مجمع البحرین دارا شکوہ کی ایک شاہکار تصنیف
مغل حکمرانوں نے ہندوستان کے ثقافتی ورثے اور مذہبی روایات کو تقویت دینے کے لیے گنگا جمنی تہذیب کو ایسی بنیاد فراہم کی جس پر باہمی ہم آہنگی، محبت اور بھائی چارے کی خوبصورت اور بے مثال عمارت آج بھی قائم ہے۔ ان حکمرانوں کے خاندان کا ایک فرد داراشکوہ تھا جو مغل بادشاہ شاہجہان کا بڑا بیٹا تھا۔ وہ تعلیم کے دلدادہ شخص تھا۔ اس نے اسلامی علوم کے علاوہ فارسی زبان و ادب کا بھی گہراعلم حاصل کیا تھا۔ وہ ہندو ؤں کی مذہبی مقدس کتابوں کا بھی علم رکھتاتھا۔ اس نے ویدوں اور اپنشدوں کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ دارا شکوہ نے 44 سال کی عمر میں بہت سی کتابیں لکھیں جن میں' سفینۃ الاولیا'، 'سکینہ الاولیاء' اور 'رسالہ حق' نماخاص طور پر مشہور ہیں۔ اس کی کتاب 'مجمع البحرین' کو بھی بہت شہرت ملی۔ یہ کتاب اصل میں فارسی زبان میں ہے جس کا ہندی میں ترجمہ ڈاکٹر عبدالواسع اور ڈاکٹر شہباز عامل نے مل کر کیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت میں ترجمے کے ساتھ ساتھ اس کا فارسی متن بھی دیوناگری رسم الخط میں فراہم کرایا گیا ہے تاکہ قاری ترجمے کے ساتھ ساتھ اس کی اصل عبارت سے بھی واقف ہو سکے۔
اس کتاب کا نام 'مجمع البحرین' ہے جس کا مطلب ہے دو سمندروں کا سنگم ۔ اس کتاب میں ہندو مذہب اور اسلام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دارا شکوہ نے یہ کتاب 1657 عیسوی میں اس وقت مرتب کی، جب اس کی عمر 42 سال تھی۔ اس کتاب میں 22 فصل ہیں۔ مترجمین نے اس کتاب کےدیباچے میں لکھا ہے:
''مجمع البحرین ' میں نہ صرف ہندوستانی فلسفے کے الفاظ کی وضاحت کی گئی ہے بلکہ مسلم صوفیوں میں رائج ان کے مترادفات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ اس میں ویدک مذہب اور اسلام میں مماثلت قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ پوشیدہ کتاب 'کتاب مکنون'در اصل اپنیشد ہی ہیں جس کا ذکر قرآن میں کیا گیاہے۔ دارا ان اسرار سے بھی پردہ اٹھانا چاہتا تھا جسے چھپانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔''صفحہ 12۔
دارا شکوہ مذہب کی باریکی سے پوری طرح واقف تھا۔اس نے اپنے زمانے کے عظیم صوفی بزرگوں کی صحبت سے سے استفادہ کیا تھا ۔ کتاب کے دیباچے میں مترجمین نے درست لکھا ہے کہ'' دارا شکوہ نے میاں میر، ملا شاہ، محب اللہ الہ آبادی، شاہ دلربا اورسرمد جیسے صوفی بزرگوں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس نے بابا لال داس، جگن ناتھ مشرا اور بنارس کے کئی دوسرے پنڈتوں اور سنیاسیوں کے ساتھ مذہبی اور عرفانی مکالمے بھی کیے تھے۔''
ہندو مت اور اسلام دونوں کے صوفی علماء سے علم حاصل کرنا اس کی آزاد خیال شخصیت کی نشاندہی کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ علم تاریکی کو دور کرتا ہے اور انسان کے ذہن میں سکون پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد انسان ذہنی تنگ نظری سے آزاد ہو جاتا ہے اور انسانیت کی خدمت اس کا مذہب بن جاتی ہے۔ ’’مجمع البحرین‘‘ پڑھتے ہوئے مذکورہ بالا چیزوں کا تجربہ ہوتا ہے۔ دارا نے اپنی اس کتاب کے ذریعے ہندوستان کی دو بڑی برادریوں - ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کی طباعت اور اشاعت مترجمین کے مطابق، اس لئے اہم کہ '' فی زمانہ صوفی بزرگوں اور خاص طور پر دارا شکوہ جیسے ہم آہنگی پسندوں کو مقبول بنانا اور تمام مذہبی روایات کی سچائی کو قبول کرنا بہت ضروری ہے۔'' صفحہ 12
''مجمع البحرین ''کو ''ریختہ پبلی کیشنز''، نوئیڈا، اتر پردیش نے شائع کیا ہے۔ اس کا ترجمہ قابل تعریف ہے۔ صوفیاء میں مروجہ اصطلاحات کا ہندی ترجمہ بھی بخوبی کیا گیا ہے، جس سے مترجمین کی قابلیت کا پتہ چلتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہےکہ مترجمین نے اس کتاب کے ترجمے میں عرق ریزی کی ہے۔ اس کی طباعت بھی اچھی ہے اور پیپر بھی اچھا ہے ۔مجھے امید ہے کہ یہ کتاب قارئین میں مقبول ہوگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.