مابعد جدیدیت، کچھ روشن زاویے
مابعد جدیدیت یعنی جدیدیت کے بعد کے ادبی منظر نامہ کی بحث اب اردو کے تقریباً تمام رسائل وجرائد میں پھیل چکی ہے۔ نئے اور پرانے لوگ اس میں شریک ہیں۔ پرانے رسالوں مثلاً شاعر، شب خون، کتاب نما، سب رس، ایوان اردو، افکار، فنون، اوراق وغیرہ میں بھی ان بحثوں کی گونج دیکھی جا سکتی ہے۔ ویسے تو یہ بحث ماہ نو، شعروحکمت اور سوغات سے شروع ہوئی تھی، پھر اسے صریر اور دریافت نے آگے بڑھایا اور اب نسبتاً نئے پرچے، نیا ورق، ذہن جدید، استعارہ، بادبان، تسطیر، آئندہ، مکالمہ بھی اس میں شریک ہیں۔
تھیوری کے مباحث خاصے پیچیدہ اور فلسفیانہ ہیں۔ جو لوگ کھلے ذہن سے ادبی مسائل پر غور کرنا چاہتے ہیں وہ ان مسائل میں حصہ لے رہے ہیں لیکن جن کا تعلق کسی سابقہ اسٹبلشمنٹ سے ہے یا جن کو یہ وہم ہے کہ مابعد جدیدیت کی کشادہ نظری سے ان کے مفاد پر چوٹ پڑتی ہے وہ اپنے تحفظات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ بحث میں ہمیشہ طرفیں ہوتی ہیں اور ادبی اختلافات میں بحث ومباحثہ اور مکالمہ ضروری ہے، لیکن خرابی وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں مباحث کو ذاتی رنگ دے دیا جائے یانکات کو سمجھے بغیر مخالفت برائے مخالفت یا اعتراض برائے اعتراض کیا جائے۔ اس نوع کی فضا ذہنی تعصب کو راہ دیتی ہے جہاں صرف جذبات کی شدت کارفرما ہوتی ہے۔ یہ علمی مکالمے کی نفی ہے جس سے ادب کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان پہنچتاہے۔
ادبی مکالمے کے لیے ضرورت علمی دلائل اور عقل ومنطق کی ہے لیکن جذبات راستہ روک لیتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ غلط معلومات یا سنی سنائی کی بنا پر یاپوری طرح پڑھے سمجھے بغیر سابقہ بیانات کو غلط طریقے سے پیش کرکے یا چیزوں کو سیاق وسباق سے الگ کرکے ان کو غلط معنی پہنائے جاتے ہیں۔ اس سے انتشار پھیلتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود نئی پیڑھی کے ادیب و شاعر اپنی الگ شناخت پر اصرار کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اردو میں جدیدیت بے اثر نہیں ہو چکی یا بیگانگی اور شکست ذات کا ایجنڈا ازکار رفتہ نہیں ہو چکا۔ اسی طرح یہ بھی سبھی کہتے ہیں کہ پرانی ترقی پسند ی بھی بے معنی ہو چکی ہے اور فارمولہ سازی اور نعرے بازی کی ادب میں کوئی گنجائش نہیں۔
مابعد جدیدیت کو سمجھنے میں اس لیے بھی دقتیں پیش آتی ہیں کہ یہ کوئی بندھا ٹکا نظریہ نہیں، بلکہ نظریوں کارد ہے۔ اس کی رو سے کوئی نظریہ کافی وشافی نہیں بلکہ ہر نظریے میں اس کے رد کی گنجائش بھی ہوتی ہے۔ یہ رویہ سابقہ رویوں سے خاصا مختلف ہے۔ جو اذہان نظریوں کا بُت بناتے ہیں اور نظریے میں ہر درد کی دوا ڈھونڈنا چاہتے ہیں، ان کو مابعد جدیدیت کی بت شکنی اور آزادگی آسانی سے سمجھ میں نہیں آتی۔ اس سے پہلے کے رویے آسان اور سادہ تھے۔ مثلا ترقی پسندی اور تحریک آزادی کو پہلو بہ پہلو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں تھا۔ عوامی جدوجہد، انقلاب، سامراج دشمنی، وطنیت، قومیت، آزادی کی امنگ، جمہوری بیداری وغیرہ۔ ادب میں ان کی تعبیر ڈھونڈنا ایک بنی بنائی شاہراہ تھی۔ جدیدیت ذات اور داخلیت کے مسائل لے کر آئی۔ اجنبیت، بیگانگی، بے چہرگی، خواہش مرگ، یاسیت، یعنی وہ مسائل جو وجودیت کے زیر اثر آئے تھے، ان کا سمجھنا بھی آسان تھا۔
آج کا منظر نامہ اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے۔ پچھلے بیس تیس برسوں میں انسانی سوچ میں اتنی تبدیلیاں ہوئی ہیں کہ پہلے سے بہت سی چیزوں پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ بہت سی معمولہ حقیقتیں جو انسان کی اصلاح وفلاح کی ضامن سمجھی جاتی تھیں، اب شک کی نظروں سے دیکھی جانے لگی ہیں۔ تاریخ کا سفر ترقی کی راہ میں ہے یا نہیں، انسانیت کا مستقبل، ذات کی مرکزیت، معنی کی کشاکش، زبان کی اسراریت، ادب کی نوعیت وماہیت، متن کی خودکفالت، قاری کی فعالیت، ان سب سوالوں کی طرفیں کھل گئی ہیں، اور یہ سب بحثیں مابعد جدید منظرنامے کاحصہ ہیں۔
نیز بہت سے دوشاخے رشتوں کی تفریقیت اور ان کی فوقیتی ترتیب پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ مثلاً حاشیہ؍ مرکز، عورت؍ مرد، لاشعور؍ شعور، خود؍ غرخود، زبان؍ تحریر، حاضر معنی؍ غائب معنی کی Hierarchies کا ٹوٹنا۔ یہ چیلنج بنیادی طور پر ردتشکیلی ہے جیسا کہ نسوانیت کی تحریک یادلت ساہتیہ میں ملتاہے یا دیسی وادیا پوسٹ کالونیل ازم جو آزادی کے بعد جڑوں پر اصرار سے عبارت ہیں یا کولونیل اثرات کو Decolonise کرنے کے خواہاں ہیں۔ سب اسی فکر کے مختلف ابعاد ہیں۔ ان سب کو ایک کھلے ڈلے فکری اور تخلیقی رویے کے طور پر دیکھنا دکھانا اور ادب میں ان کے اثرات سے بحث کرنا اتنا آسان اور براہ راست نہیں ہے جتنا اب سے پہلے کی ادبی تحریکوں اور رویوں میں تھا۔ پھر یہ بھی کہ سابقہ تحریکیں ایک دوسرے کی ضد تھیں اور ایک دوسرے کے خلاف رد عمل کے طور پر سامنے آئیں۔
مابعد جدیدیت نہ کسی کی ضد ہے نہ کسی کے خلاف ردعمل ہے۔ اس کی بنیاد گہری سوچ اور گہری بصیرتوں پر ہے جن کو کھلے ذہن ہی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ مابعد جدیدیت سے جدیدیت کی کچھ باتوں پر زد پڑتی ہے لیکن فی نفسہ مابعد جدیدیت جدیدیت کے خلاف نہیں، اور نہ ہی اس نے کوئی محاذ کھولا ہے۔ اس کے مقدمات اور سروکار بالکل دوسری نوعیت کے ہیں۔ جو لوگ مابعد جدیدیت کو ترقی پسندی یا جدیدیت کی ضد یا ان کے بدل کے طور پر سمجھنا چاہتے ہیں وہ غلط راہ پر ہیں، اس لیے ان کو مایوسی ہوتی ہے۔ مابعد جدیدیت کو کسی کی ضد کے طور پر نہیں بلکہ خود اس کے مقدمات کی بنا پر سمجھنا چاہیے۔
فلسفہ فلسفہ ہے اور ادب ادب
ادب اور فلسفے کے رشتے کے بارے میں خلط مبحث عام ہے۔ حالانکہ کون نہیں جانتا کہ ادب ادب ہے اور فلسفہ فلسفہ۔ لیکن موجودہ منظرنامے پر اکثر و بیشتر ادب کی توقعات فلسفے سے قائم کر لی جاتی ہیں اور فلسفے کے سوال ادب سے پوچھے جاتے ہیں۔ اگر سابقہ تحریکوں کو غور سے دیکھیں تو ادب اور فلسفے کے جوڑ کی واضح تصویر سامنے آتی ہے۔ ایساہی اس وقت بھی ہے لیکن شاید چونکہ فلسفے یعنی فکری رویے ایک سے زیادہ ہیں اس لیے سمجھنے سمجھانے میں دقت ہوتی ہے۔ ادب کے ہر دور میں ذہنی فضا فلسفے سے بنتی ہے اور ادب میں اس کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً ترقی پسند ی کے زمانے میں فلسفہ مارکسزم کا تھا اور اس کے تحت جو ادب تخلیق ہوا اس کو اصطلاحاً ترقی پسند کہا گیا۔ اس کے بعد حاوی فلسفہ وجودیت کا تھا، اس کے تحت جو ادب تخلیق ہوا اس کو اصطلاحاً جدیدیت کہا گیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ساختیات کے بعد پس ساختیات، مظہریت، ردتشکیل، نوتاریخیت، یہ سب اس دور کے حاوی فلسفے ہیں اور آج جو تخلیقی فضا بن رہی ہے، اس کے لیے اگر ایک اصطلاح استعمال کی جائے تو وہ مابعد جدیدیت ہے۔ اس فرق کو ذیل میں دوکالموں میں دکھایا گیا ہے کہ فلسفہ فلسفہ ہے اور ادب ادب،
فلسفہ ادب
مارکسزم ترقی پسندی
وجودیت جدیدیت
پس ساختیات، مظہریت، رد تشکیل مابعد جدیدیت
نوتاریخیت، فیمنزم
ظاہر ہے کہ پس ساختیاتی فکر ہو، مظہریت یارد تشکیل، یہ سب فلسفے ہیں، یہ تخلیقی ادب نہیں۔ لیکن اردو میں ہو یہ رہا ہے کہ فلسفیوں کا نام لے کر تخلیقی ادب کو مطعون کیا جاتا ہے۔ فلسفی کا کام فلسفے سے بحث کرنا ہے اور ناول، افسانہ نگار اور شاعر کا کام ادب تخلیق کرنا ہے۔ اردو میں یہ خلط مبحث پہلی بار پھیلا یا گیا ہے کہ احباب ناول، افسانے، شاعری سے پوچھ رہے ہیں کہ فلسفہ کہاں ہے؟ اور فلسفہ سے کہہ رہے ہیں کہ اس میں ادب کہاں ہے؟ یہ نہ صرف زیادتی ہے بلکہ کھلی ہوئی دھاندلی بھی ہے۔ فرض کیجیے کہ ہم ردتشکیل کی کوئی بحث اٹھائیں اور پھر سوال قائم کریں کہ اس میں ادب کہاں ہے تو یہ ایسے ہی گمراہ کن ہوگا جیسے ہم جدلیاتی مادیت سے پوچھیں کہ اس میں ادب کہاں ہے یا ہائیڈ یگر کی وجودیت کا ذکر کریں اور پوچھیں کہ وجودیت میں ادب کہاں ہے۔
قاعدہ یہ کہ ادب کے سوال ادب سے پوچھے جاتے ہیں اور فلسفہ کے سوال فلسفہ سے۔ اردو میں اس کا الٹا ہو رہا ہے یعنی فلسفے کے سوال ادب سے پوچھے جاتے ہیں۔ خاطر نشان رہے کہ موجودہ منظر نامے پر اگر کوئی رسالہ اس طرح کے سوال اٹھاتا ہے تو سوائے اس کے اس کا مقصد کیا ہو سکتا ہے کہ فکری انتشار پھیلایا جائے۔ واضح رہے کہ ادب کا مقام الگ ہے اور فلسفے کا مقام الگ۔ ادب کو ڈھونڈنا ہے تو اسے ادب میں ڈھونڈیے، فلسفیانہ کتابوں میں نہیں، بلکہ اس کے لیے گارسیا مارکیز، میلان کندیرا، وکرم سیٹھ، مہاشویتا دیوی، سنیل گنگوپادھیائے، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین کو پڑھنے یا کرشنا سوبتی، اروند ھتی رائے، سریندر پرکاش، نیر مسعود، یو آر آننت مورتی، گریش کرناڈ، صلاح الدین پرویز، عنبربہرائچی، ستیہ پال آنند، عبدالصمد، گیان سنگھ شاطر، سید محمد اشرف، سلام بن رزاق، مشرق عالم ذوقی کو پڑھیے اور پھر سوچیے کہ ان کا ادب سکہ بند جدیدیت سے کیوں الگ ہے۔
کیا مابعد جدیدیت معنی ومرکز سے انکار کرتی ہے؟
اس سے زیادہ غلط بات کہی ہی نہیں جا سکتی۔ اول تو یہ وہی ادب کا نام لے کر فلسفے کو مطعون کرنے والی بات ہے، دوسرے یہ کہ معنی کی تکثیر یت (جو ایک رد تشکیلی فلسفہ ہے) سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ معنی کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ تکثیریت بطور اصطلاح سے مراد فقط یہ ہے کہ معنی چونکہ تفریقیت سے پیدا ہوتا ہے، اس سے ثبات نہیں۔ آسان لفظوں میں یوں کہیں گے کہ معنی سیال ہے یامعنی گردش میں ہے اور معنی کی تعبیریں وقت کے محور پر بدلتی رہتی ہیں۔ تکثیریت کا ایک پہلو یہ ہے کہ متن معنی کے امکانات سے پر ہے۔ ہر تشریح قاری (نقاد) کی موضوعیت کے رنگ میں رنگ جاتی ہے، اس لیے ہر تشریح دوسری تشریح سے کچھ نہ کچھ مختلف ہوتی ہے۔ نیز یہ کہ ہر متن معنی کو جتنا ظاہر کرتا ہے اتنا اسے دباتا یا پس پشت بھی ڈالتا ہے۔ یہ دبایا یاپس پشت ڈالا ہوا معنی بھی سامنے آ سکتا ہے، یا اس کو سامنے لایا جا سکتا ہے، یعنی معنی کو بے دخل یا بے مرکز کیا جا سکتا ہے۔
معنی کو ’’بے دخل کرنا‘‘ یا ’’بے مرکز‘‘ (Decentre) کرنا، تکنیکی اصطلاحیں ہیں جن کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ معنی کا مرکز ہی نہیں یا معنی کا وجود ہی نہیں۔ ہر حاضر معنی یا ہر معمولہ معنی اپنا مرکز رکھتا ہے لیکن جب غائب معنی کو دیکھنے دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے لیے ’’بے مرکز کرنا‘‘ یا ’’بے دخل کرنا‘‘ کی اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں۔ پس واضح رہے کہ معنی سیال ہے اور گردش میں ہے۔ ہر تشریح اگر پراز دلائل ہے تو اپنی جگہ وقیع ہے مگر کوئی تشریح آخری تشریح نہیں، کیونکہ کوئی تناظر آخری تناظر نہیں۔
اس سے یہ بھی نتیجہ نکا کہ جیسا بالعموم سمجھا جاتا ہے کہ معنی مطلق ہے یا قائم بالذات ہے وہ صحیح نہیں۔ اگر معنی مطلق ہوتا تو غالب نے اپنے اشعار کی جو شرح اپنے خطوط میں لکھی ہے وہ حتمی ہوتی، جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ انہیں اشعار کی شرح مختلف لوگوں نے مختلف طرح سے کی ہے۔ غالب کافرمودہ اپنی جگہ صحیح لیکن نئے تناظر میں غالب کے اشعار کے معنی مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ یہ بھی ثابت ہے کہ فقط مصنف ہی معنی کا حکم نہیں، معنی قاری کی دسترس میں بھی ہے اور جب تک متن زندہ ہے، معنی کے امکانات ختم نہیں ہو سکتے۔ یہ تکثیریت کے بارے میں سرسری باتیں ہیں۔ بنیادی مقدمات نہایت مضبوط، وسیع اور گہرے ہیں جن کا مطالعہ تھیوری کی کتابوں سے کرنا چاہیے۔ سرسری گفتگو میں بہت سے نکات نہیں آ پاتے اور تشنگی بھی محسوس ہوتی ہے۔
تکثیریت کے اطلاتی امکانات بھی لامحدود ہیں۔ مثلاً موجودہ عہد میں مرد اور عورت کی بائنری (Binary) یا تہذیبی (Hierarchy) کا چیلنج ہونا۔ یہ بالکل ویسے ہے جیسے متن میں معمولہ یا مقتدر معنی کو بے مرکز یا بے دخل کرنا۔ برہمنیت اور دلت کی کشاکش کو بھی دراصل ردتشکیل بے دخلی کے طور پر زیادہ صفائی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے سیاسی منظر نامے پر مرکزی پارٹیوں کا بے دخل ہونا یا پس پشت چلے جانا اور ان کے مقابلے پر حاشیائی، صوبائی یا فروعی پارٹیوں کا مرکز میں عمل دخل رکھنا بھی اسی نوعیت کی کشاکش کی مثال ہے، جہاں مقتدر عنصر غیر مقتدر عنصر کے دباؤ میں ہے اور نئی صورت حال کی تشکیل کا ضامن ہے۔
اس وقت Post Colonialism کے نام سے جتنابھی ادب لکھا جا رہا ہے اس کا بنیادی تصور یہی ہے کہ آزادی کے دور کے بعد ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں Colonialism کے مقدر اثرات کو بے دخل کرکے یعنی ذہنوں کو Decolonise کرکے لکھا گیا ادب۔ اس سب میں معنی کا فقدان کہاں ہے۔ بلکہ معنی کی طرفیں کھولنے یعنی نئے معنی کی آبیاری پر اصرار ہے۔ ایک بات اور، تکثیریت کی ایک تعبیر یہ بھی تو ہے کہ جس طرح معمولہ یا مقتدر معنی ہی کافی وشافی نہیں، اسی طرح کوئی ایک مقتدر نظریہ (یعنی کلاسیکی مارکسزم) بھی کافی وشافی نہیں ہے، نظریے اور بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر معنی تکثیری ہو سکتے ہیں تو نظریے بھی تکثیری ہو سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کسی ایک نظریے کو کافی وشافی سمجھناجبریت کو راہ دینا ہے۔ سچی تخلیقی آزادی مطلقیت اور کلیت کے آگے سرنہ جھکانا ہے بلکہ طرفوں کو کھولتے رہنا شرط ہے اور یہی سچی تخلیقیت ہے۔
ادب اور آئیڈیولوجی میں اٹوٹ رشتہ ہے
میں اپنے مضامین میں کئی جگہ ادب اور سیاست یا ادب اور آئیڈیولوجی کے رشتے سے بحث کر چکا ہوں لیکن بعض سوال ہنوز باقی ہیں۔ نئی تاریخیت کے فلسفے کی بنیاد ہی اس مقدمے پر ہے کہ ادب تاریخ سے پیدا ہوتا ہے اور تاریخ کو پیدا کرتا بھی ہے۔ یہ ایک بالکل نئی فکری تشکیل ہے جس کی کوئی مثال پہلے کے فلسفوں میں نہیں ملتی لیکن پرانے تعصبات کے بدلنے میں وقت لگتا ہے، خصوصاً جب پرانے تعصبات کے بوجھ تلے دبے بعض حضرات نئے سوالات پر مخلصانہ غور کرنے کو تیا رنہ ہوں۔ سامنے کی بات ہے کہ ترقی پسندی کے بنیادی نکات میں یہ بات شامل تھی کہ ادب اور سیاست میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جدیدیت میں سب سے زیادہ ردعمل اسی بات کے خلاف تھا کہ سیاست سے ادب کا کچھ لینا دینا نہیں۔ ادب کو تاریخ اور سماج کے جزرومد اور سیاست سے الگ ایک خود مختار اور خود کفیل کائنات قرار دیا گیا ہے۔
یہ کتنا غلط تھا اس کی بحث تو آگے آئے گی، سردست کہنا یہ ہے کہ اس زمانے میں وارث علوی کا ایک مضمون سیاست اور ادب کے رشتے پر چھپا تھا۔ فقرے بازی میں ان کا جواب نہیں۔ ان کا یہ جملہ خاصا مشہور ہوا تھا کہ ادب کی سوئی کے ناکے سے سیاست کا ہاتھی نہیں گزر سکتا۔ سیاست اور ادب کے رشتہ کو مقہور ومردود ٹھہرایا گیا اور سماجی قدر کو اس قدر پیٹا گیا کہ ادبی قدر ایک دم زندگی اور سماج سے بے تعلق، نام نہاد پاک صاف اور منزہ ہو گئی۔ اس انتہا پسندی کے زمانے میں بڑے بڑوں کی نظراس پر نہ گئی کہ ایک ردعمل کی انتہا پسندی دوسرے ردعمل کے لیے زمین ہموار کر دیتی ہے۔
ترقی پسندی کے زمانے میں زیادتی یہ ہوئی کہ ادب کو سیاست کے تابع کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ اس کا ردعمل یہ ہوا کہ ادب کا سیاست (تاریخ، سماج) سے رشتہ کلیتاً ہی کاٹ دیا گیا۔ نہ پہلی پوزیشن صحیح تھی نہ دوسری پوزیشن صحیح تھی۔ کیونکہ ادب نہ سیاست کے تابع ہے نہ سیاست سے بے تعلق ہے۔ نتیجتاً اب منظر نامہ بدلا ہوا ہے، یعنی ردعمل کے خلاف ردعمل کے لیے فضا تیار ہے۔ مزید یہ کہ نئے فلسفے کی بعض بصیرتیں ایسی ہیں کہ ادب اور سیاست کا رشتہ یکسر ایک نئی روشنی میں آ گیا ہے۔ اول یہ کہ ادب خواہ وہ قطب شاہی دور کا ہو یامیر وسودا یا غالب و ظفر و ذوق کے زمانے کا، یا سرسید و حالی کے زمانے کا یا بعد کے زمانے کا، اپنے تاریخی حالات کا زائیدہ ہوتا ہے۔ میر وسودا کے زمانے کی ترجیحات وہ نہیں ہیں جو سرسید و حالی کے زمانے کی ترجیحات ہیں۔ تاریخ کے ساتھ ساتھ ادب کے رویے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ ادب سو فیصد تاریخ کے تابع نہ سہی تاریخ سے متاثر ضرور ہوتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں تاریخ (سیاست) اور ادب میں ایک جدلیاتی کشاکش کا رشتہ ہوتا ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سیاست اپنے سطحی معنی میں ہر چیز کااستحصال کرتی ہے، ادب کا بھی، جس کی مخالفت ضروری ہے۔ (وارث علوی نے اس وقت محدود طور پر یہی کہا تھا، لیکن اس کا اطلاق آج کے ادب پر کرنا بہر حال غلط اور گمراہ کن ہے۔) آج کی فکری پوزیشن یہ ہے کہ عملی سیاست بیشک خود غرض اور اقتدار پرست ہوتی ہے لیکن سیاسی فلسفہ اپنے اصل معنی میں یا اپنے جوہر کے اعتبار سے وہ فکری قوت یا ڈسکورس یا آئیڈیولوجی ہے جو ذہنی ترغیبات اور ترجیحات میں معمل کا کام کرتی ہے۔ اس معنی میں آیئڈیولوجی ادب اور آرٹ کا جوہر ہے یعنی جہاں تاریخ، سیاست، تہذیب ایک جوہر میں ڈھل کر فکری تصورات یا اقدار کی پاسداری کرتے ہیں اور یہ اقدار ادب میں معنی آفرینی کی ضامن ہوتی ہیں۔ اس لیے آج بالعموم اس پر اتفاق ہے کہ ادب اور آرٹ میں کوئی موقف معصوم نہیں ہوتا، ہو ہی نہیں سکتا،
There is no innocent position in art and literature
یعنی ادب اور آرٹ میں ہر فن پارہ اقدار کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ پوزیشن ضرور لیتا ہے، مثلاًحق، انصاف، عدل، خیر، شر، آزادی، جمہوریت، مساوات، حسن، عشق، زندگی، انسانیت وغیرہ وغیرہ۔ اقدار کی یہ کش مکش ہی ادبی وسائل کے ساتھ مل کر ادب کو دائمی عطا کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں تہذیبی یا آئیڈیولوجیکل اقدار سے ہٹ کر ادب یا آرٹ کی کوئی معنویت قائم ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ ادب اور سیاست کے رشتے کا وسیع تر اطلاق ہے جو نئی تھیوری کے اثرسے پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ فنی وسائل کا پاس ولحاظ کرتے ہوئے سماجی سروکار برحق ہے بلکہ زندہ ادب کسی نہ کسی طرح کا سماجی سروکار ضرور رکھتا ہے۔
اس اعتبار سے دیکھیں تو میر وسودا ہوں یا غالب ومومن، کسی بھی دور کی شاعری اپنے زمانے کی مابعد الطبیعیاتی، تہذیبی یا آئیڈیولوجیکل اقتداری ترجیحات سے الگ نہیں ہے۔ اسی طرح سرسید اور معاصرین سرسید کے سماجی سروکار سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ غرض یہ کہ تاریخ، تہذیب یاا ٓئیڈیولوجی کا خون ادب کی شریانوں میں برابر گردش کرتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی بھی زمانے کے زندہ رہ جانے والے متن کو دیکھیے، اس کی معنویت ہی اس کی اقداری ترجیحات سے قائم ہوتی ہوئی نظر آئےگی۔ اس سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ وسط انیسویں صدی کے بعد کا ادب یعنی سرسید اور ان کے رفقا اور پھر بعد کا ادب تو علی الاعلان ا ٓئیڈیولوجیکل ہے، اس لیے کہ قومی بیداری کا دور شروع ہو چکا تھا اور اردو ادب سامراج دشمنی، وطنیت اور آزادی کی تحریک کا حصہ تھا۔ یعنی سرسید ہی نہیں، حالی، شبلی، نذیر احمد، آزاد اور ان کے بعد حسرت موہانی، اکبر، اقبال، چکبست، پریم چند وغیرہ تمام کے متون واضح طور پر ا ٓئیڈیولوجیکل ہیں۔
البتہ کلاسیکی ادب کے بارے میں شبہ ہو سکتا ہے کہ اس زمانے میں نظریے یا تحریکیں تو ہوتی نہیں تھیں، ادب زیادہ تر عشق وعاشقی ہی کے گرد گھومتا تھا۔ چنانچہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں آئیڈیولوجی کیسی؟ آئیے دیکھیں کہ حقیقت کیا ہے۔ کلاسیکی اشعار کی موٹی تقسیم ہے، عاشقانہ اور حکیمانہ۔ اشعار میں انسان، زندگی، ذات، خدا، کائنات یا ملتے جلتے موضوعات پر اظہار خیال کیا جاتا تھا۔ یہ دو تین شعر دیکھیے،
سر کسی سے فرو نہیں آتا
حیف بندے ہوئے خدا نہ ہوئے
میر
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے
غالب
جام ہر ذرہ ہے سرشار تمنا مجھ سے
کس کا دل ہوں کہ دو عالم سے لگایا ہے
غالب
یہ تو ہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
میر
سامنے کے ان اشعار کے بنیادی تصورات کیا ہیں؟ میر کے شعر میں عظمت آدم کا جو اشارہ ہے، اس کے پیچھے پوری روایت ہے۔ انسان کتنا فرومایہ کیوں نہ سہی، اس کا درجہ فرشتوں سے کم نہیں۔ اور یہاں تو اس سے بھی بلند تر حیثیت کا جواز پیدا کیا ہے۔ نیز خدا اور بندے میں جو بندگی کا رشتہ ہے، وہ معبودیت عابد اور عبودیت بندگی ہے۔ مگر یہاں بندہ ہونا جوشان عبودیت کا لازمہ ہے اور وجہ تفاخر ہے، عزت نفس اور غیرت انسان سے تضاد کے رشتے میں ہے کہ اے کاش جب سرکسی کے آگے نہیں جھکتا تو پھر خدا ہی ہوئے ہوتے۔
یہ تمام تصورات جو کائنات، خدا اور انسان کے رشتوں سے گندھے ہوئے ہیں، نوعیت کے اعتبار سے مابعد الطبیعیاتی ہیں اور ہماری مشرقی تہذیب کاحصہ ہیں۔ چونکہ تہذیبی ہیں اوران سے ہمارا تشخص دوسری تہذیبوں سے الگ وضع ہوتا ہے اور ان سے ہماری اقداری ترجیحات قائم ہوتی ہیں، اسی لیے یہ سب کے سب اول وآخر ا ٓئیڈیولوجیکل ہیں اور ان کے تمام مضمرات بھی آئیڈیولوجیکل ہیں۔ چنانچہ جو پوزیشن لی گئی ہے یعنی عظمت آدم کے تحفظ اور عزت نفس کی وہ بھی آئیڈیولوجیکل ہے یعنی یہ مغرب والوں کے اقداری نظام یا آئیڈیولوجی سے الگ ہے۔
یہی معاملہ دوسرے اشعار کا بھی ہے۔ شعر دو اور شعر چار میں شاعر کائنات کو فریب حواس یا تو ہم کا کارخانہ کہہ رہا ہے۔ حقیقیت کی حقیقت فقط اس قدر ہے کہ بس اعتبار کر لیجئے، یعنی ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ گویا جو کچھ دکھائی دیتا ہے فریب نظر یا حلقۂ دام خیال ہے، اصلیت کچھ بھی نہیں۔ ان تصورات کا گہرا تعلق ویدانت یا مایا کے فلسفے سے ہے اور وحدت وجود کا نظریہ بھی یہی کہتا ہے کہ اصل ہستی حقیقت مطلقہ ہی واجب الوجود ہے، باقی جو کچھ ہے اعتباری ہے، حقیقت مطلقہ ذرے ذرے میں جاری وساری ہے، گل ورنگ وبہار پردے ہیں ان کی اصلیت کچھ نہیں۔ ازمنہ وسطیٰ میں یہ خیالات وسیع پیمانے پر رائج تھے اور فارسی واردو کی متصوفانہ شاعری میں ان کی گونج گوناگوں شکلیں اختیار کرتی ہے۔ یہ خیالات مابعد الطبیعیاتی بھی ہیں اور تہذیبی بھی، نیز چونکہ اقداری نوعیت کے ہیں، آئیڈیولوجیکل ہیں۔
غالب کا شعر جام ہر ذرہ ہے سرشار تمنا مجھ سے۔۔۔ بھی ان تصورات سے ہٹ کر نہیں ہے، اگرچہ نہایت بالیدہ ہے اور شدید ترفع کا پہلو رکھتا ہے، یعنی Cosmic consciousness سے ہر ذرہ کا جام سرشار ہے، لیکن انسان کا دل بھی کیا بلا ہے کہ کون ومکاں میں دھڑک رہا ہے۔ دل اور تمنا میں جو رشتہ ہے اسی سے شوق کی بے پایانی کا مضمون بھی پیدا ہو گیا ہے جو غالب کا خاص مضمون ہے۔ تاہم کوئی نہیں کہہ سکتا کہ شعر کا گہرا رشتہ اس مابعد الطبیعیات سے نہیں جو مشرقی ہے اور ہمارے اقداری نظام کا حصہ ہے۔
حکیمانہ اشعار کے بعد آپ چاہیں تو دو ایک ایسے اشعار کو بھی دیکھ لیں جن کو بالعموم عاشقانہ کہا جاتا ہے،
روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے
جی تڑپے ہے جان گھلے ہے حال جگر کا کیا ہوگا
مجنوں مجنوں لوگ کہے ہیں مجنوں کیا ہم سا ہوگا
موج زنی ہے میر فلک تک ہر لجہ ہے طوفاں زا
سرتا سر ہے تلاطم جس کا وہ اعظم دریا ہے عشق
میر کے یہاں سے یا دوسرے کلاسیکی شعرا کے یہاں سے اس نوع کے ہزاروں ایسے اشعار نقل کیے جا سکتے ہیں جو ہمارے تصور عشق کے کسی نہ کسی پہلو پر دلالت کرتے ہیں۔ فرداً فرداً ان کے جہان معنی سے بحث کی جا سکتی ہے، لیکن ایک خاص طرح کی افتاد ذہنی جو ان سب کی داخلی ساخت میں کارفرما ہے وہ عشق کے تئیں ہماری مشرقی وضع ہے۔ مغربی ذہن یا کوئی دوسراذہن عشق کا یہ تصور ہرگز نہیں رکھتا جہاں استخواں کانپ کانپ جلتے ہیں۔ عشق کا یہ آفاقی اور حد درجہ ہمہ گیر تصور جو ذاتی بھی ہے اور آفاقی بھی اور جو کارخانہ ہستی اور وجود انسانی کا اسم اعظم ہے، اول وآخر مشرقی ہے اور خاص ہمارا اپنا ہے۔ اس تصور کے قائم ہونے میں صدیوں کی تاریخ صرف ہوئی ہے۔ یہ فقط محدود نوعیت کا ذاتی تصور نہیں، یہ ہماری تہذیب اور مابعد الطبیعیات کا حصہ ہے۔
پس وہ اشعار بھی جو بظاہر ذاتی یا عرف عام میں عشقیہ معلوم ہوتے ہیں فقط ذاتی یا عشقیہ نہیں دوسرے لفظوں میں یہ ہرگز ’’معصوم‘‘ یا ’’خالص‘‘ نہیں، ان میں ہماری صدیوں کی تہذیبی تاریخ کھدی ہوئی ہے جو آئیڈیولوجیکل اقداری ترجیحات رکھتی ہے۔ مختصر یہ کہ ادب آج کا ہو یا قدیم، خواہ کتنا معصوم اور بے تعلق نظر آئے، معصوم ہو ہی نہیں سکتا۔ ادب ہمیشہ اقداری ترجیحات رکھتا ہے جو آئیڈیولوجیکل ہوتی ہیں۔ چنانچہ ایسا کوئی متن نہیں جو اپنے عہد کی فکرودانش یا تہذیبی یا آئیڈیولوجیکل اقدار سے خالی ہو۔ ہر جگہ کوئی نہ کوئی موقف قائم کیا گیا ہے۔ اس کی تعبیر یں بدل سکتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر ادبی موقف اپنے وسیع معنی میں آئیڈیولوجیکل ہوتا ہے۔
یہ صورت حال سابقہ دونوں رویوں یعنی ترقی پسندی اور جدیدیت سے الگ ہے۔ جدیدیت سے اس لیے کہ اس میں تو متن کی خود کفالت ہی اتنی حاوی ہو گئی کہ سیاسی معنی تو الگ رہے، تہذیبی اور سماجی اقدار کی بحث کی بھی گنجائش نہیں تھی۔ اور ترقی پسندی سے یہ اس لیے الگ ہے کہ ترقی پسندی میں سیاست یا آئیڈیولوجی کا مفہوم صرف ایک ازم تھا اور ایک فارمولہ کہ ادب کا مقصد منصوبہ بند طریقہ سے سماج کو بدلنا اور انقلاب لانا ہے۔ ان دونوں کے مقابلے پر آج کا فکری رویہ یہ ہے کہ ادب فی نفسہ آئیڈیولوجیکل اور تہذیبی ہوتا ہے۔ معنی کا پیدا ہونا ہے ہی بنیادی طور پر آئیڈیولوجیکل اور تہذیبی عمل۔ ادب میں معنویت پیدا ہی اقدار سے ہوتی ہے اور اقدار کی عمل آرائی کسی مینی فیسٹو، ازم یا فارمولے کے تحت نہیں ہوتی بلکہ تخلیق کی سچی شان یہ ہے کہ فنکار اپنے تخلیقی عمل میں آزادانہ اقدار سے معاملہ کرتا ہے اور اپنی اقداری ترجیحات خود طے کرتا ہے۔
مگراس تنبیہ کی بھی ضرورت ہے کہ ا ٓئیڈیولوجی سے رشتے یا سماجی سروکار کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ادب برہنہ گفتاری پر اتر آئے۔ خاطر نشان رہے کہ ادب ادب ہے اخبار یاصحافت نہیں۔ آئیڈیولوجی یا سماجی سروکار ادب میں اکہرے طور پر نہیں بلکہ ادب کا خون بن کر آتا ہے، نری خبر کے طور پر نہیں۔
بین المتونیت کے بارے میں غلط فہمیاں
بین المتونیت بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں غلط فہمی پھیلنا بہت آسان ہے۔ یوں تو بین المتونیت کے آسان معنی یہ ہے کہ بین المتونیت وہ رشتہ ہے جو ایک متن کا دوسرے متن سے ہوتا ہے۔ اس کا احساس ادب میں ہمیشہ سے رہا ہے اور زمانہ سلف سے مشرقی شعریات میں بھی یہ احساس چلا آتا ہے کہ شعر گوئی کے لیے اساتذہ کے کلام پر اچھی نظر ہونا چاہیے۔ بعض علما نے یہاں تک حکم لگایا کہ اساتذہ کے کئی ہزار اشعار زبانی یاد ہونے چاہئیں۔ مزید یہ کہ جس طرح اساتذہ یا کسی ہم عصر کی زندگی میں غزل کہنا عام روایت ہے، اسی طرح کسی دوسرے کے مضمون پر شعر کی بنیاد رکھنے کی مثالیں بھی بہت عام ہیں۔ مضمون لڑ جانا یا تو ارد قابل در گزر ہے یا اگر مضمون میں نیا پن پیدا کیا گیا یا کسی پہلو کا اضافہ کر دیا گیا تو یقیناً مستحسن ہے۔ اس لحاظ سے دیکھئے تو ایک متن کا دوسرے متون سے رشتہ کوئی نیا تصور نہیں۔
لیکن ادھر جن وسیع تہذیبی بنیادوں پر اس تصور کو قائم کیا گیا ہے کہ ہر متن سابقہ متون کے ریشوں اور دھاگوں سے مل کر بنتا ہے اور یہ رشتے ان گنت متون، تہذیب اور تاریخ کے ہزاروں مقامات میں پیوست ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ خود مصنف کو اس کا احساس ہو یا قاری کو اس کی خبر ہو۔ سابقہ تصور مقامی اور محدود نوعیت کا تھا جبکہ نیا تصور لامحدود ہے اور بڑی حد تک لاشعوری ہے۔ یہ بصیرت کہ کوئی متن خواہ وہ کتنا ہی نیا کیوں نہ لگے، خلا میں نہیں لکھا جاتا، بنیادی طور پر اس نکتے سے تعلق رکھتا ہے کہ زبان میں ہر جملہ (خواہ جملہ ’’خلق‘‘ کرنا کہیں) دوسرے جملوں سے مل کر بنتا ہے۔ کسی بھی زبان کے اندر دوسرے تمام جملوں سے صرف نظر کرکے کوئی جملہ بنایا ہی نہیں جا سکتا، اسی طرح متن بھی سابقہ متون سے ہٹ کر یا متون بنانے کے امکانات سے قطع نظر کرکے بنایا ہی نہیں جا سکتا۔
دیکھا جائے تو اس بصیرت کی پشت پر متن کا جو تصور ہے وہ محدود نوعیت کا نہیں۔ متن لکھا ہوا بھی ہو سکتا ہے، لوک روایت بھی، متھ بھی، دیومالا اور اساطیر بھی، حکایت، قصص، داستانیں، واقعات، روایات، تہذیبی نشانات، تاریخی واقعات، تعبیرات، تشریحات غرض کچھ بھی جو سابقہ ادبی و تہذیبی روایت میں شامل ہے اور جس کے اثرات ظاہر وپنہاں ادب میں بطور خون رواں دواں ہیں۔ کوئی بھی مصنف خالی سلیٹ پر نہیں لکھتا۔ پہلی سطح زبان کا نظام ہے۔ دوسری سطح شعریات کا نظام ہے، تیسری سطح وہ سب ادبی، علمی، تہذیبی اور تاریخی سرمایہ روایت ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا۔ گویا اگر مصنف سے زبان کے نظام کو منہا کر دیں تو وہ لکھ نہیں سکتا۔ اسی طرح اگر شعریاتی نظام کو یا ادبی روایت کو بھی منہا کردیں تو بھی کچھ لکھنا ممکن نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں مصنف لکھنے کے عمل میں اتنا آزاد نہیں ہے جتنا بالعموم وہ سمجھا جاتا رہا ہے۔
چنانچہ وہ عمل جسے عرف عام میں تخلیقی عمل کہا جاتا ہے وہ دراصل طبع زاد نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ اسی طرح فقط تخلیق کار کی معنویت بھی بدل جاتی ہے۔ گویا وہی چیز جس کو اوریجنل سمجھا گیا اور طبع زاد کہا گیا، اس فلسفے کی رو سے نہ اتنی اور یجنل ہے اور نہ اتنی طبع زاد۔ متن سے سریت کا تصور تو ہمیشہ وابستہ رہا ہے لیکن اب اس کی نوعیت بدل گئی، یعنی متن رشتوں سے بھرا بستہ ہے اور ضروری نہیں کہ ہر رشتے کا سرا معلوم ہو۔
ظاہر ہے کہ یہ ایک فلسفیانہ پوزیشن ہے جس کے متعدد اطلاقی امکانات ہیں لیکن اس کو آسانی سے توڑا مروڑ ا بھی جا سکتا ہے اور اس سے غلط نتائج بھی اخذ کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ تھیوری کے مخالفین اکثر کرتے ہیں یعنی یہ کہ مصنف کی موت ہو گئی ہے، یا تخلیق کا کوئی وجود نہیں یا مابعد جدیدیت میں ادب کی موت ہو گئی ہے، یہ سب لغوتاویلات ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اعتراض برائے اعتراض کرنے والے اس بنیادی خلوص سے عاری ہوتے ہیں جو فلسفے کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے، اس لیے وہ بنیادی باتوں کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور بغیر سمجھے غیرذمہ دارانہ تاویلات کرتے رہتے ہیں۔
تھیوری میں تخلیقی عمل، تخلیق یاتخلیق کار کے بارے میں بین المتونیت کی روشنی میں جو نیا موقف حاصل ہوتا ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تخلیق کار، تخلیقی عمل یا تخلیق کا کوئی وجود ہی نہیں۔ وجود بے شک ہے، البتہ اس کی نوعیت وہ نہیں جو عرف عام میں سمجھی گئی تھی۔ ضرورت تخلیق کار یا تخلیق کو رد کرنے کی نہیں بلکہ متن کی نوعیت کو سمجھنے کی ہے۔ اسی طرح مصنف کی موت سے بھی ہرگز یہ مراد نہیں کہ مصنف قرار واقعی مر چکا ہے یا ادب مر چکا ہے اور اب اس کا جنازہ اٹھنا چاہیے۔ بلکہ وہ مصنف جس کو متن کا واحد سرچشمہ سمجھ لیا گیا تھایا ادب جس کو خود مختار وخود کفیل تصور کر لیا گیا تھا، یہ باتیں اب Valid نہیں ہیں کیونکہ مصنف کی ذات متن کا واحد سرچشمہ نہیں ہے۔ اسی طرح ادب اتنا خود مختارو خود کفیل بھی نہیں ہے جیسا کہ سمجھ لیا گیا تھا۔
ایک تو لکھنے کے اعتبار سے (جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیا) اور دوسرے یہ کہ ادب کی تعبیر یں وقت کے محور پر بدلتی رہتی ہیں اور اخذ معنی کے عمل میں قاری کی شرکت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اوپر جو وضاحت کی گئی (ہرچند کہ وہ مختصر اور سرسری ہے) اس کی روشنی میں اگر عمومی اعتراضات کو دیکھیں تو صاف معلوم ہو جائےگا کہ وہ غلط کھینچ تان پر مبنی ہیں۔ بین المتونیت بھی تکثیریت کی طرح طرفوں کو کھولنے والا موقف ہے جس سے مصنف اور متن کی زیادہ صحیح اور زیادہ کشادہ نوعیت سامنے آتی ہے، نہ کہ مصنف کے وجود سے انکار یا متن کے وجود سے انکار۔ اس نوع کی گفتار سے کم فہمی کی بو آتی ہے۔
تاہم یہ گتھی یہیں حل نہیں ہو جاتی۔ کچھ اور سوال ضرور باقی رہتے ہیں یعنی یہ کہ جب متن سابقہ متون سے رشتے میں ہے تو پھر تخلیق کو کیا کہیں؟ تخلیقی عمل کو کیا کہیں؟ طبع زاد کو کیا کہیں یا تخلیقی صلاحیت کو کیا کہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ زبان میں لفظ محدود ہیں، دوسرے الفاظ تو بننے سے رہے۔ چنانچہ سردست جو کہا جاتا ہے وہی کہا جائےگا، لفظ تخلیق کو القط کرنا مقصود بھی نہیں۔ مقصود ہے اس کی تفہیم کو بدلنا جو فلسفیانہ طور پر وہ نہیں جو پہلے تھی۔ اب ان لفظوں کی نوعیت بدل گئی ہے۔
رہی یہ بات کہ تخلیقی صلاحیت کتنی وہبی ہے اور کتنی ماحول، تربیت اور تاریخ کی مرہون منت ہے، تو DNA کے نئے انکشافات اور انسانی Genome کی دریافت کے بعد وہ منزل دور نہیں جب بیولوجی کے اگلے اقدامات سے یا تو اس کا ثبوت مل جائےگا یا اس کی تردید ہوجائےگی کہ کیا زبان پر قدرت کا کوئی خاص جین ہے یا شعری یا ادبی تخلیقی صلاحیت کا بھی کوئی خاص جین ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر نئی تھیوری کی ان بصیرتوں کو مزید استحکام حاصل ہوگا کہ زبان سوفی صد ایک سماجی عمل ہے اور ادب کی ’’جھینی جھینی چدریا‘‘ کا سارا تانا بانا زبان، سماج اور تہذیب کے رشتوں اور نظر آنے اور نظر نہ آنے والے تاروں سے بُنا جاتا ہے۔
بین المتونیت پر اس سے پہلے بھی اردو میں کچھ نہ کچھ لکھا جاتا رہا ہے۔ اس میں بھی کام کی باتیں ہیں۔ شعروحکمت کے تازہ شمارے میں بھی بین المتونیت پر ایک مضمون آیا ہے اور بین المتونیت کا جو رشتہ پیروڈی Pastiche یعنی پرانے اسالیب وپیرایوں سے ہے، ان سے بھی بحث کی گئی ہے اور مثالیں بھی دی گئی ہیں۔ اس سے پہلے بھی سریندر پرکاش، اسد محمدخاں وغیرہ کے افسانوں کو لے کر متن بر متن کی بحث اٹھائی گئی ہے کہ کس طرح متن بنتا ہے۔ شعروحکمت کے اسی شمارے کے اداریے میں پروفیسر مغنی تبسم نے ادب کے نئے منظر نامہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ تنبیہ بھی کی ہے کہ ہر چند باشعور ادیب اور شاعری نئی تبدیلیوں کی طرف سے آنکھیں بند نہیں رکھ سکتے تاہم اردو کے بعض نقادوں نے کچھ آسان فارمولے وضع کر لیے ہیں۔ فارمولوں سے تقلید میں آسانی ہوتی ہے اور نقال پیدا ہو جاتے ہیں جس سے رجحان کو نقصان پہنچتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ پروفیسر مغنی تبسم کی بات میں وزن ہے اور اس پر توجہ کرنا چاہیے۔
مثلاً بین المتونیت اگر فقط یہی ہے کہ متن پر متن بنایا جائے تو یہ بہت محدود عمل ہوگا اور سستی فارمولہ سازی ہوگی۔ نتیجتاً یہ سمجھا جائےگا کہ فقط وہی متن مابعد جدید ہے جو متن برمتن کے طریقے سے بنایا گیا ہے۔ یہ گمراہ کن اور میکانکی تعبیر ہے۔ گرہیں ضرور کھولیے لیکن میکانکی تعبیروں اور فارمولہ بازی سے بچنا بھی ضروری ہے۔ تھیوری کا کام طرفیں کھولنا اور بصیرتوں کی فہم کو عام کرنا ہے۔ باشعور تخلیق کار کا کام نئی فضا میں اپنی راہ خود طے کرنا ہے۔ نئی بصیرتیں فارمولہ یا منصوبہ نہیں ہیں۔ یہ ذہنی کشادگی کا اشاریہ ہیں۔ مابعد جدیدیت، تخلیقیت کا جشن جاریہ اسی لیے ہے کہ کوئی نظریہ، کوئی زاویۂ نظر حتیٰ کہ بین المتونیت بھی حرف آخر نہیں ہے۔
جس طرح فارمولہ بازی یا منصوبہ بازی سے بچنا ضروری ہے، اسی طرح جیسے کہ پہلے عرض کیا گیا برہنہ گفتاری سے بچنا بھی ضروری ہے کیونکہ سروکار بھی ذرا سی بے احتیاطی سے فارمولہ بن سکتا ہے۔ بعض حالتوں میں یہ ہو رہا ہے جو مناسب نہیں۔ خاطر نشان رہے کہ ادب فن ہے اور فن پر قدرت لازم ہے۔ برہنہ گفتاری فن پر قدرت اور زبان پر قدر ت کی نفی ہے۔ باشعور فنکار جانتے ہیں کہ ادب، ادبیت یعنی معنی آفرینی اور حسن کاری سے بنتا ہے۔ نری فکرسے نہیں۔ فنکار کے لیے ضروری ہے کہ وہ فن اور اقدار سے اپنے طور پر معاملہ کرے، یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں۔ فنکار مبلغ نہیں، اس کا کام کسی کو ’’تھاپنا‘‘ یا ’’میٹنا‘‘ نہیں بلکہ اس کا کام اپنی بات کہنا اور ادب تخلیق کرنا ہے جو لطف ومعنی کا سرچشمہ ہو اور وقت کے محورپر زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.