Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مولوی عبد الحق کی چند کمزوریاں

محی الدین احمد

مولوی عبد الحق کی چند کمزوریاں

محی الدین احمد

MORE BYمحی الدین احمد

    ہر انسان خواہ وہ کتنا ہی مہذب، شائستہ، بااخلاق اور صاحب کردار کیوں نہ ہو کچھ نہ کچھ کمزوریاں اس میں ضرور ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کمزوریاں انسان ہی میں ہوتی ہیں۔ اگرکمزوریاں نہ ہوں تو انسان، انسان نہ رہے، فرشتہ ہوجائے۔ یہی حال مولوی عبدالحق کا بھی تھا۔ یہ بھی انسان ہیں اوران میں بھی کمزوریاں ہیں۔

    مجھے یہ تسلیم ہے کہ میں نہ مولوی صاحب کا شاگرد رہا ہوں اور نہ ماتحت۔ لیکن مولوی صاحب کی اردو خدمت کی وجہ سے ایک خاص عقیدت میرے دل میں پیدا ہوگئی تھی جو آج بھی ویسی ہی ہے جیسی برسوں پہلے تھی۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے مولوی صاحب کو دیکھا ہے اورخوب دیکھا ہے۔ گو دور ہی سے دیکھا ہے لیکن دوربین لگاکر دیکھا ہے اور اس طرح دیکھا ہے کہ جس طرح کوئی نزدیک سے دیکھنے والا دیکھ سکتا ہے۔ چنانچہ جہاں میں نے ان کی خوبیاں دیکھی ہیں وہیں ان کی بعض کمزوریاں بھی دیکھی ہیں۔

    ہم ہندوستانیوں کی قومی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ ہم وقت کی قدر بالکل نہیں جانتے اور پابندیٔ وقت کو کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ اس کے برخلاف مولوی صاحب وقت کی پابندی خود بھی سختی سے کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس پر مجبور کراتے تھے۔ دوسروں کو پابند بنانے کا ایک واقعہ بھی سن لیجیے۔ سراکبر حیدری گورنمنٹ نظام میں صدرِ اعظم بابِ حکومت تھے۔ ایک بار کسی سرکاری کام سے وہ اورنگ آباد کے دورے پر گئے۔ اسی زمانے میں مولوی عبدالحق نے اردو باغ کے افتتاح کی تقریب رکھی اوراس سلسلے میں ایک عصرانہ ترتیب دیا اور ساڑھے پانچ بجے کا وقت مقرر کیا، لیکن حیدری صاحب کسی وجہ سے وقت مقررہ پر نہ آسکے۔ مولوی صاحب نے وقتِ مقررہ پر عصرانہ شروع کروادیا۔ حاضرین میں سے بعض لوگوں نے اصرار بھی کیا کہ مہمانِ خصوصی کا انتظار کرلینا چاہیے، لیکن مولوی صاحب نے ایک نہ مانی۔ بالآخر حیدری صاحب کچھ تاخیر سے پہنچے تو مولوی صاحب نے ان کو دیکھتے ہی فرمایا کہ ’’وقتِ مقررہ گزرجانے کے بعد میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ حیدری صاحب نے مولوی صاحب سے معافی مانگی۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ جناب آپ بڑے آدمی ہیں اور وقت آپ کا ہے۔ آپ کو ہمارے وقت کی کوئی قدر نہیں۔‘‘

    ذرا ملاحظہ فرمائیے ہم ہندوستانیوں کی پسندیدہ روش کی اتنی سخت خلاف ورزی مولوی صاحب کی کیا بڑی کمزوری نہیں۔

    وہ ماتحتوں کی غلطیوں کو بھی اپنے سر لے کر ان کو بے قصور قرار دیتے تھے۔ یہ بھی ان کی ایک بڑی کمزوری تھی۔ اس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ مولوی صاحب کے ایک ماتحت (محمد علی صاحب) ان کے دفتر میں اہلکار تھے۔ اتفاق سے اسی دفترمیں ایک جائداد سر رشتہ داری کی تقرر طلب تھی۔ مولوی صاحب نے اس پر ان کا تقرر کردیا۔ چونکہ سر رشتہ دار کے تقرر کا اختیار مولوی صاحب کو حاصل نہ تھا۔ اس لیے توثیق کے لیے جملہ کارروائی نظامتِ تعلیمات کو روانہ کی گئی۔ وہاں سے مولوی صاحب کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے یہ لکھا گیا کہ چونکہ محمد علی صاحب کی نسبت سی آئی ڈی کی رپورٹ ٹھیک نہیں ہے اس لیے ان کو ترقی نہیں دی جاسکتی۔ اس کا جواب مولوی صاحب نے یہ دیا کہ اگر سی آئی ڈی کی رپورٹ پر ترقی کا انحصار ہے تو میں شاید ملازمت تو کیا ملک میں رہنے کے قابل نہیں ہوں۔ کیونکہ سی آئی ڈی میں میری رپورٹ اس سے بھی زیادہ خراب ہوگی۔ پس جب میں ملازمت پر برقرار رکھا جاسکتا ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ بے چارے محمد علی کو ترقی سے محروم رکھا جائے۔ چنانچہ لڑجھگڑ کر مولوی صاحب نے اپنی تحریر منظور کروالی۔

    مولوی صاحب کی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ ہر شخص کی سفارش کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ ایک بار کوئی تانگہ والا ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں ایک مقدمہ میں پھنس گیا ہوں۔ پیروی کاانتظام نہیں کرسکتا۔ آپ کسی وکیل کے نام سفارشی چٹھی لکھ دیجیے تاکہ وہ میرے مقدمے کی بلا حصول محنتانہ پیروی کرے۔ مولوی صاحب نے بلاتکلف ایک خط اورنگ آباد کے مشہور وکیل ساجد علی صاحب کے نام لکھ دیا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے مجھے اور آپ کو ایک مرتبہ اورنگ آباد کے بازارمیں پٹخ دیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے مولوی صاحب کے منشا کے مطابق بلاحصولِ محنتانہ پیروی کی۔

    مولوی صاحب اگر کسی کو بلاقصور ڈانٹ دیتے یا بگڑ جاتے تو اس کے بعد اس شخص کے ساتھ کچھ ایسا برتاؤ کرتے کہ وہ اس ڈانٹ ڈپٹ زجر وتو بیخ کو بالکل بھول جاتا اور یہ عمل معافی طلب کرنے کے معادل و مترادف بن جاتا حالانکہ معافی مانگنا ان کو قطعاً نہیں آتا۔ ایک بار ہوا یوں کہ مولوی صاحب ایک خوش منظر پہاڑی پر بنگلہ بنوانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے لکڑی اور چند ضروری چیزیں خریدی گئیں اور ایک بھٹی اینٹوں کی لگوائی گئی۔ بعد میں وہ بھی خراب ہوگئی۔ مولوی صاحب نے بھٹی کے نگران عبدالرحیم خاں کو ذمہ دار قرار دے کر ڈانٹنا شروع اور اس قدر سخت سست کہا کہ بے چارہ تاب نہ لاسکا اور بے ہوش ہوکر گرپڑا۔ اس کے ساتھیوں نے اس کو اٹھاکر ہوش میں لانے کی تدبیریں کیں اور جب اس کے ہوش و حواس ٹھکانے آئے تو گھر چلا گیا اور نوکری پر حاضر نہیں ہوا۔ مولوی صاحب کو ان کے ایک دوست نہال احمد نے توجہ دلائی کہ آپ نے عبدالرحیم خاں کو بلاوجہ ڈانٹ پھٹکار کی۔ آج آپ نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے توکل میرے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے میں بھی اپنا سامان بندھوائے لیتا ہوں۔ یہ سن کر مولوی صاحب خاموش ہوگئے۔ دوسرے دن علی الصبح محمد علی صاحب کو ساتھ لے کر صبح کی سیر کی بجائے محلہ عثمان پورہ میں منشی صاحب کے مکان جاپہنچے اور فرمانے لگے بھئی عبدالرحیم میں نے تمہارے ہاتھ کی چائے دوتین دن سے نہیں پی ہے اور آج صرف تمہاری بنائی ہوئی چائے پینے کے لیے آیا ہوں۔ کیا مجھے چائے نہیں پلاؤگے۔ بیچارے عبدالرحیم نے جلدی جلدی چائے تیار کرکے مولوی صاحب کو پلائی۔ جب واپس ہونے لگے تو مولوی صاحب کے اس طرزِ عمل کا عبدالرحیم خاں پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ وہ بھی ان کے ساتھ ہولیا اور واپس آکر حسبِ سابق اپنے مفوضہ کام پر لگ گیا۔

    اب ذرا کوئی مجھے یہ بتلادے کہ کیا کوئی ایسا شخص جو حکومت کے اعتبار سے ایک بڑے معزز اور جلیل القدر عہدہ پر فائز ہو اور اپنے علم و فضل کی وجہ سے ملک بھر میں خاص شہرت اور عزت و وقعت رکھتا ہو۔ اپنے ایک غریب ماتحت کے گھر جاکر اس قدر بے تکلفی کے ساتھ چائے پی سکتا ہے۔ یہ اگر مولوی صاحب کی کمزوری نہیں تو پھر کیا ہے۔ (بہ شکریہ ’’سب رس‘‘)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے