منٹو کی کہانیاں: تخلیقی قوت کا توانا اظہار
سعادت حسن منٹو ایک بڑا فنکار تھا، لیکن اسے کبھی ترقی پسند کہا گیا، کبھی رجعت پسند اور کبھی جنس پرست۔ منٹو کی زندگی اور ذہنی اتار چڑھاؤ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر ان کی کہانیوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت خود بخود سامنے آ جاتی ہے کہ ان کی کہانیاں تخلیقی قوت کا توانا اظہار ہیں۔
منٹو کو شروع سے ہی مغربی ادب، بالخصوص روسی، فرانسیسی اور انگریزی کہانیوں سے خاصی دلچسپی تھی۔ منٹو نے اپنی ذہانت، بےباکی، تخلیقی صلاحیت اور انوکھے اسلوب کے باعث، بہت جلد افسانوی ادب میں اپنا ایک منفرد مقام بنا لیا۔ انھوں نے سماج اور انسانی زندگی کا مشاہدہ بہت قریب سے کیا، نیز سماجی، معاشی، سیاسی اور جنسی مسائل کے حقیقی پہلو پر بڑی عمیق نگاہ ڈالی۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو زندگی اور سماج کی خارجی روداد ہی بیان نہیں کرتے بلکہ وہ معاشرے کے پوشیدہ مسائل اور کرداروں کے داخلی جذبات و احساسات کی عکاسی بھی بڑے فنکارانہ، سچے اور بھرپور انداز میں کرتے ہیں۔ وہ زندگی کے تاریک گوشوں سے نقاب اُلٹ کر زندگی کی برہنہ حقیقت منظرعام پر لانے کی بڑی دلیرانہ اور بےباکانہ کوشش کرتے ہیں۔
منٹو نے دراصل اپنے ذاتی مشاہدوں اور نجی تجربات کو بنیاد بناکر کہانیاں لکھی ہیں لیکن ان میں تخیل کی آمیزش اور اپنی تخلیقی قوت کا فنی استعمال کرکے واقعات کو اس ترتیب کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ان کی کہانیاں فن کی معراج پر پہنچ گئی ہیں۔ وہ مغربی افسانہ نگاروں، فنکاروں اور مفکروں سے متاثر تو ہیں لیکن خوشہ چیں نہیں۔ انھوں نے مغربی دانش وروں کے فن اور نظریات کو ہوبہ ہو اپنی کہانیوں میں پیش کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ جنس پر قلم اٹھاتے ہوئے بھی فرائڈؔ ان پر حاوی نہیں ہوپاتا۔ مارکس کا نظریہ کہیں بھی ان کی انگلی پکڑ کر انھیں ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کرتا۔
یوں توفن اور موضوع کے لحاظ سے موپاساں کا بھی ان پر گہرا اثر تھا۔ دونوں کا محبوب ترین موضوع جنس ہے، مگر دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ موپاساں شریف گھرانوں کی بظاہر پاکیزہ عورتوں میں گندگی اور درپردہ چھپی ہوئی جنسی بداعمالیاں تلاش کرتا تھا جب کہ منٹو کو بظاہر بدنام و بدکار طوائفوں کے اندر نیک اور دردمند عورت کی جستجو رہتی تھی۔ گویا موپاساں کے افسانے سماج کی تاریک حقیقت کو نمایاں کر رہے تھے اور منٹو کی کہانیاں تاریکی میں روشنی تلاش کر رہی تھیں۔ اسی مثبت رویے کی بناپر وہ ترقی پسند افسانہ نگار تسلیم کیے جانے لگے۔
منٹو نے جب افسانے لکھنے شروع کیے، اس وقت ترقی پسند تحریک کادور عروج تھا۔ منٹو نے بھی خود کو اس میں شامل کر لیا اور کافی عرصے تک ترقی پسند کارواں کے ساتھ قدم ملاکر چلتے رہے، لیکن بعد میں انھیں اس تحریک کی حد سے زیادہ پابندیاں ناگوار خاطر ہوئیں اور انھوں نے اس تحریک سے علیحدگی اختیار کرلی اور کچھ دنوں بعد ایک افسانہ ’’ترقی پسند‘‘ کے عنوان سے سپرد قلم کیا، جس میں نام نہاد ترقی پسند بننے اور بزعمِ خود ’’ترقی پسند‘‘ کہلائے جانے کا مذاق اڑایا گیا تھا۔
چوں کہ سعادت حسن منٹو نے بہت لکھا ہے، لہٰذا یہ کہنا تو صحیح نہیں ہے کہ انھوں نے جو کچھ لکھا شاہ کار لکھا لیکن ان کی اچھی کہانیوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ جانکی، ممی، سڑک کے کنارے، کھول دو، شاردا، بابو گوپی ناتھ، موذیل، بو، ممد بھائی، ہتک، کالی شلوار، نیا قانون، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور ننگی آوازیں ان کی بہترین کہانیاں ہیں۔ عام طور پر کہانیاں یا تو پلاٹ کے لحاظ سے مضبوط اور فن کا اعلیٰ نمونہ ہوتی ہیں یاپھر کردار نگاری کے لحاظ سے۔ مگر منٹو کا کمال یہ ہے کہ ان کی بیش تر کہانیوں میں پلاٹ کی تشکیل بھی نہایت سلیقے سے ہوئی ہے اور کردار نگاری کے فن کو بھی انھوں نے عروج تک پہنچا دیا ہے۔ سوگندھی، جانکی، ممدبھائی، بابوگوپی ناتھ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ وغیرہ ایسے درخشاں اور زندۂ جاوید کردار ہیں، جنھیں اردو کے افسانوی ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائےگا۔
’’نیا قانون’’ اور ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ یہ دونوں افسانے منٹو کے سیاسی شعور کی وسعت بلندی اور گہرائی کے عکاس ہیں۔ اگر ہم منٹو کے افسانے ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ کریں تو ان کے فن اور موضوع کو برتنے کے ڈھنگ کی متعدد خوبیاں عیاں ہو جاتی ہیں۔ سبھی ناقدین کی رائے ہے کہ یہ افسانہ تقسیم ہند پر اور تقسیم کے ذمے دار سیاسی راہ نماؤں پر بھرپور طنز ہے۔ پاگل خانے کے پس منظر میں افسانہ لکھ کر منٹو نے بٹوارے کے ذمے داروں کی ذہنی حالت کو پاگلوں سے بھی بدتر ظاہر کرنے کا اشارہ کیا ہے۔ اس افسانے میں منٹو کے نزدیک بٹوارے سے پیدا ہونے والے مسائل میں سب سے کرب ناک مسئلہ نقل مکانی کا ہے، یعنی اس زمین کو چھوڑکر جانے والوں کاناقابلِ برداشت دُکھ جس میں ان کی جڑیں بہت گہرائی تک اتری ہوئی ہیں۔
افسانے کے مرکزی کردار کا اصل نام بشن سنگھ تھا مگر سب اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے، اس لیے کہ اس جگہ کا نام، اس زمین کا نام، اس گاؤں کا نام ٹوبہ ٹیک سنگھ تھا جہاں اس نے زندگی پائی۔ افسانے کا عنوان بھی بشن سنگھ کی بجائے ٹوبہ ٹیک سنگھ رکھا گیا تاکہ قاری پر یہ تاثر قائم کیا جا سکے کہ انسان اپنی مٹی، اپنے ماحول اور اپنی زمین سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ منٹو نے افسانے میں کچھ اس طرح کے اشارے کیے ہیں کہ بقول وارث علوی ٹوبہ ٹیک سنگھ ایک ایسے درخت کی علامت بن گیا ہے جس کی جڑیں زمین میں بہت اندر تک پیوست ہیں۔ مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں،
’’وہ دن میں سوتاتھا نہ رات میں۔ پہرے داروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لحظے کے لیے بھی نہیں سویا۔ لیٹا بھی نہیں تھا۔ البتہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا۔‘‘
یہ Description قارئین کے ذہن میں ایک تناور درخت کی امیج بناتا ہے۔ ایک دوسرے واقعہ میں بھی اسی طرح کا اشارہ اور migaration کا کرب موجود ہے۔ لکھتے ہیں،
’’ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان اور ہندوستان اور پاکستان کے چکر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہو گیا۔ جھاڑو دیتے دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنی پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا، جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اُترنے کو کہا تووہ اور اوپر چڑھ گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا، میں اسی درخت پر ہی رہوں گا۔ بڑی مشکل کے بعد جب اس کا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اترا اور اپنے ہندوسکھ دوستوں سے گلے مل مل کر رونے لگا۔ اس خیال سے اس کا دل بھر آیا کہ وہ اسے چھوڑ کر ہندوستان چلے جائیں گے۔‘‘
یعنی جنھیں اپنے لیے یا دوسروں کے لیے migration قبول نہ تھا انھیں یہ احساس ہونے لگا کہ جس زمین میں ان کی جڑیں دور تک پھیلی ہوئی ہیں، اس زمین کو چھوڑ کر جانا کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے۔ یہاں پیڑ پر چڑھ کر اس شخص کا پناہ تلاش کرنا منٹو کے اشارتی اسلوب اور تخلیقیت کا ثبوت ہے، لیکن پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں نے جب پاگلوں کے تبادلے کا فیصلہ کر لیا تو توبہ ٹیک سنگھ جو اپنی مٹی سے شدت کے ساتھ جڑا ہوا تھا، کسی حالت میں ہندوستان جانے کو تیار نہیں ہوا۔ اس ضمن میں افسانے کا آخری منظر ملاحظہ ہو،
’’جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکےگی۔ آدمی چوں کہ بےضرر تھا اس لیے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی۔ اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا۔ سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ ادھر ادھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا، اوندھے منھ لیٹا تھا۔ اھر خاردار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا۔ ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔‘‘
اس طرح کھڑے کھڑے اوندھے منھ گرنا، یہ ثابت کرتا ہے کہ کسی پرانے اور تناور درخت کو ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگانے کا فیصلہ نہایت غیر دانش مندانہ ہے۔ اگر افسانے کو اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک تویہ کہ نقل مکانی یعنی migration کے کرب پر لکھی جانے والی اردو کی یہ پہلی کہانی ہے۔ بعد میں انتظار حسین نے ہجرت کو اپنا موضوع بنایا۔ دوسری بات یہ کہ سعادت حسن منٹو نے اردو افسانے کی تاریخ میں پاکستان چھوڑ کر ہندوستان آنے والے سکھ اور ہندو بھائیوں کے دکھ درد کو پہلی بار دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا اور قارئین کو باور کرایا کہ اپنی جڑوں سے لگاؤ انسان کے دوسرے تمام جذبوں سے زیادہ گہرا، مستحکم اور پائیدار ہوتا ہے۔
بشن سنگھ کا اپنی زمین چھوڑ کر نہ جانے کے لیے اڑ جانا، ایک جگہ مضبوطی سے پاؤں جماکر کھڑے کھڑے گر کر مرجانا نقل مکانی کے خلاف احتجاج ہے مگر منٹو کی تخلیقی قوت کا اظہار تب ہوتا ہے جب وہ ایسی جگہ گر کر مرتا ہے جس کا کوئی نام نہیں، یعنی No mans’s land۔ کوئی بھی دوسرا افسانہ نگار اس پہلو کو نظر میں رکھنے سے چوک سکتا تھا اور وہ بشن سنگھ کی موت کو کہیں بھی دکھا سکتا تھا۔ پاکستان کی زمین پر یا پاگل خانے کی سلاخوں سے سر ٹکراکر اس صورت میں نہ تو طنز کی دھار اتنی تیز ہوتی اور نہ ہی کہانی کا دائرہ اتنا بڑا ہوتا۔ افسانے کا آخری جملہ ہے،
’’زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا، ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔‘‘
اگر یہاں ٹوبہ ٹیک سنگھ کی بجائے بشن سنگھ پڑا تھا لکھا ہوتا تو بھی معنی کی اتنی جہتیں پیدا نہیں ہو سکتی تھیں۔ دراصل ٹوبہ ٹیک سنگھ ایک وسیع استعارہ ہے جس میں بہت سے معانی سمائے ہوئے ہیں۔ منٹو کا امتیاز یہ ہے کہ وہ ہر کہانی کے خاتمے پر اپنی تمام تخلیقی صلاحیتوں کو یکجا کرکے ان کا نہایت فنکارانہ اظہار کرتا ہے۔ فن کی یہی باریکی اسے ایک بڑا تخلیق کار بناتی ہے۔
کہانی ’’ننگی آوازیں’’میں ان مہاجرین کے مسئلے کو موضوع بنایا گیا ہے جنھیں رہنے کی کوئی مناسب جگہ نہیں مل سکی تھی اور وہ چھوٹی چھوٹی کوٹھریوں میں بسر کرنے لگے تھے مگر سخت گرمیوں کی رات میں کھلی چھت پر ایک ساتھ سوتے تھے جہاں شادی شدہ جوڑوں کو بھی خلوت میسر نہیں تھی۔ لوگوں نے ٹاٹ لگا کر کسی حد تک پردے کا انتظام تو کر لیا تھا مگر بےلباس آوازیں ایک دوسرے پر تنہائی کے تمام رازوں کو فاش کر رہی تھیں۔ انھیں سن کر بھولوکی طبیعت میں ایک عجیب انقلاب پیدا ہو گیا۔ وہ شادی بیاہ کا بالکل قائل نہیں تھا مگر اب شادی کرنے کے لیے پاگل ہوا جا رہا تھا۔ لیکن رات کو سونے کے لیے وہی کھلی چھت۔
پردے کا انتظام تو ٹاٹ سے ہو گیا مگر ہر جانب سے آنے والی ننگی آوازیں سب کچھ درہم برہم کر دیتیں۔ وہ خود کو ننگا محسوس کرتا۔ الف ننگا۔ نتیجتاً وہ ایک شادی شدہ مرد ہونے کے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہا۔ بیوی میکے چلی گئی، ایک بار آئی مگر دو بارہ واپس آنے سے انکار کر دیا۔ لوگوں نے اس کا مطلب جو نکالا اس کی وجہ سے بھولو کا دماغی توازن بگڑ گیا۔ اب وہ الف ننگا بازار میں گھومتا پھرتا، کہیں ٹاٹ لٹکتا دیکھتا تو اس کو اتارکر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ جس شادی کی تمنا میں وہ پاگل ہوا جا رہا تھا اس کی تکمیل نے اسے سچ مچ پاگل کر دیا۔
اس صورت حال میں بھولو کا پاگل ہو جانا ایک نفسیاتی حقیقت ہے جس پر کوئی بھی تخلیق کار کہانی لکھ سکتا تھا مگر اس کے اختتام پر منٹو نے اپنی تخلیقی توانائی کا استعمال کرکے انسان کے بہت اندر دبی نفسیاتی پیچیدگی اور داخلی کیفیت کو ڈرامائی پیرایہ عطا کر دیا ہے۔ مرکزی کردار کا پاگل ہو جانا ایک فطری عمل ہو سکتا ہے مگر اس کا بازار میں بالکل ننگا گھومنا اور جہاں ٹاٹ کا پردہ نظر آ جائے، اسے اکھاڑ کر پھینک دینا منٹو کی تخلیقی قوت کا بے پناہ اظہار ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ منٹو نے طوائف کو اپنے زیادہ تر افسانوں کا موضوع بنایا، لیکن یہ طوائف مرزا ہادی رسوا کی امراؤجان ادا اور قاضی عبدالغفار کی لیلیٰ سے مختلف تھی۔ جو سب سے نچلے درکی طوائف ہو سکتی ہے اس میں منٹونے ایک مکمل عورت تلاش کی۔ ’’ہتک‘‘ ایک ایسی ہی طوائف کی کہانی ہے۔ منٹو اس کہانی میں طوائف کے کمرے کا منظر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں،
’’کمرہ بہت چھوٹا تھا، جس میں بےشمار چیزیں بے ترتیبی کے ساتھ بکھری ہوئی تھیں۔ ایک چھوٹے سے دیوار گیر پر سنگار کا سامان رکھا تھا۔ گالوں پر لگانے کی سرخی، ہونٹوں کی سرخ بتی، پاؤڈر، کنگھی اور لوہے کے پن جو غالباً اپنے جوڑے میں لگایا کرتی تھی۔۔۔ پلنگ کے پاس ہی بید کی ایک کرسی پڑی تھی، جس کی پشت سر ٹیکنے کے باعث بےحد میلی ہو رہی تھی۔ کرسی کے دائیں ہاتھ کو ایک تپائی تھی جس پر ہِز ماسٹر وائس کا پورٹ ایبل گراموفون پڑا تھا۔ اس گراموفون پر منڈھے ہوئے کالے کپڑے کی بہت بری حالت تھی۔ زنگ آلود سوئیاں تپائی کے علاوہ کمرے کے ہر کونے میں بکھری ہوئی تھیں۔
اس تپائی کے عین اوپر دیوار پر چار فریم لٹک رہے تھے، جن میں مختلف آدمیوں کی تصویریں جڑیں تھیں۔ اس کے ساتھ ہی چھوٹے سے دیوار گیر پر جوکہ بےحد چکنا ہو رہا تھا، تیل کی ایک پیالی دھری تھی، جو دیے کو روشن کرنے کے لیے وہاں رکھی گئی تھی۔ پاس ہی دیا پڑا تھا جس کی لَو ہوا بند ہونے کے باعث ماتھے کے تلک کی مانند سیدھی کھڑی تھی۔ اس دیوار گیر پر دھوپ کی چھوٹی بڑی مروڑیاں بھی پڑی تھیں۔۔۔‘‘
(ہتک۔ منٹو)
اس طوائف کا نام سوگندھی تھا۔ دلال رام لال ایک رات اسے باہر موٹر میں بیٹھے سیٹھ کے پاس لے جاتا ہے۔ سج سنور کر اورپھول دار ساڑی پہن کر جب وہ موٹر کے دروازے کے پاس کھڑی ہو جاتی ہے تو سیٹھ اس کے چہرے پر بیٹری کی روشنی ڈال کر اسے دیکھتا ہے۔ پھر بٹن دبانے کی آواز پیدا ہوتی ہے اور روشنی بجھ جاتی ہے۔ ساتھ ہی سیٹھ کے منہ سے اونہہ نکلتا ہے۔ پھر ایک دم موٹر کا انجن پھڑپھڑاتا ہے اور کاریہ جا، وہ جا۔۔۔
اس وقت ایک طوائف کے اندر کی عورت اچانک جاگ جاتی ہے۔ وہ اپنی بےعزتی برداشت نہیں کرپاتی اور کمرے میں آکر دیوار پر لگی اپنے پسندیدہ مردوں کی تصویریں اکھاڑ کر پھینک دیتی ہے۔ اس وقت اس کا ایک پرانا گاہک مادھوؔ بھی کمرے میں موجود تھا، جو اس کی غیر موجودگی میں وہاں آ چکا تھا۔ وہ ہمیشہ اس سے ہمدردی کا دکھاوا کیا کرتا تھا۔ آج سوگندھی کا رویہ اس کے ساتھ بھی بدل جاتا ہے اور وہ نہایت بدسلوکی سے پیش آتی ہے۔ گویا وہ آج اپنی بےعزتی کا بدلہ ہرمرد سے لینا چاہتی تھی۔ اس کے بعد سوگندھی جو عمل کرتی ہے وہ یقیناً منٹو کی تخلیقی قوت کا منفرد اور توانا مظہر ہے۔
یعنی آخر میں وہ بہت دیر تک کرسی پر بیٹھی رہی۔ سوچ بچار کے بعد بھی جب اسے اپنے دل کو سمجھانے کا کوئی طریقہ نہ ملا تو اس نے اپنے خارش زدہ کتے کو گود میں اٹھایا اور ساگوان کے چوڑے پلنگ پر اسے پہلو میں لٹاکر سو گئی۔ دراصل وہ پوری مرد ذات کو گالی دینا چاہتی تھی۔ یہ بتانا چاہتی تھی کہ میرے لیے تم سب کی حیثیت ایک خارش زدہ کتے سے زیادہ نہیں۔ بلکہ وہ میرے لیے تم سے زیادہ عزیز ہے۔ اسے موٹر والے سیٹھ کو اپنی ہتک کے بدلے ’’حرام زادے کتے’’، ’’خارش زدہ کتے’’ کہنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ جا چکا تھا۔ اب وہ بےبس تھی۔ آخر کیا کرتی؟ اگر وہ اسے ناپسند نہیں کرتا تو ظاہر ہے اس کے پہلو میں آکر سوتا۔ وہ نہیں سویا تو یہ جتانے کے لیے کہ تیرا بدل میرے لیے یہ خارش زدہ کتا ہے، اس نے کتے کو اپنی پہلو میں سلا لیا۔
یہ منٹو کا ہنر ہے کہ اس نے ایک گالی کو عمل یعنی Act میں تبدیل کرکے جسم عطا کر دیا اور اس طرح سو گندھی نے غائبانہ ہی سہی ایک انوکھے انداز میں سیٹھ سے انتقام لے لیا۔ ایک بےبس اور لاچار طوائف نے اپنی ہتک کا نرالے ڈھنگ سے بدلہ لیا۔ عورت کی نفسیات کے اس پہلو تک رسائی منٹو ہی کا حصہ ہے۔ اس سے قبل اردو میں اس انداز کے اختتام والے افسانے نہیں لکھے گئے تھے۔ اردو ہی کیا بلکہ ’’ہندی نئی کہانی آندولن‘‘ کے چند اہم کہانی کاروں پر بھی منٹو کے اثرات قبول کرنے کا شبہ ہوتا ہے۔ کملیشور کا ’’مانس کا دریا‘‘ پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اس کی زبان، اسلوب، جزئیات، فضا اور کردار کی نفسیات منٹو کے افسانوں سے کافی مماثلت رکھتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ کملیشور نے شعوری یا لاشعوری طورپر منٹو کا اثر قبول کیا۔
حالاں کہ یہ بات وثوق کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی۔ اس لیے کہ یہ یکسانیت یا مماثلت حقیقت نگاری کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔ دونوں کہانیوں کی فضا کا ایک جیسا ہونا اتفاقیہ بھی ہو سکتا ہے، اس لیے کہ دونوں کہانیاں ایک ہی ماحول اور ایک ہی پس منظر کی کہانیاں ہیں۔ کملیشور کی کہانی ’’مانس کا دریا‘‘ موضوع کے لحاظ سے بالکل مختلف کہانی ہے اور وہ بھی ایک بڑی اور اہم کہانی تسلیم کی جاتی ہے۔ ’’مانس کا دریا‘‘ میں ایک طوائف کے کمرے کی تفصیلات ملاحظہ ہوں،
’’تنگ کوٹھری میں عجیب سی بو بھری ہوئی تھی۔ ایک کونے میں پانی کا گھڑا رکھا تھا اور تام چینی کا ایک بڑا ڈبہ۔ کونے میں کچھ چیتھڑے بھی پڑے ہوئے تھے۔ وہ پڑا ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ جگنو کے سرہانے ہی چھوٹی سی الماری تھی۔ اس کا پتھر تیل کے چکنے دھبّوں سے اٹا ہوا تھا۔ ایک ٹوٹا ہوا کنگھا، سستی نیل پالش کی شیشی اور جوڑے کے کچھ پن اس میں پڑے ہوئے تھے۔ الماری کی دیوار پر پنسل سے کچھ نام اور پتے تحریر تھے۔ فلمی گانوں کی کچھ کتابیں ایک کونے میں رکھی تھیں۔ ان ہی کے پاس مردہ سانپوں کی مانند نقلی بالوں کی کچھ چوٹیاں پڑی تھیں۔ یہ سب دیکھتے دیکھتے اسے کراہت ہونے لگی تھی۔ اپنا دھیان ہٹانے کے لیے اس نے جگنو کی ران پر ہاتھ رکھ دیا تھا جو باسی مچھلی کی طرح پلپلی اور کھدر کی طرح کھردری تھی۔‘‘
(مانس کا دریا۔ کملیشور، ترجمہ کملیشور نمبر، فن اور شخصیت)
کملیشور نے ’’مانس کا دریا‘‘ میں ایک جسم فروش طوائف جگنو کا کردار پیش کیا ہے اور ہتک میں منٹو نے سوگندھی کا۔ دونوں ایک ہی معاشرے سے تعلق رکھتی ہیں، فرق محض زمانے کا ہے۔ منٹو کی سوگندھی کا زمانہ پہلے کا ہے اور جگنو کا زمانہ بعد کا۔ اسی لیے منٹو کی سوگندھی کے یہاں فلمی گانے سننے کے لیے گراموفون ہے تو تھوڑا سا پڑھ لکھ لینے کے بعد کملیشور کی جگنو کے یہاں فلمی گانوں کی سستی کتابیں۔ منٹو نے کمرے کی منظر کشی کرتے ہوئے چار مردوں کی تصویروں کا ذکر کیا ہے۔ گویا منٹو عورت کی اس نفسیات کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ جہاں سیکڑوں لوگ آتے ہوں، وہاں بھی عورت کچھ مخصوص لوگوں کو سب سے الگ ہٹ کر دیکھنا چاہتی ہے اوران کو اپنے ذہن و دل کے نرم گوشے میں محفوظ کرنے کے سبب ان کی تصویروں کو فریموں میں قید کر لیتی ہے۔
کملیشور نے پیشہ ور عورت کی اسی نفسیات کو دیوار پر پینسل سے کچھ نام پتے نوٹ کر لینے کے عمل سے ظاہر کیا ہے۔ منٹو کی سوگندھی پڑھی لکھی نہیں تھی جو اس دور کا تقاضا تھا لیکن کملیشور کے زمانے تک آتے آتے پیشہ ور عورت بھی معمولی پڑھ لکھ گئی تھی، اس لیے کملیشور کی جگنو الماری کی دیوار پر پنسل سے اپنے چہیتے اور منتخب گاہکوں کے نام اور پتے درج کر لیتی ہے۔ اس مماثلت کے باوجود کملیشور کی کہانی اپنا ایک ممتاز اور منفرد مقام رکھتی ہے۔ خاص طور سے یہ تشبیہ بےمثال ہے کہ ’’اس نے جگنو کی ران پر ہاتھ رکھ دیا تھا جو باسی مچھلی کی طرح پلپلی اور کھدر کی طرح کھردری تھی۔‘‘
اس بیان سے قاری کسی جنسی لذت کا شکار ہونے کی بجائے جگنو کی قابل رحم حالت پر فکر مند ہونے لگتا ہے اور ہمارے سیاسی نظام اور مہذب سماج کی بے اعتنائی اور ستم ظریفی ابھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ اس تشبیہ میں پلپلی باسی مچھلی جیسے الفاظ دریا کی مناسبت سے اور کھدر کی طرح کھردری جیسے الفاظ اس صورت حال کے ذمے دار سیاسی راہ نماؤں پر طنز کی خاطر استعمال ہوئے ہیں۔
منٹو کی نثر بھی تشبیہات سے مزیّن ہوتی ہے۔ ان کے فن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اکثر ایک بڑا گیپ دے کر کہانی ختم کرتے ہیں اور قاری اپنے طور پر اس خلاء کو پر کرکے ایک خاص قسم کی تسکین حاصل کرتا ہے۔ منٹو اپنی نثر میں فنکارانہ اختصار سے کام لیتے ہیں، ان کے یہاں ایک جملہ تو کیا، ایک لفظ بھی فاضل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر میں بلاکی روانی ہوتی ہے۔ منٹو تشبیہات اور استعارات کا نثر میں اس خوبی سے استعمال کرتے ہیں کہ ان کی نثر شاعرانہ بھی نہیں ہونے پاتی اور اس میں زیادہ سے زیادہ تخلیقیت کا عنصر سمٹ آتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ منٹو نے زیادہ تر جنسی موضوعات پر کہانیاں لکھیں مگر ان کی کہانیوں کو فحش نہیں کہا جا سکتا، اس لیے کہ منٹو کے یہاں جہاں بھی جنسی مناظر آتے ہیں وہاں وہ ایک بےباک اور آزاد قلم فنکار ہونے کے باوجوداس محتاط انداز سے ان کا ذکر کرتے ہیں کہ پڑھنے والا جنسی لذت حاصل کرنے کی بجائے کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہی ان کا مخصوص فن ہے جس کی بناپر ان کے جنسی افسانے بھی محض جنسی نہیں رہ جاتے بلکہ جنسی مسائل یا جنسی استحصال جیسے مسئلے پر غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ اور ’’کھول دو‘‘ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ اپنے افسانے جانکی کے ایک منظر کو قاری کے سامنے پیش کرتے وقت منٹو بیتی رات کا بیان چٹخارے لے کر نہیں کرتے، صرف اتنا لکھتے ہیں کہ،
’’سعید کے پیچھے سے ایک چوڑیوں والا بازو چادر کے اندر سے نکلا اور پلنگ کے پاس رکھی کرسی کی طرف بڑھنے لگا۔ کرسی پر لٹھے کی سفید شلوار لٹک رہی تھی۔‘‘
ان چند الفاظ سے گزری رات کا مکمل منظر نگاہوں کے سامنے لاکھڑا کیا ہے مگر یہاں منٹو فحش نگاری سے صاف دامن بچا لیتے ہیں۔ کہیں کہیں تو منٹو نے التزاماً قاری کے ذہن کو جنسی لذت سے دور رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ مثلاً جب منٹو سوگندھی کی ننگی بانہوں اور بغلوں کا ذکر کرتے ہیں تو لکھتے ہیں،
’’دائیں بازو کی بغل میں شکن آلود گوشت ابھرا ہوا تھا جو بار بار منڈھنے کے باعث نیلی رنگت اختیار کر گیا تھا، جیسے نچی ہوئی مرغی کی کھال کا ایک ٹکڑا وہاں پر رکھ دیا ہو۔‘‘
اس کی کریہہ تشبیہ سے قاری کے ذہن میں جنسی لذت کے نام کی کوئی شے ہوگی بھی تو مر جائےگی۔ منٹو نے یہاں سوگندھی کی بغل کا ذکر، جوجنس کا خاص جزو ہے، کچھ اس انداز میں کیا ہے گویا ننگی بغل کا نہیں سوگندھی کے ڈھکے چھپے زخم کا تذکرہ کیا ہو۔ یہی منٹو کا فن ہے۔
منٹو نے تقسیم ہند کے موضوع پر بھی بےشمار کہانیاں لکھیں۔ خاص طور پر ملک کی تقسیم کے فوراً بعد رونما ہونے والے قیامت خیز فسادات پر، جن میں مختصر ترین افسانوں کے مجموعے ’’سیاہ حاشیے’’ کے علاوہ ٹھنڈا گوشت، شریفن، کھول دو، گورمکھ سنگھ کی وصیّت اور موذیل وغیرہ قابل ذکر افسانے ہیں۔ تقسیم ہند تو ایک وسیع موضوع ہے لیکن اس درد ناک اور افسوس ناک واقعے کے نتیجے میں بے شمار مسائل پیدا ہوئے۔ مثلاً فساد، بدلتی قدریں، مشترکہ تہذیب کا بکھرنا، معاشی حالت کا بگڑنا، غیر محفوظ ہونے کا احساس، خاندان اور دلوں کا بٹوارہ اور اپنی دھرتی، اپنا ملک اور مٹی کی خوشبو کو چھوڑ کر جانے اور ادھر سے چھوڑ کر آنے کا شدید کرب یعنی ہجرت۔
منٹو کی کہانی ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ جسے ہجرت کے مسئلے پر لکھی گئی پہلی علامتی کہانی کہا جا سکتا ہے، نئے لکھنے والوں کو علامتی اسلوب سے آشنا کراتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کی کہانی ’’پھندنے’’ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ ناقدین ’’پھندنے’’ کو اردو کی پہلی علامتی اور تجریدی کہانی تسلیم کرتے ہیں۔ دراصل یہ ایک استعاراتی کہانی ہے۔ منٹو نے اس کہانی میں بیان کے روایتی انداز سے انحراف کیا ہے۔ لفظوں کو اپنے رائج معانی میں استعمال نہیں کیا، اس میں باضابطہ کوئی پلاٹ نہیں ہے اور نہ منٹو نے کردار نگاری کے اپنے مخصوص فن کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس کہانی کے مطالعہ کے بعد کسی حدتک یہ بات صحیح نظر آتی ہے کہ جدید افسانہ نگاروں کے سامنے یا ان کے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں ’’پھندنے’’ شعوری یا لاشعوری طور پر ضرور تھی۔ کیوں کہ جدیدیت کے زیر اثر لکھنے والے افسانہ نگاروں کا اسلوب نگارش ’’پھندنے’’ کے اسلوب سے بڑی حدتک مماثلت رکھتا ہے۔ بہرکیف اس نامکمل جائزے کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ منٹو کہانیاں تخلیق قوت کا توانا اظہار ہوتی ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.