Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

محمد احسن فاروقی کے ناولوں میں ہیرو کا تصور

رفیق سندیلوی

محمد احسن فاروقی کے ناولوں میں ہیرو کا تصور

رفیق سندیلوی

MORE BYرفیق سندیلوی

     

     ’’شام اودھ‘‘ اور ’’سنگم‘‘ محمد احسن فاروقی کے نمائندہ ناول ہیں۔ ہیروانہ تصور کی بحث میں بھی یہی ناول کارآمد نظر آتے ہیں۔

    ’’شام اودھ‘‘ کی فضا جس تہذیب سے مرتب ہوتی ہے اس میں رجعت اور جدت کے لہریں صاف طور پر متحرک دکھائی دیتی ہیں اور اس فضا پر تغلب قصرالفضا کے ماحول کا نظر آتا ہے۔ شاید اسی بنا پر جمیل جالبی نے جارج الیٹ کے ناول ’’مڈل مارچ‘‘ کی بستی کی طرح قصر الفضا کو ناول کا ہیرو قرار دیا ہے۔ 1 ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ کی غفران منزل اور ’’امرائو جان ادا‘‘ میں خانم کے بالاخانے کی طرح قصر الفضا کو اپنے مکینوں کے مقدر کا گواہ ہونے کی بنا پر ایک مقام تمثیل، ایک گوشۂ تہذیب یا ایک گوشۂ تاریخ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ ہیرو یا ولن تو ان جگہوں کے مکین ہی ہو سکتے ہیں۔ وقت کے ہیرو ہونے والی بات دوسری ہے۔ یا یوں کہئے کہ کرداری سے زیادہ کیفیتی ہے۔

    احسن فاروقی ایک نظر میں

    پیدائش 22نومبر 1913ء لکھنؤ، برطانوی ہندوستان

    وفات  26فروری 1978ء کوئٹہ، پاکستان

    قلمی نام  ڈاکٹر محمد احسن فاروقی

    پیشہ  مصنف، معلم، نقاد، محقق، ناول نگار

    زبان  اردو، انگریزی، جرمن اور فرانسیسی

    قومیت  پاکستانی

    نسل  مہاجر

    تعلیم  ایم اے (انگریزی) , ایم اے (فلسفہ) ,پی ایچ ڈی

    مادر علمی لکھنؤ یونیورسٹی

    صنف  تنقید، تحقیق، ناول، ترجمہ، افسانہ

    نمایاں کام
    شام اودھ
    تاریخ ادب انگریزی
    سنگ گراں اور سنگم
    اردو ناول کی تنقیدی تاریخ
    (حوالہ: وکی پیڈیا اردو)

    قصر الفضا کے مکینوں میں ہیرو کی سطح پر ایک توحیدر نواب کا کردار متوجہ کرتا ہے جوانجمن آرا کے عشق میں مبتلا ہیں اور دوسرا نواب ذوالفقار علی خاں کاجو اس عشق کی راہ میں حائل ہیں۔ ایک دوسرے سے منفصل و متصل ان کرداروں کو اپنے طبقے کا پیئر ہیرو بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ بربنائے تعلق یہ دونوں کردار اپنے اپنے ظرف کی حدوں میں وضع داری اور محبت کے دام میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اسی باعث تصادم، روایتی ڈرامے کے برعکس واقعیتی سطح پر عروج سے ہمکنار نہیں ہوتا اور تہہ نشیں ہی رہتا ہے لہٰذا حیدر نواب کو شام اودھ میں پیش کئے جانے والے تصادم کا ’’کمزور اداکار‘‘ 2 کہہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ نواب ذوالفقار علی خاں بھی اس تصادم کے مضبوط کردار نہیں ہیں ورنہ وہ اپنی کنیز نوبہار، اپنی پوتی انجمن آرا یا اپنے غیر کفو بھتیجے حیدر نواب کے واسطے سے ہیرو یا ولن کے روپ میں کہانی کے کسی مقام پردوبدو کھڑے نظر آتے۔ واضح رہے کہ خود ناول نگار نے انھیں ’’ایپک کردار‘‘ 3 سے موسوم کیا تھا۔ دراصل بات یہ ہے کہ ان کی انا اور ان کے تمدن نے جو حد ان کے لئے مقرر کر دی تھی، وہاں سے کسی قسم کی پس روی یا پیش روی ان کے اختیار سے باہر تھی لہٰذا باطنی سطح پر قرب اور تنائو کی کیفیت ان کا مقدر بنی رہی۔ کیونکہ انجمن آرا اور حیدر نواب کی قربت کا معاملہ یا کفو یا غیر کفو یا ٹانکہ خاندانی نجابت کے نام نہاد کلیے کی نفی پردال تھا اور اس سے ان کی مرضی کی تنسیخ ہوتی تھی لہٰذا یہ صدمہ انھیں موت کی دہلیز پر لے گیا مگر پیش از مرگ دونوں کی شادی کی عندیہ دے جانا ان کی شکست کو غم انگیز مگر بامعنی بنا دیتا ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کا کہنا ہے کہ ان کے کردار کی تشکیل میں ٹام جونس Tom Jonesکے کردار آل ورتھی Alworthyاور ’’ٹیمپسٹ‘‘ کے بوڑھے کردار پراسپیروProsperoکا رنگ نظر آتا ہے۔ 4 پراسپیرو کی طاقت کا کچھ رنگ تو نواب ذوالفقار علی خاں میں جھلکتا ہے مگر آلورتھی کے بارے میں خود احسن فاروقی کی رائے یہ ہے کہ ان کو اگر المائٹی کا سایہ کہا جائے تو کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ وہ ناول پر ایک پروردگار کی طرح چھائے ہوئے ہیں مگر دلچسپ نہیں ہو پاتے۔ ان کی عظمت کا احساس شدت کے ساتھ نہیں ہوتا۔ وہ سب کچھ ہیں مگر اس واقعاتی دنیا کے آدمی نہیں ہیں۔ 5 غور کریں تو ان کے مقابلے میں نواب ذوالفقار علی خاں کی روایت پرور اور رسم پرستانہ شخصیت اشاراتی سطح پر اپنے عہد اور اپنے طبقے کی واقعاتی دنیا کی باشندگی پر بھی پورا اترتی ہے اور اسی باعث اپنے اعتقاد و نظریہ میں دلچسپ اور عظیم ہونے کا تأثر بھی دے جاتی ہے بلکہ عظیم ہونے کا تأثر تو نواب صاحب کی موت سے اور بھی فزوں ہو جاتا ہے۔ انسان کی عظمت کو گذشتہ زمانے میں ظاہر کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر یوسف سرمست نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اس کردار کی موت حد درجہ یقین آفریں اور قدرتی انداز سے پیش کی گئی ہے۔ 6

    نواب ذوالفقار علی خاں کی شخصیت وضع داری اور محبت کی بندگی میں ڈھلی ہوئی تھی۔ اس بندگی نے انھیں اندر سے ڈھول کی طرح خالی کر دیا تھا۔ خود انھیں اس زوال کا ادراک تھا کہ وہ اپنے متعلقین کو زیادہ دیر تک ایک شیرازے میں باندھ رکھنے کے اہل نہیں رہے۔ نمود اور نام کے جھوٹے تصور نے ان کا خزانہ ختم کر دیا تھا اور وہ ایسے ٹیلے پر کھڑے تھے جس کی ریت ان کے پیروں تلے سے کھسکتی جا رہی تھی۔ تہذیب کا یہ ٹیلہ جب اپنے ہی بوجھ سے زمین برد ہو جاتا ہے تو الم کا ایک احساس گہرا ہو کر سامنے آتا ہے۔ اسی احساس کی بنا پر یہ کہا گیا کہ وہ ایک ٹریجڈی کے ہیرو ہیں اور ابسن کی ٹریجڈیوں کے ہیروئوں کی طرح وہ دنیا کے لئے بے کار ہو جاتے ہیں۔ 7 اس رائے کی تقلید یا حمایت میں یہ تبصرہ بھی کیا گیا کہ اس سے بڑا ٹریجک ہیرو کون ہو گا جو اپنی تہذیبی متاع کو خود لٹتے ہوئے دیکھے۔ 8 بہر کیف نواب صاحب کے مثالی کردار نے اس تہذیب کے وقار، تضاد اور جبر و جمود کی ایک مخلوط اشاریت پائی جاتی ہے جس کے وہ نمائندہ یا ہیرو ہیں۔ بلاشبہ حیدر نواب اس کے آگے ٹک نہیں سکتے مگر ڈاکٹر جمیل جالبی کی یہ بات بالکل درست ہے کہ حیدر نواب کا کردار ترقی پذیر عناصر کا حامل ہے اور حیات و نمو کی ایک علامت بن کر سامنے آتا ہے۔ 9 نواب ذوالفقار علی خاں کی طرح ان کے کردار کے عقب میں بھی نوبہار کی قابو یافتہ شخصیت کی جو تحریک اور توجہ موجود ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ وہ عشق کے پھوہڑ ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں جو اس وقت کے کرم خوردہ معاشرے میں کہیں نہ کہیں رائج بھی تھے اور اگر یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ ان کے فلسفیانہ افکار اور آفاقی خیالات ان کے کردار کے عناصر نہیں بلکہ پیوند ہیں۔ 10 تب بھی ان کے کردار کی وہ ناگزیر حیثیت مجروح نہیں ہوتی جو پرانے دور کے سورج کے ڈھلنے اور نئے دور کی صبح کے قریب ہونے سے وابستہ کی گئی ہے۔ اس حیثیت کا بیج ان کے غیر کفو ہونے ہی میں نظر آ جاتا ہے۔ ناول کے متن سے باور آتا ہے کہ ابھی حیدر نواب روایات کے کنہ سے پوری طرح دست کش ہونے کی بغاوت سے متصف نہیں ہوئے مگر اہم بات یہ ہے کہ ان کا ذہن تہذیبِ نو کے بشریاتی جوہر کو ضرور محسوس کر رہا ہے۔ نواب صاحب کے جنازے میں جوق در جوق آنے والے عزاداروں کو دیکھ کر حیدر نواب کے دل میں یہ خیال قوت پکڑتا جاتا ہے کہ یہ لوگ ایک فرد کو نہیں ایک تہذیب، ایک طرزِ عمل، ایک معاشرت کو رونے آئے ہیں۔ 11 تجزیہ و تفکر کی یہی سمت اس کردار کو نواب صاحب کے متوازی ایک اور طرح کی اشاریت عطا کرتی ہے اور اس بنا پر انھیں ٹوٹتے ہوئے ہالۂ معاشرت کے شاہد و شریک یا ہیرو ہونے کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ گو کہ یہ ہالہ اپنی ترجمانی کے اعتبار سے ہالۂ رومانیت کے زیادہ قریب نظر آتا ہے مگر دونوں صورتوں میں شام اودھ میں ہیرو کا جو تصور ابھرتا ہے وہ ڈاکٹر احسن فاروقی کی شخصیت کے اثباتی رخ سے جڑا ہوا ہے۔

    غیر اثباتی رخ کی نمائندگی ’’رہ و رسم آشنائی‘‘ کے ہیرو پرجا میں نظر آتی ہے۔ یہ رسمی قسم کا ہیرو ہے جو علمیت و ادبیت کے اظہار کے باوجود مجہولیت و نامعقولیت کی سطح پر رہتا ہے۔ ڈاکٹر سہیل بخاری کا خیال ہے کہ اگر یہ بزدل نہیں تو احمق ضرور ہے۔ 12 ابو سعادت خلیلی نے بھی اس ہیرو کے خیالات کی خام کارانہ پخت و پز، بندری حرکات و سکنات اور بلوغت نارسیدہ ذہنیت پر تنقید کی ہے۔ 13 اس طرح ڈاکٹر عبدالسلام نے ’’ماشے اللہ سے ایم اے‘‘ نامی پنج سلسلہ ناول کے ہیرو عارف کو ایسے کرداروں کا ہم پلہ تسلیم نہیں کیا جو ادب میں استعارہ بن جائیں۔ 14 ہیرو جب تک ناول کی وضع کردہ کائنات میں دیگر کرداروں کے تعامل سے استعارے یا علامت میں ڈھل کر انسانی وجود کے نوع بہ نوع پرتوں کو آشکار کرنے نہ لگ جائے‘ ہیرو نہیں کہلا سکتا۔ واقعی عارف ہیرو کی ممکنہ اہلیت پر پورا نہیں اترتا البتہ ’’سنگم‘‘ کا ہیرو مسلم ناول نگار کے اثباتی بلکہ نظریاتی رخ کا نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کی تصدیق ناول کے متن سے بھی ہوتی ہے، خاص کر اس جگہ پر جہاں ڈاکٹر احسن فاروقی نے اسلام کو انسان کی تقدیر قرار دیا ہے اور ان کے مضمون ’’ناول اور عقائد‘‘ کے آخری صفحات سے بھی، جہاں وہ اپنی بابت بتاتے ہیں کہ ایسا ناول وہی شخص لکھ سکتا ہے جو قرآن کے حکم اور اشاروں پر پورا عامل رہا ہو اور تخیلی قوت کے ساتھ تاریخ کے علم اور مؤرخ کی غیر جانبداری کو متوازن انداز میں برت سکتا ہو۔ 15 اس اندازِ خود گمانی سے قطع نظر صاف نظر آتا ہے کہ سنگم کے منصۂ شہود پر آنے سے پیشتر انھوں نے ’’آگ کا دریا‘‘ کے جواب میں اپنے اس ناول کا معنوی خاکہ ذہن میں وضع کر لیا تھا۔ ہیروانہ تصور کی جستجو میں اگر اس خاکے سے رجوع کیا جائے تو مسلم کو یہاں کے مسلمانوں کے روحانی سفر یا عقائد کی تاریخ کے ایک ترجمان کی حیثیت ہی سے دیکھنا پڑے گا جسے محمود غزنوی سے لے کر تقسیمِ برصغیر تک آٹھ نو صدیوں کے دوران ہندو مسلم تعلقات کی عہد بہ عہد بدلتی ہوئی مخلوط و منفصل فضا میں ایک لافانی کردار کے طور پر شریک رہنے اور ایک پوری قوم کی حرکت اور قسمت کا علامتی مظہر بننے کے لئے تخلیق کیا گیا۔ البتہ یہ کردار اپنے مقصودہ فریم ورک کے مطابق تعمیر ہوا یا محدود و متجاوز ہو گیا، اس پر تنقید ہو سکتی ہے۔ ایک زاویۂ نظر‘ یہ بھی ہے کہ مسلم ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت سے پیدا شدہ خصوصی حالات کا عکس ہے۔ 16

