میر اور نئی غزل 2
ابھی دو ایک مہینے ہوئے، میں نے ذکر کیا تھا کہ پچھلے دو تین سال کے عرصہ میں غزل پہلے کی نسبت کہیں زیادہ مقبول ہو گئی ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے شاعروں کی ذہنی عادتوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں واقع ہوئی، نہ ان کے تجربات میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوئی ہے، اس لئے ادبی قدر و قیمت کے لحاظ سے بیشتر نئی غزلوں اور آزاد نظموں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
میر کا تتبع بھی عموماً اسی طرح ہوا ہے کہ جن عناصر پر میر کی حقیقی عظمت قائم ہے انہیں نظرانداز کر کے صرف ایسی باتیں چن لی ہیں جو اپنی طبیعت اور اپنی ذہنی ضرورتوں سے مناسبت رکھتی ہوں۔ یعنی اس زمانے میں میر نے مقبولیت پائی بھی ہے تو صرف میر کی شخصیت اور شاعری کے ایک حصے نے۔ پھر بعض دفعہ میر کی اس مقبولیت کی ایک عجیب توجیہہ کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ فسادات کے دوران میں لوگوں کو ایسے ہولناک تجربات پیش آئے ہیں کہ اب ان میں سوچنے کی سکت نہیں رہی، اس کے بجائے جذبات کو بروئے کار آنے کا زیادہ موقع ملا ہے۔ اس وجہ سے شاعرغالب اور اقبال کی پیروی تو کر نہیں سکتے، کیونکہ اس میں تفکر کی ضرورت پڑتی ہے، اس کے بجائے میر کی تقلید کرتے ہیں جس میں سوچنے کے بغیر اور خالی محسوس کرنے ہی سے کام چل جاتا ہے۔
اس دلیل کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میر کی شاعری فکر کے عنصر سے خالی ہے، یا میر سوچ نہیں سکتے تھے محسوس کر سکتے تھے، یا میر کے شاعرانہ تجربات میں تفکرسے زیادہ جذبات کو دخل ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ میر کی شاعری کا یہ تصور کس حد تک حقیقت پر مبنی ہے اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اس دلیل میں جس قسم کے شاعر کا حلیہ پیش کیا گیا ہے، کیا ایسا شاعر اتنا بڑا ہو بھی سکتا ہے کہ اس کے بعد آنے والا اردو شاعر اس کے سامنے اپنے عجز کا اعتراف کرے اور غالب جیسا فکری شاعرچیں بول جائے۔ اگر میرصرف جذبات کا شاعر تھا تو غالب جیسے شاعر کو، جسے معلوم تھا کہ اردو شاعری میں نئے عناصر کا اضافہ کر رہا ہوں اور جسے اپنی برتری کا شدید احساس تھا، میر سے اپنا مقابلہ اور موازنہ کرنے کی ایسی کیا ضرورت پیش آئی؟
جیسا میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، میر کے یہاں دو رنگ ملتے ہیں۔ میر جذبات کا شاعر بھی ہے، اسے چھوٹے موٹے تجربات کو ایسے حسین طریقے سے پیش کرنا بھی آتا ہے کہ اس معاملے میں بھی دوسرے شاعر آسانی سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن اس کے علاوہ میر کے اندر ایک ایسی زبردست صلاحیت تھی جو کسی دوسرے اردو شاعر میں تہائی بھی نہیں تھی۔ میر کے دماغ میں اتنی طاقت تھی کہ صرف عشق کے تجربات یا جذباتی تجربات نہیں، صرف شاعرانہ تجربات بھی نہیں، بلکہ زندگی کے بہت سے چھوٹے بڑے اور مختلف نوعیت رکھنے والے تجربات پر ایک ساتھ غور کر سکے اور ان سب کو ملا کر ایک عظیم تر تجربے کی شکل دے سکے۔ روزانہ زندگی کی وہ حقیقتیں جوعام شاعروں کے یہاں شاعرانہ تجربات کو ختم کر دیتی ہیں اور اسی لئے عام شاعر ان سے بچ کر شاعری کرتے ہیں یا پھر انہیں قبول کر لیتے ہیں تو ان میں لطیف تر تجربات کی صلاحیت نہیں رہتی۔ میر ان حقیقتوں سے کترانا تو الگ رہا، خود آگے بڑھ کران کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کی شاعری ان غیرشاعرانہ تجربات سے الگ رہ کر پیدا نہیں ہوتی، بلکہ یہ تجربات اس کا لازمی جز ہیں اور انہیں سے میر کی شاعری کو قوت، عظمت اور ہمہ گیری حاصل ہوتی ہے۔
یہاں ہم زندگی کے صرف چند تجربات (خصوصا لطیف تجربات) سے دچار نہیں ہوتے بلکہ اس شاعری میں ہمیں پوری زندگی ملتی ہے اور اپنے سارے تنوع اور تضاد، رفعتوں اور پستیوں، قوتوں اور مجبوریوں سمیت فکر محض کو شاعری میں سمونا بھی بڑی مشکل بات ہے۔ مگر تفکر اور شاعر ی دونوں کو فنا کرنے والے تجربات کو بھی شاعری میں تبدیل کر دینا ایسی چیز ہے جو روز روز ظہور میں نہیں آتی۔
اول تو یہی ثابت کرنا دشوار ہے کہ میر کی شاعری تفکر کے عنصر سے بالکل ہی عاری ہے۔ ممکن ہے خالص ما بعد الطبیعیاتی اور مطلق تفکر میر کے بس کا نہ ہو اور اس قسم کا تفکر ہر بڑے شاعر کے لئے لازمی بھی نہیں۔ لیکن زندگی کی حقیقتوں پرغور و فکر کرنا، اس تفکر کو احساس کی شکل میں بدلنا، دوسری طرف ذاتی احساسات کے متعلق معروضی طریقے سے سوچنا، پھر اس متنوع تفکر اور احساس کو حل کر کے ایک نیا تجربہ تخلیق کرنا۔۔۔ یہی تو میر کی شاعری ہے، بلکہ میر کی عظیم تر شاعری میں فکر اور احساس کے عناصر اس طرح شیر و شکر ہو گئے ہیں کہ یہ بتانا بالکل ناممکن ہے کہ پلہ کس کا بھاری ہے۔
پھر میر کو خالص جذبات کا شاعر سمجھنا اس وجہ سے اور بھی مشکل ہے کہ اپنی عظیم ترشاعری میں میر اپنے ذاتی جذبات کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو دوسرے شاعر دیتے ہیں۔ کم سے کم اپنی شاعری کے اس حصے میں (جو محض غنائیہ شاعری بن کر نہیں رہ جاتا) میر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہی نہیں کہ اپنے جذبات کو کائنات کا مرکز سمجھ بیٹھیں۔ اپنے شدید ترین لمحوں میں بھی ایک عام آدمی کی مجموعی زندگی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی، بلکہ ان کی شاعری کا موضوع در اصل یہی مسئلہ ہے کہ فرد کے ذاتی تجربات کا مقام زندگی اور کائنات میں کیا ہے؟ یہ مسئلہ ما بعد الطبیعیات سے غیر متعلق نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ میر نے اس مسئلہ پر جس انداز سے غور کیا ہے وہ خالص ما بعد الطبیعیاتی تفکر کا انداز نہ ہو۔ لیکن اگر میر کو خالص جذباتی شاعر مان بھی لیا جائے تب بھی ان کی شاعری کی نوعیت بالکل دوسری قسم کی رہتی ہے۔ جس شاعر کے جذبات کا تعلق براہ راست پوری زندگی سے ہو وہ اس شاعر سے مختلف قسم کا ہوگا جس کے جذبات کا تعلق صرف خود اس کی ذات سے ہو۔
حاصل کلام یہ کہ ہمارے نئے غزل گو جس قسم کی شاعری کر رہے ہیں وہ چاہے اچھی ہو یا بری، اس کی ذمہ داری خود انہیں کے اوپر ہونی چاہئے۔ اپنی کمزوریوں کی تاویل میں میر کی سندپیش کرنا۔۔۔ اور پھرغلط قسم کی سند، کسی طرح بھی مستحسن نہیں۔ اس طرح میر کے ساتھ جو بے انصافی ہوگی وہ تو ہوگی ہی، خود نئے شاعروں کو نقصان پہنچے گا کیونکہ وہ اپنی شاعری کی حقیقت بہت دنوں تک نہیں سمجھ سکیں گے!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.