Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

من چہ می سرائیم۔۔۔!

ابن انشا

من چہ می سرائیم۔۔۔!

ابن انشا

MORE BYابن انشا

    میں نے چھ سال ہوئے اپنی شاعری کی کتاب چاند نگر کے دیباچے میں اپنی بات کو سہارادینے کے لیے ایک دو نقلیں بیان کی تھیں۔ ان میں سے ایک نقل ’’ایڈگرایلن پو‘‘ کی نظم ’’ایل ڈوریڈو‘‘ یعنی شہر تمنا تھی۔ قصہ اس کا یہ ہے کہ ایک بہادر جی دار نائٹ اوپچی بنا دھوپ اورسایے سے بے پروا، ایل ڈوراڈو کی تلاش میں ایک مستانہ گیت گاتاگھوڑا اڑاتا چلاجارہاہے۔ لیکن برسوں گزرگئے۔ زندگی کی شام آگئی، اسے روئے زمین پر کوئی خطہ ایسا نہ ملا جو اس شہر کی تمنا کی مثال ہو۔ آخر جب اس کی تاب و تواں جواب دینے کو تھی اسے ایک بڈھاپھوس یا تری ملا جو سفر کی صعوبتوں سے گھُل کر سایے کے سمان رہ گیا تھا۔ اس پیر فرتوت نے کہا۔ اگر تمہیں اس شہر جادو کی تلاش ہے تو چاند کی پہاڑیوں کے اُدھر سایوں کی وادئ طویل میں قدم بڑھائے، گھوڑا دوڑائے آگے ہی آگے بڑھے چلو۔‘‘ اس سے نتیجہ یہ نکالا تھا کہ شہر تمنا نہ ملے۔ اس نائٹ کو سفر جاری رکھنے اور گھوڑا آگے بڑھانے کا بہانہ ضرور مل گیا۔ شاعر کو بھی ذہنی طور پر سندباد جہازی یا یولی سس ہونا چا ہیے یعنی اس کے سامنے ایک نہ ایک چاند نگر ایک نہ ایک ایل ڈوریڈو ہونا چاہیے۔ یہ منزلیں کوہِ ندا کی طرح مسافروں کو اپنی طرف بلاتی تو ہیں، واپس نہیں بھیجتیں۔ سمجھدار لوگ کبھی ان منازل موہوم کا رخ نہیں کرتے۔ ہاں کچھ دیوانے ہیں کہ جادو کے شہروں کی جستجو میں جولاں و سرگرداں رہتے ہیں۔ یہ نہ ہوتے تو انسان کی زندگی بڑی سپاٹ اور بے رنگ ہوتی۔‘‘

    *

    لیکن میں اور میرے ہم عصروں نے جس دور میں ہوش کی آنکھ کھولی، جادو کے شہروں کی جستجو کارواج اٹھ گیا تھا۔ اسپین کی لڑائی اور ہٹلر کی ترکتاز ہمارے بچپن کی باتیں ہیں۔ دوسری جنگ عظیم بھی ہمارا شعور بیدار ہوتے ہوتے ختم ہوچکی تھی۔ ہندوستان میں بھی آزادی کی لڑائی لڑی جارہی تھی لیکن بڑی حدتک آئینی تھی۔ بمبئی کی طرف ہنگامے اٹھتے اور پٹاخے چھوٹتے لیکن بمبئی ہمارا مدار نہ تھا۔ میں ان لوگوں میں سے تھا جو اپنی بیسویں صدی کی عینیت کی چاردیواری میں بیٹھے تلواریں مارتے تھے۔ ہماری مثال ڈان کوئیکزاٹ کی سی تھی جو کتابوں کے سہارے زمانۂ شجاعت میں رستے بستے تھے۔ خیر یوں بھی یہ طالب علمی کا کچا زمانہ تھا اور ابھی درسی اور فنی تعلیم کا جھمیلا بھی درمیان تھا۔ اس لیے معاملات عشق سے باہر قدم مشکل سے جاتا تھا۔ میری پرورش بھی ادب اور سیاست کے مرکزوں سے دور ہوئی اس لیے بلوغ تک پہنچنے میں (اگر کبھی پہنچا) دیر لگی۔ ساحرلدھیانوی سے دوستی اور قرب تھا۔ ساحر کو میں نے دیکھا کہ شاعری کی سطح پر رہ کر بات کرتے تھے لیکن فکر اتنی سلجھی ہوئی تھی کہ مباحثے کی نوبت نہ آتی تھی، میری فکر کی تہذیب میں ساحر کا بڑا حصہ ہے پھر بھی ہنگامی موضوعات پر میں نے کم ہی کچ ھ لکھا۔ ’’بغداد کی ایک رات‘‘ اس مجموعہ افکار و تاثرات کا ادبی روپ تھی اور اس سے میری شہرت کاآغاز ہوتا ہے۔ یہ ۱۹۴۹ء کی بات ہے۔ انہی دنوں دور مشرق میں کھانڈے سے کھانڈا بج رہا تھا۔ چین کی ادبیات اور تاریخ میرا پرانا شوق ہے اور چین کی خانہ جنگی پر ہر طرحکا لٹریچر میں نے پڑھ رکھا تھا۔ شنگھائی غالباً میری سب سے جوشیلی نظم ہے۔ اس میں دھیمے پن کی بجائے مبارز طلبی ہے لیکن جیسا کہ میں نے ’’چاندنگر‘‘ کے دیباچے میں بیان کیا ہے‘‘ میرا فنکارانہ احسا سکوریا کی لڑائی کے زمانے میں جاگا میں عامی کے طور پر مدت سے یہی کچھ سوچتا سمجھتا تھا لیکن جذبے میں ایسا تیکھا پن یار چاؤ پیدا نہ ہوا تھا کہ شاعری میں ڈھل سکتا۔‘‘

    *

    سارتر نے نازی غلبے کے خلاف جدوجہد کے دنوں میں جو لکھا تھا اس کا ذکر بھی میرے دیباچے میں آیا۔ ’’ادیب جو اپنے زمانے اور اپنے ماحول کا باسی ہے، اس کی ہر آواز گردوپیش کی فضا میں ارتعاش پیدا کرتی ہے اور ہر خاموشی کا بھی ایک ردعمل ہوتا ہے۔ فرانس میں کمیون کے بعد لوگوں پر جو ظلم ڈھائے گئے۔ ان کے لیے میں فلابیر اور گانکور کو قصوروار ٹھہراتا ہوں کیونکہ انہوں نے ان کے روکنے کے لیے ایک حرف بھی تو نہیں لکھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ان کا کام نہیں تھا تو کیا ژاں کیلا کا معاملہ والٹیر کے فرائض میں داخل تھا۔ کیاڈروفس کی وکالت زولاپر فرض تھی؟ کیا کانگو کے مستبد حاکموں کے خلاف آواز بلند کرنے کی ذمہ داری آندرے ژید پر عاید ہوتی تھی۔ ان میں سے ہر شخص نے اپنے مخصوص حالات میں ایک بار رک کر سوچا کہ بہ حیثیت ادیب میری کیا ذمہ داری ہے۔ ہمارے ملک پر جرمنی کے قبضے نے ہمیں ہماری ذمہ داری سمجھادی ہے۔ ’‘

    پھر میرے سامنے گرم کی پریوں کی کہانیوں کا وہ ضدی بونا بھی تھا جو سرہلاکرکہتا ہے۔ ’’انسانیت کا دھیلہ بھر جوہر میرے نزدیک دنیابھر کی دولت پر بھاری ہے‘‘ ۔۔۔ درہمہ جوانیا چنانکہ افتددانی۔ یہ دھیلہ بھرجوہر، سارترکی معاصر ذمہ داری کے ساتھ آمیز ہوکر بہت سی نظموں میں ڈھل گیا۔ ’’مضافات‘‘ ’’امن کا آخری دن‘‘ ۔ ’’افتاد‘‘ ۔ ’’سرائے‘‘ ۔ ’’کوجے کی لڑائی‘‘ ۔ ’’کوریا کی خبریں‘‘ وغیرہ (آخر الذکر دونوں نظمیں چاند نگر میں شامل نہیں) ۔ ان کو میں اب بھی اپنی قابل ذکر نظمیں سمجھتا ہوں۔ اس دیباچے میں میں نے یہ بھی لکھاتھا کہ ’’دکھ اور آسودگی۔ احتیاج و فراغت، جنگ اور امن، زندگی کے بنیادی مسائل میں سے ہیں۔ جو شخص ان سے اثر قبول نہیں کرتا وہ اپنے ساتھ اور اپنے زمین زاد بھائیوں کے ساتھ مخلص نہیں ہوسکتا‘‘ ۔ آج کے زمانے میں ذہنی یا جسمی بن باس ممکن نہیں۔ کسی پہاڑ کی کوئی گپھا ایسی نہیں جس تک زہریلی گیس یا تابناک راکھ نہ پہنچ سکتی ہو۔ کوئی براندابن یا پتوبن ایسا نہیں جس کے بطن میں فوجی طیاروں کا اڈہ نہ ہو۔ اس لیے ہمیں زندہ حقیقتوں سے پیچھا چھڑانے کی بجائے ان سے عہدہ برآ ہوتاہے۔ نفسیاتی مغالطوں کا بیوپار کرنے والے مصنفوں کی طرح نہیں۔ گرم کے بونے کی طرح جس کے لیے دھیلہ بھر انسانیت ساری دنیاکی دولت پر بھاری ہے۔ کسی خداوند کی ناکامی یا کامیابی کا معیار یہ نہیں کہ اس کے کسی ڈھلمل یقین انٹلکچول کی ذہنی تشفی ہو۔ دیکھنا یہ ہے آیا اس سے لاکھوں کروڑوں غیرانٹلکچول انسانوں کی زندگی میں مسرت اور شادابی کاگزر ہوا کہ نہیں۔‘‘

    یہ بات جو کل بھی سچ تھی۔ آج ہائیڈروجن اور نائٹروجن بم اور خلائی مداروں اور چاند کی پروازوں کے زمانے میں اور زیادہ سچ ہے۔ کل بھی سچ ہوگی اور اس کے ماننے نہ ماننے والے ایٹمی جنگ اور تابکاری کے سرطان سے محفوظ رہے تو۔!

    *

    میں LOW BROW کہلانے میں مضائقہ نہیں سمجھتا اور سنجیدہ و فہمیدہ لوگ میری باتوں کو PLATITUDES ہی کہیں گے لیکن ادب کی تجریدیت سے میری مفاہمت مشکل ہے۔ میں نے لکھا تھا۔ ’’مغرب کی ہم اور چاہے کتنی ہی باتیں اپنالیں، مغربی شعور کو نہیں اپناسکتے کیونکہ وہ صدیوں کی حاکمیت اور احساس برتری کی پیداوار ہے اور ہمارا شعور صدیوں کی محکومیت کے ردعمل اور جذبہ خود ارادیت کا پیدا کردہ ہے۔ یورپ مادی اور سیاسی طاقت کے طور پر زوال پذیر ہے اس لیے اس کے ادب میں تجریدیت اور اضمحلال کا عمل دخل شروع ہوگیا ہے، ایسے لوگ طبعاً ویدانتی اور تصوف پسند ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی خواہش مرگ اور اس قسم کی بے روح متصوفیت نے اس قسم کے ادوار میں ترقی کی تھی۔ یہی حال ان لوگوں کی کلبیت کا ہے۔ لیکن مشرق کے کسی ملک کے ادب میں اس قسم کے انحطاطی اور انفعالی رجحانات یا تو خلقی کمزوریوں سے پیدا ہوسکتے ہیں یا مغربی ادب کی تقلید سے۔ وہ ایشیائی اور مشرقی روح کی کسی طرح نمائندگی نہیں کرسکتے۔‘‘

    *

    ایک اور اہم بات جس کا بعض نقادوں نے حوالہ دیا۔ میری یہ گزارش تھی کہ ’’میں افتاد طبع کے اعتبار سے بے شک رومانی بلکہ الف لیلوی واقع ہوا ہوں لیکن ایک ایسی دنیا کا باسی ہوں جو شہزاد کی دنیا سے مختلف ہے۔ تاہم میرے ہاں۔ ’’اے مری جان انقلاب‘‘ کی طرح دریا کو کوزے میں کہیں بند نہیں کیا گیا نہ مجھے آنچل کو پرچم بنانے کی ادا پسند ہے۔ ہماری شاعری جذبات کے لحاظ سے سن بلوغ کو پہنچ چکی ہے اس میں اس قسم کی باتیں بچکانہ معلوم ہوتی ہیں۔ میں نے عشق او رغیرعشق کے محاذوں پرالگ الگ لڑنا پسند کیا ہے۔‘‘

    آنچل کو پرچم بنانے سے اشارہ ایک شعر کی طرف تھا،

    ترے ماتھے پہ یہ رنگین آنچل خوب ہے لیکن

    تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا

    چونکہ یہ کلام ایک مشہور و مقبول ترقی پسند شاعر کا ہے اس لیے کسی کا ایک سے الگ راہ اختیار کرنا، بلکہ اس کو ردکرنا، خوش عقیدہ لوگوں کو برا محسوس ہوا اور یہ کہا گیا کہ صاحب عشق اور غیرعشق کے محاذ الگ الگ کیسے بن سکتے ہیں۔ میدان جنگ میں جاتے ہوئے محبوبہ کو کیسے پیچھے چھوڑا جاسکتا ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ آنچل اپنی جگہ ہے پرچم اپنی جگہ۔ دونوں کو خلط ملط نہ کیجے۔ کم از کم میں نے مجبوبہ سے شاعری میں پیار کرتے وقت کوریا کی خندقوں کا کبھی نہیں سوچا نہ الجزائر کی کانٹے دار باڑوں اور بارود کی بدبو میں محبوبہ کی زلفوں کو چومنے کی بات کی ہے۔ وہ مجاز کا احساس تھا اور اسے مبارک۔ اس کے زمانے اور ماحول میں شاید وہی ٹھیک ہو۔ میرا احساس یہ اپنا احساس ہے۔ ترقی پسندی میں سکہ بندی کو میں نہیں مانتا۔ ایک سا چہرا، ایک سے دندانے، ایک سے حروف ایک کو دوسرے سے الگ کرنا اور پہچاننا محال ہے۔

    *

    ۱۹۵۵ پر، جب کہ میں نے یہ باتیں اپنی شاعری کے ناطے سے لکھی تھیں کچھ زیادہ برس نہیں گزرے لیکن اتنے ہی میں بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزرچکا ہے۔ چاند ناقابل حصول منزلوں کا سمبل رہا ہے لیکن اس اثناء میں زمین کے راکٹوں کی زد میں آچکا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ زمین والے وہاں بستی بسالیں۔ اس سے انسان کی نظر میں وسعت ضرور آگئی ہے لیکن انسانیت کے بنیادی مسئلے اپنی جگہ پر ہیں۔ احتیاج اور آزادی کا مسئلہ۔ ظلم اور جنگ کا مسئلہ۔ میری سوچ کی پہنچ قریب قریب وہی ہے جو کہ تھی لیکن یہ دیکھنے کی بات ہے کہ اب اس قسم کی نظمیں لکھنا میرے لیے ممکن نہیں۔ احساس کند ہوگیا یا مصلحتوں نے زنجیر کرلیایا تن آسانی آگئی۔ انکار کرنے کا کچھ فائدہ نہیں۔ تھوڑی تھوڑی کرکے سبھی چیزیں ہیں جنہیں میں شاید پختگی یا توازن کا نام دوں۔ چاند نگر کی شاعری کے بعد غالباً ایک نظم ’’کاسا بلنکا‘‘ ہے جہاں اطلس کے دامن میں فرانسیسیوں کے ہاتھوں مراقشوں کاخون بہا تھا اور ایک اس کے چند سال بعد الجزائر کے بارے میں (مغرب کی اذاں) ان دونوں میں جذبہ صادق ہے اور تیکھا ہے اور دونوں نظمیں یہ مجرد خبریں دیکھنے کے بعد اعصاب کو پوچھ کر لکھی گئی ہیں۔ لیکن ان دونظموں کو چھوڑ کے۔ یا ایک آدھ اور ہوگی جو مجھے یاد نہیں۔ باقی شاعری آج کل کی مامقیماہے جو کوئے دلدار میں بیٹھ کے لکھی گئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کی میری پہلے پڑھنے والے مجھ سے توقع نہ کرتے تھے تھے لہٰذا میرے خیال میں یہ ہوا کہ پہلے پڑھنے والوں کا حلقہ سکڑتا گیا، ان کو میرا کلام مطمئن کرنے سے قاصر رہا لیکن ایک دوسرا اتنا ہی بڑا یا اس سے زیادہ بڑا حلقہ پیدا ہوگیا جس کے لیے لٹک دار ہندی بحروں اور آسان لفظوں میں لکھی ہوئی یہ مامقیما بڑی لذت رکھتی تھی۔ سبھی کی اپنی اپنی کہانیاں ہوتی ہیں۔ میری کہانی ان کی کہانیوں کا ادبی روپ تھی۔ جذبے کی تہذیب کا مجھے موقع نہ ملا جیسا بڑے شاعروں کے ہاں ہوتا ہے، اس کی کئی وجہیں ہیں جنہیں اس موقع پر بیان کرنا ضروری نہیں ہے۔

    *

    اب رہا سرمایہ غزل اور وہ بدنام چیز جسے تقلید میؔر کہتے ہیں۔ ہاں میں مزاجاً میؔر کاحلقہ بگوش ہوں لیکن تقلید کیا معنی؟ مجھے رواں دواں بحروں میں (غزل ہی نہیں نظم بھی) لکھنے میں آسانی معلوم ہوتی ہے او رمیں لکھتا ہوں۔ اتفاق سے میر کے کلام کا ایک حصہ انہی بحروں میں ہے۔ اب نظموں میں ان بحروں کے استعمال کو بھی آپ تقلید ہی کہیں گے۔؟ غزل کا میں عاشق جانباز کبھی نہیں رہا۔ میں نے ’’چاندنگر‘‘ میں جو بات لکھی تھی وہ اب بھی میرا عقیدہ ہے کہ غزل سے حد سے زیادہ بڑھی ہوئی شیفتگی اردو شاعری کی ترقی کے امکانات کو نقصان پہنچائے گی۔ بیس پچیس برس پہلے کی نسل نے اردو شاعری میں تجربے اور بغاوت کی جو شمعیں روشن کی تھیں و ہ اس دور کے تن آسانوں نے احیائے غزل کا عذر مستی رکھ کے بجھادی ہیں۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میری یہ تشویش ۱۹۵۵ء کے حساب سے ٹھیک تھی اس کے بعد نظم گویوں کے قافلے آنے شروع ہوئے جن میں ندرت، تازگی، اجتہاد، کلاسیکیت اور جدیدیت سبھی کے محمود عناصر شامل ہیں۔ ایک زمانے میں طویل نظم کہنے والو ں میں میرا شمار ضرور ہوتا تھا۔ اب میدان ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو صحیح معنوں میں شاعری کے کنویں کو وسعت دے سکتے ہیں اور دے رہے ہیں۔ مجھے اپنے ان ہم عصروں پر فخر ہے۔ یہ لوگ اگر مغربی کلاسیکیت کے ایسے فدائی نہ ہوں اور اپنی دھرتی میں مضامین کاشت کریں اور اپنے ہاں کامزاج، آہنگ اور زبان پیدا کرنے کی کوشش کریں تو روح عصر کو گرفت میں لے سکتے ہیں۔

    *

    میں نہیں جانتا مجھے اپنی شاعری کے متعلق کچھ اور کہنے کی ضرورت ہے اور اوپر جو کچھ کہا ہے اس کی بھی کہاں تک ضرورت تھی۔ اگر مجھے فقط اپنی آج کل کی شاعری کے متعلق کچھ کہنا ہوتا تو بڑی آسانی تھی کیونکہ اول تو میں آج کل شاعری کرتا نہیں۔ جو ہے اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ لیکن چونکہ میری شاعری کا معتدبہ حصہ چاند نگر کے دور کا ہے اور یہاں مطلب میری تمام تر شاعری سے ہے اس لیے وہ نقلیں اور فلسفے بیان کرنے پڑے جو اس مضمون کے ابتدائیے میں آگئے ہیں۔ مجھے نہ اِس عشق پر ندامت ہے نہ اُس عشق پر۔ نہ میں لیبلوں کی پروا کرتا ہوں۔ میرا تو نظریہ فقط یہ ہے کہ جو کچھ سوچیے جو کچھ دیکھیے اسے اپنے مزاج کے آئینے میں جھلکاکر لکھیے۔ اپنی طرز پر جمے رہیے۔ ’’میاں آزاد۔ جواب نہ دیکھے گا کوئی کبھی تو دیکھے گا۔‘‘ ناقدری کا سارا الزام قارئین کی بے ذوقی پر نہ رکھیے، کہیں اپنا ہی قصور نہ نکل آئے۔ کوئے دامدار کی اقامت اتنے دنوں نہ اختیار کیجیے کہ مجرب اور رقیب سبھی گدائے سرراہ سمجھنے لگیں۔ گردوپیش سے آنکھیں نہ موندیے، کان نہ لپیٹیے۔ ہاں دیکھنے سننے کے بعد ان سے اعتنا کرنا نہ کرنا آپ کی خوشی ہے۔ اپنے ہم عصروں اور اپنے سے دس بیس برس بڑے لوگوں سے ایک بات مجھے اور کہنا ہے وہ یہ کہ آپ ادب میں تاجداری کاپٹہ لکھوا کے نہیں لائے۔ وہ خونِ گرم جو دس بیس برس آپ کی رگوں میں تھا اب نوجوان ترنسل کی رگوں میں ہے۔ آپ اپنا زور صرف کرچکے تو محفل کو آداب کہیے اور تشریف رکھیے۔ نئے آنے والے قافلے کا راستہ نہ روکیے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے