میرے بھیا
یہ بات 49-1948 کی ہے جب میں پرائمری درجے کا طالب علم تھا۔ ہم لوگ گورکھپور میں رہتے تھے۔ مجھے یہ اطلاع ملی کہ چچا جان کا تبادلہ ہوگیا ہے اور وہ گورکھپور آرہے ہیں۔ اس خبر کے ماہ ڈیڑھ ماہ بعد ایک دن شام میں نے دیکھا کہ میرے گھر میں ایک صاحبزادے بیٹھے ہیں۔ قمیص پاجامہ پہنے۔ سر پر گھنگریالے بال، گورا چٹا رنگ، آنکھوں پر دبیز شیشے کا چشمہ لگائے۔ مجھے یاد نہیں کہ اس وقت ان کے سر پر ٹوپی تھی یا نہیں۔ غالباً نہیں تھی، اگرچہ اس وقت تک ہمارے گھرانوں میں بزرگوں کے سامنے ننگے سر آنا یا انگریزی بال رکھنا بہت معیوب بات سمجھی جاتی تھی۔ میری والدہ نے بتایا کہ یہ بچے میاں ہیں۔ چچا جان کے بڑے لڑکے۔ میری والدہ نے یہ بھی بتایا کہ تیرہ چودہ سال کی عمر میں ہی پڑھتے پڑھتے اس لڑکے نے اپنی آنکھیں خراب کرلیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میری والدہ کے اصرار پر انہوں نے ایک سلام ترنم سے سنانا تھا۔ اس زمانے میں انہیں نعتیں بہت یاد تھیں اور وہ انہیں ترنم سے پڑھتے تھے۔ وہ میرے بڑے بھائی سے عمر میں دوسال چھوٹے تھے اور اس وقت ان کا داخلہ گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول میں دسویں درجے میں ہوا تھا۔
یہ تھا میرا پہلا تعارف اس بچے میاں سے جسے ہم لوگ نام بگاڑ کر بچو میاں کہتے تھے اور جو بعد میں شمس الرحمٰن فاروقی کے نام سے ادبی دنیا میں متعارف ہوا۔ انہوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول سے ہائی اسکول کا امتحان فرسٹ ڈویزن میں پاس کیا اور پھر میاں صاحب جارج اسلامیہ انٹرکالج میں داخلہ لیا۔ اس دوران چچا جان نے ہمارے گھر کے نزدیک ہی گھر لے لیا تھا۔ میرے بھائی جان نے بھی اسلامیہ کالج میں انٹرمیں داخلہ لیا تھا اس لیے دونوں میں کچھ قربت زیادہ ہوگئی تھی۔ وہ اکثر ہمارے گھر آتے رہتے تھے لیکن رعب اور دبدبے کی وجہ سے ہم لوگوں سے کوئی بات چیت نہ ہوتی۔ اسلامیہ کالج میں اس زمانے میں غلام مصطفے خاں رشیدی انگریزی پڑھاتے تھے۔ وہ اردو کے اچھے شاعر تھے۔ مطالعہ بھی وسیع تھا۔ ان کے انگریزی شاعری پڑھاتے تھے۔ وہ اردو کے اچھے شاعر تھے۔ مطالعہ بھی وسیع تھا۔ ان کے انگریزی شاعری پڑھانے کے طریقے سے بچو بھائی بہت متاثر تھے۔ اور رشیدی صاحب نے ان میں زیادہ سے زیادہ انگریزی کتابیں پڑھنے کی تحریک پیدا کی۔
اسلامیہ کالج کے پاس بخشی پور چوراہے پر ایک جلد ساز کی دکان تھی، پتہ نہیں کیسے بھیا نے اس جلد ساز سے دوستی کرلی تھی اور وہاں جتنی کتابیں جلد بننے کے لیے آتیں یہ وہیں بیٹھ کر ان کتابوں کو پڑھتے۔ ہمارے محلے میں جماعت اسلامی کا دارالمطالعہ بھی تھا۔ یہ آتے جاتے وہاں سے بھی ایک دو کتابیں لے لیتے اور دوسرے دن ہی واپس کردیتے۔ یہاں ماہانہ ادبی نشستیں بھی ہوتی تھیں۔ انہیں شاعری کا بھی چسکا ہوگیا تھا۔ اور اپنی نظمیں یا غزلیں ماہانہ نشستوں میں سناتے۔ شروع میں انہوں نے افسانے بھی لکھے۔ لیکن کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ جماعت کی کسی سالانہ ادبی نشست میں وہ اپنا افسانہ پڑھ رہے تھے مجمع خاصہ تھا بعض لوگوں نے فحاشی کا اعتراض کرکے انہیں افسانہ پڑھنے سے روک دیا۔ اس دن کے بعد سے نہ انہوں نے افسانے لکھے اور نہ جماعت کی نشستوں میں شامل ہوئے۔
اسلامیہ کالج سے انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد انہوں نے مہارانا پرتاپ کالج میں بی۔ اے میں داخلہ لیا۔ اس زمانے میں وہ صبح اپنے گھر سے چل کر ہمارے ہاں آجاتے اور پھر میرے بھائی جان اور ایک دوست کے ساتھ کالج کے لیے روانہ ہوتے۔ ان کے ہاتھ میں کوئی موٹی کتاب ہوتی جسے یہ راستے میں بھی پڑھتے رہتے۔ میرے بڑے بھائی کا کام یہ ہوتا کہ وہ انہیں کار، سائیکل یا رکشا سے ٹکرانے سے بچائیں۔ دوسال کا عرصہ ان کا اسی طرح سے گزرا کہ انہیں کالج کے راستہ کی شاید ٹھیک سے شناخت بھی نہ ہوسکی۔ اس دوران انہوں نے گورکھپور کی مشہور واحد لائبریری میں موجود اکثر کتابوں کا مطالعہ کرڈالا تھا۔ شروع میں تو مطالعہ کے لیے کوئی کتاب مل جانی کافی ہوتی۔ چاہے وہ تیرتھ رام فیروز پوری کے تراجم ہوں ایم اسلم کے ناول ہوں یا اسلام کی اقتصادی پالیسی سے متعلق کوئی کتاب ہو۔ دھیرے دھیرے ادب کی طرف ان کا میلان تمام دلچسپیوں پر حاوی آگیا۔ اس میں واحد لائبریری کا حاضا اہم رول رہا ہے۔ لائبریری کے مالک واحد بھائی مرحوم نہایت عمدہ آدمی تھے۔ خدا مغفرت کرے۔ ان کی خاصیت تھی کہ وہ جس کسی میں پڑھنے کا ذوق پاتے اسے لائبریری سے ڈھونڈ کر نایاب سے نایاب کتابیں دیا کرتے۔
1953میں بی۔ اے کرنے کے بعد بھیا انگریزی سے ایم۔ اے کرنا چاہتے تھے۔ گورکھپور میں اس کی سہولت نہیں تھی۔ اس لیے یہ الہ آباد جانا چاہتے تھے۔ چچاجان کے لیے الہ آباد کا خرچ اٹھانا مشکل تھا لیکن چچا اور چچی نے ان کے شوق کا خیال کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی انتظام کرکے الہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے بھیج دیا۔ بحیثیت طالب علم وہ ایک دور کے عزیز کے یہاں بخشی بازار میں رہتے تھے۔ وہاں سے یونیورسٹی کئی میل دور تھی۔ وہ اکثر پیدل ہی آیا جایا کرتے تھے۔ سنا ہے اس وقت بھی ان کے ہاتھ میں کتاب کھلی ہوتی اور وہ ورق گردانی کرتے ہوئے راستہ پار کرتے انہیں کوئی خبر نہ ہوتی کہ سامنے کیا ہے یا کسی چیز سے ٹکر ہونے کا امکان ہے۔ وہ زمانہ ہی اور تھا راستے والے ان کے مطالعے کی محویت دیکھتے ہوئے خود ہی انہیں راستہ دے دیتے۔ الہ آباد میں بھیا مشہور زمانہ پروفیسر دیب کے ہونہار ترین شاگردوں میں سے تھے لیکن بعض ادبی مسائل پر کلاس روم میں ان سے اختلافات بھی ہوجاتے۔ دیب صاحب کے لیے یہ بہت بڑی بات تھی کہ کوئی طالب علم کی باتوں سے اختلاف کرے۔ اس لیے بعد میں استاد شاگرد کے تعلقات اتنے خوشگوار نہ رہے جتنے کہ شروع میں تھے۔ میں اس زمانے میں گورکھپور میں تھا اور انٹر کا طالب علم تھا۔
غالباً مئی 1955تھا جب انگریزی کی امرت بازار پتریکا میں بھیا کی تصویر شائع ہوئی کہ انہوں نے ایم۔ اے میں ٹاپ کیا ہے اور گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔ ہم لوگ تصویر دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور خاندان کے ہر فرد نے اس بات پر فخر محسوس کیا۔
الہ آباد یونیورسٹی میں بھیا کی ملاقات اپنی کلاس فیلو جمیلہ خاتون ہاشمی سے ہوئی۔ جو ان کی ذہانت سے بہت متاثر تھیں۔ بخشی بازار میں جہاں بھیا رہتے تھے وہاں انہیں کوئی خاص آرام نہ تھا۔ جمیلہ ہاشمی نے زمانہ طالب علمی میں انہیں سہارا دیا اور مدد کی۔ یہ بھی ان کی بے لوث خدمات سے بہت متاثر ہوئے۔ بعد میں یہی جمیلہ ہاشمی، جمیلہ فاروقی کے نام سے خاندان کی بہو بنیں اور ہم لوگوں کی بھابی۔ ایم۔ اے کرنے کے بعد ملازمت کا معاملہ درپیش تھا۔ اسی سال ان کا تقرر بلیا کے ستیش چند ڈگری کالج میں بحیثیت انگریزی لکچرر کے ہوگیا۔ یہ جگہ انہیں پسند نہ آئی اور دوسرے سال انہوں نے شبلی کالج اعظم گڑھ میں ملازمت کرلی۔ اس دوران ان کا قیام ہمارے بڑے چچا مولانا مولوی عزیز الرحمن صاحب فاروقی کے ہاں رہا جو خود بھی شبلی اسکول میں استاد تھے۔
بڑے چچا جب کبھی گورکھپور آتے تو وہ بھیا کی کیفیت سے لوگوں کو آگاہ کرتے کہ کس طرح ساری رات یہ کتابوں کو چاٹتے رہتے ہیں۔ ساتھ میں ان کی چائے اور سگریٹ کی بلانوشی کا تذکرہ بھی وہ ضرور کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ شبلی کالج کے انگریزی کے سبھی پرانے استاد ان کی علمیت اور ذہانت سے خوفزدہ رہتے ہیں اور وہ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ اس کالج سے کہیں اور چلے جائیں ورنہ پرانے استادوں کا جما جمایا سکہ کھوٹا ہوجائے گا۔ بھیا کی تمنا تھی کہ الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے لکچرر ہوجائیں لیکن پروفیسر دیب کی ناراضگی نے ایسا نہ ہونے دیا۔ لہٰذا اعظم گڑھ کے دوران قیام میں بھیا نے آئی۔ اے۔ ایس کی تیاری شروع کردی۔ مطالعے کے لیے انہوں نے کوئی چھٹی نہ لی۔ پڑھانے سے جو وقت بچتا اس کو امتحان کی تیاری میں صرف کرتے۔ امتحان تک کے لیے انہوں نے صرف ان دنوں کی چھٹی لی جس دن پرچہ ہوتا تھا۔ وہ ایک بس سے الہ آباد پرچہ دینے جاتے اور دوسری بس سے اعظم گڑھ واپس آجاتے۔
انہوں نے 1957کا امتحان دیا اور اسی سال ان کا انتخاب بھی ہوگیا۔ ان کا نمبر ۷۳تھا جب کہ اس سال ۷۲لڑکے آئی۔ اے۔ ایس کے لیے چنے جانے والے تھے ان کا نتیجہ دیر میں نکالاگیا۔ کیوں کہ یوپی ایس سی والے اس فکر میں تھے کہ شاید اگر ایک جگہ اور بڑھ جائے تو انہیں آئی۔ اے۔ ایس میں لینا پڑے گا (کوشش تو انہوں نے بہت کی تھی کہ بھیا کو کامیابی سے محروم رکھا جائے۔ کیوں کہ بھیا تحریری امتحان میں اول تھے لیکن زبانی امتحان میں ان کو بہت کم نمبر دیے گئے تھے۔) بہر حال انہیں پوسٹل سروس کے لیے منتخب کیا گیا۔ ہم لوگ ان کا تذکرہ سنتے اور متاثر ہوتے ایک طرح سے وہ ہم لوگوں کے آئیڈیل بھی بن گئے اور رہنما بھی۔ بھیا کی پوسٹنگ گوہاٹی میں ہوئی۔ وہاں سے یہ ہماری بھتیجی کی شادی میں شرکت کے لیے گورکھپور آئے۔ فرسٹ کلاس کے ڈبے میں سفر کرتے ہوئے منہ میں سگریٹ دبائے جب وہ اسٹیشن پر اترے اس وقت ہم سبھی بھائیوں کے لیے ان کی شخصیت اس قدر رعب اور دبدبے والی نظر آئی کہ اس کا اثر آج بھی باقی ہے۔
بھیا کے قریب آنے اور انہیں سمجھنے کا موقع مجھے اس وقت ملا جب ان کی پوسٹنگ الہ آباد ہوچکی تھی اور انہو ں نے ڈاکٹر اعجاز حسین کی ادارت میں ’’شب خون‘‘ نکالنا شروع کردیا تھا۔ تب تک ان کے والد یعنی میرے چھوٹے چچا بھی تبدیل ہوکر الہ آباد آچکے تھے۔ بہ سلسلہ ملازمت میرا بھی تقرر الہ آباد میں ہوگیا تھا۔ دفتری مصروفیات کی بناپر بھیا کو اتنی فرصت نہ ملتی کہ شب خون کا سارا کام اکیلے سنبھال سکیں۔ ان کی مصروفیات کے تحت جمیلہ بھابی نے مجھے یہ تحریک دی کہ میں دفتر کے بعد شام کو رانی منڈی ’’شب خون‘‘ کے دفتر میں بیٹھنا شروع کروں اور ایڈیٹنگ اور انتظام کا کچھ بار ان کے سر سے کم کرسکوں۔ میری نا اہلی کے باوجود انہیں مجھ پر اتنا اطمینان ہوگیا تھا کہ انہوں نے زیادہ تر کام میرے سپرد کردیا۔ تخلیقات کی منظوری سے لے کر رسالے کی پوسٹنگ تک کی ساری نگرانی مجھے کرنی پڑتی۔ تخلیقات کے انتخاب میں مجھے جب کبھی کوئی شک ہوتا تو میں ان سے مشورہ لیا کرتا۔
اس زمانے میں ان کی سب سے بڑی خوبی جو مجھے نظر آئی وہ یہ تھی کہ جس کسی میں بھی تخلیقی صلاحیت پاتے اس کی حوصلہ افزائی کرنے اور اسے اجاگر کرنے میں دل و جان سے دلچسپی لیتے۔ بعض تخلیق کاروں کے بارے میں اگر میری رائے ہوتی کہ یہ شائع کرنے کے لائق نہیں ہے تو ان کا جواب ہوتا بھائی! اس کے اندر تخلیقی صلاحیت ہے اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اور اسے بڑھانا چاہیے۔ نئے لوگوں کو ہم نہ چھاپیں گے تو کون چھاپے گا۔ ان کی یہ صفت آج بھی اسی طرح برقرار ہے اور ہر اس شخص کی وہ دل کھول کر حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس میں کچھ بھی صلاحیت یا شوق ہو۔ آج کے دور میں کتنے ہی شاعر اور افسانہ نگار ایسے ہیں جو فاروقی صاحب کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ اس معاملے میں ان کا ہمسر کوئی نہیں۔
میرے ہم عصر خاندان کے لوگوں میں مقابلہ جاتی امتحانات میں بیٹھنے کی تحریک انہیں سے پیدا ہوئی۔ الہ آباد میں، میں نے انہیں کبھی بھی صبح تین چار بجے سے پہلے سوتے ہوئے نہیں پایا۔ عام لوگوں سے وہ بات چیت بھی کم ہی کرتے اور ہمیشہ مطالعہ میں غرق رہتے۔ ’’شب خون‘‘ کے اجراء کے ایک دو سال بعد نئے شاعروں کاانتخاب شائع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ منتخب لوگوں سے ان کا کلام منگایا گیا۔ کتاب کا نام ’’نئے نام‘‘ رکھا گیا۔ انتخاب کا کام انہوں نے مجھ پر اور مرحوم حامد حسین حامد پر چھوڑ رکھا تھا۔ پہلے میں نے انتخاب کیا پھر حامد حسین حامد نے، اور اس کے بعد انہوں نے۔ تین میں سے دو شخص جس تخلیق کو اتفاق رائے سے منظور کرلیتے اسے ’’نئے نام‘‘ میں اشاعت کے لیے رکھ لیا جاتا۔ اس سلسلے میں بھی انہوں نے کبھی اپنی رائے کو ترجیح نہیں دی۔
’’شب خون کتاب گھر‘‘ سے جب بلراج کومل اور عمیق حنفی کی نظموں کے مجموعے شائع ہوئے تو انہوں نے دونوں کتاب پر مجھ سے مضمون لکھنے کے لیے کہا۔ ان کتابوں کی رسم اجراء لکھنو میں بہت دھوم دھام سے منائی گئی۔ میرے اندر یہ صلاحیت تو نہ تھی کہ میں ان پر مضامین لکھتا لیکن یہ ان کی حوصلہ افزائی تھی جس نے مجھ ہیمچداں سے بھی مضمون لکھوا لیا۔ اسی زمانے میں ’’شب خون‘‘ میں سریندر پرکاش کا افسانہ ’’جپی ژان‘‘ شائع ہوا۔ اس افسانے کو جناب وحید اختر کے تبصرے کے ساتھ شائع کیا گیا۔ بھیا نے مجھ سے کہا کہ تمہیں بھی اس پر تبصرہ لکھنا ہے۔ کہاں وحید اختر اور کہاں میں، لیکن انہوں نے مجھ سے لکھوا ہی لیا۔ ۱۹۷۰میں بہ سلسلہ ملازمت مجھے دلی آنا پڑا اور اس طرح میرا ’’شب خون‘‘ سے رابطہ ٹوٹ گیا۔
ملازمت کے سلسلے میں کئی بار میرا ان کا ساتھ ہوا اور پھر ان کی کہیں اور پوسٹنگ ہونے پر وہ ہم سے دور بھی ہوگئے۔ میں نے انہیں جب بھی دیکھا ہمیشہ مطالعہ میں غرق پایا۔ سفر ہو یا حضر، دوستوں کی محفل ہو یا تنہائی ہو کسی بھی لمحے کتاب ان سے جدا نہیں دیکھی۔ دفتر میں فائلوں کے انبار سے جب ذرا فرصت ملتی، کتاب سامنے آجاتی۔ ایک تو کثرت مطالعہ، اس پر خداداد ذہانت۔ ذہانت کا یہ عالم کہ آج سے پچاس سال پہلے بھی جو کتاب انہوں نے ایک بار پڑھ لی اس کی سطریں اور صفحہ نمبر تک یاد ہیں۔ ایک بار، جس چیز پر بھی انہوں نے نگاہ ڈال لی وہ ان کے حافظے میں محفوظ ہوگئی۔
ویسے تو وہ زیادہ تر خاموش رہتے ہیں لیکن جب ذرا ادبی گفتگو شروع ہو اور سننے والے خوش ذوق ہوں تو بے تکان گھنٹوں بولتے رہیں گے۔ بحث و مباحثہ میں کوئی بھی شخص ان کے آگے ٹھہر نہیں سکا ہے۔ کیونکہ اپنی ذہانت اور حافظے کے بل بوتے پر وہ اتنے زیادہ حوالے دیتے ہیں کہ دوسرا شخص خود ہی ان سے بات کرتے ہوئے گھبراتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے یہ دعوا کبھی نہیں کیا کہ ان کی کہی ہوئی بات حرف آخر ہے لیکن وہ اس طرح دلائل کے ساتھ اپنی بات کہتے ہیں کہ وہ حرف آخر ہی ثابت ہوتی ہے۔ ان کی ایک خاص بات اور ہے کہ اگر کسی کے بارے میں انہوں نے کوئی رائے قائم کرلی ہے تو اس کے منہ پر بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ یا دریغ کے صاف کہہ دیں گے اسی لیے ان سے مرعوب رہنے والوں یا حسد کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور محبت کرنے والوں کی تعداد کم۔ وہ خود ہی کہتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے اس نے مجھے حاسد نہ بنایا محسود بنایا۔
میرے بھیا بچپن سے لے کر آج تک نہایت نفاست پسند رہے ہیں۔ اچھا پہننا اور اچھا کھانا ان کی عادت رہی ہے۔ کھانے کے معاملے میں ان کے انتخاب میں بہت مشکل سے کوئی چیز آتی ہے۔ اچھے سے اچھا کھانا ان کے سامنے آجائے تو بھی اکثر انہیں پسند نہیں آتا۔ بہت کم خوراک اور اس پر سے نازک مزاج۔ ان کا خانساماں پریشان رہتا ہے کہ میں کیا پکاؤں کہ صاحب شوق سے کھالیں۔ صاحب کا یہ عالم کہ نہ اس کی شکل دیکھنا پسند کریں اور نہ اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا۔ چاہے اکیلے ہوں یا کوئی اور ساتھ ہو۔ دسترخوان پر ہر چیز موجود رہنی چاہیے۔ لیکن کھائیں گے کچھ نہیں۔ بہت مشکلوں سے اور کہنے سننے سے ایک دو پھلکے اور چند نوالے چاول کے کھالیے۔ مجھے حیرت ہوتی کہ اگر یہ شخص انسان ہے تو اسے بھوک کیوں نہیں لگتی۔ بھابی کی عدم موجودگی میں بمشکل تمام چوبیس گھنٹے میں ایک وقت بے دلی سے کھانا کھاتے۔ اس زمانے میں پائپ ان کا ہمہ وقت کا ساتھی تھا۔ نفیس چائے کے رسیا، وہ چائے بہت زیادہ پیتے لیکن عام طور پر ٹھنڈی کرکے۔
پابندی وقت کے ساتھ دفتر جانا ان کا روز کا معمول تھا۔ تمام محکمہ میں ان کی انگریزی دانی اور قابلیت کا سکہ رائج تھا لیکن دفتری ماحول انہیں کبھی سازگار نہیں ہوا۔ اور نہ انہوں نے کبھی افسرانہ رعونت یا بے مروتی سے کام لیا۔ اور آج جب کہ یہ تحریر لکھ رہا ہوں ملازمت سے سبکدوش ہونے پر وہ اپنے کو اس طرح آزاد محسوس کر رہے ہیں جیسے پنجرے میں بند کوئی چڑیا ابھی ابھی پنجرے سے آزاد ہوکر کھلی فضا میں سانس لے رہی ہو۔ موسیقی کے رسیا، خصوصاً ہندوستان کی کلاسیکی موسیقی، مغربی مصوری اور فن کے دلدادہ اور اچھے پارکھ ہونے کے ساتھ انہیں جانوروں اور چڑیوں سے بھی حد سے زیادہ محبت ہے۔ وہ کسی بھی جانور کو مرتے یا ذبح ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ الہ آباد کے مکان میں انہوں نے مختلف قسم کی چڑیاں پال رکھی ہیں اور ان کا محبوب کام چڑیوں کو اپنے ہاتھ سے دانا پانی دینا ہے۔ دوچار کتے ان کے یہاں ہمیشہ پلے رہتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ شاہانہ زندگی بسر کی اور لکھنے پڑھنے کے سوا تمام کاموں سے پرہیز کیا۔ بائی پاس سرجری کرانے کے پہلے جب ڈاکٹروں نے ان سے روزانہ پیدل چلنے کو کہا تھا تو گھڑی دیکھ کر وہ مکان کے برآمدے میں دس بیس قدم چل لیتے۔
آپریشن کے بعد انہیں ٹھیک ہونے میں دیر لگی۔ بستر پر لیٹے لیٹے انہوں نے اپنے محبوب فارسی اشعار کا ترجمہ انگریزی میں کرڈالا یہ ترجمہ اب روپا والوں نے چھاپ دیا ہے۔ برف کا ٹھنڈا پانی انہیں حد سے زیادہ پیارا ہے۔ اور کپکپانے والی سردی میں بھی وہ مکمل ایک گھنٹہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کے عادی ہیں۔ دل کی بیماری اور مرض زکام نے ٹھنڈے پانی سے نہانا کوئی دوسال ہوئے چھڑادیا۔ برف کا ٹھنڈا پانی وہ اب بھی پیتے ہیں اگرچہ دل کے مریض کو ایسا پانی مضر ہے۔
بھیا کو کھیلوں سے کبھی اس حدتک دلچسپی نہیں رہی کہ خود کسی کھیل میں حصہ لے سکیں۔ کبھی کبھار کرکٹ کی کمنٹری سن لیتے ہیں۔ یا ٹی وی پر دیکھ لیتے ہیں۔ ہاں وہ تاش کے شوقین حد سے زیادہ ہیں اور اگر محفل جم جائے تو دو دو تین تین دن تک لگاتار کھیل سکتے ہیں۔
اگرچہ درس و تدریس بھیا کا محبوب ترین مشغلہ ہے لیکن تعلیمی اداروں کے ماحول سے انہیں اس قدر بیزاری ہے کہ جب انہیں علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پروفیسر بنانے کی بات آئی اس وقت بھی اور جب سری نگر اور علی گڑھ یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر شپ کے لیے ان کا نام آیا تو انہوں نے ان ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ علی گڑھ کی پروفیسری پر تو وہ شاید چلے بھی جاتے لیکن کسی باعث وہ بیل منڈھے ہی نہ چڑھی۔ لیکن جب اردو کی خدمت کا موقع آیا تو انہوں نے اپنی تنخواہ سے کم مشاہرے پر ترقی اردو بیورو کے ڈائرکٹر کا عہدہ قبول کرلیا۔ کیونکہ یہاں صحیح معنوں میں اردو کی خدمت کرنے کا امکان تھا۔ ان کی اس دور کی کارکردگی کو آج بھی ہر شخص یاد کرتا ہے۔
فاروقی صاحب آج جو کچھ ہیں انہیں بنانے اور سنوارنے میں جمیلہ بھابی جیسی مزاج شناس بیوی کا بہت دخل ہے۔ انہوں نے فاروقی صاحب کو نہ صرف افکار سے آزاد رکھا بلکہ ہر طرح کی ساری پریشانیاں خود اٹھاکر ان کے لیے بازار سے مہنگی مہنگی کتابیں خریدنا، ان کے آرام کا خیال کرنا، اچھے کپڑے، کھانے اور مکان کے شوق کو پورا کرنا، بچیوں کی تعلیم، یہ سب درد سر انہوں نے بخوشی اٹھائے۔ دس دس ہزار روپے کی کتابیں مہینے میں خریدنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں۔ ’’شب خون‘‘ کا سارا خسارہ ہماری بھابی ہی اٹھاتی چلی آرہی ہیں اور کبھی حرف شکایت اپنی زبان پر نہیں لاتی ہیں۔ بھیا ساری رات جاگ کر کام کرتے اور یہ ساری رات انہیں کام کرتے ہوئے دیکھتیں۔
عام طور پر ازدواجی زندگی میں کتابیں کبھی کبھار سوت بھی بن جاتی ہیں۔ جمیلہ بھابی نے یہ سوچا ہوگا کہ فاروقی صاحب شاعر بھی ہیں، مزاجاً بھی اور عملاً بھی۔ کسی زندہ کتاب کو نہ پڑھنے لگیں اسی لیے چھپی ہوئی کتابوں میں متفرق دیکھ کر خوش ہوتیں۔ اگر کبھی کوئی خاتون خصوصاً یورپ یا امریکہ کی ان سے ادب کے موضوع پر بات کرنے کے لیے گھر آجاتی یا ان سے دفتر میں ملتی تو یہ فطری بات تھی کہ جمیلہ بھابی کو خیال ہوتا کہ ایسا آنا جانا کم ہوتو اچھا ہے۔ اسی لیے وہ اس بات سے زیادہ خوش ہوتی تھیں کہ فاروقی صاحب ہر وقت پڑھنے لکھنے میں تنہا ہی مشغول رہیں لیکن ملک اور بیرون ملک سے طالب علم اور اسکالر بھیا کے یہاں کثرت سے آتے ہیں اس میں بھیا کا وقت بھی ضائع ہو تو مجبوری ہے۔
اب جب کہ وہ ملازمت سے سبکدوش ہوکر الہ آباد پہنچ گئے ہیں تو بھابی سب سے زیادہ خوشی محسوس کر رہی ہیں کہ اب اطمینان سے گھر بیٹھنا ہوگا۔ فاروقی صاحب مزاج کے اعتبار سے اتنے صلح پسند ضرور ہیں کہ بھابی کی باتیں وہ اکثر ساری سن لیتے ہیں ان کو یقین ہو یا نہ ہو لیکن ظاہر یہی کرتے ہیں کہ انہیں صد فی صد اتفاق ہے۔ عام انسانوں کی طرح اپنی تعریف سے وہ بھی خوش ہوتے ہیں لیکن یہ جملہ بھی ضرور کہہ دیتے ہیں کہ ’’ارے وہ کیا تعریف کرے گا‘‘ ویسے کئی یونیورسٹیوں میں طالب علموں نے ان پر ریسرچ کرنے کے لیے اپنا نام لکھوایا لیکن انہوں نے ہر جگہ اور ہمیشہ سختی سے اس بات کی ممانعت کی کہ ان پر ریسرچ نہ کی جائے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ان کی ممانعت کے باوجود کچھ پی ایچ ڈی کے طالب علموں نے ان کی تنقید نگاری پر اپنی تھیسس لکھ ڈالی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ بھیا نے ان تحقیقی مقالوں کو دیکھا نہیں ہے ورنہ وہ سخت ناراض ہوتے۔
بھیا نے اپنے ادبی سفر کی ابتدا یوں تو افسانے سے کی لیکن جلد ہی وہ شاعری کی طرف متوجہ ہوگئے اور غزلیں، نظمیں، سانٹ سب کچھ کہنا شروع کردیا۔ یہ ضرور ہے کہ اردو انگریزی میں لمبے لمبے تنقیدی مضمون وہ بی اے کے زمانے سے ہی لکھنے لگے تھے۔ عرصے تک ان کی تنقیدیں شرمندہ طباعت نہ ہوسکیں۔ ان کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں لیکن ’’شب خون‘‘ کے آغاز سے ہی انہوں نے ’’تفہیم غالب‘‘ کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، لاشعوری طور پر ان کی غزلوں پر غالب کا اتنا اثر پڑا کہ اپنے آہنگ صوتیات اور معنی کی پیچیدگی کی وجہ سے اگر ان کی چند غزلیں کلیات غالب میں شامل کرلی جائیں تو عام آدمی کے لیے یہ پہچاننا مشکل ہوگا کہ وہ غالب کی ہیں یا کسی اور کی۔ لوگوں میں غالب کی فہم پیدا کرنے کی کوشش میں بھیا خود لوگوں کی نظروں میں غالب سے زیادہ پیچیدہ شاعر بن گئے۔ یہی معاملہ ان کی نظموں کے ساتھ بھی رہا۔ دور جدید کے شروع میں سب سے زیادہ معتوب شاعر افتخار جالب کی طرح ان کی نظمیں بھی لوگوں کے لیے نافہم ہوتی چلی گئیں۔
تنقید کی طرف بھیا کا رجحان بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی شاعری بھی ان کے لیے ذائقہ بدلنے کی چیز ہوگئی۔ یوں تو ان کی چیزیں، ان کے تنقیدی مضامین وقتاً فوقتاً مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے اور اپنے تبصروں کے ذریعے لوگوں کو خواب طمانیت سے بیدار کرنے کا سلسلہ انہوں نے جو شروع کیا تھا اس سے ان کی علمیت اور ذہانت کی ہیبت لوگوں پر اس قدر بیٹھ گئی کہ شاذونادر ہی کسی کو ان کا جواب دینے کی ہمت پڑتی۔ ان کا سب سے پہلا تنقیدی مضمون جو میں نے اپنے شعور میں پڑھا وہ علی گڑھ کے ’’فکر و نظر‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ خواجہ میر درد اور تصوف کے موضوع پر اس مضمون میں تصوف کے بارے میں جس قطعیت اور وضاحت کے ساتھ انہوں نے معاملات کی تشریح کی ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اور میرا اب بھی یہ خیال ہے کہ اگر صو فیانہ شاعری کے بارے میں کسی کو کچھ جاننا ہے تو وہ اس مضمون کو پڑھ کر مکمل واقفیت حاصل کرسکتا ہے۔ ’’نئے نام‘‘ کے پیش لفظ میں ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ اٹھاکر انہوں نے اردو قاری اور ناقدین کو بالکل نئے مسائل سے دوچار کیا۔ ’’افسانے کی حمایت میں‘‘ میں ان کے مضامین آج بھی موضوع گفتگو ہیں۔ اس کے بعد ان کا تنقیدیی کارنامہ شعریات، شعر کی فہم اور ہماری کلاسیکی روایت کی ازسرنو دریافت سے تعلق رکھتا ہے۔ ’’شعر، غیر شعر اور نثر‘‘ نامی مضمون اور اسی عنوان سے شائع شدہ ان کے مضامین کا مجموعہ ایسے مسائل سے متعلق ہے جن پر اردو تنقید کی دنیا میں پہلی بار فاروقی صاحب نے ہی لکھا۔ اچھے اور برے شعر اور نثر میں جو فرق ہے اس کو بہ دلائل واضح کرنا، کون سا شعر کیوں اچھا ہے، کون سا شعر خراب ہے تو کیوں؟ علامت اور استعارے کی پہچان اور وضاحت کیسے ہو؟ ان تمام مسائل پر بحث فاروقی صاحب سے پہلے اردو میں ناپید تھی۔
بھیا نے اردو تنقید کو صحیح معنی میں نظریاتی بنایا اور تھیوری کی اہمیت کو قائم کیا۔ شروع میں ان کے تنقیدی افکار پر رچرڈس، ایمپسن اور ایلیٹ کااثر رہا۔ امریکی ’’نئی تنقید‘‘ کا طریق کار بھی فاروقی صاحب نے خوب سمجھا اور بڑی خوبی سے اختیار کیا۔ ان کو ہیئت پسند نقاد کہا گیا ہے۔ لیکن ان کا طرز فکر ہیئت پسندی تک محدود نہیں۔ ۱۹۸۰ سے جب انہوں نے میر پر کام کرنا شروع کیا تو ان کا رجحان مشرقی شعریات کی بازیافت کی طرف بڑھا۔ میر کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کلاسیکی ہندوستانی اور عربی و فارسی شعریات کا مطالعہ شروع کیا تو انہیں اس بات کا یقین ہوگیا کہ مشرقی شعریات کی بنیادیں بہت گہری ہیں اور مغربی افکار سے ہمارے لیے نقطہ آغاز سے نقطہ انتہا ہیں۔ بلکہ وہ تو اب کھل کر کہنے لگے ہیں کہ مشرقی شعری نظریات میں بعض باتیں بہت پہلے اٹھائی گئی تھیں۔ اب انگریزی اور فرانسیسی مفکرین ان کا اعادہ کر رہے ہیں۔ انہیں اس بات پر افسوس ہے کہ لوگوں نے انگریزی سے مرعوب ہوکر اپنی شعری روایات کو حقارت سے دیکھا اور اردو غزل کو بالخصوص ہدف ملامت بنایا۔
ان کا خیال ہے کہ حالی اور آزاد اور ان کے بعد امداد امام اثر ا یسے ناقد گزرے ہیں جنہوں نے ہماری کلاسیکی اور شعری روایات کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ وہ حالی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں لیکن حالی کے نظریہ شعر کو بنیادی طور پر غلط قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حالی و آزاد نے ہمارے ادب اور شعری روایات کو نقصان پہنچایا۔ ظاہر سی بات ہے کہ میر کو اس وقت تک سمجھا نہیں جاسکتا جب تک کہ ہم اپنی کلاسیکی شعری روایات سے واقف نہ ہوں۔ اور اسی لیے ’’شعر شور انگیز‘‘ کی تیسری اور چوتھی جلدوں میں انہوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ اردو کی کلاسیکی شعری روایات کی جامع اور مکمل تشریح و توضیح کی ہے۔ یہ کام اردو دنیا کے لیے اچھوتا تو ہے ہی، بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ ان کے علاوہ کوئی اس کام کو کر ہی نہیں سکتا۔
فاروقی صاحب کی تنقیدی بصیرت اور کارنامے کو اگر ا یک جملہ میں بیان کرنا ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ اردو کے پہلے اور اکیلے نقاد ہیں جنہوں نے ہمیں احساس کمتری سے نکال کر اپنے اسلاف کے کارناموں پر فخر کرنا سکھایا ہے۔ انہوں نے انگریزی ادب سے نہ صرف آنکھیں چار کیں بلکہ شعریات کے معاملے میں مغربی نظریات کو مشرق سے مختلف اور بڑی حدتک محدود قرار دیا۔
فاروقی صاحب بوطیقا کے مترجم، عروضی، فن لغت نگاری کے ماہر، شاعر، انگریزی اور فارسی کے مشاق مترجم، بے لاگ تبصرہ نگار، عمدہ مقرر، نقاد اور درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ انگریزی میں بھی ان کے کئی مضامین اور مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ اس مختصر تعارفی مضمون میں ان سب کا احاطہ ممکن نہیں۔ وارث علوی نے صحیح لکھا ہے کہ فاروقی پر لکھنے کے لیے فاروقی کا سا علم درکار ہے اور آج وہ کسی کے پاس نہیں۔ بہرحال میرے لیے تو شمس الرحمن فاروقی، بھیا پہلے ہیں اور سب کچھ بعد میں۔ بیماری، صحت، رنج، خوشی، مصیبت، راحت ہر حال میں وہ میرے اور ہم سب چھوٹوں کے سرپرست اور دل دار رہے ہیں۔ خدا انہیں سلامت رکھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.