’’لکھنؤ کی پانچ راتیں‘‘ ایک رومانی اور انقلابی داستان
علی سردار جعفری اردو کے جتنے اہم شاعر ہیں اتنے ہی کامیاب نثر نگار بھی۔ ان کا ہر نثر پارہ تخلیق کا درجہ رکھتا ہے اور تخلیقی نثر بقول قاضی عبدالستار، ’’موضوع کے بیج سے درخت کی طرح پھوٹتی ہے اور شاخ پر پھول کی طرح پھولتی ہے۔ تخلیقی نثر کسی رنگ کی بھی پابند نہیں ہوتی۔ تخلیقی نثر پہاڑوں کی وہ برف ہے جو موضوعات کے سورج کی ہر کرن سے رنگ مانگ لیتی ہے اور صدرنگ ہو جاتی ہے۔‘‘
(تخلیقی نثر۔ اردو فکشن، ص، 384)
قاضی صاحب کا یہ قول سردار جعفری کی نثر پر صادق آتا ہے۔ علی سردار جعفری نے جس موضوع پر بھی اظہار خیال کیا تو نہ صرف یہ کہ اس موضوع کے ہر پہلو کو نہایت گہرائی، بصیرت اور دقت نظر کے ساتھ پیش کیا بلکہ ان کی شگفتہ اور دلکش نظر بھی تخلیقی نثر کے روپ میں صفحۂ قرطاس پر نور بن کر بکھر گئی۔ اس کی بہترین مثال ماضی کی یادوں پر مشتمل ان کی تحریر ’’لکھنؤ کی پانچ راتیں’’ ہے۔ یوں تو یہ پانچ راتوں کی مختصر سی داستان ہے مگر اس میں انکشافِ ذات بھی ہے اور روح عصر بھی۔ دراصل انسان نے جب اپنے اطراف کی دنیا کو پہچاننا شروع کیا تو اسے کائنات کے مختلف اجزا میں اپنی ذات کا عکس نظر آیا۔ اس نے اپنے سائے کی شناخت کی، دھندلے پانیوں میں اپنے چہرے کو دیکھ کر خود سے شناسا ہوا اور پھر ایک دن وہ ترقی کی اس منزل پہنچ گیا جہاں اس کے ہاتھوں صاف شفّاف آئینے کی ایجاد ہوئی۔
آئینہ اپنے خارجی پیکر کو دیکھنے اور پہچاننے میں تو مددگار ثابت ہوا لیکن ذات کے اندرون میں داخل ہوکر اسے سمجھنے گویا کہ عرفانِ ذات حاصل کرنے کی تشنگی اور خواہش ابھی باقی تھی۔ اس کے لیے مادی وسائل کی نہیں، ذہنی، فکری اور روحانی وسیلوں کی ضرورت تھی۔ ان وسیلوں کی تلاش اس وقت مکمل ہوئی جب اس نے فنونِ لطیفہ میں مشاقی اور مہارت حاصل کر لی۔ لہٰذا سنگ تراشی، موسیقی، رقص، مصوری، فلسفے اور ادب نے اس کے اندر ادراک، انکشاف اور عرفان کی صلاحیت پیدا کر دی۔ کبھی اس نے دنیا کے حوالے سے خود کو سمجھا اور کبھی اپنی ذات کا مکمل عرفان ہو جانے کے بعد اس پر دنیا کے سربستہ راز عیاں ہو گئے۔ اس کے تخیل نے آنے والے زمانوں کی سیر کی تواس کی یادداشتوں نے گزرے ہوئے زمانے کوروشن اور زندہ رکھا۔
ایک فنکار کے لیے کبھی کبھی آفتاب کی روشنی سے زیادہ روشن رات کی تاریکی ہوتی ہے۔ سردار جعفری کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ پانچ راتوں کے دھندلکے میں جو کچھ انھوں نے دیکھا اور تخلیقی نثر کے پیرائے میں بیان کیا، وہ قارئین کے ذہن و دل کو منور کرنے کے لیے کسی آفتاب کی روشنی سے کم نہیں۔
