میر جی
میرے خیال میں ہرتنقیدی مضمون کا آغاز معافی کی درخواست سے ہونا چاہئے۔ معافی کی درخواست نہ سہی، ’’یاد دہانی سہی‘‘ اس ضرورت کی عمومیت کو دیکھتے ہوئے اگر پڑھنے والے ہر مضمون سے پہلے یہ تشبیب فرض کر لیا کریں تو غالباً بہت سے صدموں سے بچ جائیں۔ جائے پیدائش اورسن ولادت تک تو خیریت رہتی ہے لیکن اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہی تنقید لکھنے والے جس شخص کے متعلق تنقید لکھی جا رہی ہے اس کی اور پھر تنقید پڑھنے والے تینوں کی شخصیتیں اس بری طرح آپس میں گڈمڈ ہونے لگتی ہے کہ یہ پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ کون کہاں شروع ہوتا ہے اور کون کہاں ختم ہوتا ہے۔ تو میں نے میر کے متعلق بری بھلی رائے قائم کرنے کی جرأت ضرور کی ہے لیکن مجھے قطعاً دعوی نہیں ہے کہ میں میر کی اصلیت کو پہنچ گیا ہوں۔ یا سختی سے معروضی اور خارجی نقطہ نظر قائم رکھ سکا ہوں۔
بہر نوع میں نے کوشش کی ہے کہ بغیر کسی اندرونی شہادت کے محض قیاس کی بنیاد پر کوئی رائے قائم نہ کروں۔ لیکن اس تھوڑی بہت احتیاط کے باوجود میں نہیں کہہ سکتا کہ میں نے میر کو صحیح طور سے سمجھا ہے یا بالکل غلط۔ میر کی اس تعبیر و تفسیر میں کسی ذاتی ضرورت کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ بالکل یہی رائے میں اس تفسیر کی تائید یا تردید کے بارے میں دوں گا۔ بہر کیف میر کے متعلق میرے ان تاثرات کا ایک استعمال ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ تاثرات آپ کے تاثرات سے مختلف ہوں اور ان دونوں کے مقابلے اور موازنے سے کوئی تیسرا وسیع اور جامع نتیجہ مرتب کیا جا سکے۔
فی الحال مجھے اس بحث سے کوئی مطلب نہیں کہ اردو ادب میں میر کا کیا درجہ ہے، اپنے لئے تو خیر میں نے اس سوال کا فیصلہ کر لیا ہے اور اتنا کہے بغیر میں آگے نہیں بڑھوں گا کہ زندگی کے متعلق جس قسم اور جس کیفیت کا شعور مجھے میر کے یہاں ملا ہے ویسا شعور میں نے انگریزی شاعری کے اپنےمختصر سے مطالعے میں کہیں اور نہیں پایا۔ چنانچہ اس مضمون میں میری کوشش یہی ہوگی کہ اس مخصوص شعور اور کیفیت کی طرف اپنی کند فہم نثر کی مددسے اشارہ کر سکوں۔
دنیا کے ہر معقول فنکارکے سامنے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے خواہ شعوری طور پر اس نے اس کے متعلق کچھ سوچا ہو یا نہ سوچا ہو، بلکہ بہت ممکن ہے کہ اس نے اس سارے جھگڑے کا فیصلہ بالکل غیرشعوری طور پرکر لیا ہو۔ جب تک آدمی صرف عارضی غم یا عارضی نشاط، ہنگامی تاثرات اور وقتی جذبات میں محو رہتا ہے اس وقت تک تو کوئی خلش نہیں ہوگی لیکن اس غم ونشاط کی ہنگامیت پر تھوڑا سا قابو پاکر انہیں ذرا وسیع پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی جائے تو فوراً یہ سوال آ کھڑا ہوتا ہے کہ ان جذبات و احساسات کی ہمارے آدرشوں کی ہمارے طرز زندگی کی اور خود ہماری نظام کائنات میں کیا حیثیت اور کیا درجہ ہے۔ ایسے وقت اور ایسے وقت پر ہی کیا منحصر ہے، روز مرہ کی زندگی میں بھی ہمارے لئے حقیقت دو حصوں میں بٹ جاتی ہے ایک تو وہ حقیقت جسے ہم اپنے اندر یا اپنے تخیل کے ذریعہ محسوس کرتے ہیں جو ہمارا آدرش ہے، جس سے ہمیں محبت ہے۔
دوسری حقیقت وہ ہے جو ہم سے باہر دنیا میں موجود ہے۔ مرئی اور غیرمرئی دونوں طرح ان دو متضاد حقیقتوں کے آپ جو نام چاہیں رکھ سکتے ہیں۔ خیر و شر، تخیل اور اصلیت، عشق اور عقل، خیال اور عمل۔ اسی طرح ان دو حقیقتوں کے اجزائے ترکیبی ہر آدمی کی نفسیانی ساخت کے مطابق مختلف ہو سکتے ہیں۔ آدمی کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس کے اندر ان دو حقیقتوں، ان دو دنیاؤں کے امتزاج کا تناسب کیا ہوگا۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کی پرستش میں غلو بھی کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر عقلی اور عملی حقیقت پر زور دینے سے آدمی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا اس سے اور آگے بڑھ کر اپنے ملک کے دشمنوں کے ہاتھ اسلحہ بیچنے والا سرمایہ دار ہو سکتا ہے۔ تخیلی عنصر کی شدت ہو تو قیس عامری کا درجہ حاصل کرنے کا بھی امکان ہے۔ ان دونوں حقیتوں میں سے کسی ایک کی طرف مائل ہو جانا یا نہ ہونا یہ تو اپنی پسند اور اپنی اپنی طبیعت کی بات ہے لیکن پسند کر چکنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بالکل مطمئن ہو جانا اور نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہ کرنا کسی بہت ہی بے ایمان اور مطلب پرست آدمی کا کام ہو سکتا ہے یا احمق اور دیوانے کا-
خیر، ہمیں تو فی الحال فنکار سے مطلب ہے اور فنکار کی عظمت اسی میں ہے کہ وہ ان سوالوں کا مقابلہ کرتا ہے جن سے بڑے بڑے عارفین کے پتے پانی ہوتے ہیں۔ اور جہاں تک فنکار کا تعلق ہے اس میں کہنے سننے کی گنجائش نہیں کہ وہ عقل کی بہ نسبت عشق، اصلیت کی بہ نسبت تخیل اور اپنے آدرش کو پسند کرتا ہے۔ مختصراً اپنی خودی کو۔ لیکن پسند کر چکنے کے بعد وہ اپنے احساس کے دروازے بند نہیں کر دیتا۔ اوروں کی بہ نسبت اسے ان دونوں حقیقتوں کے تقابل کا احساس کہیں زیادہ شدت کے ساتھ ہوتا ہے۔
ایک طرف تو اس کی خودی ہوتی ہے دوسری طرف خارجی دنیا اور اس کے باشندے۔ ایک طرف فرد، دوسری طرف کائنات۔ ایک طرف تو آدمی کی خودی اور اس کی عظمت کا احساس ہوتا ہے جو کسی حد اور کسی پابندی کا احترام نہیں کرنا چاہتا، بلکہ عالم موجودات سے بھی آگے اگر کوئی چیز ہے تو اس پر بھی چھا جانا چاہتا ہے دوسری طرف روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی بے مقدار حقیر چیزیں ہیں جو برابر یاد دلاتی رہتی ہیں کہ یہ احساس رفعت وعظمت محض ایک خود فریبی ہے۔ ہرہر قدم پر ہمیں اپنی بے حقیقتی اور بیچارگی کا تماشا دیکھنا پڑتا ہے۔ ہماری چھوٹی چھوٹی خواہشیں پوری نہیں ہونے پاتیں۔ موت ہماری محبتوں کا احترام نہیں کرتی، سر اوپر اٹھائیں تو فضا کی قہار لاانتہائیاں ہمارے اوپر چھائی ہوتی ہیں اور تو اور ذرا سا کانٹا لگ جائے تو ساری بلند نظری رفو چکر ہو جاتی ہے۔ غرض کہ کائنات کے سامنے فرد کی ہیچ مقداری کے احساس سے کسی طرح مفر ممکن نہیں۔ میر کے پاس یہاں اس احساس کی ایک آدھ شہادتیں دیکھئے۔
ناکام رہنے ہی کا تمہیں غم ہے آج میر
بہتوں کے کام ہوگئے ہیں کل تمام یاں
کیا کیا عزیز دوست ملے میر خاک میں
نادان یاں کسو کا کسو کو بھی غم رہا
زیر فلک بھلا تو رو دے ہے آپ کو میر
کس کس طرح کا عالم یاں خاک ہو گیا ہے
اپنی بے چارگی تسلیم کرنے کے بعد فرد کا رویہ دو طرح کا ہو سکتا ہے۔ ممکن کہ وہ اپنے آپ سے بالکل مایوس اور ہر قسم کے آدرشوں اور ہر قسم کی علو خیالی سے بیزار ہو جائے، اس صورت میں اگر وہ عمل کی طرف راغب ہے تو کسی نہ کسی شکل میں مردم آزادی اختیار کرے گا، ورنہ پھر ٹرین کے نیچے جا لیٹے گا۔ اگر وہ تخلیقی کام کرتا ہے تو اس کے کلام یا اس کی تصویروں میں سخت کلیست اور زندگی سے بیزاری ہوگی۔ فرد کا دوسرا رد عمل ہو سکتا ہے لامحدود اور غیرمشروط اثبات خودی۔ لیکن غیرمحدود اثبات خودی۔ غیرمشروط سرکشی اور بغاوت انسان اور انسان کے تخیل سے ممکن نہیں اور باتوں کو چھوڑیئے صرف موت کا تصور ہی ایسی چیز ہے جو بڑے سے بڑے سرکش اور باغی کا سر جھکا دیتا ہے۔ تھوڑی بہت دیر اثبات خودی کی ہوا میں آدمی جتنا چاہے فراٹے بھرلے، لیکن آخر وہ لمحہ آجاتا ہے جب اسے ماننا پڑتا ہے کہ اتنی تگ ودو کے بعد بھی اس کی حیثیت میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔ اس شکست کے احساس سے جو جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے وہ بہت خطرناک چیز ہے۔
