعری میں (جو غزل کی مورث ہے) بھی چوٹی کے نام صرف چند ہیں۔

    میں سمجھتا ہوں کہ غزل کے متعلق یا کسی اور صنف شاعری کے متعلق فتویٰ دینے سے پہلے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس خاص صنف کی ساری تاریخ اور اس کے محرکات قریبہ اور بعیدہ پر بھی غور کریں۔ غزلؔ فی الحقیقت فارسی کی ملکیت بلاشرکت غیرے ہے، اہل ایران نے ہی اس کو قصیدہ کی ’’نسیب‘‘ سے الگ کیا۔ انہوں نے ہی اس کو آب و رنگ بخش کر دروہِ کمال تک پہنچایا۔ شعرائے ایران محض غزل گو نہ تھے۔ بلکہ انہوں نے مثنوی، قصیدہ، مسمّط، ترکیب بند، ترجیع بند، مستزاد، رباعی، خماسی، مثمن غرض ہر طرح کے شعر کہے۔ اس لیے اس سوال کا فیصلہ اہمیت سے خالی نہیں کہ مثنوی کے عام رواج اور رباعیات کے اختصار کے باوجود آخر غزل کو کیوں اس درجہ قبول عام حاصل ہوا۔ غالباً یہ غزل کی اندرونی خوبی تھی کہ اس کااختصار نسبتاً طویل تر اصنافِ کلام پر غلبہ کا باعث ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیوں نے اس کو اپنایا۔ اور اس کے اختصار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو اپنے خیالات کی اشاعت کا موثر ذریعہ بنایا۔ اخلاق کے مبلغوں نے اسی کو کسب فضائل کا ذریعہ بناکر کیمیائے سعادت کا ہم پلہ بنادیا، رندوں اور قلندروں، مجذوبوں اور درویشوں نے اس کی سرپرستی کی، درباروں میں اس کی پرستش ہوئی۔ خانقاہوں میں اس کے ورد ہوئے، بازاروں میں اس کی گونج سنائی دی۔ غرض اس سات یا نو شعر کی بے ڈھنگی اور بے ربط ’’وحشی‘‘ قسم کی شاعری نے کیا کیا نہ کیا!

    مرے خیال میں غزل کے متعلق یہ اشتیاق اور رجحان ایرانی قوم کی بربریت کی علامت نہ تھا۔ کیونکہ غزل کو آب و رنگ بخشنے والے بہت سے شعراء بہترین مثنوی گو بھی تھے۔ مثلاً سعدی جن کی نثر، نظم اور غزل سب کے نزدیک نہایت کامیاب تھی۔ سعدی جہاں بوستان لکھ کر بہترین مثنوی گو (اور بقول ڈاکٹر صاحب ’’مہذب‘‘ ) ثابت ہوئے ہیں۔ وہاں غزل کو غزل بنانے والے بھی وہی ہیں۔ پھر کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ سعدی ایک لحاظ سے مہذب تھے اور دوسرے لحاظ سے ’’نیم وحشی‘‘ ! ایرانیوں نے مثنوی کو بہ حیثیت صنف بہت ترقی دی ہے۔ اور اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی اقدار شاعری کے بارے میں خاصے مہذبانہ تھیں لیکن اسی مہذب ذہن نے غزل کو اس قدر چمکایا کہ آج ہم مخالفت کے باوجود اس کو نہیں مٹاسکتے۔ خواجہ کرمانی گو بہترین غزل گو تھے۔ مگر ان کی مثنویاں ہما و ہمایوں وغیرہ بھی بہت شہرت رکھتی ہیں۔ حاجیؔ، خسروؔ، فیضیؔ وغیرہ سب اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن بلند پایہ شعراء نے مثنوی کی طرف کم توجہ کی ان کی غزلیات بے نظیر اور کسی حدتک بے عیب ہیں۔ مثلاً حافظ، فغانی اور نظیریؔ وغیرہ۔ میں سمجھتا ہوں اس بارے میں ڈاکٹر صاحب کا استدلال بے حد غلط اور گمراہ کن ہے۔ اور انہوں نے محض چند مغربی نظریات کو آزمانے کے لیے بچارے غزل گو شعرا ءکو بہ حیثیت مجموعی رگڑ ڈالا ہے۔

    اس کے علاوہ غزل نے گزشتہ آٹھ نو سال میں بہت بڑی خدمت انجام دی ہے۔ ادبی لحاظ سے غزل جہاں انتہائے کامل کی پروانہ دار ہے۔ وہاں متبدیوں کے آغاز کے لیے بھی مفید مشق ہے۔ زبان پر قدرت اور متناسب اور شاعرانہ الفاظ و تراکیب پر عبور اور ان کے استعمال کے بارے میں مہارت کے لیے یہی لطیف صنف کام آتی رہی ہے۔ شاعروں کے دواوین میں ہزاروں غزلیں ملتی ہیں۔ سب کی سب ان کے کمال کااظہار نہیں۔ ان میں سے بیشتر مشقیہ کلام ہوتا ہے۔ جو نومشقی کے دور سے لے کر پختگی کے زمانے کی یادگار ہوتا ہے۔

    غزل میں پختگی حاصل کرنے کے بعد دوسرے اصناف سخن پر قدرت ہوتی ہے۔ ہمارے ڈاکٹر صاحب ہمارے شعراء کے دواویں کی کثرت اور ان کی غزلیات کی یک رنگی سے بہت گھبرا گئے ہیں۔ اصل علاج یہ ہے کہ کم پایہ شعرا ءسے قطع نظر کرلینا چاہیے۔ اور اس کے بجائے بڑے بڑے اساتذہ کے کلام پر غور کرنا چاہیے۔ جن کی عظمت کے اسباب ان کی کلیات میں خود بخود نظر آجائیں گے۔ غزل نے شعراء اور زبان کا حقیقی ذوق پیدا کرنے میں بہت بڑا کام کیا ہے۔ اور آج بھی ہمارے پاس کم از کم اردو کے عروج کے لیے اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔

    جو لوگ ادب اور زندگی کے درمیان تعلق پیدا کرنے کے مدعی ہیں۔ انہیں بھی اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ غزل ایک کارآمد صنفِ کلام ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ یہ غزل ہی تھی جس نے ایرانی تصوف کا ذوق عوام و خواص کے دلوں میں پیدا کردیا تھا۔ صوفی غزل کی مقبولیت کے راز کو پاگئے تھے۔ انہوں نے اس رندانہ اصطلاحوں کو اپناکر ان کو نئے معانی پہنادیے۔ نتیجہ یہ کہ تصوف کا نشہ آج تک سب کو سرمست بنارہا ہے۔ آج ہماری ضرورتیں ہمیں پھر مجبور کر رہی ہیں کہ ہم اپنے لیے کوئی شاعرانہ قالب ایسا تیار کریں جس کے ذریعے ہم مجبوری و مقہور ی کے باوجود اپنی دبی ہوئی آواز نکال سکیں۔ میرے خیال میں غزل، اس سلسلے میں بہت کام آسکتی ہے۔ حضرت علامہ اقبال نے بال جبریل میں سیاسی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نئے راستے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اب شاعروں اور ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی غزل کو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے ہم آہنگ کریں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے