لکھنؤ کے عہد شباب کی ایک شاعرہ نواب بیگم حجاب
جن حضرات نے تاریخ اودھ کا مطالعہ کیا ہے، وہ اس حقیقت سے بے خبر نہ ہوں گے کہ نواب شجاع الدولہ سے لے کرجان عالم واجد علی شاہ تک زمانہ کیسا رنگین و عیش کوش گزرا ہے۔ یوں تو برہان الملک نواب سعادت علی خاں ہی کے زمانہ سے صوبہ اودھ پر سلطنت دہلی کا کوئی خاص اقتدار قائم نہ رہا تھا لیکن شجاع الدولہ نے تو کھلم کھلا اپنی خود مختاری کاا علان کر دیا اور وہ تمام آزادیاں جو ایک مطلق العنان فرماں روا کی طرف سے ظاہر ہو سکتی ہیں، اس کی طرف سے ظاہر ہونے لگیں۔
اس میں شک نہیں کہ شجاع الدولہ کا زمانہ بد امنی و برہمی کا زمانہ تھا اور کوئی صورت اطمینان و سکون کی ایسی پیدا نہ تھی کہ وہ پوری طرح داد عیش دے سکتا لیکن اس اضطراب و بےچینی کے عالم میں بھی جب اس کو موقع ملا نہیں چوکا، اور اپنے بعد آنے والوں کے لئے اس منزل کی راہ متعین کر گیا جس سے پورا لطف حاصل کرنا قدرت نے واجد علی شاہ کی قسمت میں لکھ دیا تھا۔ بہر حال خدا معلوم سلطنت اودھ کی بنیاد کس ساعت میں ہوئی تھی کہ اس کا ایک فرماں روا بھی جذبہ عشرت و نشاط سے معرا نظر نہیں آتا اور جس وقت اسی سلسلہ میں ہم جان عالم واجد علی شاہ کے عہد پر پہنچتے ہیں تو وہ تمام کہانیاں جو راجہ اندر سے منسوب کی جاتی ہیں، ایک تاریخی حقیقت ہو کر رہ جاتی ہیں۔
یہ مسئلہ حقائق مسلمہ سے ہے کہ فرمانروا کے ذوق و مشاغل کا اثر رعایا پر بہت پڑتا ہے اس لئے اگر واجد علی شاہ کے عہد میں سارا لکھنؤ ایک بلدۂ شعر و موسیقی اک شہر حسن و محبت نظر آتا تھا تو جائے حیرت نہیں کیونکہ خود جان عالم کی زندگی کا کوئی لمحہ اس نشہ جاں بخش سے خالی نہ گزرتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ اس عہد کی شاعری بھی اس سے پوری طرح متاچر ہوئی اور اسکا معیار جلوۂ کوہ طور سے اتر کر نظارۂ لب بام تک آ گیا۔ اور بجائے کیفیتا حقیقت فروش کے جذبات معصیت کوش نظر آنے لگے۔
واجد علی شاہ نہ صرف اچھے مغنی اور بےمثل رقاص تھے بلکہ قادر الکلام شاعر بھی تھے اور اپنے جذبات وخیالات کو بغیر کسی اخفا کے نظم کرنے میں قدرت کاملہ رکھتے تھے۔ انہوں نے ایک ایسی عجیب و غریب فضا لکھنؤ میں پیدا کر دی تھی، جسے روما کے اصنامی دور سے تشبیہ دی جا سکتی ہے اور کوئی گھر ایسانہ تھا جو اس احساس سے خالی رہا ہو، کہ دور شاہ شجاع ست مے دلیر بنوش۔
گھر گھر مجالس لطف و نشاط کا قیام، گوشہ گوشہ میں رندان بادہ کوش کا اژدہام، ہر ہر بام سے حسن دلنواز کی جلوہ فروشی اور ہر ہر گلی میں عشق کی تپش اندوزی، ہر شام کو شب عیش کے اسباب کی فراہمی میں وہ افراط گویا صبح تک زندہ رہنا نہیں اور ہر صبح آئندہ شام کے لئے وہ اہتمام کہ شاید کبھی مرنا نہیں۔ گدا سے لے کر شاہ تک کی آنکھ میں سرسوں پھولی ہوئی تھی اور جدھر دیکھئے قاقم و سنجاب کے پردوں کی اوٹ میں ایرانی قالینوں پر حریری چادروں کے اندر حسن و شباب اس طرح مدہوش پڑے تھے جیسے اس رات کی کبھی صبح ہونا ہی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جب سارا شہر اس رنگ میں رچا ہو تو خود جان عالم نے حسن و شباب سے انتقام لینے کے لئے کیا کچھ نہ کیا ہوگا اور اس کے ماحول میں جتنی بھی رنگینی رہی ہو، کم ہے۔
جان عالم کے حریم خاص میں جن نازنینان پری پیکر کا ہر وقت جمگھٹ رہتا تھا، ان میں سے ہرایک بادشاہ کے ذوق کو پورا کرنے والی تھی اور یہی سبب ہے کہ ان میں مغنیہ اور شاعرہ اکثر تھیں۔ بادشاہ کے محلوں کے علاوہ شاہی خاندان کی خواتین اور امرا زادیاں بھی اس ذوق سے خالی نہ تھیں اور انہیں میں سے ایک شاہ غازی الدین حیدر کے وزیر نواب معتمد الدولہ بہادر کی پوتی اور داروغہ اعظم علی خاں کی بیٹی تھی، جس کا نام نواب بیگم عرفیت چھوٹی بیگم اور تخلص حجابؔ تھا۔
بعض تذکرہ نویسوں نے جن میں سے ایک ہمارے عزیز دوست مولوی عبدا لباری آسی بھی ہیں، لکھا ہے کہ یہ واجد علی شاہ کی بیوی تھی، اور مٹیا برج ان کے ساتھ گئی تھی، حالانکہ یہ بالکل خلاف حقیقت ہے۔ نواب بیگم کا نہ واجد علی شاہ کے نکاح میں آنا تاریخ سے ثابت ہے اور نہ حرم میں داخل ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ تذکرہ چمن انداز میں واجد علی شاہ کی ایک بیوی کا ذکر جس کا تخلص عالم تھا، حجاب کے تحت میں کر دیا ہے اور اس کے بعد ہی نواب بیگم حجاب کا ذکر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جناب آسی نے دونوں حجاب کے واقعات و حالات کو ایک کر دیا اور اس طرح یہ غلطی رونما ہوئی۔
نواب بیگم حجاب کا دیوان جس میں 105 غزلیں مع تین تضمینوں اور دو چار قطعات و رباعیات کے پائی جاتی ہیں، 1290 میں مطبع حسینی اثنا عشری لکھنؤ میں حسب ارشاد نواب مرزا علی امجد خاں قیصر معروف بہ مرزا نبیرہ نواب احمد علی خاں خزانہ دار نواب آصف الدولہ طبع ہوا اور اس کا تاریخی نام تحریر عاشق رکھا گیا جس سے 1289 کے عدد نکلتے ہیں۔ یعنی 1289ھ میں یہ دیوان مرتب ہو ا اور 1290 میں چھپ کر تیار ہوا۔ چونکہ حجاب کی ولادت 1259ھ میں ہوئی تھی جیسا کہ اس کے تاریخ تولد اور سجع کے حسب ذیل شعر سے ظاہر ہوتا ہے۔
وقت نزول آیہ تطہیر کھل گیا
زہرا کو آج رب نے کیا اشرف النساء
اس لئے طبع دیوان کے وقت حجاب کی عمر 30 سال کی ہوگی۔ حجاب کے دیوان میں ایک مخمس، واجد علی شاہ کی بیوی عالم کی غزل پر بھی پایا جاتا ہے اور شروع میں عالم کے بعد ’’اعلی اللہ سلطنتہا‘‘ کے الفاظ بھی درج ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نواب بیگم حجاب واجد علی شاہ کی بیوی نہ تھی ورنہ وہ اپنی سوکن کی غزل پر تضمین نہ لکھتی اور لکھتی بھی تو مساوی درجہ رکھنے کی حیثیت سے ’’اعلی اللہ سلطنتہا‘‘ کے الفاظ کا اضافہ نہ کرتی۔ حجاب کا یہ دیوان اب کمیاب ہے اور بالکل اتفاق سے ہاتھ آ گیا ہے، اس لئے مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کا مختصر سا انتخاب دے دیا جائے۔ حجاب کا رنگ شاعری وہی ہے جو اس زمانہ میں ہر جگہ نظر آتا تھا لیکن بعض بعض اشعار خوب ہیں۔ حجاب خود شاعر ہ تھی۔ اس کے ثبوت میں صرف ایک غزل پیش کرنا کافی ہے جوشروع سے اخیر تک نسائی لب و لہجہ اور نسائی جذبات سے معمور ہے۔ وہ غزل یہ ہے۔
خفا ابھی سے نہ ہو مدعا سنو تو سہی
قبول کرنا نہ کرنا بھلا سنو تو سہی
رقیبوں کی تو شب وروز سنتے ہو باتیں
ہماری بھی کبھی اے مہ لقا سنو تو سہی
نہیں یہ خوب کہ سنتے نہیں کسی کی تم
دیکھو تو کہ میں کہتا ہوں کیا سنو تو سہی
خطا تو میری بتاؤ جو روٹھے جاتے ہو
بگڑتے کس لئے ہو کیا ہو ا سنو تو سہی
جواب دو کہ نہ دو اے بتو نہیں پروا
کہوں جو کچھ وہ برائے خدا سنو تو سہی
نہ رحم آئے جو تم کو تو میری قسمت ہے
تم اپنے دل سے مری التجا سنو تو سہی
معاف کرنے کو کہتا نہیں میں صاحب سے
یہ چاہتا ہوں کہ عذر خطا سنو تو سہی
حجاب کو تو زمانہ میں جانتے ہیں سب
مگر جو کہتے ہیں تم کو ذرا سنو تو سہی
بعض بعض شعر لکھنوی رنگ سے ہٹ کر کہے گئے ہیں اور خوب ہیں۔ مثلاً
آگ سے بھی ہے زیادہ بےقراری ان دنوں
شکل پہچانی نہیں جاتی ہماری ان دنوں
جو اس نے کہا، گو وہی کرتے گئے ہم تو
اس پر بھی نگاہوں سے اترتے گئے ہم تو
وہ خلق سے پیش آئے یہ تھی ان کی عنایت
گردن کو جھکائے ہوئے ڈرتے گئے ہم تو
خود کبھی پوچھیں وہ احوال یہ عادت ہی نہیں
ہم جو کچھ آپ سے کہتے ہیں گلا ہوتا ہے
خط دلدار کے آنے سے کیونکر دل مرا ٹھیرے
خدا جانے کہ پھر وقت ملاقات اس سے کیا ٹھیرے
رہے بت خانہ میں برسوں نہ کعبہ میں ذرا ٹھیرے
غرض تھی دل کے بہلا نے سے جس جا دل لگا ٹھیرے
کہیں گے اس کو نہ اچھا برا حجا ب کبھی
بیان کریں گے کسی سے نہ اپنے یار کا حال
ذیل کے اشعار خصوصیت کے ساتھ قابل داد ہیں۔ مثلاً،
میں نے تو کوئی بات نہیں ایسی کہی تھی
غیروں سے بھرا تھا کہ جو وہ بندہ پہ برسا
تم سے بتلائیں کیا کہ فرقت میں
صدمے دل پر گزرتے ہیں کیا کیا
بت کو خوف خدا حجاب نہیں
ہم صنم سے بھی ڈرتے ہیں کیا کیا
اے حجاب آج تو سوتا ہے یہ غافل کیسا
بخت جاگے ہے ذرا یار کو دیکھا ہوتا
دامن محبوب تک پہنچا نہ جب دست جنوں
بڑھ گیا نا چار اپنے ہی گریباں کی طرف
مہینوں ہو گئے صاحب کہا ں تک آزماؤ گے
گلے لگ جاؤ کیا ہر روز کا جھگڑا نکالا ہے
گل پھولے ہیں اس شوخ نے مہندی جو ملی ہے
جو پور ہے انگلی میں وہ لالہ کی کلی ہے
اس زمین کا یہ شعر خصوصیت کے ساتھ قابل تحسین ہے،
کچھ خوف خدا کیجئے اس طرح نہ چلئے
سو بار تو اس چال پہ تلوار چلی ہے
تذکروں میں اس کا صرف ایک یہ شعر نظر آتا ہے،
بن کے تصویر حجابؔ اس کو سراپا دیکھو
منہ سے بولو نہ کچھ آنکھوں سے تماشا دیکھو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.