اس بات پر غور کرنے کے لئے بہت کم لوگ رکتے ہیں کہ ملکی فتوحات یا انسانیت کی خدمت یاعمل یا فلسفہ سخت کوشی کی تہہ میں بڑی بے پناہ مایوسی اور احساس شکست خوردگی ہو سکتا ہے۔ اثبات خودی یقینا کسی نہ کسی مادی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور ظاہر ہونے کے لئے ضرور کسی نہ کسی شہوت کا سہارا لیتا ہے، خواہ وہ ملک گیری اور سیاسی اقتدار کی خواہش ہو، یا جنسی تعیش یا تحصیل علم کی آرزو، اس قسم کی ہر جد و جہد کا نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے۔ ناکامی۔ یہی ٹریجڈی ہے جو گٹے نے ’’فاؤسٹ‘‘ میں پیش کی ہے۔ بہر حال یہ دونوں ردعمل حیاتیاتی اعتبار سے غیرصحت مندانہ اور ضرر رساں ہیں۔
جب یوں چین نہ دوں چین تو پھر آخر انسان کرے کیا؟ انسانیت کے اکثر رہنما اور غالبا بزرگ تر رہنما یہی نصیحت کرتے ہیں کہ انسان کو ہار مان لینی چاہئے اور اپنی ایک خودی کو قربان کر دینا چاہئے۔ مذہب صرف انسان کی خودی کے گلے میں پٹہ ڈالنے کی ایک کوشش ہی تو ہے۔ یہ نصیحت صرف مذہبی پیشواؤں ہی کی نہیں بلکہ بڑے بڑے فنکار بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ یسوع مسیح نے کہا ہے کہ جو آدمی اپنی روح کھوئے گا وہی اسے پائے گا۔ اسی سے ملتا جلتا نظریہ گٹے کا ہے ’’مرجا اور ہو جا‘‘یہی تاکید بلیک کرتا ہے کہ تمہارے اندر خودی بار بار پیدا ہوگی، اسے بار بار ہلاک کرتے رہو۔ اسی سے ملتی جلتی تشریح کیٹس کے نظریہ ’’منفی صلاحیت‘‘ کی ہو سکتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ میر کو بھی ہتھیار ڈال دینے میں کوئی تامل نہیں ہے۔ مثالیں میں ابھی دوں گا۔ پہلے ایک اور ضمنی سوال پرغور کر لیجئے۔ یہ تو تسلیم ہے کہ ہمیں اپنی خودی قربان کر دینی چاہئے لیکن کس قربان گاہ پر؟ ہم اسے کس کے سامنےکے پیش کریں؟ خدا کے سامنے؟ نظام کائنات کے سامنے؟ یا انسانیت کے سامنے؟ حسن فطرت کے سامنے؟ یہ ساری قربانیاں بہت آسان ہیں کیونکہ یہ ساری چیزیں غیرمرئی، تصوراتی اورغیرشخصی ہیں۔ جو مرئی ہیں بھی، وہ کم سے کم خوش آئند ضرور ہیں۔ بہت کم آدمی ہیں جو ان کے سامنے سر جھکانا، اپنی ذلت اور توہین سمجھیں، لیکن اگرعام انسانوں کے سامنے جن میں ہزار قسم کے عیب، بے رنگیاں، عامیانہ پن، ابتذال، گندگیاں، حماقتیں اور ذلالتیں ہوتی ہیں اپنی خودی پیش کرنے کا سوال ہو تو کتنے آدمی تیار ہوں گے۔ یہ ہے اصلی روحانی ریاضت۔ اسکے لئے شیکسپئر، چوسر، ڈکننز یا جوئس کے قد و قامت کا آدمی چاہئے۔
اور اگر میں نے میر کو ذرا بھی صحیح پڑھا ہے تو میرا خیال ہے کہ وہ آدمی اپنی خودی کو عام انسانوں کے سامنے پیش کرنے سے نہیں جھجکتے۔ اگر وہ دسرے انسانوں کی اقدار اور عملی دنیا کی اہمیت کو کلیتا قبول کر لیتے تو شاعر نہیں رہ سکتے تھے اودھ کے جاگیر دار البتہ ہوتے انہیں اپنی قدروں، اپنے آدرشوں اور اپنی انفرادیت پر پورا یقین ہے، حد درجہ محبت ہے، لیکن وہ ان کے مقابل کی دوسری حقیقت کو رد نہیں کرتے۔ یہ میر کی عظمت ہے۔ ہر آدمی کو حق ہے کہ وہ اپنی انفرادیت اور اپنی خودی سے محبت کرے، لیکن آخر اس انفرادیت کا کوئی پس منظر، اس کے مادی لوازمات اور مناسبات بھی تو ہوں گے؟ میر اس پس منظر کو کبھی نہیں بھولتے اور نہ وہ اسے ناقابل اعتنا یا حقیر سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے نقطہ نظر اور اپنی حقیقت سے مایوس یا بیزار ہوئے بغیر دوسرے انسانوں کے نقطہ نظر کی اہمیت کو تسلیم کر سکتے ہیں انہیں اس خیال سے ذرا بھی گھبراہٹ نہیں ہوتی کہ انہیں اور ان کی اقدار کو دوسروں کے نقطہ نظر سے بھی جانچا جا سکتا ہے۔