    ناول میں بتایا گیا ہے کہ آغاز میں سنگم کے ہیرو کا نام ابنِ مسلم تھا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے بقول یہ نام اس لئے رکھا گیا تا کہ مسلاصنوں کی عربی و اسلامی تہذیب کا اشارہ واضح ہو سکے۔ 17 مسلم محمود غزنوی کے ایک لشکری کے طور پر ہندوستان میں وارد ہوتا ہے اور گنگا جمنا کے سنگم پر ایک مندر میں اوما پاربتی کی مورتی دیکھ کر متحیر و مسحور ہو جاتا ہے۔ مورتی پتھر سے نکل آتی ہے اور مسلم کے ساتھ رشتۂ زوجیت میں بندھ جاتی ہے۔ گویا دو تہذیبوں میں اتحاد و امتزاج پیدا ہو جاتا ہے۔ رام اور رحیم ایک ہو جاتے ہیں، اللہ پر پرم آتما مرکوز ہونے لگتا ہے۔ سخت کوشی‘ عیش پرستی کی تہوں میں دب جاتی ہے۔ عقیدہ، دنیاداری اور ملک گیری کی ہوس میں گم ہو جاتا ہے اور مسلم ہندو تہذیب کے بھنور میں ایسا الجھتا ہے کہ نوبت توحید و رسالت کے انکار کی آ جاتی ہے۔ اس طویل اور گنجلک دور میں مسلم عاشق، جنگجو، عالم، فاتح، صوفی، فنکار، بھگت، بیراگی اور مصلح کے ملے جلے اندازو اطوار میں اپنے ماحول اور اپنے اعمال و افکار کی سیاہ و سفید سطحوں کے ساتھ برصغیر کی اسلامی ہندی تہذیب کے اثر و نفوذ اور اُتھل پُتھل کا نشان نظرآتا ہے۔ بالآخر وہی مندر جہاں اوما پاربتی اس کے دل کے سنگھاسن پر براجمان ہوئی تھی، اسے وہ خود اپنے ہاتھوں سے منہدم کر دیتا ہے۔ پھر جب مسلمان عروج سے زوال کی طرف آتے ہیں تو ایسے اسباب بنتے ہیں کہ دو قومی نظریہ غالب ہو جاتا ہے اور مسلم اور اوما پاربتی یعنی دو قوموں کا وقتی اور عارضی ملاپ علیحدگی پر منتج ہوتا ہے اور تہذیب کے صحن میں تقسیم کی دیوار نمودارہو اٹھتی ہے۔ اوما پاربتی اپنی مورتی میں لوٹ جاتی ہے اور مسلمانوں کو ذبح کر کر کے اکتائے ہوئے ہندو پجاری مسلم کے ہاتھ پائوں باندھ کر اسے ڈوبنے کے لئے گنگا میں چھوڑ دیتے ہیں اور وہ بہتے ہوئے پاکستان آ جاتا ہے۔ یہاں ناول نگار نے دکھایا ہے کہ وہ سمندر کے کنارے محوخرام ہے اور اس کا ذہن مشرق و مغرب کی تخلیقی آوازوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ اس منظر کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی کا کہنا ہے کہ معمولی سپاہی سے ترقی کرتا ہوا ابنِ مسلم آخر میں دنیا کی تمام تہذیبوں کا مجسمہ نظر آتا ہے۔ 18 تاریخی، مذہبی اور سیاسی تناظر میں مسلم کو ارتقائے فہم کا جو تجربہ ہوتا ہے وہ ہندوستان سے اس کے خروج کی توجیہ کو بھی سامنے لاتا ہے اور اس کے سارے سفر کو ایک مبصرانہ سمت بھی دے دیتا ہے مگر اس سمت میں یوٹوپیا کی بو واضح طور پر محسوس ہوتی ہے۔ ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی لکھتے ہیں،

    ’’ابنِ مسلم سنگم کے قریب باغات کو ہی جنت سمجھ لیتا ہے۔ یعنی وہ ایک جنت عرشی کو بھول کر جنت ارضی میں محو ہو جاتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا یہی مقصد رہا مگر پاکستان بنانے کے بعد مصائب سے ہمکنار ہو کر اس کا ذہن پھر خالص اسلام کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور یہ بات سمجھ لیتا ہے کہ وہ Patriot To Heavenکی بجائے Patriot To Womanتھا اور ناول اس بات پر ختم ہو جاتا ہے کہ وہ Patriot To Heavenہی رہے گا۔ اس طرح مسلم قوم کی ہندوستان میں تمام کارگزاریاں ایک بنیادی نقطہ پر آ جاتی ہیں اور اس کی وہ غلط فہمی دور ہو جاتی ہے جو اس کے زوال کا سبب بنی یعنی جنت ارضی کو جنت عرشی سمجھنا۔‘‘ 19

    جنت ارضی اور جنت عرشی یا عورت اور خدا کے بیچ مسلم وفاداری کی جس کشاکش سے گزرتا ہے اور صحیح و غلط کا ادراک حاصل کرتا ہے، اسی نکتے میں اس کی ہیروانہ جہت آشکار ہو جاتی ہے۔ مگر اس منزل تفہیم پر یہ بات بھی محسوس ہوتی ہے کہ مسلم کو تہذیبی مقدر کی کرشمہ کاریوں پر مبنی وہ معروضی و موضوعی گہرائی مہیا نہیں کی گئی جو اس کے ذہن و وجود کو اپنے زمانی دورانیے میں مطلوب تھی۔ یہاں ’’آگ کا دریا‘‘ کا کردار کمال از خودمسلم کے بالمقابل آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ احسن فاروقی نے تومسلم کا کردار گوتم کے مقابلے میں تخلیق کیا تھا لیکن مسلمان کردار ہونے کے ناطے کمال اور مسلم کو ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو رکھ کر دیکھیں تو کمال کی کشمکش زیادہ سوال انگیز دکھائی دیتی ہے بلکہ مسلم کے ذہن کی مکالمانہ سطح کو بھی عیاں کر دیتی ہے۔ ان کرداروں کے ذہنوں کا موازنہ کیا جائے تو اشتراک و افتراق کے ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جنھیں سیاست اور ثقافت کی حکمت عملیوں اور فکر راسخہ کی مجبوریوں سے غیر مشروط کر کے دیکھا ہی نہیں جا سکتا۔ سوال اٹھتا ہے کہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب میں کمال جیسے لبرل اور نیشنل سوچ رکھنے والے مسلمان کے لئے کیوں جگہ نہ بن سکی اور اسے مجبوراً پاکستان کیوں آنا پڑا؟ کیااس لئے کہ ملک، انسان، نظریے، روحیں، ایمان، ضمیر، ہر شے تلواروں سے کاٹ کر تقسیم کردی گئی تھی اور شر کے طلسم سے دارلسلام کو دارلحرب بنا دیا گیا تھا؟ اس کا مسئلہ روحانی تھا یا اقتصادی؟ فی الوقت بات مسلم کی ہو رہی ہے تو یہاں خود اس کے ادراک کے صحیح و غلط ہونے کا سوال بھی اٹھتا ہے۔ مسلم کی نظر میں تقسیم کا عمل تہذیبی اشتراک و اتحاد کے لئے ایک اختتامی لکیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ خود احسن فاروقی اس عمل کو ’’ایک پوری قوم کی حرکت‘‘ اور ’’خدا کی مرضی‘‘ 20 کا نام دیتے تھے۔ اس معاملے میں وہ ویکو کے ہمنوا تھے جو تاریخی عمل کے عقب میں کسی نہ کسی الوہی سانچے کی موجودگی میں یقین رکھتا تھا۔ تاہم یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ناول میں ایک مقام 21 پرانہوں نے مسلم کی زبانی تقسیم کے عمل کو مذہبی روایت کے لحاظ سے غلط بھی مانا ہے اور اسے ہندو مسلم رہنمائوں کی دکاندارانہ سیاست پر محمول کیا ہے۔ ذہنی اعتبار سے لیگی ہو کر بھی دو قومی نظریے کا ظہور اگر مسلم کو کرب میں مبتلا کرتا ہے تو یہ مشترکہ تہذیب کے ساتھ اس کے طویل تر تعلق کا ایک جذباتی ثبوت ہے مگر ناول نگار کے نزدیک اصل چیز وہ آگہی اور آزادی ہے جو مسلم کو پاکستان کی زمین پر قدم رکھنے کے بعد عطا ہوئی جس کی بنا پر تقسیم کا تاریخی عمل اس کے لئے قابلِ قبول بن جاتا ہے۔ کمال کے لئے تقسیم کا عمل قابلِ قبول کیوں نہیں تھا؟ بطور ایک ملک کے پاکستان کی نفی قرۃ العین حیدر نے بھی نہیں کی تھی۔ وہ اس امر سے آگاہ تھیں کہ رومانیت اور عینیت انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیامیں کسی نئے خیال پر عمل نہ کیا جاتا اور نہ خواب دیکھے جاتے۔ مسلم سیاست میں وطنِ نو کا تصورایک ایسے ہی خواب کے مترادف تھا۔ قرۃکا اختلاف اس نظریے سے تھا جو خلط مذہب یا خرابیٔ ایمان کے تصور کی آڑ میں تہذیبی سنگم کی تردید پر مبنی تھا۔ برصغیر کی تاریخ کے سفر میں پاکستان کے بعد بنگلہ دیش کا قیام قومیت کے نظریے میں محض مذہب کے حاوی مسبب ہونے پر سوالیہ نشان لگاتا ہے اور پاور اور کلچر کی اس سٹریٹجیکل جہت کو سامنے لاتا ہے جو جغرافیہ کی سطح پر نئی بستیاں تشکیل دیتی ہے۔ اس جہت میں تہذیب اور مذہب کا اساسی فرق، انسانی تفاعل، ذہنی کشاکش، اکثریت و اقلیت کے تنازعات، فرقہ واریت، جغرافیائی حدوں کو پھلانگتی ہوئی وفاداریاں، سامراجی دبائواور سیاسی و اقتصادی اثرات بہت کچھ شامل ہو سکتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودگی اور مستقبل میں ان کی حیثیت و قسمت اس جہت سے بھی جڑی ہوئی ہے اور مشترکہ تہذیب کی اس پراسرار لہر سے بھی جو ہندوستانی تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے۔ مسلم کی کرداری تشکیل میں ان سوالوں سے نبردآزما ہونے کی کوشش نہیں کی گئی۔ پروفیسر ریاض صدیقی کا یہ بیان قابلِ غورہے،

    سنگم میں تاریخ کی شروعات ایک مسلمان کردار سے ہوتی ہے جو دراصل محمود غزنوی کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ کردار ’’آگ کا دریا‘‘ کی طرح ہر دور میں پیدا ہوتا ہے۔ کردار، مکالموں اور منظر کی وساطت سے ناول نگار نے اس دور کے جاگیردار حکمرانوں کے نکتۂ نظر کو اپنی دانست میں سند عطا کی ہے اور یہ ثابت کرنے پر سارا زور لگا دیا ہے کہ ہندوستان آنے اور بس جانے کے باوجود مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان کوئی تہذیبی سنگم نہیں بنا اور انھوں نے اپنی جداگانہ قومیت کی پہچان کا دفاع کیا۔ اس طرح مسلمانوں کی تاریخ ایک سمت کی طرف مڑتی چلی گئی جس کا انجام برصغیر کی تقسیم تھا۔ اس بیانیہ میں انھوں نے برصغیر پر قبضہ کرنے والے انگریزوں کے سیاسی و اقتصادی کردار کو حوالہ نہیں بنایا بلکہ اپنے اس نکتۂ نظر کے حوالے سے وہ بڑی حد تک پاکستان میں از سرِ نو بنائی جانے والی جماعتِ اسلامی سے بہت قریب ہے جو ۱۹۴۷ء تک قائد اعظم، مسلم لیگ اور نظریۂ پاکستان کی سخت مخالف رہی تھی۔ ان کا یہ دعویٰ کہ ’’اسلام ختم نہیں ہو سکتا، وہ انسان کی قسمت ہے، انسان اس کی طرف آ کے رہے گا‘‘ یقیناً ایک آفاقی حقیقت ہے۔ بشرطیکہ اس جملے میں لفظ انسان کی جگہ مسلمان کو وہ لاتے۔ مگر اس سے وہ جو مراد لیتے ہیں، کس منطق کی رو سے مانا جائے کیونکہ کوئی ایک مسلمان ملک اسلام کا اجارہ دار نہیں ہے۔ مشرق کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک مسلمان پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا میں عیسائیوں کی کل آبادی کے بعد آبادی کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کل آبادی پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا سے زیادہ ہے۔ وہ اب تک پکے اور سخت قسم کے مسلمان ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے انھوں نے بڑے حوصلے اور بڑی کامیابی کے ساتھ اپنی پہچان کو منوایا ہے اور اب وہ ہندوستان کی اقتصادی اور سیاسی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔ 22

    اس بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ارمان نجمی نے کہا تھا کہ اگر ہندوستانی مسلمان سخت ہوتے تو بابری مسجد کی شہادت کے بعد جانی ومالی نقصان نہ اٹھاتے۔ سچ تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد انھیں دن بدن پس ماندگی کے غار میں دھکیلا جارہا ہے۔ 23 اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ ہندوستان میں سیاسی اور اقتصادی مضمرات کے ساتھ تہذیبی سنگم کا معاملہ ایک قضیے کے طور پر اب بھی موجود ہے اور اردو فکشن کا بہت بڑا موضوع ہے۔ خاص طور پر قرۃالعین حیدر اس سے تاریخی اور ثقافتی سوز و ساز کے ساتھ متصادم رہی ہیں۔ ’’آگ کا دریا‘‘ اور ان کے دیگر ناولوں کے مقابلے میں ’’سنگم‘‘ اگر بازار سے غائب ہے اور نہیں پڑھا جا رہا تو اس کی وجہ اسی سوز و ساز کی کمی ہے۔ متذکرہ قضیے کے ساتھ اس کی نظریاتی یا سیاسی نسبت سے تو آج بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح مسلم کے حوالے سے احسن فاروقی پر اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ وہ مسلمان کو انسان کے مساوی قرار دے رہے ہیں، اسی طرح ’’آگ کا دریا‘‘ کے کردارکمال کے حوالے سے قرۃ العین حیدر پر الزام عائد کیا جا چکا ہے کہ ان کے نزدیک انسان ہونا اور مسلمان ہونا ایک دوسرے کے مترادف نہیں ہے۔ 24 دراصل ’’سنگم‘‘ کے ہیرو کا قضیہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد، عروج و زوال اور آمیزش و آویزش کے سفر، تقسیم کے اسباب و علل اور قیامِ پاکستان کے اثبات سے گزر کر پاکستان ہی کے حوالے سے مسلمان اور اسلام کے رشتے کی بحالی کے خواب پر منتج ہوتا ہے۔ یقینا مسلم کے ذہنی سفر کو تمام خطوں کے مسلمانوں پر منطبق نہیں کیا جا سکتا۔ میرا خیال ہے کہ احسن فاروقی نے اسلام کی اصطلاح کو عمومی معنوں میں استعمال کیا ہے جس کا مآخذ یہ فقرہ ہے کہ اسلام تمام انسانیت کا مذہب ہے، ورنہ ناول کا تاریخی و تہذیبی کینوس جس مذہبیت اور مقامیت سے منسلک ہے، اس تناظر میں خود اسلام کی اصطلاح بھی کسی نہ کسی سابقے کی محتاج نظر آتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ احسن فاروقی نے مسلم کی زبانی انسان کی جگہ مسلمان کہنے میں وہی جھجک اور دشواری محسوس کی ہو جو کمال نے پٹنہ کے گھاٹ پر ایک جوگی کے سامنے بطورِ انسان اپنا تعارف کراتے ہوئے محسوس کی تھی اور بار بار خود سے استفسار کیا تھا کہ اگر وہ مندروں میں سجی ہوئی مورتیوں (یا مقامی عورتوں ) کو گوارا کرتا ہے تو کیا وہ مسلمان نہیں رہتا۔ خدایا عورت کی تلاش میں سے کسی ایک یا بیک وقت دونوں کی کشش اور دوری کا قضیہ کمال کو بھی درپیش تھا جس کا تصفیہ وہ مذہب، زمین اور انسان کے رشتے کی وسعت میں چاہتا تھا مگر ایک ذہین کردار کے طور پر اس کا واسطہ تہذیبی سنگم یا زمین کی مرئی حقیقتوں سے پڑتا ہے تو عقائد کی سطح پر محکمات و متشابہات کی جدلیات اسے گومگو کی کیفیت میں ڈال دیتی ہے۔ برعکس اس کے مسلم نے اس قضیے کو بالآخر مذہب کے مقلد کے طور پر حل کیا اور خدا سے وفادار رہنے کے عہد کی تجدید کر کے اپنا قبلہ تو درست کر لیا مگر تاریخ کو حاضر سے آگے اس کے غائب میں دیکھنے کا ملکہ اسے نصیب نہ ہو سکا۔

     

    حوالہ جات
    ۱۔ بحوالہ جمیل جالبی۔ ’’شام اودھ ایک مطالعہ‘‘ ۔ نئی تنقید۔ مرتبہ خاور جمیل۔ رائل بک کمپنی، صدر کراچی ۳۔ ۱۹۸۵ء۔ ص۱۵۶، ۱۵۷
    ۲۔ بحوالہ ڈاکٹر عبدالسلام۔ ’’ڈاکٹر احسن فاروقی اور ڈرامائی ناول‘‘ اردو ناول بیسویں صدی میں۔ اردو اکیڈمی سندھ، کراچی۔ اکتوبر۱۹۷۳ئ۔ ص ۵۳۱
    ۳۔ بحوالہ ڈاکٹر احسن فاروقی۔ ’’مقدمہ ناول نگاری‘‘ ادبی تخلیق اور ناول۔ مکتبہ اسلوب کراچی ۱۸۔ ۱۹۶۳ء۔ ص ۴۴
    ۴۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خان۔ شام اودھ کا ایک کردار۔ نواب ذوالفقار علی خان۔ قومی زبان کراچی۔ جولائی ۱۹۹۸ء۔ ص ۶۲
    ۵۔ بحوالہ ڈاکٹر احسن فاروقی۔ ’’ٹام جونز اور فیلڈنگ‘‘ ادبی تخلیق اور ناول۔ ص۳۰۰
    ۶۔ ڈاکٹر یوسف سرمست۔ ’’احسن فاروقی کا ناول شام اودھ‘‘ بیسویں صدی میں اردو ناول۔ ترقیٔ اردو بیورو، نئی دہلی۔ سن اشاعت: جنوری تا مارچ ۱۹۹۵ء۔ ص ۵۰۷، ۵۱۵
    ۷۔ ڈاکٹر جمیل جالبی۔ ’’شام اودھ ایک مطالعہ‘‘ نئی تنقید۔ مرتبہ خاور جمیل۔ رائل بک کمپنی، صدر کراچی ۳۔ ص ۱۶۳
    ۸۔ ممتاز احمد خان۔ ’’شام اودھ۔ ایک تازہ جائزہ‘‘ اردو ناول کے بدلتے تناظر۔ ویلکم بک پورٹ (پرائیویٹ) لمیٹڈ، مین اردو بازار کراچی۔ ۱۹۹۳ئ۔ ص ۴۶
    ۹۔ بحوالہ جمیل جالبی۔ ’’احسن فاروقی کے دو ناول‘‘ ادب، کلچر اور مسائل۔ مرتبہ خاور جمیل۔ رائل بک کمپنی، صدر کراچی ۳۔ ۱۹۸۶ء ص ۱۸۹، ۱۹۰
    ۱۰۔ بحوالہ احسن فاروقی۔ ’’مقدمہ ناول نگاری‘‘ ادبی تخلیق اور ناول۔ مکتبہ اسلوب کراچی ۱۸۔ ۱۹۵۳ء، ص ۴۵، بحوالہ عبدالسلام۔ ’’ڈاکٹر احسن فاروقی اور ڈرامائی ناول‘‘ اردو ناول بیسویں صدی میں۔ اردو اکیڈمی سندھ، کراچی۔ ۱۹۷۳ء۔ ص ۵۳۲
    ۱۱۔ ڈاکٹر احسن فاروقی۔ ’’شام اودھ‘‘ اردو اکیڈمی سندھ، کراچی۔ ۱۹۸۵ء ۔ ص۴۱۰
    ۱۲۔ سہیل بخاری۔ ’’اردو ناول کا دوسرا دور‘‘ اردو ناول نگاری۔ مکتبہ جدید، لاہور۔ بار اول۔ ۱۹۶۰۔ ص ۲۶۰
    ۱۳۔ ابو سعادت خلیلی۔ ناول نگار احسن فاروقی (تہذیبی تخلیق یا رومانی مصنف)، ادب لطیف، لاہور۔ شمارہ ۹۔ ستمبر۱۹۹۸ء۔ ص ۳۴، ۳۵، ۳۷
    ۱۴۔ بحوالہ عبدالسلام۔ ’’ڈاکٹر احسن فاروقی اور ڈرامائی ناول‘‘ اردو ناول بیسویں صدی میں۔ اردو اکیڈمی، کراچی۔ ۱۹۷۳ء۔ ص ۵۱۷
    ۱۵۔ بحوالہ ڈاکٹر احسن فاروقی۔ ’’عقائد اور ناول‘‘ ادبی تخلیق اور ناول۔ مکتبہ اسلوب کراچی نمبر ۱۸، ۱۹۶۳ء۔ ص ۱۰۷
    ۱۶۔ ممتاز احمد خان۔ ’’سنگم۔ ایک جائزہ‘‘ اردو ناول کے بدلتے تناظر۔ ویلکم بک پورٹ (پرائیویٹ) لمیٹڈ، مین اردو بازار، کراچی۔ جولائی۱۹۹۳ء۔ ص ۴۹
    ۱۷۔ بحوالہ ڈاکٹر عبدالسلام۔ ’’ڈاکٹر احسن فاروقی اور ڈرامائی ناول‘‘ اردو ناول بیسویں صدی میں۔ اردو اکیڈمی سندھ، کراچی۔ بار اول۔ اکتوبر۱۹۷۳ء۔ ص ۵۲۲
    ۱۸۔ ڈاکٹر جمیل جالبی۔ ’’احسن فاروقی کے دو ناول‘‘ ادب، کلچر اور مسائل۔ مرتبہ خاور جمیل۔ رائل بک کمپنی صدر، کراچی نمبر۳۔ ۱۹۸۶ء۔ ص ۱۹۴
    ۱۹۔ حسرت کاسگنجوی۔ ’’شعور کی رو، آگ کا دریا اور سنگم‘‘ قراۃ العین خصوصی مطالعہ۔ مرتبین: سید عامر سہیل، شوکت نعیم قادری، ڈاکٹر نعمت الحق، ڈاکٹر علی اطہر۔ بیکن بکس، قذافی مارکیٹ اردو بازار، لاہور/گلگشت ملتان۔ ۲۰۰۳ء۔ ص ۳۱۱
    ۲۰۔ بحوالہ احسن فاروقی۔ ’’ناول اور عقائد‘‘ ادبی تخلیق اور ناول۔ مکتبہ اسلوب کراچی نمر ۱۸۔ ۱۹۶۳ء۔ ص ۱۰۷
    ۲۱۔ بحوالہ احسن فاروقی۔ سنگم۔ لبنیٰ پبلیکیشنز، کراچی۔ بار دوم، جولائی ۱۹۷۱ء۔ ص ۲۲۷
    ۲۲۔ پروفیسر ریاض صدیقی۔ ’’ماضی کے چند ناولوں کا آڈٹ‘‘ تسطیر، لاہور۔ شمارہ ۹، ۱۰۔ جولائی، اگست ۱۹۹۹ء۔ ص ۲۳۱
    ۲۳۔ ارمان نجمی۔۔۔ ’’ماضی کے چند ناولوں کا آڈٹ‘‘ (رد عمل بر مضمون از پروفیسر ریاض صدیقی) تسطیر، لاہور۔ شمارہ ۱۳، ۱۴۔ اپریل تا ستمبر اگست ۲۰۰۰ء۔ ص ۲۸، ۲۹
    ۲۴۔ بحوالہ محمود فاروقی۔ قراۃ العین حیدر کے دو کردار۔ سیارہ، لاہور۔ ستمبر، اکتوبر۱۹۸۶ء۔ ص ۶۱

           

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے