Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مافیا : انسانی قدروں کی شکست و ریخت کا المیہ

خان محمد آصف

مافیا : انسانی قدروں کی شکست و ریخت کا المیہ

خان محمد آصف

MORE BYخان محمد آصف

    پیغام آفاقی کے افسانوی شعریات کا جنم معاشرہ کے حاملہ بطن سے ہوا ،جو درد زہ سے تڑپ رہا تھا۔افسانے کا فکشنل بیانیہ اور کردار جس معاشرے کے مکین ہیں اس کی تخم ریزی غلامی کے بیچ سے ہوئی ہے۔گلوبلائزیشن کی نئی اقتصادی پالیسی ،اورنئی طرح کی فکری وثقافتی یکسانیت سے پیدا شدہ اجارہ داری نے اسے نظریاتی بندھوا بنا دیا۔ذہنی اور طبعی استحصال کے سائے اور طلسم نے اسے خوف ،نفسیاتی الجھن وپیچیدگی،احساس کمتری اور ثقافتی اجنبیت میں مبتلا کر دیا۔ آج کا فرد اول جس طرح کی ثقافتی کثافت ،گھٹن اورسوچ اذیت میں سانس لے رہا ہے مافیا اسی طرح کے اکتائے ہوئے،مظلوم و معتوب روحوں کا تخلیقی اسکیچ ہے جو خون میں لتھڑی ہوئی تاریخ اور تسخیر فطرت سے اپجی ہوئی انسانی سرشت کی ظالمانہ جبلت کا مکاشفاتی بیانیہ انسان کی جینیاتی کوکھ سے ابھار رہا ہے۔جو محض لمحہ موجود کی عکاسی نہیں کرتا بل کہ دنیا کی تاریخ کا ہر دور ضحاک کے ظلم و جبرچیخا ہے۔ زمانہ قدیم میں تلواروں کے ذریعہ انسانی اجسام و ارواح کو مہذب کرنے کے لئے غلامی کا طوق ان کی گردنوں میں ڈال دیا جاتا تھا ۔جلال باشاہی ہو کہ ،جمہوری تماشا ہو،طریق بدلا ہے حیلے وہی پرویزی ہیں،تہذیب حاضر آزادی اور روشن خیالی کو تشہیر کر کے انسانی ذہنوں میں وائرس بھر رہی ہے۔عالم گیریت کا یہ وائرس اپنی تہذیبی عریانیت سے نوآموز اور نوخیزفکری کینوس کو مفلوج کر رہا ہے۔بقول پیغام آفاقی مافیا سے میری مراد ایسی طاقتیں ہیں جو اپنے فائدے کے لئے دوسرے انسانوں کی زندگیوں کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں اوراپنی راہ میں آنے والی مزاحمتوں کا بے رحمی سے صفایا کر دیتی ہیں۔ پیغام آفاقی بقول خودمیں ایک تخلیقی مفکرہوں ۔ناول اور افسانے میں تفریح کا سامان مہیا کرنے کے لئے نہیں لکھتا میں قارئین کو زندگی کی پیچیدگیوں سے روشناس کرانے کے لئے لکھتا ہوں۔ پیغام آفاقی اپنے ارد گرد کے فکری امکانات کو کلیدی اہمیت دیتے ہیں۔اورسماجی حرکیات کی بے ربطی کو دانش ورانہ بصیرت کے تناظر و تناسب پر پرکھتے ہیں تاکہ معاشرتی حقائق کی روشنی میں موجود مسائل کی اصل اساس تک پہونچ سکیں تو سماج میں پنپ رہے مسائل چیخ اٹھتے ہیں اور ایک ادیب اس چیخ کے کرب کو اپنے تفتیشی دانش کے استدلال کی مدد سے ایک نقطہ نظر اور فکری نظریات وضع کرتا ہے۔تاکہ فکری انتشار اور سماجیاتی موت کے اعلامیہ کی شناخت اور پہچان کر سکے اس طرح وہ انسانی نفسیات کی اجتماعی لا شعور،قوموں کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ اور اقتصادیات کی گمشدہ کڑیوں کی از سرے نو بازیافت اپنے استدلالی دانش سے کرتا ہے۔ تو اس پربدلتی ہوئی حقیقوں کا انکشاف ہوتا ہے آج کا مکاشفاتی بیانیہ جومیڈیائی علم کے ما قبل سچ اور ما بعد سچ کے چکرویو میں فکری اذیت کی علامتی تصویر بنا ہوا ہے، تاریخ کے بازار میں اجتماعی تنہائی اور معاشرتی اجنبیت کا نوحہ کر رہا ہے،اس مہذب دنیا کی بے رحم ترقیات و اختراعات کے سبب اشرف المخلوقات حشرات الارض کی مانند اجتماعی خودکشی پر مجبور ہیں۔ تودوسری طرف مصنوعی ذہنیت بنی نوع انسان کے وجود کے لئے خطرہ بنتی جا رہی ہے پیغام آفاقی کا پورا افسانوی فسوں اور آہنگ اسی مافیائی انسان کی شرست سے پھوٹا ہے جب لاشعور ی طور پرضمیر پر غاصب ہے اور اسی کو سماجی آدرش مان کر بصیرت و بشارت حاصل کرتا ہے۔مافیا انسان کے علم ،ذہانت اور اختراعات کے ظلم وجبر اور تشدد کا مکمل بیانیہ ہے۔

    افسانوی مجموعے کا پہلا افسانہـ بھوکمپ اورجوالا موکھی قدرت کی قہاری ،جبروت اور خدا کے وجود کو استفہامیہ روپ میں دیکھنا،اس کے علاوہ آفت ناگہانی کے نزول سے بد عنوانیوں کی کونپلیں پھوٹنے کی علامتی فسوں کاری ہے۔سمبولک لفظیات کے استعمال نے افسانے کی تعبیر و تفہیم کو مستحکم کیا ہے ،ساتھ ساتھ توضیح و تشریح کے نت نئے در بھی کھولے ہیں ۔نزول عذاب کے امکانات پر سوال قائم کرنا اور اس کے جواز میں سماج کے دانش وروںمیں یہ سوال پیدا ہونا کہ خدا ہی کون اس دنیا کو چلانے میں کامیاب تھا افسانے کی قرأت بد عنوانی،نافرمانی اور ظالم کی حکمرانی جیسی کئی باتیں سمجھ کی سطح پر لے آتی ہے لیکن فورا بعدسوچ کا سلسلہ مذہبی گرنتھوں کی ان آیات ربانی پر چلا جاتا ہے جس میں حد سے تجاوز کرنے والوں ،نافرمانوںاور ظالموں کے وعید سنائی گئی ہے۔ یہ بڑا دہشت انگیز سلسلہ تھا کہ لوگ جس زمین پر رہ رہے تھے وہ زمین ہی ہل رہی تھی بے شمار گھر ٹوٹ رہے تھے ۔لوگ گھائل ہو رہے تھے چیخ و پکار کی آواز میں پوری فضا پر حاوی ہو رہی تھیں۔نگاہیں بس دیکھ رہی تھیں بلکہ دیکھنے پر مجبور تھیں جو ہو رہا تھا،کئی مسجدوں کی میناریں زمین بوس ہو گئیں۔کئی مندر لڑھک گئےارشاد الہی ہے کہ اگر وہ منھ پھیر لیں تو پھر کہہ دو کہ میں ایسی بجلی سے ڈراتا ہوں جیسی عاد و ثمود پر گری تھی بے شک یہ دنیا جائے عبرت ہے جس کی نشانیاں زمین پر بکھری پڑی ہیں ۔عاد و ثمود عظیم آندھی سے تباہ کر دیا جو اونچے اونچے محلات اور بڑے بڑے ستونوں والے تھے۔جن کی سلطنت و حکومت ،شان و شوکت،طاقت و قوت اپنی مثال آپ تھی،مگر جب اس قوم نے نظام قدرت سے بغاوت کی اور شہوانی اور نفسیاتی خواہشات کے پیرو ہوئے تو اللہ نے اس قوم کو نشان عبرت بنا دیااور سات راتیں اور آٹھ دن تک قوم عاد پر تند و تیز ہوئیں چلیں۔فرعون کو اپنی نہ ختم ہونے والے لشکر اور فوجیوں پر گھمنڈ تھا اللہ نے اسے دریا برد کر دیا ۔ایسی قوموں اور شخصیات کے عبرت انگیز قصوں سے تاریخ کے صفحات سیاہ ہیں جن کی دہشت و ہیبت ،ظلم و جبر اور اقتدار کا زعم اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ وہ بزعم خود کہتے تھے کہ ہم سے زیادہ کوئی طاقت ور ہے،لیکن زمانے نے ان سے ایسا انتقام لیا کہ حسین و جمیل جسم میں خاک میں مل گئے اور ان کی ہستیاں کائنات میں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئیں ۔ان کی دولت اور ان کی طاقت انہیں موت کیآہنی شکنجے سے نہ بچا سکی۔ایسے ہی قوم شعیب کو اپنی تجارتی حیثیت پر بڑا ناز تھا وہ ناپ تول میں کمی کرتی جب ان کہا جا کہ بے ایمانی اور بد عنوانی سے باز آؤ ۔لیکن وہ اپنے طریق سے باز نہیں آئے اچانک موت نے ان پر رقص شروع کیا ۔ڈیم کے دہانے ٹوٹ گئے اور پانی نے ساری قوم کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ۔ارشاد ربانی ہے کہ ان کی نعشوں پر کھڑے ہو کر ان سے کہوکہ طاقت پر غرور کرنے والوں بتاؤ۔تمہاری طاقت کہا چلی گئی۔ یہ نشانیا ں زمین والوں کے لئے عبرت ہیں ،پس اے عقل و شعور رکھنے والوں اس سے عبرت حاصل کرو۔افسانے کی پڑھنت قاری کی پوری ذہنی سوچ کو ان تلمیحات کی طرف لے جاتی ہے جو ماضی کی عبرت ناک داستانیں تھی جن کی نشانیاں کرۃ ارض پر بکھری پڑی ہیں ۔افسانہ نگار نے قرآنی قصوںکی تلمیحات کو حال کے تناظر میںپیش کر کے اس بات کا بین ثبوت دیا ہے اور یہ بات بتانے کی کوشش کی ہے کہ جب راجا اپنے راج دھرم کا پالن کرنا ترک کردے،عدالتوں پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جا ئے ،تاجر ناپ تول میں کمی کرے اور دانش ور کوتاہ ذہنی کا شکار ہو جا ئے تو قدرت قہاری و جباری کا روپ دھارن کرتی ہے تب دنیا کوکٹرینا اور سونامی کی وحشت ناک تباہی سے کو ئی بچا نہیں سکتا۔اس سے قطع نظر جب ہم عالمی مسائل کی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا مر کز جوئیت ،کلیت اور صارفیت پسندی کی طرف بڑھ رہی ہے۔جس کے نتیجے میں سیاسی بحران ،نفسیاتی خوف اورایک ان دیکھا خطرہ کے روبرو کھڑی ہے اور اقوام عالم پاپولزم یا عوامیت پسندی کی طرف بڑھ رہی ہے جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔یورپین پاپولزم کی سب سے واضح مثال ہمیں جرمنی کے ہٹلر کے یہاں ملتی ہے کیونکہ اس وقت جرمن پوری طرح سے ٹوٹ چکا تھا جرمن قوم کے وقار اور شناخت کو بحال کرنے کے لئے ہٹلریہ کہتے ہوئے کھڑا ہواکہ میں کر سکتا ہوں ۔اقتدار کے نشے میں وہ ایسے ذہنی مرض میں مبتلا ہوا کہ جسے نسلی تتعصب اور عوامیت پسندی کہا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی پوری قوم تباہ و برباد ہوئی ۔آج امریکہ اور یورپیں ممالک میں پاپولزم کے کلامیے میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔جو سیاسی سطح پر بیانیے کا روپ لے رہا ہے جس کی پشت پناہی یا سرپرستی امریکہ کر رہا ہے ۔جو ایک ایسی ریاست کی شکل میں موجود ہے جو بین الا قوامی سطح پر کسی بھی ریاست کا احترام نہیں کرتا ۔نوم چومسکی نے اسے ROGUE NATION کا نام دیا تھا۔اور اس کی معاشی عیاریوں کا پردہ یوں چاک کرتے ہیں ملاحظہ کریں۔

    Globalization is the result of powerful governments, especially that of the United States, pushing trade deals and other accords down the throats of the world’s people to make it easier for corporations and the wealthy to dominate the economies of nations around the world without having obligations to the peoples of those nations.

    ۔کئی لوگوں نے یاد دلایا کہ جب زمین پر برائیاں بڑھ جاتی ہیں تو قدرت کی طرف سے قہر نازل ہوتے ہیں،اور اس سے پہلے بھی کئی بار ایسا ر رکھنے والوں ان ہو چکا ہے،انھوں نے مذہبی کتابوں کے حوالے سے ایسے کئی ثبوت دیے ۔اس میں دو طرح کے حوالے تھے،ایک تو کوئی قوم جب برائیوں پر اتر آئی اور خدا کو بالکل بھول گئی تو خدا نے کسی بیماری یا سیلاب یا طوفان وغیرہ کے ذریعہ پوری آبادی کو مٹا دیا۔دوسری وہ جس میں کوئی حکمراں ظالم ہو گیا تو پوری آبادی کو مٹانے کے بجائے کوئی ایسا انسان سامنے آیا جس نے مظلوم عوام کی رہنمائی سے ان ظالم حکمرانوں کو ختم کیا ۔تو اب جو صورت حال تھی اس سے تو یہی کہا جا سکتا تھا کہ پوری آبادی ہی نیست و نابود کر دیے جانے کے لائق تھی۔

    افسانہ قلندرزیست کے اساسی فلسفے کو بڑی خوبصورتی سے پیش کر رہا ہے جو کسی نظام حیات یا سسٹم کے تحت نہیں بل کہ ٹرین کے مانند جھومتے جھامتے شور مچاتے چلے جا رہا ہے۔افسانہ وقت،دریا اور زندگی کی تثلیث بیان کرتا ہے جو ہر دم رواںو دواں کا استعارہ ہے ۔یہ تحرک و تسلسل اور احتجاج انسان کے جینیاتی مظاہر میں ہے کیونکہ انسانی زندگی کا آغاز ہی قتل سے ہوتا ۔افسانہ نفی کائنات اور تصور فنائیت کے فلسفے کو پیش کرتا ہے۔سفر ،مسافر، ٹرین ،اجتماعیت یعنی روز محشر کی گہما گہمی،اسی طرح تنہائی ،اجنبیت،سناٹا اور سناٹے کا بذات خود بول اٹھنا یعنی صور کا پھونک دینا ۔ اس متاع الغرور میں مٹی کا لبادہ اوڑھے انسانی وجود شدید اختلال کا شکار ہے اسے یہ بات معلوم ہے کہ گوشت پوست کا حسین و جمیل یہ جسم لبلبی مٹی اور کیچڑ سے بنا ہے لیکن پھر بھی وہ حرص و ہوس سے توبہ نہیں کرتا ۔اقتباس کیا تم قلندری کے گر جاننا چاہتے ہو؟ تو جان لو کہ تم بھی ایک قلندر ہو۔وقت کی زمین پر مٹی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ،تم چھوٹے بڑے ہر واقعے کو اپنے اندر غڑپ کر جاتے ہو اور تمہاری طرح وہ بھی قلندر ہے البتہ وہ بڑا قلندر ہے ،وہ۔۔۔۔۔سامنے چاندنی میں جو پڑا سو رہا ہے اور جو ابھی بارش سے بے حد بھیگ کر کیچڑ بن گیا ہے ،اسی کیچڑ میں تو ٹرین کے سارے ڈبے دھنس کر گم ہو جاتے ہیں ورنہ یہ ڈبے اور جاتے کہاں ہیں۔قلندر کی مثل افسانہ ٹرین زندگی کی بے ثباتی ،بے یقینی اور شکست خوردگی کا مرقع بیان کرتا ہے جہاں زندگی اپنی آبلہ پائی ،چھلے ہوئے جسموں کے ساتھ آہنی جالوں کو توڑتی،پکڑے اور چھوڑے جانے کے احساس کے ساتھ گھسیٹ گھسیٹ بے مرادی کے سا تھ چلی جا رہی ہے ۔افسانہ کا راوی انسانی زندگی کے مسائل سے فرایت چاہتا ہے بکھراؤ ، بے ترتیبی،یقین اور گمان،خواب اور حقیقت کے بطن سے اصل زندگی کی سچائیوں کو تلاش کرنے سے گریز کرتے ہوئے ۔ لیکن افسانہ نگار فنی چابک دستی سے ائیڈئلزم اور انقلاب کی رومانی دنیا سے نکال کر زندگی کی نری حقیقت سے رو برو کراتا ہے کیونکہ زندگی کا حقیقی ادراک اور اس کے جمود کا احساس ہی کامل سکون کا ذریعہ ہے۔

    پیغام آفاقی کا افسانہ کیڑے کا دوسرا جنم شاموکی بے قرار حسیت اور بے چین شعور کا ترجمان ہے جب کہ آج کی دنیا کا تخلیقی و تعبیری معیار ترقی پسند آئیڈیوجی کے زوال پرست بطن سے علامتی، تجریدی اور تخیئلی استعارہ کا جنم دے رہا ہے۔ا ۔زیر بحث افسانہ فراریت سے گریز اور زندگی کی حقیقی سچائیوں سے بے زاری و بے اعتنائی کا بیانیہ ہے۔رجعت قہقری کا شکار شامو اپنے ذات کے دشت میں وجود کا بوجھ لئے ہانپ رہا ہے یہ اس کے ضمیر کا بوجھ ہے جو اس کے حس باطنی کو جھنجھوڑ رہا ہے ۔وجہ یہ ہے کہ حقیقی انسان بہت دنوں تک علامتوں و اساطیر کے طلسم میں نہیں رہ سکتا وہ اس کو توڑ کر زندگی کی صداقتوں میں جینے پر مجبور ہے۔اور اسی کے ساتھ بھوگے ہوئے یتھارتھ کو قلم کو سوپنا ہی فن کا میزان مانا جاتا ہے۔جو تصور و تخئیل کے تخلیقی امکانات کو بصیرت عطا کرتا ہے اور نت نئی سوچ کی کرن سے انسانی ذہن کے نگار خانے کو منور کرتا ہے ۔اقتباس میں مدیر کا خط ملاحظہ کریں ۔

    میاں !

    میں تمہیں سچ لکھنے کو کہہ رہا ہوں جو خوب صورت ہے۔

    اور تم سچ سے گھبرا رہے ہو۔

    میں تمہیں آنکھ سے دیکھی ہوئی اور کان سے سنی ہوئی ،اور جسم سے چھوئی ہوئی ،اور زبان سے چکھی ہوئی ،اور وجود سے ٹکرائی ہوئی بات کو لکھنے کو کہہ رہا ہوں۔

    کبھی صبح کے وقت اپنے کمرے سے نکلو،اور ان ٹھنڈی ہواؤں کو محسوس کرو جو وقت کے کلینڈر پر رواں دواں ہیں۔جو ہمارے وقت کی نشان کا غازہ ہیں۔

    افسانہ گلاس کائناتی قید و بند کے کیفیاتی مظہر کو پیش کرتا ہے جہاں انسانی وجود ارض و سماں کے بیج میں ثقافتی ،روایتی گھٹن محسوس کرتا ہے ۔اس افسانے میں بھی کیڑازوال پرست دانش کی نہیں بل کہ سعئی اور حرکت کی علامت ہے ۔جس کی فطرت میں حرکیاتی عمل پایا جا تا ہے کیڑا آزادی کا قائل ہے،قید و بند کی صعوبتوں میں بھی آزاد فضا میں جینے کا حوصلہ بر قرار ہے،اور یہ معمولی ذی روح اپنے وجود کے اجزائے عناصر سے اپنے ارد گرد شیشہ پلائی دیوار میں آزادی کے سوراخ کا ادراک مستعدی سے کر رہا ہے،جب کی انسانی زندگی اجنبی نظام معاشرت و معیشت کا پشتارہ اٹھائے ،امید وبیم کے تناؤ میں جامد خاموش روایتوں و رواجوں کی راہ پر چلی جا رہی ہے۔جو یاسیت ،قنوطیت نسلی و مذہبی کنٹھائیت مملو ہے۔ایسے میں زندگی مسرت کے بجائے مجبوری کا نام بن جاتی ہے۔افسانے کا اقتباس دیکھیں۔ میں تمہیں اس وجہ سے آزاد نہیں کر رہا ہوں کہ تم متحرک ہو،میں مردہ ہوں ۔تم اپنی تحریک کی کوششوں کو دیکھتے دیکھتے مجھے اس کے زیر اثر متحرک ہو جانے دو۔اپنی مایوسیوں کے مواد سے میرے اوپر جو موٹی موٹی پرتیں جم گئی ہیں انھیں پگھل جانے دو کہ میں بھی اس سے آزاد ہو کر تمہاری طرح متحرک ہو جاؤں ،ان دیواروں کے خلاف ،ان دیواروں کے روبرو،جو دیواریں مجھے گھیرے ہوئی ہیں کہ مجھے بھی تو تمہاری ہی طرح کسی نے زمین و آسمان کے بیچ ڈال دیا ہے

    افسانہ بلندی قوم و ملک کے رہبروں پر سوال کھڑا کرتا ہے۔جو اپنے پیروں کو مستعار نظریات سے ذہنی مفلوجیت اور نفسیاتی عارضے میں مبتلہ کر دیتے ہیں ۔اپنے طلسمی بیانیہ سے عوام کو ہپناٹائز کر دیتے ہیں اوراپنے زور بیان سے ایک ایسی دنیا کا خواب بنتے ہیں جو جنت ارضی کا مثالی نمونہ ہوتی ہے ۔جو ایک ایسا یوٹوپیا ہوتا ہے جو انسانی وجود کو فکری کرائسس کے چکرویو میں پھنسا دیتا ہے ۔

    افسانہ اس کی شخصیت پرمذہب کی کوئی پہچان نہیں تھی محض مذہبی شناخت کا بیانیہ نہیں ہے بل کہ اس میں میڈیا کے ذریعہ مشتہر کیا گیا وہ فوبیائی ڈسکورس ہے جوآج کی دنیاکے سامنے نسلی،مذہبی اور جغرافیائی تعصب کو لے کر چیلنج بنا ہوا ہے اور یہ مذہبی ،لسانی اور قومیت کا مہا بیانیہ اپنے تشدد کے ساتھ فاشزم کی راہ پر چل رہا ہے۔ابتدا میں کمزور اقلیت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے۔اقتباس ملاحظہ کیجئے تم میرا کو ئی بھی نام فرض کر لو ۔مجھے تو صرف اتنا یاد ہے کہ جب میں نے اپنا نام بتایا تھا اس کے بعد ہی مجھ پر حملہ ہوا تھا آپ لوگ مجھے سوچنے کے لیے تھوڑا وقت دیجیے یہ بہت نازک مسئلہ ہے۔پلیز میرا ذہن بھی تب سے ٹوٹ سا گیا ہے ۔میں سوچتا کم ہوں ،ڈرتا زیادہ ہوں!اور آپ لوگوں کو دیکھ کر مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے افسانہ ناریل کا پیڑمعاشی بد حالی اور خوفناک ارزانی سے جنگ کا المیاتی مکالمہ ہے۔ایسی صورت حال میں انسان کی مثال اس شکستہ پرندے کی سی ہوتی ہے جو اپنے بد نما جسم کے ساتھ زمین پر رینگنے پر مجبور ہوتا ہے۔

    افسانہ پیتل کی بالٹی آج کے خود غرض معاشرے میں دوہرہ معیار جینے پر مجبور انسان کا کربیہ بیانیہ ہے ۔یہ افسانہ انسانی فطرت کو ڈسکورس میں لانے کی سعی ہے جس کی وجہ سے انسانیت کی جڑیں انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں،یہ پورا افسانہ نیو کلیئر فیملی کے پیدا شدہ مسائل کا فکری کرائسس ہے ،جس ماڈرن ازم کو ہم مغرب کاجمالیاتی مظہر سمجھتے ہیں ،ایسے نئے ماحول میں وندنا جیسی مشرقی عورت رنجیدگی اور اپنے ارد گرد سے اکھڑے ہونے کوشدید محسوس کرتی ہے۔اور نئی تہذیب کا منطقی تکلف رقیب تمنا کی طرح کچوکے لگاتا ہے اور دنیا کی ریس میں انسان اپنی ازلی جبلت کو مکار دانش کی میٹھی لوری سے سلا دیتا ہے۔جب کہ ایک پتی ورتا عورت ،ستی ساوتری کا عورت پن اپنے بدن آیتوں کی تشریح چاہتا ہے اس کے من کی مٹی روندے جانے کی آرزو میں بے چین ہے۔اقتباس ملاحظہ کریں۔ میں تنگ آگئی ہوں ۔اور میں نے دیکھا کہ وہ تو جھگڑے پر تلی ہوئی تھی اور اس بارے میں سنجیدہ تھی۔کم بخت بجلی کا پنکھا۔یہ بجلی تو میری سوت بن گئی ہے۔اس نے ٹی وی کو گھور کر دیکھا۔پہلے سینما دیکھنے باہر جاتے تھے تو تفریح ہو جاتی تھی ۔اب ٹی وی پر فلم دیکھو،مشاعرہ دیکھو اور ہوٹ بھی نہ کر پاؤ افسانہ لوہے کا جانورخلیفۃ الارض کی کہانی ہے جنہیں حشرات الارض کی مانند جینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔یہ افسانہ بے زمین ہرواہوں کی بپتا ہے کہ مشین کی آمد نے ان کو مزرع سے بے دخل کر دیا اوروہ بھومی ہین کسان شکم کی آگ لئے شہر بہ شہر پھرنے لگے۔بے رحم ترقیات پر لکھا گیا یہ افسانہ انسان کی غم و اندوہ کا بہترین عکاس ہے۔اقتباس ملاحظہ کریں ۔ٹریکٹر کی دوڑ کا ناکام مقابلہ صرف اسی نے نہیں کیا تھا۔ٹریکٹر سے چھوٹے کھیت بھی بہت کم اجرت پر جوتے جا رہے تھے اور تمام ہل والے تیزی سے گاؤں بدر بل کہ زندگی بدر کئے جا رہے تھے۔

    اسے زوروں کی بھوک لگی تھی اور گھر سے بچوں کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں لیکن وہ اس وقت کہاں جا سکتا تھا،کون سا کام کر سکتا تھا ؟کوئی کام تو ایسا نہیں تھا۔جو مشینوں نے ہڑپ نہیں لیا ہو۔

    پیغام آفاقی نے اپنے افسانوں میں آج کی دنیا مسائل و مصائب کو محض دریافت ہی نہیں کیا بلکہ اپنے کرداروں کے فکری کرائسس کو بھی طشت از بام کیا جو نئے انسان اور نئے تمدن کی اختراع ہے۔اور اپنے فنکارانہ تخئیل سے موجودہ عہد کے انسان کی تعبیر و تفہیم کو تخلیقی انداز سے پرکھنے کی کوشش کی ہے اور اس بات کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ عہد کے سوچنے کے انداز میں ارتقائی تشکیل ہوئی ہے معاشرے میں وحشت کے احساس میں اضافہ ہوا ہے،سماج مردہ خاموشی،قوت کی فتح،احساس برتری کی فتح اور لا قانونیت اور طاقت کے بے مہار بہاؤنے انسان کے حس باطنی کو ہلا کر رہ دیا ہے۔آج انسانیت سے روحانیت غائب ہو چلی ہے، جس کے سبب ہمیں ہمارا وجود ایک بوجھ لگ رہا ہے۔دوسری طرف پوری دنیا میں غیر کا تصور بہت تیزی سے حاوی ہورہا ہے۔نتیجے کے طور پرنسلی و مذہبی تعصب اور پاپولزم کا نظریہ بڑھ رہا ہے جو مستقبل میں دنیا کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔پیغام آفاقی کا افسانوی مجموعہ مافیا استحصالی قوت کے خلاف بغاوت کی علامت ہے اور اس سماجی رسم سے انحراف ہے جہاں لوح و قلم پر پہرے بیٹھانے کی ذہنیت پروان چڑھ رہی ہے اور دانش وقت کو اپنے تدبر و حکمت کے عوض دھول چاٹنی پڑھ رہی ہو۔ایسے دور میں سماج کو بکھرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔پیغام آفاقی میں اور مافیا کے جہات میں رقم طراز ہیں کہ یہ نقطہ ملحوظ رہے کہ مافیا کے زیر اثر دہشت کے ماحول میں پلنے والے سماج کے کرداروں میں خود کلامی کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔آج کا سماج مکمل طور پر مافیا کے زیر اثر ہے اور ہمارے عہد کی یہ سب سے بڑی سچائی ہے۔مافیا سے میری مراد ایسی طاوتیں ہیں جو اپنے فائدے کے لیے دوسرے انسانوں کی زندگیوں کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں اور اپنی راہ میں آنے والی مزاحمتوں کا بے رحمی سے صفایا کر دیتی ہیں ۔مافیا کے اوپر میں مافیا کی مابعد الطبیعات کے عنوان سے ایک الگ تفصیلی مضمون لکھ رہا ہوں کیوں کہ اس لفظ کو ایک علامت کے طور پر میں اس ازلی قوت کی نمائندگی کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہوں جو انسان کے دکھوں کا سر چشمہ رہا ہے۔ یہاں میں صرف اشارہ کرتا چلوں کہ میرے لفظ مافیا سے صرف ان جرائم پیشہ لوگوں کو مفہوم کے طور پر نہ لیا جائے جو سماجی قوانین کو متحد ہو کر توڑتے ہیں کیوں کہ میں ادب میں جب جرم کی بات کرتا ہوں تو وہ قوانین کے علاوہ فلسفوں ،نظریات اور عقیدوں میں موجود غیر انسانی رویوں کو بھی دسترس میں لیتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے