مناظر عاشق ہرگانوی اور بچوں کا جاسوسی ادب
مناظر عاشق ہرگانوی جیسی ہمہ جہت اور ہمہ پہلو شخصیت اردو ادب کے منظر نامے پر خال خال ہی نظر آتی ہے۔ان کے یہاں موضوعات کی بوقلمونی کا ایک رنگارنگ جہان دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ان کے مطالعے کی وسعت اور ان کا مشاہدہ اس امر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادب کی تقریباًتمام اصناف میں انہوں نے خامہ فرسائی کی ہے۔مناظر عاشق ہرگانوی اردو کے بسیارنویس ادیب ہیں۔ تخلیقی،تنقیدی اور تحقیقی ہر میدان میں انہوں نے طبع آزمائی کی ہے۔بچوں کے رسالے غنچہ،کلیاں، ٹافی،کھلونا،پیام تعلیم ،مسرت ہوں یا خواتین کے ماہنامے زیور،حریم،بانو ہوںیا عام قاری کے لئے شمع،شبستان، بیسویں صدی، ہما، ہدیٰ ہوں یا خالص ادبی رسائل و جرائد۔ہر جگہ ان کی تحریریں ذوق نظر کو سیراب کرنے کے لئے موجود رہتی ہیں۔ مناظر عاشق ہرگانوی کی ادبی نگارشات کے سلسلے میںڈاکٹر سید احمد قادری لکھتے ہیں:
’’فراق جیسے شاعر کی شاعری اور کلیم ا لدین احمد جیسے ناقد کی تنقید کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان سے بڑا ناقد کوئی ہو نہیں سکتا۔اردو کے پہلے اخبار کی تلاش و جستجو کرتے ہیں تو ان کے محقق ہونے کا پتہ چلتا ہے۔گاندھی جی کی سیاسی زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں تو ان کے سیاسی شعور کی اتھاہ گہرائیوں کا اندازہ ہوتا ہے اور جب کرشن چندر، سیماب، اقبال، چکبست، مظہر امام، رضا نقوی واہی، ژاں پال سارتر، آرتھریلر،ماتری وغیرہ کی ادبی خدمات کا تجزیہ کرتے ہیں تو ان کے اندر چھپی ہوئی بے پناہ تنقیدی صلاحیتوں کا احساس ہوتا ہے۔ دنیا کی مختلف خواتین کا جب یہ تعارف پیش کرتے ہیں یا پھر لندن، پیرس، استنبول اور سنگاپور کے سلسلے میں مواد فراہم کرتے ہیں تو ان کے مطالعہ و مشاہدہ کی گہرائی و گیرائی کا پتہ چلتا ہے۔لکھنؤ، پٹنہ اور کشمیر ریڈیو سے جب یہ کوئی کہانی سناتے ہیں تو ان کے اندر کا بہترین افسانہ نگار سامنے آتا ہے اور جب سری نگر ٹیلی ویژن پر غزل پڑھتے نظر آتے ہیں تو ان کی شاعری پر لوگ جھوم جھوم اُٹھتے ہیں۔‘‘
(بحوالہ:’’مناظر عاشق ہرگانوی۔شخصیت‘‘ ، ص:۱۶۰)
گویا یہ ایک شخص نہیں بلکہ علم و ادب کا ایک بحر بیکراں ہے جس کی ہر موج نیا فسانہ سناتی نظر آتی ہے۔ہر لہر ایک نئے باب کا نیا عنوان ہوتی ہے۔ مناظر صاحب خود کہتے ہیں:
’’میں خواب کے کھیت بوتا ہوں اور تعبیر کی فصل کاٹتا ہوں۔‘‘
اب تک انہوں نے دو سوسے زائد فصلیں کاٹ لی ہیں ۔ان کے خوابوں کا سلسلہ یونہی دراز رہے تو مزید فصلیں کٹتی رہیںگی۔انہوں نے وجہ تخلیق یوں بیان کیا ہے:
’’میں شوق کے لئے نہیں لکھتا ۔اپنے باطن کی بے تاب اور ہمہ وقت سوچنے والی روح کی وجہ سے مجبور ہوکر لکھتا ہوں۔‘‘
میرا خیال ہے کہ ہر فنکار کے باطن میں ایک مضطرب روح ہوتی ہے لیکن کم لوگ ہیں جو اس اضطراب پر کان دھرتے ہیں اور روح کے سکون کا سامان کرتے ہیں۔ مناظر صاحب کے پیکر میں ایک مضطرب روح کے ساتھ ساتھ کبھی نہ تھکنے والا جسم، وقت کی قدر کرنے والا دماغ اور اپنے فکروشعور سے دوسروں کو فیضیاب کرانے والا دل بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو ادب کے سرمایے میںدو سو سے زائد تصانیف کا ایک اہم اضافہ مناظر صاحب کا مرہون منت ہے۔
جس افکارومعیار سے مناظر صاحب ادبی و علمی موضوعات پر مضامین لکھتے ہیں ،اسی تناسب سے ان پر بھی لوگوں کے تاثرات آتے رہتے ہیںجس کے وہ حقدار بھی ہیں۔ میری یہ چند سطریں ان کی شخصیت یا فن کا احاطہ تو نہیں کر سکتیں لیکن ان کی تحریر کردہ جاسوسی کہانیاں (جو انہوں نے بچوں کے لئے تحریر کی ہیں لیکن سبھی عمر کے افراد ان سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں) پڑھ کر جو تاثرات میرے ذہن پر مرتسم ہوئے ،وہ بلا کم و کاست ضبط تحریر میں آگئے ہیں۔
بچوں کے ادب پربھی مناظر صاحب کی توجہ رہی ہے۔بچوں کا ادب تخلیق کرنا ایک مشکل کام ہے۔ادب اطفال میں بچوں کی نفسیات کے پیش نظر معصومیت،سادگی،سہل بیانی،پراسراریت سے مسرت کشید کرنا،چھوٹی چھوٹی معلومات ، اخلاقی نکتے، زندگی کی راہوں کو سہل کرنے والے اصول و ضوابط، کردارسازی کرنے والے واقعات اور ان سب کی پیشکش میں معصومانہ دلچسپی قائم رکھنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔بچوں کے لئے لکھی جانے والی مناظر صاحب کی تحریروں کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اس کار گرانقدر کا خاطر خواہ حق ادا کیا ہے۔
ابتدائی دور میں مناظر صاحب نے ایک خیالی کردار ملا نابالغ کو اپنی جاسوسی کہانیوں کا ہیرو بنایا تھا ۔بچوں کی معصوم متجسس فطرت کے لحاظ سے یہ کردار تخلیق کیا گیا تھا۔ یعنی یہ ملا بھی ہے اور نابالغ بھی۔ بچہ بھی ہے اور بہادر جوان بھی۔اپنی چالاکی اور معاملہ فہمی سے ہر قسم کے واقعات کی تہہ تک پہونچ جاتا ہے۔لوگوں کے مسائل بھی حل کرتا ہے اور پولس والوں کی مدد بھی کرتا ہے۔بعد ازاں، مناظر صاحب نے بدلتے ہوئے سماجی تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے خیالی کردار کی جگہ ایک جیتے جاگتے کردار کو جاسوسی کارناموں کا ہیرو بنایا۔ یہ کردار فیصل کا ہے ۔درپردہ انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اکیسویں صدی کے بچے بڑے سیانے ہوچکے ہیں۔ وہ ملا بالغ جیسے تصوراتی نام کی بجائے فیصل جیسے نڈر،بہادر اور ذہین کردار کے جاسوسی کارناموں کو زیادہ پسند کریں گے۔ بچوں کی جاسوسی کہانیاں تخلیق کرنے کے پس پشت مناظر صاحب کا مقصد یہ رہا کہ آج کی رنگارنگ زندگی میں قتل و غارت گری، لوٹ مار، اغوا جیسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔بچوں کو بھی بارہا ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ بچے ایسے واقعات کے بارے میں نہ صرف جانیں بلکہ اپنے بچاؤ کے متعلق بھی پوری جانکاری رکھیں۔ جن ، بھوت، پری وغیرہ جیسے مافوق الفطری کرداروں کے حوالے سے وہ کہتے ہیں:
’’آج اکیسویں صدی میں جب ہر طرف سازشوں کا بازار گرم ہوتو ہر بچے کو شہزادہ اور ہر لڑکی کو پری بننا چاہئے۔کیونکہ جن، بھوت اور راکشش تو ہمارے آس پاس گھومتے رہتے ہیں۔ان سے اپنے آپ کو، گھر کو، محلے کو گاؤں ،شہر اور ملک کو بچانا ہے۔ مگر کیسے؟ صرف اپنے عمل سے۔‘‘
بچوں کو اس فعالیت اور عمل کا سبق پڑھانے کے لئے انہوں نے فیصل کا کردار تخلیق کیا ہے۔ایک عام لیکن ذی ہوش اور بیدار ذہن کا لڑکا جو اپنے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات کا بہ نظر غائر مشاہدہ کرتا ہے اور حقیقی نتائج اخذ کرتا ہے۔اس کے بچپن کا ایک واقعہ ہے کہ اسکول میںروزانہ لنچ آور میں کلاس سے مختلف بچوں کی چھوٹی چھوٹی چیزیں مثلاًشارپنر، ربڑ،پنسل وغیرہ غائب ہوجایا کرتی تھیں۔اتفاق سے صرف فیصل ہی اس وقت کلاس میں موجود رہتا تھا۔نتیجتاً سبھی لڑکوں نے اسے ہی مجرم قرار دیا اور اس سے بات چیت بند کردی۔ فیصل نے کہاکہ وہ چور نہیں ہے لیکن چور کا پتہ لگاسکتا ہے۔اس نے مالی سے کدال منگواکر کلاس روم کے کونے میں بنے ہوئے ایک بل کو کھودنا شروع کیا۔دو فٹ بعد ہی اس بل سے ایک چوہا نکل کر بھاگا اور بچوں کی تمام گمشدہ چیزیں اس بل سے دستیاب ہو گئیں۔ اس واقعہ کے بعد بچوں نے فیصل کو جاسوس کا لقب دے دیا۔
کرکٹ میدان میں ہونے والے دوہرے قتل اور اسی سلسلے کے مزید دو قتل کا فیصل نے جس باریک بینی اور بالغ نظری سے سراغ لگایا ،وہ نہایت قابل تعریف ہے۔ مونا کلب اور آزاد لائبریری کی کرکٹ ٹیموں کے بیچ فائنل میچ تھا ۔کھیل تقریباً اختتام پر تھا اور ہارجیت کا فیصلہ ہونے کو تھا کہ اچانک میدان میں کئی دھماکے ہوئے اور میدان دھوئیں سے بھر گیا ۔میدان میں افراتفری مچ گئی۔ اسی دوران گولیاں چلنے کی بھی آواز آئی۔حالات قابو میں آنے کے بعد دو لاشیں منظر عام پر آئیں۔ایک کرکٹر افضل کی لاش تھی اور دوسرے کی شناخت بعد میں افضل کے دوست عنایت علی کے طور پر ہوئی۔پولس اپنے طور پر موقع کی کاروائی انجام دے رہی تھی۔دونوں لاشوں کا گہرا مشاہدہ کرنے کے بعد فیصل نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ قتل گولیوں سے نہیں ہوا ہے بلکہ کسی پرندے کے پنجے کے نشان ان کی موت کا سبب بنے ہیں۔ پھر تفتیش و انکشافات کا ایک دلچسپ سلسلہ ہے جس کے سہارے کہانی آگے بڑھتی ہے۔ غورطلب امر یہ ہے کہ یہ تمام سلسلے ماورائی یا خیالی نہیں ہیں بلکہ زمینی حقیقت کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ پلاٹ بہت چست و درست ہے۔ واقعات میں ایک تسلسل اور روانی ہے۔ مصنف نے بچوں کی متجسس فطرت کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔جب یہ واضح ہوگیا کہ تمام قتل کا سبب گدھ ہے تو گدھ کے متعلق تفصیلی معلومات بہم پہنچائی گئی ہے۔ اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ خشک اور طویل معلومات سے بچے بور نہ ہوں۔ اس لئے تمام باتوں کو دو جزو میں اور الگ الگ کرداروں کے وسیلے سے بیان کیا گیا ہے۔کہانی کے آخر میں حقیقت سامنے آتی ہے کہ قاتل امتیاز کا ہاتھ افضل کے بلے سے زخمی ہوا تھا بلکہ کردیاگیا تھا۔ اسی المناک حادثہ کے نتیجے کے طور پر امتیاز نے گدھ کو تربیت دے کر اپنے دشمنوں سے انتقام لیا۔لیکن قانون کو ہاتھ میں لے کر اس نے کیسا انتقام لیاکہ بالآخر وہ بھی موت کی سزا کا مستحق ٹھہرا۔بچوں کے لئے اس کہانی میں جہاں واقعات کی نیرنگی ہے، سراغ رسانی کی باریکی ہے، معلومات کا خزانہ ہے،پُراسراریت کا اضطراب ہے، انکشافات کا لطف ہے وہیں یہ سبق بھی ہے کہ ہر حال میں قانون کی بالادستی قائم رکھنی چاہئے اور منتقم مزاج شخص بالآخر خود کو ہی نقصان پہنچاتا ہے۔
فیصل کا ایک اور کارنامہ ’’جنگل کی پہچان‘‘ بھی کافی دلچسپ ہے۔اس کہانی میں فیصل کا واسطہ جنگل کے ایک اسمگلر سے پڑتا ہے جو اس علاقے سے گذرنے والی مال گاڑی سے سرکاری املاک لوٹتا ہے۔اپنی ہوس پوری کرنے کے لئے وہ نہ صرف ملک کی معاشی حالت کو کمزور کررہا تھا بلکہ اس سلسلے میں مزاحم ہونے والے کسی بھی آدمی کی جان لے لینا اس کے لئے معمولی بات تھی۔عینی شاہدین کو قتل کراکر شناخت مٹانے کے غرض سے سر کاٹ کر دریابرد کردیتا تھا۔ لیکن ہر چیز کی انتہا ایک نئی ابتدا ہوتی ہے۔بورے میں کسی ہوئی ایک سرکٹی لاش پر فیصل کے ساتھی دانش کی نظر پڑی اور اس نے فیصل کو خبر دیدی۔پھر انسپکٹر حبیب کے ساتھ فیصل کی سراغ رسانی کا آغاز ہوگیا۔ حسب سابق اس کہانی میں بھی مصنف نے کوئی جادو کی چھڑی نہیں گھمائی ہے بلکہ واقعات کے تسلسل سے رفتہ رفتہ کہانی آگے بڑھتی ہے اور اسرار کے پردے چاک ہوتے جاتے ہیں۔ اور آخر میں یہ انکشاف ہوتا ہے کہ فاریسٹ آفیسر ہی اسمگلروں کا سردار تھا۔ اس نے اپنے منصب کا بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ جنگل میں رہ کر اس نے ایک خفیہ تہہ خانہ بنارکھا تھا جس میں وہ لوٹ کا مال رکھتا تھا۔ اس کے سرکاری و نجی کارندے جنگل کے اطراف میں گھومتے رہتے تھے تاکہ کوئی باہری آدمی اس کے معمولات میں مخل نہ ہو۔
فیصل کے گذشتہ کارناموں کی بہ نسبت اس کہانی میں زیادہ روانی اورارتقائی تسلسل ہے۔ پُراسراریت اور مہم جوئی کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔جنگل کی مناسبت سے چیتے کے شکار کی روداد بھی ہے جس میں بچوں کے لئے زبردست کشش ہے۔ فیصل کا ایک اورکارنامہ’’قتل کا کھیل‘‘ ہے۔یہ ایک عام سی کہانی ہے جس میں تقریب کا انعقاد کرکے قاتل کھیل کھیل میں اپنے دشمن کو ہدف بنا لیتا ہے۔ کہانی کی خاص بات یہ ہے کہ اسی تقریب میں قاتل گرفتار بھی ہوجاتا ہے اور قاتل بھی کون ؟ ایک لڑکی جو مقتول کی سالی ہے اور اس کی بلیک میلنگ کا شکار بھی ہے۔ یہ کہانی چونکہ ایک ہی نشست پر محیط ہے، اس لئے واقعات کی رفتار سست ہے۔البتہ واقعہ کی پیچیدگی ذہن کو متوجہ کرتی ہے۔ اس کہانی میں فیصل اور بریشہ کردار اور مکالمے کے اعتبار سے ابن صفی کے شہرہ آفاق کرداروں کرنل فریدی اور کیپٹن حمید سے قدرے مماثل نظر آتے ہیں۔
یہ زیادتی ہوگی کہ ملا نابالغ کے کارناموں پر نظر نہ ڈالی جائے۔ ملا نابالغ صرف نام کے اعتبار سے تصوراتی اور غیر حقیقی کردار لگتا ہے لیکن حرکت و عمل کے لحاظ سے جونیئر فیصل ہے۔ ملا نابالغ کے کارنامے بچوں کے رسالے میں شائع ہوتے تھے۔بچوں کی دلچسپی کے مدنظر مناظر صاحب نے کردار کا نام ملا نابالغ رکھا ہوگا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مناظر صاحب کہانی کے کرداروں کے نام اپنے اردگرد سے اُٹھاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ملانابالغ کے کردار کی تخلیق کے وقت انہیں ایسا کوئی کردار اپنے آس پاس نظر نہ آیا ہو۔ جیسے فیصل،اس کا ساتھی دانش، اس کی سکریٹری بریشہ تینوں نام ان کے اپنے بچوں کے ہیں۔ ’’جنگل کی پہچان‘‘ میں ایک کردار فردوس رومی ہے جو مناظر صاحب کے حلقہ احباب میں شامل ہیں۔ فردوس رومی نے ’’مناظر عاشق ہرگانوی: شخصیت ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی ترتیب دی ہے۔بہرکیف، ملا بالغ کے کارنامے مختصر اور نسبتاً کم پیچیدہ ہیں۔قتل کا معمہ،قاتل کون؟،اغوا، شیطانی عمل، کالی جرسی لال پھول وغیرہ کہانیوں میں بھی قتل و اغوا اور لوٹ مار کے واقعات ہیں جن کا سراغ ملا نابالغ اپنی بالغ نظری اور گہری سوجھ بوجھ سے لگالیتا ہے۔ ان کہانیوں میں ایک کمی کھٹکتی ہے کہ ملا نابالغ ہو یا فیصل، مصنف کی پیشکش سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں بچے ہیں یا کم عمر نوجوان ہیں۔لیکن جب وہ انسپکٹر سے بات کرتے ہیں یا دیگر کرداروں سے تفتیشی رویہ اپناتے ہیں تو مکالماتی نہج پر انسپکٹر کے ہمعصر نظر آتے ہیں۔ یہ ایک اچھی کہانی کی ایک بڑی خامی ہے۔ جبکہ ان کہانیوں کی مکالمہ نگاری بہت عمدہ ہے۔بلکہ بیشتر کہانیاں مکالموں کے ذریعہ ہی اپنے پلاٹ کو واضح کرتے ہوئے ارتقائی مدارج طے کرتی ہیں۔ زبان شستہ اور شگفتہ ہے۔ بھاری بھرکم الفاظ و تراکیب سے اجتناب کرنے کی شعوری کوشش ملتی ہے۔ مناظر صاحب نے بچوں کی نفسیات کا پوری طرح خیال رکھا ہے۔ وہ بچوں کو عام معلومات سے بہرہ ور کرنا چاہتے ہیںتو علمیت یا پند و نصائح کا گھونٹ پلانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اپنی بات کو سہل اور آسان زبان میں پیش کردیتے ہیں۔
مناظر صاحب نے مذکورہ جاسوسی کہانیاں بچوں کے لئے لکھی ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ ان کہانیوں میں ہر عمر کے شائقین کے لئے تسکین ذوق کا سامان ہے۔ سسپنس کہانیاں انسانی دماغ کو متحرک اور فعال رکھتی ہیں اور ایسی کہانیاں تحریر کرنے کے لئے بھی متحرک اور فعال ذہن کی ضرورت ہے۔ مناظر صاحب کی ذہانت ،فطانت اور ادبی بصیرت ان کی مذکورہ جاسوسی کہانیوں میں جھلکتی ہے۔ نثرنگاری ہو یا شاعری، ہر جگہ ان کا ذوق جنوں ظاہرہوتا ہے۔نثر میں تنقید ہو یا تحقیق، افسانے ہوں یا بچوں کا ادب،ہر شعبے میں انہوں نے اپنی علمی استعداد کا مظاہرہ کیا ہے۔ شاعری میں نظم، آزاد نظم،غزل،آزاد غزل،ہائیکو،ماہیا گویاہر جگہ وہ دخیل ہیں۔ شاعری میں انہوں نے متعدد تکنیکی تجربے بھی کئے ہیں۔مناظر صاحب نے اتنا زیادہ لکھا اور اتنا خوب لکھا کہ اسے احاطہ کرنا چند صفحات میں ممکن نہیں۔ ہمارے عہد میں تصنیفی اور تالیفی سرگرمیوں میں اتنا متحرک اور فعال ادیب کوئی دوسرا نہیں ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.