اٹھارویں صدی سے اساطیر کی اہمیت کم ہونے لگی تھی۔ دنیا بھر میں تصوف، سریت Mysticism صوفیانہ افکار اور اساطیری فکر کا زور کم ہونے لگا، عقلیت پسندی، روشن خیالی اور سماجی علوم کا چرچا بڑھنے لگا۔ بطلیموس کا نظریہ چودہ سو سال کے بعد باطل ٹھہر ا اور کو پر نیکس نے یہ ثابت کر دیا کہ زمین ساکن نہیں ہے اور روزانہ ایک بار اپنے محور پر اور سال میں ایک مرتبہ سورج کے گرد گھومتی ہے۔ کپلر Kepler کے دونوں قانون رائج ہو گئے پہلے قانون کا مطلب یہ تھا کہ سیاروں کے محور گول نہیں بیضوی ہیں اور ان کا ایک رخ سورج کی طرف ہے دوسرا قانون یہ تھا کہ سیاروں کی رفتار سورج سے قربت اور دوری کی بنیاد پر بدلتی رہتی ہے۔ طبعی دنیا ہی میں نہیں فرد اور معاشرے کے بارے میں انسانی علوم میں بھی بڑی تبدیلیاں آئیں۔ معاشیات، نفسیات اور عمرانیات میں بڑی پیش رفت ہوئی نفسیات میں فرائڈ اور یونگ، ساختیات میں سوسیئر اور علم البشریات میں ٹیلر، فریرز اور درخیم کے بعد لیوی اسٹراس نے اس پیش رفت میں حصہ لیا۔
لیوی اسٹر اس سے زیادہ شہرت کسی ماہر عمرانیات کو نہیں ملی لیکن کسی ماہر علم بشریات کی فکر بھی اتنی پیچیدہ نہیں ہے جتنی لیوی اسٹراس کی فکر، اس شہرت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس نے اساطیر پر بہت گہرا کام کیا ہے۔ اس نے سوسیئر کی ساختیات کا اطلاق علم البشریات پر کیا۔ لیوی اسٹراس نے اساطیر کے علاوہ رسوم و رواج، تہوار اور خور و نوش کے بارے میں بھی اپنے افکار کو مرتب کیا۔
در اصل لیوی اسٹراس نے اساطیر کے بارے میں جدید ذہن کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ اس کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ وہ ایک جدلیاتی طرزِ فکر کا مفکر ہے یعنی شروع میں وہ جو ایک پوزیشن اختیار کرتا ہے اسے آگے جا کر خود ہی رد کر دیتا ہے اس کی تحریر کا خلاصہ پیش کرنا مشکل ہے اسی طرح اس کا حوالہ دینا بھی آسان نہیں۔ وہ فرانسیسی مزاج کی ادعائیت سے کام لیتا ہے جس کے پیچھے ایک طنزیہ جھلک بھی نظر آتی رہتی ہے لیوی اسٹراس کی جدلیات میں استہزائیہ جملے بھی ہوتے ہیں۔ مذاق بھی ہوتا ہے اور ایسا سیدھا سادا انداز بھی ہوتا ہے جس کے ساتھ اس کی طنزیہ مسکراہٹ بھی جھلکتی رہتی ہے اس طنزیہ مسکراہٹ میں Malicious مسکراہٹ کا انداز ہوتا ہے ایسا لگتا ہے کہ دلیل کی قوت کو اپنے خیال ثابت کرنے کے لیے نہیں بلکہ مخاطب پر اپنی فوقیت جتانے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے وہ چاہتا ہے کہ اس کے سامعین اس کی مخالفت کریں اور اس طرح وہ انھیں موضوع کی فکر انگیز الجھنوں میں گھسیٹ کر لے آئے۔ تو آئیے آج ہم اپنی گفتگو درمیان ہی سے شروع کر دیتے ہیں یعنی ( Tristes Tropiques) سے ، یہ کتاب علم بشریات کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ایک ماہر بشریات کی سوانح حیات ہے۔ انٹلیکچول سوانح حیات …. اس کتاب کا مرکزی حصہ بشریات کے سلسلے میں فیلڈ ورک کے متعلق ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کتاب کا بیان تاریخ وار نہیں ہے یعنی ( Order Chronological) میں نہیں ہے بلکہ مصنف مجموعی طور پر اپنی زندگی کا جائزہ لیتا ہے۔ کبھی آگے کے واقعات بیان کرتا ہے اور کبھی ان واقعات کو بیان کرتا ہے جو گزر چکے ہیں وہ وسطی برازیل کے سفر کا حال بیان کر رہا ہے۔ یہ سفر اس نے مقامی باشندوں کے حالات معلوم کرنے کے لیے کیا تھا۔
کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے یہ فیلڈ ورک پسند نہیں ہے چنانچہ اپنے اس تحقیقی سفر میں اس نے اپنے موضوع یعنی نسلی جغرافیہ کے بارے میں کم سے کم تحقیقات کی ہیں۔ وہ ان دیسی لوگوں کی زبان سیکھنے کی بھی کوشش نہیں کرتا اور نہ ان لوگوں کے ساتھ اتنی دیر ٹھہرتا ہے کہ ان کے کلچر کا بہ نظر غائر مطالعہ کرسکے وہ وحشی اقوام سے دور ہی رہتا ہے۔
لیوی اسٹراس کو یہ شدید احساس رہتا ہے کہ فرانسیسی وہ پہلی قوم ہے جس نے دوسری قوموں کا مطالعہ کرنا شروع کیا ہے۔ فرانسیسیوں کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ فرانسیسی وہ پہلی قوم ہے جو دوسروں کی نگاہ سے اپنا مطالعہ کرنا چاہتی ہے وہ کہتا ہے کہ ہم ایک استثنیٰ ہیں جو مختلف قوموں کے کلچر میں دلچسپی رکھتے ہیں کیوں کہ ہمیں بنیادی طور پر کلچر میں دلچسپی ہے۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ متمدن زندگی کا حاصل کیا ہے۔ ویسے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کلچر کا کوئی مفہوم نہیں ہے مختلف کلچروں کے تصادم میں یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ کلچر میں دلچسپی لینا ہی کلچر کے مسئلے کا واحد حل ہے۔ لیوی اسٹراس نے فرانسیسیوں کے سلسلے میں کہا ہے کہ ہمارے اپنے کلچر سے بہت زیادہ دلچسپی نہ رکھنا ہی ہمیں کلچر کے سلسلے میں تعصبات سے آزاد ہونے میں مدد دے گا اور اس کی وجہ سے یہ امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم ایک سمجھ میں آنے والی حقیقت سے دلچسپی لے سکیں اور اس طرح ہم تاریخ میں پہلی بار نیچر سے مطابقت پیدا کر سکیں گے اور اس طرح ہماری زندگی کی بنیاد معقول حقیقتوں پر رکھی جا سکے گی۔ لیوی اسٹراس کہتا ہے کہ اس طرح سے ہمارے خیال میں ماہر بشریات ہی جدید زمانے کا ہیرو ہے گویا خود لیوی اسٹراس ہی اپنے آپ کو جدید زمانے کا بیرو سمجھتا ہے لیوی اسٹراس کہتا ہے کہ Tristes Tropiques ہی وہ کتاب ہے جس سے بہتر کتاب کوئی ماہر بشریات کبھی لکھ نہیں سکا ہے۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ لیوی اسٹراس کی اصل ساختیاتی بشریات کے نظریات جن کتابوں سے ظاہر ہوتے ہیں ان میں دو قسم کی کتابیں ہیں ایک تو وہ کتابیں ہیں جن میں قرابت داری اور ٹوٹم ازم کے مسائل ہیں ٹوٹم ازم سے مراد تشخص ہے جو مختلف وحشی قومیں کسی پودے یا جانور کو نشان یا قومی تشخص سمجھ کر اپنا لیتی ہیں جیسے شمال مغربی امریکہ کے کسی قبیلے نے کسی حیوان یا پودے وغیرہ کو اپنے کسی باطنی تعلق کی وجہ سے اپنا نشان بنالیا ہو یا اس کو تشخص کے لیے اپنی علامت بنا لیا ہو۔ ٹوٹم ازم کے علاوہ رسوم و رواج، تہوار اور خور ونوش کے مسائل ہیں دوسری قسم کی کتابیں وہ ہیں جن میں اساطیر کا مطالعہ کیا یعنی اساطیری کہانیوں کے سٹم کا مطالعہ اور صرف اساطیر کے سسٹم کا ہی نہیں بلکہ قرابت داری کے سسٹم کا بھی اور ان میں سے ہر ایک سسٹم کی اکائیوں کے باہمی رابطہ کو دریافت کرنے کی بھی کوشش ہے۔
جب ہم اساطیری کہانیوں کے علامتی عناصر کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ متعین علامتیں ہیں اور یہ کہ ان کی ایک سے زیادہ تعبیریں ممکن ہیں لیکن لیوی اسٹراس یہ بتاتا ہے کہ اصل صورت یہ ہے کہ اسطور میں جب کوئی علامت آتی ہے تو اسطور میں اس کے مقام کے مطابق معانی متعین ہوتے ہیں اور خود سسٹم سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس علامت کے معنی کیا ہیں جس طرح ڈرامے میں کردار کے معنی ڈرامے کے باطن ہی سے متعین ہوتے ہیں اور کردار کو سمجھنے کے لیے ہمیں ڈرامے سے باہر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
جس طرح ساختیات کا بانی سوسیئر ہے اس طرح بشریات پر ساختیات کا اطلاق لیوی اسٹراس نے کیا ہے لیکن ساختیات کے اطلاق سے لیوی اسٹراس کو یہ فائدہ ہوا ہے کہ اس کا نام بھی تمام علمی حلقوں میں زیر بحث آیا ہے اور اب یہ بتانا مشکل ہے کہ ساختیات کی وجہ سے لیوی اسٹراس کی شہرت ہوئی ہے یا لیوی اسٹر اس کی وجہ سے ساختیات کی۔
لیوی اسٹراس۱۹۰۸ء میں پیدا ہوا تھا اور پیرس ہی میں اس کی ابتدائی تعلیم ہوئی وہ ۱۹۳۵ء سے۱۹۳۹ء تک برازیل کی یونیورسٹی Saa Paolo میں پڑھاتا رہا اور وہیں اس نے علم بشریات پر تحقیقات کیں اور پھر۱۹۸۹ء میں وہ کالج ڈی فرانس میں سماجی علم بشریات کا پروفیسر مقرر ہوا۔
لیوی اسٹراس، سوسیئر کی ساختیات سے بہت متاثر ہوا تھا چنانچہ اس نے اپنی تحقیقات میں سوسیئر ہی کا طریقہ کار اختیار کیا۔۱۹۴۹ء میں اس کی کتاب قرابت داری کا بنیادی اسٹرکچر شائع ہوئی تھی پھر ساختیاتی بشریات کی دوجلدیں شائع ہوئیں۔
سوال یہ ہے کہ لیوی اسٹراس اساطیر پر اس قدر غور کیوں کر رہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ انسان کے ذہن کا بنیادی اسٹرکچر کیا ہے۔ اس نے خود کہا ہے کہ اسطور کے ساختیاتی نمونے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی ذہن کا بنیادی اسٹرکچر کس نوعیت کا ہے اس اسٹرکچر سے یہ ظاہر ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے ادارے (Institutions) کس طرح تشکیل دیتا ہے کس طرح زیوریا اوزار وغیرہ (Artefacts) بناتا ہے اور کس طرح اپنے مختلف علوم کی ہئیت کی تشکیل کرتا ہے ساختیات کی وجہ سے شاعری کو سمجھنے میں اس قدر مدد نہیں ملی ہے جتنی فکشن اور اساطیری کہانیوں ، کتھا کہانیوں اور دیو مالا کو سمجھنے میںمدد ملی ہے۔
شاعری میں تو لفظوں کا دروبست، اظہار کی خوبصورتی اور انداز بیان بھی اہمیت رکھتا ہے لیکن شاعری سے زیادہ اساطیری کہانیوں میں کہانی کی اصل اہمیت ہوتی ہے اس لیے اساطیری کہانیوں کا ترجمہ کرنا بھی نسبتاً آسان ہوتا ہے ترجمے میں متھ یا اسطور کی اصل اہمیت ختم نہیں ہوتی کیوں کہ متھ یا اسطور کے ترجمے میں کہانی بہر حال رہتی ہے۔ متھ میں نہ اسلوب اہمیت رکھتا ہے نہ الفاظ کی موسیقیت اہمیت رکھتی ہے بلکہ جیسا کہ خود لیوی اسٹراس کے ساختیاتی بشریات میں بیان کیا ہے۔
’’متھ بنیادی نوعیت کی وہ زبان ہے جس کا معنیاتی Function لسانی اظہار کی کھر دری سطح کے ساتھ چلتا رہتاہے۔‘‘
لیوی اسٹراس کا خیال تھا کہ کلچر کی بنیادی جڑیں اساطیری کہانیوں میں ہوتی ہیں چنانچہ متھ کے تجزیے سے وہ انسانی ذہن کی اصل نوعیت تک پہنچنا چاہتا تھا۔ لیوی اسٹراس کا خیال تھا کہ انسان کی سماجی زندگی کی مختلف جہتوں کو یعنی مذہب، آرٹ وغیرہ کو ان طریقوں سے سمجھا جا سکتا ہے جو جدید لسانیات کی دریافتیں ہیں۔
لیوی اسٹراس نے جو ساختیاتی بشریات کا بانی ہے اپنی کتاب ( Tristes Tropiques) میں اپنی تین محبوباؤں کا ذکر کیا ہے ایک علم ارضیات دوسری محبوبہ اشتراکیت اور تیسری تحلیلِ نفسی۔ محبوباؤں سے مراد تخلیقی تحریک یعنی Inspiration کے ماخذ ہیں۔ اس طرح لیوی اسٹراس یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ تین ماخذ ہیں جن سے اس کے خیالات جنم لیتے ہیں یہ نہیں کہ ان خیالات کی نوعیت کیا ہے ان کی نوعیت تو ساختیاتی طریقہ فکر سے تعلق رکھتی ہے۔
اس کی کتابوں میں موضوعات کا انتخاب، مثالیں، حوالے اور موازنے کے نکات سب غیر روایتی ہیں۔ اس کی کتابوں کے اشاریے سر ریلزم سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے ابواب کے عنوانات اور اساطیر کی کتابوں پر اس کے ابواب کی تنظیم تحقیقی مقالے کی بجائے موسیقی کی کمپوزیشن معلوم ہوتی ہے۔ جس میں Sonata اور Finale جیسے لفظ بھی ملتے ہیں۔ Sonata پیانو کے ایسے راگ کو کہتے ہیں جس میں کئی گنیں ہوتی ہیں لیکن سب گتوں کا سُر ایک سا ہوتا ہے اور Finale کہتے ہیں اس گت یا دھن کو جو او پیرا Opera کے آخر میں بجائی جاتی ہے اس کے علاوہ Overture کا لفظ بھی آتا ہے جو گیت کے آغاز کو کہتے ہیں پھر سمفنی Symphony کا ذکر بھی آتا ہے جو سْروں کے میل کو کہتے ہیں یا ایسے خاص نغمے کو کہتے ہیں جس میں کئی خاص گتیں ایک ساتھ ہوتی ہیں۔
لیوی اسٹراس نے اسلوب کی اس ندرت کے ساتھ صنائع بدائع کو بھی بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لیوی اسٹراس میں تجرید کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ صنائع بدائع کی صلاحیت بھی تھی۔ وہ ٹھوس چیزوں کو اکثر تجریدی خیالات میں تبدیل کر دیتا ہے یا انہیں مجاز مرسل Synechdoche کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
لیوی اسٹراس کہتا ہے کہ شادی بیاہ کے قواعد اور قرابت داری کے سسٹم کو ایک طرح کی زبان سمجھنا چاہیے۔ ایسی زبان جس کے درمیان افراد اور گروہوں کے بیچ ایک خاص قسم کا ابلاغ قائم ہوتا ہے جس میں خواتین بیچ بچاؤ کرنے والیوں کی طرح ہوتی ہیں۔ قبیلوں، خاندانوں، جتھوں اور فرقوں کے درمیان یہ خواتین گردش میں رہتی ہیں جس طرح کسی مخصوص گروپ کے الفاظ گردش میں رہتے ہیں۔
وہ اپنی کتاب قرابت داری کے بنیادی اسٹرکچر میں کہتا ہے کہ عورتوں کی گردش (Circulation) قرابت داری میں مرکزی اہمیت رکھتی ہے لیوی اسٹراس کے مطابق بولنے والوں کی زبان ایک عدد کی حیثیت رکھتی ہے جو صرف یہ ظاہر کر سکتا ہے کہ کیا پیغام دیا جارہا ہے اس کے بر عکس شادی بیاہ کا نظام ایک Work Net کی حیثیت رکھتا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کون سے ذرائع عورتوں کی Circulation کے لیے کھلے ہوئے ہیں (عورتوں کا مقصد حیاتیاتی طور پر تخلیق نو کرتے رہنا ہے
لیوی اسٹراس کی سب سے مشہور کتاب Structural Anthropology ہے اسی میں اس کا مضمون قرابت داری کا بنیادی اسٹرکچر بھی شامل ہے اس کے بعد اس کی دو اور کتابیں شائع ہوئیں۔
The Tote mism
اور
The Savage mind
یہ دونوں کتابیں ۱۹۶۴ء میں شائع ہوئی تھیں اس کے Mythologiques کی چار جلدیں شائع ہوئیں۔
Mind Savage کے آغاز ہی میں لیوی اسٹراس کہتا ہے کہ یہ سمجھنا غلط ہے کہ وحشی قومیں تجریدی فکر کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ دوسرے ماہرین بشریات کا بھی خیال ہے کہ وحشی قومیں اخلاقی اور مابعد الطبیعاتی تصورات رکھتی ہیں لیوی اسٹراس نے اپنے خیال کی تائید میں شمال مغربی امریکہ کی چنوک (Chinook) زبان سے مثال دی ہے مثلاً اس خیال کو کہ ایک برے آدمی نے غریب بچے کو قتل کر ڈالا چنوک (Chinook) زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے کہ انسان کی خرابی نے بچے کے افلاس کو مار ڈالا۔ لیوی اسٹراس کی کتاب Savage Mind سے مراد وہ ذہن ہے جو سوچنے میں کسی قسم کی مدد حاصل نہیں کرتا مثلاً تحریر وغیرہ کی مدد نہیں لیتا۔
لیوی اسٹراس نے اپنی کتاب Mythologiques میں امریکی انڈین اساطیر کی آٹھ سو سے زیادہ اساطیر کا تجزیہ کیا ہے اور دوسری اساطیر کے ساتھ ان اساطیر کا مقابلہ بھی کیا ہے۔ اساطیر کا یہ پورا پھیلا ہوا جال اتنا باریک ہے کہ ان اساطیر کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔
ایک امریکی ماہر بشریات پال راڈن ( Paul Rodin) نے چار اساطیر کا ایک مجموعہ شائع کیا تھا راڈن نے یہ اساطیر وحشی قوموں سے لے کر جمع کی تھیں۔ لیوی اسٹراس کی رائے ہے کہ اس میں چوتھی اسطور قابل غور ہے۔ یہ اساطیر اس سے بھی زیادہ ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں جتنی راڈن نے سمجھا تھا۔ لیوی اسٹراس نے راڈن کی چاروں اساطیر سے دلچسپی لی ہے اس میں چوتھی اسطور دوسری تینوں اساطیر سے بہت مختلف ہے اتنی مختلف کہ پہلی نگاہ میں ایسا لگتا ہے کہ اس اسطور کا تعلق باقی تینوں اساطیر سے کچھ نہیں ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے لیوی اسٹراس نے اس اسطور کا خلاصہ بھی اس طرح پیش کیا ہے:
’’ ایک یتیم بچہ اپنے باپ کی طرح شکار میں اچھی خاصی مہارت رکھتا تھا اور گاؤں کے آخری حصے میں اپنی دادی کے ساتھ رہتا تھا۔ گاؤں کے مکھیا کی لڑکی کی نگاہ جب اس پر پڑی تو وہ لڑکے پر عاشق ہو گئی اور سوچنے لگی وہ مجھ سے چھیڑ چھاڑ کرے گا یا نہیں، آزادیاں لینے کی کوشش کرے گا یا نہیں۔ پیار بھرے لفظ بولے گا یا نہیں۔ لڑکا بھی کچھ ناپختہ کار تھا چنانچہ اس نے بھی لڑکی سے ایک لفظ نہیں کہا اور ادھر لڑکی کی بھی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ کچھ بولے۔ اس طرح وہ عشق میں مبتلا رہی آخر کار بیمار پڑ گئی اور پھر مر گئی۔ اس کی قبر پر مٹی کا ڈھیر جمع کر دیا گیا تاکہ کوئی چیز اس کی قبر میں گھس نہ سکے۔‘‘
بیٹی کے غم میں گاؤں کے مکھیا نے فیصلہ کیا کہ وہ تمام گاؤں والوں کو لے کر ایسی جگہ چلا جائے جو کئی دنوں کے فاصلے پر واقع ہو لیکن وہ یتیم لڑکا گاؤں کے مکھیا کے ساتھ نہیں جانا چاہتا تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ وہاں شکار خاصانہیں ہو گا چنانچہ مکھیا کی اجازت سے وہ لڑکا اپنی دادی کے ساتھ مکھیا کی لڑکی کی قبر کی دیکھ بھال کرنے کے لیے گاؤں ہی میں ٹھہر گیا۔ جانے سے پہلے مکھیا نے اپنے گھر کے فرش پر مٹی پوت دی تھی تاکہ فرش گرم رہے۔
وہ یتیم لڑ کا چونکہ اپنے جانور زیادہ دور لے کر نہیں جا سکتا تھا اس لیے قرب و جوار ہی میں شکار کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنے پرانے گاؤں کا رخ بھی نہیں کیا۔ ایک دن وہ اپنے زخمی شکار کا معمول سے زیادہ دیر تک تعاقب کر کے گھر لوٹ رہا تھا کہ اس نے مکھیا کے گھر میں روشنی دیکھی چنانچہ جب وہ مکھیا کے گھر میں داخل ہوا تو اسے مکھیا کی لڑکی کی روح نظر آئی تب اس روح نے اسے بتایا کہ اس کے مرنے کی اصل وجہ کیا تھی پھر افسوس کرتی رہی کہ اب تک اس کی روح وہاں نہیں پہنچ سکی جہاں مرنے کے بعد روحیں چلی جاتی ہیں۔ مکھیا کی لڑکی کی روح نے اس سے کہا کہ جب تم نیند سے بوجھل آنکھوں کے ساتھ لیٹ جاؤ گے تو یہ محسوس کرو گے کہ کوئی چیز تمھارے جسم پر رینگ رہی ہے۔ لیکن یہ کیڑے نہیں ہوں گے تم انہیں مسلنے کی کوشش نہ کرنا اور نہ جسم کھجانے کی کوشش کرنا۔ غرض یہ کہ راتیں مشکل سے کٹتی تھیں لیکن وہ یتیم لڑکا آزمائش میں پھر بھی کامیاب رہا۔ چنانچہ جو روحیں اسے تنگ کر رہی تھیں آخر کار انہوں نے اس یتیم لڑکے کو چھوڑ دیا۔ اس طرح وہ مکھیا کی لڑکی کو زندہ کرنے میں کامیاب ہو گیا پھر وہ مکھیا کی لڑکی کو زندہ کر کے اپنے گھر لے آیا اور اس سے بیاہ کر لیا۔
جب اس کی اطلاع گاؤں والوں کو ملی تو وہ لوٹ آئے۔ اس نوبیاہتا بیوی کا ایک لڑکا پیدا ہوا اور جب وہ لڑکا تیر چلانے میں ماہر ہو گیا تو اس نے اپنی بیوی سے کہا میں ابھی بوڑھا نہیں ہوا ہوں اور خاصے عرصے میں اس دھرتی پر زندہ رہوں گا۔ میں اس طرح نہیں مروں گا جیسے تم مر گئی تھیں۔ بس میں سید ھے اپنے گھر جاؤں گا۔ اس کی بیوی نے کہا میں بھی تمھارے ساتھ چلوں گی پھر یہ دونوں بھیڑیے بن گئے اور زمین کے اندر رہنے لگے اور جب کوئی انڈین وحشی روزے کے بعد دعا کرتا تو دونوں دعا دینے کے لیے زمین کے اوپر آجاتے۔
لیوی اسٹراس کہتا ہے کہ اساطیر کا تجزیہ ایک کے بعد ایک نہیں ہونا چاہیے بلکہ متعلقہ اساطیر کے گروپ کا ایک حصہ سمجھنا چاہیے۔ راڈن کے مجموعے کی پہلی اسطور کا ترجمہ کچھ اس طرح ہوگا۔
ایک سردار کا بیٹا مقدس ارواح سے قوت حاصل کرنے کے لیے روزے رکھا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ کچھ عرصے کے بعد ان ہستیوں میں اور سردار کے بیٹے میں دوستانہ تعلقات قائم ہو گئے۔
ایک دن سردار کے بیٹے کو بتایا گیا کہ ایک پارٹی لڑائی کے لیے جارہی ہے لیکن اس کا ذکر کسی سے نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود سردار کے بیٹے نے یہ بات اپنے دوست سے کہہ دی چنانچہ دونوں جا کر لڑائی پر جانے والی پارٹی سے مل گئے۔ جنگ میں یہ دونوں بڑی بہادری سے لڑے اور جب لوٹے تو ان کے اعزاز میں بڑی ضیافت کی گئی۔ یہ دونوں بڑے نامور سپاہی بن گئے اور ان دونوں نے شادی کرلی اور گاؤں سے دور اپنے اپنے گھروں میں جا کر رہنے لگے لیکن جب کبھی یہ دونوں گاؤں میں آتے تو ان کی بڑی عزت کی جاتی کیوں کہ ان سے گاؤں والوں کو بہت فائدہ پہنچاتھا۔
ایک دن جب وہ گاؤں والوں کی خاطر کسی مہم پر جارہے تھے ان کا تعاقب کیا گیا اور انہیں قتل کر دیا گیا۔
مرنے کے بعد ان کی روحیں اپنے گاؤں میں واپس آئیں تو یہ دیکھ کر انھیں بہت صدمہ ہوا کہ کوئی ان کو دیکھ نہیں سکتا تھا وہ ان چار راتوں کے جشن میں بھی شریک رہے جو ان کی یاد میں منایا گیا تھا۔ سردار کے بیٹے کا دوست اتنا غمگین ہوا کہ اس نے فیصلہ کیا کہ ہمیں واپسی کا راستہ تلاش کر لینا چاہیے۔ مکھیا کے بیٹے نے کہا کہ بیشک وہ ایسا کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ سفر کی آزمائشوں میں کامیاب ہو جائیں۔ چنانچہ وہ سفر کر کے پہلی روح کے گاؤں میں پہنچے جہاں ان کا خیر مقدم خوبصورت مردوں اور خوبصورت عورتوں نے کیا اور ساری رات ان کے اعزاز میں رقص ہوتا رہا۔ مکھیا کے بیٹے نے بہر حال اپنے دوست کو آگاہ کیا کہ خبردار ان کے ساتھ رقص کے لیے کھڑے نہ ہونا۔ بہر حال یہ تماشا مسلسل چار راتوں تک چلتا رہا پھر رقص کی یہ راتیں تینوں دیہاتوں میں دہرائی گئیں۔ ہر رات رقاصوں اور رقاصاؤں کے ساتھ رقص میں شریک نہ ہونا زیادہ کٹھن لگتا تھا آخرکار یہ کامیاب ہو گئے اور دھرتی کے بنانے والے کے گھر تک پہنچ گئے دھرتی کے بنانے والے نے پوچھا تم لوگ کہاں رہنا چاہتے ہو انھوں نے کہا اپنے پرانے گاؤں میں چنانچہ ان میں سے ہر ایک دوبارہ اپنے گاؤں میں پیدا ہو گیا۔ کچھ دنوں کے بعد ان کی آپس میں ملاقات بھی ہوئی۔ یہ ابھی بچے ہی تھے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا حالانکہ یہ ابھی اتنے کمسن تھے کہ دوسرے لوگ انھیں اپنے ساتھ لے کر چل رہے تھے۔
سوال یہ ہے کہ ان دونوں اساطیر میں کیا چیز مشترک ہے۔ ان دونوں اساطیر میں کردار مرتے بھی ہیں اور دوبارہ پیدا بھی ہوتے ہیں لیکن یہ اشتراک بس یہیں ختم ہو جاتا ہے لیکن ان اساطیر کے کردار، ان کے حالات اور موڈ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں بظاہر یہ اختلافات یوں ہی سے معلوم ہوتے ہیں لیکن اگر ان کو غور سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں مخالف پہلو اوربا ضابطہ تناسب یعنی Symmetry موجود ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.