Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

منٹو کی نئی پڑھت: متن، ممتا اور خالی سنسان ٹرین

گوپی چند نارنگ

منٹو کی نئی پڑھت: متن، ممتا اور خالی سنسان ٹرین

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

    منٹو کا انتقال ۱۹۵۵ء میں ہوا۔ اتنے لمبے عرصے کے بعد منٹو کو دوبارہ پڑھتے ہوئے بعض باتیں واضح طور پر ذہن میں سر اٹھانے لگتی ہیں۔ منٹو اول وآخر ایک باغی تھا، سماج کا باغی، ادب وآرٹ کا باغی، یعنی ہر وہ شے جسے Doxa یا ’’روڑھی‘‘ کہا جاتا ہے یا فرسودہ اور ازکار رفتہ عقائد، تصورات یا ذہنی رویے، منٹو اس کا دشمن تھا۔ منٹو کے خون میں کچھ ایسی حرارت اور گردش تھی کہ وہ فطرتاً اور طبعاً ہر اس شے سے شدید نفرت کرتا تھا جسے بالعموم اخلاق وتہذیب کا لبادہ پہنا دیا گیا ہو۔ اس کی ایکسریٔ نگاہ فوری طورپر ان لبادوں کو کاٹ کر اس حقیقت تک پہنچ جاتی تھی جو ہرچند کہ تلخ اور تکلیف دہ تھی لیکن سچائی کی سطح رکھتی تھی۔ وہ اس ننگی کوری سچائی کا جویا تھا جو سامنے آتی ہے تو آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔

    منٹو کو دوست احباب تو بہت ملے، لیکن اس کا سفر ایک مضطرب روح کا تنہا سفر تھا جسے اس کی زندگی میں بہت کم کسی نے سمجھا، بلکہ بالعموم منٹو کو غلط ہی سمجھا گیا اور زندگی بھر وہ ملامتوں اور رسوائیوں کی زد میں رہا۔ اس کے باطن کی آگ برابر دہکتی رہی اور کسی منزل پر بھی اس کے یہاں تھکن یا بیزاری نام کی کوئی چیز نہیں آئی۔ عام سماجی طور طریقے، اخلاق وضابطے یا ادب وآرٹ کے سانچے اور تصورات جن کا تعلق طبقۂ اشرافیہ یا بورژواژی سے تھا اور جو صدیوں سے مانوس اور قابل قبول چلے آتے تھے، منٹو نے اپنے تخلیقی وجود کی پوری شدت سے ان پر وار کیا اور ان کے ’’تقدس‘‘ کو پارہ پارہ کر دیا۔

    منٹو کی روح ایک گھائل فن کار کی روح ہے جو پورے عہد سے ستیزہ کار نظر آتی ہے۔ اس کے تخلیقی کرب کی تہہ میں بنیادی محرک اس کا یہی رویہ ہے کہ وہ Doxa سے کسی بھی سطح پر سمجھوتا نہ کر سکتا تھا۔ اس بغاوت کی چنگاریاں زندگی بھر اڑتی رہیں اور پوری اردو دنیا منٹوکے ہاتھوں پے بہ پے صدموں کا شکار ہوتی رہی۔ منٹو کی زندگی میں منٹو کو کم سمجھا گیا بلکہ سمجھا ہی نہیں گیا۔

    یہ بات بھی واضح ہے کہ اخلاقی ریاکاری اور Doxa کی پہچان میں منٹو اپنے عہد کے ادیبوں سے بہت آگے تھا۔ شاید اس وقت منٹو کے معاصرین میں کسی دوسرے کو فکشن کے باغیانہ منصب یا نوعیت وماہیت کا ایسا گہرا احساس نہیں تھا جیسا منٹو کو تھا۔ اس وقت ادب کی عام فضا افادہ پرستی اور اخلاق سازی سے عبارت تھی۔ افادہ پرستی اور اخلاق سازی کی یہ فضا مقدمۂ حالی کی شعریات سے مرتب چلی آتی تھی اور جس کو عظمت ورفعت عطا کی تھی اکبر و اقبال کی شاعری نے اور مستحکم کیا تھا پریم چند کی مثالیت نے۔ ایک ایسے دور میں جب بالعموم ادب کو افادیت اور اخلاقیت کا نقیب سمجھا جاتا تھا، منٹو نے اس سے اخلاق شکنی کا کام لیا اور اشرافیہ کی تہذیب کی ریاکاری اور آبرو باختگی کو بےنقاب کیا۔ یہ اپنے عہد کے ادبی اعتقادات سے ٹکر لینے والی بات تھی جس کے لیے منٹو ہی کا حوصلہ چاہیے تھا۔ منٹو نے اپنے مقدمات کے سلسلے میں ایک جگہ بہت دکھ سے کہا ہے،

    ’’چند برسوں سے مقدمات قائم کرنے والوں کے (نزدیک ادب کے) معنی یہ ہیں کہ علامہ اقبال مرحوم کے بعد خدائے عز وجل نے ادب کے تمام دروازوں میں تالے ڈال کر ساری چابیاں ایک نیک بندے کے حوالے کر دی ہیں۔ کاش علامہ مرحوم زندہ ہوتے!‘‘ (لذت سنگ مشمولہ دستاویز، ص، ۵۷) منٹو کو حق گوئی کی ضرورت کا شروع ہی سے شدید احساس تھا۔ ’’بو‘‘ پر مقدمہ حکومت پنجاب نے چلایا تھا لیکن اس کو شہ مل رہی تھی بعض اردو اخبارات سے۔ ان اخباروں اور ان کے مدیران کے بارے میں منٹو تڑپ کر لکھتے ہیں،

    ’’افسوس صرف اتنا ہے کہ یہ پرچے ایسے لوگوں کی ملکیت ہیں جو عضو خاص کی لاغری اور کجی کو دور کرنے کے اشتہار خدا اور رسول کی قسمیں کھا کھا کر شائع کرتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ صحافت جیسے معزز پیشے پر ایسے لوگوں کا اجارہ ہے جن میں سے اکثر طلا فروش ہیں۔‘‘ (ایضا، ص، ۵۷)

    منٹو پر لوگوں نے کیسے کیسے وار نہیں کیے، راجہ صاحب محمود آباد، حیدر آباد کے ماہر القادری، بمبئی کے حکیم مرزا حیدر بیگ، نوائے وقت کے موسس حمید نظامی اور طرح طرح کے ادیب وصحافی۔ البتہ احمد ندیم قاسمی، منٹو کے فن کے قدر دان تھے۔ افسانہ ’’بو‘‘ انھیں نے ادب لطیف میں اور بعد میں ’’کھول دو‘‘ نقوش میں شائع کیا تھا۔ لیکن فیض احمد فیض نے بحیثیت ایڈیٹر پاکستان ٹائمز ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے بارے میں جو رائے دی وہ لکھی ہوئی موجود ہے۔ انھوں نے کہا، ’’افسانے کے مصنف نے فحش نگاری تو نہیں کی لیکن ادب کے اعلیٰ تقاضوں کو پورا بھی نہیں کیا، کیونکہ اس میں زندگی کے بنیادی مسائل کا تسلی بخش تجزیہ نہیں ہے۔‘‘

    گویا ادب کا منصب ’’بنیادی حقائق کا تجزیہ کرنا‘‘ اور ’’تسلی بخش تجزیہ کرنا‘‘ ہے یعنی وہ کام جو خود فیض نے کبھی نہیں کیا تھا، یعنی اگر فیض بڑے شاعر ہیں تو اس لیے کہ ان کی شاعری میں گہری دردمندی اور جمالیاتی رچاؤ ہے نہ کہ مسائل کا تجزیہ، اور وہ بھی ’’تسلی بخش تجزیہ‘‘ جو اول و آخر ایک اضافی چیز ہے۔ تاجور نجیب آبادی، شورش کاشمیری، ابو سعید بزمی، محمد دین تاثیر اور بہت سوں نے منفی بیانات دیے، البتہ باری علیگ، کنھیا لال کپور، صوفی غلام مصطفے ٰ تبسم نے حق گوئی سے کام لیا، لیکن مولوی عبدالحق نے جواب دینا تک گوارا نہیں کیا۔ منٹو نے نیاز فتح پوری، قاضی عبدالغفار، خلیفہ عبدالحکیم، ہریندر ناتھ چٹوپادھیائے کے نام بھی دیے لیکن ان کے مقدامات پر عدالت نے ان کی گواہی ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ان حالات میں منٹو پر جو گزرتی ہوگی چالیس پینتالیس برس بعد اس کا تصور کیجیے تو رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ منٹو کے ایسے بیانات ایک گھائل روح کے بیانات نہیں تو کیا ہیں،

    ’’کہا جاتا ہے کہ (میرے) اعصاب پر عورت سوار ہے۔ مرد کے اعصاب پر عورت نہیں تو کیا ہاتھی کو سوار ہونا چاہیے؟ جب کبوتروں کو دیکھ کر کبوتر گٹکتے ہیں تو مرد عورتوں کو دیکھ کر غزل یا افسانہ کیوں نہ لکھیں۔ عورتیں کبوتروں سے کہیں زیادہ دلچسپ، خوبصورت اور فکرخیز ہیں۔‘‘ (’’ادب جدید‘‘ دستاویز، ص، ۵۱)

    ’’بیسوائیں اب سے نہیں، ہزار سال سے ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کا تذکرہ الہامی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اب چونکہ کسی الہامی کتاب یا پیغمبر کی گنجائش نہیں رہی، اس لیے ان کا ذکر اب آیات میں نہیں بلکہ ان اخباروں اور رسالوں یا کتابوں میں دیکھتے ہیں جنھیں آپ عود اور لوبان جلائے بغیر پڑھ سکتے ہیں اور پڑھنے کے بعد ردی میں بھی اٹھوا سکتے ہیں۔‘‘ (’’سفید جھوٹ‘‘ ایضاً، ص، ۷۲)

    منٹو پر بار بار مقدمے قائم ہوئے۔ عدالتوں، سیشن کورٹوں اور ہائی کورٹ میں گھسیٹا گیا، تلاشیاں اور طلبیاں ہوئیں، سمن جاری ہوئے، جرمانے ہوئے، سزائیں ہوئیں، یعنی ذلت ورسوائی کا وہ کیا سامان تھا جو نہیں ہوا۔ جب عقوبت حد سے گزر جائے تو دفاع کی خواہش بھی نکل جاتی ہے۔ جب پورا معاشرہ اور اس کے ساتھ عدلیہ بھی ادب سے صلاح وفلاح اور افادیت کا تقاضا کرے تو گفتگو بھی اسی محاورے میں کرنا پڑتی ہے،

    ’’اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے وہ دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔‘‘ (’’ادب جدید‘‘، ایضاً، ص، ۵۲)

    ’’جو لوگ فحش ادب کا یا جو کچھ بھی یہ ہے، خاتمہ کر دینا چاہتے ہیں تو صحیح راستہ یہ ہے کہ ان حالات کا خاتمہ کر دیا جائے جو اس ادب کے محرک ہیں۔‘‘ (’’ادب جدید‘‘، ایضاً، ص، ۵۳)

    یہاں بظاہر منٹو یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ اس نوع کے ادب کی سماجی حالات سے ایک اور ایک کی نسبت ہے، یعنی حالات بدل جائیں تو ادب بھی بدل جائےگا یا ادب سماجی حالات کو بدلنے پر قادر ہے یا دوسرے لفظوں میں ادب کا منصب اخلاقی یا فلاحی ہے۔ منٹو نے ایک جگہ ادب کو ’’کڑوی دوا‘‘ بھی کہا ہے، ’’ہمارے تحریریں آپ کو کڑوی کسیلی لگتی ہیں۔۔۔ نیم کے پتے کڑوے سہی مگر خون کو صاف کرتے ہیں۔‘‘ (’’افسانہ نگار اور جنسی میلان‘‘ دستاویز، ص، ۸۳)

    لیکن غالباً یہ سب کچھ دفاعی نوعیت کا تھا کیونکہ جس طرح کے حالات کا منٹو کو سامنا تھا، اس میں یہی کہا جا سکتا تھا اور یہی کچھ سمجھا جا سکتا تھا۔ شاید عدالتی چارہ جوئی اور وارنٹ گرفتاری سے بچنے کے لیے سوائے اس کے کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ اس سے ہٹ کر اگر کچھ بھی کہا جاتا تو مزید غلط فہمی اور الجھن کا باعث ہو سکتا تھا، ورنہ منٹو کی اصل راہ تو اس فنکاری کی راہ ہے جو اپنا جواز خود ہے اور جسے کسی نام نہاد اخلاقی یا اصلاحی نقطۂ نظر کے تابع نہیں لایا جا سکتا۔ ادب کے معاملے میں منٹو ہر گز کسی طرح کی سمجھوتے بازی کا روادار نہیں تھا۔ غالباً اردو فکشن نگاروں میں وہ پہلا شخص ہے جس نے ادب وآرٹ کو بطور ادب و آرٹ پہچاننے اور پرکھنے پر زور دیا یعنی ادب و آرٹ (یا جمالیاتی اثر) کی اخلاق ومذہب سے نسبتاً آزادی کا تصور جو ادب کی اپنی پہچان کا ضامن ہے۔

    دوسرے لفظوں میں منٹو نے پہلے سے چلے آ رہے اس تصور پر کاری ضرب لگائی کہ ادب اشرافیہ کی اقدار یا متوسط طبقے کے اخلاق وآداب کا پابند ہے۔ منٹو کا یہ نقطۂ نظر ہر اس جگہ زیادہ کھل کر سامنے آتا ہے جہاں کورٹ کچہری کا دباؤ یا عدالتی چارہ جوئی کا چکر نہیں ہے۔ منٹو کو اس کا شدید احساس تھا کہ جو مسائل اس کے شعورواحساس میں تہلکہ مچائے ہوئے تھے یا اس کے باطن میں متلاطم تھے، وہ عام مسائل نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق انسان کی فطرت اور سرشت کے بنیادی تقاضوں سے تھا یا انسانی سائیکی کی ان گہرائیوں سے جہاں شرخیر کو یا اندھیرا اجالے کو کاٹنے کی ضد میں لگا رہتا ہے اور یہ کشاکش وجودِ انسانی کے اسرار ورموز کا حصہ ہے اور اس کا کوئی آسان حل آج تک کوئی نہیں سمجھ سکا،

    ’’اگر ایک ہی بار جھوٹ نہ بولنے اور چوری نہ کرنے کی تلقین کرنے پر ساری دنیا جھوٹ اور چوری سے پرہیز کرتی تو شاید ایک ہی پیغمبر کافی ہوتا لیکن جیسا آپ جانتے ہیں پیغمبروں کی فہرست کافی لمبی ہے۔ ہم لکھنے والے پیغمبر نہیں۔ ہم ایک ہی چیز کو، ایک ہی مسئلے کو مختلف حالات میں مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں اور جو کچھ ہماری سمجھ میں آتا ہے، دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں اور دنیا کو کبھی مجبور نہیں کرتے کہ وہ اسے قبول ہی کرے۔ ہم قانون ساز نہیں، محتسب بھی نہیں۔ احتساب اور قانون دوسروں کا کام ہے۔ ہم حکومتوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں لیکن خود حاکم نہیں بنتے۔ ہم عمارتوں کے نقشے بناتے ہیں لیکن ہم معمار نہیں۔ ہم مرض بتاتے ہیں لیکن دواخانوں کے مہتمم نہیں۔‘‘ (’’افسانہ نگار اور جنسی میلان‘‘ ایضاً، ص، ۸۱-۸۲)

    ایک اور مضمون ’’کسوٹی‘‘ میں منٹو نے کہا ہے، ’’ادب سونا نہیں جو اس کے گھٹتے بڑھتے دام بتائے جائیں۔ ادب زیور ہے اور جس طرح خوبصورت زیور خالص سونا نہیں ہوتا، اسی طرح خوبصورت ادب پارے بھی خالص حقیقت نہیں ہوتے۔۔۔ ادب یا تو ادب ہے ورنہ ایک بہت بڑی بے ادبی ہے۔ ادب اور غیرادب میں کوئی درمیانی علاقہ نہیں، بالکل جس طرح انسان، یا تو انسان ہے یا پھر گدھاہے۔‘‘ (ایضاً، ص، ۵۰/۵۷)

    ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ منٹو کا تصور ادب اپنے عہد کے مصنفین سے بالکل الگ تھا۔ سطور بالا میں منٹو نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ادب نہ محتسب ہے، نہ قانون داں، اس کا کام نہ حکم چلانا ہے اور نہ نسخے تجویز کرنا۔ دوسرے اقتباس میں منٹو نے حقیقت نگاری کے خالص تصور کو بھی رد کیا ہے کہ زبان یا فن آلائش سے بنتا ہے، نیز ادب کی ادبیت اپنی الگ نوعیت رکھتی ہے۔ منٹو ادب کے ایسے بےلاگ تصور کو اردو افسانے میں رائج کر رہا تھا جو اس سے پہلے اردو افسانے میں نہ تھا اور جس کو انگیز کرنے اور قبول کرنے میں اردو کو خاصا وقت لگا۔ منٹو نے فرانسیسی اور روسی شاہکاروں کو کم عمری ہی میں اپنے ذہن وشعور کا حصہ بنا لیا تھا اور فکشن کے اعلیٰ معیار بطور جوہر شروع ہی سے اس کے تخلیقی ذہن میں پیوست ہو گئے تھے۔

    منٹو کو اس کا احساس تھا کہ اس کے باطن میں جو اضطراب وکرب تھا اور اپنے گرد وپیش سے اس کو جو شدید ناآسودگی تھی، اس کی نوعیت ہی الگ تھی۔ ۱۹۳۹ء میں احمد ندیم قاسمی کے نام ایک خط میں جب منٹو ابھی ستائیس برس کا تھا، اس کے یہ جملے خاصے معنی خیز ہیں، ’’کچھ بھی ہو مجھے اطمینان نصیب نہیں ہے۔ میں کسی چیز سے مطمئن نہیں ہوں، ہرشے میں مجھے ایک کمی محسوس ہوتی ہے۔‘‘ (نقوش منٹو نمبر)

    ضروری ہے کہ اس باطنی اضطراب اور نا آسودگی کے سیاق میں منٹو کے فن اور کرداروں کو ازسرنو دیکھا جائے۔ حقیقت کے مانوس اور معمولہ چہرے سے، اس کے اس رخ سے جو قابل قبول اور معتبر سمجھا جاتا تھا، منٹو نے نقاب نوچ پھینکی تاکہ اس بہروپ کے پیچھے ریاکاری اور Doxa کا جو گھناؤنا روپ تھا اسے سامنے لایا جا سکے۔ منٹور کو Doxa سے شدید نفرت اسی لیے تھی کہ اس نے اشرافیہ کے مکروہ اور عصیاں کار چہرے کو ریشمی پردوں سے ڈھانپ رکھا تھا۔ جوگیشوری کالج، بمبئی کے ایک جلسے میں تقسیم سے چند برس پہلے منٹو نے نے اپنے خاص انداز میں کہا تھا،

    ’’میرے پڑوس میں اگر کوئی عورت ہر روز خاوند سے مار کھاتی ہے اور پھر اس کے جوتے صاف کرتی ہے تو میرے دل میں اس کے لیے ذرہ برابر ہمدردی پیدا نہیں ہوتی لیکن جب میرے پڑوس میں کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑکر اور خودکشی کی دھمکی دے کر سنیما دیکھنے چلی جاتی ہے اور میں خاوند کو دو گھنٹے تک سخت پریشانی کی حالت میں دیکھتا ہوں تو مجھے دونوں سے ایک عجیب وغریب قسم کی ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ کسی لڑکے کو لڑکی سے عشق ہو جائے تو میں اسے زکام کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتا مگر وہ لڑکا میری توجہ کو ضرور کھینچے گا جو ظاہر کرے کہ اس پر سیکڑوں لڑکیاں جان دیتی ہیں لیکن درحقیقت وہ محبت کا اتنا ہی بھوکا ہے جتنا بنگال کا فاقہ زدہ باشندہ۔۔۔ میری ہیروئن چکلے کی ایک ٹکھیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی یہ ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آیا اور برسوں کی اچٹتی نیندیں اس کے بھاری پپوٹوں پر منجمد ہو گئی ہیں۔‘‘ (’’ادب جدید‘‘ ایضا، ص، ۵۲)

    حقیقت کے نامانوس یا سچائی کے نامقبول رخ کو دیکھنے اور سامنے لانے کی خواہش منٹو کے فن کا بنیادی محرک ہے۔ اس سیاق میں منٹو کے بعض کرداروں یعنی ان گری پڑی کسبی عورتوں کو دیکھا جائے جنھیں معاشرہ بالعموم راندۂ درگاہ سمجھتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کردار محض وہی کچھ ہیں جو بظاہر یہ نظر آتے ہیں اور اگر ایسا نہیں تو پھر یہ کیا ہیں؟

    منٹویات کی یہ ستم ظریفی خاصی دلچسپ ہے کہ منٹو کے ان ’’بدنام زمانہ‘‘ کرداروں کو منٹو کی زندگی میں تو غلط سمجھا ہی گیا، منٹو کی موت کے بعد بھی ان کو ٹھیک سے سمجھا نہیں گیا۔ اس عدم تفہیم کی وجوہ الگ الگ ہو سکتی ہیں لیکن نوعیت ایک ہے۔ یعنی جب تک منٹو زندہ رہا، مخالفت بر بنائے ذہنی تعصب تھی اور کون سی ذلت و رسوائی و ملامت و بدنامی ہے جو منٹو کے حصے میں نہ آئی اور کون سی گالی ہے جو منٹو کو نہ دی گئی۔ منٹو کی زندگی میں اس کے بارے میں جو لکھا گیا، زیادہ تر سطحی اور صحافیانہ اور لچروپوچ ہے۔ انتقال کے بعد رویہ بالکل بدل گیا لیکن اگر پہلے یکسر تنقیص ہی تنقیص تھی تو بعد کا انداز یکسر تعریفی و تقریظی ہے۔ یعنی اگر پہلے کلی تخالف وتردید ہے تو بعد میں مبالغہ آمیز تعریف وتحسین ہے۔

    دوسرے لفظوں میں اگر پہلا رویہ سراسر جذباتی اور غیرادبی تھا تو دوسرا رویہ بھی اتنا ہی غیرادبی اور غیرتخلیقی ہے۔ فقط زاویہ بدل گیا ہے۔ نوعیت وہی ہے یعنی تنقیص بھی سراسر جذباتی تھی اور تحسین بھی سراسر جذباتی ہے۔ گویا نہ پہلے رویہ کی نوعیت ادبی ہے نہ بعد کے رویے کی نوعیت ادبی ہے۔ نہ اس کی بنیاد سخن فہمی یعنی تفہیم و تجزیے پر ہے اور نہ اس کی۔ دونوں جگہ شدت کی کارفرمائی ہے اور جہاں شدت ہوگی وہاں یا تو کلی تنقیص ہوگی یا کلی توثیق، ادبی تنقید بیچ سے غائب ہو جائےگی، بالخصوص وہ تنقید جو معاملات سے معروضی فاصلہ چاہتی ہے اور متن کی گہری قرأت پر مبنی ہوتی ہے۔

    منٹو کی موت کے بعد گویا زاویہ یکسر بدل گیا۔ پہلے یکسر نفرت تھی تو بعد کو احساس مظلومیت اور جذبۂ ترحم اور وہی جو پہلے مذموم ومقہور تھا، راتوں رات مقدس ومتبرک ہو گیا اور اس کی عظمت کا قصیدہ پڑھا جانے لگا۔ چنانچہ منٹو کے بعد کی تنقید میں جنس کی خریدوفروخت اور طوائفوں، رنڈیوں اور کسبیوں کا ذکر بطور فیشن و فارمولے کے ہونے لگا۔ پہلے اگر یہ معیوب تھا تو اب یہ مستحسن سمجھانے جانے لگا۔ پہلے یہ فحاشی وعریانی کی ذیل میں آتا تھا، اب اس میں خود ترحمی و تفاخر کا جذبہ شامل ہو گیا۔ دوسرے لفظوں میں جتنا غلط یہ پہلے تھا اتنا غلط یہ بعد میں بھی رہا۔ موت سے پہلے منٹو فحش نگار اور مخرب اخلاق تھا، بعد کا منٹو فقط کوٹھوں، رنڈیوں، دلالوں اور بھڑووں کا فنکار بنا دیا گیا، اس کے تخلیقی درد وکرب، اس کے باطنی اضطراب، اس کے اتھاہ دکھ اور اس کے گہرے الم پر جیسی توجہ ہونا چاہیے تھی، وہ کلی استرداد اور کلی ایجاب کے ان غیرادبی جذباتی رویوں میں کہیں دب کر رہ گئی۔

