مزے دار شاعر
جرأت پر مضمون لکھنے میں اس انداز سے بیٹھا ہوں جیسے امتحان میں پرچہ کرنا ہو، بلکہ اپنا امتحان لینے کے لئے ہی میں نے یہ مضمون چھانٹا ہے۔ میں نقاد نہ سہی، مگر ایسے مضمون تو لکھتا ہی رہتا ہوں جن میں مختلف قسم کے لکھنے والوں پر اپنی راؤں یا اپنے تعصبات کا اظہار کرتا ہوں۔ چنانچہ مجھے دیکھنا یہ ہے کہ میں تنقید نگار کس حد تک ہوں۔
آسکر وائلڈ نے کہا ہے کہ ہر قسم کا اسلوب تو بس نیلام والے کو پسند آتا ہے۔ یہ فقرہ تو فنکار کے لئے بڑی حد تک درست ہے، اور تنقید نگار کے لئے بھی ایک حد تک درست ہے۔ لیکن پھر بھی تنقیدنگار سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے ذاتی مزاج کے اندر گھٹ کے نہ رہ جائے بلکہ اپنی کائنا ت میں ایسی چیزوں کے لئے بھی جگہ نکالے جو اس کے مزاج سے موافقت نہیں رکھتیں۔ موافق اور ناموافق کی کشمکش فنکارکے لئے بھی مفید ہے۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ شیکسپئر ’ڈانٹے، جوئس، میر جیسے فنکاروں میں عظمت اور آفاقیت اسی کھینچا تانی کے ذریعے آئی ہے۔ لیکن جو فنکار اپنے مزاج کے اندر بند ہو کر بیٹھ جائے اور ناموافق چیزوں سے کراہیت اور حقارت کے سوا اور کچھ محسوس نہ کرے، اسے بھی کسی نہ کسی حد تک اور تھوڑی بہت دیر کے لئے قبول کر لیتے ہیں، جیسے شبلی اور غالب۔
اس کے برخلاف اگر نقاد اپنے مزاج کو اچھی خاصی کال کوٹھری بنا لے، اور جو چیز اس کے اندر نہ سما سکے، اسے کائنات ہی خارج کرنا چاہے، اس کے اندر ایک سٹرن پیدا ہو جاتی ہے۔ اور پڑھنے والے کو متلی ہونے لگتی ہے۔ یہ حال ایمرسن اور ان کے ساتھیوں کا ہے۔ یا آج کل ہڈلٹن مری کا۔ اگرمجھ میں نقاد بننے کی صلاحیت بھی ہوتو میں کم سے کم ایسا نقاد بننانہیں چاہتا جولوگوں کوپیام زندگی دیتا پھرے۔ لیکن مزاج کی عاید کردہ پابندیوں کے علاوہ بعض مجبوریاں اپنی خوش فہمیوں سے پیدا ہوتی ہیں۔
میں نے مدتوں سے کوئی افسانہ تو نہیں لکھا، لیکن کہتا یہی رہتا ہوں کہ مجھے افسانہ لکھنا ہے۔ اس اعتبار سے میں اپنا حق سمجھتا ہوں کہ میرے تجربات کا ایک مرکز اور میری کاوشوں کا ایک رخ ہو۔ چنانچہ میں پڑھتا بھی ایسی چیزیں ہوں جن سے مجھے پتہ چل سکے کہ متنوع تجربات ایک مرکز پر کیسے لائے جا سکتے ہیں۔ مجھے نہ تو غم جاناں والے پسند ہیں، نہ غم دوراں والے، نہ ایسے لوگ جو باری باری سے دونوں کا مزا لیتے ہوں، میں تو لوگوں کو دیکھنا چاہتا ہوں جن کے یہاں غم جاناں اور غم دوراں مل کراپنا غم بن جائیں۔ اپنے غم سے میرا مطلب نہیں کہ آدمی بیٹھ کے اپنی محرومیوں کو رویا کرے۔۔۔ چاہے وہ محرومی ’’زکنار ما بہ کنار ما‘‘ والی مایوسی کی طرح غیر مادی ہی کیوں نہ ہو۔ اس اپنے غم سے مراد وہ تخلیقی درد ہے جو انسانی ہستی اور انسانی تفتیش کا ذریعہ بنتا ہے اور جس میں کائنات کاغم و نشاط بن جانے کی قوت اور گیرائی موجود ہوتی ہے۔ مثلاً ڈانٹے، چاسر، شکسپئیر اور جیمز، جوئس کے یہاں۔ یہ اپنا غم کس طرح شروع کرتا ہے، اس کا بیان میر نے بڑی اچھی طرح کر دیا ہے۔
دل نہیں مجھ کو ملا یہ کوئی جی کا ہے وبال
گفتنی ہو تو کہوں اے میر میں کچھ اس کا حال
خود بخود جاتا ہے کہتا آرزو کیا ہے اسے
چاہتا ہے سیم و زویا کوئی دل بر خوش جمال
یاد میں میری کچھ سبب تو ہے بجا
عشق بازی، مفلسی، آزردگی، رنج و ملال
نے کسو کے گیسو کا کل کا وابستہ ہوں میں
نے کسی کے چاند سے مکھڑے کا مجھ کو ہے
کیا کروں ایذائے بے موجب غرض تجھ سے بیاں
نے غم درد جدائی ہے نہ اندوہ وصال
نیستم عاشق بظاہر لیک می کاہد ولم
عمر بگذشت و نمی دانم چہ می خواہد ولم
اردو شاعری کی تاریخ میں بعض لوگ ایسے ہیں جن کے یہاں یہ غم پیدا ہو کر اپنی نفسیات کی تخلیق کا ذریعہ تو بن جاتا ہے۔ مگر انسانی زندگی یا کائنات کی تفتیش تک نہیں پہنچ پاتا مثلاً مومن۔ پھر بہت سے لوگ ایسے ہیں جو دکھ درد کا ذکر تو کرتے ہیں۔ مگر ان کی کامرانی یا محرومی محض ایک واقعے تک محدود ہو کے رہ جاتی ہے، اور انہیں اپنی پوری شخصیت پر بھی غور کرنے کی ترغیب نہیں دیتی، اس لئے ان کے یہاں وقتاً فوقتاً عشق کا غم تو نظر آتا ہے۔ مگر اپنا غم پیدا ہی نہیں ہوتا۔ مثلاً جرأت۔ اسی لئے میں نے اپنا امتحان لینے کے لئے جرأت کو چھانٹا ہے۔ میری طبیعت کو جرأت سے کتنی مناسبت ہے، یہ اسی طرح ظاہر کہ مضمون لکھنے کے لئے میں نے ان کا دیوان تین دفعہ پڑھا، مگر مجھے ان کا ایک بھی شعر یاد نہیں ہو سکا۔
یونگ نے میاں بیوی کے تعلقات پر ایک مضمون لکھتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کی دونوں میں ایک فریق تو CONTAINER ہوتا ہے اور دوسرا CONTAINED پہلے فریق کی شخصیت اتنی پیچیدہ، متنوع اور پہلو دار ہوتی ہے کہ دوسرا اس اس کے اندرسما جاتا ہے۔ مگر چونکہ پہلے فریق کے اندر بہت سے خانے خالی رہ جاتے ہیں۔ اس لئے آسودگی دونوں کو نہیں ملتی۔ آسودگی حاصل کرنے لئے ضروری ہے کہ یا تو پہلا فریق سکڑے یا دوسرا فریق پھیلے۔ چنانچہ مکمل ہم آہنگی حاصل کرنے کے لئے میاں بیوی میں ایک کشمکش سی شروع ہو جاتی ہے۔
میرے خیال میں بالکل یہی نقشہ ایک شاعر اور قاری کے تعلقات کا ہے، خیر ایسے شاعروں پرغور کرنے کا تو سوال ہی نہیں جن کی شخصیت ایک عام قاری سے بھی محدود ہو۔ انہیں تو ہم ادب کی تاریخ میں شامل ہی نہیں کرتے۔ لیکن ایسے شاعر بہت سے ہیں جو ہماری شخصیت کے بعض پہلوؤں کو پوری طرح مطمئن کرتے ہیں اور ہم ان سے تھوڑی دیر کے لئے جی بھر کے لطف لے سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ ہماری شخصیت کے بہت سے تقاضوں کو تشنہ چھوڑتے ہیں۔ اس لئے وہ ہمارے جیون ساتھی نہیں بن سکتے۔ مثلاً اکبر۔ اس کے برخلاف میر جیسے شاعر کو پڑھتے ہوئے ہم فورا CONTAINED بن کے رہ جاتے ہیں اور ہمیں ناآسودگی یہ رہتی ہے کہ شاعر کی طبیعت کے بہت سے عناصر کا جواب ہمارے پاس موجود نہیں۔
میر کو پڑھنا تو ایک اچھی خاصی جنگ ہے جوعمر بھر جاری رہتی ہے۔ اس کا احساس اردو کے ہر شاعر کو رہا ہے اور اردو نے میر کا صرف ایک CONTAINER پیدا کیا ہے۔۔۔ فراق (میں دعویٰ نہیں کررہا ہوں کہ فراق صاحب میرسے بڑے شاعر ہیں، مگر اتنی بات ضرور ہے کہ فراق کے بعض مطالبات میر سے بھی پورے نہیں ہوتے) یہ تشنگی ایک طرفہ نہیں۔ ان کی زندگی میں بھی لوگوں کو میر سے جتنی عقیدت تھی اس کے باوجود وہ اپنے پڑھنے والوں سے مطمئن نہ ہوسکے۔
کس کس ادا سے ریختے میں نے کہے ولے
سمجھا نہ کوئی میری زباں اس دیار میں
تاب کس کو جو حال میر سنے
حال ہی اور کچھ ہے مجلس کا
ان شعروں میں اس زمانے کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات پر جتنی بھی تنقید کی جائے، اس کے باوجود یہ حقیقت برقرار رہتی ہے کہ یہ ایک شخصیت کی ناآسودگی ہے جسے اپنے عقیدت مندوں میں بھی تسکین کے سارے پہلو نہیں ملتے۔ بلکہ یہ بات میرنے پوری وضاحت سے بھی کہی ہے۔
تری چال ٹیڑھی تری بات روکھی
تجھے میر سمجھا ہے یاں کم کسونے
میرکے یہاں جو مشکلیں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کی وجہ صرف یہ نہیں کہ ان کی شخصیت اوروں سے زیادہ پیچیدہ اور پہلودار تھی، بلکہ وہ اپنی شخصیت پر مسلسل خلاقانہ عمل کے ذریعہ متضاد عناصر گھلا ملا کرایک نئی چیز پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ان کے اندر جس قسم کا جدلیاتی عمل جاری تھا، اس کا ایک اشارہ اس شعر میں ملتا ہے۔
نہیں میر مستانہ صحبت کا باب
مصاحب کرو کوئی ہشیار سا
مستانہ پن اورہشیاری کے ان متضاد تقاضوں کو سہارنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اسی لئے اپنی سہولت کے لئے عام پڑھنے والوں نے یہ مشہور کر دیا کہ میر کی شاعری واہ نہیں آہ ہے۔ لیکن جن شاعروں نے واقعی میر سے الجھنے کی کوشش کی وہ عمر بھر بریز بریز پکارا کئے۔۔۔ سوائے فراق کے۔ دوسرے شاعرتو یہی افسوس کیا کئے کہ، ’’ نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب‘‘ لیکن فراق صاحب احترام کے ساتھ اپنے اختلافات کا بھی اعلان کر گئے ہیں۔
(جوہوتا رنگ میر و میرزا تو بات ہی کیا تھی)
غرض کہ میر کو پڑھنا عمربھی کا جھگڑا مول لینا ہے۔ اس کے برخلاف عام آدمی کو جرأت کے معاملے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ یہاں نہ کوئی CONTAINER بنتا ہے نہ کوئی CONTAINED جرأت جیسے شاعر اورعام پڑھنے والے کا معاملہ بالکل اللہ ملائی جوڑی کا سا ہے۔ چول سے چول بیٹھ جاتی ہے۔ نہ تو شاعر کو پڑھنے والے کی گرفت میں آنے کے لئے سکڑنا پڑتا ہے، نہ پڑھنے والے کو شاعر کے ساتھ ہم آہنگی حاصل کرنے کے لئے پھیلنا ضروری ہے۔ جرأت عام آدمی کے سارے جذباتی تقاضے کو پورا کرتا ہے، اور قاری کو اپنے ذاتی تجربات لکھے لکھائے مل جاتے ہیں۔ شاعری کی ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ میرے دل میں ہے‘‘ والی تعریف اگر کہیں صادق آتی ہے تو جرأت کی شاعری پر۔ یہ بات میر کے متعلق نہیں کہی جا سکتی۔ میر کی شاعری جذبات کو بقول فراق صاحب ’’کچھ اور‘‘ بنا دینے والی شاعری ہے۔ جرأت کی شاعری بیانیہ۔
بیانیہ شاعری سے میں نے کیا مراد لی ہے۔ اس کی وضاحت کے لئے میں پھر میر اور جرأت کا موازنہ کروں گا۔ میر کی شاعری محض ان کی ’’شخصیت‘‘ کا اظہار نہیں ہے۔ اول تو ان کی شخصیت کے اندر ہی مختلف عناصر میں تضاد اورتصادم ہے۔ پھر جو فنکار اس تضاد کو سمیٹ کر اس کی قلب ماہیت کرنا چاہتا ہے۔ وہ شخصیت سے الگ اور اوپر بھی رہ سکتا ہے۔ جرأت کی شاعری ان کی زندگی کا عکس ہے۔ میر اپنے آپ سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کے لئے خالی تجربہ کافی نہیں ہوتا۔ جب تک کہ وہ کچھ اور نہ بن جائے۔
بڑے سلیقے سے اپنی نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
میرنفی میں اثبات ڈھونڈتے ہیں۔ ان کے یہاں شکست تو مل جائے گی مگر شکست خوردگی نہیں۔ ان کی افسردگی ایک نئی مثال کا بہانہ بنتی ہے۔ جرأت نہ تو ناکامی سے کام لیتے ہیں۔ نہ کامرانی سے۔ بلکہ دونوں چیزیں ان کے کام آ جاتی ہیں۔ دونوں چیزیں انہیں دلچسپ سے دلچسپ تر بناتی ہیں۔ اس لئے دونوں بجائے خود اور کسی نئی شکل کے بغیر بھی ان کے لئے کارآمد ہیں۔ یہ چیزیں ان کے لئے تجربات بھی نہیں بلکہ واقعات ہیں۔ اس لئے جرأت شاعر سے زیادہ واقعہ نگار ہیں۔ شاعری نہیں کرتے بلکہ اپنی سوانح عمری لکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت کے لئے فنکار ایک ماہر اسٹینو گرافر کی طرح ہے جو واقعات انہیں پیش آئے ہیں چاہے وہ خارجی ہوں یا داخلی۔ جرأت ان کی تفتیش کرنے یا ان کا رشتہ دوسری قسم کے واقعات سے ملانے یا ان کی سرحدوں کو توڑ کر آگے نکلنے یا انہیں پگھلا کر نئے سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتے۔
یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ انشا کی طرح محض خارج بیں ہیں، اور ان میں داخلیت نہیں۔ جتنے واقعات انہوں نے اپنی شاعری میں بیان کئے ہیں ان میں پچاس فیصدی تو ضرور داخلی نوعیت کے ہیں۔ مگر وہ ہر قسم کی واردات قلب سے لطف لیتے ہیں۔ اس کا مطالعہ نہیں کرتے۔ ان کے لئے ہر واقعہ اور ہر جذباتی کیفیت بجائے خود مکمل ہوتی ہے۔ وہ اسے کسی دوسرے واقعے سے ملنے یا ٹکرانے نہیں دیتے۔ اسی لئے ان کے اندرکسی قسم کی کشمکش یا تصادم یا ٹکراؤ نہیں، خوش ہیں تو خوش ہیں، رنجیدہ ہیں تو رنجیدہ ان کی خوشی، آتش کا سا نشاط نہیں بننے پاتی، ان کا رنج میر کا سا درد نہیں بنتا بلکہ رنجیدگی سے آگے نہیں بڑھتا۔ وہ جیسا مزاج لے کر پیدا ہوئے تھے یا جیسا مزاج ان کا بن گیا وہ اسی میں خوش رہے اور اسی کے اندر رہ کر انہوں نے شاعری کی۔
اگر کسی شاعر کا ظاہر و باطن، زندگی اور فن ایک سا رہا ہے تو جرأت کا۔ اگر کسی کی شاعری میں مکمل ’’خلوص‘‘ (ادبی خلوص نہیں) ملے گا تو جرأت کے یہاں۔ سنتے ہیں کہ وہ خوش باش، خوش طبع، ظریف، لطیفہ باز اور عاشق مزاج قسم کے انسان تھے۔ اہل دل نہیں تھے، بلکہ دل والے، بلکہ دل پھینک۔ یہ میں نے اعتراض یا طعنے کے طور پرنہیں کہا۔ میں صرف ان کی شاعری کی صحیح تعریف معلوم کرنا چاہتا ہوں، اور میرا احساس یہ ہے کہ جرأت کی شاعری ان کی خوش باشی ہی کا ایک حصہ تھی۔ میر کے اندر جو شاعر ہے وہ ان کی شخصیت کو کبھی قبول کرتا ہے، کبھی روکتا ہے، کبھی دونوں باتیں ایک ساتھ کرتا ہے۔ بہر حال وہ ان کی شخضیت سے باہرنکل جانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے۔ جرأت کے اندر جو شاعر ہے وہ ان کی شخصیت کے اندر رہتے ہوئے ذرا بھی بے چینی نہیں محسوس کرتا، وہ تو صرف اس شخصیت کا ترجمان ہے۔
یہ نہ سمجھئے کہ مجھے جرأت سے کوئی چڑ ہے، اور میں ان کی شاعری کو محض خوش باشی کہہ کر ٹالنا چاہتا ہوں۔ اگر ٹالنا ہوتا تو پورا مضمون لکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک فقرے میں ہی کام چل جاتا۔ جرأت کی زندگی میں شاعری کا کیا مقام تھا، یہ انہیں کی زبان سے سنئے۔ میر تو شاعری کے بارگراں سے گھبرا کر چیخ پڑتے تھے۔
ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد دل اتنے کئے جمع تو دیوان ہوا
بقول فراق صاحب، میر نے شعر نہیں، تعریف کرنے والوں کے منہ پر جوتا مارا ہے۔ اس کے برخلاف جرأت کے لئے شاعری سماجی مقبولیت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
جرأت جواب میر تو ایسا ہی کہہ کہ بس
چاروں طرف سے شور سنے واہ واہ کا
(اس ’’جواب میر‘‘ کی ستم ظریفی کا بھی جواب نہیں) شعر کہہ کر وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ میں مجلسی کمالات کی پوٹ ہوں اور فن شعر پر مجھے قدرت حاصل ہے۔ اسی لئے انہیں میر، مصحفی، سودا جیسے استادوں کی زمین میں شعر کہنے کا خاص شوق ہے۔ اس سے ان کا ہنر تو ضرور ظاہر ہوتا ہے۔ مگر وہ گھاٹے میں اس لئے رہتے ہیں کہ دو مزاجوں کا تقابل اور تضاد پیدا ہوتے ہیں ان کے شعر کا ہلکاپن ابھر آتا ہے۔ مثلاً مصحفی کی غزل کا یہ مشہور شعر ہے۔
صبح پر یار کا ہے وعدہ وصل
ایک شب اور ہی جئے ہی بنے
اس کا جواب جرأت یوں دیتے ہیں،
اس کے آنے تک اے دل بیمار
جس طرح ہو سکے جئے ہی بنے
مگر مجلس کا تقاضہ ہے کہ استادوں کے رنگ میں یا کم سے کم ان کی زمین میں کہا جائے۔ جرأت اپنی ہر تیسری چوتھی غزل میں یہ بات یاد دلاتے ہیں کہ ان کے گرد دوسرے آدمی نہیں بلکہ شعر سننے والے یا دوست جمع ہیں اور انہیں اپنا بھرم رکھنا ہے۔ جتنے دوغزلے اور سہ غزلے جرأت نے کہے ہیں، شاید ہی کسی شاعر نے کہے ہوں اور ہر دفعہ جتا دیتے ہیں کہ ابھی کیا دیکھا ہے آگے دیکھنا۔
ایک ہی پڑھ کرغزل جرأت ہوا تو کیوں خموش
شعر ابھی تو اور بھی ہیں تجھ سے پڑھوانے کئی
ہے شگفتہ یہ غزل جرأت غزل ہو اور بھی
دیکھیں مضمون اس سے بہتر اور تو کیا لائے ہے
کہہ جرأت ایک اورغزل وہ کہ سب کہیں
لکھنے سے اس کے دفتر اشعار گرم ہے
جرأت غزل اک اور ملا تو کہ کہیں سب
کب ایسی گرہ اورغزل خواں نے لگائی
جرأت نے اپنی شاعرانہ ذہنیت کی بالکل صحیح تعریف کر دی ہے۔ وہ شاعری نہیں کرتے’’غزل ملاتے ہیں‘‘ در اصل جرأت ان لوگوں میں سے نہیں جو اپنی شخصیت اپنے آپ بتاتے ہیں اور بتاتے رہتے ہیں۔ جنہیں یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم جو نئی شکل اختیار کریں گے، اس کے متعلق دوسروں کا اور خود ہمارا رویہ کیا ہوگا۔ جرأت تو گھڑا گھڑایا کردار ہیں، انہیں بھی معلوم ہے اور دوسروں کو بھی ان سے کن کن باتوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔ انہیں پورا علم ہے کہ میں دلچسپ آدمی ہوں اور لوگ مجھے پسند کرتے ہیں اور وہ کسی بے ایمانی کے بغیر خلوص کے ساتھ چاہتے ہیں کہ لوگ مجھے اور بھی پسند کریں۔ انہوں نے دنیا بھر کے تماشے دیکھے ہیں، بیس جگہ آنکھ لڑائی ہے۔ دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر ان کا دل خوش کرنے کے لئے انہیں سیکڑوں قصے یاد ہیں۔ یہ قصے انہوں نے نثر میں نہیں بلکہ شعروں کی شکل میں سنائے ہیں۔ ان کی شاعری کی بنیادی تحریک یہی ہے کہ اپنے معاشقوں کے بارے میں دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ کی جائے تاکہ مجلس میں گرمی آئے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی قدر بڑھے۔ اس مقصد میں وہ کامیاب ہوئے ہیں اور لوگ ایک قصہ سن کر دوسرا سننا چاہتے ہیں۔
حسب حال اشعار کہیئے اپنے اب جرأت کچھ اور
یہ غزل تو تھی کئی یاروں کی کہوائی ہوئی
یہاں یہ تنبیہ پھر ضروری ہے کہ دلچسپ آدمی بننے اور لوگوں میں مقبول ہونے کی خواہش کوئی بری بات نہیں۔۔۔ زندگی میں ایسے مزاج، ایسے آدمیوں اور ایسی شاعری یاروں کی محفل کے بغیر وجود میں نہیں آتی۔ یہ خود کلامی نہیں بلکہ گفتگو ہے جس کے لئے دلچسپ ہونا لازمی ہے۔ یہ شاعری پورے معنوں میں تخلیقی عمل میں یا داخلی تجربات کی تنظیم یا قلب ماہیت نہیں بلکہ ان واقعات کا بیان ہے، جو شاعر کو پیش آئے۔ یہ ضروری نہیں کہ سارے واقعات طرب ناک ہی ہوں یہ دلچسپ آدمی جسے بیسیوں قصے یاد ہیں چونکہ خلوص اور صاف گوئی سے کام لے رہا ہے، اس لئے محرمیوں کی داستان بھی سنائے گا۔
سنایا اس کو یہ قصہ کہ بس آنسو نکل آئے
لیکن ذہنیت ہوگی قصہ گوئی کی ہی۔ اس لئے جرأت کو مسلسل غزل بہت عزیز ہے۔ مسلسل غزل کہنے کے معاملے میں بھی جرأت غالباً سب شاعروں کے آگے ہیں۔ چونکہ یہ قصے یاروں کو سنائے جا رہے ہیں اسی لئے ان کی غزل میں ایسی روانی اور سلاست آئی ہے اور اسی لئے پڑھنے والے کو بڑی آسانی سے قربت کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اس اعتبار سے ان کا عشق ان کی شعر گوئی کے لئے بڑا مفید ثابت ہوا ہے۔ کیونکہ انہیں سنانے کے لئے اتنے قصے مل گئے۔ پھر شعر گوئی کی قدرت کے سبب ان کا عشق بھی دلچسپ بن گیا۔ لیکن چونکہ ان کے عشق کا ایک مصرف یہ بھی ہے کہ دوسروں کی تفریح طبع کا ذریعہ ہے۔ اس لئے وہ اپنے عشق کوعام طور پر معاشقے کی سطح سے اونچا نہیں اٹھنے دیتے۔ ممکن تھا کہ وہ میر کے زیر اثر اپنے عشق کے مطالعے کی طرف بھی راغب ہو جاتے، مگر یاروں کے زیر اثر انہوں نے اپنی محبتوں کو واقعات ہی رہنے دیا۔ اگر ہم جرأت کے ساتھ ذرا سختی برتنا چاہیں تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ یاروں میں مقبول ہونے کے لئے شعر کہتے تھے اور شعر کہنے کے لئے عشق کرتے تھے۔ بہر حال ان کی شاعری میں یہ احساس غالب ہے کہ شعر اور عشق دونوں مجلسی کمالات کا ایک حصہ ہیں اورخوش وقتی کا ایک وسیلہ۔
چنانچہ ان کا فن اصل میں ناول نگار یا افسانہ نویس کا فن ہے، شاعر کا نہیں۔ یہاں زندگی کے سارے تجربات کو ایک ساتھ مٹھی میں لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہاں واقعات فرداً فرداً دلچسپ ہیں اور سلسلہ وار ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں۔ یہاں تفصیلات ہی اہم ہیں، خصوصا ًخارجی تفصیلات۔ اس قسم کا عشق مسلسل غزل میں بڑی اچھی طرح ڈھلتا ہے۔ جرأت کی بہت سی مسلسل غزلیں منظوم افسانے ہیں جن پر غزل کی حیثیت سے نہیں بلکہ مختصر افسانے کی حیثیت سے غور ہونا چاہئے۔ مثلاً وہ غزل جو اس طرح شروع ہوتی ہے،
نہ گرمی رکھے اس سے کوئی خدایا
شرارت سے جی جس نے میرا جلایا
چونکہ یہ کہانی عشق کی نہیں بلکہ ’’گرمی‘‘ کی ہے۔ اس لیے شاعر کو اپنی پوری بپتا ساری تفصیلات سمیت یاد ہے، اور ان تفصیلات میں ایک منطقی سلسلہ قائم ہے۔ اس کہانی کی ایک ابتدا، ایک انتہا، ایک درمیانی حصہ الگ الگ موجود ہیں۔ یہاں وہ میر والی بات نہیں کہ ابتدا اور انتہا سب ایک دوسرے میں مدغم ہو جائیں۔ اس لئے جرأت کا وہ مشہور مستزاد۔
جادو ہے نگہ چھب ہے غضب قہر ہے مکھڑا
اور قد ہے قیامت۔۔۔
ایک مکمل افسانہ ہے۔ بلکہ اگر ہم چاہیں تو جرأت کے کلام سے ان کی پوری سوانح عمری مرتب کر سکتے ہیں۔ ہم یہ پتہ چلا سکتے ہیں کہ ان کے محبوب پردہ نشین بھی تھے اور بے پردہ بھی۔ معاشقہ کس طرح شروع ہوا، محبوب کی شکل و صورت کیسی تھی، وہ اپنے عاشق کے ساتھ کس طرح پیش آیا۔ اقرباء کا رویہ کیا رہا۔ رقیبوں نے کیا دراندازیاں کیں۔ عاشق کو کس قسم کی کامیابی یا ناکامی حاصل ہوئی۔ وغیرہ وغیرہ۔ غرض وہ لطیف واقعات بیان کر کے شاعری کرنا چاہتے ہیں۔
یا تو اس کے گھرسے آتے تھے نہ اپنے گھر کو ہم
یا اب اپنے گھر میں بیٹھے دیکھتے ہیں در کو ہم
تماشا ہے کہ جن روزوں میں اس کے اقربا خوش تھے
تو ناحق پھر گیا تھا ہم سے دل اس آفت جاں کا
اس لطیف واقعات بیان کرنے والی شاعری میں جرأت کے ذاتی مزاج کے علاوہ ایک اور بات کو بھی دخل ہے۔ معاملہ بندی اس سماج میں چلتی ہے جہاں مرد اور عورتیں ایک دوسرے سے بالکل الگ رہتے ہوں۔ ایسے حالات میں لوگوں کو گندی باتیں سننے کا شوق بڑھ جاتا ہے اور چلمن میں سے ایک جھلک دیکھ لینا یا آنچل نظر آ جانا بھی گندی بات بن جاتا ہے۔ یہاں ذرا سی تفصیل بھی بذات خود لطف دینے لگتی ہے اور لو گ فورا کھی کھی ہنس دیتے ہیں۔ اسی لئے سراپا کے بیان میں اس قسم کی دلچسپی پیدا ہوتی ہے جو اکثر لکھنوی شاعروں کے یہاں ملتی ہے۔ یعنی سراپا کا مطلب جسم کی تفصیلات گنوانے کا ہو جاتا ہے۔ جرأت جیسے شاعروں کی بدولت اردو شاعری میں حقیقت نگاری کا جو اضافہ ہوا وہ قابل قدر تو ضرور ہے، لیکن دلچسپ واقعات یا مزے دار قصہ سنانے کے شوق میں جرأت اور معاملہ بندی والے شاعروں کو بعض دفعہ یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ قصہ تو ہو گیا، مگرشعر بھی ہوا یا نہیں۔
میں رو کر کے جو کہنے لگا درد دل
وہ منہ پھیر کر مسکرانے لگا
جرأت کے یہاں کتنے ہی شعر ایسے ملیں گے جو حقیقت نگاری کی وجہ سے پھس پھسے بن کے رہ گئے ہیں۔ چونکہ ایسی شاعری میں یہ خطرہ ہر وقت رہتا ہے، اس لئے جرأت کو زبان و بیان پر اس قدرت اور صناعی کی ضرورت پڑتی ہے جو میر کے لئے لازمی نہیں۔ اسی لئے میر نے ہدایت کی کہ ’’ہم کو شاعر نہ کہو۔‘‘ میر کا ذریعہ اظہار، ان کا اسلوب، ان کی زبان، تجربے کی اندرونی کشاکش سے پیدا ہوتی ہے۔ جرأت اپنی کہانی کو دلچسپ اور مزیدار بنانے کے لئے اپنی زبان دانی سے کام لیتے ہیں۔ میر کو زبان سے ہر وقت کشمکش کرنی پڑتی ہے، اس لئے ان کے اچھے شعروں میں بعض دفعہ بیان کا کچاپن مل جائے گا۔
جرأت کو مروجہ الفاظ میں نئی وسعتیں پیدا کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ انہیں تو صرف موزوں لفظ ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ اس لئے ان کے اچھے شعر بالکل گھٹے گھٹائے ہوں گے۔ جو بے ساختگی آپ کو جرأت کے یہاں ملے گی، وہ میر کے یہاں نظر نہیں آئے گی۔ جرأت عام طور سے اپنی بات پوری کہہ لیتے ہیں۔ میر بعض دفعہ پوری بات نہیں کہہ سکتے۔ یوں روز مرہ تو دونوں ہی استعمال کرتے ہیں مگر میر کے یہاں وہ زبان ملے گی جو وسیع ترین انسانی تعلقات کے داخلی پہلو کی نمائندگی کرتی ہے۔ جرأت کے یہاں وہ زبان ہے جو خارجی حرکات کے بیان میں کام آتی ہے۔ پھر میر کے یہاں زبان کی ایک اور معنویت بھی ہے۔ اپنی ٹیڑھی چال اور روکھی بات کی وجہ سے ان کا رشتہ دوسرں سے منقطع ہو گیا تھا۔ وہ زبان کی مدد سے یہ ٹوٹا ہوا رشتہ پھر جوڑتے ہیں، کیونکہ جو زبان میر استعمال کرتے ہیں وہ سارے سماجی تجربے کا نچوڑ ہے۔ اپنے تجربے کو اس زبان میں سموتے ہوئے وہ اپنے آپ کو دوسرں میں پھر مدغم کر لیتے ہیں۔
ضعف بہت ہے میر تمہیں کچھ اس کی گلی میں مت جاؤ
صبر کرو کچھ اور بھی صاحب طاقت جی میں آنے دو
برا حال اس کی گلی میں ہے میر
جو اٹھ جائیں واں سے تو اچھا کریں
اس کے برخلاف جرأت کی زبان سماجی تجربے کی زبان نہیں، بلکہ سماجی تعلقات کی زبان ہے۔ وہ لوگوں سے کیا بھاگتے، لوگ انہیں خود گھیرے رہتے تھے اس لئے انہیں اپنی معونیت دوسروں پر اور دوسروں کی معنویت اپنے اوپر واضح کرنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی۔ پھر وہ اپنے الفاظ میں متضاد قسم کے تجربے بھرنے کی کوشش کیوں کرتے؟ جن چیزوں کا وہ ذکر کرتے ہیں ان کی قدر و قیمت خود ان کی نظروں میں اور دوسروں کی نظروں میں بھی معین ہے۔ سماجی تعلقات اسی مفاہمت کے بل پر چلتے ہیں۔ چونکہ انہیں یہ مفاہمت حاصل ہے لہٰذا وہ سماجی تعلقات کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ اس مفاہمت کو اور ترقی دیتے ہیں۔
ان کی شاعری کی جو بنیادی تحریک میری سمجھ میں آئی تھی وہ میں نے پیش کردی۔ اب میں ان کے عشق کوسمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ چونکہ میں ایسی باتیں کہوں گا، جن میں جرأت کی تنقیص جھلکے گی، اس لئے میں پہلے ہی سے بتائے دیتا ہوں کہ میرا نقطہ نظر وہ نہیں جو غدر کے بعد سے نیک اور ثقہ لوگوں کا رہا ہے۔ اگرجرأت کی شاعری فاسقانہ ہے تو مجھے اس سے کوئی گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ اگر ان کا محبوب بازاری ہے تو بھی کراہیت کی کوئی وجہ نہیں۔ جو شاعری یا جو محبت جسمانی خواہش کی پاکیزگی محسوس نہ کر سکے وہ قوت اور عظمت سے بھی پاک ہوگی۔ دانٹے جیسی پاک محبت کس شاعر نے کی ہے مگر پواؤلو اور فرانچسکا کی نفسیاتی محبت کے سامنے اس کا بھی سر احترام سے جھک جاتا ہے۔ لیکن جو نفسانی خواہش انسانی ہستی کے باقی عناصر سے، انسانی زندگی کے دوسرے پہلوؤں سے اور کائنات کی پیچیدگیوں اور وسعتوں سے الگ ہو محض اپنے اوپر مرتکز ہو جائے وہ بڑی شاعری پیدا نہیں کر سکتی۔ اگر نفسانی خواہش آدمی کو اپنے چاروں طرف دیکھنے پر ابھار سکے تو گندی سے گندی بات بڑی سے بڑی بات بن سکتی ہے مثلا YEATS نے کہا ہے،
BUT LOVE HAS PITCHED HIS MANSION IN THE PLACE OF EXCREMENT, IT CAN NEVER BE WHOLE OR SOLE; THAT WHICH IS NOT RENT-
جنسی خواہش کے باوجود بلکہ شاید جنسی خواہش کی مدد سے آدمی محبوب کے حق میں ساری کائنات کا حسن دیکھ سکتا ہے۔ مثلاً فراق،
تارے بھی ہیں بیدار زمیں جاگ رہی ہے
پچھلے کو بھی وہ آنکھ کہیں جاگ رہی ہے
لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو محبوب کو دیکھ کر سسکی بھرتے ہیں، اور ان کی شاعری بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ خیر، اب جرأت کی طرف آئیے۔ اس میں شک نہیں کہ ثقہ لوگوں کی رائے کے مطابق ان کے یہاں بازاری قسم کی فقرے بازی، شوقیانہ بدمذاقی، گھٹیا اور چھچھورے طعنے اور بازار حسن میں جا کر آوازے کسنے کا انداز موجود ہے۔
کیا کیا وہ خفا مجھ سے ہوا گھر سے نکل کے
جب میں نے پکارا اسے آواز بدل کے
بندے کی سن سفارش بولے وہ یوں کسی سے
عاشق یونہی وہ صاحب سارے جہاں پر ہیں
دو جواب سخن اس کو تو یہ جھنجھلا کے کہے
چل بے چل مجھ سے نہ ہر بات میں تکرار نکال
دام میں ہم کو لاتے ہو تم دل اٹکا ہے اور کہیں
شعر پڑھانا ہم سے اور مضمون گٹھا ہے اور کہیں
لگ جا گلے سے تاب اب اے نازنین نہیں
ہے ہے خدا کے واسطے مت کر نہیں نہیں
اسی طرح سے دیکھئے تو اس آخری شعر میں جرأت نے جو کچھ کہا ہے، کاول کانتی اور جون ڈن نے اپنی (ECSTASY) میں مارویل نے اپنی (COY MESTRESS) میں اس سے زیادہ اور کیا کہا ہے؟ بقول خاں صاحب، سب وہی بات ہے۔ میر کے شعروں میں بھی اس کے سوا اور کیا رکھا ہے۔
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
یہ صرف بڑے شاعر اور چھوٹے شاعر کا فرق نہیں ہے۔ یہ فرق ایک خواہش کو باقی سب خواہشوں سے، ایک سرگرمی کو باقی سب گرمیوں سے الگ کر لینے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ صاف صاف تو کیا کہوں ثقہ لوگوں کے درمیان رہنا ہے، یوں سمجھئے کہ مندرجہ بالا شعر ایسے آدمی کے ہی ہو سکتے ہیں جو اپنی ناک سے آگے نہ دیکھ سکتا ہو۔ لیکن اس بازاری پن کے باوجود یہ کہنا غلط ہوگا کہ ان کا عشق محض چھیڑ چھاڑ یا ہنسوڑپن ہے یا ان کے عشق میں شدت اور خلوص نہیں۔ یہ چیزیں ان کے اندر موجود ہیں، بلکہ اس شعر میں بھی موجود ہیں۔
جب یہ سنتے ہیں وہ ہمسائے میں ہیں آئے ہوئے
کیا در و بام پہ ہم پھرتے ہیں گھبرائے ہوئے
لیکن بڑی شاعری اور بڑی شخصیت کی تعمیر محض شدت اور خلوص کی بنیادوں پر نہیں ہوتی۔ جذباتی خلوص اور اخلاقی خلوص میں بڑا فرق ہے۔ جذباتی خلوص تو ایک لمحہ کی چیز ہوتا ہے۔ اخلاقی خلوص اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب مختلف قسم کے پرخلوص اور شدید جذباتی لمحوں کو ایک دوسرے سے ملنے اور ٹکرانے دیا جائے۔ محض اتنا کہہ دینے سے کام نہیں چلتا کہ جرأت کی محبت دیر پا نہیں ہوتی۔ یا وہ صرف وقتی تسکین ڈھونڈتے ہیں۔ ہنگامی عشق بازی شاید ڈانٹے نے جرأت سے زیادہ کی ہوگی۔ ایسی محبت جس کے خلوص اور شدت میں ازل سے لے کر ابد تک کوئی فرق نہ آئے انسانوں کا کام نہیں۔ واسوخت والی ذہنیت سے پاک رہ کر بھی فراق صاحب نے کہا ہے،
یہ کہہ کر میں کرتا ہوں عرض تمنا
نگاہ محبت کے دھوکے نہ کھانا
جرأت کی محبت جھوٹی نہیں مگر ان میں خامی یہ ہے کہ ان کا خلوص جذباتی ہے۔ اخلاقی یا خلاقانہ نہیں۔ انہیں تجربات تو بہت حاصل ہوئے ہیں، لیکن وہ سب مل کر ایک تجربہ نہیں بننے پائے۔ انہوں نے ہر تجربہ کو اپنی اپنی جگہ قبول کر لیا ہے۔ سب تجربات پر ایک ساتھ اخلاقی یا تخلیقی عمل نہیں کیا۔ ان کی زندگی لمحات کا مجموعہ ہے۔ لیکن اس کے اندر کوئی ایسا لمحہ نہیں جس میں ساری زندگی سمٹ آئے۔ ان کے یہاں تضاد بہت ملے گا، لیکن اس تضاد سے کوئی نئی وحدت وجود میں نہیں آتی۔ ان کا روحانی سفر ایک رقص کی شکل کبھی اختیار نہیں کرتا، بلکہ ایسا ہے جیسے کوئی سر اٹھائے جا رہا ہو اور وقتاً فوقتاً راستے کے مختلف نظاروں سے مختلف قسم کا لطف لے لیتا ہو۔ اسی لئے جرأت کے مزاج یا شاعری یاعشق کی جامع و مانع نہ سہی، اطمینان بخش تعریف بھی پیش کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔
اگرہم یہ کہہ دیں کہ جرأت کے عشق کا تعلق خارجی عمل سے ہے، داخلیت سے نہیں، تو بات آدھی تہائی بیان ہوگی۔ خالص جسمانی اور وقتی خواہش میں بھی کچھ نہ کچھ داخلیت آہی جاتی ہے۔۔۔ داخلیت صرف عضویاتی معنوں میں نہیں، بلکہ ان معنوں میں بھی کہ آدمی کو اپنی جذباتی اور ذہنی ہلچل کا تھوڑا بہت شعور پیدا ہو۔ یہ داخلیت ہے کس قسم کی۔ ایک عشق تو وہ ہوتا ہے کہ چاہے آدمی اس پر دن میں دو منٹ صرف کرے۔ لیکن وہ دوسری سرگرمیوں پر بھی اثر انداز ہو، دوسری سرگرمیاں عشق پر اثرانداز ہوں اورعشق کی بدولت آدمی کا خارجی اور داخلی رویہ مکمل طور سے بدلنا شروع ہو جائے۔ دوسرا عشق وہ ہے کہ چاہے آدمی دن بھر اسی فکر میں پڑا رہے لیکن عشق کا دوسری سرگرمیوں سے کوئی داخلی علاقہ پیدا نہ ہونے پائے اور عشق آدمی کی شخصیت کے صرف ایک حصے میں محدود ہو کے رہ جائے۔ جرأت کے عشق میں اسی انداز کی داخلیت ہے۔ مجھے اس سے انکار نہیں کہ جرأت نے جسمانی خواہش کا اظہار بڑی صحت مندی کے ساتھ بڑی صاف دلی کے ساتھ (بلکہ آپ چاہیں تو معصومیت کے ساتھ بھی) کیا ہے۔
یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا
چنپئی رنگ اور بدن کا وہ گدرایا ہوا
گر وہ ہاتھ آئے تو زانو پہ بٹھائے رکھئے
لب سے لب سینے سے سینے کو ملائے رکھئے
بیٹھیں کیا دور کہ چاہے ہے یہی کثرت شوق
آپ کے زانو سے زانو کو بھڑائے رکھئے
بیٹھ آؤ وصل میں ٹک لطف اٹھانے دے مجھے
اب ترے پاؤں پڑوں ہاتھ لگانے دے مجھے
ایک شب ساتھ اس کے گر سونا میسر ہو تو ہائے
شام سے لے تا سحر کیا کیا چمٹ کر سویئے
تم تو روٹھے ہی رہے اور چلی وصل کی رات
لو گنہ بخشئے مل جائیے اور سو رہئے
صرف یہی نہیں کہ وہ اپنی لذت یا ذاتی تسکین ہی چاہتے ہوں۔ جنسی معاملات میں ان کی صحت مندی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ محبوب سے بھی جسمانی جواب کی آرزو رکھتے ہیں۔
لب اس لب سے ملاتا ہوں تو بس یہ دل میں آتا ہے
جو لذت اس کو بھی مل جائے کچھ تو کیا مزا ہووے
ہوے کس منہ سے بیان وہ کہ دم بوس و کنار
کسمسا کر جس ادا سے وہ بھرے ہے سسکی
اور جسمانی ہم آہنگی سے جو جذباتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور جسمانی خواہش کی تکمیل جس طرح پیار بن جاتی ہے، اس کا بھی انہیں تھوڑا سا احساس ہے۔
یاد آتا ہے یہ کہنا جب تو اڑجاتی ہے نیند
اپنی ہٹ تو کر چکے لو اب تو ہٹ کے سویئے
لیکن ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ ایک بات یاد رکھنی چاہئے۔ جب عشق زندگی کی دوسری سرگرمیوں سے بالکل الگ اور شخصیت کے ایک کونے میں بند رہ جائے تو کامیابی اور ناکامی دونوں کی خاص شکلیں بن جاتی ہیں۔ محرومی کی صورت میں آدمی یا تو رونے جھیکنے بیٹھ جاتا ہے یا پھر واسوخت پر اتر آتا ہے جس کی جرأت کی شاعری میں خاصی کثرت ہے۔
لگا دیں گے دل ایسے سے کہ تم بھی رشک کھاؤگے
یہ سن لو تم کہ ہے ڈھب یاد ہم کو بھی جلانے کا
یہ تو ہوئی محرومی۔ کامیابی کا حال یہ ہے کہ اس قسم کا عشق اپنا اظہار خارجی عمل میں ضرور کرنا چاہتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جسمانی طلب کی تسکین نہ رکھنا کوئی فخر کی بات ہے۔ اس طرح کے عشق میں تو اور بھی سڑاند ہوتی ہے۔ لیکن اگر عشق عضو حیاتی تحریک کے علاوہ نفسیاتی تحریک بھی ہے تو اس میں کامیابی کی شکلیں اتنی محدود نہیں ہونی چاہئیں۔ اگرجسمانی تسکین سے بے نیاز ہونا شرم کی بات ہے تو جبلت کو ارتفاع دینے کی صلاحیت سے محروم ہونا بھی کچھ ایسی قابل قدر چیز نہیں۔ جرأت کے یہاں جسمانی تسکین کو ایسی مرکزیت حاصل ہوگئی ہے کہ ان کا عشق بڑی جلدی للچاہٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہے۔
مہ رخسار نظر آتا ہے یوں خال سے خوب
کہ لگا دیجئے ہونٹ اپنا تیرے گال سے خوب
رنگ پر چہرے کے ہے کیا ہی جوانی کی چمک
اور بھرے گالوں پہ جی بو سے کو کیا للچائے ہے
پھر اس عشق اور اس شاعری کے لئے سراپا کی بھی ایک خاص اہمیت ہے۔ اگر آدمی کو محبوب کے حسن یا اس کی شخصیت کا احساس ہی نہ رہے اور وہ ہر وقت اپنے عاشقانہ جذبات ہی سے الجھتا رہے تو میں اسے بھی کوئی بہت بڑا عشق نہیں سمجھتا۔ لیکن جرأت کو عاشق ہونے کے لئے گداز جسم اور ابھری ہوئی گات چاہئے۔ انہیں محبوب کی تلاش نہیں ہوتی۔ بلکہ چند مقررہ جسمانی خصوصیات کی۔ ان کے یہاں محبوب کے حسن پر وہ غور و خوض اور تفکر نہیں ملتا، جس کی مدد سے اس قسم کے فقرے پیدا ہوتے ہیں،
(HER BEAUTY LIKE A TIGHTEND BOW YEATS)
ان کے یہاں اس تفکر کے بجائے ایک چٹخارہ ہے بلکہ ہونٹ چاٹنے کا انداز۔ جہاں انہیں اپنی مطلوبہ اشیاء نظر آئیں اور انہوں نے ان پر ہاتھ مار کر داد دی، جیسے محبوب نے ابھری ہوئی گات نہیں دکھائی، بلکہ کوئی لطیفہ سنایا ہے۔
ابرو ہیں چڑھے بکھرے ہیں بال ابھری ہوئی گات
سج دیکھیو، یہ کیا اس نے دھواں دھار نکالی
اک چاند کی جھلک سی جو پردے کی اوٹ ہے
کیونکر ادھر نہ دیکھوں کہ دل لوٹ پوٹ ہے
اس کی محرم پہ یہ کہتی ہے بنت نرگس کی
دیکھے کوئی کہ لگی آنکھیں ہیں یاں کس کس کو
قد ہے قیامت اور غضب گات آپ کی
جو بات ہے سو قہر قیامت ہے آپ کی
سینہ کوبی کے سوا کچھ اور بن آتا نہیں
کافر وہ سراپا ہے بھبو کا سا بلا گرم
بے قراری ہمیں جوں موج نہ کیونکر ہو کہ جب
لہر دریا کی طرح یار کا جو بن مارے
گو اس آخری شعر میں محبوب دل کشی کا مجموعی تاثر آ گیا ہے، لیکن جرأت کی ذہنیت کو سمجھنے کے لئے دو شعروں کا مقابلہ کیجئے۔ کہتے ہیں۔
کیا جانے کیا وہ اس میں ہے لوٹے ہے اس پہ جی
یوں اور کیا جہاں میں کوئی حسین نہیں
فراق صاحب نے کہا ہے،
کوئی یوں ہی سا تھا جس نے مجھے مٹا ڈالا
نہ کوئی نور کا پتلا نہ کوئی زہرہ جبیں
’’مٹا ڈالنے‘‘ کا مطلب ہے ساری زندگی پر اثر انداز ہونا اور ’’جی لوٹنے‘‘ سے مراد ہےصرف جنسی کشش۔ مٹا ڈالنے میں سراپا کا کوئی دخل نہیں اور جی لوٹتا ہے محبوب کا سراپا دیکھ کر۔ کیونکردوسرے حسینوں سے اس کا مقابلہ ہو رہا ہے۔
ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ جرأت کے عشق میں جسمانی تسکین کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ بھی نہ سہی تو کسی نہ کسی قسم کے خارجی تعلقات اور خارجی تحریکات کے بغیر اس عشق میں آسودگی نہیں ملتی۔ کیونکہ یہ عشق روح کی پکار سے زیادہ جسم کی پکار ہے۔ پھر چونکہ یہ عشق شخصیت کے باقی حصوں کو متاثر نہیں کرتا۔ اس لئے جنسی مطالبات پورے ہوئے بغیر اس میں تسکین کا کوئی پہلو نہیں نکل سکتا۔ یہاں لگاؤ کے ایک ہی معنی ہیں۔ یعنی لگاؤ کا خارجی اظہار۔
نے خط نہ کتاب ہے نہ پیغام زبانی
اس دل کی تسلی کی کوئی بات نہیں اب
ہمیں دیکھے سے وہ جیتا تھا اور ہم اس پہ مرتے تھے
یہی راتیں تھیں اور باتیں تھیں وہ دن کیا گزرتے تھے
ہے وقت خوش انہوں کا کیا لطف ہم دگر ہیں
دل جن کے مل رہے ہیں اور پاس پاس گھر ہیں
یہ کہنا تو جرأت کے ساتھ بے انصافی ہے کہ وہ عشق میں جسمانی تعلقات سے آگے بڑھتے ہی نہیں۔ لیکن عشق کے خارجی اظہار پر اتنا زور دینے کی وجہ سے ان کا لگاؤ لگاوٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جرأت میر کے معنوں میں عاشق نہیں تھے بلکہ عاشق تن۔ وہ یکے بعد دیگرے مختلف مجبوریوں سے سچی محبت کرتے چلتے ہیں اوراپنی عاشقانہ زندگی کے ہرلمحہ کوایک دوسرے سے الگ رکھتے ہیں۔ انہیں محبوبوں کی ان گنت ادائیں یاد ہیں، لیکن محبوب ایک بھی یاد نہیں۔ کوئی ہستی ان کے دل میں اس طرح گھر نہیں کر سکی کہ ان کی کائنات زیر و زبر ہو جائے۔ وہ محبوب سے جسمانی اور جذباتی ہم آہنگی تو چاہتے ہیں، لیکن جنسی تعلقات سے باہر نکل کرعام انسانی تعلقات والی ہم آہنگی کے خواہاں نہیں ہوتے۔
YEATS نے اپنی محبوبہ کی بے مہری کا گلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ محبت تو خیر میں اور بھی کرلوں گا، لیکن یہ روزمرہ کی زندگی میں جو ایک دوسرے کے ساتھ چھوٹی چھوٹی مہربانیاں ہوتی ہیں، یہ اور کہاں ملیں گی؟ جرأت اپنے عشق میں ایسی ہمہ گیر یک جہتی کے طالب نہیں ہوتے۔ انہیں تو عشق کی طلب سی ہے، اور وہ بہرحال کہیں نہ کہیں پوری کرنی ہے۔ انہیں تو خدا نے مزیدار جیوڑا دیا ہے۔ اور جی کی مزیداریاں انہیں بہر صورت دکھانی ہیں۔ ان کے لئے عشق ایسا تجربہ نہیں، جس کے بعد انہیں اپنی ساری زندگی کو ازسرنو ترتیب دینا پڑے۔ انہیں پہلے ہی سے معلوم ہے کہ عشق کیا چیز ہے، اور وہ اپنے آپ کو اس سے سلٹنے کے لئے پوری طرح تیار پاتے ہیں۔ چنانچہ عشق ان کے لئے رحمانی یا شیطانی قوت نہیں بلکہ محض من چلا پن ہے۔
لگا جاتا ہے جرأت اس بت خونخوار سے سچ ہے
وہی دم عشق کا مارے جو ایسا من چلا ہووے
ازل سے گرفتار پیدا ہوا ہے
یہ دل کیا مزیدار پیدا ہوا ہے
پوچھتے کیا ہو کہ اب الفت کسی کے ساتھ ہے
آہ یہ دل کا مزا تو اپنے جی کے ساتھ ہے
ان مزے داریوں نے محبوب کے ساتھ جرأت کے رویے کو بھی عجب رنگ دے دیا ہے۔ محبوب کو بے اعتنائی پرشرم تو اور شاعروں نے بھی دلائی ہے اور کئی پہلوؤں سے۔
کیا کیا آپ نے کہ حسرت سے
نہ ملے حسن کا غرور کیا
فراق صاحب تو محبوب کے ساتھ ناز بھی کرتے ہیں،
کل پھر عشق نہ روٹھ سکے گا
آج منالے آج منالے
لیکن یہ ایک وسیع، قوی اور رچی ہوئی شخصیت کا اپنے اوپر اعتماد ہے جو محبوب سے بھی ٹکرلے جاتا ہے۔ اس کے برخلاف جرأت تو اپنی جنسی خواہش کو اس بری طرح حق بجانب سمجھتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں زندگی کے اور پہلوؤں کو خاطر ہی میں نہیں لاتے۔
حیف ہے اس کے ہونے پر جو یاد کرو تم کو غیر جان
جرأت میں جو نہیں سو ایسی بات وہ کیا ہے اور کہیں
محو دیدار اپنا جیسا کر دیا تو نے مجھے
میں بھی جرأت ہوں کروں یوں تجھ کو حیراں تو سہی
دوڑ دوڑ آنے سے جرأت کو روکو مت کیا کرے
اس بچارے کی طبیعت تم پہ ہے آئی ہوئی
جب یہ من چلا پن اپنی خود اعتمادی میں حد سے گزرنے لگتا ہے تو محبت اچھی خاصی پہلوانی بن جاتی ہے اور اپنی کامرانیوں کا غرور، اوچھاپن، اور ابتذال پیدا کر دیتا ہے۔۔۔ ساتھ ساتھ شاعری میں بھی۔
عاشقی کے فن میں جرأت آج خم ٹھوکوں ہوں میں
سامنے ہو جائے اب جو مرد ہو میدان کا
چنانچہ جب ان کی غیرت کو ٹھیس لگتی ہے تو اس وقت بھی انسانی وقار یا خودداری کے سوال سے زیادہ رنگ یہ ہوتا ہے، جیسے ان کی استادی بلکہ ان کی جنسی خواہش کی توہین کی گئی ہو۔
آج اس طرح سے جھڑکا کہ پھر اس سے جا کر
کچھ بھی غیرت ہو جو دل کو تو نہ زنہار ملے
منہ میں جو آئے ہے سو کہتا ہے
مجھ کو کیا بے زبان پایا ہے
اب ذرا اس ’’عاشقی کے فن‘‘ کو بھی دیکھ لیجئے جس کے وہ ماہر ہیں۔ اصل میں جرأت عاشقی کے فن سے نہیں بلکہ اپنی طبیعت سے واقف ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ عشق لڑانے کے دو ہی نتیجے ہو سکتے ہیں۔ اگر محبوب ہاتھ آگیا تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ اپنی استادی مسلم اور اگرہاتھ نہ آیا تو جی کی مزے داریاں سلامت رہیں۔ آگے دیکھیں۔ اس کارروائی کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی نتائج سے بے نیاز ہوکر عشق لڑا سکتا ہے۔ ناکامی کی صورت میں پہلے سے معلوم ہے کہ رنج دو چار دن سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ انہیں نے پہلے ہی سے انتظام کر لیا کہ عشق زندگی کا ایک گراں بار تجربہ نہ بننے پائے۔ جرأت کی اصل پہلوانی یہ ہے کہ انہیں درد سے بچنے کے داؤ پیچ معلوم ہیں۔ وہ محبت کے میدان میں بڑی آسانی سے خم ٹھونک سکتے ہیں کیونکہ محبت تو ان کی کارروائی کے ہاتھوں ختم ہو جاتی ہے، اب انہیں کیسے ہرایا جا سکتا ہے۔
حسن اے جان نہیں رہنے کا
پھر یہ احسان نہیں رہنے کا
ہجر کے غم سے نہ گھبرا جرأت
اتنا حیران نہیں رہنے کا
محبت کا ختم ہو جانا تو الگ، یہ کارروائی تو محبت کو ہنسی مذاق اور دل لگی میں بدل دیتی ہے۔
پردہ مت منہ سے اٹھانا زنہار
مجھ میں اوسان نہیں رہنے کا
آن کر اپنی امانت لے جا
پھر تجھے دھیان نہیں رہنے کا
پتہ نہیں جرأت نے ساتھ ساتھ یہ بھی کیوں نہ کہہ دیا کہ
آن کر پان تو کھالے جلدی
ورنہ پھر پان نہیں رہنے کا
جو چیز ان کی محبت، ان کی شخصیت، ان کی شاعری کو بڑا ماننے سے روکتی ہے، وہ یہ کہ ان کے یہاں درد نہیں، ٹیس اور کسک ہے۔ چونکہ اس زمانے میں تصوف کا رواج تھا، پھروہ میر کے رنگ میں کہنے کی کوشش وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے وہ نظریاتی طور پر اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ دل میں درد ہو۔
گرچہ ہر قالب میں جرأت صورتیں ڈھلتی رہیں
پر بنا جو درد کا پتلا وہی انساں ہوا
لیکن اس احساس کے باوجود وہ درد سے گھبراتے ہیں۔ وقتی رنج تو وہ سہار لیتے ہیں۔ میر کی پیروی کرنے کی فکر میں آخر انہوں نے زارنالی کے مضامین باندھے ہی ہیں اور میر نے ان کی طبیعت کی خاصی اصلاح کی ہے، اور کئی جگہ ان کا لہجہ بدلاہے۔
روئے ہے بات بات پر جرأت
ہے گرفتار یہ کہیں نہ کہیں
لیکن وقتاً فوقتاً دل گداز ہو جانے کے باوجود ان کے یہاں وہ ’’اپنا غم‘‘ نہیں ملتا جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا۔ رنج ایک وقتی چیز ہے۔ درد میں ایک تسلسل اور ایک استقلال ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ درد صرف محرومی اور ناکامی سے ہی پیدا ہو۔ جرأت کے یہاں درد محض ناکامی کا احساس ہے۔ ان کی خوشی یا رنج کا انحصار محبوب کے ملنے یہ نہ ملنے پر ہے۔
دل اب ایسا کہیں آیا ہے کہ جی جانے ہے
یہ قلق ہم نے اٹھایا ہے کہ جی جانے ہے
کھوئے جاتے ہم اب دیکھ کے اس کے حرکات
ہم نے محبوب وہ پایا ہے کہ جی جانے ہے
کسی خاص محرومی کے وقت انہیں قلق تو ہوتا ہے، لیکن محرومی کو سمجھنے میں جو اذیت پیدا ہوتی، اس میں وہ جان چراتے ہیں۔ وہ وقتی رنج کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔ لیکن اپنے آپ کو میر کی طرح اپنے دکھوں سے الگ نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے دکھ کی کہانی تو سنا سکتے ہیں لیکن اس کا مطالعہ نہیں کر سکتے۔ وہ اپنی حالت بیان کر سکتے ہیں، اس حالت پر معصومانہ حیرت کا اظہار بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن اس حالت کے اندر ڈوبنے اور اس کی تفتیش کرنے کی خواہش انہیں نہیں ہوتی۔
آرام نہ ہو دل کو تو اے یار کریں کیا
پھر پھر کے یہیں آتے ہیں ناچار کریں کیا
تماشا ہے کہ پاس اپنے وہ بٹھلاتے نہیں ہم کو
اور اس سے گر جدا بیٹھیں تو پھر بیٹھا نہیں جاتا
ان کے اندر محبت کے خلاف ایسی مدافعت نہیں جیسی حالی میں ہے۔ انہیں محبت سوفیصدی قبول ہے اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہے کہ اس میں تھوڑے بہت دکھ بھی جھیلنے پڑیں گے۔ اوکھلی میں سر دیا تو چوٹوں کا کیا ڈر، چنانچہ نہ توان کے اندر کشمکش پیدا ہوتی ہے جو حالی کے یہاں ہے، نہ وہ تضاد اور کھینچا تانی جو میر میں ہے، (میر کے درد کا سبب یہ الجھن ہے کہ آخر عشق بیک وقت رحمت اورعذاب کیوں ہے) چونکہ وہ فن عاشقی کے ماہر گرگ باراں دیدہ ہیں۔ انہیں سب حالات کا پہلے علم ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے، اس لئے وہ درد کو اٹھنے ہی نہیں دیتے۔
جو کروگے ظلم ہم پر سب سہیں گے کیا کریں
تم بنے اس کام کے اور ہم بنے اس کام کے
پھرتے ہیں دن کو کو بہ کو گذرے ہے شب کراہتے
سہتے یہ کیوں خرابیاں گر نہ کسی کو چاہتے
اپنی توقع کے مطابق انہیں کبھی کبھی محرومی اور ناکامی یا محبو ب کی بے اعتنائی کے سبب دکھ ہوتا ہے۔ کلیجے میں ہوک اٹھتی ہے اور وہ اپنے خلوص، اپنی حق گوئی کے تقاضے سے مجبور ہو کر اپنی پہلوانی کے باوجود کراہ لیتے ہیں۔
کیا عالم آپ کا ہے میاں جرأت ان دنوں
عالم سے چھٹ گئی ہے ملاقات آپ کی
جب مرے پاس سے اٹھ کر وہ کہیں جا بیٹھے ہے
جی میں گزرے ہے کہ اے کاش وہیں ہوتے ہم
ہم نے ہر چند کہا پر نہ وہ آیا یاں تک
کیا کہیں بات بنا کر دل مہجور سے ہم
بعض دفعہ تو وہ اپنی کسک میں بھی ایک طرب کا پہلو پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ وہ بات نہیں کہ غم و نشاط گھل مل کر ایک ہو جائیں۔ بلکہ ایسا ہے جیسے کسی کو سب سے الگ تھلگ منہ لٹکائے بیٹھے دیکھ کر اس کاغم غلط کرنے کے لئے اسے چھیڑتے ہوں۔
واں سے اول دل بے تاب تو کب آتا ہے
اور جو آتا ہے تو سوجا پہ مچل کر آنا
اس کے مقابلے میں داغ کا یہ شعر دیکھئے،
داغ وارفتہ کو ہم آج ترے کوچے سے
اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے
جرأت نے محبوب کی ستم ظریفی کا ذکر ایک جگہ یوں کیا ہے،
کل جو رونے پہ مرے ٹک دھیان اس کا پڑ گیا
ہنس کے یوں کہنے لگا کچھ آنکھ میں کیا پڑ گیا
اس وقت تو خیر محبوب بچاروں کے ساتھ زیادتی کر رہا تھا۔ لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جرأت کے درد کی نوعیت اسی قسم کی ہے جیسے آنکھ میں کچھ پڑ گیا ہو۔ یعنی ایک ایسا واقعہ جو تھوڑی دیر تکلیف دے مگر پھر تکلیف دور ہو جائے۔ جرأت اس تکلیف سے اتنا گھبراتے ہیں کہ ایک جگہ تو انہوں نے ’’بقول میر‘‘ کہہ کے ’’سپردم بہ تو مایہ خویش را‘‘ والا معاملہ کر دیا ہے۔
آوارہ دربدر ہوں میں جرأت بقول میر
خانہ خراب ہو جیو اس دل کی چاہ کا
اصل میں جرأت کا قصہ یہ ہے کہ وہ دو قسم کی شاعری کے درمیان بٹے ہوئے ہیں۔ ایک تو لکھنوی شاعری دوسرے میر کی شاعری۔ اپنی ظریف طبعی کے باعث اور کچھ ماحول کے اثر سے انہوں نے اس طرح کی خیال آرائیاں تو کی ہیں جہاں الفاظ یا تصورات کوجذبات سے الگ کر کے ان سے کھیلا جاتا ہے۔ مثلاً
ہے یہ عالم چشم ساقی پر کہ وقت مے خوری
چشم بینا حق سے چاہے ہے کباب نرگسی
لیکن ان کی طبیعت میں انشاء کا ساہنسوڑپن نہیں تھا۔ اس لئے وہ اس رنگ میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ کچھ میر کی پیروی کے شوق نے انہیں ادھرٹھیک طرح چلنے نہ دیا۔ لیکن دوسری طرف لکھنوی رنگ نے میر کا رنگ خراب کیا۔ پتہ نہیں کہ اگر وہ لکھنؤ کے بجائے دلی میں ہوتے تو کس قسم کی شاعری کرتے۔ ان کے حزن میں وسعت اور گہرائی آجاتی، یا ان کا طربیہ انداز بھی مرجھا کے رہ جاتا۔ فی الحال صورت یہ ہے کہ وہ دیکھتے ہیں ’’آتش رخوں کے حسن کا بازارگرم ہے‘‘ اور اپنی گرمی دکھانا چاہتے ہیں۔ عشق میں خارجی کامیابی کی انہیں ایسی چاٹ پڑ گئی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً دکھ جھیلنے کے باوجود دکھ سے گھبراتے ہیں اور اسے جی کا جنجال سمجھتے ہیں۔ جس عشق میں مصیبت اٹھانی پڑے، اس کے بعد انہیں افسوس ہوتا ہے کہ آخر اس مصیبت میں ہی کیوں پڑے۔ بارغم کے نیچے تو میر بھی پس پس گئے ہیں۔ مگر جرأت کے لئے کامیابی اور ناکامی کا فرق بہت معنی رکھتا ہے۔ پہلوانی کی ڈینگ کے باوجود انہیں اپنے اس کچے پن کا احساس ہے۔
ہر روز کے جلنے کو کہاں سے جگر آئے
(اس کے مقابلہ میں میر کا شعر بھی یاد کیجئے۔)
جب نام ترا لیجئے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
(میر کے لئے زندگی ایک ’’عشق‘‘ ہے۔ جرأت کے لئے الجھن)
جرأت بلند مرتبہ عشق ہے بہت
ہم پست ہمتی سے ابھی ہیں ورے ورے
جی کے لگ جانے کا کچھ پایا دلا تونے مزہ
ہم نہ کہتے تھے بری ہوتی ہے دیوانے لگی
جہاں جا بیٹھا ہو دل نہیں لگتا میاں جرأت
کہو اب تو اٹھائی کیفیت کچھ دل لگانے کی
لگایا غم یہ جوانی میں کیوں میاں جرأت
ابھی تو سیر تماشے کے تھے تمہارے دن
سختیاں درد محبت کی نہ پوچھو ہے ہے
جی ہی جانے ہے جو کچھ دل نے اذیت پائی
ملاؤں آنکھ ٹک اس سے تو سر تن سے جدا ہووے
کہاں لا کر پھنسایا اے ترے دل کا برا ہووے
جرأت سے درد تو واقعی نہیں برداشت ہوتا، لیکن جن حدوں میں رہ کر وہ عشق کرتے ہیں، ان کے اندر رہتے ہوئے بھی اور اپنے کھلاڑپن کے باوجود اور اپنے من چلے پن کے باوجود بہت سی جگہ جسمانی لگن کی شدت اور خلوص کے باوجود ان کی شاعری میں کئی جگہ لہک اور مہک، والہانہ پن اور سرشاری بلکہ معصومیت تک آگئی ہے۔
کہاں آئے کہاں بیٹھے سمجھتے کچھ نہیں جرأت
یہ ہو جاتی ہے ہم کو بے خودی سی واں سے گھر آکر
مری وحشت سے رک کر دل ہی دل میں یوں وہ کہتا
الہی لگ گئے کیوں ایسے دیوانے کو پیارے ہم
کیوں تم پاس سے ہم جائیں بھلا اورکہیں
جی تو لگتا ہی نہیں یاں کے سوا اور کہیں
کوچہ جاناں سے جاتے ہیں پہ جا سکتے نہیں
گو اٹھاتے ہیں قدم پر دل اٹھا سکتے نہیں
جی میں سو بار آئے ہے جرأت نہ ملئے یار سے
پر سمجھ کر دل میں کچھ سوگند کھا سکتے ہیں
اگرمحض جنسی تسکین ہی کا سوال ہو اور معاملہ اس سے آگے نہ بڑھے تو اور بات ہے لیکن اگر آدمی کے دل میں جسم کا احترام نہ سہی، جسم اور جسمانی خواہش کی تھوڑی بہت قدر ہو (چاہے وہ ابھری ہوئی گات کی قدر ہی سہی) تو یہ کسی نہ کسی حد تک انسانیت کی قدر بن جاتی ہے اورعیش پرستی میں بھی تھوڑا سا ارتفاع آ جاتا ہے۔۔۔ لگاوٹ انسانی لگاؤ میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔ جرأت بھی (غالباً میر کے سہارے) اس طور تھوڑا سا بڑھے ہیں۔ گو حسرت موہانی کے برابر بھی نہیں پہنچے۔
مضطرب ہو کے دل اس شوخ کا بھی دھڑکے ہے
آکے بیٹھے ہے کبھی پاس نہ مجھ مضطر کے
یا لاگ دلوں کی تھی بہم دم بدم افزوں
یا جی کی رکاوٹ ہے ادھر اور ادھر بھی
جرأت کی زندگی میں دوچار لمحے ایسے بھی آئے ہیں جب یہ لگاؤ بڑھ کرمحبوب کی قدر اور محبوب کے احترام کی شکل اختیار کرتا نظر آتا ہے۔ مگر یہ آثار آثار ہی رہے۔ ان کی نشوونما نہ ہونے پائی۔
ہوئی اور یاں ہم سے جرأت تو کیا
مگر تم کو آکر خفا کر چلے
یوں وہ آنکھوں میں کہے ہے جب کہ روتا ہے کوئی
پھوٹ پھوٹ اتنا نہ رو بدنام ہوتا ہے کوئی
کہا ہے میں نے تجھے کہ کب غیر پاس نہ بیٹھ
خدا کے واسطے مجھ پاس تو اداس نہ بیٹھ
ایسے وقت اپنی جسمانی خواہش کے حق بجانب ہونے کا خیال بھی ان کے دل سے نکل جاتا ہے اور وہ اپنے عاشقانہ تعلقات کو بھی عام انسانی تعلقات کے دائرے میں لانے کی تھوڑی بہت کوشش کرتے ہیں۔
جسے یاد اپنی لگائیے اسے صاف دل سے بھلائیے
ٹک ادھر تو آنکھ ملائیے یہی ہم سے قول و قرار تھا
کسی نے تیری خاطر خانہ ویراں کر دیا اپنا
بھلا تو بھی اسے اے خانماں آباد جانے ہے
بھلا دیکھو تو ہم تم ایک ہی بستی میں بستے ہیں
سو تس پر یہ غضب ہے دیکھنے کو بھی ترستے ہیں
لیکن اس آخری شعر میں انسانی ہستی کی پیچیدگیوں پر وہ استعجاب آمیز بیچارگی کا احساس نہیں آنے پایا جو میر کے شعر میں ہے،
وجہ بے گانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
جرأت کے شعر میں تو صرف محبوب کی بیگانگی کا گلہ ہے۔ بہرصورت ان کے یہاں بھی محبوب کے جسم نہیں بلکہ اس کی شخصیت کی سچی طلب دو ایک جگہ ملتی ہے۔
گر در یار پہ پھر پھر کے نہ آتے جرأت
در بدر روتے پڑتے پھرتے جدھر جاتے ہم
مگر محبوب سے انہیں ایک منفی قسم کا فائدہ پہنچا ہے۔ یعنی وہ سرگشتہ نہیں ہونے پائے، آتش کو محبوب کی بے رخی میں بھی ایک مثبت چیز حاصل ہوئی ہے، اسی لئے آتش کے شعر میں ایک بے پایاں سکون ہے۔ جس نے اضطراب کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔ ایک ایسی ٹھنڈک ہے جو جرأت کے شعر کو چھو کر بھی نہیں گئی،
دھوپ میں سایہ دیوار نے سونے نہ دیا
خاک پر سنگ دریار نے سونے نہ دیا
اچھا، جب جرأت کی طرف سے محبوب کا رویہ دیکھئے کہ انہیں اپنی محبت کا جواب کیسا ملتا ہے۔ عام طورسے جرأت کا محبوب ان سے چھیڑ اور لگاوٹ کی باتیں کرتا ہے جو بے رخی اور بے اعتنائی سے خالی ہیں۔ جرأت کو دو انسانی ہستیوں کی درمیانی خلیج کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے۔۔۔ یعنی بعض وقت کی محرومی کے باوجود۔
دیکھ ہم خاک نشینوں کو وہ بولا کہ کہیں
اور جاگہ نہیں کیا یہ جو یہیں بیٹھتے ہیں
دیکھے منت سے مرا کوئی بٹھانا جرأت
اور اس شوخ کا کہنا کہ نہیں بیٹھتے ہیں
میں یہ نظروں میں سبک ہوں کہ دم گریہ وہ شوخ
ہنس کے چھیڑے ہے کہ لو بس نہ کرو دل بھاری
کچھ لگاوٹ کا سبب اور نہیں پر جرأت
یہ وہ چاہے ہے کہ اس کو بھی لگائے رکھئے
لیکن جب یہ لگاوٹ لگاؤ میں بدلتی ہے تو محبوب رفاقت کا حق ادا کر دیتا ہے۔ محبوب کے معاملے میں بھی یہ ربط اور رفاقت کا احساس جسمانی آسودگی سے پیدا ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ انسانی تعلقات کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ فراق صاحب نے ایک دفعہ اس تعجب کا اظہار کیا تھا کہ بعض شاعر محبوب کی بے اعتنائی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر کہیں محبوب خود ان پر عاشق ہو جائے تو کیا ہو؟ لیکن جرأت کو ان شاعروں کی طرح اس قسم کی پریشانی نہیں اٹھانی پرتی۔ وہ عشق لڑانا بھی جانتے ہیں اورعشق وصول کرنا بھی۔ کیونکہ ان کے یہاں عشق کا سارا کاروبار جسمانی مفاہمت پر منحصر ہے۔ چنانچہ انہیں محبوب کے لگاؤ کا احساس ہے اور اس کی قدر بھی۔۔۔ بلکہ انہیں عشق میں سب سے بڑی ضرورت اسی چیز کی ہوتی ہے۔
کیا جانئے کم بخت نے کیا ہم پہ کیا سحر
جو بات نہ تھی ماننے کی مان گئے ہم
حیرت ہے کہ کل اس نے کہی کان میں اپنے
وہ بات کہ مطلق جو نہ تھی دھیان میں اپنے
کئی دن بعد جانے پر ذرا جس سے کہ الفت ہو
غضب ہے اس کا یہ کہنا کہ کتنے بے مروت ہو
روٹھے اس شوخ ستم گر سے تو اس نے ہم کو
ان دھڑکوں سے منایا ہے کہ جی جانے ہے
کامیاب عشق میں محبوب سے اتنی ہم آہنگی اور ربط حاصل کرنے کے بعد بھی عشق جرأت کے لئے انسانی زندگی یا کائنات سے ہم آہنگی حاصل کرنے کا وسیلہ نہیں بنتا۔ یہ ربط صرف ایک آدمی سے حاصل ہوتا ہے اور وہ بھی اپنی اپنی شخصیتوں کے دو چارگوشوں میں۔ محبوب ان کے روٹھ جانے سے تو ڈرتا ہے اور ان کے کان میں ایسی بات بھی کہہ دیتا ہے جوان کے دھیان میں بھی نہ آئی تھی، لیکن یہ محبت کرنے والا محبوب ان کے لئے کبھی وہ چیز نہیں بنتا، جو فراق صاحب کا محبوب ان کے لئے بن گیا ہے۔
تو دن کی طرح حسیں رات کی طرح پر کیف
جہاں بھی جائے بہ انداز مہر ومہ جائے
جس عشق پر بسیط انسانی زندگی اور کائنات کا پر تو نہ پڑے وہ اس سے زیادہ بھی کیا ہو سکتا ہے؟ جو آدمی محبوب کی اداؤں کو گنتا رہ جائے اور دوسری چیزیں چھوڑ پورے محبوب کو بھی نہ دیکھ سکے، وہ اس سے بڑی شاعری کیا کر سکتا ہے؟ یوں تو جرأت نے سرسے پیر تک محبوب کے سارے دلکش اعضا کا نام لے دیا، لیکن وہ ہمیں اپنا محبوب تک نہ دکھا سکے۔ معاشقے کی تفصیلات بیان کرنے کے باوجود وہ عشقیہ تعلقات کی پیچیدگیوں سے دامن بچاتے رہے۔ انہیں پیچیدگیوں کا احساس تو ضرور ہوا۔ آخر پہلوان عشق تھے۔ چنانچہ اس کا اشارہ انہوں نے کیا ہے۔
دل دیے مدت ہوئی ہے اب تلک لیکن مزاج
اس بت کافر کا کس کافر سے سمجھا جائے ہے
لیکن وہ اس الجھن میں نہیں پڑنا چاہتے۔ جب ایسی بات آتی ہے تو اسے ہنس ہنساکر صاف اڑا جاتے ہیں۔ وہ تو بس یہ دیکھتے ہیں کہ محبوب مل رہا ہے یا نہیں۔ مل رہا ہے اور کس طرح یہ ’’کس طرح‘‘ ہی اصل میں ان کی شاعری ہے۔ لیکن یہ سوالات کہ محبوب کیوں مل رہا ہے اور کیوں نہیں مل رہا۔ خوش وقتی میں مخل ہوتے ہیں۔ یہ باتیں یار لوگ معلوم نہیں کرنا چاہتے۔ لہذا جرأت کنی کاٹ جاتے ہیں۔ محبوب مل گیا تو سبحان اللہ، نہ ملا تو خیر سلا اور اگر عشق میں مرنے کی نوبت آگئی تو بھی۔
دیا اس کے در پہ جو جرأت نے جی
بحمد اللہ محنت ٹھکانے لگی
غرض انجام ہر طرح نقشے کے مطابق ہونا چاہئے کہ یار دوست بھی اس کی صحیح نوعیت پہچان کر اطمینان کے ساتھ الحمد للہ کہہ سکیں۔ چونکہ جرأت کی مکمل سوانح عمری تو میسر نہیں، اس لئے میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کی ذہنی دلچسپیاں محدود تھیں یا وسیع۔ یوں ہونے کو انہوں نے سیاست پر اظہار خیال کیا ہے،
سمجھے نہ امیر کوئی ان کو نہ وزیر
انگریزوں کے ہاتھ اک قفس میں ہیں اسیر
جو کچھ وہ پڑھائیں سو یہ منہ سے بولیں
بنگالے کی مینا ہیں یہ یورپ کے امیر
پھر انہوں نے رسمی یا غیر رسمی طور پر کارواں، قفس وغیرہ کے مضامین بھی باندھے ہیں، جن کی سیاسی تفسیریں بھی کی جا سکتی ہیں۔ لیکن ان کی عشقیہ شاعری سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ اگر ان کی ذہنی دلچسپیاں محدود نہیں تھیں تو بھی انہوں نے اپنی عشقیہ زندگی میں انہیں داخل نہیں ہونے دیا بلکہ یا تو اپنی شخصیت کا بہت بڑا حصہ عشق بازی کے حوالے کر دیا۔ ورنہ پھرعشق کو اپنی ہستی کے ایک الگ تھلگ کونے میں بند کر دیا۔ چنانچہ ان کا عشق دوسری دلچسپیوں اور زندگی کے دوسرے پہلوؤں سے بالکل اثر پذیر نہیں ہوا۔ اوپر سے ایک حرکت انہوں نے یہ کی کہ اپنے عشق کو الگ الگ لمحوں میں بانٹ دیا۔ ان کا عشق اس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوا کہ وہ اسے کل سمجھ کر کبھی نہیں دیکھ سکے، اجزا ہی سے الجھتے رہے۔
انہوں نے اردو شاعری کو یہ فائدہ ضرور پہنچایا کہ ہماری شاعری چھوٹی چھوٹی اداؤں اور لمحاتی تاثرات کو بیان کرنا سیکھ گئی۔ لیکن جرأت میں اتنی قوت نہیں تھی کہ ان کا تخیل ان اداؤں کو پوری شخصیت کا نمائندہ بنا کے پیش کر سکتا۔ چنانچہ وہ تاثرات کے شاعر ہیں۔ تجربے کے شاعر نہیں۔ ان کا فن عکاسی ہے، خلاقی نہیں۔ اس لئے ان کا عشق عام تندرست آدمی کاعشق ہے اور ان کی عشقیہ شاعری کم سے کم عاشق مزاجوں میں ضرب المثل بن جانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.