مرحوم سے پہلی ملاقات ایک تصویر کے ذریعے ہوئی۔ گلفشاں چہرہ۔ بولتی ہوئی روشن آنکھیں۔ گھنگھریالے بال۔ ٹوپی اور چھڑی ہاتھ یوں تھامے ہوئے تھے کہ ٹوپی کتاب اور چھڑی فاؤنٹین پین لگتی تھی۔ خیال تھا کہ پڑھے لکھے آدمی ہوں گے لیکن ایک محفل میں ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ علوم متداولہ کی تحصیل ہمیشہ ان کی نظر میں ہیچ رہی۔ اس لیے اسکول کی دوچار جماعتیں پڑھ کر گلوخلاصی حاصل کرلی۔ البتہ زندگی کے کالج سے جو تعلیم حاصل کی وہ ایم اے، پی ایچ ڈی وغیرہ سے کم نہ ہوگی۔ انسانی نفسیات ان کا محبوب موضوع تھا اور دوستوں کی دکھتی رگ کو پہچاننے میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ مرحوم کی امتیازی صفت یہ تھی کہ ہمیشہ دوست کی کمزوری اور اپنے فائدے پر نظر رکھتے۔ جب تک اپنے مفاد کا جوہر کشید ہوتا رہتا اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے اوردوستی کا دم بھرتے، جونہی بھرم کھل جاتا یہ بھی منہ موڑ لیتے اور اپنے بالا خانے پر مسند جماکر دوستوں کا مردہ خراب کرتے۔
شہرت کی ہوس عمر کے وسطی دور میں پیدا ہوئی تو شاعر بننے کی سوجھی۔ فوراً مقامی شاعروں کا دربار جمایا اور خود اس کے راجہ اندر بن بیٹھے۔ حلیم انصاری اور پھیپھڑا گردہ آبادی اس دربار کی سرخ و سبز پریاں تھیں۔ یہیں سے مرحوم کو پہلے شعرکہنے کا اور پھر چھپوانے کا شوق پیدا ہوا۔ عروض عبدالقدیر وصفؔ سے اوراصلاحِ سخن کا فن مولاناانجم وسطی سے سیکھا۔ پھر بھی کلام سے بے رنگی دور نہ ہوئی اور رسائل میں چھپنے کی نوبت نہ آسکی۔ بالآخر اپنارسالہ جاری کرلیا جس میں اپنی غزل اورنام یکساں قط کے جلی قلم سے شائع کرتے اور ہر رسالے کے سرورق پر اپنے بچپن کی تصویریں چھاپتے۔ حجرہ شاہ مقیم کالا شاہ کاکو اور پنڈی بھٹیاں کے تمام بڑے شاعروں نے جن کا کلام ان کے رسالے میں بالالتزام شائع ہوتا تھا انہیں ملک الشعرا تسلیم کیا۔ اور خطوط میں انہیں شاعری کی آبرو کہنے پر اصرار کیا۔ یہ تمام خط ان کے رسالے کے بہرۂ مراسلات میں شائع ہوچکے ہیں تاکہ ادب میں ان کا مقام متعین کرنے میں نقاد کو سہولت ہو۔ مرحوم کے بعض حاسدوں کاخیال ہے کہ یہ خطوط ان کے اپنے ہی لکھے ہوئے تھے جورسالوں میں فرضی ناموں سے شائع ہوئے۔ یہ بات اگر سچ بھی ہو تو ان کے ادبی مرتبے پر کوئی حرف نہیں آتا۔
مرحوم موضوع کی تلاش کے لیے شہر کے تمام کونے کھدروں کا سفر سائیکل پر کرتے۔ جہاں کہیں حسن کی جھلک دیکھتے فوراً اٹن شن ہوکر فکرِ سخن میں غرق ہوجاتے۔ فطرت کے نگاریں چہروں سے اکتسابِ حسن ان کا مشغلہ لطف تھا اور یہ ان کے تخلیقی جذبہ کے لیے ہمیشہ مہمیز کا کام دیتا۔ مرحوم اپنے آپ کو ان دیوداسیوں کا پجاری سمجھتے تھے جن کے چرن دیوتا چھوتے ہیں۔ سائیکل بڑی تیزی سے چلاتے تھے۔ کبھی کبھی وِدّیا کی متلاشی کوئی دیوداسی شانتی کوتج کر جوتا سنبھال لیتی تو سائیکل کی رفتار اور تیز ہوجاتی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس وقت ان کی سائیکل کا رخ ہمیشہ گھر کی طرف ہوتا اور اس عالم میں وہ کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھتے۔
مرحوم تخلیقِ شعر کے لیے داخلی جذبے کو کم اور خارجی عوامل کو زیادہ پیش نظر رکھتے تھے۔ بیڑی۔ چرس اور شراب کی طلائی تثلیت ان کے معمولاتِ عام میں شامل تھی۔ کبھی کبھی مشاعرہ پڑھنا ہوتا تو ٹنکچرز نجی بیرس سے شغل ناؤ نوش کرتے، مرحوم پر دلتاری ذہن رکھتے تھے اس لیے تمام عمر اچھی شراب سے نفرت رہی۔ ہاں کبھی شیخ محمد حسین فیصلؔ کے بالاخانے سے ایک آدھ جرعہ مل جاتا تو بربنائے انکسار انکار نہ کرتے بلکہ شیخ صاحب سے کہہ کر بڑے گوشت کے کباب بھی منگواتے۔ ان کے ایک ہم عصر نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ ’’جب بیڑی پیتے ہیں تو فلسفی لگتے ہیں۔‘‘ اس قول کو نبھانے کے لیے ساری عمر دھوئیں کے مرغولے ہوا میں چھوڑ کر خلاؤں میں جھانکتے رہے۔
مرحوم غچہ دینے کے فن میں ماہر تھے۔ رسالہ چھاپتے تو ادیبوں کو شہرت کا غچہ دے کر بلامعاوضہ مضامین حاصل کرلیتے۔ پرانے رسائل کے مضامین پر قینچی چلاکر ایڈیٹروں کو غچہ دے لیتے۔ مشاعرہ منعقد کرتے تو شاعروں کو حقِ خدمت اداکرتے اوردسیوں مرتبہ مفت پڑھوالیتے۔ عوام میں ٹکٹ خدمتِ ادب کے نام پر بیچتے اور کوشش کرتے کہ وہ شاعر جن کا اعلان پوسٹر میں کیا گیا ہے مشاعرے میں شریک نہ ہوں۔ سرکاری اطلاع کے لیے نفع نقصان کاگوشوارہ یوں تیار کرتے کہ نقصان کاپلڑہ ہمیشہ بھاری رہتا۔ اور وہ انجمنیں جن کی امداد کے لیے یہ مشاعرے منعقد ہوتے تھے ہمیشہ عوام کی عدم توجہ کی شکوہ گزار رہتیں۔ مقامی شاعروں کی یہ شکائت درست نہیں کہ ان سے فیس وصول کرنے کے باوجود مرحوم انہیں مشاعرے میں غزل پڑھنے کاموقع نہ دیتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شاعرانہیں پوری فیس پیشگی ادا نہیں کرتے تھے۔ اس لیے انہیں غچہ دینا مرحوم کا حق تھا جسے وہ تمام عمر پور خلوص سے استعمال کرتے رہے۔
بحیثیت مدیر مرحوم کو یہ فخر تھا کہ وہ کبھی بھی مسودوں کے ذمہ دار امین ثابت نہیں ہوئے۔ چنانچہ اکثر احمد کی پگڑی محمود کے سر پر رکھ دیتے۔ اس طرح انہوں نے ہاتھ کی صفائی سے کئی منفرد انشاپردازوں کو ابھرنے کا موقع دیا جو سب کے سب اپنی دانست میں اس زمانے کے محمد حسین آزاد یا ابوالکلام تھے۔ یہ انشا پرداز اکثر مرحوم کے مشاعروں کی رودادیں مفت لکھا کرتے تھے۔
مرحوم ضمیر کی خلش کو انسانی ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ چنانچہ دفتر آنے سے پہلے اپنے بے داغ ضمیر کو ہمیشہ گھر کی کسی الماری میں مقفل کردیتے اور تمام دِن دفتر میں پورے سکون سے کام کرتے۔ کہاکرتے تھے کہ اس اقدام سے اپنے دوستوں کو دھوکا دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ جھوٹ بولتے ہوئے میرے ذہن پر بوجھ نہیں پڑتا۔ اور وعدہ خلافی کرتے ہوئے مجھے کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اکثر محفلوں میں فرماتے کہ بیسویں صدی کے اس روشن دور میں ضمیر کو بیدار رکھنا تاریک قرونِ اولیٰ کی تجدید کرنا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس گناہ کا کبھی ارتکاب نہیں کیا۔
عورت ان کی بڑی کمزوری تھی۔ برقعے میں ڈھکی چھپی ہر عورت انہیں ہمیشہ خوبصورت نظر آتی۔ عوت کوناقدانہ نظروں سے دیکھنے کی بہت مہارت رکھتے تھے۔ ایک ہی نظر میں تمام مستور زاویوں کا جائزہ لے ڈالتے۔ ایک دفعہ ایک لڑکی کا دیر تک تعاقب کرتے رہے۔ لیکن جب سرکتے ہوئے نقاب سے سلگتے ہوئے رخسار کا جلوہ نظر پڑا تو اِن پر بجلی گری اور ان منہ لٹک گیا۔ اس لڑکی سے ان کا خون کا رشتہ تھا۔ اس وقت گھر کی الماری میں رکھاہوا ضمیر ان کے کام آیا اور بغیر کسی چبھن کے انہوں نے اپنی سائیکل دوسری طرف موڑلی۔ ان کی اس خوش نگہی کی بدولت کئی لڑکیوں نے طلوعِ شباب سے پہلے ہی برقعہ اوڑھنا شروع کردیا۔ مشاعرے میں شاعرات کو پورے اہتمام سے پبلسٹی دیتے اور سامعین میں خواتین کی خاصی بڑی تعداد مفت پاس دے کر جمع کرنے کی کوشش کرتے۔ کہا کرتے تھے کہ میرے مشاعرے کا حسن تو کالج کی یہ طالبات ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے شہر کے دوسرے لوگ بھی افراط سے ٹکٹ خریدتے ہیں۔
خوشبوؤں میں سے مرحوم کو صرف روپے کی خوشبو پسند تھی۔ اور اس کے حصول کے لیے تمام عمر پاپڑ بیلتے رہے۔ اسی کوشش میں کئی دوستوں قرابت داروں اور رشتہ داروں کو ناراض کرلیا۔ آخری عمرمیں یہ صدمہ برداشت نہ کرسکے اور زندگی کے آلام سے کنارہ کشی کی ٹھانی۔ پہلے سرپر استرا پھرایا۔ پھر چار ابروکا صفایا کیا۔ بدن پر بھبوت ملا۔ الماری میں رکھے ہوئے ضمیر کو نکالا اور اپنے پیر طریقت سائیں جمال کی تصویر کو سینے سے لگا جنگل میں نکل گئے۔ وہیں ایک دن برگد کے درخت کے نیچے روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔
ان کے یارِ غار مولاناانجم واسطی نے سنا تو سرپیٹ لیا اور فوراً نوسو ننانوے کاسگریٹ پی کر نوسو اٹھانوے تاریخیں کہہ ڈالیں۔ لوحِ مزار کے لیے ان کے ایک ہم عصر نے یہ شعر تجویز کیا۔
زمانے میں یوں تو ہزاروں ہیں رسوا
جہاں میں ہیں لاکھوں ہی برباد لیکن
اس انورؔ کی بھی زندگانی تو دیکھو
اسے بھی ذرازندگانی کہو تو
لوگ کہتے ہیں کہ مرنے سے پہلے وہ ٹکٹکی باندھے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ شایدکپل دستو کے شہزادے گوتم کی طرح انہیں بھی گیان حاصل ہوگیا تھا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.