    اس بات پر توجہ بہت کم کی گئی کہ منٹو نے بار بار اس حقیقت پر زور کیوں دیا ہے کہ ’’ہرعورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔‘‘ (’’عصمت فروش‘‘ ایضاً، ص، ۹۲) اس کا کہنا ہے، ’’کوئی وقت ایسا ضرور آتا ہوگا جب ویشیا اپنے پیشے کا لباس اتارکر صرف عورت رہ جاتی ہوگی۔‘‘ لیکن عام انسان جو کوٹھے پر جاتا ہے اس کو عورت سے سروکار نہیں فقط جنس سے سروکار ہوتا ہے۔ ’’ویشیا کے کوٹھے پر ہم نماز یا درود پڑھنے نہیں جاتے۔ ہم وہاں اس لیے جاتے ہیں کہ وہاں جاکر ہم اپنی مطلوبہ جنس بے روک ٹوک خرید سکتے ہیں۔‘‘ (’’سفید جھوٹ‘‘ ایضاً، ص، ۷۳)

    لیکن جو چیز منٹو کے تخلیقی ذہن میں اضطراب پیدا کرتی ہے وہ خریدی اور بیچی جا سکنے والی جنس نہیں بلکہ انسانی روح کا وہ درد وکرب ہے جو جسم کو بکاؤ مال بنانے سے پیدا ہوتا ہے یعنی انسانی عظمت کا سودا اور بے بسی اور بےچارگی کا گھاؤ جو وجود کو کھوکھلا اور زندگی کو لغو بنا دیتا ہے۔ مال کے دام تو لگائے جا سکتے ہیں، انسانی روح کی عظمت کے دام نہیں لگائے جا سکتے۔ منٹو شدید افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ ہماری تہذیب کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ’’بعض لوگوں کے نزدیک عورت کا وجود ہی فحش ہے۔ دنیا میں ایسے اشخاص بھی ہیں جو مقدس کتابوں سے شہوانی لذت حاصل کرتے ہیں۔‘‘ (تحریری بیان متعلقہ ’’دھواں‘‘ ایضا، ص، ۶۶)

    منٹو سوال اٹھاتا ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر خدا عورت کو خلق ہی کیوں کرتا، کیونکہ خدا سے کوئی ناپاک کام تو سرزد نہیں ہو سکتا۔ منٹو کو اس ضابطۂ اخلاق سے چڑھ تھی جو مرد اور عورت کے لیے دوہرے معیار وضع کرتا ہے۔ منٹو بار بار پوچھتا ہے کہ ’’کیا اخلاق زنگ نہیں جو سماج کے استرے پر بے احتیاطی سے جم گیا ہے؟‘‘ عریانی کی بحث کرتے ہوئے منٹو نے ایک جگہ کہا ہے، ’’عورت اور مرد کا رشتہ فحش نہیں، اس کا ذکر بھی فحش نہیں۔ اگر میں عورت کے سینے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں تو اسے عورت کا سینہ ہی کہوں گا، مونگ پھلی، میز یا استرہ نہیں کہوں گا۔‘‘ (ایضاً، ص، ۶۶)

    فحاشی اور سنسنی خیزی کا جواب دیتے ہوئے منٹو نے ایک موقع پر کہا تھا، ’’میں ہنگامہ پسند نہیں۔ میں لوگوں کے خیالات وجذبات میں ہیجان پیدا کرنا نہیں چاہتا۔ میں تہذیب وتمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔ میں اسے کپڑے پہنانے کی بھی کوشش نہیں کرتا۔ یہ میرا کام نہیں، درزیوں کا کام ہے۔‘‘ (ادب جدید، ایضاً، ص، ۵۳) منٹو کے فن کا یہ پہلو معمولی نہیں کہ کسبیوں اور رنڈیوں کی کہانیاں بنتے ہوئے منٹو بار بار ان کے جسم سے ہٹ کر ان کی روح کا نظارہ کراتا ہے۔ منٹو کے بعض ناقدوں نے لکھا ہے کہ متوسط طبقے کے جس ریاکارانہ اخلاق پر منٹو وار کرتا ہے، عورت کے معاملے میں اسی اخلاق کی نام نہاد روحانی اقدار سے وہ سمجھوتا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ شاید بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہو لیکن اصلیت اس کے برعکس ہے، اس لیے کہ منٹو کا محرک بہرحال جسم وجمال یا لذت کاری نہیں، بلکہ روح کی ویرانی وبے سروسامانی ہے یا وہ سوناپن اور سناٹا جو روح میں ہول پیدا کرتا ہے اور جہاں موت کا آسیب لہراتا رہتا ہے۔

    ’’عورتوں میں ننانوے فیصد ایسی ہوں گی جن کے دل عصمت فرشی کی تاریک تجارت کے باوجود بدکار مردوں کے دل کی بہ نسبت کہیں زیادہ روشن ہوں گے۔۔۔ بادی النظر میں عصمت باختہ عورتوں کا مذہب سے لگاؤ ایک ڈھونگ معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں یہ ان کی روح کا وہ حصہ پیش کرتا ہے جو سماج کے زنگ سے یہ عورتیں بچاکر رکھتی ہیں۔۔۔ جسم داغا جا سکتاہے مگر روح نہیں داغی جا سکتی۔‘‘ (’’عصمت فروش‘‘ ایضاً، ص، ۹۰)

    منٹو کے ان گرے پڑے کرداروں کو اس زاویے سے ازسر نو دیکھنے کی ضرورت ہے یعنی منٹو جسم کے داغوں کا فنکار ہے یا روح کے بے داغ ہونے کے قول محال کو بیانیہ میں متشکل کرنے کا فنکار؟ میری حقیر رائے ہے کہ منٹو جنس بازاری یا عصمت فروشی سے کہیں زیادہ اس درد و کرب کا فنکار ہے جو عورت کے Predicament یعنی مقدر سے پیدا ہوتا ہے، یعنی منٹو خارجی احوال سے زیادہ باطن کی واردات کا فنکار ہے۔ خارجی تفصیل اور معاشرتی منظرکشی سے لاکھ یہ مترشح ہوتا ہو کہ پیشے کا منظرنامہ تشکیل دیا جا رہا ہے، حقیقت اس کے برعکس ہے یعنی یہ کہ بین السطور باطن کا منظر نامہ وا ہوتا اور ابھرتا چلا جاتا ہے۔ منٹو اس اتھاہ دکھ کی تہہ لینا چاہتا ہے جو انسانیت کے نصف بہتر کا مقدر ہے یعنی اس اتھاہ دکھ کے دکھ پن کو تخلیقی طورپر انگیز کرپانے کی تڑپ فنکار منٹو کی اصلی تڑپ ہے۔ آئیے کچھ کہانیوں کے متن میں اتر کر دیکھیں۔

    ’’کالی شلوار‘‘ میں سب سے دردناک اور غور طلب مقام وہ ہے جب سلطانہ انبالہ سے دہلی آ چکی ہے اور پیر فقیر، گنڈے تعویذ کے باوجود پیشے میں مندا ہی مندا ہے، آخری کنگنی بھی بک چکی ہے، خدا بخش ساراسارا دن غائب رہتا ہے اور سلطانہ کا کوئی پرسانِ حال نہیں تو اسے لگتا ہے کہ خدا نے تو چھوڑا ہی تھا، خدا بخش نے بھی چھوڑ دیا ہے اور وہ ایک بے سروسامان ننگی نچڑی بے سہارا روح ہے جو زندگی کی پٹریوں پر ادھر سے اِدھر اور اِدھر سے اُدھر بے مقصد بھٹک رہی ہے،

    ’’سڑک کی دوسری طرف مال گودام تھا جو اس کونے سے اس کونے تک پھیلا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ کو لوہے کی چھت کے نیچے بڑی بڑی گانٹھیں پڑی رہتی تھیں اور ہر قسم کے مال اسباب کے ڈھیر سے لگے رہتے تھے۔ بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹریاں بچھی ہوئی تھیں۔ دھوپ میں لوہے کی پٹریاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹریوں کی طرح ابھری رہتی تھیں۔ اس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی رہتی تھیں۔ کبھی ادھر کبھی اُدھر۔ ان انجنوں اور گاڑیوں کی چھک چھک اور پھک پھک سدا گونجتی رہتی تھی۔ صبح سویرے جب وہ اٹھ کر بالکونی میں آتی تو ایک عجیب سماں اسے نظر آتا۔

    دھندلکے میں انجنوں کے منھ سے گاڑھا گاڑھاں دھواں نکلتا تھا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بڑے بادل بھی ایک شور کے ساتھ پٹریوں سے اٹھتے تھے اور آنکھ جھپکنے کی دیر میں ہوا کے اندر گھل مل جاتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو اکیلے پٹریوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آتا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے زندگی کی پٹری پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود بخود جا رہی ہے۔ دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جارہی ہے۔ نہ جانے کہاں۔۔۔ پھر ایک روز ایسا آئےگا جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہو جائےگا اور وہ کہیں رک جائےگی۔ کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہوگا۔‘‘

    منٹو کی خلاقانہ نظر ویشیا کی آرائش وزیبائش یا اندازواطوار پر نہیں بلکہ اس کی باطنی کیفیت پر مرتکز ہوتی ہے، جب وہ ظاہری لباس سے ہٹ کر فقط ایک عورت رہ جاتی ہے، گوشت پوست کی نرم دل عورت۔ ہماری تنقید نے اس لمحے پر بہت کم غور کیا ہے جب منٹو کا فن عورت کے داخلی وجود سے ہم کلام ہوتا ہے۔ درحقیقت منٹو کو جنس نگار کہنا اس کی تذلیل کرنا ہے۔ منٹو کا موضوع پیشہ ور طوائف یا آرائشی گڑیا ہرگز نہیں، بلکہ منٹو کا موضوع پیشہ کرنے والی عورت کے وجود کی کراہ یا اس کی روح کا الم یا اس کے باطن کا سونا پن ہے جس کو کوئی بانٹ نہیں سکتا۔ منٹو کے افسانوں میں ایسے موقعوں پر غور سے دیکھا جائے تو آرائشی بہروپ کی آلائش سے عورت کا باطن ایسے جھانکنے لگتا ہے جیسے پتیوں کو ہٹاکر کوئی کلی چٹکنے لگتی ہے۔ ایسے مقامات پر ویشیا کا وجود کوئی محدود کردار نہ رہ کر گویا کائنات کی دردمندی کے اتھاہ سنگیت کا حصہ بن کر عورت کے آرکی امیج سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔

    ’’ہتک‘‘ کی سوگندھی ایک ایسی ہی نحیف ونزار، پیار کے دو بولوں کو ترسی ہوئی، نچڑی، ملی دلی، بے بس و بےسہارا عورت ہے لیکن ذلت کی انتہا سے گزرنے کے بعد وہ خود آگہی کے اس لمحے پر پہنچتی ہے جب وہ عورت کے پورے وجود پر قادر نظر آتی ہے۔ منٹو نے افسانے کے آغاز ہی سے جہاں سوگندھی کی سادگی اور سادہ لوحی کا اور محبت کے دو بولوں کو ترسنے کا اور مادھو سے فریب کھانے اور مسلسل لٹتے رہنے کا تذکرہ کیا ہے، ماں کے آرکی امیج کا بیج وہیں سے سر اٹھانے لگتا ہے،

    ’’مجھ میں کیا برائی ہے؟‘‘ سوگندھی نے یہ سوال ہر اس چیز سے کیا تھا جو اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ گیس کے اندھے لیمپ، لوہے کے کھمبے، فٹ پاتھ کے چوکور پتھر اور سڑک کی اکھڑی ہوئی بجری۔۔۔ ان سب چیزوں کی طرف اس نے باری باری دیکھا پھر آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں جو اس کے اوپر جھکا ہوا تھا مگر سوگندھی کو کوئی جواب نہ ملا۔ جواب اس کے اندر موجود تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ بری نہیں اچھی ہے۔ پر وہ چاہتی تھی کہ کوئی اس کی تائید کرے۔۔۔ کوئی۔۔۔ کوئی۔۔۔ اس وقت کوئی اس کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر صرف اتنا کہہ دے، ’’سوگندھی کون کہتا ہے تو بری ہے، جو تجھے برا کہے وہ آپ برا ہے۔۔۔‘‘ نہیں یہ کہنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ کسی کا اتنا کہہ دینا کافی تھا، ’’سوگندھی تو بہت اچھی ہے!‘‘

    ’’وہ سوچنے لگی کہ وہ کیوں چاہتی ہے کہ کوئی اس کی تعریف کرے۔ اس سے پہلے اسے اس بات کی اتنی شدت سے ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ آج کیوں وہ بے جان چیزوں کو بھی ایسی نظروں سے دیکھتی ہے جیسے ان پر ان اچھے ہونے کا احساس طاری کرنا چاہتی ہے۔ اس کے جسم کا ذرہ ذرہ کیوں ’’ماں‘‘ بن رہا تھا۔۔۔ وہ ماں بن کر دھرتی کی ہر شے کو اپنی گود میں لینے کے لیے کیوں تیار ہو رہی تھی؟ اس کا جی کیوں چاہتا تھا کہ سامنے والے گیس کے آہنی کھمبے کے ساتھ چمٹ جائے اور اس کے سرد لوہے پر اپنے گال رکھ دے۔۔۔ اپنے گرم گرم گال اور اس کی ساری سردی چوس لے۔‘‘

    یہاں لفظوں کے پردوں سے کیا ’’جننی‘‘ کا وہ چہرہ نہیں جھانک رہا جو مرد کو جنتی ہے، پھر اس کے ہاتھوں ذلت برداشت کرتی ہے، وجود کی شکست کی انتہا کو پہنچتی ہے۔ ریزہ ریزہ ٹکڑوں کو جن میں سے ہر ٹکڑا ازلی درد کی تمثال ہے، مجتمع کرتی ہے اور پھر خود ہی وجود کے وقار کو بحال کرتی ہے۔ یہ تخلیق کے دائروی عمل کا رمز ہے۔ سوگندھی ایک ویشیا ہے لیکن اس کے باطن میں یہ کیسی سرسراہٹ ہے۔ ان جملوں کو دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔

    ’’آج کیوں وہ بے جان چیزوں کو بھی ایسی نظروں سے دیکھتی ہے جیسے ان پر اپنے اچھے ہونے کا احساس طاری کر دینا چاہتی ہے۔ اس کے جسم کا ذرہ ذرہ کیوں ’’ماں‘‘ بن رہا تھا۔۔۔ وہ ماں بن کر دھرتی کی ہرشے کو اپنی گود میں لینے کو کیوں تیار ہو رہی تھی؟‘‘

    کیا یہ ’’کرونا‘‘ کے وشال روپ کا یا ممتا یعنی عورت کے ترفع یافتہ تخلیقی وجود کا چہرہ نہیں جو کائنات کے بھید بھرے سنگیت کا حصہ ہے لیکن جو کانوں میں اسی وقت آتا ہے جب ہم ظاہری معمولہ حقائق کی آلائشوں میں گھری آنکھوں کو بند کر لیتے ہیں اور اندر کی آنکھوں سے متن کی روح میں سفر کرتے ہیں۔ کرونا کی یہ تہ نشیں لہر پورے بیانیہ کی Irony میں جاری رہتی ہے جو سوگندھی اور مادھو کے رشتے کے قول محال کی صورت میں تشکیل پذیر ہوتا رہتا ہے۔ حتی کہ رات کے پچھلے پہر کی پراسرار خاموشی میں ٹارچ کی چکاچوند اور سیٹھ کی ’’اونھ‘‘ روٹین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ’’گالی اس کے پیٹ کے اندر سے اٹھی اور زبان کی نوک پر آکر رک گئی۔ وہ آخر گالی کسے دیتی۔ موٹر تو جا چکی تھی۔ اس کی دُم کی سرخ بتی اس کے سامنے بازار کے اندھیارے میں ڈوب رہی تھی اور سوگندھی کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ لال لال انگارہ’’اونھ‘‘ اس کے سینے میں برمے کی طرح اترتی چلی جا رہی ہے۔‘‘

    اس بھیانک صدمہ زدگی میں مادھو کے ساتھ جو بھی ہوا کم تھا۔ یہاں وجود کی دہشت اور کڑوی اداسی کو منٹو نے جس طرح ابھارا ہے، فنی حسن کاری کا عجوبہ ہے۔ کالی شلوار والی ’’زندگی کے شیڈ میں کھڑی خالی سنسان ٹرین‘‘ جو منٹو کے فن میں عورت کے وجود کا استعارہ ہے، منٹو نے اس کو یہاں بھی ابھارا ہے اور سونے پن اور سناٹے کی کیفیت کا عجیب وغریب اثر پیدا کیا ہے،

    ’’خارش زدہ کتے نے بھونک بھونک کر مادھو کو کمرے سے باہر نکال دیا۔ سیڑھیاں اترکر جب کتا اپنی ٹنڈ منڈ دم ہلاتا سوگندھی کے پاس واپس آیا اور اس کے قدموں کے پاس بیٹھ کر کان پھڑپھڑانے لگا تو سوگندھی چونکی۔ اس نے اپنے چاروں طرف ایک ہولناک سناٹا دیکھا۔۔۔ ایسا سناٹا جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، اسے ایسا لگا کہ ہر شے خالی ہے جیسے مسافروں سے لدی ہوئی ریل گاڑی اسٹیشنوں پر مسافر اتار کر اب لوہے کے شیڈ میں بالکل اکیلی کھڑی ہے۔۔۔‘‘

    ایسا بھی نہیں کہ منٹو کے یہاں فقط ایک آواز ملتی ہو یعنی مصنف کی آواز، منٹو کا فن آوازوں کا نگارخانہ ہے۔ کسبی عورتوں کو اپنے پیشے کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں۔ سوگندھی سے جب مادھو کی پہلی ملاقات ہوتی ہے تو وہ کہتا ہے، ’’تجھے لاج نہیں آتی اپنا بھاؤ کرتے۔ جانتی ہے تو میرے ساتھ کس چیز کا سودا کر رہی ہے، چھی چھی چھی۔۔۔ دس روپے اور جیسا کہ تو کہتی ہے ڈھائی روپے دلالی کے، باقی رہے ساڑھے سات، رہے نا ساڑھے سات۔ اب ان ساڑھے سات روپیوں پر تو مجھے ایسی چیز دینے کا وچن دیتی ہے جو تو دے ہی نہیں سکتی اور میں ایسی چیز لینے آیا ہوں جو میں لے ہی نہیں سکتا۔۔۔‘‘

    ایسا ہی کالی شلوار میں ہوتا ہے۔ کالی شلوار میں جب سلطانہ شنکر سے ملتی ہے تو اس سے پوچھتی ہے،

    ’’آپ کام کیا کرتے ہیں؟‘‘

    ’’یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’تم کیا کرتی ہو؟‘‘

    ’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ کچھ بھی نہیں کرتی۔‘‘

    ’’میں بھی کچھ نہیں کرتا۔‘‘

    سلطانہ نے بھناّ کر کہا، ’’یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہوں گے۔‘‘

    ’’تم بھی کچھ نہ کچھ ضرور کرتی ہوگی۔‘‘

    ’’جھک مارتی ہوں۔‘‘

    ’’میں بھی جھک مارتا ہوں۔‘‘

    ’’تو آؤ دونوں جھک ماریں۔‘‘

    ’’میں حاضر ہوں۔ مگر جھک مارنے کے دام میں کبھی نہیں دیا کرتا۔‘‘

    ’’ہوش کی دوا کرو۔۔۔ یہ لنگر خانہ نہیں۔‘‘

    ’’اور میں بھی والنٹیر نہیں۔‘‘

    ’’میں بھی الو کی پٹھی نہیں۔‘‘

    ’’مگر وہ آدمی خدا بخش جو تمھارے ساتھ رہتا ہے، ضرور الو کا پٹھا ہے۔‘‘

    باختن کے لفظوں میں منٹو کا فن Monologic نہیں بلکہ دستووسکی کی طرح Dialogic یا Polyphonic ہے جس میں سوچ کی کئی تہیں یا کئی آوازیں ایک ساتھ ابھرتی ہیں اور مصنف کرداروں کے مختلف نقطہ ہائے نظر کو آزادانہ ابھرنے دیتا ہے اور انھیں اپنے فکر کے تابع لاکر زبردستی ان میں وحدت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ منٹو کے کردار مصنف کے زائیدہ ہیں لیکن وہ مصنف کی اپنی سوچ میں ضم ہوں ایسا نہیں۔ ایک بہت ہی مختلف اور دلچسپ کردار بابو گوپی ناتھ ہے۔ مزے کی بات ہے کہ اس میں مصنف بطور راوی شروع سے آخر تک موجود ہے اور اختتامیہ میں خستگی اور ندامت آمیز Irony کے لمحے کو راہ دینے کا حوالہ بھی اسی کا چبھتا ہوا جملہ ہے لیکن یہ کہانی واقعتاً کرداروں کا نگار خانۂ رقصاں ہے، عبدالرحیم سنیڈو، غفار سائیں، غلام علی، کشمیری کبوتری زینت بیگم، ٹین پٹوٹی فل فل فوٹی مسز عبد الرحیم عرف سردار بیگم، محمد شفیق طوسی، محمد یٰسین، غلام حسین وغیرہ وغیرہ چھوٹے بڑے سب کردار اپنا پنا رویہ، اپنا انداز، اپنے اطوار اور اپنی نفسیات رکھتے ہیں اور اپنے نقطۂ نظر، اپنی زبان اور اپنے محاورے میں بات کرتے ہیں۔

    یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ Polyphony کی اس سے بہتر مثال اردو افسانے میں شایدہی ملے۔ بابو گوپی ناتھ بظاہر بہت سی متضاد باتوں کا مجموعہ ہے لیکن منٹو نے اس کے عمل کی سچائی کو اس طرح تراشا ہے کہ اس میں حد درجہ انسانی ارتباط پیدا ہو گیا ہے۔ بابو گوپی ناتھ زینت کا بہت خیال کرتا ہے۔ زینت کی آسائش کے لیے ہر سامان مہیا ہے لیکن ان دونوں میں عجیب سا کھچاؤ بھی ہے۔ بابو گوپی ناتھ کو فقیروں اور کنجروں کی صحبت کا شوق ہے۔ اس نے سوچ رکھا ہے کہ جب دولت ختم ہو جائےگی تو کسی تکیے میں جا بیٹھےگا۔ رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار، بس دو ہی جگہیں ہیں جہاں اس کے دل کو سکون ملتا ہے۔ ’’اس لیے کہ ان دونوں جگہوں پر فرش سے عرش تک دھوکا ہی دھوکا ہوتا ہے۔ جو آدمی خود کو دھوکا دینا چاہے اس کے لیے ان سے اچھا مقام اور کیا ہو سکتا ہے۔۔۔ رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کراتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے۔‘‘

    بابو گوپی ناتھ کی رنڈی نوازی اور مصاحب پرستی میں اور زینت کی سادہ لوجی بلکہ بے حسی میں عجیب طرح کا گدلا مزاح Dark Humour ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے منٹو رنڈی بازی کے اس ماحول کے بخیے اُدھیڑ کر اس طبقے کو اندر باہر سے دیکھ رہا ہو جس کی ستم ظریفیوں سے یہ گھناؤنا ماحول پنپتا ہے۔ لیکن منٹو دکھاتا ہے کہ دھوکا دھڑی اور گندگی کے اس ماحول میں ایک روشن لکیر، خوش دلی، ٹھٹھول اور خلوص اور ایثار کی بھی ہے۔ لیکن ایثار وہ نہیں جو بتانے اور جتانے کے لیے ہوتا ہے بلکہ وہ بے لوث لگاؤ جس کا اجالا کسی جھرنے کی طرح اندر سے پھوٹتا ہے اور جس میں کوئی مول تول، کوئی سودا نہیں ہوتا، کوئی غرض کوئی لین نہیں ہوتا، فقط دین ہی دین ہوتا ہے۔

    دراصل ایثار بھی اس نوع کے جذبے کے لیے ایک معمولی سا لفظ ہے۔ لگتا ہے منٹو کے فن نے رنڈی کی روح میں دبی جس کرونا اور ممتا کو سوگندھی میں بروئے کار لانے میں اپنی معراج کو پا لیا، بابو گوپی ناتھ بھی اسی سکہ کا دسرا رخ ہے یعنی مردانہ رخ۔ کنجروں اور بھڑووں کی حرام کاری، لوٹ کھسوٹ اور خبث کی ظلمت میں منٹو نے جس طرح اس نور کو کاڑھا ہے، منٹو کا حصہ ہے۔ کرونا کا ذکر وارث علوی نے آخر میں سہی، کیا تو ہے، لیکن ممتا کی روح کو وہ نہ پا سکے۔)

    لیکن بات سوگندھی یا بابو گوپی ناتھ پر ختم نہیں ہوتی۔ منٹو کے یہاں یہ سکہ برابر الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔ اگر سوگندھی چت ہے تو بابو گوپی ناتھ پَٹ اور اگر بابو گوپی ناتھ پٹ ہے تو ’’جانکی‘‘ یا ’’موذیل‘‘ یا ’’بو‘‘ کی گھاٹن چت ہیں۔ بالعموم ممتا سے جو سرچشمۂ محبت وخدمت مراد ہے، اس معنی میں دیکھنا ہو تو ’’جانکی‘‘ سے زیادہ اس توقع پر کون پورا اتر سکتا ہے۔ جانکی حالانکہ رنڈی نہیں، لیکن ایک مرد سے دوسرے کے تصرف میں آتی جاتی رہتی ہے یعنی استحصال کا سانچا اور تقاضا بدلتا رہتا ہے، لیکن نہیں بدلتے تو جانکی کے جذبات جس سے ممتا کی پھوار برستی رہتی ہے۔

    وہ پشاور سے بمبئی پہنچتی ہے۔ پشاور میں وہ عزیز کی محبوبہ تھی اور شب وروز عزیز کی نگہداشت میں لگی رہتی تھی، اس کی دوا دارو اور علاج معالجے سے لے کر اس کے کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے تک ہر چیز کا جانکی خیال رکھتی تھی اور یہ سب کچھ وہ اپنے شوق سے کرتی تھی۔ بمبئی آنے کے بعد رفتہ رفتہ وہ سعید کی دیکھ بھال کرنے لگی۔ عزیز کو اس کا یہ طور پسند نہ آیا۔ بعد میں سعید نے بھی اس کو چھوڑ دیا تو اس نے نرائن سے رشتہ پیدا کر لیا۔ مرد خواہ کوئی ہو اور اس کی خوبی کچھ ہو، جانکی جانکی رہتی ہے، یعنی محبت و نیکی و ایثار کا سرچشمۂ فیضان۔

    یہاں ایک لمحہ رک کر اس بات پر غور کرنے میں حرج نہیں کہ منٹو، ان ویشیا کرداروں میں جس عورت کو کھوجتا ہے، کیا اس کے ذہن کے نہاں خانوں یا لاشعور کے دھندلکوں میں کوئی ایسا امیج ہے جس کی تعبیر اس نوع کے کرداروں سے نکلتی ہو۔ منٹو کے بچپن کے حالات زیادہ معلوم نہیں۔ اس کے سوانح نگاروں نے جو تھوڑی بہت معلومات فراہم کی ہیں، ان سے البتہ اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ منٹو کا باپ نہایت سخت گیر اور سنگ دل شخص تھا۔ بھائی ضرور تھے مگر سوتیلے، ایسے میں لے دے کر ماں تھی ’’بی بی جان‘‘ جو اس خلا کو بھر سکتی تھی اور جس کی آغوشِ شفقت منٹو کی واحد پناہ گاہ ہو سکتی تھی۔

    منٹو کے تحت الشعور میں ’’ماں‘‘ بسی ہوئی ہے۔ وہ ممتا کے دکھ کو کو کھوجتا ہے۔ ظاہر ہے کہ منٹو کا ذہن شروع ہی سے دردوکرب کی آماجگاہ تھا۔ منٹو کے باطن کی کراہ کئی جگہ سنائی دیتی ہے، ’’اے خدا، اے رب العالمین۔۔۔ احے رحیم، اے کریم۔۔۔ سعادت حسن منٹو کو۔۔۔ اس دنیا سے اٹھالے جہاں نور میں وہ اپنی آنکھیں نہیں کھولتا لیکن اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔۔۔ جہاں رونا ہے، وہاں ہنستا ہے اور جہاں ہنسنا ہے وہاں روتا ہے۔۔۔‘‘ (’’پس منظر‘‘ ایضاً، ص، ۱۵۹)

    منٹو کے لیے محبت اور ممتا اور الم الگ الگ حقیقت نہیں، ایک ہی حقیقت کے نام ہیں۔ دکھ یا اداسی کا جو گہرا تصور منٹو کے یہاں بار بار ابھرتا ہے، وہ کرونا کے اس ارتفاعی تصور سے زیادہ دور نہیں جو بودھی سوچ میں ملتا ہے۔ منٹو نے ایک جگہ لکھا ہے، ’’الم ہی انسانیت کی قسمت ہے۔ الم ہی سعادت حسن منٹو ہے۔ یہ الم ہی آپ ہیں۔ یہ الم ہی ساری دنیا ہے۔‘‘ (’’کسوٹی‘‘، ایضاً، ص، ۸۶)

    منٹو کے فن کی بنیادی حقیقت یہی ہے کہ منٹو نے انسانیت کو ’’الم‘‘ ہی کی راہ سے سمجھا تھا۔ منٹو عورت کے بارے میں بار بار کہتا ہے کہ جسم داغا جا سکتا ہے روح نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ عصمت فروش عورتیں ان مردوں کی بہ نسبت زیادہ خدا ترس اور رحم دل ہوتی ہیں جو ان کی عصمت کا سودا کرنے آتے ہیں۔ یہ اپنی شفاعت کے لیے کسی نہ کسی مورتی، کسی نہ کسی پیر فقیر یا کسی نہ کسی اعتقاد کا ضرور دھیان کرتی ہیں، یا شاید ’’اس نوع کا روحانی جذبہ ان کے وجود کا وہ حصہ ہے جسے وہ عصمت فروشی سے بچاکر رکھتی ہیں۔‘‘

    اس تناظر میں دیکھیں تو ’’موذیل‘‘ کی وجودی جہات ہی دوسری ہیں۔ وہ ہر طرح کے مذہبی شعار اور ظواہر کے خلاف ہے۔ وہ ایک خوش مزاج، خوش باش، لاابالی یہودی لڑکی ہے جو بات بات پر ترلوچن اور پابند وضع سردار جی کی وضع قطع کا مذاق اڑاتی ہے۔ لیکن یہی موذیل وقت آنے پر ترلوچن کا ساتھ دیتی ہے، فساد پھوٹ پڑنے پر ترلوچن کے ساتھ فساد زدہ علاقے میں مردانہ وار جاتی ہے اور ترلوچن کی منگیتر کرپال کور کو بچاتے بچاتے خود فسادیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہاں تناظر کسی کوٹھے یا کسبی کا نہیں، لیکن موذیل کے ذریعے منٹو ایک بار پھر یہ ثابت کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے کہ ایک ایسی گھڑی میں جب بربریت عام رویہ ہے اور انسان گناہ کے قعر میں گرا ہوا ہے، ایک معمولی آوارہ منش لاابالی لڑکی روشنی کی کرن بن کر نجات دہندہ ثابت ہوتی ہے۔

    یہاں بہت سوں کو ’’بو‘‘ کا ذکر بے محل لگے گا، کیونکہ یہاں نہ تو کوئی کسبی ہے، نہ ہی نجات کا کوئی پہلو ہے۔ دیکھا جائے تو گناہ اور ثواب اور سزا و جزا کا بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ اوپر منٹو کے افسانوں کے مختلف کرداروں اور ان کے مختلف رویوں کا ذکر کیا گیا جن کو ’’آوازیں‘‘ کہا گیا۔ گھاٹن عورت پوری کہانی میں شاید ایک لفظ بھی نہیں بولتی، فقط جب بارش میں شرابور چولی کی گانٹھ اس سے نہیں کھلتی تو وہ منھ ہی منھ مراٹھی میں کچھ بڑبڑاتی ہے۔ پوری کہانی میں سوائے اس ایک لفظ کے خاموشی اور سناٹا ہے اور یہ خاموشی اور سناٹا اور گھاٹن کا خاموش وجود وہ’’آواز‘‘ ہے جو کہانی میں گہری معنویت قائم کرتی ہے۔

    اس کہانی کو موسموں کے آنے جانے، بارش کی بوندوں کے گرنے اور دھرتی کی پیاسی کوکھ کے بھیگنے یا پرش اور پرا کرتی کے ملاپ کی تعبیر کے طور پر بھی پڑھا جا سکتا ہے اور اس میں ایک عجیب سریت اور وارفتگی ہے۔ منٹو نے تخلیقی محویت میں کہانی کو جس طرح بُنا ہے، اس میں بادلوں کے گھر آنے اور پیپل کے پتوں کے سرسرانے اور ننھی ننھی بوندوں میں نہانے کا بار بار ذکر آتا ہے، یوں گھاٹن بطور ’’پراکرتی‘‘ بار بار ذہن کے پردے پر ابھرتی ہے۔

    ’’برسات کے یہی دن تھے۔ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے۔۔۔ رات کے دودھیا اندھیرے میں جھومروں کی طرح تھرتھرا رہے تھے۔۔۔ جب اس نے اپنا سینہ اس کے سینے کے ساتھ ملایا تو رندھیر کے جسم کے ہر رونگٹے نے اس لڑکی کے بدن کے چھڑے ہوئے تاروں کی بھی آواز سنی تھی، مگر وہ آواز کہاں تھی؟ وہ پکار جو اس نے گھاٹن لڑکی کے بدن کی بو میں سونگھی تھی۔۔۔ وہ پکار جو دودھ کے پیاسے بچے کے رونے سے زیادہ مسرور کن ہوتی ہے، وہ پکار جو حلقۂ خواب سے نکل کر بے آواز ہو گئی تھی۔‘‘

    اسی طرح کہانی کے آخر میں جب گھاٹن نہیں بلکہ گوری چٹی لڑکی جس کا جسم دودھ اور گھی میں گندھے ہوئے آٹے کی طرح ملائم تھا، لیٹی ہوئی ہے، تب پھر برسات کی بوندوں اور بادلوں کا منظرنامہ ہے۔ ’’رندھیر کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اس کے بالکل قریب ہی پیپل کے نہائے ہوئے پتے جھوم رہے تھے۔ وہ ان کی مستی بھری کپکپاہٹوں کے اس پار کہیں بہت دور دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا جہاں مٹ میلے بادلوں میں عجیب و غریب قسم کی روشنی گھلی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ ٹھیک ویسے ہی جیسی اس گھاٹن لڑکی کے سینے میں اسے نظر آئی تھی۔ ایسی روشنی جو پراسرار گفتگو کی طرح دبی لیکن واضح تھی۔‘‘اس کہانی کو جنسی تلذذ کی کہانی کے طور پر پڑھنا منٹو کی توہین کرنا ہے۔ پوری کہانی میں گھاٹن کا تصور جسمانی کم اور ارتفاعی زیادہ ہے۔

    ’’مٹ میلے رنگ کی جوان چھاتیوں میں جو بالکل کنواری تھی، ایک عجیب وغریب قسم کی چمک پیدا ہو گئی تھی، جو چمک ہوتے ہوئے بھی چمک نہیں تھی۔ اس کے سینے پر یہ ابھار دو دیے معلوم ہوتے تھے جو تالاب کے گدلے پانی پر جل رہے تھے۔‘‘ رندھیر ’’پرش‘‘ ہے اور گھاٹن ’’پراکرتی‘‘ جو بظاہر بے تفاعل ہے لیکن پورے وجود کو باہوں میں لیے ہوئے ہے اور سکھ اور آنند کی دینے اور لینے والی ہے۔

    آخر میں کچھ سرسری اشارے نسبتاً کم معروف کہانیوں کی طرف۔ مثلاً ’’شاردا‘‘، ’’فوبھابائی‘‘ اور ’’برمی لڑکی‘‘ میں بھی عورت خیرومحبت یا ایثاروقربانی کے سرچشمۂ فیضان کے طور پر سامنے آتی ہے۔ ’’برمی لڑکی‘‘ میں لڑکی نسیمِ صبح گاہی کے ایک جھونکے کی طرح آتی ہے، دو تین دن دو لڑکوں کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہتی ہے اور یہ جاوہ جا۔ لڑکی تو چلی جاتی ہے لیکن فلیٹ کی ہر شے پر وہ اپنے سلیقے، نسائیت اور ماں پن کی چھاپ چھوڑ جاتی ہے جس کو دونوں لڑکے رہ رہ کر یاد کرتے ہیں۔

    ’’برمی لڑکی‘‘ کے برعکس ’’فوبھا بائی‘‘ (شوبھا بائی) اور شاردا دونوں اصلاً ماں ہیں۔ شاردا کا وجود اور بھی بھرا پُرا ہے کیونکہ اس کے ماں پن میں ماں تو ہے، ایک بہن، ایک بیوی اور ایک ویشیا بھی ہے اور ان میں سے کوئی پہلو کسی دوسرے پہلو سے ٹکراؤ میں نہیں۔ فوبھا بائی کہیں زیادہ المیہ وجود ہے کہ وہ شہر میں آکر پیشہ کر رہی ہے تاکہ پیچھے وہ جس بیٹے کو چھوڑ آئی ہے اس کو پال سکے۔ بدقسمتی سے بیٹا مر جاتا ہے اور فوبھا بائی جو جو پیشے کی آڑ میں اپنے اندر کی ماں کو بچانے کی کوشش میں تھی، تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ’’سڑک کے کنارے‘‘ میں عورت ماں تو بن جاتی ہے لیکن ماں پن اس اعتبار سے ادھورا رہتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی ماں نہیں بن سکتی اور رات کی تاریکی میں بچے کو سڑک کے کنارے چھوڑ دینے پر مجبور ہے۔ عورت کی گھائل روح کے حوالے سے یہاں بھی جو سوال منٹو نے اٹھایا ہے وہ جنسی کم اور وجودی زیادہ ہے،

    ’’دو روحوں کا سمٹ کر ایک ہو جانا، اور ایک ہوکر والہانہ وسعت اختیار کر جانا۔۔۔ کیا یہ سب شاعری ہے۔۔۔؟ نہیں، دو روحیں سمٹ کر ضرور اس ننھے سے نقطے پر پہنچتی ہیں جو پھیل کر کائنات بنتا ہے۔۔۔ لیکن اس کائنات میں ایک روح کیوں کبھی کبھی گھائل چھوڑ دی جاتی ہے۔۔۔ کیا اس قصور پر کہ اس نے دوسری روح کو اس ننھے سے نقطے پر پہنچنے میں مدد دی تھی۔‘‘

    غرضیکہ یہ الم انسان کا مقدر ہے۔ منٹو کے تخلیقی ذہن پر اس الم کی پرچھائیں برابر لہراتی رہتی ہے اور اس کے سکون کو ڈستی رہتی ہے۔ منٹو کا تحت الشعور زیادہ تر اسی الم کے زہر سے اپنی شکلیں تراشتا اور امرت نکالتا ہے۔ منٹو کی گری پڑی عورتیں اور ویشیائیں اسی الم کی زائیدہ ہیں اور اسی الم کے زہر اور امرت کے گھال میل سے بنی ہیں۔ بار بار یہ الم منٹو میں ایک ایسے اضطراب کو پیدا کرتا ہے جہاں یقین اور عدم یقین کی حدیں دھندلا جاتی ہیں۔

    ’’میں دراصل آج کل اس جگہ پہنچا ہوا ہوں جہاں یقین اور انکار میں تمیز نہیں ہو سکتی۔ جہاں آپ سمجھتے ہیں اور نہیں بھی سمجھتے۔ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا ساری کی ساری مٹھی میں چلی آئی ہے اور بعض اوقات یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہاتھی کے جسم پر چیونٹی کی طرح رینگ رہے ہیں۔‘‘ (احمد ندیم قاسمی کے نام، نقوش منٹو نمبر)

    اس بحث سے یہ رخ سامنے آتا ہے کہ اپنے اعلیٰ ترین لمحوں میں منٹو کا فن کائنات کے اسرار سے ہم آہنگ ہونے کا حوصلہ رکھتا ہے اور اس بھید بھرے سنگیت میں منٹو کا سر الم اور دردمندی کا سر ہے۔ منٹو نے زندگی کے تجربے سے پایا کہ کائنات میں سب سے زیادہ گھائل روح عورت کی ہے جو کارگاہ ہستی میں اپنی عزیز ترین متاع کو بیچنے پر مجبور ہے لیکن مرد کی اخلاق باختگی اور ہوس پرستی کے الٹے عورت ہی کو معتوب ومطعون کیا جاتا ہے۔ منٹو Doxa کی نقاب اسی لیے نوچ پھینکتا ہے کہ وہ اشرافیہ کو ننگا کر سکے۔ منٹو کا فن عورت کی گھائل روح کی کراہ اور درد کی تھاہ کو پانے کا فن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر منٹو کے کردار گوشت پوست کے عام انسانوں سے کہیں زیادہ سچے، کہیں زیادہ پائیدار اور کہیں زیادہ دردیلے بن جاتے ہیں۔ وہ ہمیں صدمہ پہنچاتے، جھنجھوڑتے اور کچوکے لگاتے ہیں۔ ان کا جمالیاتی اثر لازوال اسی لیے ہے کہ زندگی کے بھید بھرے سنگیت میں وہ الم، دردمندی، کرونا اور ممتا کے کچھ ایسے سروں کے نقیب ہیں جو کارخانۂ قدرت کے بنیادی آہنگ کا حصہ ہیں اور جن کو کو ئی نام دینا آسان نہیں۔

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    મધ્યકાલથી લઈ સાંપ્રત સમય સુધીની ચૂંટેલી કવિતાનો ખજાનો હવે છે માત્ર એક ક્લિક પર. સાથે સાથે સાહિત્યિક વીડિયો અને શબ્દકોશની સગવડ પણ છે. સંતસાહિત્ય, ડાયસ્પોરા સાહિત્ય, પ્રતિબદ્ધ સાહિત્ય અને ગુજરાતના અનેક ઐતિહાસિક પુસ્તકાલયોના દુર્લભ પુસ્તકો પણ તમે રેખ્તા ગુજરાતી પર વાંચી શકશો

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے