Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میراجی کی کچھ قلمی یادگاریں

مختار صدیقی

میراجی کی کچھ قلمی یادگاریں

مختار صدیقی

MORE BYمختار صدیقی

    ایک فائل میں گلے ہوئے یہ پریشان اوراق، میرے ساتھ برسوں سے سفر میں ہیں۔ یہ میراجی کا ورثہ ہیں، جس کا میں امانت دار ہوں۔ ان میں پنسل کے لکھے ہوئے کاغذات بھی ہیں، بہت احتیاط سے بنی ہوئی نظموں کی فہرستیں بھی ہیں۔ ناتمام غزلیں اور مکمل اور نیم مکمل نظمیں ہیں کتابوں کی وصول شدہ رائلٹی کے کوائف بھی ہیں اور متوقع آمدنی کے وہ گوشوارے بھی ہیں جو میں جانتا ہوں کہ کبھی حقیقت نہ بن سکے۔ ان کاغذات میں دو ایک خطوط بھی ہیں، ریڈیو لکھنؤ کا ایک خط، دو ایک ذاتی نوعیت کے خط، ساقی دلی کی طرف سے کسی صاحب کاخط۔ ریڈیو کنٹریکٹ کی کاپی۔ دوایک کاغذوں پر چند ذیلی عنوانات کی فہرستیں ہیں۔ جن کے اوپر ایک عنوان ہے۔ ان کے بارے میں شائد میں ہی جانتا ہوں کہ یہ ان کتابوں کے ابتدائی خاکے ہیں جو میراجی لکھنا چاہتے تھے۔ میرے جاننے کی اس تخصیص میں کوئی خودستائی نہیں، صرف یہ اتفاق ہے کہ میرے سامنے یہ خاکے بنے تھے، اور ان کتابوں کی مجوزہ تسوید میں مجھے شامل کرنا بھی مقصود تھا۔

    نثر، نظم، یا دد اشتوں اور نثری ناتمام مضمونوں، فہرستوں کا یہ اکٹھہ۔ کوئی ’’مجموعہ‘‘ نہیں بنتا، کیونکہ اس میں اجتماع کی بنیادی شرط، یعنی کوئی تسلسل، ربط، کوئی ترتیب ہے ہی نہیں۔ مگر یہ پریشان کاغذوں کا پلندہ بھی نہیں۔ اس میں وہ تمام قرینہ موجود ہے جو میراؔجی کے جینے کا قرینہ تھا۔ زندگی سے بے پناہ لگن، کام کرنے اور کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی تخلیقی امنگ۔ مستقبل کے لیے منصوبہ بندی، ماضی کا اور ماضی میں جو کچھ لکھا، جو کچھ کرنے کا کام کیا، اس کا محاسبہ، اس کی تہذیب اور اس کی تدوین پھر زندگی کے عملی پہلوؤں، روپے کی آمدورفت اس کے چلن اور اس کے شدوبود کا باقاعدہ ریکارڈ۔ زندگی کا یہ قرینہ، میراجیؔ کی پہلو دار شخصیت کا مخصوص قرینہ تھا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ان کاغذوں میں وہ چیز بھی ملتی ہے جس کو ان کی زندگی کا بنیادی قرینہ قرار دیا گیا ہے۔ یعنی ’’جنس‘‘ انہی کاغذوں میں قدیم ہندو فلسفے کی کسی انگریزی کتاب سے بھرتریؔ ہری کے حوالے شکتیؔ اور ابلاؔ کے بارے میں کچھ اقوال نقل کیے گئے ہیں۔ پھر اجنتا کے غار، ان کے ایک مجوزہ مجموعہ نظم کے ایک مجوزہ دیباچے کا پیرائیہ آغاز ہے۔ اور اس میں لکھا ہے کہ یہ ساری نظمیں جو اس مجموعے میں آئیں گی۔ ’’وہ اس لیے پیدا ہوئیں کہ میرے گھر میں عورت کے نام کاکوئی ستون نہ تھا۔‘‘ اور میں نے جو نظمیں لکھیں وہ میں نے نہیں لکھیں وہ ان تین عورتوں نے لکھیں جن کے بارے میں امکانی وضاحت کا ارادہ میرے دل میں ہے۔‘‘

    ’’جنس‘‘ کی ذیل میں ایک ناتمام مضمون بھی آتا ہے جو ’’زلف کا حلقہ آدھی دنیا‘‘ کانام رکھتا ہے۔ اور جس میں وہ رومانی کرب ہرہر لفظ میں خوں فشاں ہے، جو ان کی نظموں اور گیتوں کا تاروپود تھا۔ اور جب یہ کرب، کسی سسکی میں تبدیل ہوتا تھا تو اسے جنسی شاعری سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح کے کچھ فقرے، کچھ یادداشتیں اور ہیں۔ اور اسی کی ذیل میں وہ اشعار بھی ہیں، جو ان کاغذوں میں شامل ہیں۔ اور جن کو ’’ہزل‘‘ کہاجاتا ہے (اور یہی عنوان میراؔجی نے بھی، ان کو دے رکھا ہے۔ روایت کی یہ پابندی بھی ان کے جینے کا وہ قرینہ ہے جو ان سے مخصوص تھا۔

    اور اس مجموعے میں (۱۸) کے قریب، منظومات بھی ہیں۔ ان منظومات میں بھی وہ قرینہ موجود ہے، جومیراجیؔ کی شخصیت تھی، یعنی ان میں زیادہ تعداد نظموں کی ہے۔ اس کے بعد گیتوں کا نمبر ہے اور محض برائے بیت ایک پوری غزل، چند غزل نما اشعار ہیں اور بس،

    منظومات میں تو چند ایک محض پیرایۂ آغاز ہیں۔۔۔ مثلاً

    پل میں ہنگامہ لذت کا سماں، چھایا ہوا تھا، یک دم

    رادھاؔ بولی، مجھے اپنا سہارا دوگے؟

    عمربھر کے لیے کیا اپنا سہارا دوگے؟

    اور۔۔۔ تمہیں معلوم ہے تیمور کی فوجیں جس وقت

    اپنے دشمن پہ بڑھا کرتی تھیں

    عورتیں پیچھے رہا کرتی تھیں

    اور۔۔۔ یہاں سر تھا، یہاں بکھرے ہوئے گیسو

    ہوا کے نرم جھونکے، ان کو لہراتے ہی جاتے تھے

    میں اِن کو اپنے ہاتھوں کے اشاروں سے سمٹنے کو تو کہتا تھا

    پوری نظمیں بھی دو ایک ہیں۔ ایک تو بیٹیؔ ہے۔ جو کسی اور صورت میں شائد چھپ چکی ہے، اور ایک نظم یہ ہے،

    آج دیکھا کسی ٹہنی پہ کوئی پھول نہیں

    آج دیکھا۔۔۔ یونہی، ہر رنگ/ بدل جاتا ہے

    آج دیکھا کہ پسینے کی ڈھلکتی بوندیں،

    سرِابرو پہ جب آجاتی ہیں،

    دل یہ کہتا ہے کہ اب، آنکھ کے پردے پہ، یہ آنسو ہی

    نہ بن جائیں کہیں!

    اور پھر گہرے سمندر کا خیال آتا ہے

    جس کی تہ، سیپ کو سینے سے لگائے ہوئے

    موتی کو چھپائے ہوئے

    غراتی ہے۔

    سطح پر ناؤ میں جو تیرتا ہے

    اس کی نادانی پہ جھلاتی ہے!

    اور۔۔۔ ساحل سے جو دیکھے، وہ یہی کہتا ہے

    لہریں کیوں اٹھتی ہیں؟ ۔ طوفان کے آثار نظر آتے ہیں؟

    اور وہی جانتا ہے۔ لہروں کے طوفان کی بات

    جس نے دیکھا ہے کہ ٹہنی پہ کوئی پھول نہیں

    ایک مرجھائی ہوئی سوکھی ہوئی پتی

    نہیں ایسی کہیں، جو کہلائے

    بیتی راتوں کی یہاں چھاؤں ہے۔ دم لے لو۔ یہیں

    *

    تمہیں وہ گونج لرزتی ہوئی آئے گی نظر

    اصل میں جو تھی بکھرتا ہوا پھول

    اب تو ٹہنی پہ کوئی پھول نہیں

    اب تو ٹہنی ہے۔ لچکتی بھی نہیں۔ جھول کے بل کھاتی نہیں

    *

    گیتوں میں، گیتوں کے مکھڑے بھی ہیں اورایک ایک دو دو بند کے گیت بھی، مثلاً ایک مکھڑا یہ ہے،

    کوئی رات بھی دیکھ نہیں سکتا کوئی دن کو رات بناتا ہے

    کوئی گائے گیت سہاروں کا

    یوں دیکھے تماشا ساروں کا

    کوئی رات بھی دیکھ نہیں سکتا

    اس کے مقابلے میں کل، نسبتاً طویل تر گیتوں میں وہی رس وہی جادو ہے، جو میراؔجی کے گیت یا گیت ہی گیت کے گیتوں کے طلسم نما میں نغمہ ساماں ہے۔ وہی مکھڑا یا اتھائی میں انوکھے پن کی ڈرامائی کیفیت، وہی نرمی، وہی آنچ، وہی کہانی کو بیچ سے کہنے اور اس کا ذرا ساپہلو بتانے کافن۔

    کیوں نہیں اکھیاں درشن پیاسی

    کب تک دکھ کی لاجنیا

    سکھ کا سپنا

    اس پر کوئی نہیں اپنا

    آنسو پئیں تو سینے میں یوں لاگے برماکٹاری

    جیسے اترے مدرا روکھی

    کیوں نہیں اکھیاں ندیاں سوکھی

    نثر، نظم، یادداشت، اعداد و شمار اور فہرستوں کے یہ اوراق۔ تحریرؔ اور لفظؔ کے لیے اس گہری اور بے پایاں عقیدت اور محبت کا مرقع ہیں جو میراؔجی کے جینے کا ایک قرینہ تھی۔ کیونکہ اس میں یہ یادداشت بھی تحریری طور پر موجود ہے کہ اخلاق، قیوم، صفدر اورمختار سے کیا کیا مضمون کی نقل لینی ہے تاکہ ’’اننت اجنتا‘‘ کا مسودہ مکمل ہوسکے، یہ یادداشت اِن کو ویسے بھی یاد رہی اور وہ نظمیں بھی لی گئیں مگر لکھے ہوئے لفظ کا احترام اس بات میں مانع تھا کہ ایسے پرزے کو بھی ضائع کیا جائے جس سے کام لیا جاچکا تھا۔ یہ ان کے جینے کے قرینے کی بنیادی بات تھی کہ یادیں محفوظ رہنی چاہئیں۔ کیونکہ یہ زندگی کا تسلسل ہیں۔

    ایک ہی بات کی آگاہی ہر بات سے آگاہ کرے

    کوئی گاتے ہوئے اک جھونکے کی مانند گزر جاتا ہے

    کوئی سائے کی طرح پیچھے چلا آتا ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے