مے خانۂ حافظ
حال سے بے اطمینانی اور عصری زندگی سے ناسودگی ہر بڑے شاعر کے ہاں ایک مکمل تر حیات کی آرزومندی کا روپ دھار لیتی ہے۔ اگر شاعر فلسفی بھی ہو یعنی اس کی فکر اس کے جذبات پر غالب ہو تو وہ ایک باقاعدہ، مربوط اور منظم نظامِ حیات کی داغ بیل بھی ڈال جاتا ہے۔ یہ شاعر کی مثالی اور خیالی جنت ہے۔ اردو ادب میں اس کی روشن مثال اقبالؔ ہے۔ جس کے ہاں حال سے بے اطمینانی کا جذبہ ایک باقاعدہ اور فلسفیانہ نظام کی تشکیل بروئے کار لاتا ہے۔ اور اگر شاعر فلسفی نہ ہو یا باالفاظِ دیگر اس کے جذبات و احساسات اس کی فکر پر غالب رہیں تو یہ ناآسودگی اور بے اطمینانی کسی منظم اور منطقی نظام میں ڈھلنے کی بجائے زیست کے تضاد، ناانصافی، بے بضاعتی، عدمِ تکمیل اور ناتمائی حیات کا نوحہ بن جاتی ہے جس میں یہاں وہاں اس کے فکری عناصر اور کسی مکمل تر حیات کانقشہ جزوی طور پردیکھا جاسکتا ہے۔ اور اگر ہم چاہیں تو ان منتشر خیالات کو ترتیب دے کر اس کی مثالی جنت میں بھی جھانک سکتے ہیں، اردو شاعری میں اس کی مثال ہے۔ میرتقی میرؔ جس کے ہاں اقبالؔ کا سا قواعد سے گر انبار اور فلسفیانہ تفکر سے مرتب کوئی مثالی نظام موجود نہیں لیکن نا تمامی حیات کا نقش جہاں کہیں ان کے اشعار میں جگہ پاتا ہے، وہیں کسی بہتر نظام اقدار کی اثباتی تڑپ بھی بالواسطہ طور پر موجود ہوتی ہے۔
لیکن شیرازی ناؤنوش اورعشرتِ امروز کا شاعر ہے۔ اس سے کسی مثالی نظامِ حیات کی توقع رکھنا زیادتی ہے۔ وہ ان معنوں میں مفکر نہیں ہے جن معنوں میں ہم غالبؔ اور اقبالؔ کو مفکر تسلیم کرتے ہیں۔ وہ فلسفی نہیں۔ اول وآخر شاعر ہی ہے۔ اس کی فکر میں پیچیدگی نہیں۔ عمق اور گہرائی بھی کم ہے۔ اس کی بجائے وہ جذبات کی ’’معتدل شدت‘‘ اور ان کے فنکارانہ ابلاغ پرایمان رکھتا ہے۔ اس کا فکری تانا بانا سلیس، سیدھا سادا، زود فہم اورزدوہضم اور عوامی سطح کا ہے۔ عصری زندگی سے حافظؔ بھی مطمئن نہیں۔ لیکن چونکہ وہ شاعرِ شراب اور شاعر تصوف ہے۔ اس لیے اس نے اپنے خیالات، جذبات اور احساسات بادہ و ساغر کے سانچوں میں پیش کیے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کسی مثالی نظام کی تشکیل کی بجائے اس کے ہاں ایک مثالی ’’شہرطرب‘‘ یا ایک مثالی محفلِ عشرت کے نقوش اجاگر ہوگئے۔ اس مضمون میں حافظؔ کے اسی شہر طرب کی سیر مقصود ہے۔
رندی اور شراب و شاہد کا مسلسل ذکر حافظؔ کا طرہ امتیاز ہے۔ لیکن حافظؔ کے گہرے مطالعے سے یہ خیال افروز حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ وہ شراب کا ذکر محبوب کے بغیر بہت کم کرنا ہے۔ اس کے ہاں شراب و شاہد قریب قریب لازم و ملزوم ہیں۔ ہوسکتا ہے حافظؔ نے اپنے کلام میں یہ خصوصیت ارادتاً پیدا کی ہو کیونکہ طریقت و معرفت میں شراب اگر سلوک و عرفان ہے تو مرشدِ کامل یا کسی رہنمائے حقیقی یا مشیت ایزدی کے بغیر اس کا حصول ممکنات میں سے نہیں۔ سفرِ معرفت کے لیے دانائے راہ کا وجود شرطِ تصوف ہے۔ اور اس کے لیے پیرمغاں، محبوب یا ساقی ہی کی علامات استعمال ہوتی ہیں۔ وجہ خواہ کچھ ہو۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ حافظؔ کا ایک حسن ہے۔ اور غالباً مقصداً پیدا کیا گیا ہے۔ اس قیاس کی تائید میں اشعار کی اتنی کثیر تعداد دیوان حافظ میں ملتی ہے کہ یہ قیاس قریب قریب یقینی حقیقت کا رنگ اختیار کرلیتا ہے کہ حافظؔ نے ’’بادہ‘‘ و بت، کی یک جائی التزاماً اور قصداً پیدا کی ہے۔ یہ خود ساختہ پابندی، شراب و شاہد کا یہ حسین امتراج حافظؔ کے اس احساس کاآئینہ دار ہے کہ محض شراب یا محض مشاہد تنہا کسی کیف و سرور کے پیامی نہیں ہوسکتے۔ دونوں کے اتحاد ہی سے بزمِ عیش آراستہ کی جاسکتی ہے،،
زاہد برد کہ طالع اگر طالع من است
جامم بدست باشد و نولف و نگارہم
ماعیبِ کس برندیٔ و ممتی نمی کنیم
لعلِ بتاں خوش است دمئے خواستگوارہم
اے دل بشارتے وہمت محتسب نہ ماند
وزمے جاں پراست دبتِ میگسارہم
یہ اشعار میں نے ایک غزل سے مسلسل لیے ہیں۔ دیکھیے ہر شعر میں ’مئے وبت‘ کا ذکر حافظؔ نے یک جاکیا ہے۔ اس کے ہاں خالی شراب کوئی معنی نہیں رکھتی۔ شراب کے ساتھ شاہد کو ملایا جائے۔ تب اس کا رنگ بنتا ہے۔
من دوست دارِ روئے خوش و موئے دلکشم
درہویس چشم مست دمئے صاف بیغشم
من ترکِ عشق بازی و ساغر نمی کنم
صدبار توبہ کردم و دیگر نمی کنم
جہانِ فانی و باقی نثارِ شاہد و ساقی
کہ سلطانی عالم راطفیلِ عشق می بینم
اس اندازِ مستی کا ایک اثر یہ بھی ہواکہ حافظؔ کے ہاں ساقی اور محبوب ایک ہوکر رہ گئے۔ و ہ ساقی کو محبوب یا محبوب کو ساقی بناکر ایک مثالی محفلِ عشرت یا ایک ’خلوت گر خاص‘ قائم کرلیتا ہے۔ ان اشعار میں آپ کو معلوم ہوگا کہ یہاں ساقی اور محبوب دو مختلف پیکر نہیں۔ بلکہ حافظؔ نے دونوں کی خصوصیات ایک ہی پیکر میں جمع کردی ہیں،
توبہ کردم کہ نہ بوسم لبِ ساقی و کنوں
میگزم لب کہ چراگوش بہ نادان کردم
بت شکر بمستاں داد و چشمت مے بہ مے خواراں
منم کز غایتِ حرماں نہ با آنم نہ با انیم
شرابِ تلخ صوفی سوز بنیادم بخواہد برد
لبم برلب نہ اے ساقی دبستان جان شیر نیم
من از چشم خوش ساقیِ خراب افتادہ ام لیکن
بلائے کز حبیب آمد ہزارش مرحبا گفتم
خالی مباد کاخِ جلالت نہ سروراں
دز ساقیان سرد قد و گلعزار ہم
راہِ خلوتگہ خاصم بنا تاپس ازین
مے خورم باتو و دیگر غمِ دنیا نخورم
امتزاجِ شراب و شاہد کے محولہ بالا اشعار میں نے سرسری مطالعے کے بعد ردیف میم سے لیے ہیں۔ قیاس کا مقام ہے کہ اگر اس غرض سے پورے دیوان کا مطالعہ کیا جائے تو ایسے اشعار کی تعداد کہاں تک پہنچے گی۔ آپ مختصراً حافظ کا اپنا فیصلہ سن لیجیے،
درمذہب مابادہ حلالست و لیکن
بے روئے تو اے سردگل اندام حرامست
یہ تو تھے حافظؔ کی مثالی مجلسِ عشرت کے وہ اجزا جن کے بغیر حافظؔ عشرت و نشاط کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد کچھ ثانوی اجزا بھی ہیں جن کی اہمیت حافظ کے ہاں مسلم ہے۔ اور جن کا ذکر حافظؔ کو بہت محبوب ہے۔ اس طرح حافظؔ نے ایک قابلِ رشک اور مثالی محفلِ عشرت کا جو خاکہ متفرق اشعار میں پیش کیا ہے۔ اس کی مدد سے ایک مکمل تصویر کھینچی جاسکتی ہے۔ یہ اجزاء حسب ذیل ہیں،
سکون و سکوت، فراغت و فرصت، دنیا کے شور و شر سے دور کوئی خلوت گاہ، نغمہ (شراب و شاہد کا تیسرا اہم ستون) آب روان (آب رکناباد) ہوائے خوشگوار (جسے کبھی صبا اور کبھی بادِ نسیم کا نام دیا گیا ہے) ہمدم، دوست ساقی محبوب یا بلبل، موسمِ گل، درختوں کا جھنڈ، سبزہ پھول، کتاب (یا سفینہ غزل) رقص، نگہت وغیرہ۔
ان اشیاء کا شراب سے گہرا تعلق محتاجِ وضاحت نہیں۔ سبھی شعراء کو بالعموم اور حافظؔ کو بالخصوص اس کا شدید احساس رہا ہے۔ کہ مناسب رکھنے والا ماحول معاونِ عشرت ہے اور مختلف النوع یا متضاد ماحول کیف و سرور میں تخفیف و تقلیل کا سبب بن جاتا ہے۔ پڑوسی کی بیوی فوت ہوجائے اور ان کے گھر سے نالہ وشیون کی فلک شگاف صدائیں آپ کے کانوں میں آرہی ہوں تو آپ اپنے گھر میں رقص و سرود کی محفل منعقد نہیں کرسکتے۔ ریگزار کی چلچلاتی دھوپ میں آپ بر شگال کا روح افزا نغمہ گائیں تو اس کا تاثر نصف رہ جاتا ہے۔ حافظؔ کا ماحول معاونِ عشرت نہ تھا۔ اس لیے اس نے مختصر پیمانے پر اپنے قریبی گر دوپیش کو حسبِ خواہش ڈھال کر معاون عشرت بنالیا۔ تروتازہ اور شاداب سبزہ، نگہت فروش پھول، سکون سے بہتی ہوئی ندی، درختوں کا پرسکون اور نیم تاریک جھنڈ، اٹکھیلیاں کرتی ہوئی بادِنسیم، ہوا کی لہروں پر تیرتا ہوا بہاریں نغمہ، شراب سرخ کی صراحی، نگار گلندار، اور فراغتے و کتابے و گوشہ چمنے‘‘ وہ مثالی زندگی ہے جس کا حافظؔ خواہاں ہے، یہ حافظؔ کی خیالی جنت ہے۔ اگرچہ عیش و نشاط کا یہ تصور اور حافظؔ کی یہ محفلِ عشرت سکونی ہے۔ حرکی نہیں۔ لیکن اس کے خوش آئند ہونے میں شبہ نہیں۔ اس تصورِ حیات میں حرکت نہ سہی، بقائے نام یا حیاتِ جاوید کے لیے جدوجہد نہ سہی۔ ملی قومی اور ملکی تعمیر نو کی گنجائش نہ سہی لیکن جاذبیت، دلفریبی، دلکشی، دلآویزی، سرور و بجہت، کیف و مستی، لمحہ زیست سے مستفید ہونے کی لگن، گیسوئے وقت کو گرفت میں لینے کی خواہش، جھوٹی عزت اور جاہ و منصب سے بے اعتنائی اور خوشامد ونائت اور چاکری سے حاصل ہونے والی دولت و ثروت سے استغنا تو ہے۔ خدمت کی ذلت و خواری کے جھوٹے خول سے بے التفاتی تو ہے۔ اپنے نصب العین کے حصول کے لے ایذا رسانی اور گرندو آزار سے پہلو تہی تو ہے۔ یہ فضا فرار کوشی میں معاون ہی سہی لیکن نغمہ بار تو ہے۔ زندگی سے ایسا حسین گریز بھی ہر کسی کے بس میں نہیں۔
نغمہ بار فضا حافظ کو بہت پسند ہے۔ خود اس کے اپنے اشعار تغزل، غنائیت اور موسیقیت سے نغمہ ریز معلوم ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کے ہاں محفلِ عشرت میں سازو سرود بھی اپنا رول ادا کرتے ہیں۔
دریں زمانہ رفیقے کہ خالی از خلل است
صراحیٔ مے ناب و سفینۂ غزل است
میخور ببانگِ چنگ و مخور غصہ در کسے
گوید ترا کہ بادۂ مخمور گو ہو الغفور
درکنج دماغم مطلب جائے نصیحت
کیں حجرہ پراز زمزمۂ چنگ دربابست
گوشہ ہمہ برقول نے و نغمہ چنگ است
چشم ہمہ برلعلِ لب و گردش جام است
آخری شعر میں محفلِ عشرت کے تینوں بنیادی عناصر جمع ہوگئے ہیں۔ نغمہ نے لبِ لعل یار اور گردش جام مے، اور ذیل کے اشعار میں مئے و معشوق کے ساتھ کوئی نہ کوئی تیسرا عنصر، بہار کتاب، تہوار، رقص، شعر وغیرہ بھی شامل ہے۔،
دویار زیرک واز بادہ کہن دو مئے
فراغتے و کتابے و گوشۂ چمنے
خوش ہوائے است فرح بخش خدا یا بفرست
نازنینے کہ بردیش مئے گلگوں نوشیم
از چار چیز مگذر گرزیر کی دعاقل
امن و شراب بیغش، معشوق دجائے خالی
بدھ ساقی مئے باقی کہ درجنت نہ خواہی یافت
کنارِ آب رکنا باد و گلگشتِ مصلے را
خانہ بے تشویش و ساقی یا رو مطرب بذلہ گو
موسم عیش است و دور ساغر و عہد، شباب
نبوش جام صبوحی بنالہ دف و چنگ
ببوسِ شعب ساقی بہ نغمہ نے وعود
حافظ منشین بے مئے و معشوق زمانے
کا یامِ گل و یاسمن و عید صیام است!
رقص بر شعبر زفالہ نے خوش باشد
خاصہ رقصے کہ درددست نگارے گیزند
مقامِ تعجب ہے کہ حافظؔ کہ ہاں چاندنی کا ذکر بہت کم ہے۔ حالانکہ شراب کا شبِ ماہتاب سے بھی گہرا علاقہ ہے۔ لیکن چاندنی بہر حال ایک قسم کی روشنی ہے۔ وہ روشنی جس سے خارجی دنیا کی اشیا اپنی وضاحت کرنا شروع کردیتی ہیں۔ جو غلط فہمیوں، خوش فہمیوں، بے یقینیوں اور خود فریبییوں کا پردہ چاک کردیتی ہے۔ جو حقائق کو اپنی نقاب اتار پھینکنے پر مجبور کردیتی ہے۔ اس لیے حافظؔ جو خارج سے پہلے ہی دل برداشتہ ہے۔ اور خارج سے بھاگ کر مے خانے میں پناہ گزیں ہوا ہے۔ شب ماہتاب سے بھی ڈرتا ہے۔ اسے تو دھند لکا چاہیے۔ ملگجی اور مٹیالی سی فضا جہاں امتیازات واضح نہ ہوں۔ جہاں خوش فہمیوں کے طلسم من مانی کرسکیں۔ جس فضا میں خم کو قصرِ جنت او رساقی کو حور سمجھا جاسکے۔ جہاں وہ جام ہاتھ میں لے تو سمجھے کہ گردشِ روزگار کا خون پی رہا ہے۔ جہاں وہ ساغر بدست لڑکھڑاسکے اور محتسب کے بخیئے ادھیڑ سکے۔ جہاں وہ پیالے میں عکس رخِ یار دیکھ سکے۔ اور روشنی کی کوئی کرن اسے یہ نہ کہہ سکے کہ یہ تو محض تمہارے واہمے کی خلاقی ہے۔ ورنہ ساغر میں بجز شرابِ سرخ کے کچھ بھی نہیں۔ جہاں وہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھ سکے۔ قیصر و خاقان کی برابری کا دعویٰ کرسکے۔ اور اگر کوئی ترکِ شیرازی بھی حسن اتفاق سے اِدھر آنکلے تو اس کے خالِ ہندو پر سمرقند و بخارا کو نثار کرسکے۔ وہ سمرقند و بخارا جو حافظؔ نے خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔ جن کی قدر و قیمت کا انہیں کوئی احساس نہ تھا۔ اور جنہیں حافظؔ کا کلام تو شاید فتح کرسکتا تھا مگر خود حافظؔ پورے طور پر انہیں سمجھ بھی نہیں سکتے تھے۔ حافظ نے سمرقند و بخارا کے پیچیدہ مسائل ہی سے بھاگ کر تو مے خانے میں پناہ لی تھی۔ یہ حقائق روشنی میں آکر حافظ کے لیے سوہان روح بن جاتے ہیں۔ چنانچہ حافظؔ نے اپنی محفلِ عشرت سے تاب خور اور ضیائے ماہ کے عناصر خارج کردیے۔ ان کے ہاں صبح کا تذکرہ بھی صبح صادق کا تذکرہ نہیں، ان کے ہاں سحر بھی مٹیالی ہے۔ اس میں ملگجاپن ہے۔ ان کی سحر میں اشیاو افعال اپنی تاریکی کی قبا اتار کر کھل کر سامنے نہیں آتے۔ اشیاء کی حدود قائم نہیں ہوتیں۔ ذہنی دھوکے، غلط فہمیاں اور خود فریبیاں ان کی سحر میں بھی جگہیں چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتیں۔ انہیں بیداری نہیں چاہیے۔ مگر مکمل خواب بھی ان کے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ ان کی نیندیں خارج کی سنگین اور تلخ یادوں سے بسااوقات اچٹتی رہتی ہیں۔ ہاں خوابناک کیفیت، ایک خواب آلود فضا کے دلدادہ ہیں۔ خواب بیداری کے بین بین وہ کیف و سرور کا طلسمی محل تعمیر کرتے ہیں۔ اور اس کی سیر کرتے ہیں۔
سحر کرشمہ و صلش بخواب میدیدم
زہے مراتب خوابے کہ بہ زبیداری است
خلوتِ خاص است و جامئے امن و نزہتگاہِ انس
اینکہ می بینم بہ بیداری است یارب یا بہ خواب
غنیمتے شمراے شمع وصلِ پروانہ
کہ این معاملہ تا صبحدم نہ خواہد ماند
وصلِ اوجزبہ خواب نتوان دید
داروئے کوست اصل خواب بیار
رات کی تاریکی دور ہوجاتی ہے۔ تو وہ سایہ زلف کی تاریکی میں پناہ لے لیتے ہیں،
آن پریشانی شب ہائے درازوغم دل
ہمہ درسایہ گیسوئے نگار آخرشد
اگر محبوب کے چہرئے پرزلفِ سیاہ نہ ہوتی تو شاید وہ اس کے روئے صبیح کی بھی تاب نہ لاسکتے۔ کیونکہ اس کے رخِ روشن سے آفتاب و ماہتاب کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ زلف و رخ کا ذکر بالعموم بیک وقت کرتے ہیں۔ سورج کو تو وہ صرف اس وقت دیکھ سکتے ہیں جب وہ بادل کی اوٹ میں ہو،
ماہ خورشید نمائش نہ پس پردہ زلف
آفتابِ است کہ درپیش سحابے دارد
سوادِ روئے تو تفسیر جاعل الظلمات
بیاضِ روئے تو بتیان خالق الاصباح
ان کے ہاں سحر کا تذکرہ بکثرت ہے۔ مگر سایہ اور نیم تاریک ملگجاپن ان کے کلام کا مجموعی تاثر ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں دیوانِ حافظؔ کی غالب اور مجموعی فضا۔
حافظؔ کی یہ جنت مثالی اور خیالی ہے۔ عملی اور حقیقی نہیں۔ عالم کون و فساد میں اس جنت کا کوئی گذر نہیں۔ اس فلسفہ زیست کو کلیتہً اور کاملاً اپنایانہیں جاسکا۔ ایسی جنت کے حصول کے لیے بھی خارز ارِزیست سے گزرنا اور کوہِ مصائب سے ٹکر لینا ضروری ہے۔ حافظؔ سمجھ گئے تھے کہ زمانہ پرآشوب ہے۔ اور ذرا گہری نظر سے دیکھا جائے تو حافظؔ کا کلام ایک بے قاعدہ اور غیرمربوط قسم کا شہرآشوب ہی تو ہے۔ جس میں عصری زندگی کی ناہمواریوں کا (جو سیاسی بھی ہیں اور معاشی اور معاشرتی بھی) جابہ جا تذکرہ ہے۔ حساس فنکار اس صورتِ حال کا جائزہ لیتا ہے۔ سوچتا ہے، کڑھتا ہے، افسوس کرتا ہے، اور کبھی کبھی سولی پر لٹکا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
یاری اندر کس نمی بینیم یاراں راچہ شد
دوستی کے آخر آمد دوستداراں راچہ شد
صد ہزاراں گل شگفت وبانگِ مرغے برنخاست
عندلیباں راچہ پیش آمد، ہزاراں راچہ شد
لعلے از کانِ مروت برنیا مدسا لہا ست
تابشِ خورشید و سعی ابر و باراں راچہ شد
زہرہ سازی خوش نمی ساز و گر عودش بسوخت
کس ندارد ذوقِ مستی میگساراں راچہ شد
کس نمی گوید کہ یارے داشت حقِ دوستی
حق شناساں راچہ حال افتاد، یاراں راچہ شد
شہریاراں بود و جائے میزباناں ایں دیار
مہربانی کے سر آمد شہریاراں راچہ شد
گو کے توفیق و کرامت درمیاں افگندہ اند
کس بہ میداں رونمی آرد سواراں راچہ شد
حافظؔ اسرارِ الہی کس نمیدان خموش
از کہ می پرسی کہ دورِ روزگاراں راچہ شد
یہ غزل اس عہد کا شہر آشوب ہے۔ اور اگر ترکیب ناگوار نہ ہو تو عہد آشوب، یہ غزل مسلمہ اقدارِ حیات، اخلاقی اصولوں، دوستی، زندگی کی ہماہمی اور رونق، مروت و آدمیت، حق شناسی، خوش عملی کا بڑا دلگزار مرثیہ ہے۔ کسی قوم کی تاریخ ادبیات میں جب بھی ایسی صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔ شعراء نے اس پر خامہ فرسائی کی ہے۔ اور روتی ہوئی انسانیت کی ترجمانی کا فرض ادا کیا ہے۔
حافظؔ کی اس غزل میں اسباب و علل کا سراغ لگانے کی کوشش نظر نہیں آتی۔ وہ دیکھتے ہیں، ہاتھ ملتے ہیں۔ مگر ذرا گہرائی تک جاکر یہ معلوم کرنے کی زحمت نہیں اٹھاتے کہ آخر ایسا کیوں ہوا۔ خاک بسر انسانیت پر ظلم کن ہاتھوں سے ہوا ہے۔ وہ کون لوگ اور کون سے ادارے ہیں جو زندگی کا حسن ختم کیے دے رہے ہیں۔ اور ان اعلیٰ اقدار کی جڑوں پر کلہاڑا چلا رہے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں۔ حافظؔ کو ان حقائق کا کچھ نہ کچھ شعور ضرور تھا۔ مگر وہ ایک فلسفی کی طرح علت و معلول اور سبب مسبب کے ان رشتوں پر غور کرتے گھبراتے تھے۔ انہیں جھنجنی سی آجاتی ہے۔ اور پھر وہ اپنے خول میں سمٹ جاتے ہیں۔ ’’گوائے گوشہ نشینی تو خافظا مخروش‘‘ ۔ حافظؔ میں ذرا سی عملی جرأت اور سیاسی جسارت کا تھوڑا سا شائبہ بھی ہوتا تو اردو اور فارسی شاعری کی روایت بہت کچھ مختلف بنتی۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ کیونکہ حافظ کا عہد جمہوری اقدار حیات کا زمانہ نہ تھا۔ حافظ کو تصوف اور شیوہ تسلیم میں پناہ لینی پڑی۔ مگر خاک بسر انسانیت کی ترجمانی میں حافظؔ کی آواز آج بھی بیشتر باشعور شعرا ءکی آواز پر بھاری ہے۔ صدیوں بعد عبدالمجید سالکؔ کو اسی صورتِ حال پر قلم اٹھاناپڑا تو اس کی صورت یہ تھی۔
ہم نفسو اجڑ گئیں مہرو وفا کی بستیاں
پوچھ رہے ہیں اہل دل مہر و وفا کو کیا ہوا
اب نہیں جنتِ مشام کوچہ یاد کی شمیم
نگہتِ زلف کیاہوئی، بادِ صبا کو کیا ہوا؟
دشتِ جنوں میں ہوگئی منزل یار بے سراغ
قافلہ کس طرف گیا، بانگِ درا کو کیا ہوا؟
نالۂ شب ہے نارسا، آہِ سحر ہے بے اثر
میرا خدا کہاں گیا، میرے خدا کو کیا ہوا؟
حافظؔ سے لے کر سالکؔ تک اس سارے دور میں اگر ترقی ہوئی تو صرف یہ ہے کہ حافظؔ پاس ادب سے خدا کے حضور خاموش ہوگئے۔ وہ کبھی خدا کو ان بے اعتدالیوں کا ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے تھے۔ ان کا تو عقیدہ تھا کہ طریقِ ادب میں ناکردہ گناہوں کا بھی اعتراف کرلینا چاہیے۔ مگر اس معشوقِ بے ہمتا کو الزام نہیں دینا چاہیے۔
گناہ گرچہ نہ بود اختیارِ ماحافظؔ
تو وہ طریقِ ادب کوش گود گناہِ من است
مگر آج زمانہ بدل گیا ہے۔ زبانوں پر وہ مہرسکوت نہیں رہی۔ مشینی ایجادات، مادی ترقی، نظریاتِ سیاست، آزادی تقریر و تحریر اور الحاد کی طرف میلان نے وہ حدِادب پھلانگ لی ہے جس کی حفاظت حافظؔ نے اس قرآن سے زیادہ کی جو اس کے سینۂ پر سوز میں موجود تھا۔ اب ’’یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزدان چاک‘‘ اور ’’بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے‘‘ کہنے والے عام ہوچکے ہیں۔ چنانچہ سالکؔ نے کہا تو وہی کچھ جو حافظؔ نے اس صورتِ حال پر کہا تھا۔ مگر حافظؔ کی ’’گدا نے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش‘‘ والی خاموشی کو اس طرح بدل دیا،
میرا خدا کہاں گیا، میرے خدا کو کیا ہوا
حافظؔ نے ’’آفاق‘‘ کو ’’پراز فتنہ و شر‘‘ دیکھا۔ دولت کی غلط تقسیم اور معاشرتی ناانصافیوں پر نظر ڈالی اور اخلاقی انحطاط پر کڑھتے رہے اور یہ بھی محسوس کیا کہ وہ ان حالات کو بدلنے کی سکت نہیں رکھتے۔ یہیں سے حافظؔ گریز اور فرار پر آمادہ ہوئے۔
این چہ شور است کہ در دورِ قمر می بینم
ہمہ آفاق پر از فتنہ و شرمی بینم
ہر کسی روز بہی میطلبداز ایام
علت آں ست کہ ہر روز بترمی بینم
ابلہاں راہمہ شربت زگلاب و قنداست
قوتِ دانا ہمہ از خونِ جگر می بینم
اسپِ تازی شدہ مجروح بزریر پالاں
طوقِ رزیں ہمہ در گردنِ خرمی بینم
دختراں راہمہ جنگ است و جدل بامادر
پسران راہمہ بدخواہِ پدرمی بینم
ہیچ رحمے نہ برادر بہ برادر دارد
ہیچ شفقت نہ پدر رابہ پسر می بینم
پندِ حافظؔ بشنو خواجہ برد نیکی کن
کہ من این پند بہ از دردِ گہرمی بینم
’’بودنیکی کن‘‘ نہ تو کوئی انقلابی نعرہ ہے۔ نہ کوششِ اصلاح۔ یہ تو محض اپنی اقدار کو سینے سے لگائے رکھنے اور اپنے ایمان کو تزلزل سے محفوظ رکھنے کی ایک کوشش ہے۔ حافظؔ اپنا دامن سمیٹتا ہے۔ اور ان تلخیوں کے سامنے بڑی بے دلی سے اپنی دھیرج بندھاتا ہے۔ خوف کی ایک لہر اس غزل کے بین السطور جاری ہے۔ گویا حافظ کو ڈر ہے کہ اس کا بند ٹوٹ جائے گا۔ ان حوصلہ شکن حالات اور اس انحطاطی تغیر کے دھارے کارخ بدلنا اس عہد میں جب کہ زندگی کا کچھ ٹھیک نہ تھا۔ بہت مشکل کام تھا۔ حافظؔ یوں بھی سکون پسند تھے اور اس راہ میں بہت بکھیڑے اور قدم قدم پر بہت سی مشکلات کا سامنا تھا۔ پھر کامیابی بھی مشکوک، چنانچہ انہوں نے اپنی محفلِ عشرت میں پناہ لی۔ اور جن اقدارِ حیات کی وہاں پر حفاظت ہوسکتی تھی۔ انہیں بھی ساتھ لے گئے۔ کم آزاری(بے آزادی) ان کی محفلِ عشرت کا دستور ہے۔ کسی کا دل دکھانا ایسا جرم ہے جس کی معافی ان کے مے خانے میں پیرمغاں بھی نہیں دے سکتا۔ عیب جوئی، خوردہ گیری، ریاکاری، منافقت اور زہد فروشی کا ان کی مثالی دنیا میں گزر نہیں۔ جن اخلاقی اقدار کو حافظؔ نے خارجی زندگی میں زخم خوردہ اور کسمپرسی کے عالم میں دیکھا تھا، انہیں وہ بڑی شفقت سے اٹھاکر خرابات میں لے آئے۔ جن حالات کی تخلیق معاشرے میں حافظؔ سے ممکن نہ ہوئی، ان حالات کو انہوں نے مے خانے میں دستور العمل بناکر رائج کرنا چاہا۔
حافظاً مے خوردرندی کن مد خوش باش ولے
دامِ تزدیر منہ چرں و گراں قرآں را
بادہ نوشی کہ درد ہیچ ریائے نہ بود
بہتر از زہد فردشی کہ دردروئے ریاست
مباش درپئے آزاد دہر چہ خواہی کن
کہ درطریقت ماغیر ازیں گنا ہے نیست
عیبِ رنداں مکن ائے زاہد پاکیزہ سرشت
کہ گناہ دگرے بر تو نخواہند نوشت
مے خانے سے باہر زہاد و فقہا نے درّہ تکفیر سے اس قدر کام لیا تھا کہ بے چارہ مسلمان اپنی نجات سے قطعاً ناامید ہوچکا تھا۔ حافظؔ نے اپنی اس مثالی دنیا میں خدا کی ’’رحمتِ بیکراں‘‘ کا نظریہ رواج دیا،
بیار بادہ بخور زانکہ پیر میکدہ دوش
بسے حدیث زعفوِرحیم و رحمٰن گفت
ازنامۂ سیاہ نہ ترسم کہ روزِ حشر
بافیضِ لطفِ او صد ازین نامہ طے کنم
کمتر کوہ کم است از کمرِ مو ایں جا
ناامید از درِرحمت مشوائے بادہ پرست
مے خانے سے باہر مشائخ و زہا د خدا کو عبادت کے زور پر فتح کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ حافظؔ نے اس غرور زہد کی میخانے میں سخت ممانعت کردی ہے۔ ع
بسوزایں خرقۂ تقویٰ چو حافظؔ
یکے از عقل می لافد یکے طامات می بافد
بیاکایں داوری ہارابہ پیشِ دادرا ندازیم
برعمل تکیہ کمن خواجہ کہ در روزِ اول
توچہ دانی قلمِ صنع نبامت چہ نوشت
اے کبکِ خوش خرام کہ خوش میروی بہ ناز
غرہّ مشو کہ گربۂ زاہد نماز کرد
مے خانے جیسی مثالی دنیا میں جہاں بیسیوں آزادیاں حاصل تھیں ان چند بے ضرر پابندیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ یہ پابندیاں اور اصول و قواعد اس کی محفلِ عشرت کو باقاعدہ بناتے ہیں۔ ان کا التزام اس کی عیش و مسرت کوکم نہیں کرتا۔ اس طرح اس کا میکدہ بیک وقت جائے عیش و مکتبِ اخلاق ہوجاتا ہے۔ جس طرح کھیل کا میدان طلبہ کے لیے تفریح گاہ بھی ہوتا ہے۔ اور ضبط و اطاعت کی تعلیم کے لیے ایک کھلا مکتب بھی۔
حافظؔ کے ہاں پینے پلانے کے قواعد خیامؔ نیشاپوری کی طرح منضبط نہیں۔ خیامؔ خود تو پینے میں بڑا ’’بے اصول‘‘ واقع ہوا ہے۔ لیکن اس نے اپنے میکدے میں رغانِ خرابات کے لیے ایک ضابطہ متعین کر رکھا ہے۔ اتنی پیو، اس وقت پیو، اس طرح پیو۔
گربادہ خوری تو باخرد مندان
خور باضمے سادہ رخے خنداں خور
بسیار مخمور درد مکن فاش مساز
اندک خورد گہ گہ خورد پنہاں خور
خیامؔ
مگر حافظؔ کے ہاں مے خانے کے آداب و اخلاق کی نوعیت دوسری ہے۔ یہاں اس نعمت بے بدل پر ایسی کوئی قدغن نہیں لگائی جاتی۔ پیو، جتنی جی چاہے پیو۔ ظرف سے بڑھ کر پیو تو حرج نہیں۔ بلکہ جب تک ہوش و حواس ساتھ دیں۔ اس وقت تک تو پینا ہی فرض ہے،
گرچہ مستم سر چار جام دگر
تابکلی شوم خراب بیار
چونقشِ غم زدور بہ بینی شراب بخواہ
تشخیص کردہ ایم و مداوا مقرر است
حافظؔ منشین بے مئے و معشوق زمانے
حافظؔ کے ہاں شراب ’’داروئے دردِ عشق‘‘، ’’رومانِ شیخ و شباب‘‘، ’’عقل متمرد کے لیے طناب‘‘ اور غمِ دل کو بھلانے کے لیے ایک گونہ بے خودی کا ذریعہ ہے۔ اس لیے وہ شراب پر کسی قسم کی پابندی لگانے کے حق میں نہیں۔ اس کے ہاں دوسری اخلاقی پابندیاں کافی ہیں۔ اور شراب ان سب کے لیے اک شکلِ تلافی ہے۔
حافظؔ کی انتہائی کوشش یہ ہے کہ اس کی صحبتِ عشرت میں رازِ دہر کی محتسبانہ گفتگو نہ چلے،
حدیث از مطرب ومے گوورازِ دہر کمتر جو
کہ کس نکشور و نکشاید بہ حکمت ایں معمارا
حافظؔ اسرار الٰہی کس نمید اند خموش
یہ خموشی فی الحقیقت بے تعلقی کی ایک کوشش ہے۔
ہنیز اینڈرسن کی کہانی ’’بلبل‘‘ میں ایک ضعیف اور قریب الموت بادشاہ کا کردار پیش کیا گیا ہے۔ جب موت خود اس کے سینے پر آکر بیٹھ جاتی ہے اور اس کی بداعمالیاں کریہہ النظر اور بدصورت سایوں کی شکل میں اس کے اردگرد مخملیں پردوں سے جھانکنے لگتی ہیں۔ اور ہر سایہ منہ چڑا کر اس سے پوچھتا ہے ’’کیا تم مجھے جانتے ہو؟‘‘ ’’کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟‘‘ تو آخر وہ بدحواس ہوجاتا ہے۔ اور تیمارداروں کو مخاطب کرکے چلاتا ہے۔ ’’موسیقی، موسیقی! بڑا چینی ڈھول بجاؤ! تاکہ میں ان خبیث روحوں کے سمع خراش الفاظ نہ سن سکوں‘‘ اسی طرح جب حافظؔ کی محفلِ عشرت میں مسائل حیات اور حقائق زیست کے بھوت ایک کنج سے نکل کر نیم روشن اور نیم تاریک فضا میں آگے بڑھتے ہیں تو حافظؔ زیادہ دیر تک تابِ نفادمت برقرار نہیں رکھ سکتا۔ وہ آنکھیں موند لیتا ہے۔ اور چلانے لگتا ہے۔ شراب۔۔۔ شراب لاؤ۔۔۔ موسیقی۔۔۔ ساز بجاؤ۔۔۔ غزل چھیڑو۔۔۔ ذرا اونچے سروں میں۔‘‘
ساقی بہ ہوش باش کہ غم درمکینِ ماست
مطرب نگاہدار ہمیں رہ کہ میزنی
ساقیا برخیز و در دہ جام را
خاک بر سر کن غمِ ایام را
چو نقشِ غم زدور بہ بینی شراب خواہ
تشخیص کردہ ام و مداوا مقرر است
دراں غوغا کہ کس کس را نہ پرسد
من از پیرِ مغاں سنت یذیرم
خدارا اے نصیحت گر حدیث از مطرب ومے گو
کہ نقشے در خیالِ ما ازیں بہتر نمی گردد
فتنہ می بارد ایں طاقِ مقرنس برخیز
کہ بے مے خانہ پناہ از ہمہ آفات بریم
سطر یا مجلس انس است غزل خوان و سرود
چند گوئی کہ چنیں است و چناں خواہد بود
وہ ’’رازِدہر‘‘ کی گفتگو سے خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ وہ ایسی حکمت افروزی سے جو اس کے رنگ میں بھنگ ڈالنے والی ہو گریزاں رہتا ہے۔ حافظؔ کی بزمِ عیش میں مشرقی اخلاق کے قیود و قدغن ذرا ڈھیلے پڑجاتے ہیں۔ چنانچہ بوس و کنار ان کی محفل میں طلبِ دوام بن کر آتے ہیں۔ اور حافظؔ اس وقت غالبؔ سے بھی زیادہ شوخ ہوجاتے ہیں۔ بڈھے حافظؔ کی حالت اس وقت ’’رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے‘‘ والی ہوتی ہے۔
از بہر بوسۂ زبش جاں ہمی واہم
اینم نمی ستاندو آنم نمی دہد
سہ بوسہ کزدوبست کردۂ وظیفہ من
اگر ادا نہ کنی دام دارِ من باشی
بلابہ گھنتمش اے ماہ رخ چہ باشد اگر
ببوسۂ زتو و لختہ بیاساید!
نجندہ گفت کہ حافظؔ خدا نے رامپسند
کہ بوسۂ تو رخ ماہ را بیا لاید
شاید یہ بات حافظؔ کے عام قارئین کو چونکادے۔ گر حقیقت یہی ہے کہ وہ حسی لذات کو عقلی لذات پر ترجیح دیتے ہیں۔،
قند آمیختہ باگل نہ علاجِ دلِ ماست
بوسۂ چند بیا میز بد شنامے چند
حافظؔ کٹیسؔ کی طرح حواس کا شاعر ہے۔ وہ حواسِ خمسہ کی لذتوں سے بہرہ یاب ہوتا ہے۔ جو لذتیں اسے میسر نہیں۔ ان سے مستفید اور محظوظ ہونے کی آرزو کرتاہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں، ۔
گوشم ہمہ برقولِ نے و نغمہ چنگ است
چشم ہمہ برلعل لب و گردشِ جام است
درمجلسِ ماعطر میامیز کہ جاں را
ہر لحظہ زگیسوئے تو خوشبوئے مشام است
صبا اگر گزرے افتدت بکشورِ دوست
بیار نغمۂ از گیسوئے معتبرِ دوست
گرچہ پیرم توشبے تنگ درآغوشم گیر
تاسحر گہ زکنارِ تو جواں برخیزم
شربت از لب لعلش نہ چشیدیم وبرفت
روئے مہ پیکر او سپرندیدیم وبرفت
حافظؔ کی عیش کوشی میں شراب نغمہ پھول اورمحبوب کا دخل اسے حواس کا شاعر بنادیتا ہے۔ حافظؔ کی لذت پرستی حواس کو آسودہ کرنے پر قناعت کرلیتی ہے۔ وہ لذاتِ مادی کو فلسفیانہ لذات سے بدلنے کے حق میں نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ ’’عملِ مسائلِ حیات‘‘ کا لطف لمسِ محبوب کی برابری نہیں کرسکتا۔ لعلِ لبِ یار کے لمس کو روحانی کشف وصعود کے لطف سے تبدیل کرلینا لذت کی موت ہے۔ عبادتِ ایزدی میں ایک ٹانگ پر کھڑے کھڑے رات بسر کردینا ارتفاعی لذت سہی۔ مگر ساغر بدست لڑکھڑانے کی لذت کا بدل نہیں ہوسکتی لیکن حواس خمسہ ظاہری کے علاوہ ان کے ہاں حافظہ کی لذتوں کا بھی ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے (جو اپنی اہمیت کے اعتبار سے الگ مضمون کا مقتضی ہے۔ اور فی الحال ہمارے موضوع سے خارج ہے۔
خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ حافظؔ نے خرابات کو ایک مثالی محفلِ عشرت یا اپنی دنیا بنانے کی کوشش کی ہے۔ اور اپنی مثالی نظام بھی یہاں رائج کرنا چاہا ہے۔ عیش کوشی کا جذبہ اس جنت کے لیے اصل الاصول، کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ جنت حواسِ خمسہ کی جنت ہے۔ یہاں اس غور و فکر کو نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جس سے ہڈیاں بھی سلگنے لگتی ہیں۔ اور ہاتھ میں بھی کچھ نہیں آتا۔ یہاں بہار، پھول، نکہت، نغمہ صبا، نسیم اورآبِ رواں جیسی نعمتیں موجود ہیں جن کا حیات بعدالموت میں وعدہ کیا گیا ہے۔ شراب یہاں پانی بن کر بہتی ہے۔ یہ دراصل ایک قسم کی خصوصی رعایت ہے۔ جو حافظؔ اس قصر کے باسیوں کو مہیا کرتا ہے۔ تاکہ یہاں کے قواعد کی پابندی ان کے لیے ناگوار نہ ہوجائے۔
شراب پیو مگرریا کاری، منافقت، زہد فروشی، زعمِ اتقا، مردم آزادی، تکفیر یک دیگر، دنائت، چاکری، فریب، خوشامد، تملق، کیدِ دنیا، اور مالِ حرام سے بچو، اگر تم مروت، کرم، خوش مزاجی، احساسِ دیگراں، استفادہ شیوہ تسلیم، شفقت، مراست، یکانگت، خوش خلقی رواداری، ہمدردی، عجز و انکسار، پاسِ ادب، قناعت برمال حلال اور احترام انسانیت کے اوصاف سے متصف ہوکر یہاں آؤ۔ اور ان شرائط کو نبھانے کا عہد کرو تو حافظ اس شہر طربِ کا دروازہ کھول کر خم پر سے خشتِ خم اٹھادیتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ حافظؔ کے ہاں خارج بینی کے اثرات بھی بیشتر فارسی شعراء سے کہیں زیادہ ملتے ہیں۔ سیاسی واقعات پر کھلے اشارات موجود ہیں۔ لیکن ان واقعات سے حافظؔ نے جو ردِّعمل لیا وہ یہی تھا کہ زندگی کی اعلیٰ اقدار خطرے میں ہیں۔ دنیا مایہ کا جال ہے۔ ہر طرف افراتفری، انتشار اور افراط و تفریط کا عالم ہے۔ فکر و استدلال ان گتھیوں کو سلجھانے سے قاصر ہیں۔ اس لیے آؤ لمحہ زیست کو کسی کنجِ عزلت میں ساغر بدمست اور بت بہ بغل بسر کردیں کہ مقدر کے نوشتے کا کیا علاج۔ ہم سب بے بس ہیں۔ ویسے یہ حالات ہمیشہ تو نہیں رہیں گے۔ لیکن ہم انہیں بدلنے پر قادر بھی تونہیں۔ ان حالات میں تلاشِ مسرت و انبساط ہی خیر برترین ہے۔ خرابات ہی حسن المآب ہے۔ اگر خارجی حالات کبھی سدھر گئے۔ زندگی میں توازن اور اعتدال اور امن و امان پیدا ہوگیا تو واپس خارجی دنیا میں آجائیں گے۔ میکدہ کی یہ دنیا جو حافظؔ نے تخلیق کی ہے ہنگاموں سے بالکل پاک ہے۔ یہاں ہر طرف سکون ہے۔ نیم خوابی کی سی کیفیت، یہاں کبھی کبھار ’’رازِ دہر‘‘ تھوڑی بہت کھنڈت ڈالتا ہے۔ لیکن یہ بدمزگی بھی ہنگامہ نہیں بننے پاتی۔ داغؔ اور ریاضؔ کے ہاں میکدے میں بہت سے ہنگامے ہوتے رہتے ہیں۔ جو زندگی کی رونق اور چہل پہل کا ثبوت ہے۔ مگر حافظؔ کا میکدہ تو LOTUS EATERS کی دنیا ہے۔ یہاں ہنگاموں کا تصور تک نہیں جاسکتا۔ یہاں تو سب لوگ کیف و سرور اور مستی و بے خودی کی اس حد پر رہتے ہیں۔ جہاں خالی الذہن کا غلبہ ہوتا ہے (اگرچہ حافظؔ کی یہ کیفیت خیام کی مماثل کیفیت سے بہت مختلف ہے)
حافظؔ کی محبت میں بھی، خالی الذہنی، کا ایک پہلو جھلکتا ہے۔ بوس و کنار کا بکثرت تذکرہ، یادش محبوب میں گم اور بے خود رہنے کی عادت، ہروقت تصورِ جاناں سے کھیلتے رہنا اس کے خاص کوائفِ ذہنی ہیں۔ یہ سب جتن وہ خالی الذہن رہنے کے لیے کرتا ہے۔ یعنی وہ اپنے ذہن کو ناگوار یادوں، تلخ حقائق، اور حالات کی سنگینیوں سے دور رکھنے کے لیے غیر اہم موضوعات پر یہ تسلسل و تواتر لگائے رکھتا ہے۔ اسے ہردم یہ فکر ستاتی رہتی ہے کہ کہیں کوئی ناخوشگوار یاد یا تلخ صداقت شعور میں داخل نہ ہو جائے۔ ’’خانہ خالی راویو میگرد‘‘ اسے ڈر ہے کہ ذہن خالی رہا تو خارجی تضادات کے کریہہ النظر بھوت یہاں آکر اودھم مچانا شروع کردیں گے۔ چنانچہ وہ یہاں اپنے دوستوں اور ان کی یادوں کو شراب، نغمہ اور پھول سمیت رہنے کو بھیج دیتا ہے۔ اور اس گھر کی آبادی دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔۔۔ یہی حافظؔ کامیکدہ ہے۔
بامنِ راہ نشین خیز و سوئے میکدہ آ
تابہ بینی کہ دراں حلقہ چو صاحب جاہم
حافظؔ کا میکدہ چینی پیغمبر کنفیوشش کی مثالی دنیا کی یاد دلاتا ہے۔ جہاں روحِ خدادیر و حرم اور کافر و مومن کے جھگڑے نہیں چلتے، نیک زندگی بسر کرنے کو سب سے اہم گردانا جاتا ہے۔ شراب کے معاملے میں (صوفیانہ تاویل سے قطع نظر) حافظؔ رزتشتیوں کی طرف جاتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ جن کے ہاں شراب حرام نہیں بلکہ ادرائے دیراف نے تو نشہ شراب میں مخمور ہوکر ضائع شدہ صحائف آسمانی کی روحانی کشف کے ذریعے باز آفرینی کی تھی۔ جس سے زتشی مذہب کا احیا ہوا۔
انگریزی ادب میں مثالی نشاط و مسرت کا نقشہ ملٹن نے اپنی نظم ALLEGRO میں ناظورہ انبساط سے خطاب کی شکل میں کھینچا ہے۔ حافظؔ اور ملٹن کے بہت سے اجزائے نشاط مشترک ہیں۔ مثلاً شراب، پھول، نکہت بدوش ہوائیں، بہار، رقص، نغمہ جوانی کی بے فکری، تبسم، آزادی، مرغزار، آبِ رواں اور تہوار کی سی فراغت، لیکن ملٹنؔ کے تصورِ عشرت میں کچھ ایسے اجزا بھی شامل ہیں جن کا حافظؔ کے یہاں گزر نہیں۔ ملٹنؔ نے بعض بالکل عام معمول بالکل عامیانہ چیزیں بھی مثالی عشرت کے تصور میں شامل کر رکھی ہیں۔ مثلاً مرغ کی بانگ، کتوں کی عف عف، کھیت کو دیکھ کر سیٹی بجاتا ہوا کسان، درانتی تیز کرتا ہوا دہقان، اور دامنِ کوہ میں بھیڑوں کی گنتی کرتا ہوا چرواہا۔ یہ مناظر بھی اس کے لیے جنت چشم و گوش بنتے ہیں۔ اور ملٹن ان سے لذتِ انداز ہوسکتا ہے۔ انسانوں اور عام انسانی دلچسپیوں کا ذکر ملٹن کو عوامی عظمت سے قریب کردیتا ہے۔ اگرچہ اس کا اسلوبِ بیان (حافظؔ کے برعکس) عوامی نہیں رہا۔ اس کے علاوہ ملٹن کی اس نظم میں کچھ ایسے مناظر و مظاہر قدرت کا ذکر بھی ہے جس سے حافظ اورملٹن ایک دوسرے سے بہت دور جاپڑتے ہیں۔ حافظؔ جن لذات کا دلدادہ ہے، وہ صوفیانہ، داخلی، ساکن اور غیرمتحرک قسم کی ہیں۔ خارجی دنیا سے لذت اندوزی اور والہانہ دل بستگی ان کے میکدے میں بار نہیں پاسکتی۔ اس کے برعکس ملٹنؔ کو معاشرتی کھیل میں دلچسپی ہے۔ عملی زندگی کے ولولے، گہماگہمی، رونق اور ہنگامے اس کے لیے سامانِ عشرت ہیں۔ وہ صبح و شام کے کیف آگیں مناظر کے ساتھ ساتھ گاتی ہوئی گوالن، دوستوں، سہیلیوں اور پریوں کی کہانیوں، بستے شہروں کے ہنگاموں، معاشرتی لہوولعب اور کھیل کود میں بھی روحِ انبساط کو جلوہ گر دیکھتا ہے۔ وہ مے خانے کی دیوار پر لپٹی ہوئی تاکِ زر میں بہار کا جلوہ نہیں دیکھتا۔ کھلے میدانوں، وادیوں اور پہاڑوں میں اس سے ہم آغوش ہوتا ہے۔ مناظرِ صبح و شام اس کے ہاں دریچۂ خرابات سے نہیں جھانکتے۔ وہ کھلی فضا میں نکل کراس منظر کا مشاہدہ کرتا ہے۔ جب سورج ہولی کھیلنے نکلتا ہے۔ اور لکہ ہائے ابر کو ہزاروں رنگ دے جاتا ہے۔ اس کا تبسم ’’حافظؔ کے انفعالی تصوف کا تبسم نہیں، آزادی، بے فکری اور جوانی کا قہقہہ ہے جس سے پیٹ میں بل پڑجاتے ہیں۔ گویا ملٹنؔ کے تصورِ عشرت میں زیادہ وسعت، کشادگی، پھیلاؤ اور جامعیت ہے۔ عمومی مسرتوں اور خارجی دنیا کی لذتوں کا بہتر شعور ہے۔ کیونکہ وہ زندگی سے روٹھ کر نہیں آیا۔
ملٹنؔ نے تصویر کا دوسرا رخ ILPENSEROSO میں پیش کیا ہے۔ اور حافظؔ کی بعض لذتیں ملٹنؔ کی تقسیم کے مطابق تصویر کے اس دوسرے رخ کی زینت بنتی ہیں۔ اس نظم میں ان لذتوں کا تذکرہ ہے۔ جو پیرانہ سالی، سنجیدگی، متانت، ثقافت اور متوازن فکر کے ساتھ نبھائی جاسکتی ہیں۔ یہ لذات کلیتہً حسی بھی نہیں۔ کم و بیش عقلی اور ذہنی نوعیت کی ہیں۔ ان لذات پر وہی نیم تاریک فضا موجود ہے جو خرابات حافظؔ کی عام فضا ہے۔ عاقلانہ سنجیدگی اور نیم افسردگی اس فضا کا جزوِ غالب ہے۔ سکون، خاموشی اور فرشتوں کی سی پرسکون، ذہنی فرصت اس پر سایہ کیے ہوئے ہے۔ شاعر اس لذت کی جستجو میں نیم شب کے سناٹے میں نکلتا ہے۔ ملگجی اور مٹیالی فضا میں اسے ڈھونڈتا ہے۔ گھنٹوں کی ٹن ٹن سنتا ہے۔ ستاروں کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا ہے۔ یا اس جذبے کے تحت عظیم المیوں کا مطالعہ کرتا ہے۔ اگر حافظؔ سفینہ غزل کا گاہک ہے ’’یا فراغتے و کتابے و گوشہ چمنے‘‘ کی تلاش میں ہے۔ تو ملٹنؔ بھی یونانی شعراء یا چاسرؔ جیسے مصنفین کو رات بھر پڑھنا چاہتا ہے۔ ملٹنؔ سحر کی خیرہ کن روشنی سے احتراز کرنا چاہتا ہے۔ جو عظیم تفکر اور تخلیقی تنہائی کے لیے سم قاتل ہے۔ وہ جنگل کے کسی سایہ اور کنج یا نیم تاریک غار میں پناہ گزین ہونا چاہتا ہے، جہاں وہ جنگل کی غیر مرئی ارواح کے زیر سایہ عاطفت زندگی بسر کرسکے۔ گویا ملٹن بھی اس نظم میں میکدہ حافظؔ کی تلاش میں سرگردان ہے۔ اس خوابناک کیفیت کی آرزو میں گھوم رہا ہے۔ جب آبِ رواں کا نغمہ غنودگی کا محرک بن جاتا ہے۔ اور نیند کا پنچھی بڑی معصومیت اور بھولپن سے نین کی چھت پر آکر بیٹھ جاتا ہے۔ اور اس آرزو کے باقاعدہ اور کھلے اشارے نظم میں موجود ہیں ILPENSEROSO بڑی حد تک حافظؔ کی دنیا معلوم ہوتی ہے۔ اس کی فضا بھی کلامِ حافظؔ کی فضا سے گہری مماثلت رکھتی ہے۔ حسی لذات سے انکار یہاں بھی ملٹن سے بن نہیں پڑا۔ اگرچہ یہ نظم اول الذکر نظم کے برعکس پیرانہ سالی اور پختگی عمر کی ترجمان ہے۔ لیکن یہاں بھی عقل اور فکری لذات کے ساتھ ساتھ حسی لذات کی اہمیت تسلیم کی گئی ہے۔ گو ان کی مبنی برشباب جزئیات کو حماقتِ برنائی کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ البتہ ملٹنؔ نے اس ماحول میں تفکر کی اہمیت پر جو زور دیا ہے۔ اگر صرف اسے ملحوظ رکھا جائے تو مماثلت کا سارا محل ڈھے جاتا ہے۔ یہ مثبت تفکر حافظؔ کو حاصل نہیں اس کا تفکر بھی خالی الذہن رہنے کا جتن ہے۔ تاہم جیسا کہ میں نے اس سے بیشتر بھی عرض کیا ہے۔ حافظؔ کے تصورِ عشرت کے اجزا ملٹن کی نظم کے پہلے رخ میں موجود ہیں۔ تو باقی اجزاء معمولی اور جزوی اختلاف اور انفرادی اندازِ فکر کے معمولی تفاوت کے ساتھ دوسرے حصہ میں جگہ پاگئے ہیں۔ دنیائے ادب میں ایسے قریب قریب تام توارد کی مثالیں شاذ ہیں۔
اردو اور فارسی کا شعری مزاج اکثر ادبی اور ثقافتی روابط کے اشتراک کے سبب ایک دوسرے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ لیکن انگریزی کا شعری مزاج اپنے عناصر ترکیبی، جغرافیائی ماحول، ادبی روایات، معاشرتی طور طریقوں، اسلوبِ اظہار اور اندازِ فکر کے اختلاف کی وجہ سے فارسی کے مزاج شعری سے بڑی حدتک مختلف ہے۔ انگریزی ادب میں مناظرِ فطرت اور مظاہر قدرت سے شعرا ءکو ہمیشہ ہی گہری دلچسپی رہی ہے۔ درڈ زورتھ کا سا کوئی دلدادہ فطرت اردو یا فارسی کو میسر نہیں۔ جس طرح بے اعتنائی محبوب کا مضمون اردو فارسی کے ہر شاعر نے کسی نہ کسی طرح نبھانے کا التزام کیا ہے۔ اسی طرح انگریزی شاعری میں مناظرِ فطرت کی عکاسی، مصوری یا نقاشی نے ہر چھوٹے بڑے شاعر کے ہاں کسی نہ کسی صورت میں جگہ پاتی ہے۔
شیکسپیئر، ملٹن، کیٹس، شیلے، ورڈزورتھ، براؤننگ، ڈی لا میئر وغیرہ سب فطرت کے اس مرئی جسم سے دلچسپی لیتے ہیں۔ اور اس کے حسن کو الفاظ میں مجسم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملٹنؔ نے بھی ان نظموں میں نیچر کے حسن کو بڑی تفصیل سے دیکھا ہے۔ اسے پسندکیا ہے۔ اور اس کی خواہش کی ہے۔ جب کہ حافظؔ کے قالبِ غزل میں اس کی گنجائش نہیں۔ موڈیا کیفیت کے داخلی (یا تلازمی) تسلسل کے باوجود غزل خوردہ فروشی ہی ایک شکل ہے۔ اس کے اشعار میں فطرت کی خیالی صورتیں تو ابھر آتی ہیں۔ لیکن واقعی صورتیں سر نہیں اٹھاسکتیں، یوں تو حافظؔ کے ہاں ایسی مسلسل غزلیات بھی ہیں۔ جو قصائد کی بہاریہ نشیب کی یاد دلاتی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ ایک محدود ذہنی فضا میں ایک معیاری یا مثالی بہار پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ فطرتؔ کی واقعی اور حقیقی تصویر کے رنگ اس میں کم ہیں۔ کوئی مکمل مرقع فطرت، کوئی بھرپور زندہ واقعی اور متحرک منظر ان سے پیدا نہیں ہوسکا۔ کیونکہ غزل کی ایمائیت، اختصار ایجاز اور اشاراتی زبان جزو سے کل کا کام لینے کی عادی ہے۔ غزل میں ’’نگہ سر مہ سا‘‘ یا ’’لبِ لعلیں‘‘ کہہ کر مطلوب کا پورا پیکر تصور میں لایا جاتا ہے۔ اور حافظؔ بھی غزل گو ہے۔ وہ پیکر بہار یا پیکر فطرت کو پورے اجزا ء، ان کی باہمی ترکیب و ترتیب، ربط و تسلسل اور متعلقات و لوازم کے ساتھ تمام و کمال پیش نہیں کرتا۔ بلکہ چند تخیل انگیز اور تصور خیز اجزا ءسے ایک خاکہ سا بنادیتا ہے۔ جس میں غزل کی روایت سے مانوس وجدان خودبخود رنگ بھرلیتا ہے۔
نفسِ بادصبا مشک فشاں خواہد شد
عالمِ پیر دگر بارہ جواں خواہد شد
اور غواں جامِ عقیقی بسمن خواہد داد
چشم نرگس بہ شقائق نگراں خواہد شد
سحرِ بلبل حکایت باصبا کرد
کہ عشقِ گل بما دیدی چہا کرد
ازاں رنگ وزخم خوں دردل انداخت
دریں گلشن نجارم مبتلا کرد
بہر سو بلبل بیدل درافغاں
تتعم درمیاں بادِ صبا کرد
نقابِ گل کشید و زلف سنبل
گرہ بند قبائے غنچہ وا کرد
حافظؔ کے ہاں ایک اور مشکل یہ بھی ہے کہ جب کبھی وہ فطرت کی کوئی واقعی تصویر کھینچنے پر مائل ہوتا ہے۔ تو حسن فطرت کی ناپائداری، زود میری اور بے ثباتی کا احساس کھنڈت ڈال دیتا ہے۔ اور حافظؔ کی سوچ اور مطالعے کا رخ ہی بدل جاتا ہے،
گل عزیز است غنیمت ثمرندش صحبت
کہ بہ باغ آمدازیں راہ وازاں خواہد شد
جمیلہ ایست عروس جہاں و لے ہشدار
کہ ایں مخدرّہ درعقدِ کس نمی آید
دوسری صورت یہ ہے کہ حسن فطرت کو دیکھ کر ان کا ذہن حسنِ یار کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اور فطرت کے حسن کو چھوڑ کر حسن یار کے گیت گانے لگتے ہیں۔
نثاروئے تو ہر برگِ گل کہ درحسن است
ندائے قد تو ہر سردبن کہ برلب جوست!
باغ مراچہ حاجتِ سرد و صنوبر است
شمشادِ سایہ بیر درمن از کہ کمتراست!
یہ چیزیں حافظؔ کی توجہ میں انتشار اور عوام ارتکاز کا سبب بنتی ہیں۔ اور وہ حسنِ فطرت کا کوئی کامل مرقع پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ میں اسے حافظؔ یا مشرقی شاعری کی کم مایگی پرمحمول نہیں کرتا۔ درحقیقت فطرت اور مطالعہ فطرت کے دوبڑے میدان ہیں۔ ایک تو یہی کوہ دومن میں پھیلا ہوا مرقع فطرت جس سے اکثر و بیشتر انگریزی شعراء کسی نہ کسی صورت میں دلچسپی لیتے رہے ہیں۔ اور جسے ڈی۔ لا۔ میئر نے کھیت میں نصب کیے ہوئی نقلی چوکیدار کی وساطت سے دیکھا ہے۔ اور دوسرے نفسیاتِ انسانی نے ان مشترک حقائق، جذبات، اوصاف، محسوسات اور داردات کا میدان جسے انسانی فطرت کا تسلسل ابدیت عطا کردیتا ہے۔ حافظؔ نے فطرت کے اول الذکر رخ سے بھی دلچسپی لی ہے۔ مگر اس کا اصل میدان فطرت کا موخرالذکر میدان ہی ہے جہاں قلبی واردات کا ذکر اپنی ذات کے حوالے سے کرتا ہے۔ تو اس میں انسانی فطرت جھلک اٹھتی ہے۔ اور پھر یہ مسئلہ شخصی افتاد طبع، قومی اور ملکی مزاج، معاشرتی اقدار اور لسانی اختلافات کے علاوہ اصنافِ سخن کے بنیادی اختلاف سے وابستہ نظر آتا ہے۔ اگر ہم غزل کو چھوڑ کر دوسری اصنافِ سخن پر نظر ڈالیں تو قصائد، مراثی، نظموں میں ایسے مرقعوں کا سراغ لگایا جاسکتا ہے جن پر اگر ہم فخر نہیں کرسکیں گے تو کم از کم ادبی زبانوں کے مقابلے میں اپنا احساسِ بے بضاعتی ضرور کم ہوجائے گا۔ اردو شاعری ہی کو لیجیے۔ گرمی کی شدت پر انیس، برسات پر نظیر اکبر آبادی (یا محسن کاکوری) اور گل و گلزار پر میر حسن کے مرقعے انگریزی ادب کے مقابلے میں بیٹھے نظر نہیں آئیں گے۔ فرق اگر ملے گا تو ادبی روایات اور مشرق و مغرب کا فرق ہوگا۔ جوناگزیر بھی ہے او رمستحسن بھی۔ بلکہ زبانیں اپنا الگ وجود اور اپنی انفرادیت اسی طرح قائم رکھتی ہیں۔ غزنوی دور کے فارسی شعراء میں فرخی، مسجدی، عنصری اور منوچہری وغیرہ نے ایسے بہاریں مرقعے بہت پیش کیے ہیں۔ اور قاآنی کی تو عظمت ہی اس پر قائم ہے۔ تاہم ان معروضات سے حافظؔ کی وکالت بھی مقصود ہے۔ کیونکہ اگرچہ حافظ نے رباعیات، قطعات، ساقی نامہ، مخمس مثنوی، ترجیح بند اور ترکیب بند بھی لکھے ہیں۔ پھر بھی حافظ ’’یک تنے‘‘ ہی تھے۔ ان کا میدان غزل ہی تھا۔ چارسو بیاسی صفحات کے دیوان (مطبوعہ خورشید مطلع نادری بمبئی) میں چار سو تیس صفحات پر غزل احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اور باقی صفحات دیگر اصنافِ شعر کے حصے میں آئے ہیں۔ اور انہوں نے مثنوی یا قطعہ میں تعمیری حسن کو حسنِ فطرت کے لیے استعمال کیا۔ اب آخر میں مجھے قارئین کرام کو اقبال کی ایک پیش پا افتادہ نظم کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ جس کا عنوان ہے ’’ایک آرزو‘‘ یہ نظم بانگِ درا میں شامل ہے۔ اور اقبالؔ کے اس دور کی تخلیق ہے جب اس نے حافظؔ کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا تھا۔ یہ نظم اقبال سے زیادہ حافظؔ کے ذہنی مرغوبات و عادات کی ترجمانی کرتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اقبالؔ حافظ سے بغلگیر ہو رہے ہوں۔ نظم اس طرح شروع ہوتی ہے،
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
تفکرات سے آزادی کی تمنا، عزلت کی خواہش، آبِ رواں، لذتِ سرور، چٹکی ہوئی کلیاں، سبزے کا بچھونا (پھر سویاہوا سبزہ) بلبل سے انس، دیر و حرم کے احسان سے اجتناب، خاموشی، سکون، سکوت، الغرض ماسوائے شراب و شاہد کے ہر وہ چیز اس آرزو کے دائرے میں شامل ہے۔ جو حافظؔ کو مرغوب و مطبوع ہے۔ مگر آخرتک پہنچتے پہنچتے اقبالؔ کی انفرادیت جاگ اٹھتی ہے۔ اس کا نصب العین اس کی عنانِ تخیل پر ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ چنانچہ یہ نظم یوں ختم ہوتی ہے،
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر درد مند دل کو رونا مرا رلادے
خاموش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگادے
یہاں آپ مجھے یاد دلائیں گے کہ اگر تنقیدی تقابل مختلف شہکاروں اور ان کے خالقوں کا مزاج پہچاننے میں مدد دے سکتا ہے تو کالرجؔ کے ہاں بھی اس قسم کی ایک کوشش موجود ہے۔ یعنی اس کی شہکار نظم ’’قبلا خاں‘‘ لیکن عمیق نظر سے دیکھنے کے بعد آپ کو خود ہی معلوم ہوجائے گا کہ میں نے اسے کیوں نظرانداز کیا ہے۔ ’’قبلا خاں‘‘ کی عظمت، خوبصورتی، نفاست، تصور خیزی اور مافوق الفطرت کو قرینِ فطرت بنادینے کی صلاحیت میں شبہ نہیں۔ لیکن بہرحال یہ ایک افیمی کی پیک ہے۔ اور نامکمل بھی جس کا خود کالرجؔ نے بھی اعتراف کیا ہے۔ یہ مثالی دنیا تخلیق کرنے کی شعوری کوشش نہیں۔ بلکہ ’’خوابوں کا محل‘‘ ہے۔ او رمحل بھی ایسا جو ’’پادر ہوا‘‘ ہے۔ جو روشنی کی ایک کرن کی تاب بھی نہیں لاسکتا۔ جس کی تمام تر بنیاد خواب پر ہے۔ اسے تو شاید تجزیہ نفسی کی روشنی میں اور خوابی تحیل کے ذریعے ہی پورے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ یا شاید دیو مالا اس کے افہام و تفہیم میں معاون ثابت ہوسکے۔ یہ خالصتاً داخلی چیز ہے۔ جس کے لیے کالرجؔ کے شعور، سیاسی عمرانی اور معاشرتی حالات سے واقفیت حاصل کرنے کی بجائے اس کے لاشعور میں گھسنا پڑے گا۔ یہ عصری زندگی سے ناآسودگی کے بعد کسی احساسِ ناتمامی کا نتیجہ نہیں۔ بلکہ ایک لمحہ فیضان یا ایک گریزاں بجلی کو گرفت میں لینے کی کوشش ہے۔ اور جب وہ لمحہ فیضان گزر جاتاہے۔ تو کالرجؔ ساری عمر اس کی باز آفرینی کے لیے تڑپتا رہتا ہے۔ کیونکہ اس کا کوئی خارجی تجزیہ اسے تحریک دے کر حسن بن صباح کی اس جنت میں نہیں لے جاسکتا۔ برگِ حشیش بھی بیکار ثابت ہوتاہے۔ یہ تو غزل کا ایک حسین شعر ہے۔ اور بس۔ لیکن حافظؔ کا میکدہ کوئی لمحاتی تاثر نہیں۔ بلکہ پوری فنکارانہ زندگی پر حکمرانی کرنے والا وہ لمحہ ہے جو اس کے شعور، تحت الشعور اور لاشعور کو ایک کردیتا ہے۔ جو اس کی زندگی کے لیے اصول و قواعد کی ترتیب و تدوین کا کام بھی دیتا ہے۔ سیاسی طوفانوں اور معاشرتی آندھیوں میں اسے راستہ دکھاتا ہے۔ اور اس کے رجائیت کے چراغ کو جلائے رکھتا ہے۔ حافظؔ خارج سے دل برداشتہ سہی، اس کی خارجی حقائق سے بے تعلقی کی کوشش مسلم سہی، معمائے حیات کو سمجھنے سے اس کا گریز و اجتناب ایک حقیقت سہی، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ حافظؔ اس سارے عمل میں خارج سے متاثر ہوا ہے۔ اس کے تمام تر کوائفِ ذہنی خارج کا ردِّعمل ہیں۔ خارجی حقیقت عصری زندگی سیاسی انتشار، معاشرتی افراط و تفریط اور عملی زندگی کا شور و شر اس کے میکدے سے باہر پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔ اور شعرِ حافظؔ کے نیچے UNDER CURRENT کے طو رپر پر کام کر رہا ہے۔ روحِ عصر اس میں بہرحال کارفرما ہے۔ فنکار کی شخصی زندگی اس کا دوسرا عنصر ہے۔ حافظؔ نے خارج کو پس منظر کے طو رپر استعمال کیا ہے۔ جب کہ کالرجؔ کی قبلا خاں حقائقِ زمن سے قطع شدہ ایک آنی اور گریزیا تصور ہے۔ یہ پریوں کی دنیا کی کہانی ہے۔ جہاں انسان کی خارجی زندگی کا سایہ بالواسطہ بھی کم ہی پڑتا ہے۔ کالرجؔ کی یہ گریزاں بجلی نظم میں قید نہ کی جاسکی۔ لیکن شرر کی ’’فردوس بریں‘‘ میں یہی گریزاں بجلی حشیشئین کی جنت کی صورت میں پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ کالرجؔ زندہ ہوتا تو فردوسِ بریں کا یہ بیانیہ دیکھ کر اپنی ناتمام نظم مکمل کرسکتا تھا۔
اقبال نے ایک آرزو لکھ کر حافظؔ کی دنیا سے ہنگامی اور وقتی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ اور چونکہ نظم کہہ رہے تھے۔ اس لیے جزئیات کا خاص خیال رکھا ہے۔ ملٹن کی L-ALLGRO اور L-PENSIROSO ابھی شعوری طور پر جزئیات سمیت تصویر کھینچنے کی کوشش ہے۔ ان فنکاروں کا مزاج صرف اس ایک شے سے متعین نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ تو بامقصد تصویر کی تکمیل کے لیے حسنِ فطرت کے ان اجزا اور ان جزئیات، تفصیلات کو بھی اپنی ان منظومات میں جگہ دے رہے تھے جو ان کا مزاج نہ تھیں۔ جو محض موضوع یا عنوان کی مناسبت سے یکے بعد دیگرے ان کے ذہن میں سر اٹھا رہی تھیں اور جن کو وہ فقط اپنے نقش کی تزئین و اتمام کے لیے نظم میں جگہ دے رہے تھے۔ اقبالؔ کی یہ آرزو محض ایک ’’سکون طلب لمحے‘‘ کی پکار ہے۔ اس کے مزاج اور شعری افتاد کا تقاضہ نہیں۔ وہ تو شکار کے دوران میں بھٹکے ہوئے بادشاہ کی طرح اس کٹیا میں رات گزارنے کے لیے ٹھہر گیا ہے۔ ورنہ اس کی زندگی اس کے مشاغل، اس کا مزاج اور اس کی دلچسپیاں سراسر مختلف نوعیت کی ہیں۔ حافظؔ کے ہاں یہ بات نہیں۔ حافظؔ کا تو وطن ہی یہی ہے۔ وہ یہاں رات بسر کرنے کے لیے نہیں زندگی بسر کرنے کے لیے آیا ہے۔ اس لیے اس نے اس زندگی کے کچھ اصول اور قواعد منضبط کرلیے ہیں۔ اور یہی اس کا امتیاز ہے،
مقامِ اصلی، ماگوشہ خرابات است
خداش خیرد ہاد آنکہ ایں عمارت کرد
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.