اس کے بر خلاف اردوکے دو اور بڑے شاعروں کو دیکھئے۔ اقبال کے نزدیک آدمی کی عظمت کے لئے یہی چیز کافی ہے کہ وہ دوسروں سے مختلف ہو۔ انسان کی زندگی اس میں ہے کہ وہ فوق الانسان ہو۔
گر از دست تو کار نادر آید گنا ہے ہم اگر باشد ثواب است
ان کے آدرش کے مقابلے میں روزمرہ کی دنیا اتنی پست ہے کہ انہیں انسانوں کی صحبت سے زیادہ عزلت گزینی پسند ہے۔ ان کا فوق الانسان اپنا قانون خود اپنے آپ ہے۔ اگر وہ کبھی انسانوں کی دنیا کی طرف مائل ہوتا ہے تو صرف ان پر رعب جمانے کے لئے۔ ایک جگہ اقبال نے خودی کو قانون الہی یا دین فطرت کا پابند ضرور بتایا ہے لیکن دین فطرت کی تعبیر و تفسیر میں فوق الانسان بالکل آزاد معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح غالب بھی اپنا مکان عرش سے پرے بنانا چاہتے ہیں۔ انہیں ایک لمحہ کے لئے بھی یہ منظور نہیں کہ انہیں دوسروں کے معیار سے جانچا جائے۔
نہ جانوں نیک ہوں یا بد ہوں پر صحبت مخالف ہے
جو گل ہوں تو ہوں گلخن میں جو خس ہوں تو ہوں گلشن میں
غالب کو پستی منظور ہے لیکن کسی اور کی مدد سے بلندی پر پہنچنا منظور نہیں۔ ان کے خیال میں انسان کو خود اپنے لئے کافی ہونا چاہئے خواہ اس کانتیجہ اچھا ہو یا برا۔
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
یہ ٹھیک ہے کہ کبھی کبھی غالب کو بھی اپنی صلاحیتوں کے محدود ہونے اور اپنے اثبات خودی کی لازمی شکست کا احساس ہوتا ہے لیکن اپنی فتح یا شکست کا اندازہ کرنے کے لئے بھی وہ دوسروں کی ترازو استعمال نہیں کر سکتے۔ غالب کی خودی اور انفرادیت کی کمزوری اور شکست کا اگر کوئی نظارہ کر سکتا ہے تو صرف غالب۔ انہیں اس کی ذرا بھی فکرنہیں کہ دوسرے انہیں کیا سمجھتے ہیں۔ انہیں تو صرف یہ غم ہے کہ غالب وہ نہ ہو سکا جو وہ ہونا چاہتا تھا۔
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردہ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
اس کے برخلاف میر قدم قدم پر اپنا دوسرے انسانوں سے مقابلہ کرتے ہیں، ان کے معیار سے اپنے آپ کو جانچنے میں اور اس معیار کے مطابق ان کی انفرادیت میں جو خامیاں نکلتی ہیں انہیں بڑی جرأت سے تسلیم کر لیتے ہیں اور تمام چیزوں کے باوجود اپنی اصلیت اور جس حقیقت کی وہ نمائندگی کر رہے ہیں، اس کی اہمیت اور برتری سے ذرا بھی بدظن یا غافل نہیں ہوتے۔ غالب اور اقبال کی طرح وہ اپنا جلوہ صرف اپنی نظروں سے نہیں دیکھتے بلکہ بار بار اپنے آپ سے باہرنکل کر اپنی خودی کو دور سے اور دوسروں کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ وہ دنیا میں اکیلے نہیں رہتے اور نہ کوئی ایسی دنیا بنا سکتے ہیں جو دوسرے انسانوں سے بالکل غیر متعلق اور ان کے حملوں سے بالکل محفوظ ہو۔ جب انسانوں کے درمیان رہنا ہے تو ان کی رائے اور ان کے نقطہ نظر سے بھی تجاہل نہیں برتا جا سکتا۔
چنانچہ وہ باربار اپنے طرز زندگی اور طرز احساس کو سماج کے طرز احساس کے مقابل رکھتے ہیں اور دونوں کا موازنہ کرتے ہیں اور فیصلہ بھی وہ ہمیشہ اپنے حق میں نہیں کرتے، حالانکہ اپنے آپ سے اور اپنے طرز زندگی سے ان کی محبت اسی طرح بر قرار رہتی ہے۔ وہ برابر دونوں حقیقتوں کو پہلو بہ پہلو رکھ کر ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ ان کے احساسات و جذبات اور اعمال و افعال کا اثر دوسرے لوگوں پر کیا ہوگا اور ان کا رد عمل کس قسم کا ہوگا۔
وہ دوسروں کو بھی اپنی اپنی انفرادیت اور خودی کے اظہار کا اتنا ہی حق اور موقع دیتے ہیں جتنا اپنے آٖپ کو، اور اپنی برتری منوانے پر ذرا بھی اصرار نہیں کرتے۔ اکثر وہ خود اپنے اوپر ہنستے ہیں، خود اپنے اوپر طنز کرتے ہیں۔ ایسا طنز نہیں جس میں تلخی اور بیزاری شامل ہو بلکہ یہ طنز میر کی سب سے انفرادی اور سب سے ممتاز چیز ہے۔ یہاں لاکر وہ دونوں حقیقتوں کو ایک جگہ ملا دیتے ہیں۔ دوسروں کا نقطہ نظربھی تسلیم کرتے ہیں اور اپنے نقطہ نظر کی اہمیت اور برتری کی طرف ہلکا سا اشارہ بھی کرتے ہیں، اپنے اوپر ہنستے بھی ہیں اوراپنے آپ سے محبت بھی کرتے ہیں۔ اس طنزمیں اپنے آپ سے مایوسی اور نفرت نہیں ملتی، بلکہ اپنے آپ سے لطف لینے کی صلاحیت۔ اب آپ میر کے کچھ شعر ایسے سن لیجئے جن کی بنیاد پرمیں نے اپنا یہ نظریہ قائم کیا ہے۔
کہتا تھا کسی سے کچھ تکتا تھا کسی کا منہ
کل میر کھڑا تھا یاں سچ ہے کہ دوانہ تھا
ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میر
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
میر صاحب کو دیکھے جو بنے
اب بہت گھر سے کم نکلتے ہیں
کسو وقت پاتے نہیں اس کو گھر
بہت میر نے آپ کو گم کیا
جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا
شور و شغب کو راتوں کے ہمسائے تمہارے کیا رو دیں
ایسے فتنے کتنے اٹھیں گے میر جی تم جو سلامت ہو
میر صاحب رلا گئے سب کو
کل وے تشریف یاں بھی لائے تھے
جب میر یہ دولفظ ’’میر صاحب‘‘ یا ’’میرجی‘‘ استعمال کرتا ہے تو نہ معلوم ان میں کیا کیا بجلیاں بھر دیتا ہے۔ خیر کچھ اور سنئے،
آن میں کچھ ہیں آن میں کچھ ہیں
تحفہ روزگار ہیں ہم بھی
کہیں تو ہیں کہ عبث میر نے دیا جی کو
خدا ہی جانے کیا جی میں اس کے آئی ہو
نامرادانہ زیست کرتا تھا
میر کا طور یاد ہے ہم کو
لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میر کا اس عاشقی نے حال کیا
قامت خمیدہ رنگ شکستہ بدن نزار
تیرا تو میر غم میں عجب حال ہوگیا
وحشت ہے بہت میر کو مل آئیے چل کر
کیا جانئے پھریاں سے گئے کب ہو ملاقات
چل ہم نشیں کہ دیکھیں آوارہ میر کو ٹک
خانہ خراب وہ بھی آج اپنے گھررہا ہے
سودا ہو تپ ہو میر کو تو کریے کچھ علاج
اس تیرے دیکھنے کے دوانے کو عشق ہے
صرف یہی نہیں کہ میر میں دوسروں کا نقطہ نظر سمجھنے کی صلاحیت ہو، بلکہ بڑے خلوص کے ساتھ اسے خود بڑی حیرت ہے کہ وہ ایسی حرکتیں کیوں کرتا ہے جو دوسروں کے لئے غیر متوقع اور عجیب ہیں۔ اس کا اندازہ آپ کو ان شعروں سے ہی ہو گیا ہوگا۔ اب میر کا ایک ایسا شعر پیش کروں گا جو صرف تخیل اور شعریت کی انتہائی بلندی پر پہنچ کر کہا جا سکتا ہے۔ ہمہ شمہ کے بس کا نہیں۔
جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے
رومال دو دو دن تک جوں ابر تر رہے ہے
اس شعر میں ان دونوں حقیتوں کے تقابل کو میر نے صرف دردناک نہیں بلکہ بلند ترین معنی میں ٹریجڈی بنا دیا ہے۔ اس شعر میں لاچاری اور افتادگی یا شکستگی نہیں ہے بلکہ غم کو ہضم کرنے کی کوشش۔ اس شعر میں جو حقیقی ٹریجڈی پیدا ہوتی ہے وہ رونے کی وجہ سے نہیں بلکہ رومال کے ذکر سے۔ یہ ایک لفظ بجلی کی سی تیزی سے سارا منظر ہمارے سامنے لے آتا ہے کہ یہ دنیا کیا جگہ ہے، یہاں کے آدمی کون لوگ ہیں، ان سے کس بات کی توقع کی جاتی ہے اور ان سب کے سامنے میر کا غم کیا چیز ہے؟ اس شعر میں میر اپنی خودی کا اثبات نہیں کر رہا ہے بلکہ اپنی انسانیت کا۔ اسی طرح میر پنچایتی خیالات اور عوام کے محاوروں میں جان ڈال دیتا ہے۔ ان دونوں چیزوں کو وہ ان دو متضاد حقیقتوں کے تقابل کا ذریعہ بناتا ہے لیکن اپنی حقیقت کی اصلیت کو کہیں بھی فراموش نہیں کرتا۔ میں اس چیز پر زیادہ زور تونہیں دے سکتا لیکن کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میر عشق کو (اس سے بہت کچھ مراد ہے) صرف اپنا طرز زندگی نہیں سمجھتا، بلکہ ایک طرز زندگی جسے اس نے اختیار کر لیا ہے اور دوسرے انسان بھی اختیار کر سکتے ہیں۔
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا
بہر حال اس میں تو شک کی گنجائش ہی نہیں کہ میرعاشق سے زیادہ انسان ہے۔ کم سے کم عاشق ہونے کے بعد وہ اپنی انسانیت کو نہیں بھولا۔ وہ اپنے ساتھ کوئی مخصوص رعایت نہیں چاہتا جو دوسرے انسانوں سے نہ کی جا سکتی ہو۔ وہ محبوب کے سامنے بھی اپنے آپ کو بحیثیت ایک انسان کے پیش کرتا ہے۔ محبوب سے شکایت کرتا ہے تو وہ بھی اس طرح جیسے ایک انسان دوسرے انسان سے شکایت کرتا ہے۔
ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں
میر کو تم عبث اداس کیا
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
درد پھرنے کا ہم سے وقت ہے کیا
پوچھ کچھ حال بیٹھ کر نزدیک
یہ بے قراریاں نہ کبھو ان نے دیکھیاں
جاں کاہیاں ہماری بہت سہل جانیاں
خوش نہ آئی تمہاری چال ہمیں
یوں نہ کرنا تھا پائمال ہمیں
محبوب سے التجا یا اپنی سفارش کرتے ہیں تو وہ بھی بحیثیت انسان کے۔
رنگ شکستہ میرا بے لطف بھی نہیں ہے
اک آدھ رات کو تو یاں بھی سحر کرو تم
محض ناکارہ بھی مت جان ہمیں تو کہ کہیں
ایسے ناکام بھی بیکار پھرا کرتے ہیں
اگر چہ سہل ہیں پر دیدنی ہیں ہم بھی میر
ادھر کو یار تامل سے گر نگاہ کریں
اپنے اوپر افسوس کرتے ہیں یا اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں بلکہ اپنی تعریف کرتے ہیں تو وہ بھی اپنے آپ کو انسان سمجھ کر فوق الانسان سمجھ کر نہیں۔
خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میر معلوم ہے قلندر تھا
یوں گنواتا ہے دل کوئی مجھ کو
یہی آتا ہے بار بار افسوس
مررہ کہیں بھی میر جا سرگشتہ پھرنا تا کجا
ظالم کسو کا سن کہا، کوئی گھڑی آرام کر
نہ جانا یہ کہ کہتے ہیں کسے پیار
رہیں بے لطفیاں ہی یاں تو باہم
صبر بھی کریئے بلا پر میر صاحب جی کبھو
جب نہ تب رونا ہی کڑھنا یہ بھی کوئی ڈھنگ ہے
میر عمداً بھی کوئی مرتا ہے
جان ہے تو جہان ہے پیارے
بیقراری جو کوئی دیکھے ہے سو کہتا ہے
کچھ تو ہے میر کہ اک دم تجھے آرام نہیں
وجہ کیا ہے کہ میر منہ پہ ترے
نظر آتا ہے کچھ ملال ہمیں
نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں
کھنچیں میر تجھ سے ہی یہ خواریاں
میر کو یوں تو حسرت و یاس کا شاعر سمجھا جاتا ہے، لیکن پھر بھی یہ کہیں محسوس نہیں ہوتا، کم سے کم ان کے اچھے شعروں میں کہ اگر انہیں غم ہے تو وہ ساری دنیا کو غم میں ڈوبا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ وہ زندگی کو لازمی طور پر اپنا دشمن سمجھتے ہیں جس نے چھانٹ کر انہیں اپنا شکار بنایا ہو۔ انہیں اپنی ناکامیوں پررنج سہی، لیکن وہ اس رنج کو کائنات پر مسلط نہیں کرنا چاہتے۔ وہ صرف اتنی ہمدردی کے طالب ہیں جتنی ایک انسان دوسرے انسان کو دے سکتا ہے۔
خواہ مارا انہیں نے میر کو خواہ آپ موا
جانے دو یارو جو ہونا تھا ہوا مت پوچھو
دیا عاشق نے جی تو عیب کیا ہے
یہی میر اک ہنر ہوتا ہے ہم میں
اسی ضمن میں ایک اور شعر دیکھئے جہاں پھر میر نے ایک عامیانہ چیز کی مدد سے ٹریجڈی پیدا کی ہے۔
کہاں تک بھلا روؤگے میر صاحب
اب آنکھوں گے گرد اک ورم دیکھتے ہیں
محبوب کی بے اعتنائی کو بھی میر ہمیشہ سخت دلی اور ظلم یا فطری بدکرداری نہیں سمجھتے۔ ان کے بہترین شعروں میں محبوب بھی انسان ہوتا ہے اور ا س کی وہی خصوصیات ہوتی ہیں جو اورانسانوں کی۔ میر کو فرد کی لازمی تنہائی کا پورا احساس ہے۔ دو انسانوں کے جذبات و احساسات میں پوری مطابقت بالکل ناممکن ہے، نہ ایک انسان دوسرے انسان کی زندگی میں پوری طرح شریک ہو سکتا ہے۔ اگرمحبوب بے اعتنائی کرتا ہے تو ضروری نہیں ہے کہ اس کی وجہ کج خلقی یا اذیت پسندی ہو، بلکہ فطری اور انسانی مجبوری بھی ہو سکتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ محبوب چاہے بھی اورعاشق پر مہربانی بھی نہ کر سکے۔ ایسی صورت میں عاشق اپنی بدنصیبی پر افسوس تو کرسکتا ہے لیکن محبوب کی شکایت بالکل بے جاہے۔ تنہائی زندگی کا قانون ہے اور اس کے سامنے عاشق اور محبوب دونوں مجبور و معذور ہیں۔ اگر قصور ہے تو عاشق کی لامحدود آرزوؤں کا، آرزوؤں کی شدت کا۔ چنانچہ عاشق کے لئے صرف ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے وہ یہ کہ جس طرح ہو سکے اپناغم برداشت کرے۔ اب میر کے کلام سے اس احساس کی دو ایک شہادتیں سنئے۔
جگر چاکی ناکامی دنیا ہے آخر
نہیں آئے جو میر کچھ کام ہوگا
آتا ہے دل میں حال بد اپنا بھلا کہوں
پھر آپ ہی سوچ کے کہتا ہوں کیا کہوں
ناکام اس لئے ہو کہ چاہو ہو سب کچھ آج
تم بھی میر صاحب قبلہ عجول ہو
کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
سو تو ہم سے منہ بھی چھپا کرچلے
میر کو ایک طرف تو تنہائی کا احساس ہے اور دوسری طرف کائنات اور موت کے سامنے فرد کی بے حقیقی کا بھی یقین ہے۔ فرد کی انفرادیت اور خودی کتنی ہی حسین و جمیل اور شاندار چیزسہی لیکن اس پر حد سے زیادہ فخر کرنے کا کوئی موقع نہیں، کم سے کم یہ موقع زیادہ دیر تک نہیں ملتا۔ غیر مشروط اثبات خودی بے معنی چیز ہے۔ زندگی کا ایک قانون ہے اور ہزار ہاتھ پیرمارنے کے باوجود فرد اس جال سے باہر نہیں نکل سکتا۔ یہ افسوس کی چیز تو ضرور ہے لیکن مجبوری ہے، فرد کیا کر سکتا ہے۔
لا علاجی ہے جو رہتی ہے مجھے آوارگی
کیجئے کیا میر صاحب بندگی بیچارگی
زیر فلک بھلا تو رووے ہے آپ کو میر
کس کس طرح کا عالم یاں خاک ہوگیا ہے
ناکام رہنے ہی کا تمہیں غم ہے آج میر
بہتوں کے کام ہوگئے ہیں کل تمام یاں
تجھ بن اس جان مصیبت زدہ غم دیدہ پہ ہم
کچھ نہیں کرتے تو افسوس کیا کرتے ہیں
جور دلبر سے کیا ہوں آزردہ
میر اس چار دن کے جینے پر
چار دن کا ہے مجہلہ یہ سب
سب سے رکھئے سلوک ہی ناچار
فرد کی تنہائی اور بے چارگی یہ دو احساس ایسے ہیں جن کے بعد زندہ رہنے کی کوئی منطقی وجہ باقی نہیں رہ جاتی۔ لیکن انسان کے اندر زندگی کی خواہش بہت قوی ہوتی ہے۔ اس لئے مرجانا بھی آسان نہیں۔ تو پھر انسان کس طرح زندگی بسر کرے؟ پہلے غالب کا جواب سن لیجئے۔ انہیں اس کے سوا اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا کہ آدمی کڑھ کڑھ کر اپنی زندگی ختم کردے۔ دوسرے انسانوں سے وہ کسی سمجھوتے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ’’ڈرتا ہوں آئینہ سے کہ مردم گزیدہ ہوں۔‘‘
میں اور افسردگی کی آرزو غالب کہ دل
دیکھ کر طرز تپاک اہل دنیا جل گیا
غالب زیادہ سے زیادہ تسلی یہ دیتے ہیں کہ،
’’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک‘‘
اس کے برخلاف میر زندگی سے مایوس یا بیزار نہیں ہوتے، بلکہ وہ تسلیم و رضا اور صبر و قرار کی تلقین کرتے ہیں۔ فرد کائنات کے قانون کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں بدل سکتا۔ اس لئے محض سرکشی اور بغاوت بے نتیجہ ہے۔ یہ ضرور ہے کہ آدمی کو بہت سے رنج اورغم سہنا پڑیں گے لیکن اگر وہ اپنی خودی کو کسی بلند تراصول کے قابو میں دے دینے کو تیار ہو تووہ ایک ایسا سکون حاصل کر سکتا ہے جو غم و نشاط سے ماورا ہے۔ فرد کو قانون حیات، دریافت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنی خودی اور انفرادیت کو اس قانون سے ہم آہنگ بنانا چاہئے۔ اس سلسلے میں میر کو جو کچھ کہنا تھا وہ انہوں نے ایک شعر میں کہہ دیا ہے۔
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چکے
غیرمشروط اثبات خودی کے معتقد میر کو بزدلی کا الزام دے سکتے ہیں لیکن ہر جگہ اور ہر صورت میں تسلیم و رضا اور مصالحت بے ایمانی نہیں ہوتی، اسی طرح ہر جگہ اور ہر صورت میں بغاوت اور سرکشی مفید نہیں ہوتی۔ یہاں مفید کا لفظ میں ایک بہت خاص معنی میں استعمال کر رہا ہوں۔ اگر میر دوسروں کا نقطہ نظرقبول کرلیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مصلحت اندیشی اور مادی منفعت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ یہاں ایک بہت بڑا معاملہ در پیش ہے۔
دنیا میں صرف ایک ایسا سوال ہے جس کا کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ وہ یہ کہ آدمی کو کیوں زندہ رہنا چاہئے؟ تو چونکہ انسان زندہ رہنے اور زندگی کی خواہش کرنے پر مجبور ہے، اس لئے اس کی قدر آخر یہ بن گئی ہے کہ اچھی چیز وہ ہے جو نسل انسانی کی بقا میں مدد دے۔ آپ چاہیں تو اسے بزدلی یا بے ایمانی کہہ سکتے ہیں۔ انسان سے پہلے جو نسلیں وجود میں آئیں، ان کی بقا کا دار و مدار تھا طبعی ماحول سے ان کی مطابقت پر، لیکن نسل انسانی نے طبعی ماحول کو حیاتیاتی اعتبار سے معطل کر دیا ہے، انسان اپنا ماحول خود بن گیا ہے۔ اسے اپنے اعضاء میں تغیر و تبدل نہیں کرنا پڑتا، بلکہ اپنے خیالات و احساسات کی دنیا میں ہم آہنگی اور نظم برقرار رکھنا پڑتا ہے۔ اسی پرنسل انسانی کی بقا منحصرہے۔
اس لئے خیالات و احساسات کی افادیت جانچنے کے لئے کوئی مجرد اور مطلق معیار کام نہیں دے گا بلکہ ان کا صرف ایک پیمانہ ہے۔ یہ خیالات نسل انسانی کی بقا میں کس حد تک معاون ہو سکتے ہیں؟ جہاں تک میر کے آخری فیصلے کا تعلق ہے، ہم اس فیصلے کو انسانیت کے لئے بہترین رویہ کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ فیصلہ صرف میر کا نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے بڑے بڑے مفکروں اور فنکاروں کا بھی ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ میرایک بہت بڑا فنکار ہے اور ہمیں صرف ایک راستہ دکھا کر نہیں رہ جاتا بلکہ ہمیں اس پر چلا کردکھا دیتا ہے۔ اب یہ ہماری صلاحیت پر منحصر ہے کہ ہم اس کی مدد کے بغیر اس راستے پر کتنی دیرچل سکتے ہیں۔
مختصراً میر نے زندگی کے متعلق جو کچھ سمجھا اور سوچا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ بھرپور زندگی اسی وقت مل سکتی ہے جب آدمی اپنی خودی کو کائنات، زندگی اور عام انسانوں کے سامنے نذر کر دے لیکن ساتھ ہی اپنی خودی سے مایوس اور بیزار بھی نہ ہو اور یہ رائے کوئی قنوطیت پسند اور یاس پرست آدمی نہیں دے سکتا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.