میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات
ادب اور میڈیسین کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ دونوں ہی انسانی کیفیات کا علاج کرتے ہیں اور ان دونوں کی حیثیت معاشرہ میں کارِ مسیحائی کی ہے۔ ادب سماج کی نبض کو ٹٹول کر اس کی بیماریاں بیان کرتاہے تو میڈیسین ان بیماریوں کی تشخیص کرکے ان کا علاج تلاش کرتی ہے۔ ادب کو مالا مال کرنے یا اس کی ثرو ت مندی میں اضافہ کرنے میں میڈیسین کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے۔ فرائڈ نے جہاں نقدِ ادب کو تحلیل نفسی جیسا نظریہ دیا اور تنقید کا ایک نیا دبستان کھول دیا وہیں جدید اردو نثر کے بانی ڈاکٹر جان گلکرسٹ نے اردو نثر کو نیا رخ دیا۔ اردو نثر پر گلکرسٹ کا بہت بڑا احسان ہے جس کا اعتراف کرتے ہوئے بابائے اردو مولوی عبدالحق نے لکھا ہے کہ، ’’جو احسان ولی نے اردو نظم پر کیا تھا اس سے زیادہ نہیں تو اسی قدر احسان جان گلکرسٹ نے اردو نثر پر کیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر جان بارتھوک گلکرسٹ جو 1759میں ایڈنبرا (اسکاٹ لینڈ) میں پیدا ہوئے تھے وہیں کے جارج ہرٹ اسپتال میں طب کی تعلیم حاصل کی تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی میں بطور اسسٹنٹ سرجن ان کا تقرر ہوا تھا۔ بعد میں وہ فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں ہندوستانی زبان کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ اس وقت کالج کے پرنسپل پادری ریونڈ ڈیوڈ براؤن تھے۔ گلکرسٹ نے انگریزوں کے لیے اردو تعلیم وتدریس کو آسان بنانے کے لئے کئی کتابیں لکھیں جن میں انگریزی ہندوستانی لغت، ہندوستانی علم اللسان، اردو صرف ونحو وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ معلم ہندوستانی، بیاض ہندی، ہندی الفاظ کی قرأت مکالمات انگریزی و ہندوستانی ان کی اہم کتابیں ہیں۔ اردو مستشرقین میں ان کا نام بہت نمایاں ہے۔ انہوں نے ہی اردو نثر کو ایک نئی سمت عطا کی۔ ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں کہ، ’’گلکرسٹ سے پہلے اردو نثر کی روایت تو موجود تھی لیکن گلکرسٹ نے اسے باوقار بنایا اور قلعداری نثر کو روز مرہ کی ادبی زبان بنا دیا۔‘‘
(اردو ادب کی مختصر تاریخ، عالمی میڈیا دہلی2014، ص227)
گلکرسٹ نے اردو کلیات سودا سے سیکھی تھی اور اس میں ان کی مدد کپتان جان ریٹرے نے کی تھی۔ گلکرسٹ نے صرف ہندوستان نہیں یورپ میں بھی اردو کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا بقول ڈاکٹر سلیم اختر، ’’پیرس میں اپنے انتقال تک خرابیِ صحت کے باوجود اردو کو یورپ میں مقبول بنانے کے لئے وہ اپنے طور پر سعی کناں رہا۔‘‘
(اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ، کتابی دنیا، دہلی، 2005ص291)
گلکرسٹ کے ڈاکٹر ہونے کے بارے میں کچھ محققین نے شبہ کا اظہار کیا ہے۔ مگر وفا راشدی لکھتے ہیں کہ، ’’جان گلکرسٹ 1759میں اسکاٹ لینڈ کے دارالخلافہ ایڈنبرا میں پیدا ہوئے۔ ایڈنبرا کے جارج ہیرٹ اسکول میں تعلیم پائی۔ ڈاکٹری سے انہیں بچپن سے دلچسپی تھی، چنانچہ اپنے ہی شہر کے ایک میڈیکل اسپتال میں علم طب کی تکمیل کی۔ 1783میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں بحیثیت ڈاکٹر ملازم ہوئے اور کلکتہ بھیج دیے گئے۔ ‘‘
(بنگال میں اردوص26)
سگمنڈ فرائڈ نے بھی ادب و ثقافت کو ایک نیا تصور اور نیا نظریہ دیا۔ تحلیل نفسی اور لاشعور کے تصورات سگمنڈ فرائڈ کے ہی عطا کردہ ہیں۔ اس کے نظریات و افکارکا بھی ادب و ثقافت پر بہت گہرا اثر پڑا ہے۔ انہو ں نے بھی ویانا یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف میڈیسین کی ڈگری لی تھی اور ایک نیورولوجسٹ کی حیثیت سے ان کی ایک الگ پہچان تھی۔ فرائڈ کے تصورات کے حوالے سے ادبی تخلیقات کے تجزیے میں گفتگو ہوتی رہی ہے۔ خاص طور پر لاشعور اور تحلیل نفسی کے تعلق سے اور ان کے جنسی نظریات بھی تنقیدی حوالے کا حصہ رہے ہیں۔ اس کا اندازہ دیویندر اسر (فرائڈ اور ادب) محمد حسن عسکری (فرائڈ اور جدید ادب) خورشید سمیع (نفسیاتی تنقید اور تحلیل نفسی) رئیس انور (فرائڈی نظریات اور اردو شاعری) شرون کمار ورما (افسانوی ادب پر فرائڈ کے اثرات) جیسے مضامین سے لگایا جاسکتا ہے جو تہذیب صدیقی کی کتاب ’’فرائڈی تناظر‘‘ میں شامل ہیں۔ دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اردو میں بھی فرائڈ کی کتابوں کے ترجمے ہوئے ہیں اور ان کے تصورات ونظریات اورحالاتِ زندگی کے حوالے سے اردو میں بھی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ شیر محمد اختر نے ’’سگمنڈ فرائڈ، حالاتِ زندگی اور نظریات‘‘ کے عنوان سے کتاب تحریر کی ہے اور ڈاکٹر نعیم احمد نے ’’فرائڈ، نظریۂ تحلیل نفسی‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے ’’تحلیل نفسی کا اجمالی خاکہ‘‘ کے عنوان سے فرائڈ کی کتاب کا ترجمہ کیا ہے، جو ترقی اردو بیورو نئی دہلی سے 1985میں شائع ہوا۔ اس کتاب میں ذہن اور اس کے اعمال اور تحلیل نفسی کے طریقۂ کار پر بہت عمدہ گفتگو ہے۔ اس کے علاوہ سگمنڈ فرائڈ ایم ڈی، ایل ایل ڈی کی کتاب Civilization and Its Discontentsکا ترجمہ تہذیب اور اس کے ہیجانات کے عنوان سے احمد سعید ایم اے، صدر شعبۂ فلسفہ و نفسیات، دیال سنگھ کالج لاہور نے کیا اور یہ کتاب 1959میں اردو مرکز لاہور سے شائع ہوئی۔
ڈاکٹرز نے اپنے مصروف ترین پیشہ سے وابستگی کے باوجود عالمی ادب کو نئے زاویوں اور جہات سے آشنا کیا۔ اگر یہ ڈاکٹر نہ ہوتے تو شاید ہمارے ادب کو وہ نیا زاویہ نہیں ملتا، جو ان لوگوں کی وجہ سے ادب کو میسر ہوا۔
یہ ڈاکٹرز صرف ادب کی ایک دو صنف تک محدود نہیں ہیں بلکہ مختلف اصناف ادب میں ان کی نمایاں خدمات ہیں۔ شاعری ہو یا فکشن، ترجمہ ہو یا سوانح یا دیگر موضوعات ہر ایک میں ڈاکٹروں نے اپنی نمایاں کارکردگی کا ثبوت دیا ہے۔ عالمی ادبیات میں ڈاکٹری کے پیشے سے وابستہ بہت سے اہم تخلیق کار رہے ہیں جنہوں نے دنیا کو شاہکار عطا کیے۔ اس سلسلے میں بہت سے نام لیے جا سکتے ہیں، جو عالمی ادب میں نمایاں شناخت رکھتے ہیں۔
اردو کے شعری منظر نامے کی بات کی جائے تو اس حوالے سے بھی بہت سے اہم نام ملتے ہیں اور یہ ایسے نام ہیں جن کے بغیر شاعری کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ ان میں سے بہتوں کا ذکر تنقیدی حوالوں میں بھی ہوتا رہا ہے۔ لیکن بعض ایسے بھی ہیں جنہیں تنقیدی مضامین میں اتنی جگہ نہیں ملی جس کے وہ مستحق ہیں۔ ڈاکٹر ابرار احمد، ثروت زہرا، ارمان نجمی، حسن شکیل مظہری، انور زاہدی، حنیف ترین، اسلم حبیب اور اس طرح کے بہت سے نام ہیں جن سے ایک بڑا ادبی حلقہ اچھی طرح واقف ہے اور ان کی شاعری کے حوالے سے گفتگو بھی ہوتی رہی ہے۔
ڈاکٹر ابرار احمد (لاہور) کا شماراردو کے معتبر اور اہم شاعروں میں ہوتا ہے۔ وہ چھ جنوری 1954کو لاہور پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے دو مجموعے ’’آخری دن سے پہلے‘‘ (1997) اور ’’غفلت کے برابر‘‘ (2007) شائع ہو چکے ہیں۔ وہ نظمیں اور غزلیں دونوں لکھتے ہیں۔ انھیں ادب کی مقامی اور عالمی روایت کا شعور بھی ہے اور روحِ عصر سے بھی ان کی آگہی ہے۔ وہ زندہ اور جاوداں ادب تخلیق کرنے کے قائل ہیں۔ ان کی شاعری میں وقتی نہیں، آفاقی عناصر ہیں۔ ان کا کلام اپنے عصر کی روح سے ہمکلام ہے، ان کی پوری شاعری انسانی رشتوں اور تعلقات پر مبنی ہے۔ انہوں نے خود ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ڈاکٹری کے پیشے نے مجھے زندگی کے بہت قریب رکھا۔ اس انسانی تماشے کے جو انسان کو اپنے اندر بری طرح الجھا دینے والی خوبصورتی رکھتا ہے۔ میں لوگوں سے بے تحاشہ ملا ہوں، ایک طرح کے والہانہ پن کے ساتھ۔ ان کی تکالیف اور خوشیوں میں شریک رہا ہوں۔ اس سب نے میرے اندر رونق لگائے رکھی ہے۔ شاعری نے مجھے اور کچھ دیا یا نہیں۔ جینے کا آسرا اور معانی ضرور دیے، جزوی اور ناکافی ہی سہی۔‘‘
ان کی شاعری میں جو اداسی کی ایک کیفیت ہے، وہ ان کے رنگ سخن کو ایک جداگانہ انداز عطا کرتی ہے۔ فہیم جوزی نے ان کی شاعری کے حوالے سے بہت اہم بات لکھی ہے کہ،
ڈاکٹر ابرار احمد اداسی تخلیق کرتاہے۔ دنیا بھر کے ادب میں ایسی مثالیں خال خال ہی ملتی ہیں جن میں وجود کی کسی خاص کیفیت کو تخلیق کیا گیا ہو۔ ڈاکٹر ابرار احمد ایک ایسے ہی خلاق، ذہین اور باریک بیں شاعر ہیں جن کا شمار ایسے ہی فنکاروں میں کیا جانا چاہیے۔ اس ’’تخلیقی اداسی‘‘ کی نوعیت کیا ہے؟ یہ ایک بنیادی سوا ل ہے۔ اس سوال کا جواب ہمیں اس تجربے کا تجزیہ کرنے سے حاصل ہوسکتا ہے جو اس کیفیت کو ہمارے وجود میں بیدار کرنے کا موجب ہوتاہے۔ دور کیوں جایئے، ڈاکٹر ابرار احمد کی شاعری میں سے چند مصرعے، کوئی بھی مصرع، کہیں سے بھی چن لیجئے۔۔۔
ہم لوٹیں گے تیری جانب
اور دیکھیں گے تیری بوڑھی اینٹوں کے ساتھ
عمروں کے رتجگے سے دکھتی آنکھوں کے ساتھ
اونچے نیچے مکانوں میں گھرے، گزشتہ کے گڑھے میں
ایک بار پھر گرنے کے لئے
لمبی تان کر سونے کے لئے
ہم آئیں گے
تیرے مضافات میں مٹی ہونے کے لئے
ان مصرعوں کے لہجے میں نہ تو ذات کا نوحہ ہے، نہ ہی کسی ہجر کا کرب اور نہ ہی سماجی روایتوں کے خلاف کوئی احتجاج۔ لیکن ان مصرعوں کی استعاراتی ہائرار کی میں ایک ایسی زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے جو اپنے ہونے کے روگ میں مبتلا ہے۔ یہ زندگی نہ تو شاعر کی اپنی ذات ہے یا کوئی افسانۂ دیگر! جو اپنی تجرید خود ہے اور جو معدومیت کے سفر میں ہے۔ درحقیقت معدومیت کا احساس ہی اس گہری اداسی کو جنم دیتاہے جو وجود کو تخلیقی عمل سے بہرہ ور کرتاہے۔ معدومیت وجود کا جوہر ہے۔ جب تک اس سے آنکھیں چرائے پھرتے ہیں، ہم خود کو ملال، حسرت، اضطراب اور خواہش کے دھاروں میں بہتا ہوا محسوس کرتے ہیں لیکن جونہی کسی مصدقہ عمل کی کوئی باغی لہر ہمیں زندگی کی معدومیت میں ڈھکیل دیتی ہے، تو ہم ایک تخلیقی اداسی سے سرشار ہوجاتے ہیں۔‘‘
ان کی شاعری سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک نئے امکان کی جستجو میں رہتے ہیں اور زندگی کا ایک نیا زاویہ تلاش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری ایک نئی جہت کی جستجو کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنے باطن کی جھلسا دینے والی دھوپ کو ایک نیا رنگ دیا ہے۔ ان کی نظموں میں ایک نئی کائنات اور ایک نیا جہان نظر آتا ہے اور ایک ایسی آواز جو دور دور تک کم سنائی دیتی ہے۔
احمد جاویدنے بڑی اہم بات لکھی ہے کہ، ’’وہ اپنی نظم کا سرا وہاں جوڑتا ہے جہاں موجود روایت کی ڈورٹوٹتی دکھائی دیتی ہے اور ادھر کا رخ رکھتا ہے جہاں ایک نئے شعری امکان کی منزل اشارہ کرتی ہے۔‘‘
ان کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے،
جتنا ساماں بھی اکٹھا کیا اس گھر کے لئے
بھول جائیں گے اسے نقل مکانی میں کہیں
خیر اوروں کا تو کیا ذکر کہ اب لگتا ہے
تو بھی شامل ہے مرے رنج زمانے میں کہیں
ہر ایک آنکھ میں ہوتی ہے منتظر کوئی آنکھ
ہر ایک دل میں کہیں کچھ جگہ نکلتی ہے
یہ جو بارش ہے کہیں اور برس لیتی ہے
میری آنکھوں کی نمی اور ہی برسات سے ہے
کچھ ہم کو دماغ زرو مال اب نہیں
یہ جنس ورنہ شہر میں کمیاب ہے کہاں
اب کہاں خواب محبت کہ وہ شب دور نہیں
جب کہیں خاک بھری نیند سے بھر جائے گا تو
سرحد شوق سے پرے شام کی بستیاں بھی ہیں
جب یہ سفر تمام ہو آگے کدھر کو جائیے
میں ہوگیا ہوں خود اپنے سفر سے بیگانہ
کہ نیند میری خواب رواں نہیں میرا
تہی ہے خواب کی خوشبو سے باغِ شب تو اِدھر
ہماری صبح بھی رنگِ سحر سے خالی ہے
وہ خواب ہے کہ رات میں جس کا نہیں سراغ
وہ نیند ہے کہ سونے کی عادت نہیں رہی
ان اشعار سے ان کی فکری اور فنی قوت اور جدت کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے۔
انور زاہدی اردو شاعری کا ایک اہم نام ہے۔ 9جولائی 1946کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد نشتر میڈیکل کالج ملتان سے 1970میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ پی جی ڈی (نیوٹریشن) ایم ایس سی (کمیونٹی ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن) کیا۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ’’سنہرے دنوں کی شاعری‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا، اس کے علاوہ ’’میری آنکھیں سمندر‘‘ ان کا ایک اور شعری مجموعہ ہے۔
طالب علمی کے زمانے سے ہی انھیں شعر و ادب کا بہت شوق تھا اسی لیے انہوں نے میڈیکل سے وابستگی کے باوجود ادب سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا۔
انور زاہدی کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں،
موسم گل میں بھی جلتا ہے کبھی دیکھو دل
تم نے دیکھی ہے کبھی شام سنورتے دل میں
تم نے دیکھا کبھی برسات میں جلتے گھر کو
آنکھ سے دیکھا ہے شعلوں کو لپکتے دل میں
کس پیار سے اتری ہے ستاروں سے بھری رات
تم دیکھ نہ پاؤگی سماں شام سے دیکھو
ملو تو بن کے مہک سانس میں اتر جاؤ
رہو جو ساتھ تو سائے کی طرح گھر جاؤ
بسو جو دل میں تو اپنا ہی گھر بناؤ اسے
رہو جو آنکھ میں اک عکس میں بسر جاؤ
چلی ہوا تو کوئی یاد آگیا پھر سے
اڑی جو خاک تو آنسو رلا گیا پھرسے
ہر ایک دل میں تھا روشن چراغ جاں کی طرح
ہوا یہ کیا کہ دیے بس بجھا گیا پھر سے
ڈاکٹر ثروت زہرا جدید شعری منظر نامے کا ایک معتبرنام ہے۔ وہ بھی ڈاکٹری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے ان کے شاعری معاصر شعرا اور شاعرات سے مختلف ہے۔ Tele scopic اورPeriscopicویژن نے ان کی شاعری کو تنوع عطا کیا ہے۔ انسانی وجود اور کائنات کے مظاہر کو منعکس کرتی ان کی شاعری ہماری سوچ کو نئی سمت، احساس و اظہار کو نیا استفسار عطا کرتی ہے، ڈکشن کی سطح پر بھی یہ شاعری ایک نئی راہ، ایک نئی رہ گزر تلاش کرتی نظر آتی ہے۔ زمین کی الٹرا سائونڈ رپورٹ، خوابوں کا ابارشن، شہر بھر کا انزال، نئی دنیا کی زچگی، خواب کے مہلک جراثیم، بندگی کی دفعہ، کنوار کی چنریوں پر ٹکے ہوئے کانچ کے آئینے، خواب کے پیہم چیخنے کی گونج، جنوں کے بازار سے خریدی ہوئی پرفیوم کی بوتل وغیرہ یہ نئی تراکیب ان کے تخیل کی قوت اور توانائی کا ثبوت ہے۔ ضیا جالندھری نے بہت اہم بات کہی ہے کہ ’’ان کے لفظوں کی جو فیزیا لوجی ہے، جو لفظوں کا چناؤ ہے، ایمیجز بیان کرنے کا جو طریقہ ہے وہ نیا ہے، غیر معمولی ہے اور effectiveہے۔‘‘ جلتی ہوا کا گیت (اگست2009) ان کی شاعری کا مجموعہ ہے۔ اس میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔ اس میں جو نظمیں ہیں ان میں آشوبِ ذات، کائنات کا کرب، زمین کا نوحہ شامل ہے۔ اس میں بہت سی نظمیں تانیثی احتجاج اور مزاحمت کا جلی عنوان بننے کی قوت رکھتی ہیں۔ ان میں ایک نیا تانیثی ڈسکورس ہے، جو دوسرے فیمینزم کے علمبرداروں سے الگ ہے۔ خاتونِ خانہ، شیریں کا نوحہ، تلاش، ڈسپوزیبل وغیرہ ایسی نظمیں ہیں، جن کا مطالعہ تانیثی نقطۂ نظر سے کیا جا سکتا ہے۔ اس نو ع کی ایک نظم ملاحظہ کیجیے،
میں اپنی اولاد کے لیے
دودھ کی ایک بوتل
اپنے صاحب کے لیے تسکین
گھر کے لیے مشین
اور اپنے لیے
ایک آہٹ بن کر رہ گئی ہوں
میرا گھر
جہاں مجھے رات اور دن
انتظار کے دہکتے ہوئے لمس
لپیٹ کر سونا پڑ رہا ہے
خیال کی ادھ سلی باس سے
کلائیوں کے گجرے گوند ھ کر
سنگھار کرنا پڑ رہا ہے
اور تنہائیوں کے سوال
ہونٹ کی سرخیوں کی
تہوں میں دبا کر
الوداعی بوسوں کا
جواب سہنا پڑ رہا ہے
خموشی ٹٹولتی ہوئے پتلیاں
کاجلوں کی لکیروں کی جگہ سجا کر
آنسوئوں کے درمیان ہنسنا پڑ رہا ہے
میرا گھر
جہاں مجھے اشیا ئِ صرف کی طرح
رہنا پڑ رہا ہے
ثروت کی شاعری میں سوالوں کے بہت سے سلسلے ہیں جن میں سے بہت سے سوالات اس پدر سری سماج سے ہیں، جہاں عورت کی حیثیت محض ایک جنسی معروض کی ہے۔ انہی کی نظم کا ایک ٹکڑا ہے،
یا میں جدید حفظانِ صحت کے مطابق
پیک کیا ہوا ٹن گلاس ہوں
جو کسی وقت اور کسی مقام پر
پیاس بجھانے کے بعد
ڈسپوز آف کیا جاسکے گا
ثروت زہرا کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ آفتاب اقبال شمیم کی تنقیدی نظر سے دیکھیں تو ’’ثروت زہرا کا شعری منظر نامہ آشوبِ ذات سے لے کر کائنات کے خطِ استوا تک پھیلا ہوا ہے، اس منظر نامے کا خد و خال نظر افروز بھی ہے اور فکر انگیز بھی۔‘‘
ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی کا تعلق متحدہ عرب امارات کے عجمان سے ہے۔ وہ اردو کے پہلے عرب نژاد شاعر ہیں۔ انہوں نے کراچی کے ڈاو? میڈیکل کالج سے 1978میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ جلدی امراض کے ماہر (Dermatologist) زبیرفاروق کی غزلیں مقتدر رسائل میں چھپتی رہی ہیں۔ وہ عربی اور انگریزی زبانوں میں بھی شاعری کرتے ہیں۔ مگر اردو ان کی پہلی ترجیح ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جو بات میں عربی شاعری میں نہیں کہہ سکتا وہ اردو میں آسانی سے کہہ سکتا ہوں۔‘‘
اردو میں ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ جن میں پس کہسار، آیاتِ کرب اور سرد موسم کی دھوپ قابلِ ذکر ہیں۔ وہ اکثر مشاعروں میں شریک ہوتے ہیں اور انھیں محبت اور مقبولیت بھی حاصل ہے۔ ان کاایک آڈیو کیسٹ صدائے دل کے عنوان سے لوگو ں میں بہت مقبول ہے۔ انھیں کا ایک مشہور شعر ہے،
ہم تو یوں بھی تیرے ہیں
ہم پر جادو ٹونا کیا
جب میں ماہنامہ بزم سہارا سے وابستہ تھا تو ان کے کلام سے محظوظ ہونے کا موقع بھی ملا ہے اور ان کا کلام میں نے بہ خطِ شاعر شائع بھی کیا ہے۔ زبیر فاروق کی شاعری میں روایت اور جدیدیت کا خوب صورت امتزاج ہے۔ ان کا نمونۂ کلام ملاحظہ فرمائیں،
بڑی مشکل سے بنایاتھا جسے پھر میں نے
اب کی بارش میں میرا گھر دوبارہ ٹوٹا
ساون کے بادلوں سے پھر کب یہ بجھ سکی
شعلے زمیں سے اٹھے لگی آسماں میں آگ
فاروق کوئی بات انوکھی ہوئی ہے آج
بھر دی ہے جس نے شہر کے دانش وروں میں آگ
باتوں ہی باتوں میں مری تقدیر سوگئی
میں جاگتا رہا تری تصویر سو گئی
آئینہ جسم لے کے چلے ہو تو سوچ لو
اس راستے میں آئے گا پتھر کا شہربھی
ڈاکٹر زبیر فاروق خلیجی ممالک میں اردو کا چراغ روشن کر رہے ہیں۔ ان کی شخصیت اور شاعری سے متعلق تحریکِ ادب وارانسی کے علاوہ کئی رسائل نے گوشے بھی شائع کئے ہیں اور مشاہیر ادب نے بھی ان کی شاعری کو سراہا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے جہاں اردو کے پہلے عرب شاعرکی حیثیت سے اردو ادب کی تاریخ میں زندہ رہنے کی بات کہی ہے، وہیں ظہیر بدر کے خیال میں ’’ان کی شاعری چاند پر بستیاں بسانے کے بجائے کرۂ ارض پر ذہنی و روحانی آسودگی کا چراغ روشن کرنے کی خواہش سے عبارت ہے۔‘‘
ان کے حوالے سے فاروق ارگلی نے بڑی اہم بات لکھی ہے کہ، ’’ان کے تحقیقی طبی مقالے انگریزی اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اپنی نجی زندگی میں عربی اور طبی ذمہ داریوں میں انگریزی بولتے ہیں لیکن اردو میں سوچتے ہیں شعر کہتے ہیں۔ ان کی بسیار گوئی اور قادرالکلامی پر اردو دنیا حیران ہے کہ ایسا شاعر جس کی مادری زبان اردو نہیں ہے، اردو کی بنیادی تعلیم باضابطہ نہیں پائی اور ایسی پختہ شاعری پورے فنی تلازمات، غزل کی روایات اور قواعد و ضوابط کی پاس داری کے ساتھ یہ کرشمہ نہیں تو کیا ہے، جادو نہیں ہے تو کیا ہے۔‘‘ (اردو ہے جن کا نام، ایم آر پبلی کیشن، نئی دہلی، 2015، جلد دوم، ص 569)
ارمان نجمی ایک عمدہ شاعر ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ ’’مردہ خوشیوں کی تلاش‘‘ جو نظموں اور غزلوں پر محیط تھا 1984میں شائع ہوا۔ اس کے بعد غزلیہ شاعری کے مجموعے ’’راستے کی بات‘‘ ’’شہرِ افسوس‘‘ اور ’’نمایاں‘‘ شائع ہوئے 2019میں ان کی نظموں کا مجموعہ ’’افتادگی کے بعد‘‘ شائع ہوا ہے جس میں تقریباً نوے نظمیں شامل ہیں۔ اس مجموعے میں پروفیسرخالد جاوید کا فکر انگیز مقدمہ بھی شامل ہے، جس میں انھوں نے ارمان نجمی کی نظمیہ شاعری کا بہت عمدہ محاکمہ کیا ہے، وہ لکھتے ہیں ’’شاید یہ زمانہ بڑی شاعری کا نہیں ہے مگر ارمان نجمی کی نظمیں اس حقیقت یا مفروضے کو جھٹلاتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ وہ ایک مستحکم شعری روایت کے پاسدار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی بصیرت کے محافظ بھی ہیں۔‘‘ ارمان نجمی نے اپنی غزلیہ شاعری میں اپنے عہد کے موضوعات و مسائل اور اجتماعی کرب کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری میں اس درد کو جو تقسیم ہند کی وجہ سے پیدا ہوا محسوس کیاجاسکتا ہے۔ یہ اشعار آج کے حالات سے بھی ہم اآہنگ ہیں، عصری تناظر میں بھی اس شاعری کی تفہیم کی جاسکتی ہے کہ وقت بدل چکا ہے، مگر ماحول کا وہی جبر ہے،
چیخوں کا شور اجڑے مکانوں میں دفن ہے
خاموشیوں کی مرثیہ خوانی ہے ایک سی
دھرتی کی پیاس بجھتی نہیں ہے کسی طرح
دریائوں میں لہوکی روانی ہے ایک سی
رْکتا کہاں ہے مسلکِ دہشت کا سلسلہ
اطرافِ جاں میں شعلہ فشانی ہے ایک سی
اپنی خوشی سے کوئی بھی گھر چھوڑتا نہیں
بے چارگیِ نقلِ مکانی ہے ایک سی
اس کے علاوہ دوشعر مزید ملاحظہ فرمائیں،
شکستہ خوابوں کا پیکر تلاش کرتا ہوں
جو کھو گیا ہے وہ منظر تلاش کرتا ہوں
نہیں ہے جس کا نشان لہو خاک پر کچھ بھی
کھنڈر کے ملبے میں وہ گھر تلاش کرتا ہوں
ارمان نجمی کی پوری شاعری اسی منظر کی گمشدگی کا نوحہ اور اپنے وجود کی جستجو کا استعارہ ہے۔ فاروق ارگلی لکھتے ہیں، ’’ارمان نجمی کی سنجیدہ، منضبط، متوازن اور ہر لحاظ سے خوب صورت اور دل نشیں شاعری ہمارے عہد کی زندہ رہنے والی شاعری ہے۔‘‘ (جواہرِعظیم آباد، جلد دوم، ایم آر پبلی کیشنز، نئی دہلی 2018، ص383)
حسن شکیل مظہری بہت عمدہ شاعر ہیں۔ ان کی جائے پیدائش بھاگلپورہے۔ انہوں نے دربھنگہ میڈیکل کالج سے 1966میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ یوکے کی یونیورسٹی آف لیورپول سے ڈی ٹی ایم ایچ کیا۔ ان کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ’’شہرِ آرزو‘‘ کے عنوان سے 2009میں شائع ہوا، ’’زادِ راہ‘‘ ان کی نعت و سلام کا مجموعہ ہے۔ ان کی شاعری کے بارے میں اکبر حیدری نے بڑی اچھی رائے دی ہے کہ،
’’حسن شکیل مظہری ایک زندہ وبیدار شاعر ہیں۔ ان کی نظر تغیراتِ زمانہ سے بے خبر نہیں۔ عصری حس اور زندگی کے گمبھیر مسائل کا کماحقہ ادراک ان کی شاعری کو تقویت اور استحکام عطا کرتا ہے۔‘‘
اکبر حیدرآبادی لکھتے ہیں کہ،
’’ڈاکٹر حسن شکیل مظہری کو ادبی ذوق اور شعری استطاعت گویا ورثے میں ملی ہے۔ ان کے والد محترم رضا مظہری بھی شاعر تھے اور ان کے چچا علامہ جمیل مظہری تو دنیائے شعر و ادب میں ایک معروف، مستند اور معتبر شاعر کی حیثیت سے مشہور تھے۔‘‘
مزید لکھتے ہیں،
’’حسن شکیل مظہری کو بیک وقت طب اور شاعری پر یکساں قدرت حاصل ہے اور زندگی کے ان دونوں شعبوں میں انہوں نے اپنی ہنرمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمداشرف کمال نے ڈاکٹر محمد حسن شکیل مظہری کی شاعری پر بہت مبسوط مقالہ تحریر کیا ہے، جو مخزن برطانیہ 7 میں شائع ہوا۔ ان کی رائے ہے کہ،
’’غزل ہو یا نظم حسن شکیل مظہری قنوطیت پسندی اور مایوسی سے کام نہیں لیتے، بلکہ ان کے شعروں میں زندگی کی ایک توانا اور تر و تازہ تصویر نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں معاشرے میں پھیلے جبرو استبداد، ناانصافی، ظلم و بربریت، سفاک بے رحم آمریت کے پنجوں اور سامراجی ہتھکنڈے کے خلاف واضح جذبات پائے جاتے ہیں۔‘‘
پروفیسر آفاق صدیقی پاکستان اور مشہور ڈرامہ نگار ظہیر انور نے ان کی نظموں کے بہت عمدہ تجزیے کیے ہیں۔
حنیف ترین بہت مشہور شاعر ہیں۔ ان کا تعلق سنبھل جیسی مردم خیز سرزمین سے ہے۔ ڈاکٹر کشور جہاں زیدی نے تذکرہ شعرائے سنبھل” (جلد اول) بعنوان ’’میری زمیں کے چاند ستارے‘‘ (2016) میں لکھا ہے کہ، ’’حنیف شاہ خان ابن جناب حبیب شاہ خان کی پیدائش یکم اکتوبر 1952کو محلہ حوض کٹورہ سرائے ترین سنبھل میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم سنبھل ہی میں حاصل کرنے کے بعد بی ایس سی، ایم بی بی ایس کی اعلیٰ ڈگری کشمیر یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ایم ڈی کی ڈگری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لی۔‘‘
نفسیاتی معالج کی حیثیت سے حنیف ترین اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ وہ اردو کے ایک ایسے شاعر ہیں جن کی تخلیقات دنیا بھر کے مجلات اور رسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ بہت سے رسالوں نے ان پر گوشے اور خصوصی شمارے بھی شائع کئے ہیں۔ انہو ں نے سعودی عرب کے عرعر میں رہ کر اردو کی شمع جلائی ہے۔ ان کے شعری مجموعوں میں رباب صحرا (1992)، کتاب صحرا (1995)، کشت غزل نما (1999)، زمیں لاپتہ رہی (2001)، ابابیلیں نہیں آئیں (2004)، لالۂ صحرائی، روئے شمیم سے نزہت عشق بہتی ہے، دلت کویتا جاگ اٹھی قابل ذکر ہیں۔ حنیف ترین پر برصغیر کے مشاہیر ادبا نے مضامین اور تاثرات لکھے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر حنیف ترین کا پوری اردو دنیا سے بہت ہی گہرا رشتہ ہے اور معاصر اردو شعری منظر نامے پر ان کی الگ شناخت ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ جیسے ممتاز ناقد نے بھی ان کی شخصیت اور شاعری کے تعلق سے بہت ہی عمدہ تاثرات کا اظہار کیا ہے،
’’حنیف ترین کا تعلق سنبھل کے ایک ایسے معزز گھرانے سے ہے، جس میں کئی نسلوں سے علمی روایت پروان چڑھتی رہی ہے، اس لئے ان کو زبان پر قدرت حاصل ہے اور روایت سے ان کا رشتہ مستحکم ہے۔ یہ ان کے خاندان کی علمی روایت ہی کا فیضان ہے کہ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہوتے ہوئے بھی انہوں نے شاعری سے رشتہ قائم کیا۔‘‘ (کتاب نما، نئی دہلی، حنیف ترین نمبر)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.