Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مجسم کیف:کیفی ؔاعظمی

وسیم فرحت علیگ

مجسم کیف:کیفی ؔاعظمی

وسیم فرحت علیگ

MORE BYوسیم فرحت علیگ

    برطانوی فلسفی برترانڈ رسل نے کہا تھا کہ،

    ’’ہمارے پاس دو قسم کی اخلاقیات ہیں،ایک وہ جس پر ہم عمل کرتے ہیں اور دوسری وہ جس کی ہم صرف تبلیغ کرتے ہیں۔‘‘

    ترقی پسند تحریک کے سب سے جونیئر لیکن ’وفاداری بشرطِ استواری‘ میں بہتوں سے سینئر،پر کیف شاعر کیفیؔاعظمی کی زندگی اور ادب ایک ہی اخلاقیات کے اردگرد نظر آتا ہے۔یہ وہ سپاہی ہے جس نے روزِ اول سے تادمِ آخر اپنی فوج اور دوائرِ فوج کا ساتھ نہ چھوڑا۔بلکہ پسِ مرگ کیفیؔ کے گھر(مجواں،اعظم گڑھ)پرآج بھی سرخ پھریرا لہراتاپایا جاتا ہے۔محلوں میں بیٹھ کر مزدوروں کی بات کے اس الزام سے بھی کیفیؔ مبریٰ ہیں۔متوسط طرزِ زندگی اپنانے والے اس شاعرِ انقلاب کی ذات کا یہ کھراپن بہت کم شاعروں کو نصیب ہوا۔

    کیفی کے ابتدائی دور کاشعری آہنگ اور مزاج مرثیہ کے بے حد قریب ہے۔ان کی اولین غزل’اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے‘ بجائے خود رثائیت،قنوطیت،یاسیت کی غماز ہے۔یہ ایک خاص طرزِ تکلم تھا،ایک خاص نمازِ عشق تھی جس کی امامت یا تو میر انیسؔ فرمارہے تھے یا فانیؔ بدایونی۔لیکن باوجود اس کے کیفی کے ابتدائی دور کی شاعری پسپائیت،سطحیت اور پژمردگی سے یکسر پاک ہے۔ان کے یہاں فرد ایک مکمل اکائی بن کر اپنے غموں کا مداوا چاہتا ہے۔ان سے نبرد آزما ہوتا ہے۔لیکن اس کے لیے بجائے اپنا دامن پسارنے کے،وہ اپنے ہاتھوں کی محنت کو ترجیح دیتا ہے۔حالات کا رونا رونے کی بجائے تبدیلیِ حالات میں کوشاں نظر آتا ہے۔کیفی کی شاعری اسی بہائو میں نکھرتی گئی۔اشتراکیت اور رومانیت کی آمیزش سے کیفی کے یہاں ایک جداگانہ رنگِ سخن دیکھنے کو ملتا ہے جو کانوں کو غیر مانوس لیکن بھلا محسوس ہوتا ہے۔یہاں سے کیفی کی شاعری میں اشتراکیت اور رومان کبھی ساتھ ساتھ چلتے،کبھی ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے روایتی شاعری سے بہر صورت انحراف کرتے صاف نظر آتے ہیں۔

    کیفی نے دوسرے شعری مجموعہ’آخرِ شب‘ کے پیش لفظ میں ایلیا اہرن برگ کے سنہری الفاظ درج کیے ہیں۔

    ’’ایک ادیب کے لیے یہی ضروری نہیں کہ وہ ایسے ادب کی تخلیق کرے جو مستقبل کی صدیوں کے لیے ہو۔اسے ایسے ادب کی تخلیق پر بھی قدرت ہونی چاہیے جو صرف ایک لمحے کے لیے ہو،اگر اس ایک لمحے میں اس کی قوم کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہو۔‘‘

    برگ کی ان دو سطروں میں کیفیؔ نے اپنا مطمحِ نظر واضح کردیا کہ انھیں کس نوعیت کے ادب کی تخلیق کرنی ہے۔اور یہ واقعی وہ زمانہ تھا جب شاعرِ خوش نوا کے وطن کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا تھا۔بقول جگر مرادآبادی،

    اس انجمنِ دہر کا ہر تازہ تغیر

    میرے لیے بیتاب ہے معلوم نہیں کیوں

    اس خیال سے کیفی نے اپنی رثائی افتادِ طبع اور چاشنی میں ڈوبی ہوئی غنایت کو ایک نئے دھارے پر لگادیا جہاں عاشق سپاہی کا کردار نبھاتا ہے۔جہاں انبساط و مسرت کے زمزمے نہیں ایک ہیبت ناک پرہول اندھیرے کو کاٹنے والی روشنی کی ضرورت ہے۔لہٰذا بغاوت کا پرچم لہرائے ایک انقلابی جو رومانیت سے سرشار ہے،ہمارے سامنے آتا ہے جسے دنیا کیفیؔ اعظمی کے نام سے مخاطب کرتی ہے۔کیفی نے اس ولولے اور جوش میں بھی تخلیقیت اور رومانیت کا ساتھ نہ چھوڑا وگرنہ ترقی پسند تحریک کے سپہ سالار کسی بھی حد تک آگے بڑھنے سے نہ ہچکچائے۔ مشہور سینئر ترقی پسند شاعر سلام مچھلی شہری کی نظم ’شرائط‘ ملاحظہ فرمائیں جب سلام کی شادی ہونے والی تھی، اس نظم میں دلہن کے لیے بعض بے حد سنگین شرائط رکھی گئیں،

    بجا کہ کھیل رہا ہوں شباب سے اپنے

    بجا کہ دن مری شادی کے بھی ہیں آئے ہوئے

    خطا معاف کہ جچتی نہیں نگاہوں میں

    یہ دیویاں پسِ چلمن نظر جھکائے ہوئے

    مجھے تو ہمدم و ہمراز چاہیے ایسی

    جو دستِ ناز میں خنجر بھی ہو چھپائے ہوئے

    حسین جسم کو سونے کے زیوروں کے عیوض

    سنان و خنجر و پیکاں سے ہو سجائے ہوئے

    خدا کا لاکھ شکر کہ کیفیؔاس ’معیار‘تک نہیں پہنچے۔ترقی پسند تحریک کے آغاز ۱۹۳۵؁ سے کیفی کے اولین شعری مجموعہ’جھنکار‘ کی اشاعت ۱۹۴۴؁ تک،کیفی باغیانہ روش پر چلتے رہے۔عرصہ قبل جب میں نے پہلی مرتبہ’جھنکار‘مکمل پڑھا تھا تو یک لخت خیال آیا کہ اس مجموعہ کا نام ’للکار‘ ہونا چاہیے تھا۔ ’جھنکار‘ میں شامل بیش تر تخلیقات انقلابی اور باغیانہ لیَ لیے ہوئے ہیں۔کیفی کی زبردست شاعرانہ فطرت نے ان آوازوں کو محض چیخ وپکار بننے نہیں دیا۔کیفی کا احتجاج اکہرے پن اور سطحیت سے آزاد ہے۔خلیل الرحمن اعظمی فرماتے ہیں،

    ’’پشیمانی،ٹرنک کال،پامسٹ،حوصلہ اور تبسم کیفی کی خوبصورت نظمیں ہیں جن میں آج بھی تازگی اور ندرت کا احساس ہوتا ہے۔بعد میں کیفی اعظمی میں ایک فرق یہ محسوس ہوتا ہے کہ کیفی کی نظموں میں خطاب کا عنصر بہت ہے لیکن ان کے لہجے میں درشتگی اور کرختگی نہیں۔نیز کیفی کے اسلوبِ بیاں میں انیسؔ کے مرثیوں کے بہت سے عناصر جذب ہوگئے ہیں جن کی وجہ سے ان کی آواز جعفری کی طرح پھٹ کر بکھر نہیں جاتی بلکہ فصاحت اور روانی باقی رہتی ہے۔‘‘(اردو میں ترقی پسند تحریک از ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی مطبوعہ علی گڑھ پریس علی گڑھ ۱۹۷۴ ؁ صفحہ نمبر۱۴۸)

    یہ حقیقت ہے کہ کیفی کے شعری گلستاں میں کانٹوں کی چبھن اتنی معصوم ہے کہ جیسے پھول چنتے وقت کوئی کانٹا چبھ جائے۔غرض کہ کیفی کی خالص اشتراکی منظومات کا نرا خطیبانہ لہجہ بھی سماعت پر بار نہیں ہوتا۔کیفی اپنی خداداد شاعرانہ صلاحیتوں سے اسے ’پروپیگنڈا‘ والی شاعری سے کچھ ماسوا نکال لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

    ممتاز ناقد وارث علوی کی علی سردار جعفری کے متعلق دی گئی رائے مجھے سردار سے زیادہ کیفی پر مناسب معلوم ہوتی ہے۔وارث فرماتے ہیں،

    ’’غالب شعری رویہ پابند نظموں کی طرف ہے اور آزاد نظمیں بھی بے جا پھیلائو سے محترز اور اختصار اور کنایت کی طرف مائل ہیں۔اسلوب استعاراتی اور علامتی اور خوبصورت فارسی تراکیب اور بندشوں سے آراستہ ہونے کے ساتھ سبک،سجل اور برجستہ ہے۔ زبان سادگی میں سپاٹ نہیں بنتی اور ترصیع میں اغراق پیدا نہیں کرتی۔صرف اور نحوی دروبست میں سلاست اور روانی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔آہنگ بلند لیکن پروقار،کبھی چیخ و پکار یا اصوات کا جھمیلا نہیں بنتا ۔ ‘‘(ماخوذ از مضمون علی سردار جعفری کی شاعری مصنفہ وارث علوی،مشمولہ سہ ماہی ’اردو ادب‘ دہلی شمارہ بابت جنوری تا مارچ ۲۰۰۰؁ صفحہ نمبر ۴۸)

    کیفیؔ کا اولین شعری مجموعہ ’جھنکار‘ سن ۱۹۴۴؁میں شائع ہوا۔جس کا پیش لفظ تحریک کے بانی سجاد ظہیر نے تحریر فرمایا۔دستخظ کے ساتھ پیش لفظ پر ’بمبئی،مارچ ۱۹۴۴؁‘کی تاریخ درج ہے۔ غرض کہ ’جھنکار‘ میں شامل کلام ۱۹۴۳؁ کے اواخر تک لکھا ہوا ہے۔ محض ۲۴ سالہ نوجوان کہ جس کی مسیں بھی پوری طرح بھیگیں نہ ہوں،ایسے طنطنے کے شعر کہتا ہو،یہ امر ماورائے عقل ہے۔ بات تو تب بھی نہ تھی کہ کیفیؔ کی شعری پازیب کی ’جھنکار‘ محض،

    ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ؔہوئے

    اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

    تک محدود ہوتی۔لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ ’صبحِ وطن‘،’بیوہ کی خود کشی‘،’بیکاری‘،’عورت‘،’سرخ جنت‘،’استالن کا فرمان‘ اور اسی قماش کی دیگر منظومات ایک چوبیس سالہ نوجوان کی فکر کا ثمرہ ہے،تو بے دریغ سعدی یاد آجاتے ہیںکہ ،

    ایں سعادت بہ زورِ بازو نیست

    تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

    پروفیسر وارث کرمانی فرماتے ہیں کہ ،

    ’’کیفی اعظمی بنیادی طور سے غنائی شاعر تھے لیکن ترقی پسندانہ آمریت انھیں دوسرے راستے پر لے گئی اور ان کے جینئس کو نظم گوئی کی طرف مائل کردیا۔اگر وہ دل کھول کر غنائی شاعری کرتے تو ان کے حسن اور اثر میں یقینا اضافہ ہوتا۔ان کی نظموں کی بلند آہنگی اور خطابت ان کے اندرونی مزاج سے بہت زیادہ مطابقت نہیں رکھتی لیکن چونکہ وہ سردار جعفری ہی کے برابر تحت الفاظ پڑھنے والوں میں تھے ان کی نظمیں مشاعروں میں بہت کامیاب ہوجاتی تھیں۔‘‘ (مضمون سردار جعفری مشمولہ کتاب’اردو شاعری کے نیم وا دریچے‘ از وارث کرمانی،مطبوعہ رام پور رضا لائبریری ۲۰۰۵؁ صفحہ نمبر ۲۴۷)

    وارث کرمانی کی مندرجہ بالا رائے سے اتفاق رکھا بھی جا سکتا ہے اور نہیں بھی۔میں نے برسوں قبل مجازؔ لکھنوی پر اپنے کسی مضمون میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ مجازؔ اور کیفی کی شاعری پر لوگ فیضؔ کا پرتو محسوس کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تینوں ہی کی غنائیت میں بڑا فرق ہے۔فیض ترقی پسند تحریک کے سب سے سنیئر شاعر اور کیفی سب سے جونئیر۔تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہم اپنے پیش روئوں سے متاثر ہوں۔لیکن کیفی نے شعری جمالیات کے ضمن میں کسی اور کالبادہ نہیں اوڑھا۔ان کی آواز ان کی اپنی ہے۔اور بہت آسانی سے پہچانی جاسکتی ہے۔

    کیفی کے یہاں آپ محسوس کریں گے کہ ابتدائی دو شعری مجموعہ (جھنکار اور آخرِ شب) محض مارکسی آوازوں کی بازگشت ہو کر نہیں رہ گئے ہیں۔کیفی اپنے کمند ِ خیال کو ترقی پسند تحریک کے مینی فیسٹو تک محدود نہیں کرتے۔چہ جائیکہ ایسی منظومات جن کا عنوان اور نفسِ مضمون کلی طور پر پارٹی لائن کے قرب و جوار میں گھومتا نظر آتا ہے ان میں بھی کیفی کے رومان اور غنائیت نے اپنی غضب کی کشش کے عوض خود کو صرف سیاسی شاعر کی ذات میں قید نہیں ہونے دیا۔اور شاید اس کا علم خود شاعر کو بھی نہیں۔بہ ظاہر خارجیت سے تعلق رکھنے والے انسانی ریخت کا داستان گو کب داخلیت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوا ذات کے اندر چلا جاتا ہے،پتہ ہی نہیں چلتا۔اوریہ ساحری دیگر ترقی پسند شاعروں میں خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔بقول فراقؔ گورکھپوری،

    دل دُکھے روئے ہیں شاید اس جگہ اے کوئے دوست

    خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا

    ڈرائیڈن کا قول ملاحظہ فرمائیں،

    'He found it brick and left it marble'

    اور محسوس کریں کہ یہ قول کیفی پر کس قدر صادق آتا ہے۔وضاحت کے لیے عرض کروں کہ کسی قدیم تلمیح کو حال کی ٹریجڈی سے مربوط کر اسے غیر مرئی سے مرئی بنا دینا یہ اپنے آپ میں کسی اعجاز سے کم نہیں۔میرا ایقان ہے کہ تلمیح کی شان تو یہی ہوگی کہ شاعر اسے موجودہ زمانے کا استعارہ بنادے۔ایک قدیم واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔حضرتِ عیسیٰؑ کسی بازا ر سے گزر رہے تھے،دیکھا کہ لوگ ایک آدمی کو پتھر مار رہے ہیں۔حضرتِ عیسیٰ نے لوگوں سے دریافت کیا کہ کیوں پتھر مار رہے ہیں۔لوگوں نے بتایا کہ ’حضور! اس شخص نے چوری کی ہے۔‘،اس پر حضرتِ عیسیٰ لوگوں سے مخاطب ہوئے کہ’ اس آدمی نے چوری کی ہے،لہٰذا لائقِ تعزیر ہے،لیکن پتھر وہی مارے گا جس نے زندگی میں کبھی کوئی چوری نہ کی ہو۔یہ سنتے ہی لوگوں پر سکتہ طاری ہوگیا۔یہ واقعہ بے حد مشہور اور معنی خیز ہے۔اب آپ کیفی ؔ کا شعر ملاحظہ کریں،

    ہوا ہے حکم کہ کیفیؔ کو سنگ سار کرو

    مسیح بیٹھے ہیں چھپ کر کہاں خداجانے

    محض دو مصرعوں میں زمانے کی ستم ظریفی ، بد حالی اور قحط الرجالی کی کتنی سچی ،طنز آمیز اور دردناک تصویر پیش کر دی گئی ہے۔اس زمانے کے مسیح بجائے ہدایت دینے کے چھپ کے بیٹھے ہیں۔اس واقعہ کا اس قدر خوبصورت اور بامعنی استعمال میں نے اردو فارسی شاعری میں کہیں نہیں پڑھا۔یہ شعر کیفی کی زبردست تخلیقیت کو ممہیز کرتا ہے۔

    مشہور ترقی پسند شاعر والدمحترم خلیل فرحتؔ کارنجوی (مرحوم) نے حضرتِ کیفیؔ کا ایک واقعہ سنایاتھا جو قارئین کی تفننِ طبع کے لیے پیش کرتا ہوں۔۱۹۷۲؁میں حیدرآباد کے ایک مشاعرے میں خلیل فرحتؔ صاحب شریک تھے۔صدارت کیفیؔ فرما رہے تھے۔صدارتی خطبے سے ماقبل فرمائش ہوئی کہ تازہ کلام ارشاد ہو۔حسبِ طلب کیفی نے کلام کا آغاز ایک مختصر بحر کی غزل سے کیا۔دو شعر سنانے کے بعد ایک توقف سے کیفی سامعین سے مخاطب ہوئے،’خواتین و حضرات! ستمبر ۱۹۶۹؁ کو احمد آباد (گجرات)میں کسی نے اپنی عبادت گاہ کی ایک اینٹ توڑ دی اور عام کردیا کہ مخالف عقیدے کے لوگوں نے اینٹ توڑی دی ہے۔اس حادثہ کے بعد مہینوں وہاں خون کی ندیاں بہتی رہیں،میں نے اسی خیال کو شعر میں برتا ہے،ملاحظہ ہو۔

    اتنی لاشیں میں کیسے اٹھا پائونگا؟

    آپ اینٹوں کی حرمت بچا تو چلے!‘

    آپ غور فرمائیںکہ اس ایک شعر میں کیفی نے نہایت عالمانہ ڈھنگ سے قوم و ملت کو امن و آشتی کا پیغام دیا ہے۔سیکولر ذہن والے مقررین کی کئی گھنٹوں کی تقریر اس ایک شعر کے سامنے فی الواقع پھیکی معلوم ہوتی ہے۔دوسری طرف آپ غالب ؔ کا شعر ملاحظہ فرمائیں،

    سنگ و خشت از مسجدِ ویراں می آرم بہ شہر

    خانہ ای در کوی ترسیان عمارت می کنم

    معاف کیجیے گا غالبؔ کا قطعی نیا اور منفرد مضمون رکھنے والا یہ شعر کیفی کے مندرجہ بالا شعر کے سامنے کس درجہ بھونڈا اور محض کھوکھلے جذبے کا اظہاریہ بن کر رہ جاتا ہے۔

    ’جھنکار‘ کے تین سال بعد منظرِ عام پر آئے شعری مجموعہ’آخرِ شب‘ میں کیفی کے یہاں انقلابی کی بجائے عشقیہ شاعری کا تناسب زیادہ نکلتا ہے۔اس کی شاید وجہ بھی یہی رہی ہوگی کہ کیفی ازلی طور پر رومانی شاعر ہیں۔لہٰذا شاعر کے لاشعور میں رومان کوند پڑنا قطعی غیر فطری نہ ہوگا۔ حسرت ؔموہانی کی ترقی پسند تحریک میں عملی شرکت سے نئے لکھنے والوں پر حسرتؔکا اثر ڈالنا عین بر حق ہے۔(گو کہ خود حسرتؔ تحریک کے مینی فیسٹو پر کبھی چل نہ سکے)۔لہٰذا تطہیر عشق والاحسرتؔ کا خاص رنگِ سخن کئی ترقی پسند شاعروں کے یہاں بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔اور شاید یہی وہ سبب تھا جو ’آخرِ شب‘کے بعد کی رومانیت کا موجب ٹھہرا۔ترقی پسند منشور اور رومانیت کے اس امتزاج کو فراقؔ نے خوب ڈھنگ سے واضح کیا ہے،

    فراقؔ گورکھپوری لکھتے ہیں،

    ’’عشقیہ شاعری کی داستان محض عارض و کاکل،قرب و دوری،جور وکرم،وصل و ہجر،ذکرِ غمِ یاذکرِ محبوب تک محدود رہے،یہ ضروری تو نہیں۔بلکہ پرعظمت عشقیہ شاعری حسن و عشق کی واردات کو زندگی کے اور مسائل و مناظر کے Perspective یا نسبتوں کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ داخلیت و خارجیت،نفسیت و واقفیت،ارتکاز و تنوع کالی داس،شیکسپئر، گوئٹے، دانتے کی آفاقی و پر عظمت و مکمل عشقیہ شاعری میں یکساں موجود ہیں۔جب قومی زندگی میں ترقی و تعمیر کے عناصر کارفرما ہوتے ہیں تو ان کی جگمگاہٹ عشقیہ شاعری میں مرکوز و محدود سوز و گدازسے گزر کر بزمِ کائنات میں چراغاں کردیتی ہے اس وقت عشقیہ شاعری کے ہاتھوں میں گریبانِ ہستی آجاتا ہے۔‘‘(غزل کی عشقیہ شاعری از فراق گورکھپوری، مطبوعہ سنگم پیلشنگ ہائوس الہ آباد ۱۹۴۵؁ ،صفحہ نمبر ۱۳)

    فراقؔ کے درج بالا بیان کو بہ ہمہ تمام ترقی پسند یوں نے بہ شوق قبول کیا اور اسے خود پر منطبق کیا۔ظاہر ہے کہ کیفی ا س سے کیوں کر باہر ہو سکتے ہیں۔

    شعری مجموعہ’آوارہ سجدے‘ جس کی اشاعت ۱۹۷۴؁ کی ہے،اس سے بارہ برس قبل ہی کیفیؔ نے نظم ’آوارہ سجدے‘کہی اور ایک سپاہی جسے اپنا قافلہ محو ہوتا دکھائی دے رہا ہو،جس کے جنگی اصول صفحہء ہستی سے مٹتے دکھائی دے رہے ہوں،ایک ایسے سپاہی کا کرب نظم ’آوارہ سجدے‘ میں کیفی نے ۱۹۶۲؁ میں پیش کیا۔۱۹۳۵؁ سے کم و بیش تین دہائیوں پر محیط یہ رسم و راہ،یہ تعلقِ خاطر،یہ نعرئہ جنگ،یہ رندانہ سرمستی وغیرہ تمام تر باتوں کے بکھرائو سے کیفیؔ نے خوب اثر لیا۔بقول ناصر کاظمی،

    شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو پکارتا ہوں

    جو قافلہ میرا ہم سفر تھا مثال گردسفر گیاوہ

    کیفی کا شعری سفر’جھنکار‘اور ’آخرِ شب‘ یہ دو کم عرصے میں شائع شعری مجموعوں سے ایک لمبی جست لگا کر سیدھے تین دہائیوں بعد ’آوارہ سجدے‘ پر آکر ٹھہرتا ہے۔’آخرِ شب‘ (۱۹۴۷؁) تک ترقی پسند تحریک اپنے شباب پر تھی۔تحریک کی بقا ء و ابلاغ میں کئی ایک رسالہ جات(شاہراہ دہلی،نیا ادب لکھنو وغیرہ)کتابیں،مضامین اور دیگر نثری تخلیقات سامنے آتی رہیں۔لیکن ملک کی آزادی کے ساتھ ہی گویا تحریک کا مقصد پورا ہوگیا۔بعینہ تحریک کے سپاہی خاموش ہوگئے۔ کچھ ’سالک‘دنیاوی خداوئوں سے خوف کھا کر ’مقامات میں کھو گئے‘۔تحریک کا منشور اب Out Datedمحسوس کیا جانے لگا۔یا کم از کم ناکافی سمجھا جانے لگا۔لہٰذا ایک نئے منشور کا نفاذ کیا گیا۔

    خود کیفی رقم طراز ہیں کہ،

    ’’دراصل اس منشور سے ترقی پسند تحریک کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔پندرہ سال کے تجربے کے بعد ہمارے ادیبوں نے وہ راستہ پالیا ہے جس کی مدتوں سے تلاش تھی۔اس مینی فیسٹو نے ادب میں رجعت پسندی کے دروازے بند کردیے ہیں۔‘‘

    (مضمون ’نیا منشور‘ از کیفی اعظمی، مشمولہ شاہراہ ،دہلی شمارہ بابت ۳ و ۴،۱۹۴۹؁ صفحہ نمبر ۴۸)

    ۲۷ ؍مئی ۱۹۴۹؁ میں منعقد ترقی پسند تحریک کی پانچویں کل ہند کانفرنس بھیمڑی (حالیہ نام بھیونڈی)ضلع تھانہ مہاراشٹر میں تحریک کا نیا منشور منظور کیا گیا۔لیکن شومیِ قسمت سے رفتہ رفتہ تحریک تنظیمی تعطل کا شکار ہوتی گئی۔اور کیفی اعظمی کے سجدے ’آوارہ‘ہوگئے۔اس تناظر میں ’آوارہ سجدے‘ کس قدر جامع اور معنی خیز عنوان لگتا ہے۔

    مضمون کے اخیر میں کیفی اعظمی کی چنداں تخلیقات ملاحظہ فرمائیں جو مجھے کسی انتقادی تقاضے و شرائط کے بغیر بے حد پسند ہیں۔

    اک تم کہ تم کو فکرِ نشیب و فراز ہے

    اک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل پڑے

    جب بھی چوم لیتا ہوں ان حسین آنکھوں کو

    سو چراغ اندھیرے میں جھلملانے لگتے ہیں

    ہوا ہے حکم کہ کیفیؔ کو سنگ سار کرو!

    مسیح بیٹھے ہیں چھپ کر کہاں خدا جانے؟

    اتنی لاشیں میں کیسے اٹھا پائونگا

    آپ اینٹوں کی حرمت بچا تو چلے

    پایا بھی ان کو کھو بھی دیا چپ بھی ہو رہے

    اک مختصر سی رات میں صدیاں گزر گئیں

    وہ گئے جب سے ایسا لگتا ہے

    چھوٹا موٹا خدا گیا کوئی

    دیوانہ وار چاند سے آگے نکل گئے

    ٹھہرا نہ دل کہیں بھی تری انجمن کے بعد

    جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا

    بچھڑ کے ان سے سلیقہ نہ زندگی کا رہا

    سہ ماہی ’اردو‘ کے تاحال کئی ایک ضخیم خاص نمبر شائع ہوچکے ہیں جن بالخصوص ’ساحر لدھیانوی نمبر‘،’جاں نثار اختر نمبر‘،’ندا فاضلی نمبر‘،’ترقی پسند تحریک نمبر‘،’زبانِ اردو نمبر‘ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔میری خواہش رہی کہ میں ’کیفی اعظمی نمبر‘ ترتیب دوں۔اس ضمن میں محترمہ شبانہ اعظمی صاحبہ سے کئی مرتبہ گفتگو بھی رہی لیکن آپ اسے میری خرابیِ قسمت پر ہی محمول فرمائیں کہ محترمہ کی بے پناہ مصروفیات اس اہم کام میں سدِ راہ ثابت ہوئی۔بہر کیف۔

    کیفی اعظمی کی شاعری دھڑکتے دلوں کی شاعری ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام بلا تفریقِ سن،ہر عمر کا قاری پسند کرتا ہے۔خود کیفی مجسم کیف اور سرتاپا رومان کے آئینہ دار ہیں۔اور یہی جواز انھیں تادمِ آخر زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے