میر کی زبان، روز مرہ یا استعارہ (۲)
میر کی زبان کی ایک غیر معمولی صفت اس کے بے تکلفی ہے۔ یہ صفت ان میں اور ان کے بعض ہم عصروں اور پیش روؤں میں مشترک ہے، لیکن میر کے یہاں اس کی کارفرمائی سب سے زیادہ ملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر میر روزمرہ کی زبان کو ادبی سطح پر استعمال کررہے تھے تو یہ لازم تھا کہ وہ روز مرہ سے اجتناب نہ کرتے، بلکہ وہ تمام الفاظ کو برتنے پر قادر اور تیار رہتے۔ لہٰذا بظاہر یہ کوئی بہت بڑی صفت نہیں معلوم ہوتی۔
کہا جاسکتا ہے کہ داغ نے بھی روز مرہ کثرت سے استعمال کیا ہے، پھر میر نے کیا کمال کیا؟ احسن مارہروی نے لکھا ہے کہ محاورہ بندی، روز مرہ کی پابندی، فصاحت وبلاغت کے ساتھ الفاظ کی ڈھلت، یہ صفات داغ کامابہ الامتیاز ہیں، اور یہ ایسی چیزیں ہیں جو غیر اہل زبان کو میسر نہیں ہوسکتیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ اہل زبان کو کیا نصیب ہوسکتا ہے اور کیا نہیں، اور اہل زبان کہتے کسے ہیں؟ بنیادی بات یہ ہے کہ احسن مارہروی نے داغ کے حوالے سے محاورہ بندی اور روز مرہ کی پابندی، فصاحت وبلاغت پر زور دیا ہے۔ اگر ہم میر کے لیے بھی انہیں صفات کا دعویٰ کررہے ہیں تو پھر میر کو داغ کی ہی سطح پر رکھنا ہوگا۔ لہٰذا اس نکتے کی کچھ مزید وضاحت ضروری ہے۔
سب سے پہلے بات تو یہ ہے کہ میر نے اس نام نہاد فصاحت وبلاغت پر اتنا زور نہیں دیا ہے، جتنا بعد کے شعرا، خاص کرداغ اور امیر اور انیسویں صدی کے بعض لکھنوی شعرا کے یہاں ملتاہے۔ شیکسپیئر کی طرح میر بھی جو لفظ چاہتے ہیں، استعمال کرلیتے ہیں۔ الفاظ کو برتنے میں میر نے عام بول چال کے صرف الفاظ نہیں اپنائے ہیں، بلکہ عام بول چال کے طریقے پر اور بھی الفاظ کو بنالیا ہے۔ ان میں سے بعض شکلیں تو متروک ہوگئیں، اور بعض میر کے زمانے میں بھی عام نہیں تھیں، وہ صرف میر کا حصہ ہیں۔ میں اس وقت اس بحث کو نہ چھیڑوں گاکہ کیا فصاحت کے بغیر بھی بلاغت ممکن ہے؟ بعد کے لوگوں نے کہا ہے کہ فصاحت کے بغیر بلاغت ممکن نہیں۔ (اسی لیے فصاحت اور بلاغت کاذکر ایک ساتھ ہی ہوتا ہے۔)
ممکن ہے کہ میر کے زمانے میں یہ تصور نہ رہاہو، یا اگر رہا بھی ہوتو میر نے اس کا اتباع ضروری نہ سمجھا ہو۔ بہر حال بنیادی بات یہ ہے کہ میر نے اظہار مطلب کے لیے جس لفظ کو مناسب سمجھا، اسے استعمال کرلیا۔ یعنی انہوں نے بلاغت کو فصاحت پر مقدم سمجھا۔ شعرکی زبان کے بارے میں یہ اصول جدیدشعریات میں خاصا مقبول ہے، اور صحیح بھی ہے۔ انیسویں صدی کاو سط آتے آتے اردو والوں نے تقریباً بالکل ترک کردیا۔ خود میر کے زمانے میں اس اصول کا بطور اصول وجود نہ تھا، لیکن اپنی اپنی حیثیت بھر ہر شاعر اس کو برتتاضرور تھا۔
یہ بات، کہ میر نے اس اصول یا اس رویے کی پوری پابندی کی، یعنی انہوں نے اظہار کی ضرورتوں کا احترام زیادہ اہم سمجھا اور نام نہاد فصاحت کو کم اہمیت دی، میر کی عظمت کی دلیل ہے۔ میر کے سلسلے میں اس بات کی خاص اہمیت اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے مناسب لفظ کی تلاش میں ہر امکانی راہ اختیار کی۔ ان کے معاصرین بھی زبان کے بارے میں بے تکلف تھے، لیکن صرف ایک حدتک۔ درد کی زبان تو تقریباً ساری کی ساری محتاط ہے، سودا نے بھی میر کی طرح کھل کھیلنے کی ہمت نہ کی۔ میر کے بزرگ معاصرین مثلاً آبرو، حاتم، مرزا مظہر جان جاناں، اور ان کے ساتھ کے وہ لوگ جو عمر میں ان سے کچھ بڑے تھے، یا جو جلد مرگئے، مثلاً تاباں، قائم اور یقین، ان میں بھی کسی کے یہاں زبان کے ساتھ وہ منھ زور اوربے روک ٹوک معاملہ نہیں ملتا جو میر کاانداز ہے۔
یقین کی زبان تو درد کی طرح محتاط ہے، تاباں کے یہاں الفاظ کی نسبتاً فراوانی ہے، قائم کے یہاں فارسیت کا رنگ ہے، لیکن تاباں اور قائم دونوں نے ہی پراکرت الفاظ اور فارسی کا آپس میں وہ انضمام نہیں برتا ہے جومیر کا خاصہ ہے۔ آبرو، حاتم اور ناجی کے یہاں پراکرت الفاظ کی کثرت ہے، لیکن ان کے پراکرت الفاظ ایک ہی طرح کے ہیں، انہوں نے ان الفاظ کو عشقیہ معاملات کی معمولی اور عامۃ الورود باتوں کے اظہار کے لیے استعمال کیا ہے۔ یقین، میر اثر اور مرزا مظہر کی زبان میں پراکرت کا اثر نسبتاً کم نظر آتا ہے۔ اس وقت مثالوں کے لیے استعمال کیا ہے، یقین، میر اثر اور مرزا مظہر کی زبان میں پراکرت کااثر نسبتاً کم نظر آتاہے۔ اس وقت مثالوں کا موقع نہیں، ورنہ ان شعرا کی ایک ایک دوغزلیں نقل کرنے سے بات بہت آسانی سے واضح ہوسکتی تھی۔
اپنے معاصروں اور پیش روؤں کے برخلاف، میر نے زبان کے ساتھ آزادیاں بہت کثرت سے روا رکھی ہیں۔ میر کسی لفظ سے گھبراتے نہیں، اور موقع پڑنے پر وہ دوردراز کے لفظ، یا نامانوس لفظ (یعنی شاعری کی زبان کے لیے نامانوس لفظ) یابالکل عوامی لفظ بے خوفی سے استعمال کرلیتے ہیں۔ الفاظ کے استعمال کے معاملے میں میر ہمارے سب سے زیادہ Adventurous یعنی مہم جو شاعر ہیں۔ اور چونکہ ہماری زبان کے الفاظ کا بڑا ذخیرہ پراکرت الفاظ پر مبنی ہے، اس لیے بادی النظر میں میر کا کلام ہمیں آسان اور گھریلو معلوم ہوتاہے، کیوں کہ میر کے یہاں لامحالہ پراکرت الفاظ دوسرے شعرا کی بہ نسبت زیادہ ہیں۔
میر کا کلام ہمیں اس لیے بھی گھریلو معلوم ہوتاہے کہ زبان کے بہت سے استعمال جو انہوں نے روا رکھے، وہ اب ’’عوامی‘‘ یا نیم خواندہ طبقے ہی میں سنائی دیتے ہیں۔ اس بنا پر ہمیں دھوکا ہوتاہے کہ ہم ایسے شاعر کا کلام پڑھ رہے ہیں جو بہت سادہ مزاج، غیر پیچیدہ اور کچھ ہم ہی جیسا، معمولی دل دماغ والاہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایسا نہیں کہ میر کے نام نہاد گھریلو اور عوامی استعمالات ان کے زمانے میں رائج تھے اور بعد میں متروک ہوگئے ہوں، اس وجہ سے ان کی زبان میں وہ ’’عوامی پن‘‘ ہے، جو ہم بوڑھی عورتوں سے مخصوص سمجھتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ ان استعمالات میں بہت سے ایسے ہیں جو میر کے علاوہ کسی بھی شاعر نے کثرت سے نہیں برتے۔ زبان کو اس طرح بروئے کار لانا کہ روز مرہ کا اثر اور رنگ باقی رہے، لیکن دراصل اس میں بیش از بیش آزادیاں برتی گئی ہوں، یہ میر کا خاص کارنامہ ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ میر کے یہ اجتہادات، جو روزمرہ کو شعری جامہ پہنانے کی کوشش کا ایک پہلو ہیں، محض لاپروائی یا بے فکری کی وجہ سے وقوع میں آئے ہیں۔ ان الفاظ کا درو بست، ان کا معنی خیز ہونا، زبان میں کھپ اور گھل مل کر کلام کا نامیاتی حصہ بن جانا، یہ باتیں صاف کہہ رہی ہیں کہ شاعر نے الفاظ کو بے تکلف جو استعمال کیا ہے تو ایک تخلیقی منصوبے کے تحت کیا ہے۔
غالب نے زبان کو جس طرح برتا ہے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ نفاست یعنی Sophistication کا وہ رنگ اختیار کرنا چاہتے ہیں جس میں پراکرت عناصر کی کارفرمائی کم سے کم ہو۔ پراکرت عناصر کے منہا کرنے کامطلب، محض یہ نہیں کہ فارسی تراکیب بیش از بیش اختیار کی جائیں۔ فارسی تراکیب، اور فارسی کی تراکیب ہی کیا، نامانوس عربی فارسی الفاظ تو میر کے یہاں بھی کثرت سے ہیں (جیسا کہ میں پہلے اشارہ کرچکا ہوں۔) پراکرت عناصر کے اخراج سے مراد یہ ہے کہ فارسی الفاظ میں پراکرت کاپیوند کم سے کم لگایا جائے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ’’شکستہ دل لوگوں‘‘ کو قبول کرلیا جائے، لیکن اس کی اگلی منزل، یعنی’’دل شکستوں‘‘ بمعنی ’’دل شکستہ لوگوں‘‘ کو قبول نہ کیا جائے۔
غالب کا کلام جو میر سے اس قدر مختلف معلوم ہوتاہے، اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے (جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا) کہ وہ تجریدی اشیا وتصورات پر زور دیتے ہیں، اور میر ٹھوس اور مرئی اشیا وتصورات پر۔ اسی کا دوسرے پہلو یہ ہے کہ میر کے یہاں پراکرت الاصل الفاظ اور فارسی میں پراکرت کا پیوند والے الفاظ غالب کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ایسے الفاظ میر کے یہاں تمام اردو شاعروں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ ان الفاظ کو کثرت اورکامیابی سے استعمال کرنا اس قدر زبردست کارنامہ ہے کہ صرف اسی کی بنا پر میر کو خدائے سخن کہا جائے تو نامناسب نہ ہوگا۔
میں نے پراکرت الفاظ اورپراکرت سے متاثر الفاظ کے استعمال کو زبان کا بے تکلف استعمال کہا ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ ہماری زبان فطری اور نامیاتی شکل میں اسی عمل کی کارفرمائی کی آئینہ دار ہے۔ جب ہمارے شعرا نے اسے اپنے خلاقانہ مقاصد کے لیے استعمال کیا، یعنی اس کی تمجید کرنا اور Sophisticated رنگ دینا (یا اس کو امجد ونفیس بنانا) چاہا، تو شروع سے ہی، لیکن دلی کے زمانے سے خاص کر، اس میں فارسی کو مقدم کیا۔ اغلب ہے کہ یہ اس وجہ سے ہواکہ علم زبان کا مانا ہوا قاعدہ ہے کہ غیر زبان کالفظ، دیسی لفظ کے مقابلے میں وقیع تر مانا جاتاہے۔ یہ بات فطری ہے، کیوں کہ غیر زبان کا لفظ اگر وقیع نہ سمجھا جاتا تو دیسی زبان میں دخیل کیوں ہوتا؟ بہرحال، فارسی کے اثر کی بنا پر ہمارے شاعروں کی زبان، روز مرہ کی بڑی حد تک پابند ہوتے ہوئے بھی پرتکلف بن گئی۔
میر واحد شاعر ہیں جنہوں نے ہماری زبان کے فطری اور نامیاتی عناصر کو اہمیت دی، اور اظہار مطلب کی سعی میں مناسب ترین لفظ کو اختیار کیااور جہاں چاہا وہاں رسومیاتی تکلف کوبالائے طاق رکھا، جہاں چاہا وہاں پر تکلف الفاظ استعمال کیے۔ غالب کی عظمت اس بات میں ہے کہ انہوں نے ہماری زبان کی پر تکلف ترین اور نفیس ترین حدیں چھولیں اور پھر بھی خیال کی ادائیگی میں کسی قسم کے تکلف کااحساس نہیں ہونے دیا۔ یہ بات ضرورہے کہ غالب کے لیے نمونے اور مثالیں اورنظیریں موجودتھیں۔ میر نے جو کام کیا اس کے لیے ماحول تو تھا، لیکن باقاعدہ اصولی یاعملی نمونے اس کثرت سے نہیں تھے کہ ان کی بنیاد پر شعری اظہارکی تشکیل ہوسکتی۔ زبان کی طرف میر کے بے تکلف حاکمانہ اور بے روک ٹوک رویے کی بعض مثالیں حسب ذیل ہیں،
میر نے ایسے الفاظ کااستعمال کیاہے جنہیں ہم دکنی یا پوربی یعنی قدیم اردوسے مخصوص سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے ایسے الفاظ میر کے زمانے میں متروک ہوگئے ہوں یا ہوچلے ہوں۔ اغلب یہ ہے کہ شاہ حاتم کی کوششوں کے باوجود میر نے زبان کومحدود کرنے کی اس روش کو قابل اعتنا نہ سمجھا اورجو لفظ جہاں مناسب سمجھا، برت لیا،
دیوان اول
مت کر خرام سر پر اٹھالے گا خلق کو
بیٹھا اگر گلی میں ترا نقش پاکہوں
یہاں ’’کہوں‘‘ کو ’’کہیں‘‘ کے معنی میں استعمال کیاہے، اور لطف یہ ہے کہ فارسی میں ’’نقش نشستن‘‘ کے معنی ہیں ’’تسلط قائم ہونا۔‘‘ لہٰذا ’’نقش نشستن‘‘ کے ترجمے کابھی پہلو آگیا، جو مزید معنی کا پہلو ہے۔ پھر پہلے مصرعے میں سر پر اٹھانے کی بات کی ہے، لہٰذا گلی میں نقش بیٹھنے کے ساتھ ایک رعایت بھی پیدا کردی۔ معمولی شعر میں اتنی باتیں ڈال دی ہیں، اور پھر’’کہوں‘‘ کے معنی میں رکھ کر روز مرہ کی بول چال کا لطف بھی ڈال دیا ہے۔
دیوان اول
کام میرا بھی ترے غم میں کہوں ہو جائے گا
جب یہ کہتا ہوں تو کہتاہے کہ ہوں ہوجائے گا
یہاں بھی ’’کہوں‘‘ کو ’’کہیں‘‘ کے معنی میں استعمال کیاہے، اور اس لطف کے ساتھ کہ پہلی نظر میں ’’کہنے‘‘ کے معنی کادھوکا ہوتا ہے۔ ایہام کی عمدہ مثال ہے۔
دیوان دوم
لائی آفت خانقاہ ومسجد اوپر وہ نگاہ
صوفیاں دیں سے گئے سب شیخ ایماں سے گئے
’’خانقاہ ومسجد‘‘ کو اکائی کے طور پر (یعنی واؤ عاطفہ کے ساتھ) استعمال کیا ہے، پھر لفظ ’’اوپر‘‘ رکھا ہے اور حرف اضافت (یعنی’’کے‘‘) حذف کردیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں ’’صوفی‘‘ کی جمع’’صوفیاں ‘‘ استعمال کی ہے۔ یہ انداز دکنی (یعنی قدیم اردو) کے ہیں اور دہلی میں میر کے پہلے تک رائج تھے۔ شاہ حاتم نے اس طرح کے استعمالات کو ترک کرانا چاہا، لیکن میر نے اس پابندی کو قبول نہ کیا۔ قدیم اردو کے بہت سے استعمالات میر کے معاصروں کے یہاں ملتے ہیں، لیکن کم تر۔ میر نے جس آزادی سے ایک شعر میں دو دوقدیم فقرے برتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو اظہار پر غیر ضروری پابندی مطبوع نہ تھی۔ حنیف نقوی نے فضلی کی’’کربل کتھا‘‘ کے طویل محاکمے میں قدیم اردو کے طور طریقوں کا اٹھارہویں صدی کے دہلوی شعرا کے یہاں کثرت سے وقوع دکھایا ہے۔ ان کی درج کردہ مثالوں سے بھی معلوم ہوتاہے کہ میر نے پرانے الفاظ واستعمالات کو اپنے فوری معاصروں کے بہ نسبت زیادہ ہی برتاہے۔
دیوان اول
یہ سنا تھا میر ہم نے کہ فسانہ خواب لا ہے
تری سرگذشت سن کر گئے اور خواب یاراں
’’خواب لاہے‘‘ بمعنی ’’نیند لاتا ہے۔‘‘ فعل کا یہ استعمال پوربی اردو میں آج بھی موجود ہے۔ دوسرے مصرعے میں ’’خواب‘‘ بمعنی Dream بھی ہے اور بمعنی ’’نیند‘‘ بھی۔ لیکن ممکن ہے کہ ’’گئے‘‘ کی جگہ ’’گئی‘‘ ہو، اور ’’خواب‘‘ کو دکنی قاعدے سے مؤنث باندھا ہو، جیسا کہ مندرجہ ذیل شعر میں ہے،
دیوان پنجم
عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا
جی کا جانا ٹھہر رہاہے صبح گیا یاشام گیا
اسی طرح کئی اور الفاظ جو آج کل عام طور پر مذکر بولے جائیں گے، میرنے دکنی یا پوربی طریقے کے مطابق انہیں مؤنث باندھا ہے، یا مؤنث لفظ کو پوربی قاعدے سے مذکر باندھا ہے،
دیوان ششم
اے عشق بے محابا تو نے تو جان مارے
ٹک حسن کی طرف ہوکیا کیا جوان مارے
دیوان اول
جب سرراہ آوے ہے وہ شوخ
ایک عالم کاجان جاتاہے
دیوان اول
سنا جاتاہے شہر عشق کے گرد
مزاریں ہی مزاریں ہوگئی ہیں
پورب کی بولی میں ’’جان‘‘ اور’’مزار‘‘ آج بھی بالترتیب مذکر اور مؤنث ہیں۔
دیوان اول
کہیں دست چالاک ناخن نہ لاگے
کہ سینہ ہے قرب وجوار گریباں
’’لگے‘‘ کی جگہ ’’لاگے‘‘ پوربی ہے۔ اسی طرح ’’یہ‘‘ اور’’وہ‘‘ کو بروزن ’’شہ‘‘ پورب کے انداز میں باندھا ہے،
دیوان سوم
حسن اے رشک مہ نہیں رہتا
چار دن کی ہے چاندنی یہ بھی
شور شیریں تو ہے جہاں میں ولے
ہے حلاوت زمانے کی وہ بھی
ایک صفت، جسے عام طور پر دکنی یعنی قدیم اردو سے مخصوص کہا جاتا رہا ہے، لیکن جو پوربی اور دہلوی میں بھی ملتی ہے، اور جس کا میر نے اپنے معاصروں کی بہ نسبت زیادہ کثرت سے استعمال کیاہے، فارسی میں پراکرت کاپیوند لگاناہے۔ اس کی دوشکلیں اہم ترین ہیں۔ اول تو یہ کہ ترکیب فارسی کی ہوا اوراس کی جمع اردو طریقے سے بنائی جائے۔ جیسا کہ میں ’’شکستہ دلوں‘‘ کی مثال سے واضح کرچکا ہوں، اس طرح کی بہت سی ترکیبوں کی اردو جمعیں ہمیشہ سے مروج اور ’’صحیح‘‘ رہی ہیں۔ لیکن ’’دل شکستہ‘‘ قسم کی تراکیب کی اردو جمعیں اب خال خال ہی نظر آتی ہیں، اور میر کے زمانے میں بھی ان کا رواج بہت کم تھا۔ میر نے قاعدہ بنانے والوں کی دھاندلی سے بے پرواہوکر ان ترکیبوں کوبھی اردو جمع کے صیغے میں دھڑلے سے استعمال کیا ہے۔
دوسری شکل فارسی میں پراکرت کے پیوند کی یہ ہے کہ عطف یا اضافت والے فقرے کی جمع اردو قاعدے سے بنائی جائے۔ مثلاً ’’آہِ ضعیفوں‘‘ تیسری صورت جو کم تر نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ فارسی ترکیب کے ساتھ اردو قاعدے سے بھی اضافت لگائی جائے۔ مثلاً ’’اندراز قاتل کااپنے‘‘، یعنی’’اپنے قاتل کے انداز کا‘‘ میر نے فارسی میں پراکرت کی پیوند کاری میں غیر معمولی جدت سے کام لیا ہے۔ چندمثالیں حسب ذیل ہیں،
دیوان ششم
ہوا برگ وسبزے میں چشمک ہے گل کی
کریں ساز ہم برگ عیش لب جو
رعایت لفظی کی خوبی سے قطع نظر، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ’’برگ وسبزہ‘‘ بھی موزوں تھا، لیکن میر نے روز مرہ کالہجہ اختیار کرتے ہوئے ’’برگ وسبزے‘‘ لکھا ہے۔
دیوان چہارم
جب سے آنکھیں کھلی ہیں اپنی دردورنج وغم دیکھے
ان ہی دیدۂ نم دیدوں سے کیا کیاہم نے ستم دیکھے
’’نم دیدوں‘‘ کی وجہ سے رعایت لفظی کامزیدلطف پیداہوگیا۔
دیوان چہارم
تو وہ نہیں کسو کا تہ دل سے یار ہو
یاتجھ کو دل شکستوں سے اخلاص پیار ہو
دیوان چہارم
دل نہیں درد مند اپنا میر
آہ ونالے اثر کریں کیوں کر
یہاں بھی’’آہ ونالہ‘‘ موزوں ہوسکتاتھا، لیکن بے تکلف لہجے کی خاطر میر نے ’’آہ نالے‘‘ لکھا۔
دیوان چہارم
جیب دریدہ خاک ملوں کے حال سے کیا آگاہی تمہیں
راہ چلو ہو نازکناں دامن کو لگا کر تم ٹھوکر
’’خاک ملوں‘‘ یعنی’’خاک میں ملے ہوئے‘‘، دامن کو ٹھوکر لگاکر چلنے کی وجہ سے خاک میں ملے ہوؤں کو ٹھوکر بھی نہیں لگاتا، معشوق کو خاک ملوں سے آگاہی کیوں کر ہو؟ کنایہ بھی بہت خوب ہے۔
دیوان سوم
پست وبلندیاں ہیں ارض وسما سے ظاہر
دیکھا جہاں کو ہم نے کتنی کڈھب جگہ ہے
دیوان سوم
ہم پہ رہتے ہو کیا کمر کستے
اچھے ہو تے نہیں جگر خستے
پست وبلندیوں کی تازگی اس امکان سے کم نہیں ہوتی کہ پست وبلند کو الگ قرار دے کر مصرعے کی نثریوں کی جائے، یاں پست وبلند ہیں۔ اگلے شعر کے طنزیہ مزاحیہ انداز کی تعمیر میں ’’جگر خستے‘‘ کا کتنا حصہ ہے، اس کی وضاحت غیر ضروری ہے۔
دیوان سوم
نہ کر شوق کشتوں سے جانے کی باتیں
نہیں آتیں کیا تجھ کو آنے کی باتیں
دیوان سوم
چلتا نہیں ہے دل پر کچھ اس کے بس وگرنہ
عرش آہ عاجزوں سے اکثرہلاکیا ہے
یہاں بھی گفتگو کے لہجے کی خاطر’’آہ عاجزاں‘‘ کو ترک کرکے ’’آہ عاجزوں‘‘ لکھا۔
دیوان دوم
کس کو خبر ہے کشتی تباہوں کے حال کی
تختہ مگر کنارے کوئی بہ کے جالگے
دیوان دوم
کوئی عاشقوں بتاں کی کرے نقل کیا معیشت
انہیں نازکرتے رہنا انہیں جی نیازکرنا
’’عاشقوں بتاں‘‘ کی تازگی اپنے رنگ میں شاہ کار ہے۔ اردو قاعدے سے ’’عاشق‘‘ کی جمع بنائی، پھر اسے فارسی جمع کے قاعدے کی اضافت میں بے علامت اضافت پرودیا۔ ایجاد ہو تو ایسی ہو۔
دیوان دوم
ملایارب کہیں اس صید افگن سر بسر کیں کو
کہ افشاں کیجئے خون اپنے سے اس کے دامن میں کو
یہاں بھی ’’خون اپنے‘‘ کے بجائے ’’اپنے خون‘‘ سے مصرع موزوں تھا۔ لیکن فارسی میں پراکرت کاپیوندلگانا میرکو اس درجہ مرغوب تھاکہ وہ پراکرت فقرے کو فارسی اضافت (یعنی ’’خون خود‘‘) کی طرح لکھتے ہیں۔
دیوان اول
تڑپنابھی دیکھا نہ بسمل کااپنے
میں کشتہ ہوں انداز قاتل کا اپنے
حسرت موہانی نے ’’معائب سخن‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’انداز قاتل کا اپنے‘‘ جیسی ترکیبات، جن میں فارسی اردو کو ایک کردیا گیاہو، غلط اور معیوب ہیں۔ انہوں نے اپنے دعوے کی کوئی دلیل نہیں پیش کی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ آج کے قاعدے سے ایسی ترکیبیں یقیناً غلط ہیں۔ اس طرح کے مخلوط مرکبات نے میر کی زبان میں زندگی اور تحرک پیداکردیا، یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم نے خالص اور ناخالص، اردواور فارسی کے چکر میں پڑکر اس طرح کے تمام اجتہادات کو جن کی بنا پر میر کا انداز قائم ہوا، ترک کردیا اور اپنی دنیا آپ محدو د کرلی۔
دیوان اول
اپنے کو چے میں فغاں جس کی سنو ہو ہر رات
وہ جگہ سوختہ وسینہ جلامیں ہی ہوں
’’سینہ جلا‘‘ کی ترکیب میں دکنی رنگ ہے، لیکن شمال ہندکی قدیم اردو میں بھی ایسی تراکیب مفقود نہیں ہیں۔ میر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے زبان کے ان معنی خیز اور رنگارنگ استعمالات کو کثرت سے استعمال کیا اور تازندگی استعمال کیا۔ جرأت اور میر اس معنی میں ہم عصر تھے کہ جرأت کا انتقال میر سے ایک سال پہلے ہوا۔ (۱۸۰۹) اس طرح جرأت کی پوری شعری زندگی میر کے سامنے گزری، اور ان کی شاعری کا آغاز اس وقت ہوا جب میر اپنے شباب پرتھے۔ جرأت کے کلیات میں اس طرح کے فقرے اور تراکیب بہت کم ہیں جن کو میں نے اوپر درج کیاہے۔ بات صاف ہے۔ جرأت کاتخلیقی عمل میر کی طرح بے روک ٹوک اور ان کی لسانیاتی دسترس میر کی طرح وسیع اور گہری نہ تھی۔
ہمارے زمانے میں فراق صاحب اور بعض دوسرے شاعروں نے جب میرکا تتبع شروع کیا تو ان کو سب سے آسان نسخہ یہ نظر آیا کہ ’’آؤ ہو، جاؤ ہو‘‘، ’’آئے ہے، جائے ہے‘‘ وغیرہ قسم کے استعمالات کو اپنالیا جائے۔ فراق صاحب بہت آگے گئے تو انہوں نے بھی میر کی طرح اپنے بعض مطلعوں میں تخلص استعمال کرلیا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ میر کے وہ مخصوص لسانیاتی ہتھکنڈے، جن میں بعض کاذکراوپر ہوااور بعض کاذکر نیچے آئے گا، فراق اور دوسرے ’’پیروان میر‘‘ کے ہاتھ نہ لگے؟ فراق صاحب کے پورے کلام میں ’’شوق کشتوں‘‘، ’’عاشقوں بتاں‘‘، ’’سینہ جلا‘‘، ’’خواب لا‘‘ جیسی تراکیب واستعمالات ڈھونڈنے سے نہیں ملتے، وجہ ظاہر ہے، ’’آؤ ہو، جاؤ ہو‘‘ وغیرہ تو فعلی شکلیں ہیں اور زبان نے ان کو ابھی پوری طرح متروک بھی نہیں کیاہے۔ لہٰذا یہ تو آسانی سے گرفت میں آجاتی ہیں لیکن فارسی اورپراکرت کازندہ اور تخلیقی انضمام جیسا کہ ہم میر کے یہاں اکثر دیکھتے ہیں، فراق جیسے معمولی شاعروں کے بس کا روگ نہیں۔
’’دیدۂ نم دیدوں‘‘ اور ’’کشتہ ہوں انداز قاتل کااپنے‘‘ وغیرہ تراکیب تو بہر حال زبان کی داخلی مشینیات (Mechanies) کا وجدانی شعور مانگتی ہیں۔ مطلع میں تخلص استعمال کرنا، جو بظاہر ایک خارجی طرز معلوم ہوتاہے، اس کابھی برتنا اس قدر آسان نہیں جس قدرفراق صاحب سمجھے تھے۔ غالب نے غلط نہیں کہاتھا کہ میر کی بات اور ہے، وہ میر جی، میر صاحب کرکے اپنے کو لکھ جاتاہے، اورکو اس کاتتبع نہ چاہیے۔ عسکری صاحب نے غیر تنقیدی زبان میں ایک بات کہی تھی، لیکن بات پتے کی تھی کہ یہ شخص (یعنی میر) جب خود کو میر جی یا میر صاحب کہتا ہے تو اس معمولی سے لفظ میں خدا جانے کتنی بجلیاں بھردیتاہے۔ اب فراق گورکھ پوری بے چارے فراق جی یا فراق صاحب توہو نہیں سکتے تھے، اس لیے تخلص کامطلع میں استعمال انہیں کوئی شرف نہ بخش سکا۔
دراصل تخلص کا اس ڈھنگ سے استعمال میر کی اس انفرادی شخصیت کی تعمیر کا ایک عنصر ہے، جس کی بناپر میر ہمیں ایک روایتی عاشق کی جگہ ایک فرد اور کبھی کبھی فرد اور عاشق دونوں طرح نظر آتے ہیں۔ میر کی جو تصویر ان کے کلام میں جھلکتی ہے وہ حد درجہ انفرادی، یعنی ان کرداروں کے خط وخال بعض قوانین کی روشنی میں ابھارے جاتے ہیں، اور یہ قوانین غزل کے دستور (Constiution) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس میں تھوڑی بہت تبدیلی تو ہوسکتی ہے، لیکن اس بنیادی کردار، اور اس کے مرکزی مفروضات (Assumptions) نہیں بدل سکتے۔ کم سے کم کلاسیکی غزل کی حد تک یہ کلیہ بالکل صحیح ہے۔
عاشق اور معشوق کی رسومیاتی حیثیت یہ ہے کہ عاشق نہایت سچا، وفادار، جفاکش، جفا جو اوردنیاوی رسوم کو نہ ماننے والا (Non-conformist) ہوتا ہے۔ اسی طرح معشوق، رقیب، ناصح وغیرہ کے کردار ہیں۔ ان کا اپنا کوئی انفرادی تشخص نہیں ہوتا۔ یہ لوگ افراد نہیں بلکہ کاغذی خاکے ہیں۔ رسومیات (Convention) کا یہ تسلط اردو غزل کی بہت بڑی مضبوطی ہے، لیکن کم زور اور کم کوش شاعر کے ہاتھ میں یہ اس کی خرابی کا باعث بھی ہوتا ہے۔
میر ہمارے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے عاشق کے کردار کا رسومیانی اظہار نہیں، بلکہ انفرادی اظہار کیا۔ یہ عاشق وہ شخص نہیں ہے جسے ہم محمد تقی میر کہتے ہیں۔ یہ عاشق کوئی اصلی شخص بھی نہیں ہے۔ میرکا کلام کسی اصلی یا فرضی میر کی سوانح حیات نہیں ہے، جیسا کہ رسل اور خورشید الاسلام سمجھے ہیں۔ اصلی بات یہ ہے کہ میر کے کلام میں جو عاشق ہمیں نظر آتاہے، وہ خود اپنی ذات میں ایک فرد ایک Individual ہے،
دیوان دوم
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی رونی اس کی
جس نے بھی اس غزل کا سرسری مطالعہ بھی کیاہے، وہ اس بات سے بے خبر نہ ہوگا کہ یہ اشعار میر محمد تقی میر کے بارے میں نہیں ہیں اور نہ یہ اس معنی میں کسی افسانوی کردار کے بارے میں ہیں جس طرح کوئی افسانہ نگرا یا ڈراما نگارکردار کی تشکیل کرتا ہے۔ میر کازبردست کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے عاشق کے رسومیاتی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے اس کو انفرادیت بھی عطا کردی۔ اگر وہ باقاعدہ کردار خلق کررہے ہوتے تو انہیں مثنوی نگار کا منصب ملتا۔ انہوں نے کیا یہ کہ ایک طرف تو عاشق کے رسومیاتی خط وخال برقرار رکھے لیکن اس کے بارے میں بات اس طرح کی گویا وہ کوئی اصلی شخص ہو۔ مطلع میں تخلص کا استعمال، خود کو میر جی، میر صاحب کہنے کا رنگ، ایک ہی شعر میں ایک سے زیادہ شخصیات کا شمول، ایک ہی شعر میں ایک سے زیادہ آوازوں کو برتنے کا طور، یہ سب باتیں میر کے عاشق کو ایک رسم سے زیادہ ایک فرد کی سطح پر پیش کرتی ہیں۔
لہٰذا جب تک یہ سب چیزیں شعوری طور پر او رمسلسل کلام میں استعمال نہ ہوں، صرف ایک آدھ مطلع میں تخلص کے استعمال سے بات نہیں بنتی۔
میر کی زبان کی بے تکلفی اور اس میں فارسی اور پرکرات کا بے محابا آمیزہ بھی اسی عمل کا ایک پہلو ہے۔ میر ہماری شاعری کے پہلے اور سب سے بڑے انفرادیت پرستIndividualist ہیں۔ غالب ان سے کچھ ہی کم انفرادیت پرست ہیں لیکن وہ میزان کے دوسرے سرے پر ہیں۔ یعنی غالب کے یہاں عاشق کا کردار سراسر رسومیاتی ہے۔ غالب نے اپنی انفرادیت پرستی کو یوں ظاہر کیا کہ انہوں نے عاشق کے رسومایاتی کردار کو اس کی انتہا پر پہنچا دیا۔ ہر چیز اپنی انتہائی شدت پر ہے۔ وحشت، دیوانگی، رشک، از خودرفتگی، خو دداری، بے خودی، غفلت، آگاہی، رسوائی، وفاداری، دل شکستگی، اندیشہ ہائے دور دراز، لذت آزار، جسم اور جان کی شکست وریخت۔، کوئی ایسا پہلو نہیں جو غالب کے یہاں شدید ترین کیفیت کے ساتھ استعمال نہ ہوا ہو۔
جن نقادوں نے غالب کے یہاں رشک یا خودداری یا وحشت کے مضامین کی شدت، کثرت، تنوع اور تکرار کی طرف اشارہ کیاہے، انہیں اس نکتے کااحساس تھا، لیکن مبہم، کہ یہ باتیں دراصل غالب کی انفرادیت معکوس (Reverse indidualism) کو ثابت کرتی ہیں اور اس کی وجہ سے ہیں۔ یعنی غالب اس لیے انفرادیت پرست ہیں کہ انہوں نے عاشق کی روایتی رسومیاتی کردار کے ان تمام امکانات کو دریافت کیا اور بکارلائے جو اس کردار میں مضمر تھے۔ غالب اس لیے منفرد ہیں کہ انہوں نے رسومیاتی عاشق کے بارے میں اس طرح گفتگو کی گویا وہ کوئی واقعی شخص ہو۔
ان نکات پر مزید بحث آگے ہوگی۔ فی الحال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ زبان کے بارے میں غالب اورمیر کے رویوں میں جو اختلاف ہے وہ اسی وجہ سے ہے۔ دونوں اپنی اپنی سچائیوں کے ساتھ وفادار اور ان میں پوری طرح غرق ہیں۔ اس اصول کی روشنی میں میر کی زبان میں بے تکلفی اور چونچال پن کے جو عناصر ہیں، ان کا تیسرا پہلو حسب ذیل مثالوں سے واضح ہوگا۔
اوپر میں نے عرض کیا ہے کہ میر نے فارسی میں پراکرت کاپیوند، عام طور پر دو طرح سے لگایا۔ ایک تویہ کہ انہوں نے فارسی تراکیب میں اردو جمع کا استعمال کیا اور دوسرے یہ کہ عطف یااضافت والے فقرے کی جمع اردو قاعدے سے بنائی۔ لیکن ان باتوں کے علاوہ میر نے پراکرت اور فارسی کے درمیان نئے نئے توازن بھی دریافت کیے۔ پراکرت اور فارسی کے درمیان توازن کی مختلف شکلیں غالب کے یہاں ملتی ہیں۔ مثلاً ایک تو یہ کہ فارسی پوری طری حاوی ہو اور پراکرت کا محض شائبہ رہ جائے، مثلاً،
دل خوں شدۂ کش مکش حسرت دیدار
آئینہ بدست بت بدمست حناہے
دوسری صورت یہ ہے کہ فارسی غالب ہو، لیکن پوری طرح حاوی نہ ہو، مثلاً،
تمثال میں تیری ہے وہ شوخی کہ بہ صد ذوق
آئینہ بانداز گل آغوش کشاہے
تیسری صورت یہ ہے کہ فارسی اور پراکرت مساوی ہوں، لیکن فارسی الفاظ زیادہ توجہ انگیز ہوں، مثلاً،
جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
چوتھی صورت یہ ہے کہ پراکرت حاوی ہو، لیکن فارسی الفاظ پھر بھی زیادہ توجہ انگیز ہوں، مثلاً،
دیکھ کر تجھ کو چمن بسکہ نمو کرتا ہے
خود بہ خود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس
پانچویں صورت یہ ہے کہ فارسی او ر پراکرت مساوی ہوں، لیکن پراکرت الفاظ زیادہ توجہ انگیز ہوں، مثلاً،
درپہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوابستر کھلا
چھٹی صورت یہ ہے کہ پراکرت حاوی ہو، مثلاً،
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
ظاہر ہے کہ اور بھی صورتیں ممکن ہیں اور یہ بھی ہے کہ بہت سے اشعار ایسے ہوں گے جن کے بارے میں کوئی نوع (Category) قائم کرنا مشکل ہوگا۔ لیکن مندرجہ بالا کام چلاؤ قسم کے تجزیے کی روشنی میں غالب کے یہاں پراکرت اور فارسی کے توازن ومساوات (equation) کی نوعیتوں کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ (ملحوظ رہے کہ اس ساری بحث میں ’’فارسی‘‘ سے مراد ’’عربی فارسی ترکی وغیرہ الفاظ‘‘ ہے، اور ’’پراکرت‘‘ سے مراد وہ الفاظ ہیں جو ہندوستانی الاصل ہیں۔
غالب کی فارسیت کانمایاں وصف (لسانی اعتبار سے) اس کی پیچیدگی ہے اور (کیفیت کے اعتبار سے) اس کی تجریدیت ہے۔ تجریدیت کا ذکر میں تھوڑا بہت کرچکا ہوں۔ پیچیدگی سے میری مراد مرکبات میں ان الفاظ کا داخل کرناہے جوبجائے خود ترکیب یا فقرے کا وصف رکھتے ہیں۔ مثلاً ’’خوش شدۂ کش مکش‘‘ کا فقرہ بنا۔ اب اس کو پھر مرکب کیا اور ’’دل خوں شدۂ کش مکش حسرت دیدار‘‘ کافقرہ بنا۔ ’’خوں شدہ‘‘ کے اپنی معنی ہیں۔ ’’دل‘‘ فاعل بھی ہوسکتا ہے لیکن اگر ’’دل خوں شدہ‘‘ کو کو ایک فقرہ مانا جائے تو ’’دل’’کی فاعلیت ختم ہوجاتی ہے، اور یہ پورا فقرہ دوسرے مصرعے میں ’’آئینہ‘‘ کی صفت بن جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ محض توالی اضافت کے ذریعہ یہ بات نہیں حاصل ہوسکتی۔ پیچیدہ فارسیت کی یہ صفت صرف غالب سے مخصوص ہے۔ انہوں نے اس کو اردو زبان میں پوری طرح حل کرلیا ہے۔ جولوگ مومن وغیرہ کی فارسیت کو غالب کے مقابلے میں لاتے ہیں، وہ اس نکتے کو نظر انداز کرجاتے ہیں کہ غالب کی فارسیت کا اصل جوہر اس بات میں ہے کہ وہ ایسے فقروں کو مرکب کرتے ہیں جو خود ترکیب یافقرے کا حکم رکھتے ہیں، اور ان کے یہاں اکثر (جیساکہ اوپر کی مثال سے واضح ہواہوگا) فارسیت دومصرعوں میں نئے نئے ربط پیدا کرنے کا عمل کرتی ہے۔
میر کا معاملہ غالب سے بالکل الگ ہے۔ کہیں کہیں وہ توالی اضافات سے کام ضرور لیتے ہیں، لیکن یہ فارسیت کی اکہری صورت ہے، اور میر کے یہاں بہر حال بہت عام نہیں۔ ہاں، یہ اتنی شاذ بھی نہیں ہے جتنی ہم سمجھتے ہیں۔ لیکن میر نے پراکرت، اور فارسی کے توازن کی جو شکلیں نکالیں وہ ان کے ساتھ اسی طرح مخصوص ہیں جس طرح غالب کی فارسیت ان کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس توازن کی دو شکلیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ فارسی کا ایک دولفظ استعمال کرتے ہیں، وہ لفظ یا فقرہ ایسا ہوتاہے کہ شعر کے باقی پراکرت الفاظ میں نمایاں ہوتاہے۔ لیکن اس کے نمایاں ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شعر کے پراکرت الفاظ کی طرف ہماری توجہ زیادہ ہوجاتی ہے۔ کچھ ایسا لگتا ہے کہ فارسی کا مشکل یا غریب لفظ ہم سے یہ کہہ رہا ہے کہ ہم پر توجہ مت کرو، ابھی شعر کے اور الفاظ کو دیکھو، وہ کس بے تکلفی سے آئے ہیں۔ ہمارا اور ان کاتضاد پراکرت الفاظ کے حسن کو کم نہیں کررہا ہے۔ اس طرح پورے شعر کے ماحول میں بے ساختگی اور گفتگو سی فضا بن جاتی ہے۔ قاری کو لگتا ہے کہ فارسی کا نامانوس لفظ لایا ہی اس لیے گیاہے کہ اس کے مقابلے میں پراکرت لفظوں کی سلاست واضح ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ نامانوس الفاظ کی کثیر تعدادکے باوجود میر نے اکثر لوگوں کو اس دھوکے میں رکھا ہے کہ ان کا کلام بہت سلیس اور سریع الفہم ہے۔
لسانی توازن کی دوسری شکل میر نے یہ اختیار کی ہے کہ وہ فارسی کے عام الفاظ کو رعایت لفظی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں، اس لیے بظاہر ان میں پیچیدگی نہیں ہوتی۔ جب فارسی کے عام لفظ کے نامانوس معنی معلوم ہوں تو رعایت لفظی کا لطف اور اس کی پیچیدگی کا احساس ہوتاہے۔ میر کبھی کبھی یہ بھی کرتے ہیں کہ جان بوجھ کر پراکرت کانامانوس لفظ لے آتے ہیں۔ اکثر اس سے پیکر کی تخلیق منظور ہوتی ہے، اس لیے وہ لفظ اس قدر توجہ انگیز ہوتا ہے کہ شعر کی فارسیت دب جاتی ہے۔ یعنی یہ شکل پہلی صورت کے برعکس ہے، جس میں فارسی لفظ نادر ہوتا ہے، لیکن اس کے ذریعہ شعرکی سلاست اورکھلتی ہے۔
ان صورتوں کی کچھ مثالیں ذیل میں پیش خدمت ہیں۔ سب سے پہلے یہ دوشعر دیکھئے، ان سے میر ے نظریے کی تائید خود میر کی طرف سے ہوتی نظر آتی ہے،
دیوان دوم
اگرچہ سادہ ہے لیکن ربودن دل کو
ہزار پیچ کرے لاکھ لاکھ فند کرے
سخن یہی ہے جو کہتے ہیں شعرمیر ہے سحر
زبان خلق کو کس طور کوئی بند کرے
بلکہ اسی غزل کا ایک شعر اور لے لیتے ہیں،
نہ مجھ کو راہ سے لے جائے مکر دنیا کا
ہزار رنگ یہ فرتوت گو چھچند کرے
مقطع سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ میر کی نظر میں یہ غزل بہت عمدہ ہے۔ لہٰذا اس غزل میں جو لسانی طریقے انہوں نے برتے ہیں، وہ انہیں بہت مستحسن لگتے ہوں گے۔ ’’فند‘‘ والا شعر دیکھئے۔ ’’فند‘‘ فارسی ہے، بمعنی ’’فریب، دغا، جھوٹ‘‘، اردو میں ’’دند پند‘‘ اور’’پھند‘‘ اسی سے بنے ہیں، لیکن خود لفظ ’’فند’’میں نے بہت کم استعمال ہوتاہوادیکھا ہے۔ جناب عبدالرشید نے سترہویں اور اٹھارہویں صدی سے تین مثالیں پیش کیں ہیں لیکن ایک مشکوک ہے۔ مصرعے میں ’’ربودن دل‘‘ پکا فارسی فقرہ ہے، اگرچہ’’فند‘‘ کی طرح نامانوس نہیں۔ لیکن ان سب کے ہوتے ہوئے بھی شعر کا روز مرہ رنگ مجروح نہیں ہوتا، کیوں کہ دوسرے مصرعے میں ’’ہزارپیچ کرے، لاکھ لاکھ‘‘ کے دوفقرے خالص پراکرت ہیں۔
’’پیچ’’ (یہاں جس معنی میں استعمال ہواہے، اس معنی میں یہ اردوہے، فارسی نہیں۔) اور یہ فقرے اتنے توجہ انگیزہیں کہ شعر کی فارسیت کی طرف دھیان نہیں جاتا۔‘‘ چھچھند‘‘ والے شعر میں یہ صورت حال اور بھی واضح ہے۔‘‘ راہ سے لے جائے ‘‘ فارسی محاورے کابراہ راست ترجمہ ہے۔‘‘ فرتوت‘‘ کا لفظ خاصا نامانوس ہے۔ لیکن ’’چھچھند‘‘ کے نقارخانے میں فارسی طوطی کی آواز گم ہوجاتی ہے۔
دیوان ششم
وامق وکوہکن وقیس نہیں ہے کوئی
بھکھ گیا عشق کا اژدر مرے غم خواروں کو
اس شعر میں ’’بھکھ گیا‘‘ کافقرہ ’’عشق کا اژدر‘‘ کے اوپر حاوی ہوگیا ہے۔‘‘ اژدر’’ (جس کی سانس شعلہ فشاں ہوتی ہے) کی مناسبت سے ’’بھکھ گیا‘‘ کا پیکر زبردست ہے، اور آتش فشانی کے علاوہ خود’’بھکھ‘‘ کی صوتی کیفیت میں اژدہے کے سانس کھینچنے کی کیفیت بھی ہے۔ ان باتوں کے پیش نظر’’عشق کا اژدر‘‘ اور وامق، کوہکن اور قیس کی دوری اور اجنبیت، سب ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ ’’بھکھ گیا‘‘ کی ندرت سب پر حاوی ہوجاتی ہے۔
دیوان ششم
سب زخم صدر ان نے نمک بندخود کیے
صحبت جو بگڑی اپنے میں سارا مزا گیا
’’صدر‘‘ بمعنی ’’سینہ‘‘ بہت نامانوس ہے۔ نمک بند کرنافارسی ہے، اگرچہ ’’صدر‘‘ جتنا نامانوس نہیں۔ لیکن ’’صدر‘‘ کی جگہ’’سینہ‘‘ بآسانی آسکتا تھا ع سب زخم سینہ ان نے نمک بند خود کیے۔ ظاہر ہے کہ مصرع ثانی میں روز مرہ کے ذریعہ تضاد (Contrast) کو نمایاں تر کرنے کے لیے میر نے ’’سینہ‘‘ کی جگہ ’’صدر‘‘ لکھا، تاکہ پہلے مصرعے کے نامانوس الفاظ کے بعد مصرع ثانی کے بے ساختگی اور گفتگو کالہجہ اور چمک اٹھے۔
دیوان اول
منھ پر اس کی تیغ ستم کے سیدھا جانا ٹھہرا ہے
جینا پھر کج دارومریز اس طور میں ہوتک یامت ہو
’’کج دارومریز‘‘ بمعنی ٹال مٹول بہانہ، کسی کام کو اس طرح ٹالے رہنا کہ جان مشکل میں پڑجائے۔ (کج دار= ٹیڑھا رکھ، مریز=مت گرا۔) یہ فقرہ اتنا غریب ہے کہ میں نے اسے اٹھارہویں صدی کے بعد صرف اقبال کے یہاں دیکھا ہے۔ لیکن اقبال نے بھی اسے غلط استعمال کیاہے،
تری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیاہے آخر
مریز کج دار کی نمائش حروف خم دارکی نمائش
یوسف سلیم چشتی مرحول اقبال کی اس غلطی پر اس قدر گھبرائے کہ انہوں نے اس فقرے کے معنی ہی نہیں لکھے، لفظ بلفظ مصرعے کی نثر کردی، خیر۔ ایسے نادر فقرے کے چاروں طرف جتنے لفظ ہیں وہ سب پراکرت ہیں۔ صرف تین لفظ فارسی ہیں، لیکن وہ بھی اتنے آسان ہیں کہ ان میں کسی قسم کی غرابت نہیں۔ شعر کی سلاست’’کج دار مریز‘‘ کے استعمال سے اور بھی نمایاں ہوگئی ہے۔
بعض لغات میں ’’کج دار مریز‘‘ ضرور ملتا ہے لیکن اس کا استعمال بہت ہی شاذ ہے۔ جناب عبدالرشید نے جعفر علی حسرت شاگرد سرب سکھ دیوانہ کی ایک رباعی مثال میں پیش کی ہے اور وہ رباعی اتنی عمدہ ہے کہ میں بھی اسے نقل کرتاہوں،
ہر چند کہ زہد سے کیا ہم نے گریز
ٹوٹا نہ کبھی زہد سے اپنا پرہیز
اس مے کدۂ دہر میں ہم سے حسرت
ساقی نے رکھا ہمیشہ کج دار ومریز
دیوان پنجم
اب جو نسیم معطر آئی شاید بال کھلے اس کے
شہر کی ساری گلیاں ہوگئیں گویا عنبر سارا آج
مصرع ثانی میں وقفہ سولہ ماتراؤں کے بعد ’’ہوگئیں ‘‘ پر ختم ہوتاہے اور’’گئیں ‘‘ یہاں پر سبب ثقیل ہے۔ لہٰذا ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہوتی ہے کہ وقفہ تو ٹھیک مصرعے کے وسط میں آیا ہے، اور سامعہ اسے پسند بھی کرتاہے، لیکن بحر کاڈھانچا ایسا ہے کہ وقفہ سبب ثقیل پر آتا ہے۔ اس کی وجہ سے مصرعے کی رفتار تیز ہوگئی ہے اور گفتگو کاآہنگ زیادہ واضح ہوگیا ہے۔ ’’عنبر سارا‘‘ مرکب توصیفی ہے۔ ’’ سارا‘‘ بمعنی ’’خالص‘‘ فارسی ہے۔ لیکن اگر اضافت نہ پڑھی جائے (اور پہلی نظر میں ہوتابھی ایسا ہی ہے) تو ’’عنبر سارا‘‘ کا مفہوم ’’سارے کاسارا عنبر‘‘ محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا مصرع میں ایک نسبتاً کم مانوس فارسی لفظ ہے بھی اور نہیں بھی۔ اور بحر کی وجہ سے جو بے تکلفی پیدا ہوئی ہے، وہ مستزاد ہے۔
دیوان دوم
وہ زلف نہیں منعکس دیدۂ تر میر
اس بحر میں تہ داری سے زنجیر پڑی ہے
مصرعے میں فارسی اتنی زیادہ ہے کہ لفظ ’’زنجیر‘‘ کو قاری فوراً پکڑتاہے، کہ’’زلف‘‘ سے اس کی مناسبت واضح ہے۔ لیکن یہاں ’’زنجیر‘‘ دراصل ان چھوٹی چھوٹ لہروں کے معنی میں ہے جو گہرے پانی کی سطح پر نمودار رہتی ہیں۔ ا ب شعر کاحسن کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔
دیوان چہارم
دل رکھ قوی فلک کی زبردستی پر نہ جا
گر کشتی لگ گئی ہے تو تو بھی تلاش کر
یہاں ’’تلاش‘‘ بمعنی’’کشتی‘‘ ہے۔ عام لفظ کو نادر معنی میں استعمال کرکے فارسی اورپراکرت کانیا تواز ن پیدا کیاہے۔
دیوان پنجم
وہ نوبادۂ گلشن خوبی سب سے رکھے ہے نرالی طرح
شاخ گل ساجائے ہے لچکا ان نے نئی یہ ڈالی طرح
’’نوبادہ‘‘ کے معنی ہیں ’’پہلاپھل، نیاپھل، دلکش چیز‘‘ اس لفظ کو میر نے کئی بار استعمال کیا ہے، اور ہمیشہ بڑے حسن کے ساتھ استعمال کیاہے، جیساکہ یہاں بھی ہے۔ رعایت لفظی کے حسن سے قطع نظرشعر کا لسانیاتی حسن لفظ’’نوبادہ’’کی ندرت میں ہے۔ یہ ندرت ’’طرح ڈالی‘‘ اور ’’طرح رکھی‘‘ کی طرف سے توجہ ہٹا لیتی ہے۔ دونوں جگہ ’’طرح‘‘ کو بروزن فعل پڑھناپڑتاہے، جواردو کے لیے نامانوس ہے۔ لیکن ’’نوبادہ‘‘ کی ندرت اور حسن اورمصر عتین کے باقی الفاظ جو نسبتاً سادہ ہیں، آپس میں عمدہ تضاد (Contrast) پیدا کرتے ہیں۔ لہٰذا دونوں مصرعے بالکل سبک معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ شاخ گل‘‘ اور ’’ڈالی‘‘ کی رعایت کی طرف توجہ کرنابھی ضروری ہے۔
ضیا احمد بدایونی نے مومن کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ انہوں نے ایسے الفاظ کو جمع استعمال کیا ہے، جن کی جمع اردو میں عام طور پر مستعمل نہیں۔ درست ہے، لیکن یہ دراصل میر کی خاص ادا ہے، اور ممکن ہے کہ میر ومومن دونوں نے اسے فارسی سے حاصل کیاہے۔ صرف دیوان اول سے میر کے یہ شعرملاحظہ ہوں،
مشہور ہیں دنوں کے مرے بے قراریاں
جاتی ہیں لامکاں کو دل شب کی زاریاں
اس غزل کے اکثرقافیے اسی طرح بے تکلف ہیں، دستکاریاں، رازداریاں، امیدواریاں، باریاں (’’باری‘‘ کی جمع۔)
پاس مجھ کو بھی نہیں ہے میر اب
دور پہنچی مری رسوائیاں
ساتی کی باغ پر جو کچھ کم نگاہیاں ہیں
مانند جام خالی گل سب جماہیاں ہیں
اس غزل میں بھی کئی قافیے اس طرح کے ہیں، روسیاہیاں، بے گناہیاں، کج کلاہیاں، جمع بنانے کایہ انداز میر کے پہلے نہیں ملتا۔ یہ بات واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس طرح کی جمع عبارت اور لہجے کو بے تکلف بنادیتی ہے۔‘‘ ذرا اس کی بے قراری تودیکھئے ‘‘ کے مقابلے میں ‘‘ بے قراریاں تودیکھئے ‘‘ زیادہ بے تکلف ہے۔ لسانیات کاعام اصول ہے کہ صیغۂ جمع کااستعمال تشدید (Intensiftcation) کے علاوہ غیر رسمی ماحول بھی پیدا کرتا ہے، خاص کر جب جمع ایسے اسما کی ہو جو تجریدی (Abstract) ہوں، جیسا کہ مندرجہ بالا اشعار اور قوافی میں ہے۔ بعد کے کلام سے یہ مثالیں دیکھئے،
دیوان دوم
اب حوصلہ کرے ہے ہمارا بھی تنگیاں
جانے بھی دوبتوں کے تئیں کیا خدا ہیں یے
دیوان سوم
کیا کوئی اس کے رنگوں گل باغ میں کھلاہے
شور آج بلبلوں کاجاتا ہے آسماں تک
دیوان چہارم
وہ نہیں اب کہ فریبوں سے لگا لیتے ہیں
ہم جو دیکھیں ہیں تو وے آنکھ چرا لیتے ہیں
دیوان چہارم
یہ عرض مری یاد رہے بندگی میں میر
جی بچتے نہیں عشق کے اظہار میں صاحب
دیوان پنجم
بے تابیوں کے جورسے میں جب کہ مرگیا
ہو کر فقیر صبر مری گور پر گیا
میں نے گزشتہ صفحات میں میر کے یہاں عربی کے نامانوس الفاظ اور فقروں کی کثرت کاذکر کیاہے، اور یہ بھی عرض کیا ہے کہ ایسے فقروں کے باوجود شعر میں روانی کا احساس اس لیے ہوتاہے کہ میر نے انہیں اکثر خود طبعی کے ماحول میں صرف کیاہے۔ بعد کی بحث میں یہ بات بھی بیان ہوئی کہ جہاں ایسا نہیں ہے وہاں توازن کی دوسری صورتیں اختیار کی گئی ہیں۔ توازن کی ایک صورت جس کا ذکر کم ہوا ہے، محاوروں، ضرب الامثال اور چھوٹے چھوٹے الفاظ (مثلاً، تو، کیا کیا، کیا کچھ، سہی، یہاں، بھی، ہی یہ، وہ، کچھ) وغیرہ روز مرہ الفاظ کاایسا استعمال ہے جو شعر کو گفتگو کے قریب لے آتا ہے۔ میر نے مکالمے کا بھی کثرت سے استعمال کیا ہے، لیکن ان کے مکالمے محض لسانی اظہار کے لیے نہیں ہیں (جیسا کہ معاملہ بندی والے اشعار میں اکثر ہوتا ہے) بلکہ کردار کی وضاحت کے لیے ہیں، اس لیے ان کاذکر بعد میں ہوگا۔ دیوان دوم کی ایک معمولی سی غزل ہے، اس کے گیارہ شعر وں میں سے چار اشعار میں پانچ بار ’’تو‘‘ استعمال ہوا ہے، اور ہر جگہ اس انداز سے کہ شعر لہجہ عام گفتگو سے قریب ہوگیاہے،
ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات
پر ہم سے تو تھمے نہ کبھو منھ پر ائی بات
جانے نہ تجھ کو جو یہ تصنع تو اس سے کر
تس پر بھی تو چھپی نہیں رہتی بنائی بات
کہتے تھے اس سے چلئے تو کیا کیا نہ کہئے لیک
وہ آگیا تو سامنے اس کے نہ آئی بات
اب تو ہوئے ہیں ہم بھی ترے ڈھب سے آشنا
واں تونے کچھ کہا کہ ادھر ہم نے پائی بات
اسی غزل میں اچانک ایک غیر معمولی شعر کہہ دیا ہے، اور اس کاآدھازور لفظ’’یہ‘‘ کے استعمال میں ہے،
عالم سیاہ خانہ ہے کس کا کہ روز وشب
یہ شور ہے کہ دیتی نہیں کچھ سنائی بات
اس طرح کے چھوٹے چھوٹے الفاظ کے ذریعہ میر بڑے بڑے الفاظ کو سہارا دیتے ہیں اور بے تکلفی کا التباس پیدا کرتے ہیں،
دیوان چہارم
کیا سر جنگ وجدل ہو بے دماغ عشق کو
صلح کی ہے میر نے ہفتاد ودوملت سے یاں
’’میر‘‘ کو واحد غائب کے صیغے میں استعما ل کرنے، اور لفظ ’’یاں ’’نے شعر کو عام، تجریدی اور بوجھل بیان کی سطح سے اتار کر فوری، شخصی اور واقعاتی سطح پر رکھ دیا۔
دیوان پنجم
کر خوف کلک حسپ کی جو سرخ نہیں آنکھیں
جلتے ہیں تر و خشک بھی مسکیں کے غضب میں
’’کلک خسپ‘‘ تو غضب کالفظ ہے ہی، کیوں کہ ’’کلک خسپ‘‘ اس نادار شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس سردی میں کپڑے نہ ہوں اور جو کھلی ہوئی آگ کے پاس بیٹھ کر رات گزارے۔ لیکن پہلے مصرعے میں ’’جو‘‘ اور دوسرے مصرعے میں ’’جلتے ہیں بھی‘‘ نے شعر کی فضا روز مرہ زندگی کے قریب کر دی۔ پیکر کی حاکمیت اور تروخشک کے جلنے کی پراسرار یت اس پر مستزاد ہے۔
دیوان سوم
بوسہ اس بت کالے کے منھ موڑا
بھاری پتھر تھا چوم کر چھوڑا
محاورے کو لغوی معنی میں بھی استعمال کرنا اور رعایت لفظی کانیا پہلو پیدا کرنا میر وغالب کا ادنیٰ کرشمہ ہے۔ مندرجہ بالا شعر مزید وضاحت کامحتاج نہیں۔ اسی انداز کا ایک شعر دیوان سوم سے او ردیکھئے،
کیا کہئے دماغ اس کا کہ گل گشت میں گل میر
گل شاخوں سے جھک آئے تھے پر منھ نہ لگایا
دیوان سوم
اب یہ نظر پڑے ہے کہ برگشتہ وہ مژہ
کاوش کرے گی ٹک بھی تو سنبھلا نہ جائے گا
مصرع اولیٰ میں ’’یہ‘‘ بظاہر زائد معلوم ہوتاہے، لیکن تامل کیجئے تو محسوس ہوگا کہ ’’یہ‘‘ میں انکشاف کارنگ ہے۔ اگر’’اب تو‘‘ کہتے تو یہ بات نہ پیدا ہوتی۔ دوسرے مصرعے میں ’’بھی‘‘ کے بعد معنی میں وقفہ، اور پھر’’تو‘‘ کا صرف جس نزاکت سے ہواہے وہ میر ہی کا حصہ ہے۔ خود کلامی کی لطیف ڈرامائیت اور مضمون کی تازگی (مژہ کی برگشتگی پر غور کیجئے) کے باوجود پہلی نظر میں شعر کے معنوی ابعاد واضح نہیں ہوتے، کیوں کہ گفتگو کالہجہ ہمیں دھوکا دیتا ہے۔ اسی طرح کے شعروں کی بناپر لوگ میر کو بہت سادہ اور سہل الفہم گمان کرتے ہیں۔
دیوان اول
داڑھی سفید شیخ کی تو مت نظر میں کر
بگلا شکارہوئے تو لگتے ہیں ہاتھ پر
اس طرح کاشعر بہت ہی بڑا شاعر کہہ سکتاہے۔ ضرب المثل کاحوالہ دے دیا (بگلا مارے پر ہاتھ) پھر سفید ڈاڑھی کی مناسبت سے شیخ اور بگلے میں ظاہری مشابہت قائم کردی اور ضرب المثل کے حوالے سے یہ بھی ثابت کردیاکہ شیخ دراصل بالکل کم قیمت ہے۔ پھر ’’بگلا بھگت‘‘ کے تلازمے کے ذریعے شیخ کاریا کا روسالوس ہونا بھی بتادیا۔ اسی انداز کاشعر اسی غزل میں دوسرے مضمون میں بھی دیکھئے،
آخر عدم سے کچھ بھی نہ بگڑا مرامیاں
مجھ کو تھا دست غیب پکڑلی تری کمر
’’دست غیب‘‘ دراصل اولیاء اللہ کی اس صفت کو کہتے ہیں کہ ان کے پاس بظاہر کوئی ذریعۂ آمدنی نہیں ہوتا، لیکن پھر بھی وہ خوش حال اور مخیر رہتے ہیں۔ ایسے اولیاء اللہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کے پاس دست غیب ہے۔ اب اس کی روشنی میں کمر کی معدومی اور عاشق کی ادا ئے حریفانہ دیکھئے۔ یہ مضمون غالب کو نصیب نہ ہوا۔ کیوں کہ وہ میر کی طرح چھکڑ باز اور واقعیت کوش نہ تھے۔ وہ معشوق کے دامن کو حریفانہ کھینچ سکتے تھے، لیکن اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کے عدم کو وجود اور اپنے ہاتھ کو دست غیب ثابت نہ کرسکتے تھے۔
دیوان دوم
ناسازی وخشونت جنگل ہی چاہتی ہے
شہروں میں ہم نہ دیکھا بالیدہ ہوتے کیکر
دلیل کی ندرت کے ساتھ ساتھ مصرع اولیٰ ’’ہی‘‘ کی حد بندی پر غور کیجئے۔ اس ایک لفظ نے پورا کردارخلق کردیا۔
دیوان پنجم
عشق سے نظم کل ہے یعنی عشق کوئی ناظم ہے خوب
ہر شے یاں پیدا ہوئی ہے موزوں کا لایا ہے عشق
مصرع اولیٰ میں لفظ ’’کوئی‘‘ غیر معمولی قوت کاحامل ہے، کیوں کہ اس کے ذریعہ عشق کی شخصیت پر اسرار ہوجاتی ہے۔ عشق کوئی اعلیٰ درجے کاشاعر ہے، لیکن کھلتا نہیں ہے، اس کا کلام ہر جگہ ضرور نمایاں ہے۔ ’’کوئی‘‘ میں تحیر کی جو سادہ دلی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
دیوان اول
اب وہ نہیں کہ شور ش رہتی تھی آسماں تک
آشوب نالہ اب تو پہنچاہے لامکاں تک
’’وہ‘‘ کا استعمال ایک اور رنگ میں دیکھئے،
دیوان پنجم
اب وہ نہیں کرم کہ بھرن پڑنے لگ گئی
جو ں ابر آگے لوگوں کے دامن پسار دیکھ
اسی طری، لفظ’’کچھ‘‘ کے مختلف استعمال توجہ انگیز ہیں،
دیوان اول
یک قطرہ خون ہوکے پلک سے ٹپک پڑا
قصہ یہ کچھ ہوا دل غفراں پناہ کا
دیوان پنجم
بوئے گل ونوائے خوش عندلیب میر
آئی چلی گئی یہی کچھ تھی وفائے گل
دیوان چہارم
ہم فقیروں کو کچھ آزار تمہیں دیتے ہو
یوں تو اس فرقے سے سب لو گ دعالیتے ہیں
یہ نکتہ ملحوظ رہے کہ اس طرح کا روزمرہ برتنا بذات خود کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ یہ توہر اچھا شاعر کرلیتاہے۔ میر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس طرح کے الفاظ کے ذریعہ معنی ومضمون کے نئے پہلو بھی اجاگرکئے ہیں۔ اور کچھ اشعار مع تشریح گزرچکے ہیں۔ یہ چند مثالیں بے تشریح ملاحظہ ہوں،
دیوان چہارم
دل نہ ٹٹولیں کاش کہ اس کا سردی مہر تو ظاہر ہے
پاویں اس کو گرم مبادا یار ہمارے کینے میں
دیوان چہارم
دل کی بیماری سے خاطر تو ہماری تھی جمع
لوگ کچھ یوں ہی محبت سے دوا کرتے تھے
دیوان پنجم
دامن پر فانوس کے تھا کچھ یوں ہی نشاں خاکستر کا
شوق کی میں جو نہایت پوچھی جان جلے پروانے سے
دیوان پنجم
استخواں کانپ کانپ جلتے ہیں
عشق نے آگ یہ لگائی ہے
دیوان دوم
صد رنگ ہے خرابی کچھ تو بھی رہ گیاہے
کیا نقل کریے یارو دل کوئی گھر سا گھر تھا
میں نے کہا تھا تشریح نہ کروں گا۔ لیکن آخری شعر میں ’’کچھ تو بھی‘‘ اور’’کوئی‘‘ کی داد دیے بغیر نہیں رہا جاتا۔ ضرب المثل کے بھی استعمال کے چند اور شعر دیکھئے،
دیوان اول
چاک دل پر ہیں چشم صد خوباں
کیا کروں یک انار وصد بیمار
دیوان سوم
گیا حسن خوبان بد راہ کا
ہمیشہ رہے نام اللہ کا
دیوان سوم
میر کعبے سے قصد دیر کیا
جاؤ پیارے بھلا خدا ہمراہ
دیوان اول
اب تو جاتے ہیں مے کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
دیوان ششم
لکھے ہے کچھ تو کج کر چشم وابرو
برات عاشقان بر شاخ آہو
میر کی زبان کایہ محاکمہ بنیادی طور پر اس پر اس بات کو واضح کرنے کی سعی ہے کہ میر نے عام روز مرہ کو ادبی زبان بنانے کے لیے کیا طریقے اختیار کیے۔ یہ محاکمہ اس سوال کا جواب دینے کی بھی کوشش ہے کہ میر کی زبان کے بارے میں یہ تاثر کیوں پھیلاکہ یہ بہت سادہ اور بے تہ زبان ہے۔ امید ہے کہ اب یہ بات صاف ہو چکی ہوگی کہ میر نے زبان کو انتہائی پیچیدہ، متنوع اور متوازن طریقے سے استعمال کیاہے۔ متوازن اس معنی میں نہیں، جس معنی میں عام بول چال متوازن ہوتی ہے، بلکہ اس معنی میں کہ انہوں نے پراکرت میں فارسی کاپیوند طرح طرح سے لگایا لیکن فارسیت کو حاوی ہونے دیا اور نہ پراکرت کو۔ میرکی زبان میں اتنی رنگا رنگی اور تنوع ہے کہ (جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں) اس میں بعد کے ہر اسلوب اور ہر انداز کا سراغ مل سکتاہے۔
غالب کی زبان میر سے زیادہ بے مثال (Unique) ہے، لیکن محدود معنی میں۔ یعنی غالب نے پراکرت پر فارسی کو حاوی کردیا لیکن دونوں کو آپس میں ضم بھی کردیا۔ یہ کارنامہ کسی سے بھی انجام نہ پایا، اور اس کارنامے کی بدولت غالب کو جوبلند آہنگی ملی، اور اس زبان کے ذریعہ جس طرح کی تجریدی فکر کا اظہار غالب نے کیا، وہ صرف انہیں تک محدود رہی لیکن زبان کے پورے سرمایے کا جس قدر خلاقانہ اور بھرپور استعمال میر نے کیا، غالب اس کے اہل نہ تھے۔ صرف اس ایک بات کی بنا پر میر کا مرتبہ غالب سے برتر ٹھہرتاہے۔ من مانی کرنے والے اور مناسب کوانسب کرکے دکھانے والے دونوں ہیں۔ بس یہ ہے کہ میر کا علاقہ چونکہ زیادہ بسیط ہے، اس لیے ان کی سرحدوں پر کبھی کبھی بدامنی رہتی ہے۔ اور غالب کا رقبہ چونکہ نسبتاً تنگ ہے، اس لیے یہاں سرحدوں پر انتشار بہت کم ہے۔ لہٰذا میر کے یہاں کبھی کبھی بھونڈے الفاظ اورفقرے مل جاتے ہیں۔ بھونڈے سے میری مراد ایسے الفاظ اور فقرے نہیں جن پر ’’اخلاقی‘‘ حیثیت سے گرفت کی جاسکتی ہے۔ اخلاقی حیثیت سے مجھے میرکے یہاں کوئی قابل گرفت بات نہیں نظر آتی۔ میری مراد صرف یہ ہے کہ الفاظ کے وسیع خزانے کو تمام تر برت ڈالنے کے جو ش وشوق میں میرکبھی کبھی ادھ کچرے استعمالات کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ چند شعر حسب ذیل ہیں،
دیوان اول
اکثرآلات جور اس سے ہوئے
آفتیں آئیں اس کے مقدم سے
یہاں ’’آلات جور‘‘ معشوق کے بجائے کسی کاری گر کا پیکر پیش کرتا ہے اور ’’مقدم‘‘ صرف قافیے کی خاطر ہے۔ ’’مقدم‘‘ کا استعمال دیکھنا ہوتوغالب کو پڑھئے،
نہیں ہے سایہ کہ سن کر نوید مقدم یار
گئے ہیں چند قدم پیشتر درویوار
یعنی ’’مقدم‘‘ کالفظ رسومیاتی اور تکلفاتی (Formal) کیفیت رکھتا ہے۔ غالب کو پھر سنیے،
مقدم سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے
خانۂ عاشق مگر ساز صدائے آب تھا
میر، دیوان چہارم
کلید پیچ اگر رقعہ یار کا آوے
تودل کہ قفل سابستہ ہے کیسا کھل جاوے
یہاں رعایت لفظی بے فائدہ ہے، کیوں کہ ’’کلید پیچ‘‘ کے لیے کوئی جواز نہیں مہیا کیا۔ لیکن رعایت لفظی میر کا خاص فن ہے۔ ہزاروں اشعار میں سے ایک آدھ تو کم زور نکلیں گے ہی۔
دیوان ششم
منھ دھونے اس کے آتا تو ہے اکثر آفتاب
کھاوے گا آفتابہ کوئی خود سر آفتاب
’’آفتابہ‘‘ کی رعایت خوب سہی، لیکن ’’خود سر‘‘ محض برائے قافیہ ہے۔
ایک بات دلچسپ یہ ہے کہ میر نے فارسی اور پراکرت دونوں طرح کے الفاظ میں کہیں کہیں اس چیز کو روارکھا ہے جسے ہم بھونڈا پن کہنے پر مجبور ہیں، لیکن ان کا تنوع یہاں بھی برقرار ہے۔ فارسی سے میر کا شغف بہر حال اتنا ہی گہرا تھا جتناپراکرت سے تھا، اس لیے میر کے یہاں فارسی کی بہت سی نادر تراکیب بھی ملتی ہیں۔ ان تراکیب کا ذکر کیے بغیر اس بحث کو ختم کرنا غیر مناسب ہوگا۔
فارسی تراکیب کے سلسلے میں غالب اور مومن کانام اکثر آتاہے۔ مومن کے یہاں عینی تخیل (Visual Imagination) گم ہونے اور ان کے کلام میں معنی کی تازگی نہ ہونے کے باعث مومن کی تراکیب غالب کے مقابلے میں اکہری ہیں۔ میر کی تراکیب میں عینی تخیل اور معنی کی تازگی دونوں کادخل ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میدان میں وہ غالب کے حریف نہیں ہیں، لیکن انہیں نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ میر کا کلام چوں کہ پیکروں سے منور ہے، اس لیے ان کی تراکیب میں بھی پیکر کاشائبہ ہے۔ کہیں کہیں میر نے بھی غالب کی طرح تجریدیت برتی ہے، لیکن ان کی زیادہ توجہ تجریدی اور ٹھوس پیکروں پر ہے۔
یہ بات یار رکھنے کی ہے کہ عربی فارسی کے عام الفاظ کو مرکب کرنے سے کلام کی سطح معمولی بول چال کے مقابلے میں تھوڑی بہت بلند تو ہوجاتی ہے، لیکن اسے سچی فارسیت نہیں کہہ سکتے، اور نہ اس طرح کی تراکیب کو کلام کا کوئی خاص حسن کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے پرانے نقادوں، خاص کر نیاز فتح پوری نے فارسی تراکیب کی خوب صورتی کاذکر اکثر کیا ہے، لیکن یہ وضاحت نہیں کی ہے کہ جن تراکیب کو وہ خوب صورت کہہ رہے ہیں، ان کاحسن کس چیز میں ہے؟ لہٰذا سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ترکیب اس وقت خوب صورت ہوتی ہے جب اس کے ذریعہ نادر استعارہ پیدا ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ معنی میں اضافہ ہو۔ (اکثر یہ دونوں صورتیں، یعنی استعارہ اور اضافۂ معنی، ساتھ ساتھ واقع ہوتی ہیں۔)
تیسری صورت یہ ہے کہ ترکیب کے ذریعہ پیکر، یا استعارہ وپیکر وجود میں آجائے۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ ترکیب کسی استعاراتی نظام کی پشت پناہی کرے، چاہے خود اس میں کوئی قابل ذکر استعارہ نہ ہو۔ غالب کے کلام میں یہ تمام صورتیں موجود ہیں۔ اور کبھی کبھی ایک سے زیادہ صورتیں ایک ہی شعر میں اس طرح یکجا ہوتی ہیں کہ ان کو الگ الگ بیان کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ چند شعر ملاحظہ ہوں،
نہ ہوتا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
حباب موجۂ رفتار ہے نقش قدم میرا
’’یک بیاباں ماندگی‘‘ نادر استعارہ ہے، پیکر بھی ہے، لیکن’’حباب موجۂ رفتار‘‘ کی طرح کا پیچیدہ نہیں۔ آخر الذکر میں حر کی اور بصری دونوں کیفیات ہیں۔ اس میں استعارہ اتنا زبردست نہیں، لیکن یہ ترکیب خود ’’نقش قدم‘‘ کے لیے استعارے کا کام کررہی ہے اور اس طرح ایک اور استعارے کی پشت پناہی کرتی ہے۔
نشۂ مے بے چمن دود چراغ کشتہ ہے
جام داغ شعلہ اندود چراغ کشتہ ہے
’’دود چراغ کشتہ‘‘ میں خود کوئی ندرت نہیں، لیکن یہ خود استعارہ ہے ’’نشۂ مے‘‘ کا۔ ’’داغ شعلہ اندود‘‘ نہایت خوب صورت پیکر ہے، لیکن یہ ’’چراغ کشتہ‘‘ کااستعارہ بھی ہے، اور یہ سارے کاسارا ’’جام‘‘ کااستعارہ ہے، اس طرح پیچ در پیچ استعارہ اور پیکر پیدا ہوگئے۔
اسد ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سروپا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگان آہو پشت خار اپنا
’’گدائے بے سروپا‘‘ میں استعارہ دلچسپ ہے، لیکن بہت نادر نہیں۔ ’’جنوں جولاں‘‘ میں بے انتہا ندرت ہے، اور ’’گدائے بے سروپا‘‘ اس کے لیے استعارے کا کام کرتاہے۔ ’’سرپنجۂ مژگاں آہو‘‘ میں پیکر ہے، اگر چہ بہت غیر معمولی نہیں ہے۔ لیکن یہ پورا مصرع اپنے ماقبل کے مصرعے کااستعارہ ہے۔ اس طرح پورا شعر تراکیب کے ذریعہ استعارے کے ربط سے مربوط ہے۔
شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں
جادہ غیر از نگہ دیدۂ تصویر نہیں
نگہ دیدۂ تصویر ’’غیر معمولی استعارہ بھی ہے اور غیر معمولی پیکر بھی۔
پیکر عشاق ساز طالع ناساز ہے
نالہ گویا گردش سیارہ کی آواز ہے
دوسرے مصرعے میں زبردست بصری اورسمعی پیکر ہے لیکن اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ تمام تراکیب کے ذریعہ معنی میں اضافہ ہورہاہے۔
میر کی تراکیب میں یہ تنوع اور پیچیدگی شاذ ہے۔ یہ ضرور ہے کہ نئے نئے الفاظ کومرکب کرنے اور ترکیبوں پر مبنی نادر فقروں کو استعمال کرنے میں میر نے غالب سے زیادہ طباعی برتی ہے۔ ان میں سے بعض فقرے تو غالب نے بھی استعمال کیے، مثلاً،
دیوان اول
یک بیاباں برنگ صورت جرس
مجھ پہ ہے بے کسی وتنہائی
دیوان سوم
سب کھاگئے جگر تری پلکوں کے کاوکاو
ہم سینہ خستہ لوگوں سے بس آنکھ مت لگاؤ
لیکن بعض فقرے ایسے بھی ہیں جو غالب کی دسترس سے دور رہے، مثلاً ’’گل زمیں‘‘ بمعنی ’’قطعۂ زمین‘‘ اور ’’گل گل شگفتہ‘‘ بمعنی ’’بہت شگفتہ۔‘‘،
دیوان اول
اس گل زمیں سے اب تک اگتے ہیں سرومائل
مستی میں جھکتے جس پر تیرا پڑا ہے سایہ
دیوان پنجم
گل گل شگفتہ مے سے ہوا ہے نگار دیکھ
یک جرعہ ہم دم اور پلا پھر بہار دیکھ
جیسا کہ میں نے اوپر کہا، میر نے نئے نئے الفاظ کو مرکب کرنے میں خاص کمال صرف کیا ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ترکیب کو شارٹ ہینڈکے طور پر بھی عام شعراسے زیادہ کثرت سے برتا ہے۔ دونوں طرح کی بعض مثالیں حسب ذیل ہیں،
دیوان سوم
مدعی عشق تو ہیں عزلتی شہر لیک
جب گلی کوچوں میں کوئی اس طرح رسواہو میاں
دیوان سوم
ہوتم جومیرے حیرتی فرط شوق وصل
کیا جانو دل کسو سے تمہارا لگانہیں
(حیرتی فرط شوق وصل)
دیوان سوم
بار حرمان گل وداغ نہیں اپنے ساتھ
شجر باغ وفا پھولے پھلے جاتے ہیں
(بار حرمان گل وداغ اور شجر باغ وفا)
دیوان سوم
رنگ بے رنگی جدا تو ہے ولے
آب سا ہر رنگ میں شامل ہے میاں
(رنگ بے رنگی)
دیوان سوم
سوزدروں سے کیوں کر میں آگ میں نہ لوٹوں
جوں شیشۂ حبابی سب دل پر آبلے ہیں
(شیشۂ حبابی)
دیوان اول
میں نو دمیدہ بال چمن زاد طیر تھا
پر گھر سے اٹھ چلا سو گرفتار ہوگیا
(نومیدہ بال چمن زاد)
دیوان اول
حاصل نہ پوچھ گلشن مشہد کابوالہوس
یاں پھل ہر اک درخت کا حلق بریدہ تھا
(گلشن مشہد)
دیوان اول
میر گم کردہ چمن زمزمہ پرواز ہے ایک
جس کی لے دام سے تاگوش گل آواز ہے ایک
(میر گم کردہ چمن)
دیوان دوم
اس لب جاں بخش کی حسرت نے مارا جان سے
آب حیواں یمن طالع سے مرے سم ہوگیا
(یمن طالع)
دیوان دوم
مواج آب سا ہے ولیکن اڑے ہے خاک
ہے میر بحر بے تہ ہستی سراب سا
(بحربے تہ ہستی)
دیوان اول
آئی صداکہ یاد کر دور رفتہ کو
عبرت بھی ہے ضرور اے جمع تیز ہوش
(جمع تیزہوش)
دیوان چہارم
کھول آنکھیں صبح سے آگے کہ شیر اللہ کے
دیکھتے رہتے ہیں غافل وقت گرگ ومیش کو
(وقت گرگ ومیش)
مندرجہ بالا مثالیں اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ میر نے فارسی تراکیب کو مختصر نویسی کے طور پر بھی برتا ہے اور ایسے الفاظ کو بھی مرکب کیا ہے، جنہیں اردو میں شاذ ہی مرکب کیا گیا ہوگا۔ اب لگے ہاتھوں بعض ان تراکیب کو بھی دیکھ لیں جن میں خلاقانہ شان زیادہ پائی جاتی ہے، لیکن جوغالب کے انداز کی ہیں۔ عام رائے کے برخلاف، میر کے یہاں ایسی تراکیب اتنی شاذ نہیں ہیں کہ ان کوتلاش کرنے میں زحمت ہو۔ ان میں غالب کا سا تنوع نہیں ہے، لیکن انداز وہی ہے۔ صرف دیوان اول کی سرسری ورق گردانی سے، اور مشہور اشعار کو چھوڑ کر بھی کثیر تعداد میں ایسی تراکیب ہاتھ آتی ہیں جو وفور معنی یا پیکر کے حسن یا استعارے کی ندرت کی مثال میں رکھی جاسکتی ہیں۔
ٹک سن کہ سو برس کی ناموس خاموش کھو
دوچار دل کی باتیں اب منھ پر آئیاں ہیں
(ناموس خامشی)
ردو خال وزلف ہی ہیں سنبل وسبزہ وگل
آنکھیں ہوں تو یہ چمن آئینہ نیرنگ ہے
(آئینہ نیرنگ)
چشم کم سے دیکھ مت قمری تو اس خوش قد کو ٹک
آہ بھی سرو گلستان شکست رنگ ہے
(سروگلستان شکست رنگ)
گل وسنبل ہیں نیرنگ قضامت سرسری گزرے
کہ بگڑے زلف ورخ کیا کیا بناتے اس گلستاں کو
(نیرنگ قضا)
مقامر خانۂ آفاق وہ ہے
کہ جو آیا ہے یاں کچھ کھو گیا ہے
(مقامر خانۂ آفاق)
میں نے اس قطعۂ صناع سے سر کھینچا ہے
کہ ہر اک کوچے میں جس کے تھے ہنرور کتنے
(قطعۂ صناع)
جام خوں بن نہیں ملتا ہے، ہمیں صبح کو آب
جب سے اس چرخ سیہ کاسہ کے مہمان ہوئے
(چرخ سیہ کاسہ)
چھوٹنا ممکن نہیں اپنا قفس کی قید سے
مرغ سیر آہنگ کو کوئی رہا کرتا نہیں
(مرغ سیر آہنگ)
اس طرح کی مثالیں بہت ہیں۔ ان مثالوں سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ میر کی زیادہ تر تخلیقی تراکیب فارسی کے مروج اور مستقل محاورے پر بنی ہیں۔ (چرخ سیہ کاسہ، مرغ سیر آہنگ، قطعۂ صناع، وغیرہ۔) ان میں تخلیقی چمک دمک غالب کے برابر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں پیچیدگی بھی غالب جیسی نہیں ہے۔ ندرت طلب طبیعت اپنی عمارت انہیں چیزوں پر استوار کرتی ہے جو پہلے سے موجود ہوں، لیکن اس کی عمارت اپنی تفصیلات وجزئیات میں پہلے سے موجود بنیادوں سے مختلف بنتی ہے۔ غالب کا یہی عالم تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.