علی سردار جعفری شاعری کریں یا نثر لکھیں وہ ہمیشہ قلم کی اہمیت، طاقت اور اس کے تقدس کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے ہمیشہ قلم کے ہاتھوں کا تقدّس، ذہن کی عظمت اور قلب انسانی کی وسعت سمجھاہے اور قلم کے بنائے ہوئے ہر نقش کو سجدہ کیا ہے، اس لیے قلم جھوٹ بولتا ہے، یا چوری کرتا ہے تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میرے ہاتھ گندے ہو گئے ہیں۔ میں ہرادیب سے یہ توقع کرتا ہوں کہ وہ اپنے قلم کا احترام کرےگا کیونکہ اس کے نفس کی عزت اور شرافت اسی طرح برقرار رہ سکتی ہے۔‘‘
(لکھنؤ کی پانچ راتیں، ص، 12)
علی سردار جعفری اس کتاب کا آغاز تحریر کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے اس خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ ان کا اسلوب تخلیقی اور پرکشش نثر کا اعلیٰ نمونہ قرار پاتا ہے۔ فرماتے ہیں،
’’مجھے انسانی ہاتھ بڑے خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی جنبش میں ترنم ہے اور خاموشی میں شاعری۔ ان کی انگلیوں سے تخلیق کی گنگا بہتی ہے۔ یہ وہ فرشتے ہیں جو دل و دماغ کے عرشِ بریں سے وحی والہام لے کر کاغذ کی حقیر سطح پر نازل ہوتے ہیں اور اس پر اپنے لافانی نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کاغذوں کو دنیا نظم اور افسانہ، مقالہ اور کتاب کہہ کر آنکھوں سے لگاتی ہے اور ان سے روحانی تسکین حاصل کرتی ہے۔‘‘
(لکھنؤ کی پانچ راتیں، ص، 11)
’’لکھنؤ کی پانچ راتیں’’ درحقیقت پانچ حصّوں میں تقسیم چند نوجوان انقلابیوں کی ایک رومانی داستان ہے۔ یہ انقلابی نوجوان اردو ادب کی اہم شخصیتیں ہیں۔ مجاز، جذبی، فیض، جذبی، ن م اشد، مخدوم، جاں نثار اختر، سبط حسن اور خود علی سردار جعفری۔ ان پانچ راتوں کے واقعات میں مجاز کا تذکرہ کتنا ہی کم اور مختصر کیوں نہ ہو مگر قاری کو بخوبی احساس ہو جاتا ہے کہ یہ مجاز کی زندگی پر لکھے گئے پانچ افسانے ہیں، جواپنے آپ میں الگ بھی ہیں اور پانچوں مل کر ایک ایسے سوانحی ناول کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو طوالت کے اعتبار سے مختصر ہے اور روداد کے لحاظ سے مکمل۔
تمام راتوں کی مانند پہلی رات کی رومانی فضا میں بھی چند ترقی پسند ادیبوں کی کارگزاریوں کی تفصیلات ہیں لیکن اسرارالحق مجاز مرکزی کردار کی طرح اس بات کے مختلف واقعات میں یوں موجود ہیں جیسے سردار جعفری نے رومانی شاعر مجاز کے انقلابی رویوں، شاعرانہ بے نیازیوں اور فن کارانہ طرز حیات کی داستان بیان کرنے کے لیے ہی اس نثر پارے کی تخلیق کی ہو۔ وہ لکھتے ہیں،
’’ہماری بغاوت کا انداز رومانی اور انفرادی تھا، جس کا سب سے حسین پیکر مجاز کی دل آویز شخصیت تھی۔ یہ پوری شخصیت اس کی نظم ’’آوارہ‘‘ اور ’’اندھیری رات کے مسافر‘‘ میں موجود ہے اور اس کے بکھرے ہوئے جلوے ان راتوں میں نظر آتے ہیں، جن میں سے پانچ راتوں کا انتخاب یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔‘‘ (ص، 39)
کتاب کا عنوان تو ’’لکھنؤ کی پانچ راتیں’’ ہے مگر اس میں علی گڑھ، لکھنؤ، بمبئی اور دیگر شہروں کے دورانِ قیام ترقی پسند نوجوانوں کی سرگرمیوں، کامرانیوں، ناکامیوں، محرومیوں، قربانیوں اور ان کے بےباک طرز اظہار اور انقلابی نقطۂ نگاہ کو نئے، انوکھے اور دل کش افسانوی پیرائے میں پیش کرنے کا نہایت کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔
دوسری رات کا فسانہ نئی صبح کے متمنی ترقی پسند نوجوانوں کی بے پناہ صعوبتوں اور ان کے بلند ارادوں کے امتزاج پر مبنی ہے۔ سبطِ حسن، سردار جعفری اور مجاز تینوں مل کر لکھنؤ سے ایک رسالہ ’’نیاادب‘‘ نکالتے تھے۔ یہ رسالہ ہندوستان کے روشن مستقبل کی امیدوں کا مظہر تھا۔ فیض کی نظم ’’موضوع سخن‘‘ اسی رسالے میں شائع ہوئی تھی، جس کا یہ شعر عوام کے افسردہ دلوں میں حوصلوں اور تمناؤں کی شمعیں روشن کر رہا تھا،
گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
دھل کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات
مگر ابھی رات کے کئی پہر باقی تھے۔ ’’نیا ادب‘‘ فروخت کرنے، ایسی ہی ایک رات، سردار جعفری، سبط حسن اور مجاز کے ساتھ شہر کی جگمگاتی جاگتی سڑکوں پر دن بھر کے بھوکے پیاسے دربدر مارے مارے پھرے لیکن تمام تر ناکامیوں کے باوجود مجاز کے رومانی مزاج اور دشواریوں سے نبرد آزما ہونے کے انداز کا ذکر استعاروں اور اشاروں کی زبان میں علی سردار جعفری یوں کرتے ہیں،
’’شام ڈھل کر رات ہو چکی تھی اور فضا میں رات کی رانی کی خوشبو پھیل گئی تھی، سڑک سنسان تھی، میں اور سبط حسن دونوں خاموش تھے اور مجاز زیرِ لب گنگنا رہا تھا،
رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ میخانے میں چل
پھر کسی شہناز لالہ رخ کے کاشانے میں چل
یہ نہیں ممکن تو پھر اے دوست ویرانے میں چل
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
سبط حسن نے مجاز کو دو تین بار کنکھیوں سے دیکھا اور پھر جل کر کہا، ’’ویرانہ دل میں ہوتا ہے باہر نہیں۔‘‘ (ص، 46)
آخرکار جب یہ تینوں ناکام و ناشاد گھر واپس آئے تو معلوم ہوا کہ ’’تین سو کا منی آرڈر آیا ہے اور وہ بھی تار کے ذریعے سے جو ہماری عدم موجودگی میں (ملازم) محمد نے وصول کر لیا تھا۔ کانپور کے طالب علموں اور مزدوروں نے ’’نیا ادب‘‘ کے پچاس خریدار بنائے تھے اور کچھ عطیات جمع کیے تھے۔‘‘ اس سرگذشت کے پلاٹ کی تشکیل سے ثابت ہوتا ہے کہ مصنف افسانہ نگاری کی ان فنی ہنر مندی اور باریکیوں کو نہایت سلیقے اور کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہا ہے، جہاں آخری واقعے کے لیے ہی پورے قصّے کی تخلیق ہوتی ہے۔ اس حصے کا اختتام طربیہ ہے مگر Open-Ended بھی ہے کیوں کہ اس کے بعد کے حالات کی تاریکی بھی اس روشنی کی کرن میں پوشیدہ ہے۔ یہ افسانہ نگاری کا انتہائی اعلیٰ فن ہے۔
تیسری رات کا ایک واقعہ انقلاب اور رومان کی انوکھی مثال ہے۔ جہاں بغاوتیں بھی ہیں اور قید خانے کی ذلتیں بھی۔ سرفروشیاں بھی ہیں اور نشۂ عشق کی سرمستیاں بھی۔ لکھتے ہیں، یونیورسٹی کی ہڑتالوں کے علاوہ فوجی بھرتی کے خلاف میری نظم بھی سرکار کی نگاہوں میں قابلِ اعتراض تھی۔۔۔ آخر ایک دن مجھے اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی ایک ضروری میٹنگ کے لیے یونیوسٹی کے علاقے سے باہر نکلنا پڑا، میٹنگ کے بعد جب میں گنگا پرشاد میموریل ہال کی سیٹرھیوں سے نیچے اتر رہا تھا تو سی آئی ڈی کے ایک انسپکٹر نے مجھے گرفتار کر لیا، مقامی تھانے میں میری تلاشی لی گئی، تو میری جیبوں سے سیاسی دستاویزوں کے بجائے چند تصویر بتاں، چند حسینوں کے خطوط کے قسم کی چیزیں باہر نکلیں، میرے اصرار اور احتجاج کے باوجود پولیس انسپکٹر نے کسی لڑکی کے ہاتھ کا لکھا ہوا محبت نامہ اور اس کی تصویر واپس کرنے سے انکار کر دیا، گرفتاری کی مجھے پروا نہیں تھی، لیکن وہ خط اور وہ تصویر۔۔۔ یہ اپنی جگہ ایک دنیا تھی، جو صرف میری تھی اور اس میں کسی اجنبی کو داخل ہونے کا حق نہیں تھا۔‘‘ (ص، 54)
چوتھی رات کے واقعات کولاژ کی شکل میں اس فنکاری کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں کہ مصنف اور ان کے ہم عصروں کی شخصیت اور ان کے فکر و فن پر بھرپور روشنی پڑ سکے۔ یہ مختصر حصہ رومان اور انقلاب کی ایک طویل داستان بن جاتا ہے اور نہ صرف یہ کہ قارئین ان ترقی پسند نوجوانوں کی انقلابی روداد سے واقف ہو جاتے ہیں بلکہ ان کی داخلی کیفیات و نفسیات اور ان کے نظریات و خیالات سے بھی پوری طرح آشنا ہو جاتے ہیں۔
ہرچند کہ ’’لکھنؤ کی پانچ راتیں’’ سچے واقعات پر مبنی کتاب ہے لیکن اس میں تخلیقی ادب بالخصوص فکشن کی سبھی فنی خوبیاں موجود ہیں۔ منظرکشی، شعور کی روکی تکنیک، آزاد تلازمۂ خیال، فلیش بیک، مونتاژ، مکالمے، فلسفۂ حیات، انسانی نفسیات، نقطۂ عروج اور پانچویں یعنی آخری رات کی شکل میں مجاز کی اندوہ ناک مگر رومانی داستان حیات کا مؤثر اختتام۔
آخری واقعہ سردار جعفری یوں بیان کرتے ہیں، واپس نہ پہنچنا مجازؔ کی برسوں پرانی عادت تھی۔ اس کی ماں روز رات کو اس کے بستر کے سرہانے ایک میز پر کھانا، قینچی سگریٹ کی ایک ڈبیہ اور اٹھنی رکھ دیتی تھی تاکہ مجاز کسی عالم میں آئے اسے تکلیف نہ ہو، رکشا والے بھی واقف تھے اور وہ اکثر مجاز کو گھر پہنچا کر بستر پر لٹا دیتے تھے اور سرہانے رکھی ہوئی اٹھنی اٹھالے جاتے تھے۔ آج ہم اس کی لاش لے کر اس کے گھر پہنچے تو چارپائی کا رخ بدلا ہوا تھا، سرہانے میز پر کھانا نہیں تھا، تکیے کے پاس قینچی سگریٹ کی ڈبیہ اور اٹھنی بھی نہیں تھی، پلنگ کے پاس زمین پر بیٹھی ہوئی بوڑھی ماں اس کا انتظار کر رہی تھیں، برسوں کا کھویا ہوا بیٹا گھر واپس آ گیا تھا، ہمیشہ کے لیے۔
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے اپنے پرانے شاعر طالب علم کو آخری اور سب سے بڑا خراج عقیدت اس طرح پیش کیا کہ اس کے طالب علمی کے زمانے کی ایک نظم کو یونیورسٹی کا سرکاری ترانہ بنا لیا۔ مجازؔ کی قبر پر اس کا اپنا ایک شعر لکھا ہے،
اب اس کے بعد صبح ہے اور صبح نو مجازؔ
ہم پر ہے ختم شام غریبان لکھنؤ (85)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.