میرزا فرحت اللہ بیگ
بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں دنیائے ادب نے کروٹ بدلی۔ مغربی ادب ایشیائی زبانوں پراثرانداز ہونے لگا۔ خیالات اور جذبات تبدیل ہوئے۔ نئے نئے رجحانات پیدا ہوئے اور ہمارے ادب کے لیے ترقی کی راہیں کھلنے لگیں۔ مرزا فرحت اللہ بیگ دہلوی کے قلم نے اردو ادب میں مزاح کاصحیح عنصر شامل کیا۔ حق تو یہ ہے کہ اردو زبان اس وقت تک مزاح کی صحیح چاشنی سے ناآشنا تھی۔ زبان کی پرورش کا ماحول ہی کچھ ایسا تھا کہ اس میں مزاح کا عنصر مفقود رہا۔ کیونکہ اس وقت خارجی حالات کی شگفتگی اور انفرادی رجائیت دونوں ناپید تھیں۔ لوگ شاعری کے دلدادہ نہیں پجاری تھے۔ شعر کہنا ایک قابل رشک فن تھا، بے ضرورت پیشہ نہ تھا۔ شاہی درباروں میں شعراء کی بن آئی تھی۔ نواب اور امراء شاعروں کی قدر کرتے اور شعراء ان کی توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملادیتے۔ کبھی کبھار جو ان کی آپس میں ٹھن جاتی تو ایک چلاتا۔ ’’لاتو غنچہ میرا قلمدان، ۔۔۔‘‘ بس پھر کیا تھا۔ ایک قیامت برپا ہوجاتی۔ پھبتیاں کہی جاتیں۔ بے نقط سنائی جاتی اور کچھ اسی طرح کے دل کا غبار ہجویہ شاعری کی صورت اختیار کرجاتا۔ اس میں اگر کوئی مزاح کا عنصر تھا تو اس قدر بھدا تیز اور ناشائستہ کہ چڑچڑاپن سے کچھ ہی ادھر رہ جاتا۔
مغربی ادب کے زیراثر لوگوں کے ادبی مذاق کے ساتھ ساتھ مزاح کادرجہ بھی بلند ہوگیا۔ دو ایک نے وہ وہ موٹی ٹانکے کہ نہ دید نہ شنید، فرحت نئے مغربی مزاح سے بہت حد تک متاثر ہیں۔ لیکن نئی تہذیب انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ پرانی باتیں رہ رہ کر یاد آتی ہیں۔ پرانی محفلوں کے متوالے، مٹتی ہوئی تہذیب کے دلدادہ۔ ان کی خالص دہلوی زبان بے شک ان کے لطیف مزاح کی جان ہے۔ ان کی کہانیوں کاپس منظر پرانے گلی کوچے، پرانے بازار، پرانے مکانات اور دلی کادل اسے آپ چاندنی چوک کہہ لیجیے یا چاوڑی۔
’’میرا اتنا کہنا تھا کہ بپھر گئے۔ ہاتھ پکڑ کر جھٹک دیا۔ ’’آبیٹھ، میں تجھے تیری دلی کی تعریف سناؤں۔ تجھے معلوم بھی ہے کہ دلی کیا تھا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’چاندنی چوک‘‘ کہنے لگے ’’ہت تیرے جھوٹے کی۔ شرماتا کیوں ہے۔ چاوڑی کیوں نہیں کہتا۔‘‘
ان کے کردار یا تو کوئی میر و میرزا ہیں۔ وہی پرانے رنگ ڈھنگ، چوگوشیہ ٹوپی۔ نیچی چولی کا انگرکھا، چوری دار پاجامہ اور پھر وہی سرخ داڑھی نوجوانوں کی مغربیت پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور بار بار کہہ اٹھتے ہیں کہ پہلے وقت نہ رہے۔ ان کے مجموعے میں سب سے پہلا مضمون ’’ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی اور کچھ میری زبانی‘‘ ہے۔ میرزا صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی گھریلو زندگی، عادات، اطوار، طبیعت اور فطرت کا جو نقشہ کھینچا ہے۔ اس میں کتنی مناسبت ہے۔ شوخی تحریر کہے دیتی ہے کہ لکھنے والے نے نذیر احمد کی زندگی کاگہری نظر سے مطالعہ کیا ہے اور اپنے کردار کو خوب سمجھتا ہے۔ اس نے جو لکھا ہے۔ اس کے اپنے دل کی آواز ہے۔ مولانا سلیم پانی پتی نے جو اس مضمون کو پڑھا تڑپ کر رہ گئے۔ اپنے شاگردوں کو بری طرح سے کوسا۔ ’’تم میں سے ایک بھی نہیں جو ہماری زندگی کواس رنگ میں لکھ سکے۔ تف ہے تم پر‘‘ حسن اتفاق سے ایک مشاعرے کے سلسلے میں مولانا اور میرزا صاحب کی ملاقات بلکہ آمنا سامنا ہوگیا۔ مولانا خوب پہچانتے تھے اور میرزا بیچارے بالکل ناواقف۔ کسی تعارف کے بغیر ہی مولانا میرزا سے لپٹ گئے۔ میرزا جھنجھلا ہی تو گئے۔ لیکن مجبور تھے اس قوی ہیکل دیو کی آہنی گرفت کچھ ایسی نہ تھی کہ تڑپنے سے رہائی ہوجاتی۔ قہر درویش بجان درویش چپ سادھ لی اور سوچنے لگے کہ آخر یہ کون صاحب ہیں۔ ادھر مولانا کایہ عالم کہ بو سے پہ بوسہ داغے جارہے ہیں۔
فرحت کے مزاح کی بنیاد واقعیت پر ہے۔ حالات خودبخود ایسے پیدا ہوجاتے ہیں کہ انسان کے دل میں گدگدی سی چٹکیاں لینے لگتی ہے۔ وہ ایک دلچسپ واقعہ کو اس رنگ میں بیان کرتے ہیں کہ ہنسی کے مارے پیٹ میں بل پڑجاتے ہیں۔ پڑھنے والے کے قہقہے اُن کی زبان کی چستی اور طرزبیان کی شگفتگی کا لازمی نتیجہ ہیں۔ اپنی تحریر کے متعلق خود ان کی اپنی رائے ہے۔ ’’نمک مرچ اس لیے لگانے کی ضرورت نہیں ہوئی کہ واقعات چٹ پٹے ہیں۔‘‘ میرزا نے پھبتیاں نہیں کہیں۔ جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا نہیں کیے کہ انسان قہقہے لگائے مرزا کا مزاح سنجیدہ اور عالمانہ ہے۔ واقعات کی قدرتی پیداوار۔
میرزا کی ایک اور خصوصیت تحریر میں تنوع ہے۔ شروع میں ان کے مضامین کاپس منظر، پرانی دلی اورپرانے لوگ، رہا۔ میر و میرزا نئی تہذیب کے پرستاروں کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے۔ ’’ان شہروالوں کو لو، لعنت ہے ان کی شکل پر۔ یہ دہلی والے ہیں، خدا کے لیے سچ کہناکیاان کو کوئی دلی والا کہے گا۔ بال دیکھو تو جھاڑ جھنکار۔ منہ دیکھو تو ہیجڑوں کا سا۔ لباس دیکھو تو سبحان اللہ نیچے قمیض ہے، اوپر کرشٹانوں جیسا چھوٹا کوٹ۔ ٹانگوں میں دو تھیلے چڑھائے گٹ پٹ گٹ پٹ چلے آرہے ہیں۔ لیجیے یہ ہیں آپ کے دلیؔ والے اور تو اور کمبخت عورتوں نے بھی۔ اپنی کچھ عجیب وضع بنالی ہے۔ انگیا کرتی اور ڈھیلے پائجامے تو عذر کے ساتھ گئے۔ چوڑی دار تنگ پائجامے اور کرتے دربار کے ساتھ رخصت ہوگئے۔ اب لباس کیا ہے؟ بس یہ سمجھ لو، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔
آہستہ آہستہ پس منظر تبدیل ہو رہا ہے۔ شاید جس رخ زمانہ پھرے، اسی رخ پھرجاؤ، کے اصول پر عمل کرنے کی غرض سے۔ بہرحال اب تنگ گلی کوچوں کی بجائے صاف اور کشادہ سڑکیں ہیں۔ کردار زیادہ سمجھدار اور زمانہ شناس ہیں۔ کسی قدر انگریزی تمدن سے واقف بھی میرزا کے کردار کچہریوں میں جاتے ہیں۔ وکالت کرتے ہیں۔ مقدمات لڑتے ہیں اور ہمیں پرانی باتیں بھلا دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ ’’نواب صاحب کی ڈائری کے چند پراگندہ صفحات‘‘ میں انہی باتوں کا ذکر ہے۔
منظر بدلتا ہے۔ انگریزی آئی۔ سی۔ ایس کا حسین بنگلہ۔ صاحب بہادر کے بہرے کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ دیکھیے کس شان سے سینے پر ہاتھ مارکر کہہ رہے ہیں۔ ’’کمال ہمارا ہے کہ لیتے ہی نہیں لوٹتے ہیں، آنکھوں میں خاک جھونک کر لوٹتے ہیں۔ ڈنکے کی چوٹ لوٹتے ہیں اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ تڑاتڑ صاب دیتے ہیں کہ صاحب تو صاحب اجی میم صاحب کی بھی سٹی گم ہوجاتی ہے۔‘‘ یہ تو تھی اپنے کمال کی تعریف اب انہیں سے چند راز کی باتیں بھی سن لیجیے فرماتے ہیں،
’’بعض صاحب بہادر اس ڈر سے کہ کہیں خانہ جنگی نہ ہوجائے۔ ہمارے ناز اٹھاتے ہیں اور بعض اس خیال سے کہ کہیں نشہ میں کوئی سرکاری راز منہ سے نہ نکل جائے ہماری مٹھی میں رہتے ہیں اور ہمارا یہ نفع ہے کہ پہلا پیگ خالص پلایا۔ دوسرے میں آدھا پانی ملادیا اور ہوتے ہوتے خالص پانی پر لاڈالا۔ اب آپ بتائیے، رازداری اچھی یا راز کاافسانہ اچھا۔‘‘
دیکھا آپ نے فرحت کی زبان اور مزاح کی کیا عظمت ہے۔ کچھ سال گزرنے کے بعد فرحت میرزا اپنے رنگ میں ایک عجب تبدیلی محسوس کرتے ہیں۔ ان کے خیالات پر مغربی فلسفہ کسی حدتک اثر انداز ہوچکا ہے۔
باایں ہمہ فرحت کے دل میں دلی کی پرانی محفلوں کی یاد پہلے کی طرح تازہ ہے اور کبھی کبھی اس پر مایوسی اور افسردگی کا عالم چھاجاتا ہے۔ غور سے دیکھیے، ان کے ہر مضمون میں کہیں نہ کہیں غم و اندوہ کا عکس پڑرہا ہے۔ لیکن وہ عکس اس قدر دھندلا اور نامعلوم سا ہے کہ ہم بتا نہیں سکتے کہاں ہے اور کہاں نہیں؟ البتہ جب ان کے تیز جذبات روکے سے نہیں رکتے تو تحریر میں ایک حزنیہ پہلو آن موجود ہوتا ہے۔ (امتحان کا دوسرا رخ) میں ہیرو قانون کے امتحان کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کی ناقابل بیان حالت پر رحم بھی آتا ہے اور ہنسی بھی۔ مامتا کی ماری کے بقول وہ نہ دن کو دن سمجھتا ہے اور نہ رات کو رات۔ لگاتار محنت کیے جارہا ہے۔ گھر میں کھانے تک کو نہیں ملتا آخر چھوٹی رضیہ کے گلے کا ایک لچھا اور پاؤں کا پازیب رہن رکھ دی جاتی ہے۔ ننھی منی کو ماں یوں تسلی دیتی ہے کہ ’’بیٹی جب بھائی جان کے پاس ہوجائیں گے تو تجھے بہت سے پیسے اور زیور لاکر دیں گے۔‘‘
رضیہ منہ بسورکر کہتی ہے ’’امی اور اگر بھائی جان پاس نہ ہوئے تو‘‘ ماں اور بیٹے کے دلوں پر ایک دھکا سا لگتا ہے۔ ’’نہ بیٹی ایسی باتیں تو نہیں منہ سے نکالا کرتے۔‘‘
میرزا میں اپچ کا مادہ بدرجہ اتم موجود ہے لیکن بعض دفعہ وہ نئی چیز کی خاطر حقیقت نگاری کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ آخر میں کہیں کہیں ان کی تحریر میں کچھ ناصحانہ اور اصلاحی پہلو بھی شامل ہوگیا لیکن یہ عمرکا تقاضا ہے۔
میرزا صاحب کے انداز اور اسلوب کے متعلق ایک عجیب بات یہ ہے کہ ان کی تحریر آنکھوں کی بجائے کانوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ آپ سن سکتے ہیں۔
یوں کہیے، ایک خوش گفتار انسان رات کے سناٹے میں محفل میں بیٹھا زندگی کے متعلق اپنے اور اوروں کے تاثرات کچھ اس انداز سے بیان کر رہا ہے کہ سننے والے وجد میں آکر بے اختیار داد دے رہے ہیں۔ الفاظ آنکھوں کے سامنے گویا مناظر کی اصلی رنگ میں پیش کیے دیتے ہیں۔
’’واہ میرزا صاحب واہ‘‘
’’لو بھئی میں چلا۔ رات بہت گزر چکی ہے‘‘
لوگ چلائے ’’میرزا صاحب، میرزا صاحب، ٹھہریے ٹھہریے۔‘‘
وہ کہاں سننے لگے۔ یہ جا وہ جا۔ دم بھرمیں آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ محفل سونی پڑی ہے۔ ایک کونے سے میر صاحب نے نعرہ لگایا۔ ’’واہ میرزا کیسے دم دباکر بھاگے۔ چیتے جیسے سبک چال۔ الوجیسی متانت۔ شیر جیسی ہمت۔ نہ ہر کہ موبتراشد قلندری داند۔‘‘
مولانا نے ایک سرد آہ بھری اور اپنی پگڑی سنبھالتے ہوئے نحیف آواز میں بولے۔ ’’اور جو بھائی جان پاس نہ ہوئے تو۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.