Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

منصور خوشترکا ادبی شعور

وصیہ عرفانہ

منصور خوشترکا ادبی شعور

وصیہ عرفانہ

MORE BYوصیہ عرفانہ

    نئی نسل کے ادیب و شاعر میں ابھرتا ہوا اور اپنی پہچان قائم کرتا ہواایک اہم نام منصور خوشتر کا ہے۔وہ بیک وقت کئی ادبی محاذ پر مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔شاعری،نثر نگاری، صحافت اور رسالہ ’’دربھنگہ ٹائمز ‘‘ کی ادارت۔خوبی کی بات یہ ہے کہ انہوں نے ہر میدان میں اپنی ایک منفرد شناخت بنا لی ہے بلکہ ان کی بھرپورنمائندگی کی وجہ سے بہار خصوصاً دربھنگہ کا نام اردو کی دوردرازبستیوں تک پہنچنے لگا ہے۔مشہور فکشن نگارعبد الصمدکی اس رائے سے میں متفق ہوں کہ منصور خوشتر نے نوجوانی میں اتنے بڑے بڑے کام کردئیے ہیں کہ جس کے لئے عمریں بیت جاتی ہیں۔پروفیسر شکیل الرحمٰن نے منصور خوشتر کی ستائش کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے دربھنگہ کو عصر حاضر کا ایک بہت بڑا دبستان بنا دیا ہے۔قاضی عبد الستار نے بھی دربھنگہ ٹائمز جیسا معیاری اور خوبصورت رسالہ نکالنے پر منصور خوشتر کی ستائش کی ہے۔مستنصر حسین تارڑ نے بھی اس قدر معیاری رسالہ کو منصور خوشتر کا ادبی جنون قرار دیا ہے۔شموئل احمد نے منصور خوشتر کو دربھنگہ کی سرزمین کا طفیل احمد سے موسوم کیا ہے۔ حسین الحق کی یہ رائے درست ہے کہ منصور خوشتر نے اپنی ادبی و صحافتی خدمات کے ذریعے اردو دنیا میں ایک مضبوط پہچان بنا لی ہے۔اہل قلم کی یہ آرا بلاشبہ قدروقیمت رکھتی ہیں۔

    منصور خوشتر اردو ادب کے حوالے سے ایک متحرک اور فعال شخصیت ہیں۔صحافتی خدمات کے ذیل میں دربھنگہ ٹائمز کی بروقت اشاعت کے لئے سرگرم رہتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ دربھنگہ ٹائمز کے اب تک کئی خصوصی نمبر شائع ہوکر دستاویزی حیثیت کے حامل قرار دئیے جاچکے ہیں۔روزنامہ قومی تنظیم میں ہر سموار کو شائع ہونے والے ادب نامہ کی ذمہ داری ان پر ہے۔المنصور ایجوکیشنل ٹرسٹ اینڈویلفیئر ٹرسٹ کی ادبی کارگزاریوں کا بار بھی سنبھالتے ہیں۔شاعری بھی کرتے ہیں اوراہل قلم کی تحریروں کو کتابی شکل میں ترتیب دینے میں بھی دلچسپی ہے۔طبع زاد تحریروں کی بات کی جائے،توخود بھی تواتر سے تنقیدی و تجزیاتی مضامین قلمبند کرتے رہتے ہیں اور قارئین کے استفادے کے لئے اپنی طبع زاد تحریروں کو کتابی صورت میں پیش کرکے اردو کے ادبی سرمائے کو وقیع کرنے کا فرض بھی انجام دیتے ہیں۔منصور خوشتر کی اب تک تقریباً پندرہ سولہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ان کی ایک اہم تصنیف’’ادب کے ستارہ گر‘‘ فی الوقت میرے پیش نظر ہے۔تین سو باون(۳۵۲) صفحات کی یہ ایک ضخیم کتاب ہے جو اپنے مشمولات کے اعتبار سے نہایت اہم ہے۔اس کتاب میں تقریباً پینتالیس مضامین شامل ہیں جو بہار کی ادبی و علمی شخصیات کے فکروفن کا احاطہ کرتے ہیں۔یہ شخصیات اردو کے مختلف اصناف سے تعلق رکھتی ہیں۔ان میں شاعر، ناقد، افسانہ نگار،صحافی،ناول نگار اور دیگراہل علم شامل ہیں۔بہار میں اردو کی صورتحال کے جائزے اور اہل اردوکے فکروفن کے مطالعے کے ضمن میں یہ کتاب اہم ثابت ہوگی۔

    بہار کی سرزمین ادبی و علمی اعتبار سے نہایت زرخیز رہی ہے۔ماضی سے تا حال ایک سے بڑھ کر ایک ادیب و شاعر اور علمی شخصیات نے اس علاقے کا نام سربلند کیا ہے۔ منصور خوشتر نے ایسے ہی اہل علم و اہل قلم کو اپنے مطالعے کا محوربنایا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں اس کتاب میں بہار کی تمام قدآور شخصیات کا احاطہ کیا گیا ہے لیکن خاصی تعداد میں ان پر روشنی ڈالی گئی ہے۔کلیم عاجز،مظہر امام، اویس احمد دوراں،مناظر عاشق ہرگانوی، پروفیسر طرزی، مشرف عالم ذوقی، شمیم فاروقی، شین مظفر پوری، شاکر خلیق، رفیع الدین راز، محمود احمد کریمی، اسرار جامعی، آسی آروی، ڈاکٹر مشتاق احمد، سید احمد قادری، سید اشرف فرید، ریحان غنی، امام اعظم، ظفر حبیب، جمال اویسی،مشتاق احمد نوری، قاسم خورشید، انوارالحسن وسطوی، آفتاب اشرف،عطا عابدی، خلیق الزماں نصرت، مجیر احمد آزاد، احسان عالم، اظہر نیر،قیام نیر، کامران غنی صبا، انور آفاقی، جمیل اختر شفیق اور دیگر متعدد افراد پر مفصل،مختصر، مدلل تجزیاتی مطالعہ اور تبصراتی تعارف یکجاہوکر اس کتاب کی معنویت اور اہمیت میں اضافہ کا باعث ہیں۔

    منصور خوشتر کا تنقیدی و تجزیاتی شعور بالیدہ ہے۔وہ جب کسی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو پس منظر اور پیش منظر دونوں کو مدنظر رکھتے ہیں۔فن تجربات کی بھٹی سے نکل کر کندن بنتا ہے۔تجربات زندگی کی تلخیوں اور شیرینیوں کی دَین ہوتے ہیں۔ بعض انسان کی زندگی میں تلخیوں کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔نتیجتاً اس کا فن پارہ دل کو زیادہ کریدتا ہے اور وہ فنکار مقبولیت عام کا زیادہ مستحق ٹھہرتا ہے۔کلیم عاجز کے کلام کے مطالعے میں مصنف نے ان کے حالات پر گہری نظر رکھی ہے۔کلیم عاجز کے کلام میں درد وکرب کی ایک دائمی کیفیت ملتی ہے۔یہ کیفیت اپنے پورے خاندان کو نیست و نابود ہوتے ہوئے دیکھنے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔منصور خوشتر نے ان کی زندگی کے اہم واقعات اور ان کی شخصیت کا احاطہ کرتے ہوئے ان کے فنی وفکری رویے پر نظر ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    ’’کلیم عاجز کے یہاں نشاط و غم کی کیفیت کا اظہار مخصوص انداز میں ہوا ہے۔کلیم عاجز کی کیفیات تغزل پر میرؔکے اثرات کی کارفرمائی تسلیم کرنے کے باوجود ان کے دائرہ فن اور انداز فکر میں بھرپور ندرت اور جدت نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ایک طرف انہوں نے قدماء کے انداز بیان کو احترام کی نگاہوںسے دیکھا ہے تو دوسری طرف فطری سطح پر جدت ان کی غزلوں کو ایک مخصوص آرٹ کا حامل بناتی ہے۔ان کے غزلیہ اشعار اپنے تغزل کی نزاکتوں اور لطیف پیرایۂ بیان کے باعث بہ آسانی پہچانے جاسکتے ہیں۔‘‘

    منصور خوشتر کسی ادیب یا شاعر کی تخلیقات کا مطالعہ کرنے سے پہلے فنکار کے ماحول و حالات پر ایک نظر ڈالنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ اس فنکار کی فکری و فنی بصیرت کا سلسلہ ہائے دراز ان کی گرفت میں آسکے۔ مظہر امام کے فکر و فن کا جائزہ لینا ہو یا رفیع الدین راز ؔکی شاعری کا محاکمہ،اویس احمد دوراں کے شعری وادبی کائنات کی تشریح کرنی ہو یا شین مظفر پوری کی افسانہ نگاری پر روشنی ڈالنا ہو،منصور خوشتر ان ادیبوں کے پس منظر کو پیش نظر رکھتے ہیں۔پروفیسر طرزی کی اجتہادی و انفرادی شاعری کے ذکر میں بھی وہ سب سے پہلے طرزی صاحب کے سوانحی پہلو پر روشنی ڈالتے ہیں۔

    پروفیسر طرزی کا نام محتاج تعارف نہیں۔ کلاسیکی ادب سے قطع نظر،طرزی صاحب سے پہلے اور بعد میں اب تک کوئی منظوم تذکرہ یا تبصرہ نگار وجود میں نہیں آیا۔ کلاسیکی ادب کو اس فہرست سے خارج کرنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ جب نثر کی روایت خال خال ملتی تھی اور نثر بھی وہ جو عام فہم نہ تھی،تب تذکرہ نگاری کے لئے تذکرہ نگار منظوم پیرایہ کا سہارا لیتے تھے۔پروفیسر طرزی کی اب تک چالیس سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں محض تین کتابیں نثری اسلوب میں ہیں۔انہوں نے بہار کے ناموران اوراردو کے نازبرداران کی پوری پوری حکایتیں منظوم پیرایہ میں پیش کردی ہیں۔ان کی قادرالکلامی اور الفاظ و تراکیب پر مہارت کے لئے کوئی حرف ستائش کافی نہیں۔منصور خوشتر پروفیسرطرزی صاحب کے مختلف النوع کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :

    ’’پروفیسر طرزی اپنی تنقیدی اور عالمانہ ذہانت سے کسی شہ پارے یا کتب و رسائل کو اپنا موضوع بناتے ہیں تو تخلیق کے بطون میں جھانک کر ان کی خوبیوں یاخامیوںکی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان کے اس عمل میں اخلاص کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔کسی فروگذاشت کی نشاندہی میں وہ تہذیبی شائستگی کا دامن نہیں چھوڑتے۔ویسے بھی وہ تحسینی و توصیفی پہلو پر اپنی نظر پورے انہماک کے ساتھ رکھتے ہیں۔‘‘

    مشرف عالم ذوقی اپنے موضوعات کی بے باکی اور سماجی ناہمواریوں کی پیشکش اور جداگانہ طرز اسالیب کی وجہ سے اردو افسانوی ادب کی تاریخ میں منفرد اور اہم مقام کے حامل رہے۔طبقاتی ظلم و زیادتی، تہذیبی زوال اور سیاسی بازی گری کے تلخ احوال بیان کرنے میں ان کا قلم ہمیشہ بے باک رہا۔ وہ اپنے طرز کے واحد ادیب تھے۔منصور خوشتر نے ان کے ناولوں کے تناظر میں سماجی ناہمواریوں کی گرفت کی ہے اور ایک تفصیلی اور مبسوط مقالہ قلمبند کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:

    ’’انہوں نے ناول نگاری کے ان مروجہ اسالیب سے گریز کیا ہے جہاں ناول کی کہانی ایک محدود فریم ورک میں الجھے الجھے پیچیدہ فلسفوں اور فارسی آمیز زبان کے بوجھل ماحول میں گم کردی جاتی ہے۔ذوقی ناول میں زبان سے زیادہ اہم موضوع کو گردانتے ہیں۔ وہ محض الفاظ کی قلابازی پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی چونکانے والے کلائمکس پر۔‘‘

    افسانہ نگاری اور صحافتی خدمات کے حوالے سے سید احمد قادری کے نام سے کون واقف نہیں۔انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری کی صنف سے کیا ۔ان کے افسانے سماجی شعور کا بہتر حوالہ ہیں۔ان کی نظر معاشرے کے بدلتے مزاج اور وقت کی کروٹ پر مرکوز رہتی ہے۔ان کے چار افسانوی مجموعے اردو ادب کے سرمایے میں اہم اضافہ ہیں۔اردو تنقید کے دامن پر بھی ان کی گرفت مضبوط ہے۔تنقید کے ذیل میں اصناف ادب کے مزاج اور فنکاروں کے فنی رویے پر ان کی توجہ مبذول رہتی ہے۔ان کی سات تنقیدی و تحقیقی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔افسانے اور تنقید کے علاوہ ان کا ایک اہم میدان اردو صحافت ہے۔افسانے کی رومانی دنیا سے نکل کر صحافت کی حقیقی دنیا میں قدم رکھنا ایک بڑا اقدام ہے۔اردو صحافت کے حوالے سے بھی ان کی دو اہم تصنیف موجود ہے۔ ’’اردو صحافت بہار میں‘‘ اور’’اردو صحافی بہار کے‘‘ لکھ کر انہوں نے صحافت کا حق ادا کیا ہے۔بہار کے اردو صحافیوں کی ایک تاریخ مرتب کردی ہے۔منصور خوشتر نے ان کی افسانہ نگاری،تنقید نگاری اور صحافت کے حوالے سے ان پر ایک تفصیلی اور مبسوط مقالہ تحریر کیا ہے جو موصوف کی باریک بینی اور غائر مطالعہ کا مظہر ہے۔سید احمد قادری کی صحافت کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں:

    ’’صحافت کے طویل سفر میں ان کے سامنے کئی موڑ آئے۔حالات کی چیرہ دستی اور بڑھتے اندھیرے میں بھی وہ بے خوف ہوکر صحافت کے خاردار راستوں کے مسافر بنے رہے۔یہی وجہ ہے کہ قومی اور بین الاقوامی حالات اور عصری مسائل پر ملک اور بیرون ملک کے مختلف اخبارات میں اپنے کالموں اور مضامین میں بے باک، بے لاگ اور بے خوف انداز سے اپنی خاص پہچان بنانے میں کامیاب ہیں۔‘‘

    سید اشرف فرید کی معتبر صحافت پربھی منصور خوشتر نے نہایت خلوص کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔سید اشرف فرید کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ وہ کشاکش کے اس دور میں روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘ تواتر اور تسلسل کے ساتھ نکال رہے ہیں۔یہ اخبار بہار میں سب سے زیادہ پڑھاجانے والا روزنامہ ہے۔عموما مسلمانوں کے مسائل،مسجد ومدارس،عیدگاہ اور قبرستان کے تعلق سے خبریں ہندی یا انگریزی اخبارات کا حصہ نہیں بنتیں۔سید اشرف فرید نے ہمیشہ بے خوف و خطر ان مسائل پر قلم اٹھایا ہے اور غیر جانبدارانہ رائے زنی کی ہے۔ منصور خوشتر نے نہایت دیانت داری اور خلوص کے ساتھ سید اشرف فرید کی صحافتی خدمات پر روشنی ڈالی ہے اور ان کے اہم رول کا اعتراف کیا ہے۔بقول منصور خوشتر ’قومی تنظیم‘ نے بہار میں اردو صحافت کو ایک مضبوط ستون عطا کیا ہے۔

    منصور خوشتر نے ڈاکٹر ریحان غنی کی صحافتی خدمات کا بھی اعتراف کیا ہے۔ریحان غنی گذشتہ بتیس سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان کی صحافتی تحریریں بے لاگ اور بے باک ہوتی ہیں۔مختلف اداروں نے ان کی خدمات کی ستائش کی ہے اور انعامات و اعزازات سے نوازا ہے۔ریحان غنی نے صحافت کی دنیا میں مشہور روزنامہ ’’سنگم‘‘ کے توسط سے قدم رکھا۔ معروف اور بے باک صحافی جناب غلام سرور کی صحبت نے ان کو سنوارنے میں اہم رول ادا کیا۔غلام سرور جیسے سخت گیر صحافی بھی ریحان غنی کی صداقت نگاری اور صحافتی توازن کے معترف رہے۔منصور خوشتر نے گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ان کی خدمات کا جائزہ لیاہے۔وہ ریحان غنی کے صحافتی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    ’’بہار میں صحافت کی جب بات ہوتی ہے تو سید ریحان غنی کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔بہار کی صحافت میں ریحان غنی نے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی ہے۔اپنے کالم ’’دوٹوک‘‘ میں وہ ایک عرصے سے بہار کے مسائل ،سماجی،ملی، قومی کو مضبوطی سے پیش کرتے رہے ہیں۔‘‘

    اردو کے ادبی منظر نامے پر ڈاکٹر امام اعظم کا نام نہایت مشہور و معروف ہے۔شاعری،نثر،تنقید،تحقیق،صحافت گویا کہ ہر ادبی میدان میں ان کی کوئی نہ کوئی تحریر نظر نواز ہوتی رہتی ہے۔ان کی تخلیقات ملک اور بیرون ملک کے مؤقر ادبی رسائل و جرائد میں تواتر سے شائع ہوتی رہتی ہیں۔اسی تناسب سے ان کی کتابیں بھی منظرعام پر آتی ہیں۔اردو دنیابھی ان کی خدمات کا اعتراف کرتی رہتی ہے۔ان کے فکروفن پر کئی کتابیں آچکی ہیں اور ان کی ادبی خدمات پر تحقیقی کام بھی ہوا ہے۔امام اعظم کا ایک اہم کارنامہ رسالہ ’’تمثیل نو‘‘ ہے جس میں ادباء و شعراء کی معتبر تخلیقات شائع ہوتی ہیں۔اردو ادب کے فروغ کے تئیں ان کی دیوانہ وار محنت و مشقت لائق ستائش ہے۔ان کی تصنیف ’’چٹھی آئی ہے‘‘ کے تناظر میں منصور خوشتر نے ایک مطالعہ پیش کیا ہے اور یہ اعتراف کیا ہے کہ ۴۳۴ لوگوں کے خطوط عرصہ دراز تک سنبھال کر رکھنا،انہیں ترتیب دینا اور ۷۵۲ صفحات کی کتاب منظر عام پر لانا اپنے آپ میں ایک بڑا کارنامہ ہے۔یہ خطوط بلاشبہ ایک دستاویزی حیثیت رکھتے ہیں۔ناموران اہل قلم کے خطوط میں زمانے کی کروٹیںاور ادبی اشارات و امکانات ہیں۔

    منصور خوشتر کسی شاعرکا مطالعہ کرتے وقت اس کے شعری کارنامے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔انہوں نے رفیع الدین راز ، آسی آروی، جمیل اختر شفیق،عطا عابدی،جمال اویسی ،مرغوب اثر فاطمی اور ذکی احمدؔ کی شاعری کا تبصراتی لیکن تفصیلی تجزیہ تحریر کیا ہے۔کامران غنی صباؔ نئی نسل کے ایک ابھرتے ہوئے شاعر ہیں۔ان کی شاعری کے محاکمے کے دوران منصور خوشتر ان کے علمی اور شعری پس منظر کا احاطہ کرتے ہیں۔کامران مشہور صحافی جناب ریحان غنی کے صاحبزادے ہیں۔علمی وراثت انہیں قبل سے حاصل ہے۔ان کی شاعری ملک اور بیرون ملک کے اہم ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہی ہے ۔منصور خوشتر نے نہایت عمدگی سے ان کی شاعری کا جائزہ لیا ہے۔دربھنگہ کی ادبی محفلوں کا ایک اہم نام انور آفاقی کا ہے۔اردو زبان سے اتنی دلچسپی رہی کہ آٹو موبائل انجینئرنگ کی سند حاصل کرنے کے بعد مانو سے اردو میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ادب نواز حلقوں میں نشست و برخاست رہتی ہے۔ اردو شعروادب سے گہری وابستگی اور لگاؤ ہے۔ انور آفاقی کوشعروشاعری سے خاص شغف رہا ہے لیکن نثر بھی ان کے قلم کی دامنگیر رہی۔ان کی نثر میں نہایت شگفتگی اور روانی ہوتی ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ انور آفاقی کی تحریروں میں نثری شاعری کا لطف بھی ملتا ہے۔ان کے ادبی کارناموں کا جائزہ منصور خوشتر نے نہایت باریک بینی سے لیا ہے۔ ان کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

    ’’انہوں نے اپنے بیشتر اشعار میں سچائی اور حقیقت بیانی کو ترجیح دی ہے جو ان کی فکرونظر کے پاکیزہ اور صالح عناصر کی نشاندہی کرتی ہیں۔انہوں نے اپنی غزلوں میں زمانے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا خیال کرتے ہوئے اس کی فکری اصالت اور معنوی طہارت کو اردو تہذیب کا ایک ناگزیر حصہ قرار دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ان کی غزلوں میں سماجی حالات کی عکاسی کے ساتھ رومانی،اصلاحی اور نصیحت آموز باتیں بھی ہیں۔‘‘

    دربھنگہ کے ادبی منظر نامے پر محمود احمد کریمی کا نام ترجمہ نگار کی حیثیت سے معروف ہے۔اردو اد ب کو انگریزی میں منتقل کرنا محمود احمد کریمی کا شوق ہے۔اس شوق کی تکمیل میں انہوں نے بعض اہم چیزوں کا انگریزی ترجمہ پیش کیا ہے۔ان کی یہ شعوری کوشش رہتی ہے کہ ترجمے میں تخلیق کی معنویت متاثر نہ ہو۔ ان کی ترجمہ نگاری کا تجزیہ کرنے سے قبل وہ حسب معمول ان کی حیات کے خاص خاص واقعات پر روشنی ڈالتے ہیں۔منصور خوشترجانتے ہیں کہ افسانہ حقیقت کے بیان کا ایک رومانی،فنی اور خوبصورت اظہار ہوتا ہے۔اس لئے وہ کسی بھی افسانہ نگار کے افسانوی فن پر جداگانہ طرز میںروشنی ڈالتے ہیں۔منصور خوشتر نے حسن رہبر کی افسانہ نگاری کا مختصر لیکن گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ان کا خیال ہے:

    ’’ اپنے ارد گرد ہونے والے حادثات و واقعات کے مشاہدے کی قوت جس شخص کے اندر ہوتی ہے ،وہی افسانہ نگاری میں کامیاب ہوسکتا ہے۔افسانہ ایک شعور، ایک احساس ہے جو کسی فرد میں پیدا نہیں کیا جاسکتا ہے۔اسے محنت سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ حساس ذہن و فکر کا مالک ہو۔‘‘

    کسی انسان کی ذہن سازی میں اس کی زندگی کے حالات و واقعات کا اہم رول ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ منصور خوشتر کسی ادیب کے فن پارے پر نگاہ ڈالنے سے پہلے اس کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہیں۔وہ شین مظفر پوری کی شخصیت اور ان کی افسانہ نگاری کا جائزہ لینے کے دوران ان کے خاندانی پس منظر اور ان کے فکروفن سے بحث کرتے ہیں۔مجیر احمد آزاد کی افسانہ نگاری کے توانا پہلوؤں کا جائزہ لینے کے دوران ان کے تعارف پر توجہ دیتے ہیں۔مجیر آزاد کا نام اردو افسانے کی دنیا میں ایک اہم اور شناسا نام ہے۔ان کے افسانے اردو کے اہم رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ان کے سات افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔کئی کتابوں کی تدوین و تالیف بھی کی ہے۔’’دربھنگہ میں اردو افسانہ نگاری‘‘ کے عنوان سے ایک اہم تدوین قبول عام کا مرتبہ حاصل کرچکی ہے۔دوسو سے زائد کتابوں پر تبصراتی مضامین تحریر کرچکے ہیں۔منصور خوشتر نے مجیر آزاد کے افسانوی فن اور تکنیک پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

    دربھنگہ کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر احسان عالم طویل عرصے سے اردو زبان و ادب کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان کے اندر ادبی توانائی بدرجہ وافر موجود ہے۔ان کی تصنیفات و تالیفات کی تعداد دس کے ہندسے تک پہنچ چکی ہے اور اب بھی ان کا تحریری سفر شدومد سے جاری ہے۔منصور خوشتر نے ان کی تمام تصنیفات و تالیفات پر مفصل روشنی ڈالی ہے اور ایک طویل مقالہ تحریر کیا ہے۔احسان عالم کی ادبی سپردگی کا جائزہ لیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

    ’’ان کے اندر توانائی ہے۔کچھ کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔اپنی ضرورت ِ زندگی کو پورا کرتے ہوئے تصنیف و تالیف کا کام پابندی کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔اگر میری بات پر آپ کو یقین نہ ہو تو رات کو انہیں کتاب دے دیجئے اور صبح سویرے تبصرہ یا تاثراتی مضمون آپ کی خدمت میں حاضر ہوگا۔‘‘

    بلاشبہ کم لوگوں میں اتنی تن دہی اور شوق کے تئیں اس قدر پاسداری پائی جاتی ہے۔ایسی ہی پاسداری سے اردو ادب کی خاموش خدمات انجام دینے والے شاعر و ادیب اظہر نیر ہیں۔کسی بھی ناموری سے اوپر اٹھ کر گزشتہ چالیس پینتالیس سالوں سے وہ اردو ادب کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان کی شاعری اور ادبی مقالے ملک کے اہم رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ان کے دو شعری مجموعے ’’سائے ببول کے ‘‘ اور ’’ سائے سائے دھوپ‘‘ منظر عام پر آچکی ہیں۔منصور خوشتر نے ان کے کارناموں پر بالغ نظری سے نگاہ ڈالی ہے۔قیام نیر کا شمار بھی پرانے لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔وہ عرصہ دراز سے افسانے، ناول، انشائیہ،تنقیدی و تحقیقی مضامین تحریر کرتے رہے ہیں۔ کسی بھی ستائش یا صلے کی پرواہ کئے بغیر ان کا تخلیقی سفرجاری وساری ہے۔اب تک ان کی چودہ اہم اور وقیع تصنیفات شائع ہوچکی ہیں۔منصور خوشتر نے ان کے بھرپور تعارف کے ساتھ ان کے کارناموں پر روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر ایم صلاح الدین بھی اردو کے ایسے ہی بے لوث خادم ہیں۔نہایت خاموشی لیکن تواتر سے اردو کے مختلف پہلوؤں پر تحریریں قلمبند کرتے رہتے ہیں۔منصور خوشتر نے ایسی خاموش خدمات کو روز روشن کی طرح عیاں کرنے کی کوشش کی ہے۔

    ’’ادب کے ستارہ گر‘‘ ایک ضخیم اورقدروقیمت کی حامل کتاب ہے۔اس میں کثیر تعداد میں مختلف اور متنوع موضوعات پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔اس مختصر مقالے میں تمام موضوعات کو سمیٹنا ممکن نہیں۔مذکورہ بالا مضامین کے علاوہ منصور خوشتر نے کئی تاثراتی خاکے بھی پیش کئے ہیں۔ڈاکٹر عبد الوہاب،شمیم فاروقی ،اسرار جامعی ،اجمل فریداور شاکر خلیق کا تاثراتی خاکہ پیش کرتے ہوئے منصور خوشتر کا خلوص،محبت و عقیدت اور دردمندی عیاں ہوتی ہے ۔مولانا ابو اختر قاسمی کی دینی و ملی خدمات کا بھی احاطہ کیا ہے۔اویس احمد دوراں،مناظر عاشق ہرگانوی،غلام قدوس فہمی،شہناز فاطمی،ڈاکٹر مشتاق احمد،ظفر حبیب، مشتاق احمد نوری،قاسم خورشید،انوار الحسن وسطوی،آفتاب اشرف، مبین صدیقی وغیرہ متعدد ادیبوں اور شاعروں پر منصور خوشتر کی سنجیدہ تحریریں ان کی ادبی مہارت کی دلیل ہیں۔منصور خوشتر ادبی توانائی سے بھرپور ہیں اور اردو ادب کی خدمات پر کمربستہ۔مختلف النوع محاذ پر پوری ثابت قدمی سے کھڑے ہو کر اردو ادب کے سرمایے کواپنی سنجیدہ،متین اور مبسوط تحریروں سے وقیع کرتے رہتے ہیں۔ان کا ادبی سفر جاری ہے۔ آئندہ بھی بیش از پیش تحریروں کی توقع ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے