میرے کے بہتر نشتروں کا ذکر بہت سنا ہے مگر کتنے لوگ ان نشتروں کی نشاندہی کے معاملے میں ہم خیال ہیں؟ بہت کم؟ وجہ یہ کہ میر کے ہر قاری نے اپنے طورپر بہتر نشتروں کی ایک فہرست مرتب کر رکھی ہے۔ یہی ایک بڑے تخلیق کار کا امتیازی وصف ہے کہ اسے محض ایک یا چند ایک تخلیقات کے حوالے سے پہچانا نہیں جاتا۔ اس کے تخلیق کردہ مواد کا بڑا حصہ اس کے تخلیقی لمس کے باعث ایک اپنی الگ شان رکھتا ہے اوراس میں سے کسی بھی حصہ کو مسترد کرنے سے پہلے سوبار سوچنا پڑتا ہے۔ منٹو کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے ہاں دو طرح کے افسانے ملتے ہیں۔ ایک وہ جنہیں آپ اول درجے کی تخلیقات قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں اور اکثر لوگ اس سلسلے میں آپ کے ہم خیال ہوں۔ دوسرے وہ جنہیں آپ پہلی ہی قرأت میں مسترد کردیں اور لوگ اس معاملے میں بھی آپ سے متفق ہوں۔ نتیجہ دیکھ لیجئے کہ منٹو کے فن کے کسی بھی پہلو کا جائزہ لینے کے لئے ہمیں لامحالہ اس کے چند ہی افسانوں سے بار بار رجوع کرنا پڑتا ہے۔
منٹو کے بیشتر افسانوں کا موضوع ’’عورت‘‘ ہے۔ ’’بیشتر‘‘ اس لئے کہ اس کے ہاں ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ اور ’’نیاقانون‘‘ ایسے افسانے بھی ملتے ہیں جن کا موضوع مختلف اور تناظر زیادہ وسیع ہے مگران افسانوں میں بھی جن میں عورت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اول درجے کی تخلیقات صرف چند ایک ہیں لہٰذا منٹو کے افسانوں کی عورت کے خدوخال دریافت کرنے کے لئے ان چند افسانوں کا مطالعہ ہی کافی ہے تاہم چونکہ منٹو کے ہاں عورت کے مختلف نمونوں اور صورتوں کے پس پشت ایک خاص ’’عورت‘‘ بطور پروٹوٹائپ موجود ہے۔ لہٰذا فن کے حولے سے نہ سہی اس پروٹوٹائپ کے حوالے سے ان افسانوں کا مطالعہ بھی نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے۔ مثلاً افسانہ ’’بچنی‘‘ کی بچنی ’’بھنگن‘‘ کی بھنگن ’’سودا بیچنے والی‘‘ کی سلمیٰ ’’عشقیہ کہانی‘‘ کی عذرا، ’’بدصورتی‘‘ کی حامدہ وغیرہ نام صورت اور مزاج کے اعتبار سے متنوع اوصاف کی حامل عورتیں ہیں مگر ان سب میں عورت کا وہ پروٹوٹائپ (Proto Type) ایک قدرمشترک کے طورپر موجود ہے جو منٹو کو عزیز تھا۔ دیکھنا چاہئے کہ یہ پروٹوٹائپ کیا ہے؟
منٹو نے اپنے افسانے ’’کالی شلوار‘‘ میں ایک جگہ لکھا ہے،
’’بائیں ہاتھ کو کھلامیدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹریاں بچھی تھیں۔ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹریاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی رگیں بالکل اان پٹریوں کی طرح ابھری رہتی تھیں۔ کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو اکیلے پٹریوں پر چلتا دیکھتی تواسے اپنا خیال آتا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے زندگی کی پٹری پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور وہ خودبخود جاری ہے۔ دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جارہی ہے۔ جانے کہاں پھر ایک ایسا وقت آئے گا جب اس دھکے کا زورآہستہ آہستہ ختم ہوجائے گا اور وہ کہیں رک جائے گی۔‘‘
یہ اقتباس منٹو کے افسانوں کی عورت کے اصل خدوخال کوپیش کرتا ہے یعنی یہ کہ وہ بنیادی طورپر ایک گھریلو عورت ہے جو کسی ایک کا پلو تھام کر عمر بھر کے لئے رک جانا چاہتی ہے مگر زندگی نے اس سے دھوکا کیا ہے۔ انجن نے اس سے اپنا پلوباندھنے کے بجائے اسے دھکا دے کر اکیلا چھوڑ دیا ہے لوگ اپنی مرضی کے مطابق کانٹے بدل رہے ہیں مگر وہ خود بے دست وپا، رکنے کی خواہش کے باوجود رک نہیں پارہی ہے۔ تاہم اس کے ہاں یہ خواب ہمہ وقت موجود رہتا ہے کہ جب دھکے کازور ختم ہوگا تو وہ کہیں نہ کہیں ضرور رک جائے گی۔
ہر چند مندرجہ بالا تمثیل میں منٹو نے ’’کالی شلوار‘‘ کی سلطانہ کے محسوسات کوپیش کیا ہے اور بعدازاں اپنے ایک مضمون میں اس تمثیل کی بنیاد پر ویشاؤں کی زندگی کے عام پیٹرن کو بیان کرنے کی بھی کوشش کی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے اس تمثیل میں عورت کے بارے میں اپنے اس رویے کو آئینہ کردیا ہے جسے اس نے غیرارادی طورپر دبا رکھا تھا۔ بات یہ ہے کہ جس دور میں منٹو اور عصمت چغتائی نے جنس اور اس کے حوالے سے عورت کو موضوع بنایا وہ ہندوستان میں آزادی نسواں کی تحریک کا ابتدائی زمانہ تھا چونکہ عورت کو صدیوں سے چادراور چاردیواری میں محبوس رکھا گیا تھا اور وہ مرد کے تشدد کی زد میں بھی رہی تھی۔ اس لئے اب نئی تعلیم اور ووٹ دینے کے حق کے زیراثر اس کے ہاں مرد کے شانہ بہ شانہ کام کرنے یا کم سے کم مرد کے تشدد کا مقابلہ کرنے کی آرزو سر اٹھانے لگی تھی۔ عورت کے اس رویے کوعصمت چغتائی نے ’’بغاوت‘‘ کا نام دیا اور اپنے زیادہ تر افسانوں میں ایک ایسی باغی عورت کو پیش کرنے کی کوشش کی جو مرد کی عائد کردہ اخلاقیات کا (جو اصلاً Phallogocentrism کا نظام اخلاق تھا) منہ چرانے پر پوری طرح مستعد تھی اور چونکہ مرد کی اخلاقیات کا زیادہ زور عورت کی ’’پاکیزگی‘‘ پر رہا ہے۔ اس لئے عصمت نے اس خاص میدان میں عورت کی بغاوت کو ابھار کر آزادی نسواں کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ چنانچہ عصمت کے ہاں جو عورت دکھائی دیتی ہے وہ بنیادی طورپر عورت کے ’’کالی روپ‘‘ کی علمبردار ہونے کے باعث اخلاقی بندشوں اور زنجیروں کو توڑنے پر مائل ہے۔ منٹو بھی شعوری سطح پر ایک ایسی ہی عورت کا گرویدہ ہے جو جاندار ہو (خاص طورپر جنسی اعتبار ہے) جو مرد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکے اور جو مرد کی تابع مہمل بننے پر آمادہ نہ ہو۔ اپنے مضمون ’’لذت سنگ‘‘ میں منٹو نے اپنے اس موقف کو کھل کر یوں بیان کیا ہے،
’’میرے پڑوس میں اگرکوئی عورت ہر روز خاوند سے مار کھاتی ہے اورپھر اس کے جوتے صاف کرتی ہے تومیرے دل میں اس کے لئے ذرہ برابر ہمدردی پیدا نہیں ہوتی لیکن جب میرے پڑوس میں کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑکر اور خودکشی کی دھمکی دے کر سنیما دیکھنے چلی جاتی ہے اور میں خاوند کو دوگھنٹے پریشانی کی حالت میں دیکھتا ہوں تو مجھے دونوں سے ایک عجیب وغریب قسم کی ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے۔‘‘
’’چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سوجاتی ہے۔ میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہوسکتی۔‘‘
’’چکلے کی رنڈی کی غلاظت، اس کی بیماریاں اس کا چڑچڑاپن، اس کی گالیاں مجھے بھاتی ہیں۔ میں ان کے متعلق لکھتا ہوں اور گھریلو عورتوں کی شستہ کلامیوں، ان کی صحت اور ان کی نفاست کو نظر انداز کرجاتا ہوں۔‘‘
دوسرے لفظوں میں عصمت کی طرح منٹو بھی عورت کے باغی روپ میں دلچسپ رکھتا ہے اوراسی کواپنے افسانوں میں ابھارنے کا متمنی ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ خود منٹو کے قابل ذکر افسانوں میں جس عورت کا سراپا نمایاں ہوا ہے وہ صرف بالائی سطح پر ہی باغی روپ کا مظاہرہ کرتی ہے ورنہ اصلاً وہ اس بے دست وپا عورت ہی کا روپ ہے جسے انجن نے دھکادے کر پٹری پر اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ مگرمرد کے تشدد کے خلاف بغاوت کرنے کے بجائے وہ ہمہ وقت اس انجن کا خواب دیکھتی ہے جو کسی روز آئے گا اوراسے اپنے پلو سے باندھ کر لے جائے گا اور وہ ایک وفادار بیوی کی طرح اس کے ہر اشارے پر سرتسلیم کرتی رہے گی۔ کیا یہ ہندوستانی عورت کا وہی پتی پوجا والا روپ نہیں ہے جو اس برصغیر کی ثقافت میں ہزارہا سال سے پروان چڑھتا رہا ہے اورجس کے باعث عورت کو اپنے پتی کے تشدد کا بار بار نشانہ بننا پڑا ہے؟ سوچنے کی بات ہے کہ منٹو کے افسانوں میں عورت کا جو ساختیہ ابھرا ہے وہ عصمت کی نسوانی کرداروں کے ساختیہ سے بالکل مختلف ہے۔ عصمت کے بیشتر نسوانی کردار اندر اورباہر سے باغی کردار ہیں جو ’’مرد سماج‘‘ میں ایک ’’متوازی ریاست‘‘ بنانے کی کوشش میں ہیں جبکہ منٹو کے نسوانی کردار صدیوں پرانی ہندوستانی عورت کے ساختیہ کے مطابق ڈھل جانے کے آرزومند ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ منٹو کے نسوانی کردار خود منٹو کی منشا اور مرضی کے مطابق نہیں ہیں بلکہ منٹو کی شعوری کوشش کے باوجود اپنے اصل کی طرف مڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ مرد کی عائد کردہ اخلاقیات سے بغاوت کرنے کے بجائے خود مصنف سے بغاوت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
منٹو کے افسانوں پر بطور مطالعہ کریں تو یہ بات بخوبی ثابت ہوجاتی ہے۔ ان افسانوں کی بالائی سطح یا ساخت تو وہ ہے جسے منٹو نے شعوری طورپر اپنے پیش نظر رکھا ہے اورجس کے مطابق وہ اپنے نسوانی کرداروں کو ایک خاص انداز میں کارفرما دکھاتا ہے۔ وہ دکھانا یہ چاہتا ہے کہ مرد کی دنیا نے جو تمام ذرائع پر قابض ہے عورت کو بھی ایک جنس یعنی Commodityکی صورت دے رکھی ہے اوراس لئے عورتوں کو وہ ’منڈی‘ وجود میں آئی ہے جہاں عورت خریدی اور بیچی جاسکتی ہے، پھر جس طرح منڈی میں ہر شے ایک ہاتھ سے دوسرے اورپھر تیسرے میں پہنچتی ہے اوراس کا سفر جاری رہتا ہے بالکل اسی طرح عورت بھی دھکے کھاتی چلی گئی ہے۔ منٹو اس صورت حال میں عورت کی صدائے بے آواز بن کر مرد کی اخلاقیات کے خلاف احتجاج کرتا نظرآتا ہے۔ نیز وہ ایسی عورت کو پیش کرنے کا آرزومند ہے جو برصغیر کی عورت کے دائمی اوصاف یعنی پاکیزگی، مامتا، پتی پوجا اور وفاداری سے انحراف کرکے اورمرد کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے وجود کا اعلان کرے۔ مثلاً یہی ایک بات لیجئے کہ اس پربرصغیر میں مرد ہمیشہ سے عورت کا کفیل رہا ہے۔ یا کم از کم وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ضرور رہا ہے کہ اسی کی کمائی سے گھر کا وجود قائم ہے مرد کو اپنی اس خوش فہمی میں Phalloggocentric جذبات کی تسکین کا موقعہ ملتا ہے اور عورت، مردانہ اخلاقیات کے تابع ہوکر، مرد کے اس اعلان کو برحق سمجھتی ہے۔ منٹو جب عورت کو خود کماتے یا خود کمانے کی آرزو کرتے دکھاتا ہے تو یوں گویا عورت کی معاشی آزادی کا اعلان کرتا ہے۔ چنانچہ منٹو کے افسانوں کی بیشتر عورتیں اپنی کمائی پر زندہ رہنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ نیز مرد کے عائد کردہ نظام اخلاق سے جو عورت سے وفاداری، پاکیزگی اور پتی پوجا کا طالب ہے منحرف ہوکر ایک ایسی آزاد مملکت کو وجود میں لانے کی کوشش کرتی ہیں جس میں ان کا اپنا سکہ چل سکے۔ ایسا سکہ جو پدری نظام حیات کے سکے کی ضد ہو۔ سائمن دی بوئر نے کہا تھا کہ جنس ایک فطری عمل Natural Act ہے جبکہ Gender کی بنا پر ’’مرد عورت‘‘ کی تفریق ایک ثقافتی ترتیب (Cultural Construct) ہے۔ بالائی سطح پر منٹو کے افسانے عورت کو جنس کی فطری سطح پر فائز کرکے اسے ثقافتی تفریق سے نجات دلانے کے متمنی ہیں جس نے مرد کو ایک جابراور مطلق العنان ہستی کے روپ میں جبکہ عورت کو ایک مظلوم اور مفتوح پیکر کی صورت میں پیش کیا ہے۔ منٹو جب اپنے افسانوں میں عورت پر ہونے والے مظالم کومنظرعام پر لاتا ہےتو بھی مرد کی دنیا کی تکذیب کرتا ہے تاہم جب وہ عورت کوثقافتی قیدوبند سے باہر نکل کر جنس کی فطری سطح پر ایک متوازی قوت کے طورپر متمکن کرتا ہےتو گویا مرد اور عورت کی ثقافتی تقسیم کو مسترد کردیتا ہے اور یوں ضمناً عورت کی بغاوت کو جائز قرار دے ڈالتا ہے۔
مگر یہ تومنٹو کے افسانوں کی بالائی یا ظاہری ساخت ہوئی جونہ صرف قاری کو پہلی ہی قرأت میں نظرآجاتی ہے بلکہ جوخودمنٹو کے بھی پیش نظر تھی مگران افسانوں کی ایک مخفی اورگہری ساخت بھی ہے جو نظر آنے والی ساخت کی نفی کرتی چلی گئی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جیسے جیسے افسانہ آگے بڑھا ہے اس کا متن اپنے آپ کو Deconstruct بھی کرتا چلا گیا ہے۔ اس کی ایک مثال منٹو کا افسانہ ’’جانکی‘‘ ہے جس کی مرکزی شخصیت جانکی عام گھریلو زندگی بسر کرنے کے بجائے فلمی لائن اختیار کرکے خودکمانا چاہتی ہے۔ پشاور میں اس کا تعلق عزیز سے تھا۔ بمبئی پہنچی توسعید سے ہوگیا۔ آخر میں وہ نرائن سے وابستہ ہوگئی۔ وہی گاڑی والا قصہ جسے انجن دکھادے کر چھوڑ دیتا ہے دوسری طرف خود جانکی کوازدواجی زندگی کی اخلاقیات سے کوئی غرض نہیں۔ وہ بلاجھجک ہر اس شخص سے جنسی رشتے میں بندھ جاتی ہے جو اس کی زندگی میں داخل ہوتا ہے اورر اس ضمن میں اسے ضمیر کا کوئی چرکا بھی سہنا نہیں پڑتا۔ افسانہ میں جانکی کوایک ایسی عورت کے روپ میں پیش کیا گیا ہے جو مرد کی دنیا میں داخل ہوکر مردانہ صفات کو اپنانا چاہتی ہے۔ یعنی اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی خواہش، جنسی آزادی کا حصول، سگریٹ نوشی اور پھر مردوں کی طرح زور سے دھواں باہر نکالنے کا انداز وغیرہ لیکن متن میں ایک مختلف صورت حال ابھر کر جانکی کے اس نقاب کو پرزے پرزے کردیتی ہے جو افسانہ نگار اور اس کی پیش کردہ کہانی نے اسے پہنا رکھا ہے مثلاً عزیز سے اس کے تعلقات کی نوعیت کچھ یوں ہے،
’’شروع شروع میں میرا خیال تھا کہ جانکی عزیز کے متعلق جو اتنا فکرمند رہتی ہے محض بکواس ہے بناوٹ ہے لیکن آہستہ آہستہ میں نے اس کی بے تکلف باتوں سے محسوس کیا کہ اسے حقیقتاً عزیز کا خیال ہے۔ اس کا جب بھی خط آیا جانکی پڑھ کر ضرور روئی۔‘‘
عزیز کے بعد جب سعید سے اس کے تعلقات استوار وہتے ہیں تووہ سعید سے بھی اسی پر خلوص اوروالہانہ انداز میں پیش آتی ہے جس سے عزیز کے ساتھ پیش آئی تھی۔ اس تعلق کی نوعیت ایک آزاد منش، باغی یا بدمعاش عورت ایسی نہیں بلکہ ایک وفادار بیوی کی سی ہے۔ چنانچہ وہ جس طرح عزیز کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال رکھتی تھی اسی طرح سعید کے سلسلے میں بھی کرنے لگتی ہے۔ بقول نرائن صبح اٹھ کر اس خرذات کو جگانے میں آدھ گھنٹہ صرف کرتی ہے۔ اس کے دانت صاف کراتی ہے کپڑے پہناتی ہے۔ ناشتہ کراتی ہے وغیرہ اور جب اسٹوڈیو میں ملتی ہے تو تو صرف سعید کی باتیں کرتی ہے۔ سعید صاحب بڑے اچھے آدمی ہیں۔ سعید صاحب بہت اچھا گاتے ہیں، سعید صاحب کا وزن بڑھ گیا ہے۔ سعید صاحب کا پل اوور تیار ہوگیا ہے۔ سعید صاحب کے لئے پشاور سے پوٹھوہار سینڈل منگائی ہے۔ اس کے بعدجب عزیز پشاور سے آتا ہے توسعید سے اپنے تعلقات کے باوصف وہ عزیز سے اسی محبت اور وفاداری کا مظاہرہ کرتی ہے جو وہ پشاور میں کرتی تھی۔ بقول افسانہ نگار صبح اٹھا توکمرے میں دھواں جمع تھا باورچی خٓنے میں جاکر دیکھا تو جانکی کاغذ جلاجلاکر عزیز کے غسل کے لئے پانی گرم کر رہی تھی۔ آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا مجھے دیکھ کر مسکرائی اور انگیٹھی میں پھونکیں مارتے ہوئے کہنے لگی ’’عزیز صاحب ٹھنڈے پانی سے نہائیں تو انہیں زکام ہوجاتا ہے۔ میں نہیں تھی پشاور میں تو ایک مہینہ بیمار رہے اور رہتے بھی کیوں نہیں جب دواپینی ہی چھوڑ دی تھی۔ آپ نے دیکھا نہیں کتنے دبلے ہوگئے ہیں۔‘‘
اس کے بعد جب اسے سعید کا تار ملتا ہے کہ وہ اس منتظر ہے تو وہ عزیز کے احتجاج اورناراضگی کے باوجود بمبئی روانہ ہوجاتی ہے۔ واپسی پر عزیز اس سے سچ مچ ناراض ہوجاتا ہے کیونکہ مرد عورت پر بلاشرکت غیرے قابض رہنا چاہتا ہے۔ سو وہ چلا جاتا ہے جانکی جب وہ دوبارہ ممبئی پہنچتی ہے تو سعید اس کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے اور اسے گھر سے نکال دیتا ہے وہ خاموشی سے چلی جاتی ہے اس کے بعد نرائن اس کی زندگی میں داخل ہوتا ہے اس کا علاج کرتا ہے اوراس کی زندگی بچاتا ہے۔ آخر میں وہ نرائن سے بھی اسی طرح وابستہ ہوجاتی ہے جیسے سعید اور عزیز سے ہوئی تھی۔
بالائی سطح پر یہ افسانہ منٹو کے نظریے اور موقف کے عین مطابق ہے۔ یعنی اس میں عورت محض ایک مرد سے عمر بھر کے لئے وابستہ ہونے کے نظام اخلاق سے انحراف کرتی ہے۔ اگرمرد ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرسکتا ہے تو عورت کیوں نہیں کرسکتی؟ علاوہ ازیں وہ مرد کی طرح خودکفیل بھی ہونا چاہتی ہے۔ اس کا یک خاص انداز میں سگریٹ پینا بھی مرد کے تتبع میں ہے۔ خود منٹو کو بھی ایسی ہی عورت سے ہمدردی ہے جو مرد کے تابع مہمل نہ ہو اور مظلومیت کی تصویر نظرنہ آئے۔ مگر دیکھنے کی بات ہے کہ خود اس افسانے نے منٹو کے موقف اور نظریے سے آزادہوکر کس طرح اپنے ہی متن کو Deconstruct کردیا ہے۔ چنانچہ جانکی ایک متوازی قوت کے بجائے اس برصغیر کی اس عورت کا روپ اختیار کرتی ہے جو بیک وقت ایک ماں، داسی اور وفاداری بیوی کا روپ ہے۔ عزیز، سعید اور نرائن تینوں سے اس کے تعلقات میں خلوص، وفاداری بلکہ مامتا تک کا اظہار ہوا ہے۔ تینوں نے اپنے اپنے انداز میں اسے حسد، تشدد اور توہین کا ہدف بنایا ہے۔ مگر وہ تینوں سے ایک ہی سی وفا، محبت اور خلوص کے ساتھ وابستہ رہی ہے۔ بحیثیت مجموعی جانکی اس گاڑی کی طرح نظرآتی ہے جو ہر اس انجن کے پلو سے بندھ جانا چاہتی ہے جو اس کی زندگی میں داخل ہوتا ہے لیکن انجن کا کام تودھکا دے کر گاڑی کو اکیلا چھوڑ دینا ہے۔ لہٰذا جانکی دست بدست منتقل ہوتی چلی گئی ہے۔ یوں منٹو نے عورت کی بغاوت کوپیش کرنے کے بجائے اس کی مامتا، وفا اور مظلومیت کو پیش کردیا ہے اورایسا اپنی مرضی کے خلاف کیا ہے۔ کیونکہ بقول منٹو اسے ایسی گھریلو، منفعل، سدا پسنے والی پتی پوجا کی علم بردار عورتوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور وہ ان کی کہانی لکھنے کو ناپسند کرتا ہے۔
جانکی کا دوسرا روپ زینت ہے جو منٹو کے افسانہ ’’بابوگوپی ناتھ‘‘ میں ابھری ہے۔ ویسے دونوں افسانوں میں مرکزی ’’مرد کردار‘‘ کے معاملے میں بھی کسی حد تک مماثلت موجودہے۔ ’’جانکی‘‘ کا عزیز جس طرح جانکی کو فلم اسٹار بنانے کے لئے پونا بھیجتا ہے اسی طرح بابو گوپی ناتھ زینت کو کسی کے پلو سے باندھنے کے لئے بمبئی لے آتا ہے۔ گویا دونوں اپنی اپنی معشوقہ کے مستقبل کو سنوارنے کا جتن کرتے ہیں مگر دونوں اسے اپنانے سے گریزاں بھی ہیں۔ اس اعتبار سے دونوں کی حیثیت اس انجن کی سی ہے جس نے گاڑی کو دھکا دے دیا ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ عزیز کا جانکی سے لگاؤ سطحی ہے جبکہ گوپی ناتھ زینت کو دل و جان سے چاہتا ہے مگرکہانی کا نتیجہ ایک سا ہے کہ جانکی نرائن کے اور زینت غلام حسین کے پلو سے بندھ جاتی ہے۔ تاہم عزیز کے خودغرضانہ رویے کی بنا پر منٹو نے عزیز کے بجائے جانکی کو افسانہ کا مرکزی کردار بناکر پیش کیا ہے جب کہ افسانہ ’’بابو گوپی ناتھ‘‘ میں زینت کے بجائے گوپی ناتھ کواس کی بے غرضی کی بنا پر ہیروبناکر پیش کیا ہے مگرذرا غور کریں تو بابو گوپی ناتھ کی ساری قربانی مصنوعی نظرآتی ہے کیونکہ اگراسے زینت کا پلو کسی شخص سے باندھنا ہی تھا تواس کارخیر کے لئے اس نے خودکوکیوں پیش نہ کردیا جبکہ زینت کو کوئی اعتراض بھی نہ ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح افسانہ ’’جانکی‘‘ میں جانکی مرکزی کردار ہے اسی طرح افسانہ ’’بابو گوپی ناتھ‘‘ میں زینت مرکزی کردار ہے نہ کہ بابوگوپی ناتھ! یہ عورت یعنی زینت بظاہر منٹو کے اس موقف کو سامنے لاتی ہے کہ اسے مرد کی عائد کردہ جنسی اخلاقیات سے کوئی علاقہ نہیں۔ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی مرد کو اپنا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں وہ کسی کی محتاج بھی نہیں۔ جب چاہے اپنے قدموں پر خود کھڑا ہوسکتی ہے۔ وغیرہ۔ مگر بباطن وہ اس برصغیر کی ایک ’’گائے‘‘ ہے جسے جدھر چاہیں ہانک دیں یا منٹو کی تمثیل کے مطابق وہ گاڑی کا ڈبہ ہے جو انجن کے دھکے کھاتا بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ انفعالی رویہ زینت کے کردار کا امتیازی وصف ہے چنانچہ وہ بغیر کسی احتجاج کے ہراس مرد کو قبول کرلیتی ہے جس کی طرف اسے اچھال دیا جاتا ہے۔ اس توقع کے ساتھ کہ کوئی تواسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا لے گا۔ یہی آرزو بابوگوپی ناتھ کی بھی ہے جس سے بعض اوقات یہ خیال بھی آتا ہے کہ کہیں بابوگوپی ناتھ زینت کی ’’ازدواجی زندگی کی آرزو‘‘ کا ایک علامتی روپ تو نہیں ہے؟ بہرحال دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جانکی کی طرح زینت بھی ایک عاشق کی نہیں بلکہ ایک شوہر کی تلاش میں ہے جس کے پلو سے وہ خود کو باندھ سکے۔ جانکی کے بارے میں تووثوق کے ساتھ یہ کہنا ممکن نہیں کہ کیا نرائن نے اسے واقعتاً اپنا لیا تھا (گونرائن کے کھراپن سے اس بات کی توقع بندھتی ہے) مگر زینت کے سلسلے میں یہ بات طے ہے کہ اسے غلام حسین نے بیوی بناکر اس کے ’’شوہر کی تلاش‘‘ کے جذبے کوپایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے۔ یوں دیکھئے تو منٹو کا موقف کہ اسے صرف ایسی عورتوں سے ہمدردی ہے جو مرد کی اخلاقیات، اس کی فرمانروائی اور تشدد کے خلاف بغاوت کریں یا کم از کم صدائے احتجاج بلند کریں، زینت کی پیشکش کے معاملے میں کمزور پڑجاتا ہے۔ اپنے موقف کے احترام میں منٹو پر لازم تھا کہ وہ زینت کو ایک باغی، آزاد منش، اپنی مرضی سے اپنا مستقبل تراشنے والی ایک عورت کے روپ میں پیش کرتا مگر جب اس نے زینت کو پیش کیا تو اسے اس کے اندر سے وہی ہزاروں برس پرانا پتی پوجا والی عورت کا روپ ابھر آیا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ اگر منٹو کے نسوانی کردار اندر سے منفعل، تابع فرمان اورنارمل ازدواجی زندگی بسر کرنے کی آرزو میں سرشار ہیں توپھر کیا ’’ٹھنڈاگوشت‘‘ کی کلونت کور کی جنسی فعالیت کا بھرپور مظاہرہ مستثنیات کے تحت شمار نہ ہوگا؟ جی ہاں! سطح پر ایسا ہی نظر آتا ہے۔ کلونت کور کے ہاں ضبط و امتناع کا فقدان، بے باکی، مرد کو جنسی طورپر مشتعل کرنے کا انداز اور گفتگو کا پیشہ ورانہ سستا لہجہ۔ یہ سب طوائف کے مخصوص کردار کو یا کم از کم برصغیر کی مثالی عورت کی سطح سے ہٹے ہوئے کردار ہی کو پیش کرتے ہیں۔ مگرایک توکلونت کور کا ایشرسنگھ پر بلاشرکت غیرے قابض رہنے کا انداز پتی پوجا ہی کے تحت شمار ہوگا اور کلونت کور کا اس سلسلے میں ایشرسنگھ پر قاتلانہ حملہ اس کے حق ملکیت کا شدید مظاہرہ قرار پائے گا (جبکہ بحیثیت طوائف اس کے لئے ایشرسنگھ کی بے وفائی معمول کی بات ہوتی) اور دوسرے اس افسانہ میں کلونت کور مرکزی شخصیت نہیں۔ اس افسانے کی مرکزی شخصیت وہ بے نام، بے چہرہ، ’’سندرلڑکی‘‘ ہے جو اس برصغیر کی مظلوم عورت کی علامت ہے۔ اس سندر لڑکی کومرد کے بہیمانہ سلوک نے ’’ٹھنڈاگوشت‘‘ بنا دیا تھا مگر ٹھنڈے گوشت میں تبدیل ہوکر خوداس لڑکی نے اپنے اوپرتشدد کرنے والے کو نفسیاتی سطح پر ٹھنڈے گوشت کا ایک لوتھڑا بھی تو بنا دیا ہے۔ افسانے میں کلونت کور کا ایشرسنگھ کو مار کر ٹھنڈے گوشت میں تبدیل کرنا اتنا اہم نہیں ہے جتنا سندرلڑکی کا اسے نفسیاتی طورپر ٹھنڈے گوشت میں تبدیل کرنا۔ چنانچہ افسانے کا مجموعی تاثر کلونت کور کے جنسی اشتعال یا مردانہ تشدد سے نہیں بلکہ سندر لڑکی کی مظلومیت سے عبارت ہے۔ مختصر یہ کہ اس افسانے میں بھی اس کی عام روش سے ہٹاہوا افسانہ ہے۔ منٹو نے عورت کی مظلومیت ہی کو موضوع بنایا ہے۔
کلونت کور کی طرح ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘ کی شاہینہ (جس نے اپنا نام ہلاکت بتایا ہے) ایک فعال اور کرگزرنے والی عورت کے روپ میں سامنے آتی ہے۔ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ میں کلونت کور نے ایشرسنگھ کو مار دیا تھا جبکہ ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘ میں شاہینہ نے نواب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے۔ کلونت کی طرح وہ بھی یہ کام اپنے مرد پر بلاشرکت غیرے قابض رہنے کے لئے کرتی ہے۔ مگراس افسانے کی اصل شخصیت نواب ہے جو ہیبت خان پر اپنا سارا وجود نثار کرنے کی آرزو میں سرشار ہے یعنی ہرچند کہ وہ طوائف کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے تاہم جانکی اور زینت کی طرح اس کے اندر کی پتی پوجا والی عورت سدا زندہ رہتی ہے۔
غور کرنے کی بات ہے کہ منٹو کے بعض افسانوں میں جو مشتعل، فعال اور متشدد عورت ابھری ہے وہ دراصل مرد کے کردار ہی کی توسیع ہے اورمرد ہی کی طرح ایذارسانی کے جذبے سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ ٹھنڈا گوشت میں وہ ایشرسنگھ کا خون بہاتی ہے جب کہ ’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘ میں نواب کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہانڈی میں پکانا چاہتی ہے۔ دوسری طرف خود ایشرسنگھ نے بھی سندر لڑکی کوتشدد کا نشانہ بناکر ختم کیا ہے۔ اسی طرح ’’کھول دو‘‘ میں بھی ایک خون میں لت پت لڑکی کو پیش کیا گیا ہے جو مردوں کے جنسی تشدد کا نشانہ بنی ہے۔ کچھ یہی حال منٹو کے افسانے ’’قیمے کے بجائے بوٹیاں‘‘ کا ہے جس میں عورت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اسے دیگچوں میں پکانے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ پھر ’’پڑھیے کلمہ‘‘ کی رکما بائی ہے جو گردھاری کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی مرتکب ہوتی ہے۔ بعض دوسرے افسانوں مثلاً ’’دھواں‘‘ میں جب مسعود اپنی بہن کلثوم کے کولہوں کو دباتا ہے اسے تازہ ذبح شدہ بکرے کا خیال آتا ہے اورموزیل میں ترلوچن کو موزیل کے ہونٹوں پر لپ اسٹک باسی گوشت کی طرح نظر آتی ہے اور جب وہ مسکراتی ہے تواسے محسوس ہوتا ہے جیسے جھٹکے کی دکان پر قصائی نے چھری سے موٹی رگ کے گوشت کو دوٹکڑے کردیے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے منٹو طبعی موت کے بجائے خاک وخون کی ہولی کا منظر پیش کرنے کا متمنی ہے کیوں؟ کیا یہ فلمی دنیا کا اثرہے یا اس میں کوئی نفسیاتی پیچ ہے جو خود افسانہ نگار کے ہاں ایذارسانی کے جذبے کا مظہر ہے؟ کوئی چاہے تواس زاویے سے بھی منٹو کے افسانوں کا جائزہ لے سکتا ہے۔
اوپر ’’موزیل‘‘ کا ذکر ہوا ہے۔ منٹو کا یہ افسانہ بھی ایک ایسی عورت کو پیش کرتا ہے جو بالائی سطح پر ایک لاابالی، جنسی طورپر آزاد عورت نیز مرد کے مقابلے میں ایک متوازی قوت کی حیثیت میں ابھرتی ہے مگر جس کے وجود میں ’’ٹوٹ کر محبت کرنے والی‘‘ ایک ایسی عورت چھپی بیٹھی ہے جو اپنے محبوب کے لئے بڑی سے بڑی قربانی بھی دے سکتی ہے۔ افسانہ ’’موزیل‘‘ میں اس نے اپنے محبوب کی ہونے والی بیوی کرپال کور کو بچانے کے لئے ایسا ہی کیا ہے ویسے دلچسپ بات یہ کہ موضوع کے اعتبار سے منٹو کا یہ افسانہ چارلس ڈکسن کے ناول ’’اے ٹیل آف ٹوسٹیز‘‘ کی یاددلاتا ہے۔ وہاں ایک شخص نے اپنے دوست کی بیوی کی خاطر (جس سے اسے بے پناہ محبت تھی) اپنی جان دے دی تھی جبکہ افسانہ ’’موزیل‘‘ میں ایک محبت کرنے والی عورت اپنے محبوب کی ہونے والی بیوی کو بچانے کے لئے ایسا ہی کرتی ہے۔ چارلس ڈکنس کے ناول میں سڈنی کارٹن نے اپنے دوست کو بے ہوش کرکے اسے اپنے کپڑے پہنادیے تھے تاکہ جیل والے اسے سڈنی کارٹن سمجھیں اور ’’موزیل‘‘ میں موزیل کرپال کور کو اپنا لباس پہنا دیتی ہے تاکہ وہ مشتعل انبوہ سے محفوظ رہ سکے۔ دونوں نے اپنے اپنے محبوب کے لئے جان کی قربانی دی ہے۔ مگر یہ تو ایک الگ موضوع ہے۔ موزیل کے حوالے سے مجھے محض یہ کہنا ہے کہ منٹو نے یہاں بھی ایک آزاد منش نسوانی کردار کے اندر وہی پتی پوجا والی عورت دکھائی ہے جو اپنے مرد کی خاطر ’’سوکن‘‘ تک کے وجودکو برداشت کرلیتی ہے۔
اسی سلسلے کا ایک نہایت اہم افسانہ ’’ہتک‘‘ ہے جسے میں منٹو کا بہترین افسانہ سمجھتا ہوں۔ منٹو کے اس افسانے کا مرکزی کردار سوگندھی ہے جو زینت اور جانکی سے کہیں زیادہ ایک ایسی فضا میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے جہاں عورت کی خرید وفروخت کا بازار گرم ہے۔ وہ صحیح معنوں میں بیسوا ہے اور اس اعتبار سے وہ بے نام اور بے چہرہ ہونے کے علاوہ خودداری اور عزت نفس سے بھی لاتعلق ہے (نام اور چہرہ تو محض نقاب ہیں جو اس نے پہن رکھے ہیں) ایسا ہونا بھی چاہئے تھا کیونکہ نام، چہرہ، عورت اوررشتے۔ یہ سب تو سماج کی دین ہیں مگر جب سماج کسی کو ٹھوکر مار کر نیچے بدرو میں گرا دے تو اس کا سماجی تشخص کہاں باقی رہ سکتا ہے؟ اس سب کے باوجود سوگندھی کے اندر کی عورت مری نہیں ہے۔ اس نے باہر کی زندگی میں بھی اپنے لئے مصنوعی رشتوں کی ایک دنیا قائم کرنے کی کوشش کی ہے جس کا سب سے نمایاں مظہر مادھو سے اس کا تعلق ہے۔ اس تعلق میں خودداری کی آخری رمق کو برقرار رکھنے کی کوشش صاف نظرآتی ہے کیونکہ کم از کم مادھونامی ایک شخص ایسا ضرور ہے جسے وہ محبت کے علاوہ کچھ رقم بھی دے سکتی ہے۔ باقی دنیا کے معاملے میں تو وہ محض ایک ’’دست طلب‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے مگر جب اس کی ہتک کی جاتی ہے اور ہتک بھی ایسی جس سے اس کے پورے وجود کی نفی ہوجاتی ہے تواس کے اندر سے عورت اپنی پوری قوت کے ساتھ ابھرکر منظرعام پر آجاتی ہے۔ یہ عورت اصلاً ایک گھائل عورت ہے جس کا عزیز ترین سرمایہ اس کا وہ ’’عورت پن‘‘ ہے جسے بے دردی کے ساتھ پاؤں تلے روندا گیا ہے۔ چنانچہ پہلے تواس کے اندر خودترحمی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ تارے سندر ہیں تو کتنی بھونڈی ہے کیا بھو ل گئی کہ ابھی ابھی تیری صورت کی پھٹکارا گیا ہے۔‘‘ اس کے بعدسوگندھی کے اندر سے غصے اور انتقام کا لاوا پھوٹ بہتا ہے اور وہ صحیح معنوں میں ’’کالی‘‘ کا روپ دھار لیتی ہے۔ اب وہ ہر شے کو توڑپھوڑ دینا چاہتی ہے حتیٰ کہ ان مصنوعی رشتوں کو بھی جواس نے باہر کی دنیا سے قائم کر رکھے ہیں۔ اس کا دیوار سے اپنے آشناؤں کی تصویریں اتار اتار کر نیچے گلی میں پھینکنا کچھ اس وضع کی ہے جیسے کوئی عورت اسٹیج پر کھڑی ہوکر باری باری اپنے سب کپڑے اتار کر ننگی ہورہی ہو۔ آخر میں جب وہ مادھو کی تصویر بھی اتار کر پھینک دیتی ہے تو گویا بالکل ’’ننگی‘‘ ہوجاتی ہے۔ یہ ننگا ہونا عورت کی جملہ حیثیتوں کی نفی کردینے کے مترادف ہے۔ تب وہ مادھو کو بے عزت کرکے اپنی کوٹھری سے نکال دیتی ہے (یوں اپنی بے عزتی کا انتقام بھی لیتی ہے) اس عمل میں اس کا خارش زدہ کتا بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کتا خود سوگندھی کی زبان ہے جو پہلی بار متحرک ہوئی ہے اوربھونک بھونک کر اپنے وجود کا احساس دلا رہی ہے۔ تاہم جب مادھو چلا جاتا ہے توسوگندھی اندر سے پوری طرح خالی ہوجاتی ہے۔ منٹو کے الفاظ ہیں،
’’اس نے اپنے چاروں طرف ایک ہولناک سناٹا دیکھا۔ ایسا سناٹا جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا اسے ایسے لگا کہ ہر شے خالی ہے۔ جیسے مسافروں سے لدی ہوئی گاڑی سب اسٹیشنوں پر مسافراتار کر اب لوہے کے شیڈ میں بالکل اکیلی کھڑی ہے۔‘‘
بظاہر یہ ایک بھیانک خلا ہے جو سوگندھی کی زندگی میں نمودار ہوگیا ہے۔ مگر بباطن یہ عدم موجودگی یا Absence اس شدید طلب کو برہنہ کر رہی ہے جو تمام عرصہ سوگندھی کے اندر، عورت کی حیثیت میں زندہ رہنے کے لئے موجود رہی ہے مگرسوگندھی نے توخود ہی تمام رشتے ناتے توڑ ڈالے ہیں۔ اب وہ کیا کرے؟ اس بحرانی صورت حال میں اس کے اندر سے عورت کا آخری اور سب سے حسین چہرہ برآمد ہوتا ہے یعنی ’’مامتا‘‘ اور وہ اسے اپنے قریب ترین ذی روح پر خرچ کردیتی ہے۔ قریب ترین ذی روح اس کا خارش زدہ کتا ہے جسے وہ گود میں اٹھالیتی ہے اور پھر چوڑے پلنگ پر اسے پہلو میں یوں لٹا لیتی ہے جیسے وہ اس کا اپنا بچہ ہو۔ یوں وہ اپنے عورت ہونے کا اثبات کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔
منٹو کے دیگر بہت سے افسانوں میں بھی نسوانی کردار کے اندر سے عورت نمودار ہوئی ہے جو کبھی تو مجسم مامتا ہے کبھی پجارن اورکبھی ستی ساوتری مثلاً اس کے افسانے ’’ٹکی‘‘ کی مرکزی شخصیت ’’زبان چلانے‘‘ کا معاوضہ وصول کرنے کا کاروبار کرتی ہے (جو ایک طرح سے جسم بیچنے والی بات ہوئی) تاہم اندر سے ’’ٹکی‘‘ مجسم مامتا ہے جو اپنی بیٹی کے مستقبل کے لئے یہ دھندا کرتی ہے وہ خود ایک مظلوم عورت ہے جس پر اس کے خاوند نے بڑے ظلم ڈھائے ہیں۔ منٹو کے الفاظ میں،
’’ٹکی سے اس کے شوہر کام کو اگرکوئی دلچسپی تھی تو صرف اتنی کہ وہ اس کو مارپیٹ سکتا تھا۔ طبیعت میں آئے تو کچھ عرصہ کے لے گھر سے نکال دیتا تھا۔ اس کے علاوہ ٹکی سے اس کو کوئی سروکار نہ تھا۔‘‘
جواباً ٹکی ایک بدمزاج عورت کے روپ میں ابھرتی ہے مگر یہ صرف نقاب ہے۔ اصلاً وہ صرف ’ماں ‘ ہے اور آخرآخر میں اپنے اسی روپ کا منظر دکھاتی ہے۔ منٹوکے دوسرے افسانوں میں بھی کچھ یہی انداز ابھرا ہے۔ افسانہ ’’شاردا‘‘ میں جب شاردا طوائف کے روپ کو تج کر ایک بیوی کے روپ میں ابھر آتی ہے تو نذیر کے ہاں Male Chauvinism کو کروٹ ملتی ہے اور وہ اسے اپنے گھر سے نکال دیتا ہے۔ یہ افسانہ اس اعتبار سے بھی دلچسپ ہے کہ اس میں اس برصغیر کے مرد کے صدیوں پرانے رویے کو سامنے لایا گیا ہے۔ شاردا جب تک طوائف بنی رہی نذیر کے لئے اس میں کشش تھی مگر جب وہ ایک بیاہتا عورت کے روپ میں ابھر آئی تو ’’عورت‘‘ کے لئے نذیر کے نسلی تشدد کے جذبات بھی متحرک ہوگئے۔ طوائف کے اندر سے عورت کا طلوع منٹو کے افسانے ’’مس مالہ‘ کا بھی موضوع ہے۔ مس مالہ کے بارے میں مسٹاوے کہتا ہے،
’’ہم اس کو اتنا وقت چومتے رہے جب بولا آؤ تو سالی کہ نے لگی ’’تم ہمارا بھائی ہے، ہم نے کسی سے شادی کرلیا ہے‘‘ اور باہر نکل گئی کہ وہ سالا گھر میں آگیا ہوگا۔‘‘
اسی طرح منٹو کے افسانے ’’جاؤ‘‘ حنیف جاؤ‘‘ کی سمتری معصومیت اور پاکیزگی کی تصویر ہے اور ’’ممی‘‘ کی مس نیلا جیکشن مامتا کی علمبردار ہے۔ دونوں مرد اورمرد کے معاشرے کے تشدد کا نشانہ بنی ہیں۔ ان سب افسانوں میں (کم یا زیادہ) مرد کا متشدد رویہ اوراس کے مقابلے میں مظلومیت یا انفعالیت کا منظرنامہ ہی ابھر کر سامنے آیا ہے۔
مجموعی طورپر دیکھا جائے تو منٹو کے بیشتر نسوانی کردار ’’دوہری ساخت‘‘ کی اساس پر استوار ہیں، یعنی اس ساخت پر جس کی خارجی سطح، داخلی سطح سے مختلف نوعیت کی ہے جب کہ عصمت چغتائی کے نسوانی کردار خارجی سطح کے علاوہ داخلی سطحوں پر بھی ایک ہی رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ عصمت کے نسوانی کرداروں میں کوئی ایسی مختلف وضع کی سطح نمودار نہیں ہوتی تو خارجی سطح کی یکسر تکذیب کردے۔ یہ کردار پیاز کی طرح ہیں کہ ہرپرت کےاترنے پر ان کا بنیادی باغیانہ رویہ زیادہ شوخ، زیادہ توانا ہوتا نظرآتا ہے۔ عصمت کے ہاں کثیر المعنویت کا مظاہرہ معانی کے تضاد پر منتج نہیں ہوا بلکہ ایک ہی بنیادی رویہ پرت درپرت پیش ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عصمت کے نسوانی کردار آغاز سے انجام تک اور خارجی کے علاوہ داخلی سطحوں پر بغاوت ہی کے علمبردار دکھائی دیتے ہیں۔ بنیادی طورپر یہ یک زبانی یعنی Synchronic رویہ ہے۔ دوسری طرف منٹو کے نسوانی کردار نظرآنے والی اپنی بالائی سطح کو خود ہی منہدم کردیتے ہیں اوریوں ایک سطح کے عقب سے ویسی ہی ایک نئی سطح کو نہیں ابھارتے (جیسے رولاں بارت کے پیاز کی تمثیل میں) بلکہ ایک قطعاً مختلف وضع اورانداز کے کردار بن جاتے ہیں۔ گویا وہ بنیادی طورپر دوزمانی یعنی Diachronic رویے کے علمبردار ہیں۔ منٹو نے طوائف کے علاوہ بھی متعدد نسوانی کردار پیش کئے ہیں جو محض جنسی سطح کی بغاوت کو پیش نہیں کرتے (جیسے طوائف کرتی ہے) بلکہ (آزادی نسواں کے رو سے متاثر ہوکر) مرد کی مطلق العنانی، اس کا متشدد رویہ، اس کا تحرک اور آزادی روی کے میلان کا تتبع کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں تاہم ان سب متنوع نسوانی کرداروں کے اندر سے بالآخر برصغیر کی وہی ستی ساوتری، معصوم، مظلوم، مامتا کی خوشبو میں تربتر، پتی پوجا کرنے والی ناری برآمد ہوجاتی ہے جو آزاد منش باغی اور کرگزرنے والی اس عورت کی ضد ہے جسے منٹو اپنے افسانوں میں نمایاں Highlight کرنا چاہتا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.