معروضی تنقید
اردو تنقیدکی تفہیم کے لیے ہم ذرا پیچھے دیکھیں تو میر تقی میرؔ کے ’’نکات الشعراء‘‘ پر نظر پڑتی ہے۔جہاں لفظ ’انتقاد‘ حقیقی معنوں میں برتا گیا ہے۔شعری تنقید کے ضمن میں ہم جو چاہیں پیمانے وضع کرلیں،لیکن کسی نگارش کی خوبی و خامی کے اظہار کے بناء تنقید غیر مکمل محسوس ہوگی۔ آپ چاہیں تو اسے معروضی تنقید کا نام دیں یا عملی تنقید سے معنون کریں۔میرؔ نے اپنے تذکرہ میں زیادہ تر معروضی تنقید سے کام لیا ہے۔اور یہیں سے یہ طرز آگے بڑھتا ہوا میرے معنوی استاد ابوالمعانی میرزا یاس یگانہؔ چنگیزی اورمولانا نیاز فتح پوری سے جا ملتا ہے۔عملی تنقید کا جاندار نمونہ استاد یگانہ چنگیزی کی تصنیف ’’آیات ِ وجدانی‘‘ ( اول ایڈیشن مطبع کریمی لاہور ۱۹۲۷ ) میں شامل محاضرات سے دیکھنے کو ملتا ہے۔عالمی اردو ، فارسی و عربی شاعری کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی شعری مجموعے میں شاعر نے خود اپنے شعر کی تعبیریں،نفس ِ مضمون کی شرحیں،شعر کی ساخت،لفظیاتی ہیت،نگارش کے وجود پانے کے اسباب و علل اس حسن وخوبی سے بیان کیے ہیں کہ باید و شاید۔میری اپنی دانست میں یہ اپنے طرز کا اولین تجربہ رہا ہو۔اس کے بعدمعروضی تنقید کی بے حد مفید مثالیں استاد یگانہ ؔکی تصنیف ’’شہرت کاذبہ المعروف بہ خرافات ِ عزیز‘‘،’’غالب شکن‘‘ اور مجلہ ’’نگار‘‘ کی فائلوں سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ تنقید کے مفاہیم،اسلوب اور ہیتیں ہر دور میں بدلتی رہی ہیں لیکن ہر ہر دور میں معروضی تنقید اپنا وجود منواتی رہی ہے۔پھر چاہے وہ اصلاح ِ سخن کے ضمن میں ہو یا برائے تنقیص۔جدید تنقید،کہ جو اصل میںمیتھوآرنلڈ،ایلیٹ،گوئٹے وغیرہ سے متاثر ہے،نے فن پاروں کی تفہیم کو جس قدر گنجلک بنا دیا ہے اس کی نظیر کسی دوسری زبان کے ادب میں نہیں ملتی ۔ہمارا جدید نقاد کسی نگارش یا اس کے خالق کا قد متعین کرنے میں ایسا الجھ جاتا ہے کہ قاری دو تین صفحوں سے آگے تنقیدی مضمون نہیں پڑھ پاتا۔موجودہ دور میںتنقید کے پڑھنے والوں کی کمی اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
دوسری جانب اردو تنقید ’گروہ بندی‘ کی بھی ذبردست شکار ہو چلی ہے۔ایک غیر نقاد (لیکن بلا کی تنقیدی بصیرت رکھنے والے شاعر) میراجیؔ نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ ’’ ہم سب اپنے ماحول کے،رسم و رواج اورعادات کے قیدی ہیں۔ادب اور آرٹ کو جانچتے ہوئے ہم کوشش کے باوجود جانب داری سے رہا نہیں ہو سکتے‘‘ لیکن فی زمانہ معاملہ اس کے عین بر عکس ہے۔ہمارے موجودہ نقاد بہ ہزار کوشش جانب داریت کو ملحوظ رکھتے ہیں۔آپ چاہیں تو اسی شعوری جانب داریت کو ’’ گروہ بندی‘‘ سے موسوم کریں۔
آج کا عام قاری تنقید بیزار ہوچلا ہے۔شعر کے محاسن و معائب براہ راست سامنے آتے جائیں تو یقینا اس نوع کی معروضی تنقید عام قاری کے دلچسپی کا سامان بہم پہنچائیگی۔لیکن معاملہ اس کے عین مخالف ہے۔اس سے کون انکار کرے کہ ہماری اردوتنقید مغرب کے اثر میں بے طرح پھنسی ہوئی ہے۔پھر اس کے بعد ستم بالائے ستم یہ کہ ہماری شاعری کے ساتھ ساتھ ہماری تنقید بھی مختلف تحریکوں کے زیر ِ اثر اپنی شباہت بدلتی جاتی ہے۔رومانی تحریک کی رومانی تنقید،جمالیاتی تحریک کی جمالیاتی تنقید،ترقی پسند تحریک کی ترقی پسند تنقید اور ان سب پر سبقت لے جانے والی مغربی تنقید۔کسی خاص تحریک سے وابستگی کی بنیاد پر تخلیق کاراپنے اظہار ِ مافی الضمیر کے پیرائے تبدیل کرسکتا ہے،حتیٰ کہ اپنا مافی الضمیر بھی بدل سکتا ہے،لیکن ذات کے اظہار کے لیے تخلیق پا رہے فن پارے کی تفہیم وافہام کے لیے لکھی جارہی تنقید بھی اپنی ہیت بدل لے،یہ گتھی میں آج تک سلجھا نہ سکا۔یہ الگ بات کہ ایسے بدلتے تنقیدی رویوں کو ’’تخلیقی تنقید‘‘ کے ذیل میں شمار کرتے ہوئے اس تبدل کا جواز تلاش کرلیا جائے۔شاعری میں جمالیاتی قدروں کے بدلتے پیرایوں کو تو سمجھا جا سکتا ہے لیکن تنقید کے بدلتے زاویوں کو سمجھنا مسئلہ لاینحل معلوم پڑتا ہے۔تخلیق و تنقید کی اسی آپسی کشمکش میں نقاد اپنے محور سے ہٹتے چلے گئے ہیں۔ڈاکٹر محمد حسن نے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’وہ شاعر یا ادیب کا خوش مذاق وکیل پہلے تھا اور نقاد بعد میں،وہ ادب پارے کے مکمل جمالیاتی کیف کو قاری پر پوری طرح منکشف کرنا چاہتا ہے اور اس عمل میں اس قدر مصروف ہو جاتا ہے کہ تخلیقی تنقید کے اصل فریضے کو بھی فراموش کردیتا ہے۔‘‘(اردو ادب میں رومانوی تحریک،دانش محل،امین الدولہ پارک،لکھنو ۱۹۵۵ صفحہ نمبر ۶۸)
افلاطون،ارسطو،فلوطینس اور اگسٹائین کے مقلد ایک خاص طرز ِ فکر کی جمالیاتی تنقید میں الجھے ہوئے ہیں۔فرائڈ کے ہم خیال نقاد تحلیل نفسی کے شکار ہیں۔ان کے علاوہ دانتے اور شیکسپیئر کے پیروکار حق ِ شاگردی ادا کرتے ہوئے پھر نئی جمالیات کے گورکھ د ھندے میں جا پھنسے ہیں۔دوسری طرف یوروپی ادب سے متاثر ہمارے اردو کے نقاد ڈیکارٹ ،ہیوم ،گوئٹے ،برگساں،سیمویل الگزنڈر،کانٹ اور ٹی ایس ایلیٹ کے نظریات کے حامی ہوگئے۔ان تمام مغز پاشیوں کے درمیاںجمالیاتی تنقید سے بالکل متصل ہماری تاثراتی تنقید کھڑی نظر آتی ہے۔نئے دور میں جس کے سپہ سالار نیاز فتح پوری ثابت ہوئے۔نیاز ؔنے لکھا ہے کہ:
’’کامیاب اور اچھا شعر کہنااس میں شک نہیںکہ بڑا مشکل کام ہے۔ردیف و قافیہ کی پابندی،اصول و معنی کی نگہداشت،زبان و محاورہ کی صحت،مفہوم کی بلندی،طرز ِ ادا کی شگفتگی،ندرت تشبیہات و استعارات کا سریع الانتقال الذہن ہونا،جذبات کا خلوص،مصرعوں کا توازن،موضوع کے لحاظ سے الفاظ و تراکیب کی ہم آہنگی اور ان کا صحیح استعمال کوئی آسان بات نہیں‘‘ (مالہ و ماعلیہ ،شعری محاسن و معائب،نیاز فتح پوری،لکھنو،صفحہ نمبر ۶)
اردو کے ایک قدیم شعر (تقریباً چار سو برس قدیم) کے توسط سے اصل مقصد کی طرف آتا ہوں۔
کفر کافر کو بھلا،شیخ کو اسلام بھلا
عاشقاں آپ بھلے، اپنا دل آرام بھلا
اس مختصر تمہید کے بعدتاثراتی یا معروضی تنقید کے ذیل میں ڈاکٹر بشیر بدر علیگ کی شاعری کا تنقیدی جائزہ ملاحظہ فرمائیں۔
ڈاکٹر بشیر بدرؔکامجموعہ کلام ’’آمد‘‘ گزشتہ دنوں مطالعہ میں رہا ۔ ’’آمد‘‘ کو میں ہرگزباریک بینی سے نہ پڑھتااگرچہ کہ دیون پر صاحب الرائے حضرات کی آراء شائع نہ پاتا۔ ان حضرات میں ڈاکٹر جمیل جالبی، پروفیسر محمد حسن، پروفیسر قمر رئیس وغیرہ حضرات سرِ فہرست ہیں پروفیسر قمر رئیس صاحب نے تو یہاں تک بیان دیا کہ ’’ہندوستان میں بشیر بدر کے علاوہ میں صرف حسن نعیم اور بانی کا دلدادہ ہوں۔‘‘ خدا کا لاکھ شکر کہ ’’دلدادہ‘‘ تک ہی بات پہنچی۔
سر ورق کی پشت پر ڈاکٹر موصوف کے ’’کارناموں‘‘کی طویل فہرست دی گئی ہے۔ کس ملک پر عالی جناب نے کتنی مرتبہ قدم جمائے، سلسلہ وار بتایا گیا ہے ۔ آئیے اب اندرون کی جانب چلتے ہیں ۔
بشیر بدر کی مقبولیت کا سرچشمہ ’’آمد ‘‘ ہی رہا ہے۔ ان کی شاعری لہو کو ہنگامی ابال دینے والی شاعر قطعی نہیں ہے ۔(میںاس شاعری کا ذکر کررہا ہوں جو محاسن کے زمرے تلے درج کرنے والا ہوں) ایک پر مغز ذہن کی پر کیف پیدا وار ہے۔ کلیوں کو شہید میں بھگونا انہیں خوب آتاہے۔اولاً انکی شاعری (’’آمد‘‘ سے متعلق ) کے چند خوبصورت تراشے پیش خدمت ہیں۔
ٓ آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
مذکورہ بالا مکمل غزل مرصع ہے۔ ہر ہر شعر میں اک اک لفظ نگوں کی مانند جڑا ہوا ہے ۔ پانچ شعر کی یہ خوبصورت غزل واقعتا حقیقی اور آفاقی شاعری کی مثال بہم پہنچاتی ہے ۔
یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کردے
نہایت خوبصورتی کے ساتھ بشیر بدر صاحب نے ایک سنہری خیال کو چاندی کے ورق میں لپیٹ دیا ہے۔ شعر توصیف کا مستحق ہے۔
کوئی لشکر ہے کہ بڑھتے ہوئے غم آتے ہیں
شام کے سائے بہت تیز قدم آتے ہیں
یہ غزل بھی جامع غزلوں میں سے ایک ہے ۔ موصوف نے فیضؔ کی زمین میں چار چاند لگا دئے ہیں۔
کبھی برسات میں شاداب بیلیں سوکھ جاتی ہیں
ہرے پیڑوں کے گرنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا
بچھڑتے وقت کوئی بدگمانی دل میں آجاتی
اسے بھی غم نہیں ہوتا مجھے بھی غم نہیں ہوتا
بالکل اچھوتا خیال ۔ ندورت ِ خیال پر قادر ہیں بشیر بدر صاحب ۔ ان شعروں کے تناظر میں بشیر بدر کو بڑا اور سچا شاعر کہنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔
شام تک کتنے ہاتھوں سے گزروں گا میں
چائے خانے میں اُردو کے اخبار سا
جاں نثار اختر کے بعد تمثیلات میں بشیر بدر ہی سرِ فہرست دکھائی دیتے ہیں۔ نئے نئے استعارے ، نئی نئی تشبہیں، اچھوتی تمثیلات ان کی شاعری کو دو آتشہ بنادیتی ہیں۔ قاری ایک گہرا اثر قبول کرنے پر مجبور ہوتاہے ۔ مضمون کی طوالت کے خوف سے مندرجہ بالا اشعار پر ہی اکتفا کررہا ہوں حالانکہ ’’آمد ‘‘ میں کئی ایسے مقامات بھی ہیںجہاں سے یک نظری میں گزرنا محال اور رک جانا ناگریز ہے۔
لیکن اتنی اچھی شاعری کے باوجود مجھے نہایت قلق کے ساتھ یہ بات عرض کرنی پڑرہی ہے کہ ڈاکٹر بشیر بدر کے یہاں زبان وبیان،حشووزوائد،عروض،دو ازکار مضامین، نامو س ترکیبات ، وغیرہ وغیرہ معائب کی بہتات ہے اور میں یہ قدم ہر گز ہرگز نہ اُٹھاتا اگرچہ ڈاکٹر موصوف کے دیوان پر ہندوستان کے مایہ ناز نقاد اپنی پُر حمایت رائے نہ دیتے۔ جتنی مقدار میں معائب پائے گئے ان کے پس پردہ یوں گمان ہوتا ہے کہ تما م ہی حضرات نے ڈاکٹر بشیر بدرکے دیوان کو بغیر پڑھے اپنی رائے دی ہو۔
رکھیوغالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتاہے
یہاں سے معائب کا سلسلہ شروع کرتا ہوں۔
وہی شہر ہے وہی راستے وہی گھر ہے اور وہی لان بھی
مگر اس دریچے سے پوچھنا وہ درخت انار کا کیا ہوا
معروضہ : مصرعہ ثانی میںلفظ ’’ انار‘‘کا ’’الف‘‘ بے طرح دب رہا ہے اور روانی میں پڑھاجائے تو خارج ازبحر ہوجاتا ہے۔ الف ِ وصل اگرچہ روا بھی ہو تب بھی شعر کی ساخت اور حسن دونوں کو بری طرح اثر انداز کر دیتا ہے۔اور پھر انار ہی کا درخت کیوں ؟ جام ، شہتوت وغیرہ کا کیوں نہیں؟؟؟؟
بھٹک رہی ہے پرانی دلائیاں اوڑھے
حویلیوں میںمرے خاندان کی خوشبو
معروضہ:مصرعہ ثانی میں ’’ میں مرے‘میں تنافر لفظی بہ وجہ ’’م ‘‘ واقع ہوا ہے۔
دبا تھا پھول کوئی میز پوش کے نیچے
گرج رہی تھی بہت پیچوان کی خوشبو
معروضہ: شعر دولختہ ہوگیا ہے ۔ نہ معلوم کس انگریزی مضمون کاترجمہ ہے۔
غزل کی شاخ پر ایک پھول کھلنے والا ہے
بدن سے آنے لگی زعفران کی خوشبو
معروضہ: ڈاکٹر موصوف نے لفظ ’’غزل ‘‘ پر صاد کا نشان لگایا ہے اور نیچے توجیہہ ’’راحت ‘‘ لکھی ہے۔ انہی ڈاکٹر راحت بدر کے نام دیوان منسوب بھی ہے ۔ اس شعر کے متعلق عرض ہے ۔ محاکات میں زچہ خانے کانقشہ نظر کے سامنے رقص کرنے لگتاہے۔ یہ کوئی شاعری نہیں ہوئی؟
سجاے بازووں پر بازو وہ میداں میں تنہاتھا
چمکتی تھی یہ بستی دھوپ میں تاراج و غارات سی
معروضہ: اس شعر کامفہوم دور ازکار ہے۔ شاید کہ بشیر صاحب کو علم ہو؟؟؟؟
لان میں ایک بھی بیل ایسی نہیں جو دیہاتی پرندے کے پر باندھ لے
جنگلی آم کی جان لیوا مہک جب بلائیگی واپس چلا جائیگا
معروضہ: مصرعہ اولی میں ’’دیہاتی ‘‘بروزن ’’ستاتی ‘‘ باندھا گیا ہے ۔ جو غلط ہے۔ــ’’دیہاتی ‘‘ کا وزن ’’مُسکاتی‘‘ ہے اسی طرح مصرعہ ثانی لفظ ’’جنگلی ‘‘ دلدلی ‘‘ باندھ گیا ہے۔ جو خلاف از عروض ہے ’’ جنگلی ‘‘ کا وزن ’’ہلکی‘‘ ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر موصوف سے مودبانہ درخواست ہے کہ عروض پر خاطر خواہ دسترس حاصل کرلیں۔ بعد از اں شعر کہیں کیوں کہ ہر جلال الدین رومی نہیں ہوتا۔ ’’ من ندانم فاعلاتن فاعلات‘‘
میرے بچپن کے مندر کی وہ مورتی دھوپ کے آسمان پہ کھڑی تھی مگر
ایک دن جب مر اقد مکمل ہوا اس کا سارا بدن برف میں دھنس گیا
معروضہ: اس شعر کی شرح تو خود ڈاکٹر موصوف بھی پیش نہ کر پائے، تو مجھ حقیر کی کیا بساط جو منہ آئے!!!!
چمکنے والی ہے تحریر میرے قسمت کی
کوئی چراغ کی لو کو ذرا ساکم کردے
معروضہ: مصرعہ ثانی میں لفظ ـ’’کو‘‘ حشو ہے۔ بعد از آں زبان یوں ہوگئی کہ ’’چراغ کی لو ذراسی کم کردے۔
کسی نے چوم کے آنکھوں کو یہ دُعا تھی
تری زمین خدا موتیوں سے نم کردے
معروضہ:موتیوں سے نم کرنا کی ترکیب نادر الوبود ہے ۔ جدید یت کایہ مطلب ہرگز نہ ہوگاکہ زبان کے ذائقے کو بگاڑ دیا جائے۔
محبت کرنے والے جب کبھی آنسو بہاتے ہیں
دلوں کے آئینے دھوتی ہوئی پلکیں سنورتی ہیں
معروضہ:تقابل ِردیفین کاعیب در آیاہے۔ ’’ہیں‘‘
میں شاہراہ نہیں راستے کا پتھر ہوں
یہاں سوار بھی پیدل اتر کر چلتے ہیں
معروضہ: اول اس شعر میں راستے کے پتھر سے سوار کے پیدل اتر کے چلنے کا تعلق سمجھ میں نہیں آتا۔ بلکہ گنجلک ہوگیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے شعر چیستاں کردیاہے۔ اور دوم یہ کہ لفظ ’’یہاں ‘‘ کی وجہ سے مصرعہ اولی میں ’’شکستہ راہ ‘‘ کا ماحول بن رہا ہے کہ میں شاہ راہ نہیں شکستہ راہ ہوںیہاں سوار بھی پیدل اتر کے چلتے ہیں۔جب کہ شاعر خود کو راستے کا پتھر بتلا رہاہے۔
انہیں کبھی نہ بتانا میں ان کی آنکھوں میں
وہ لوگ پھول سمجھ کر مجھے مسلتے ہیں
معروضہ: مصرعہ اولی میں ’’میں ان کی آنکھوںمیں‘‘سے کیا مرادہے، فہم سے بالا تر ہے ۔
ان میں روشن ہے ابھی تک تیرے بوسوں کے چراغ
اسے لئے ہم اپنی آنکھیں خودبچھانے آئے ہیں
معروضہ: مصرعہ ثانی میں لفظ ’’خود ‘‘ حشو ہے ۔
چاند چہرا زلف دریا بات خوشبو دل چمن
ایک تمہیں دے کر خدانے دے دیا کیا کیا مجھے
معروضہ: میں نے اپنے طویل مقالہ’’سرقہ توارد‘‘ میں اسے سرقہ ثابت کیا ہے ۔ علامہ سیمابؔ کا شعرہے۔
غم مجھے حسرت مجھے وحشت مجھے سودا مجھے
ایک دل دیکر خدانے دے دیا کیا کیا مجھے
اب چونکہ یہ شعر ’’ آمد ‘‘ میں بھی پایا گیا اسی لئے احیاء مناسب سمجھا۔بشیر بدر کو یہ قطعی زیب نہیں دیتا۔
چھپّر کے چائے خانے بھی اب اونگھنے لگے
پیدل چلو کہ کوئی سواری نہ آئیگی
معروضہ: لفظ’’اب‘‘کا تقاضہ مصرعہ ثانی کررہاہے نہ کہ مصرعہ اولی۔’’اب کوئی سواری……‘‘
میں بکھر جائوں گا آنسوئوں کی طرح
اس قدر پیار سے بدعائیں نہ دے
معروضہ:آنسوئوں کی طرح بکھرنا نئی بات ہے ورنہ اب تک ریت کے گروندے ہی بکھرا کرتے تھے ۔ منطقی طورپر بھی اگر دیکھا جائے تو مائع کیوں کر بکھرنے لگا؟؟؟؟
ایسا لگتاہے ہر امتحاں کے لئے
زندگی کو ہمارا پتہ یاد ہے
معروضۃ :۔مصرعہ اولیٰ میں تنافر ِ لفظی ’’ہے پر ‘‘ واقع ہوا ہے ۔ گوکہ یہ انگریزی شاعری میں حسن (figure) کی حیثیت رکھتاہے جسے غالباًAlliterationکہتے ہیں ۔
ٌ میکدے میں اذاں سن کے رویا بہت
اس شرابی کو دل سے خدا یا ہے
معروضہ: مصرعہ ثانی میں ’’دل سے‘‘ بھونڈا لگ رہا ہے ۔ محل’’اب تک ‘‘ یا کچھ اور کا تھا۔
دل پر جمی تھیں گردِ سفرکی کئی تہیں
کاغذ پہ انگلیوں کانشاں کوئی بھی نہ تھا
معروضہ: اس شعر کا مفہوم ڈاکٹر موصوف ’’ آپ سمجھے یا خدا سمجھے‘‘۔
سنّاٹے آئے درجوں میں جھانک کر چلے گئے
گرمی کی چھٹیا ں تھیں وہاں کوئی بھی نہ تھا
معروضہ: مصرعہ اولیٰ میں لفظ ’جھانک‘کا ’’نک‘‘ خارج از بحر ہے ۔ مصرعہ میں ’’جھا‘‘درون بحر ہے ۔
اب بھی چہرہ چراغ لگتاہے
بجھ گیا ہے مگر چمک ہے وہی
معروضہ:چراغ بجھنے کے بعد چمک کہاں رہے گی۔؟؟؟
نہیں ہے میرے مقدر میں روشنی نہ سہی
یہ کھڑکی کھولوذرا صبح کی ہوا ہی لگے
معروضہ:مقدر کے تناسب سے مصرعہ ثانی کی ردیف میں محل ’’ملے‘‘ کا بنتاہے ۔’’ ہوا ہی ملے‘‘
اسے کسی کی محبت کا اعتبار نہیں
اسے زمانے نے شایدبہت ستایا ہے
معروضہ : مصرعہ میں ثانی میں ’’زمانے نے ‘‘ میں تنافرِ لفظی ہے۔
تمام عمر مرادم اسی دھوئیں میں گھٹا
وہ ایک چراغ تھا میں نے اُسے بجھایا ہے
معروضہ: مصرعہ ثانی میں لفظ ’’اسے‘‘ کے بجائے محل ’’جسے ‘‘ کا بنتاہے۔
پہلی بار نظروں نے چاند بولتے دیکھا
ہم جواب کیا دیتے کھو گئے سوالوں میں
معروضہ: مصرعہ اولیٰ میں لفظ ’’ نظروں‘‘ کا استعمال کیا گیاہے۔ نظروں اور آنکھوں کے درمیان خفیف سے فرق کو ڈاکٹر موصو ف سمجھ نہ پائے ۔
یوں کسی کی آنکھوں میں صبح تک ابھی تھے ہم
جس طرح رہے شبنم پھول کے پیالوں میں
معروضہ:مصرعہ اولیٰ میں ’’صبح تک ابھی تھے ہم‘‘ کے کیا معنی ہوئے؟؟؟ یہ کون سی زبان ہے ، ہاں اگر یوں ہوتا کہ’ صبح تک ہم ہی ہم تھے‘ ، توکسی حد تک درست ہوتا۔
تیرے ساتھ اتنے بہت سے دن تو پلک جھکتے گزرگئے
ہوئی شام کھیل ہی کھیل میںگئی رات بات ہی بات میں
معروضہ: مصرعہ اولیٰ میں لفظ ’’اتنے ‘‘حشوقبیح ہے۔
اگرا ٓسماں کی نمائشوں میں مجھے بھی اذنِ قیام ہو
تو میں موتیوں کی دکان سے تری بالیاں ترے ہارلوں
معروضۃ : مصری اولیٰ میں’’میں مجھے‘‘اور ثانی میں ’’میں موتیوں ‘‘ مرتکب تنافر ہیں۔
خون پانی بنا کے پیتی ہے
دھوپ سرمایہ دار لگتی ہے
معروضہ : اس شعر میں تقابل ردیفین کا عیب در آیا ہے۔
انگنائی میں کھڑے ہوئے بیری کے پیڑ سے
وہ لوگ چلتے وقت گلے مل کے روئے تھے
معروضہ: بیری کے پیڑ میںکیا خصوصیت ہے؟؟؟اگر یہاں ’سرسبز‘ ہوتا تو شعر واقعی شعر ہوتا۔ چونکہ ہم لوگ سوکھنے جارہے ہیں(بقول غالبؔکہ عشق میں انسان سوکھ جاتا ہے’ ہوکے عاشق وہ پر ی رخ اور نازک بن گیا ‘ )اس لئے سرسبز پیڑسے مل کر رولیں۔ لیکن پتہ نہیں ڈاکٹر موصوف کو بیری کا پیڑکیوں کر پسند آیا اور ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ ڈاکٹر موصوف کے آنگن میں بیری کا خاردارپیڑ بھی لگایاجاتاہے!!! حیرت ہے !!!
اس حادثے سے میرا تعلق نہیں کوئی
میلے میں ایک سال کئی بچے کھوئے تھے
معروضہ : یہ شعر مکمل طور پر بے معنی ہے۔شاعر کے نفسیاتی الجھائو اور نفس ِ شعر کی یہ بے ترتیبی بلا شبہ ’’جدیدیت‘‘ ہی کہلائی جا سکتی ہے۔
بھول کر اپنا زمانہ یہ زمانے والے
آج کے پیار کو معیوب سمجھتے ہونگے
معروضہ: یہاں زمانۂ شکی سے سروکار غلط ہے۔ ’’ سمجھتے ہیں‘‘ ہونا چاہیے۔
نام پانی پہ لکھنے سے کیا فائدہ
لکھتے لکھتے تیرے ہاتھ تھک جائیں گے
معروضہ: مصرعہ ثانی بے انتہا بھونڈا اور پست ہے۔
تیری آنکھو ں میں ایسا سنور جائوں میں
عمر بھر آئینوں کی ضرورت نہ ہو
معروضہ : مصرعہء ثانی میں’’آئینوں‘‘ کے بجائے ’’آئینے‘‘کا محل ہے۔ اگر آنکھوں کو آئینہ کہاجائے ،خواہ آنکھیں دو ہو، لیکن عکس ایک ہی پڑتاہے۔
کسی کو نیلام کرتے ہو بازار میں
یہ کسی گھر کے مندر کی مورت نہ ہو
معروضہ : مصرعہ اولیٰ ساقط الاوزن ہوگیا ہے۔ ہر چند کہ مصرعہ اولیٰ میں لفظ ’’کسی کو ’’کس ‘‘ پڑھا جائے تو وزن مکمل ہوجاتا ہے، لیکن عروضی اسقام کی بھر مار دیکھتے ہوئے ذہن اسے کتابت کی غلطی تسلیم نہیں کرپارہا ہے۔
اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نجانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے
معروضہ: یہ شعر مسروقہ ہے ۔ میں نے اپنے مقالے’’سرقہ توارد‘‘ میں اس کی وضاحت کی تھی۔ بشیر بدر نے سرقۂ کبیر انجام دیاہے۔دراصل شعر عرشیؔ رامپوری مرحوم کا ہے۔
کفن دابے بغل میں اسلئے پھرتاہوں اے عرشیؔ
نجانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے
عاشقی میںبہت ضروری ہے
بے وفائی کبھی کبھی کرلی
معروضہ: مصرعہ اولیٰ میں ’’ہے‘‘ کی بجائے محل ’تھا‘کابنتاہے اور اگر یہاں’’ہے‘‘ رکھا جائے تو مصرعہ ثانی میں ’’کرلی‘‘ حشو ہوجاتا ہے۔’عاشقی میں کبھی کبھی بے وفائی بہت ضروری ہے۔‘ یہی اس کی نثر ہوگی۔
ہم نہیں جانتے چراغوں کو
کیوں اندھیروں سے دوستی کرلی
معروضہ: معنی شعر درِ بطن بدر۔ؔ
پھول شاخوں کے ہوں کہ آنکھوں کے
راستے راستے چنا کرنا
معروضہ : آنسوئوںکو پھول کہنا اختراع ہے اور خلاف ازروز وہ ہے ۔(آنکھوں کے پھول) فرانسیسی اور روسی شاعری کا مجھے علم نہیں اردواور فارسی شاعری میں نارواہے۔
دل پہ چھایا رہا اس کی طرح
ایک لمحہ تھا سوبرس کی طرح
معروضہ:مصرعۂ اولیٰ ساقط الاوزن ہے ۔مصرعہ ا ولیٰ میں ’’رہا‘‘کے بعد کوئی دو حرفی لفظ جیسے’’سو‘‘ یا ’’میں ‘‘ وغیرہ ہونا چاہئے تھا۔’’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کاتب کی غلطی ہو‘‘
خواب ان آنکھوں سے اب کوئی چراکرلے جائے
قبرسے سوکھے ہوئے پھول اٹھا کر لے جائے
معروضہ: چھ شعر کی اس پوری غزل میں ردیف کا جزو لفظ ’کر‘حشو ہے۔ ’چرالے جائے ۔اٹھا لے جائے ‘پر بات مکمل ہوسکتی ہے ۔
ہمارے دلوں کے دیے بجھ چکے ہیں
ہم آنکھوں کی تحریر کیسے پڑھیں گے
معروضہ:زمانوی فرق اور تحتانوی درجے کے اردو قواعد کا علم رکھنے والا عام قاری بھی اس عیب کو محسوس کریگا۔ مصرعہ ثانی میں لفظ ’گے‘حشوہے ۔ اور حشو بھی کہاں آکے ٹپکا،ردیف میں ! ردیف کا حشو ہو جانا نہایت معیوب بات ہے ۔
کبھی پاکے تجھ کو کھونا کبھی کھوکے تجھ کو پانا
یہ جنم جنم کا رشتہ ترے میرے درمیاں نہاں ہے
معروضہ: مصرعہ ثانی لفظ ’’نہاں‘‘ خارج از بحر ہے نیز حشو بھی ہے ۔
اداسی کا یہ پتھر آنسوئوں سے غم نہیں ہوتا
ہزاروں جگنوئوں سے بھی اندھیرا کم نہیں ہوتا
معروضہ: مصرعہ اولیٰ میں ’’غم نہیں ہوتا‘‘ کے کیامعنی ہوئے ؟ اصل ترکیب ’’غمی ہونا ‘‘ہے جو بہ معنی ’’ختم ہونا ‘‘ کے آتاہے ۔ یہاں ’’غمی ‘‘کو ’’غم‘‘کیا گیا ہے ۔ جو درست نہیں ،ہاں البتہ غم غلط کرنا درست ہوتا۔ دوسری طرف اگر اسے میں ’’نم نہیں ہوتا‘‘تسلیم کروں تو یہ میرے لئے مشکل!!اسقدر اغلاط ہیں کہ پھر یہ کتابت کی غلطی محسوس نہیں ہوتی۔
احساس کی خوشبو کہاں آواز کے جگنو کہاں
خاموش یادوں کے سوا گھر میں رہا کچھ بھی نہیں
معروضہ: آواز کے جگنو کیا معنی رکھتے ہیں؟اب تک آنکھوں کے جگنو ہوا کرتے تھے۔ڈاکٹر موصوف تخلیقیت کا نیا جذبہ کہاں سے لے آئے؟جدیدت نے اردو شاعری کی معنویت اور قطعیت کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے دنیا کے کسی ادب میں اس کی مثال نہیں ملے گی۔یہ لمحہء فکر ہے۔
مدت سے ریت کے صحرا میں آیا نہ گیا بادل کوئی
کس دیش گئے سارے پنچھی سوکھا ہے شجر تنہا تنہا
معروضہ: شجر تنہا تنہا سوکھا ہے ۔ یعنی اگر پنچھی ہوتے تو وہ بھی سوکھ جاتے؟
پھر یاد بہت آئے گا زلفوں کی گھنی شام
جب دھوپ میں سایہ کوئی سرپر نہ ملے گا
معروضہ: سخت حیرت ہے کہ ڈاکٹر موصوف ’’شام ‘‘ کو مذکر باندھتے ہیں۔اب اتنے عام فہم لفظ کی تذکیر و تانیث بتانے کے لیے سندیں پیش کرنا،اپنے علم کو منہ چڑانا ہوجائیگا۔سمجھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ کتنی مرتبہ حضرت ِ کاتب غلط ہیں اور کتنی بار بدرؔ صاحب۔
مجھ سے شام بتا دیتی ہے
تم کیسے کپڑے پہنے ہو
معروضہ:مصرعہ اولیٰ میں ’’مجھ سے ‘‘ٹکسال باہر زبان ہے اور غیر فصیح ہے ’’مجھ کو‘‘ درست ہے۔ ’’مجھ سے ‘‘کو برتنے کے لئے کچھ یوں ہونا چاہیے ’’مجھ سے شام کہے دیتی ہے‘‘
پھو ل اگر پیروں کے نیچے آئیں گے
آنکھوں کی بینائی کم ہوجائیگی
معروضہ: یہ مہمل گوئی نہیں تو اور کیاہے ۔ عموماً بینائی کم ہونے کے بعد پھول کیا ،ہر ممکنہ چیز پیروں کے نیچے آجاتی ہے لیکن یہاں پہلے پھول روندے جائیں گے۔ بعد ازآں بینائی کم ہوگی، واہ صاحب واہ!
پت چھڑکے پیلے سونے سے لدی
پکے بالوں والی اک عورت آئیگی
معروضہـ مصرعہ ثانی میں لفظ ’’اک‘‘ خارج از بحر ہے ۔
مندرجہ بالا معائب کسی شاعر کو ناقص ٹہرانے کے لئے کافی ہیں ۔ مجھے بہت افسوس ہوتا ہے جب کسی پڑھے لکھے شاعرکے یہاں اس قسم کی کمزوریاں پائی جائیں۔ میں اس قسم کے شاعر کو گلاب کے پودے سے تشبیہ دیتا ہوں۔گلاب کے پودے میں پھول کی بہ نسبت خار زیادہ ہوتے ہیں۔یہ پودا دور سے دیکھنے میں نہایت جمیل لگتا ہے۔ لیکن قریب سے اتنا ہی خار دار ۔ مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر بشیربدرؔ عفی عنہ’’آمد‘‘کی آئندہ اشاعت میں مذکورہ تمام معائب کی تصحیح فرمائیں گے۔ (اس وقت میرے پیش نظر حسامی بک ڈپو حیدرآباد سے شائع شدہ فروری ۱۹۹۳ء کا نسخہ ہے )
اس مضمون سے ڈاکٹر موصوف کی تضحیک و تحقیر یکسر مراد نہیں ہے۔ ’’آمد‘‘کے فلیپ پر دنیا بھر کے نامی گرامی حضرات جمع ہوگئے ہیں۔ والدِ بزرگوار(مرحوم خلیل فرحتؔ کارنجوی) اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’ایک ہزار میرو غالبؔ مل کے بھی کسی غیر شاعر کو شاعر نہیں بنا سکتے اور ایک ہزار نیازؔ و سیمابؔ مل کے بھی کسی شاعر کو غیر شاعر ثابت نہیں کرسکتے‘‘۔ڈاکٹر موصوف خوش طبع شاعر ہیں۔ طبیعت کی روانی میں کی جارہی شاعری معائب کا شکار ہوہی جاتی ہے، لیکن روانی اور بے ساختگی صرف شعر کہنے میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہے،شعر درست کرنے میں نہیں۔ شعر پر نظرِ ثانی از حد ضروری ہوتی ہے۔ ڈاکٹر موصوف سے التجا کی جاتی ہے کہ اس ضمن میں توجہ دیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.