Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مثل فوکو اورطاقت کا نظریہ

قمر جمیل

مثل فوکو اورطاقت کا نظریہ

قمر جمیل

MORE BYقمر جمیل

    فوکو کا یہ قول مشہور ہے کہ

    ’’ میں کبھی فرائڈ کا ماننے والا نہیں رہا ،نہ میں کبھی مارکس کا پیروکار رہا ہوںاور نہ میں کبھی ساختیات پسند رہا ہوں۔‘‘

    سارتر کے انتقال کے بعد خود فوکو کو لوگوں نے’’ نیا سارتر‘‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔ سارتر کی موت کے بعد فرانس میں جو نئے مفکر سامنے آئے ان میں لیوی اسٹراس، رولاں بارت، فوکو، لاکاں اور ژاک دریدا بہت مشہور ہیں۔ مثل فوکو نے اپنی توجہ تاریخ کے ان گوشوں کی طرف کی جن پر یورپ کے مفکروں نے توجہ نہیں کی تھی۔

    پاگل پن کے ان تصورات کی طرف جو یورپ میں جدید عہد میں سامنے آئے اور پاگل پن کے بارے میں عمرانی رویوں کی تبدیلیوں پر مثل فوکو نے توجہ کی۔ یہ بھی جاننے اور بتانے کی کوشش کی کہ یورپ میں پاگل پن کے علاج کے سلسلے میں کس طرح اندازِ فکر بدلتا رہا ہے، پاگل پن کے سلسلے میں بھی اندازِ فکر میں کس طرح تبدیلیاں آئی ہیں۔حیاتیات، لسانیات اور معاشیات کے بنیادی تصورات میں کس طرح تبدیلیاں ہوئیں، لیوی اسٹراس،رولاں بارت اور ژاک دریدا کے نام کس طرح سامنے آئے۔فوکو کا یہ قول کہ’’ انسان مر چکا ہے۔‘‘ دراصل۱۹۶۰ء میں اس کی شہرت کا باعث ہوا۔

    پاگل پن کی تاریخ پر اس کا تحقیقی مقالہ شائع ہوا اور اسی موضوع پر اس کی کتاب بھی شائع ہوئی تو۱۹۷۰ء میں وہ فلسفے کے تاریخ نظام فلسفہ کا چیئر مین بھی بنا دیا گیا۔ وہ ساختیات کا ماننے والا نہیں تھا پھر بھی جب اس کی کتاب The Orderof Things شائع ہوئی تو کچھ مبصروں نے اسے ساختیات پسند قرار دیا۔ حالانکہ اس کا خیال تھا کہ اس نے نہ تو ساختیات پسندوں کے نظریات کو قبول کیا تھا اور نہ ساختیاتی طریقہ کار کو اور نہ ساختیاتی اصطلاحوں کو اس کے باوجود The Orderof Things میں اس نے ساختیات کو جدید علوم کا بے چین شعور کہا ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ جدید عہد کی تاریخ لکھنا چاہتا ہے۔

    ’’پاگل پن اور تہذیب‘‘ سے لے کر’’ جنسیات کی تاریخ‘‘ تک اس نے بیس سال تصنیف و تالیف میں لگا دیے۔ ’’جنسیات کی تاریخ‘‘ اس کی موت کے بعد شائع ہوئی۔

    فوکو، نوم چومسکی، ہیبر ماس اورژاک دریدا کم و بیش ہم عمر تھے۔ فوکوکی شہرت نوم چومسکی کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ فوکو اپنے آپ کو جدید عہد کا مورخ کہتا ہے۔

    فوکو پہلا فلسفی ہے جس نے تاریخ اور فلسفے کو ملا کر ایک کر دیا اور اس طرح جدید تہذیب کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی تنقید لکھی۔ پھر اس مسئلے سے بھی بحث کی ہے کہ مغرب میں سماجی طور پر عقلیت یعنی Rationality کا ظہور کس طرح ہوا ، اور یہ کس طرح ثابت ہوا کہ جدید عہد کی روح عقلیت یعنی (Rationality) ہے۔ فوکو نے بتایا کہ جدید فلسفہ اس مسئلے میں بنیادی دلچسپی رکھتا ہے کہ عقل کا ظہور کس طرح معاشرے میں پختگی تک پہنچا۔ یعنی سائنس، ٹیکنالوجی اور سیاسی تنظیم میں عقل کس طرح پختگی تک پہنچی۔ کانٹ کا یہ سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ روشن خیالی سے کیا مراد ہے؟

    فوکو نے بتایا کہ کانٹ کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ کامٹے (Comte)کے زمانے سے اب تک سائنس کی تاریخ کیا ہے؟ جرمنی میں میکس ویبر ( Max Weber) سے ہابر ماس (Habermass) تک سماجی طور پر عقلیت کا مطلب کیا ہے۔ ڈیکارٹ سے ہیگل تک بنیادی سوال یہی رہا ہے کہ کس طرح انسانی فکر کو ماورائی نرگسیت سے نجات دلائی جائے۔

    اقتدار کا راستہ خود فرد کے جسم کی اپنی قوت مہیا کرتی ہے جسموں پر جو قوت حکمراں ہوتی ہے اس کی مخالفت بھی خود خواہش اور ارادے کی قوت کرتی ہے اور یہی قوت اس کے نزدیک سارے انقلابات کا ماخذ ہے۔ فوکو کا خیال ہے کہ انسان کی جنسی جبلتوں کے بارے میں کوئی چیز بنیادی اور حتمی انداز میںنہیں کہی جاسکتی۔

    فرائڈ بچے کی جنسیت کے بارے میں تفصیلی انداز میں بات کرتا ہے لیکن بچے کی جنسیت کا ذکر سب سے پہلے اٹھارویں صدی عیسوی میں کیا گیا تھا چنانچہ بچوں سے استمنا بالید کو ختم کرانے کی بڑی کوششیں کی گئیں لیکن اسکول کے بچوں سے استمنا بالید ختم نہیں ہو سکا بلکہ اس کی شدت اور بھی بڑھ گئی۔ جنسیت پر بحث مباحثے، اس کے تجزیے اور اسے کنٹرول کرنے کی خواہش سے فرد کی اپنی جسم پر قابو پانے کی خواہش اور بڑھ گئی۔ یورپ کا معاشرہ سچ بولنے کی خواہش میں قدیم کیتھولک اعترافات کے زمانے ہی سے گرفتار ہے اور پچھلے تین سو سال میں جنس کے بارے میں گفتگو میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے اور جس پر یہ ساری گفتگو چاہے جنس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اس سے جنس کا خیال یورپ کے ذہنوں پر چھاتا ہی چلا جا رہا ہے۔

    یورپ میں زندگی کے جتنے بھی معانی ہیں ان کا ماخذ جنس ہے اور فوکو کے خیال میں یہی زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ فوکو کہتا ہے کہ اب یورپ کے لوگ جنس کے خواہش مند رہتے ہیں۔ ایک ایسی چیز کی طرح جو حقیقتاً خواہش کے لائق ہے۔ اب انیسویں اور بیسویں صدی میں حیاتیات اورعضویات کی مدد سے جنس کے معاملے میں بھی اصول اور معیار متعین کر لیے گئے ہیں۔

    یورپ کے ماہرین نفسیات نے اور خود یورپ کے معاشرے نے بھی جنسی کج روی کو گناہ کے تصور سے آزاد کر کے اسے ابنارمل یا مریضانہ قرار دے دیا ہے لیکن خود فرائڈ نے اس قسم کی کوئی تقسیم جو نارمل یا ابنارمل کی بنیاد پر کی گئی ہو قبول نہیں کی۔ نارمل انسان کا جو تصور یورپ میں رائج ہے اس کی بجائے فوکو نے مشرق کا وہ انداز فکر جو جنس کو محبت کے آرٹ کا ایک مظہر سمجھتا ہے، زیادہ قابل قبول بتایا ہے اور اسے وہ صرف مسرّت برائے مسّرت کا حصول جانتا ہے۔ اس تصور میں جنسیت بھی محبت کا ایک آرٹ ہے۔ ایک طرح کا کھیل، تخلیقیت اور تصنع سے بھر پور۔

    فوکو کہتا ہے کہ جسم کی طاقت کو لذت کی تلاش کے زاویے سے دیکھنا چاہیے کیوں کہ سیاست کا انحصار معلومات پر نہیں خواہشات پر ہوتا ہے۔ سیاست میں بھی یہی عملی ایکشن جسم ہی سے لیا جاتا ہے۔ مثلاً مظاہروں میں یا طبعی مقابلے میں یعنی Physical Confrontation میں۔ فوکو دراصل فرانس میں جو طالب علموں کا انقلاب۱۹۶۸ء میں آیا تھا اس سے بہت متاثر ہوا تھا۔

    فوکو کہتا ہے کہ انسان کے اندر بہت اشتعال انگیز لمحاتی ردِ عمل اور غیر مسلسل توانائی ہوتی ہے۔

    فوکو کے افکار سے ظاہر ہوتا ہے کہ فو کو نطشے سے بہت متاثر تھا۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ ہر عہد میں اقتدار یا قوت ہی طے کرتی ہے کہ علم کس چیز کو کہتے ہیں۔ فوکو اور دریدا دونوں کا یہ خیال تھا کہ کسی خاص مقصد سے تاریخ کی تعبیر نہیں کی جا سکتی۔

    فوکو سے پہلے میکس و یبر نے بھی سماجی زندگی کی تشکیل میں اقتدار ہی کو بنیادی حیثیت دی تھی۔ فو کو کہتا ہے کہ اقتدار کا تعلق نہ معاشیات سے ہے نہ کسی دباؤ ڈالنے والی قوت سے بلکہ طاقت کا تعلق جنگ سے ہے۔

    ایک جنگ اعلان کے ساتھ ہوتی ہے اور ایک جنگ بغیر کسی اعلان کے ہوتی ہے۔ مختلف سماجی اداروں میں ناانصافیوں کی صورت میں جنگ تو ہوتی ہی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ زبان میں بھی یہ جنگ جاری رہتی ہے۔ یہ جنگ دراصل قوت کے ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ قوت تخلیق بھی کرتی ہے اوردباتی بھی ہے۔

    نطشے نے کہا تھا کہ سچائی کی خواہش در اصل اقتدار حاصل کرنے کی خواہش ہے۔ ہماری ذات بھی طاقت کا ایک ذریعہ ہوتی ہے۔ یہ ذاتی آزادی کا ہتھیار نہیں بلکہ غلبے کی تخلیق ہے۔ Punish Discipline andمیں فوکو اس خیال کا اظہار کرتا ہے کہ طاقت کے اثرات کو منفی انداز میں بیان نہیں کرنا چاہیے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ طاقت پابندی عائد کرتی ہے، طاقت دباتی ہے، چھپاتی ہے، نقاب اوڑھا دیتی ہے وغیرہ۔ کیوں کہ طاقت ہی حقیقت تخلیق کرتی ہے۔ طاقت سچائی کی رسومات تخلیق کرتی ہے۔ طاقت میں دبانے کے علاوہ اور خصوصیتیں بھی ہوتی ہیں۔ طاقت اور بہت سے کام انجام دیتی ہے۔ طاقت لوگوں پر ہوتی ہے چیزوں پر نہیں۔ طاقت ہمارے جسم اور ہمارے کام پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن طاقت صرف آزاد انسانوں ہی پر آزمائی جاسکتی ہے اور وہیں تک استعمال کی جاسکتی ہے جہاں تک انسان آزاد ہوں۔

    RECITATIONS

    ظفر جمیل

    ظفر جمیل,

    ظفر جمیل

    volume01 article05 ظفر جمیل

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے