Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

محمد اسد اللہ کی انشائیہ نگاری

ایس معشوق احمد

محمد اسد اللہ کی انشائیہ نگاری

ایس معشوق احمد

MORE BYایس معشوق احمد

    صنف انشائیہ سے مجھے ویسا ہی عشق ہے جیسا اکیس سال کے جوان کو اپنی خوب رو محبوبہ سے ہوتا ہے۔اس عشق میں مجنون اور فرہاد جیسی شدت آئی جب مجھے محمد اسد اللہ کے انشائیوں کو پڑھنے کا اتفاق ہوا۔انہوں نے ہوا کے دوش پر جو انشائیے قارئین تک پہنچائے انہیں ہوائیاں کا نام دیا ہے۔ یہ انشائیوں کا مجموعہ 1998 ء میں چھپا ہے۔اس میں کل سولہ انشائیے شامل ہیں۔ یہ مجموعہ چھبیس سال قبل شائع ہوا ہے لیکن اس میں شامل انشائیوں کی تازگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اپنے شگفتہ اسلوب کی بدولت آج بھی یہ انشائیے قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی بھرپور قوت رکھتے ہیں۔ان انشائیوں کے مطالعہ سے قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سردی میں الاؤ کے گرد بیٹھا اپنے دوستوں سے بے تکلف باتیں کررہا ہے یا گرمی میں پنکھے کے نیچے بیٹھا شربت پی رہا ہے اور دوستوں سے گپے مارہا ہے۔ ایک کامیاب انشائیہ نگار شگفتہ انداز میں ایسی باتیں کہہ جاتا ہے کہ قاری پڑھ کر عش عش کرتا ہے اور یہ بات اسے حیران کرتی ہے کہ اگرچہ میرے مشاہدے میں روز یہ واقعات آتے ہیں میں اس زاویے سے ان کو کیوں نہیں دیکھتا ہوں۔ انشائیہ نگار کا اشیاء کو دیکھنے اور پرکھنے کا زاویہ الگ ہوتا ہے۔ وزیر آغا محمد اسد اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

    محمد اسد اللہ اشیاء کو حیرت آمیز مسرت کے ساتھ دیکھنے اور ان کی ماہیت کو سطح پر لانے کا ڈھنگ جانتا ہے اسی لئے وہ انشائیہ نگاری کے میدان میں کامیاب ہے۔

    جس انشائیہ نگار کی کامیابی کی ضمانت وزیر آغا جیسا دیدہ ور اور بلند قامت ناقد دے اس کی صلاحیتوں پر کون مورکھ شک کرسکتا ہے۔

    ناقدین نے ہمیں ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کے نعرے سمجھائے لیکن محمد اسد اللہ نے ادب برائے ریڈیو کا نہ صرف نیا نعرہ دیا بلکہ ادب اور ریڈیو کے رشتے کو انشائیہ کی صورت میں ہمارے سامنے لایا، ریڈیو نے ادیبوں کی جو خدمت کی اس سے پردہ ہٹایا اور یہ تک لکھا ہے کہ

    یوں تو ریڈیو گیت اور خبریں سننے کا ایک ذریعہ ہے لیکن اس سے ادبی پروگرام بھی گاہے بگاہے نشر کئے جاتے ہیں ۔ہمیں یقین ہے کہ اگر اس کے موجد کو اس بات کا اندازہ ہوتا تو وہ ہرگز ریڈیو ایجاد کرنے کی جرات نہ کرتا۔

    ادب برائے ریڈیو نامی انشائیے میں انہوں نے اس ادب کے متعلق گفتگو کی ہے جو ریڈیو پر پیش کیا جاتا ہے۔اس کی افادیت بھی بیان کی ہے اور اس کی خرابی پر بھی لکھا ہے ۔اس کی خرابی کے متعلق لکھتے ہیں کہ

    اس ادب کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ بجلی سے چلتا ہے اسی لئے برق رفتار واقع ہوا ہے۔ہوا کے دوش پر آتا ہے اور اسی تیزی سے ہوا ہوجاتا ہے.

    پاؤں میں چپل نہ ہو تو لوگوں کی چبھتی نظروں سے بچنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا مہنگائی کے دور میں غریب کا قرض سے بچنا محال ہے۔انشائیہ چپلوں کی چوری میں چھوٹے خان کے مہمان کا جوتا مسجد میں چوری ہوا تو وہ چھوٹے خان کی چپل پہن کر نکل لیا۔چھوٹے خان ننگے پاؤں چلنے لگا تو لوگوں کی نظروں میں آیا۔موچی نے چپل ادھار دی تو چھوٹے خان مسجد میں اب ذرا احتیاط کرنے لگے۔جب بے فکر ہوئے تو چور نے چپل اڑا لی۔گاؤں کی مساجد میں چپل چوری کی وبا نہیں پھیلی تھی اور نہ ہی غریب اور مجبور نمازی چپل چوری ہونے پر دوسرے کی چپل پہن کر نکل لیتے تھے لیکن اب حالت بدل گئے ہیں جن کی غمازی یہ انشائیہ کرتا ہے۔

    آجکل ہر شئے تیزی سے بدل رہی ہے۔انسان کے مزاج میں بھی تندی اور جلد بازی آگئی ہے۔کوئی کام کرنا ہو تو جلدی ہونا چاہیے، گھر سے نکلے نہیں کہ منزل پر پہنچنے کی جلدی ہے، کل زمین پر قدم رکھا اور آج چاند پر پہنچنے کی جلدی ہے ،غرض ہر فرد ہی عجلت کا شکار ہے ۔انسان کی اس تعجیل کاری اور جلد بازی کو محمد اسد اللہ نے میں ذرا جلدی میں ہوں میں خوبصورت انداز میں موضوع بنایا ہے۔محمد اسد اللہ سانئس دانوں کو قصور وار مانتے ہیں جنہوں نے مشینوں کی ایجاد کرکے عام افراد کو عجلت پسندی کا شکار بنایا ہے ، رات کو اپنا اندھیرا سمیٹنے کی جلدی ہے ، صبح کو نمودار ہونے کی جلدی ہے ، دوپہرہ بھی بے قرار اور بے صبری ہے ، اخبار فروش کو جلدی ہے ، ملازمین کو سئنیر ہونے کی جلدی ہے ، مسافروں کو جلدی ہے ، یہاں تک کہ ڈاکٹر کے پاس شادی کرنے تک کی فرصت نہیں اور مریض اپنا علاج نہیں کراتے کہ انہیں مرنے کی جلدی ہے۔لکھتے ہیں کہ

    ڈاکٹر کی طرح مریض بھی عجلت کا شکار ہیں۔ بعض لوگ قطار میں کھڑے کھڑے تھک کر واپس جارہے ہیں۔میدان حشر میں ان سے پوچھا جائے گا کہ اتنے قابل ڈاکٹروں کے شہر میں موجود ہونے کے باوجود تم اپنی طبعی موت کیوں مرے تو امید ہے وہ یہی جواب دیں گے

    معاف کیجیے ،ہم ذرا جلدی میں تھے

    محمد اسد اللہ نے لوگوں کی نبض دیکھ کر ان کی کیفیات اور عجلت پسندی کو بہترین ڈھنگ سے حوالہ قرطاس کیا ہے۔ان کا طرز اظہار اتنا جاندار ہے کہ قاری عجلت کا شکار نہیں ہوتا بلکہ اطمینان سے تحریر کو پڑھ کر لطف کشید کرتا ہے۔

    انشائیہ جب میں شاعر بنا میں متشاعروں پر طنز کیا گیا ہے جو دوسروں کا کلام لوٹ کر مشاعرہ لوٹنے کی طاق میں ہوتے ہیں۔انشائیہ شادی کے بعد میں شادی کے بعد مرد کی حالت زار کو خوشگوار انداز میں بیان کیا گیا ہے۔شادی کی تقریب کے متعلق محمد اسد اللہ لکھتے ہیں کہ

    شادی کی رنگ برنگی تقریب کو ہم عاشق کا نہ سہی عشق کا جنازہ ضرور کہہ سکتے ہیں۔نکاح کے بعد زندگی گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے لگتی ہے۔

    انشائیہ بلی کے بھاگوں پھینکا ٹوٹا میں ایسے جاندار اور شاندار جملے پڑھنے کو ملتے ہیں

    تعلیم یافتہ بے روزگار جو سارے شہر کے ذہن پر کنواری بیٹی کی طرح بوجھ بنا بیٹھا ہو۔

    مجھ جیسا ادیب جو کچھ لکھنے سے پہلے عنوان اس طرح ڈھونڈتا ہے جیسے کوئی قرض حاصل کرنے کے لئے پیسے والے کو تلاش کررہا ہو اور مضمون لکھنے کے بعد اسے چھپوانے کی جستجو اس طرح کرتا ہے جیسے کوئی غریب باپ اپنی بیٹی کے لئے رشتہ ڈھونڈنے نکلا ہو۔

    محمد اسد اللہ کو جب ہر فرد نے آنکھیں دکھائی تو وہ ڈاکٹر کو آنکھیں دکھانے آن پہنچے ،ڈاکٹر نہ ملا تو بخار میں مبتلا ہوئے اور ان کے ہاں مہمانوں کا سیلاب آنے لگا، مہمان نوازی سے فراغت ملی تو بفے پارٹی میں جانا ہوا ،اللہ بہتر جانتا ہے کہ پارٹی میں ایسا کیا کھایا کہ مرنے کی خواہش ہوئی اور بعد مرنے کے گھر سے یہ سامان نکلا لکھنے پر مجبور ہوئے۔سامان کو دیکھنے اپنے اور غیر آن پہنچے اور بار بار بیل بجانے لگے تو انہیں کہنا پڑا کہ کاش نہ لگواتے کال بیل۔پھر ان پر ایسی افتاد پڑی کہ انہیں دانت نکلوانا پڑا اور یہ روداد ہمارا پہلا دانت نکلوانا کے عنوان سے بیان کی۔نقل مکانی اور ہم پر میں انہیں مبارک کہہ نہیں سکتا کیونکہ نقل مکانی انسان کو یادوں، اپنوں اور یاروں دوستوں سے دور کردیتی ہے ۔

    وزیر آغا لکھتے ہیں کہ

    انشائیہ کے خالق کے پاس کئی ایک ایسی کہنے کی باتیں ہوتی ہیں جنہیں وہ آپ تک پہنچانے کی سعی کرتا ہے۔ اس طور کہ آپ فی الفور اس کے ‏دائرۂ احباب میں شامل ہوجاتے اور اس کے دل تک رسائی پالیتے ہیں۔

    محمد اسد اللہ کے پاس کئی باتیں اور موضوعات ہیں جو وہ اس انداز سے قارئین تک پہنچاتے ہیں کہ قارئین نہ صرف ان کے دائرہ احباب میں شامل ہوجاتے ہیں بلکہ ان کے طرز بیان کے مداح اور گرویدہ ہوجاتے ہیں۔طنز کی کاٹ ، مزاح کی پھوار واقعات کو نئے زاویے سے بیان کرنے کا فن اور مہارت ، دلچسپ اسلوب اور تہہ دار جملے جیسی بے شمار خوبیاں ان کے انشائیوں کا خاصا ہے۔ان انشائیوں کو پڑھ کر دل چاہتا ہے کہ محمد اسد اللہ کے مزید انشائیوں کا مطالعہ کروں یہ کسی بھی فنکاری کی کامیابی کی ضمانت ہے کہ قاری ان کے فن کا معترف اور گرویدہ ہوجائے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے