مولانا راشد الخیری کی وضع داریاں
چیلوں کا کوچہ جہاں میرا گھر ہے، یہاں دو صاحب رہتے تھے۔ ایک محمد مرزا خاں، دوسرے عموجان۔ ان دونوں نے بہت طویل عمریں پائی تھیں۔ محمد مرزا خاں کا تو لوگوں نے نوح نام رکھ دیا تھا اور عموؔجان حضرت شاہ عبدالعزیزؔ رحمۃ اللہ علیہ کی گودوں کے کھیلے ہوئے تھے۔
شاہ عبدالعزیزؒ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے فرزند تھے۔ شاہ ولیؔ اللہ جنہوں نے شہنشاہ اورنگ زیبؔ عالمگیر کے زمانے میں فتاوی عالمگیری کی تدوین میں حصہ لیا تھا۔ میں نے اپنے بچپن میں محمد مرزا خاں کو بھی دیکھا ہے اور عمو جان کو بھی۔ دونوں کے خاندان اب تک موجود ہیں اور دونوں کے دیکھنے والے مجھ سے بڑے ابھی زندہ ہیں۔ پہلے محمد مرزا خاں کی وضع داری اور دوستی کا نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔
ایک ہندو سے ان کا بھائی چارہ تھا۔ انقلاب ۱۸۵۷ء کی ابتداء ہوچکی تھی کہ ہندو صاحب نے شادی رچائی۔ بارات بازاروں سے گزر رہی تھی کہ کچھ لوٹ مار کرنے والے آپہنچے۔ بارات کی بارات مع دولہا کے دلہن کا ڈولا چھوڑ بھاگ گئی مگر محمد مرزا خاں نے چند اور ساتھیوں کی مدد سے دلہن کو بچایا اور لشٹم پشٹم دولہا کے مکان پہنچا دیا۔
عموؔجان کا واقعہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے۔ تاجرانہ دوستیوں کے دور میں اسے تسلیم کرنے میں تامل ہوگا۔ عموؔجان کی بھی ایک ہندو سے ملاقات تھی۔ وہ ہندو وکیل تھے۔ ان پر کسی کے قتل کا الزام لگ گیا۔ عموؔجان نے الزام اپنے سرلے لیا۔ پھر وکیل صاحب ان کے لیے جو کوشش نہ کرتے، تھوڑی تھی۔ عموؔجان بالکل غریب آدمی تھے اور وکیل صاحب کا اقبال برابر ترقی کر رہا تھا۔ مگر مجھے ان کا عموؔجان کے جھونپڑے میں آنا جانا خوب یاد ہے۔
محمد مرزاؔ خاں اور عموجان تو صحیح معنوں میں اگلے وقتوں کے آدمی تھے۔ اگلے وقتوں کے آدمی وضع اور دوستی کو نبھانا ہنر سمجھتے تھے، اور نہ نبھانے کو عیب جانتے تھے۔ ایک محلے کے صرف دو آدمیوں کا ایک ایک واقعہ سنادیا ہے۔ ورنہ ۱۸۵۷ء کے بہت بعد تک ایسے لوگوں سے سارا شہر بھرا پڑا تھا۔ مولانا راشد الخیری ان لوگوں کے مٹنے کے وقت پیدا ہوئے تھے اور قدیم تہذیب کا دم ان کے سامنے ٹوٹا تھا۔
مولانا کو دوستوں کی تعداد بڑھانے کا شوق نہ تھا۔ ایک طرف تو ان کی یہ حالت تھی کہ گنے چنے دوچار احباب کے درمیان بیٹھے ہیں۔ یکایک کوئی اجنبی آگیا اور مولانا نے ایک کہی نہ دو کہی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ خاص مولانا سے ہی ملنے کی کسی نے زحمت گوارا کی ہے اور مولانا اس سے ملتے ہوئے گھبرا رہے ہیں۔ بائیس تیئس برس کی بات ہے، مولانا جامع مسجد کے نیچے سے چلے آتے تھے۔ دہلی کے مشہور شاعر۔۔۔ مرحوم نے مولانا کو آواز دی علامہ۔۔۔ ایم اے ان کے ساتھ تھے۔
صاحب نے کہا کہ مولانا! ۔۔۔ صاحب آپ کی زیارت کے مشتاق تھے۔ مولانا دو سیکنڈ رکے اور فرمایا، ’’اچھا۔۔۔‘‘ اور روانہ ہوگئے۔ سو ایک طرف تو ان کی یہ حالت تھی۔ دوسری طرف بیسیوں دیکھنے والوں نے دیکھا ہوگا کہ رمضان کا مہینہ ہے۔ جمعہ کی شام۔ سیکڑوں عورت مرد مولانا کے ہاں سے کھانا لے جارہے ہیں۔ ایک بڈھے کو مولانا نے اپنے ہاتھ سے کھانا لاکر دیا اور پھر دور تک اس سے باتیں کرتے چلے گئے۔ یہ مولانا کے بچپن کے یار تھے۔ لنگوٹیے یار۔ بچپن میں انسان ہر درجہ اور ہر حیثیت کے بچوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے مگر بڑا ہوکر سب کو بھول جاتا ہے۔۔۔
مولانا نے جوانی میں لڑنت کی تھی۔ ایک پہلوان ان کے ہم عمر ابھی مرے ہیں۔ ان سے بس یہی وضع تھی کہ آمنا سامنا ہوا اور مولانا کا چہرہ کھل گیا اور بغلیں کھل گئیں۔ اب سینہ آگے ابھارے جاتے ہیں اور بڑھتے جاتے ہیں، قریب پہنچے اور پہلوان صاحب کو گلے لگایا۔ مزاج پرسی کی۔ بچوں کو پوچھا۔ ایک آدھ ہنسی کی بات کی اور رخصت۔
حضرت شاہؔ ولی اللہؒ اور حضرت شاہ عبدالعزیزؒ کے خاندانی قبرستان مہدیوں میں ستر اسی برس کے ایک صاحب مدتوں سے رہتے ہیں۔ ان کا اسم گرامی بھی عبدالعزیزؔ ہے۔ یہ عبدالعزیزؔ خود کانٹے کے آدمی ہیں۔ ان سے بھی آپ کا تعارف کرادوں۔ بہت سیدھے سادے بھولے بھالے اور نیک آدمی ہیں مگر زبان او رطرزِ گفتگو کر خنداری ہے۔ کفن دفن کے اہتمام پر گزارہ ہے۔ روٹی ایک دوست کے ہاں کھاتے ہیں۔ کسی میت سے قبر کی زمین کے پچہتر روپے مانگ رہے تھے۔ میت والوں نے کہیں کھانا کھلانے والے دوست سے سفارش نامہ حاصل کرلیا کہ پچاس پر معاملہ کرلو۔ بس پھر ایک پیسہ لینا حرام تھا۔ زمین مفت دے دی۔ ایک دوست نے عبدالعزیزؔ صاحب سے مرتے وقت خواہش کی کہ فلاں جگہ قبر کے لیے چاہتا ہوں۔ وہ جگہ آسانی سے نہ مل سکتی تھی۔ عبدالعزیزؔ صاحب کے ادبی جواب کی داد دیجیے۔ ارشاد کیا، ’’میان کلّن کیا یاد کرو گے۔ تمہیں تو دھونس ہی دیں گے۔‘‘
مولانا راشدالخیری کی اور عبدالعزیز صاحب کی بڑی مزیدار باتیں ہوا کرتی تھیں۔ یہ مولانا کو جہاں مل جاتے، وہیں مولانا ان سے گھل مل کر باتیں کرنی شروع کردیتے۔ ایک دفعہ کی بات سنیے،
حضرت سلطان نظام الدین اولیاؒ کی سترہویں تھی۔ مولانا فیض بازار کی سڑک پرکھڑے سترہویں میں جانے والوں کے تانگوں اور موٹروں کا تماشہ دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں عبدالعزیز صاحب تشریف لائے، مولانا نے پوچھا، ’’کہاں سے؟‘‘ عبدالعزیزؔ صاحب بولے میاں سلطان جی سے چلا آتا ہوں۔ (خواجہ) حسن نظامی کے ہاں تو ہنُ برس رہا ہے۔ مولانا نے فرمایا، عبدالعزیزؔ تمہیں خواجہ صاحب پر رشک آتا ہے تو تم بھی پیری مریدی کرنے لگو۔ عبدالعزیزؔ بولے میاں ہمیں رشک کیوں آنے لگا، مولوی صاحب تم نے قرآن تو پڑھا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (گالی دے کر) بندے! سارے گناہ معاف کردوں گا۔ ایک سے لے کر ہزار گناہ کرکے آجا۔ کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن (گالی دے کر) اگر تونے شرک کیا تو سمجھ لے (بہت ہی فحش گالی) ۔
بے پڑھے لکھے تین ہی دوستوں کامجھے علم تھا۔ مولانا ان سے اس طرح ملتے تھے جیسے خود بھی بے پڑھے لکھے ہیں۔ عبدالعزیزؔ کے اس سوال سے کہ تم نے قرآن تو پڑھا ہوگا، صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوست انہیں اپنے سے صرف روپے پیسے میں اونچا سمجھتے تھے اور یہ ایسا فرق تھا کہ جسے مولانا چھپانہ سکتے تھے۔ ورنہ غالباً مولانا نے کبھی ان پر اپنی اہمیت جمانے کی کوشش نہیں کی۔ بالکل اسی طرح ملا کیے، جس طرح بچپن میں ملتے تھے اور انہیں یہ محسوس نہیں ہونے دیاکہ مولانا ستر اَسّی مقبول کتابوں کے مصنف ہیں۔
لڑکیوں کی تعلیم اورترتیب کے لیے ایسی جدوجہد کرچکے ہیں کہ کروڑوں آدمی ان کے گرویدہ ہیں۔ ملک کے مصلحوں میں ان کا شمار ہے۔ مولانا جاہل دوستوں پر کیا دھونس بٹھاتے، خود ان کو بھی اپنے بلند مرتبہ کااحساس عمر میں دوچار بار ہی ہوا ہو تو ہوا ہو۔ مولانا جیسا بے نیاز انسان چشمِ فلک نے کم دیکھا ہوگا۔ دنیا ان کی بابت کیا رائے رکھتی ہے، اسے وہ سوچتے ہی نہ تھے۔
مولانا کے خاص دوست، ادیب شہیر اور ڈسٹرکٹ کانگریس کمیٹی کے صدر اور ملک کے ممتاز لیڈر مولانا عارفؔ ہسوی مرحوم نے دلّی پہنچ کر چند دن مولانا راشدالخیریؔ کے دفتر میں ملازمت بھی کی تھی۔ یعنی دونوں مولاناؤں کاتعارف آقا اورچاکر کی شکلوں میں ہواتھا لیکن پھر بیس بائیس سال تک مولانا راشد الخیریؔ نے مولانا عارفؔ سے جیسا برتاؤ رکھا، اسے دیکھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ مولانا راشدالخیری آقا اور مولانا عارف چاکر رہ چکے ہیں۔ مولانا عارفؔ کی ذہانت، مولانا عارفؔ کی ادبیت، مولانا عارفؔ کے علم و فضل، مولانا عارفؔ کے اخلاص و ایثار اور مولانا عارفؔ کے بے مثال دوست ہونے کی وجہ سے مولانا راشد الخیری ان کے عاشق تھے۔ ہسوہ ضلع فتحپور اوردلّی میں ایسا تعلق قائم ہوا کہ ساتھ جئے ساتھ مرے اور ساتھ ہی قبرستان میں سو رہے ہیں۔
مولانا عارفؔ کو بھی اس نبھاؤ میں دخل تھا۔ لیکن اتنا نبھاؤ مولانا راشد الخیری صاحب ہی کے ساتھ ہو سکتا تھا۔ خواجہ فضلؔ احمد صاحب اور مجھ سے بھی مولانا عارفؔ کی دوستی تھی لیکن ہم آپس میں ایک دوسرے سے روٹھ جاتے تھے۔ مگرمولانا روٹھنا جانتے ہی نہ تھے۔ ایک دفعہ میں کسی بات پر مولانا سے بگڑ گیا اور شاید مہینہ ڈیڑھ مہینہ تک مولانا کی اور میری بات چیت بند رہی۔ اتفاق سے اسی دوران میں میرے چھوٹے بھائی کی شادی ٹھہر گئی۔ مولانا سے میں خفا تھا، بھلاانہیں بلاوا کیوں دیتا لیکن ٹھیک بارات کی روانگی کے وقت مولانا خود آگئے اور مجھے اپنی اس سادگی، بے تکلفی اور یگانگت سے پانی پانی کردیا۔
مولانا دلّی کے عالم مولویوں کے ایک مقتدر خاندان کے رکن تھے۔ انقلاب ۵۷ء کے بعد اس خاندان کے بعض افراد سرکار انگریزی کی ملازمت میں داخل ہوگئے۔ مولانا کے حقیقی چچا خان بہادر مولوی عبدالحامد صاحب یوپی میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ انہوں نے مولانا کو بھی وہیں کہیں محکمہ بندوبست میں رکھوادیا۔ وہاں سے پھر دلی کے پوسٹل آڈٹ آفس میں منتقل ہوکر آگئے اور یہیں سے کچھ عرصہ بعد انہوں نے قید ملازمت سے آزادی پائی۔
بھائی فضلؔ احمد بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۰۶ء میں جب میں اس دفتر میں نوکر ہوا تو سب سے پہلے جس شخص سے میری ملاقات ہوئی، وہ مولانا مرحوم تھے۔ اس وقت سے لے کر مرتے دم تک تیس سال کا زمانہ ہوتاہے، اس تمام عرصے میں مولانا سے کبھی میرے تعلقات مکدر نہیں ہوئے۔ وہ نوکری سے نکل کر اعلیٰ درجے کے انشا پرداز بنے۔ کم و بیش ساٹھ ستر کتابوں کے مصنف ہوئے اور خدا جانے اس سلسلے میں کہاں سے کہاں پہنچے، مگر ان کی جو وضع میرے ساتھ اس وقت تھی، اس میں آخیر تک فرق نہ آیا اور وہ مجھ سے ہمیشہ اسی طرح ملا کیے جس طرح کہ ابتداء میں ملاکرتے تھے۔
۱۹۳۲ء میں خواجہ فضلؔ احمد صاحب کی لڑکی جو اس وقت سیکر میں تھی، اب سے دور سخت بیمار ہوئی اور اس کی بیماری کی اطلاع بذریعہ تار خواجہ فضلؔ احمد صاحب کو ملی، جس کی وجہ سے خواجہ فضلؔ احمد صاحب فرماتے ہیں، میں بہت مترود تھا، اس کی خبر پاکر مولانا دن میں دودواور تین تین بار میرے پاس آتے اور دریافت کرتے کہ کوئی تازہ خبر آئی، کوئی خط آیا، کوئی تار آیا اور ہر طرح تسلی اور تشفی دیتے۔ خواجہ فضلؔ احمد صاحب کا بیان ہے کہ جس دن میں سیکر روانہ ہونے لگاہوں، اس دن بہت دیر تک مولانا میرے پاس ٹھیرے۔ چلنے لگا تو قریب آکر کان میں کہا، ’’روپے کی ضرورت تو نہیں ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا، ’’نہیں الحمدللہ۔‘‘ لیکن ان کی اس دل سوزی کی ادا سے دل باغ باغ ہوگیا اور قدیم دوستیوں کے جو تذکرے اگلے بزرگوں سے سنے تھے، ان کی تصویر آنکھوں کے آگے پھر گئی۔
مولانا شادی کی محفلوں میں زیادہ شریک نہ ہوتے تھے لیکن تکلیف اور غم اپنے تو اپنے، غیروں کے ہاں بھی سنتے تو تڑپ کر پہنچ جاتے۔ غریب سے غریب مسلمان کے جنازے کے ساتھ چالیس قدم جانا اب صرف انہیں پر فرض رہ گیا تھا۔ نصیرؔ خاں اور اس کی بیوی مولانا کے تربیت گاہ بنات میں ملازم تھے۔ بڑھیا بچیوں کو ان کے گھروں سے لانے کا کام کرتی تھی اور بڈھے کے سپرد ڈیوڑھی بانی تھی۔ بڈھا مرنے لگا تو بیگم راشدالخیری کو ساتھ لے کر اس کے تنگ و تاریک مکان میں جابیٹھے اور پوری رات مرنے والے کے سرہانے آنکھوں میں کاٹ دی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.