مقدمۂ دیوان چرکین
ہم میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے لڑکپن میں چرکین کے دوچار شعر نہ سنے ہوں۔ کچھ ایسے بھی ہوں گے (میں بھی ان میں شامل ہوں) جنھوں نے ایک دو شعر چرکین کے یاد بھی کر لئے ہوں گے لیکن چرکین کے مزید کلام کی تلاش شاید دوچار لڑکوں یا بزرگوں نے بھی نہ کی ہو۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم لوگوں کی طالب علمی کے زمانے میں (یعنی آج سے کوئی پچپن ساٹھ برس پہلے) اکثر لوگ چرکین کے کلام کو تہذیب سے گرا ہوا قرار دیتے تھے اور اب بھی ایسے بہت سے لوگ ہوں گے جو چرکین تو کیا، سودا، میر اور جرأت وغیرہ کی ہجوؤں کے بارے میں بھی محمد حسین آزاد کے ہم خیال ہوں کہ اس کلام کو سن کر شرافت شرم سے آنکھ بند کر لیتی ہے۔
اٹھارویں صدی کی اکثر ہجویات کے بارے میں یہ خیال عام ہو گیا ہے کہ وہ بہت ’’فحش‘‘ ہیں۔ ایسی صورت میں چرکین جیسے ’’کھلے ہوئے‘‘ شاعر کو فحش اور خلاف تہذیب قرار دیا گیا تو کیا تعجب ہے۔ چرکین کو عموماً شاعر ہی نہیں قرار دیا جاتا۔ اگر بہت مہربانی کی جاتی ہے تو انھیں ’’ہزال‘‘، ورنہ غلاظت آلودہ کہہ کر چھٹی کر دی جاتی ہے۔
جیساکہ شاطر گورکھپوری نے اپنے مبسوط دیباچے میں لکھا ہے، لوگ عام طور پر ’’فحش‘‘ اور ’’برازیات‘‘ میں فرق نہیں کرتے یعنی ہم لوگ عموماً ’’برازیات‘‘ کو بھی ’’فحش‘‘ کے زمرے میں رکھتے ہیں اور یہ کچھ تعجب کی بات بھی نہیں، کیونکہ اردو میں ایسے کلام کے لئے کوئی اصطلاح ہی نہیں ہے جس میں بول وبراز کے مضامین وارد ہوئے ہوں۔ انگریزی میں اسے Scatology اور مختصر العوام میں Scat کہتے ہیں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے عربی اور فارسی میں بھی ایسی کوئی اصطلاح نہیں ہے۔ میں نے ’’المورد‘‘ دیکھی تو اس میں دراسۃ الغائط والبراز درج ہے جو لفظ کا ترجمہ ہے، اصطلاح نہیں۔ حیم کے انگلیسی فارسی لغت میں ’’گفتار در سنگوارہ ہائے سرگینی‘‘ درج ہے جو صحیح ترجمہ بھی نہیں، کیونکہ ’’سنگوارہ‘‘ کے معنی ہیں ’’محجر، یعنی Fossil اور ظاہر ہے کہ Scatology میں ہر طرح کے برازیاتی مضمون ہوتے ہیں، اس میں محجر کی شرط نہیں۔ کچھ غور کے بعد میں نے Scatology کا متبادل ’’برازیات‘‘ تجویز کیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ شاطر گورکھپوری نے اسے ہی استعمال کیا ہے۔
شاطر صاحب نے خیال ظاہر کیا ہے کہ عربی فارسی میں بھی برازیات کسی نہ کسی حد تک موجود ہے۔ میں اس کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا، لیکن فارسی میں اگر برازیات کسی نے کہی ہوگی تو وہ سبک ہندی والا فارسی گو اور اغلب یہ ہے کہ ہندوستانی رہا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برازیات دراصل مضمون آفرینی کے عالم سے ہے، یعنی بات میں بات پیدا کرنا، کوئی نئی بات کہنا، کسی پرانی بات کو نئے پہلو سے پیش کرنا اور اس کوشش میں دور تک نکل جانا کہ جسے بعد کے لوگوں نے ’’نازک خیالی‘‘ اور سترہویں صدی کے سبک ہندی والوں نے ’’معنی نازک آفریدن‘‘ سے تعبیر کیا۔
اس بات سے قطع نظر کہ مضمون آفرینی اور معنی آفرینی دو تصورت ہیں جو ہندوستانیوں نے قائم کئے، مضمون آفرینی کے دو خاص محرکات ہیں، (۱) زبان کے امکانات کو دریافت کرنا اور زبان کی حدوں تک (بلکہ بیدل کے یہاں اس سے بھی آگے تک) پہنچنے کی کوشش کرنا اور زبان کی نارسائی کا شدت سے احساس رکھنا۔ (۲) اپنے گرد وپیش کی دنیا کے حقائق و کوائف کو تخیل کی آنکھ سے دیکھنا اور دکھانا۔
دونوں محرکات کی بدولت شاعر کو فحش گوئی سے لے کر پیچیدہ ترین مسائل حیات، کائنات میں انسان کی حیثیت اور قدروقیمت، المیہ اور طربیہ، ہر طرح کی بات کہنے کے لئے صلاحیت اور ذوق پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر محمد قلی سلیم کے یہ دو شعر ملاحظہ ہوں۔ پہلے شعر میں تھوڑی سی فحاشی ہے لیکن اس کا مضمون بھی لاجواب اور نادر ہے، یعنی ’’جوتی چور۔‘‘ دوسرے شعر کا مضمون طاعون، موت، نارسائی، وصل میں ہجر، کئی حقائق حیات کا احاطہ کرتا ہے،
(۱)
دزدے بہ کس مادر خود برد کفش من
صد شکری کنم کہ در وپائے من نہ بود
(۲)
کام عاشق چو در آید بہ بغل می میرد
غنچہ بر شاخ دل ماگرہ طاعون است
ممکن ہے آپ کو اعتبار نہ آئے، لیکن میرا پختہ خیال ہے کہ سبک ہندی کے باہر یہ اشعار وجود میں نہیں آ سکتے تھے۔ چرکین کا بھی یہی معاملہ ہے کہ ان کا رنگ کلام سبک ہندی کے فروغ کے بغیر نمودار نہ ہو سکتا تھا۔ اور یہ بھی چرکین کے کلام کی ادبی قدر وقیمت کی ایک دلیل ہے۔ چرکین کے یہاں کہیں کہیں اور معدودے چند، ایسے الفاظ ضرور ہیں جو ’’فحش‘‘ کی ضمن میں آ سکتے ہیں، لیکن ان کا زیادہ تر کلام گو موت جیسی ’’غیرشاعرانہ‘‘ باتوں میں کچھ مزاحیہ اور کچھ مضمون آفرینی اور خیال آفرینی کے رنگ پیدا کرنے سے عبارت ہے۔ ایسے مضامین میں مزاحیہ رنگ تو آسان ہے، لیکن عقل مندی، خیال آفرینی اور استعارہ ورعایت کی چمک دمک لانا بہت ہی مشکل ہے۔
یوں بھی چرکین کو فحش قرار دینا زیادتی ہے۔ فحش کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اعضائے جنس اور /یا جنسی افعال کا بیان کھلی زبان میں اس طرح کیا جائے کہ اس سے لذت پیدا ہو یا ایسا بیان جو لذت پیدا کرنے کے لئے بنایا گیا ہو اور جس میں جنس اور اس کے متعلقات و افعال کو کھول کھول کر بیان کیا گیا ہو۔ چرکین پر اس تعریف کا اطلاق بمشکل ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ تعریف ایسی ہے جو الگ الگ شخصوں کے لئے الگ الگ معنی رکھےگی اور فحش/غیرفحش کا انحصار خود پڑھنے والے کی ذہنی کیفیت پر ہوگا۔ اس کی مثال کے لئے یہ مشہور لطیفہ ہے،
ایک شخص کسی ماہر نفسیات کے پاس گیا کہ جنسی خیالات ہر وقت میرے ذہن میں سمائے رہتے ہیں۔ میں زندگی سے تنگ آ گیا ہوں، کوئی کام کرہی نہیں سکتا، جنس ہر وقت میرے ذہن پر چھائی رہتی ہے۔ مجھے علاج کی ضرورت ہے۔ ماہر نفسیات نے کچھ بالکل ابتدائی اقلیدسی شکلیں، مثلاً مثلث، مربع، دائرہ، اسے دکھائیں اور پوچھا کہ یہ شکلیں آپ کے ذہن میں کیا تاثر پیدا کرتی ہیں؟ مریض نے ہر شکل کو دیکھ کر فوراً کسی نہ کسی جنسی عضو یا چیز کا نام لیا۔ ماہر نفسیات نے کہا، ’’صاحب، واقعی جنس آپ کے ذہن میں بے حد اور بہت دور تک چھائی ہوئی ہے۔‘‘
’’میرے ذہن پر جنس چھائی ہوئی ہے! بہت خوب!‘‘ مریض نے تنک کر کہا، ’’اور یہ جو آپ مجھے مسلسل ننگی تصویریں دکھائے جارہے ہیں تو آپ کے ذہن پر کیا سوار ہے؟‘‘
لہٰذا ’’فحش‘‘ اور ’’غیر فحش‘‘ مطلق انواع (Absolute Categories) نہیں ہیں۔ لیکن یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ چرکین کے یہاں فحاشی بہت کم ہے اور اگر کلام کے ذریعہ جنسی لذت پیدا کرنے یا حاصل کرنے کی شرط کو فحاشی کے لئے سب سے اہم شرط قرار دیں تو چرکین کا کوئی شعر مشکل ہی سے فحش کہلائےگا۔ ہاں ’’خلاف تہذیب‘‘ کی بات اور ہے یعنی چرکین کا کلام ایسا کلام نہیں ہے کہ اسے بچوں یا بہو بیٹیوں کو پڑھایا جا سکے یا اسے ان کے سامنے پڑھا جا سکے۔ اس شرط کو قبول کئے بغیر چارہ نہیں لیکن یہ شرط کوئی چرکین کے لئے انوکھی نہیں ہے۔
انیسویں صدی کے پہلے کا کوئی اردو شاعر شاید ایسا نہیں کہ اس کے کلام کا کچھ نہ کچھ حصہ ’’خلاف تہذیب‘‘ نہ کہا جا سکے۔ لیکن ’’خلاف تہذیب‘‘ بھی اضافی اصطلاح ہے۔ آخر دنیا میں ایسی فلمیں روزانہ بنتی ہیں جنھیں A یعنی Adult سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ یعنی وہ ’’صرف بالغوں کے لئے‘‘ ہوتی ہیں لیکن وہ بے کھٹکے تمام سنیما گھروں میں دکھائی اور دیکھی جاتی ہیں۔ بہت چھوٹا بچہ ہو تو خیر، لیکن عام حالات میں ٹکٹ گھر کا بابو ٹکٹ خریدنے والے سے بلوغت کا ثبوت تو نہیں مانگتا اور پھر اب تو سی ڈی اور ڈی وی ڈی کازمانہ ہے کہ جو فلم چاہیں گھر بیٹھے دیکھ لیں۔ لہٰذا ’’خلاف تہذیب‘‘ کا تصور بھی اضافی اور موضوعی (Subjective) ہے۔
خیر، ہم یہ مان کر چلتے ہیں کہ چرکین کا کلام ایسا نہیں ہے کہ اسے کھلے بندوں پڑھا پڑھایا جا سکے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ چرکین نے ایسا کلام لکھا کیوں؟ کیا ہم فحش گو شعرا (مثلاًاستاد رفیع احمد خاں، ڈاکٹر اشرف عریاں اور پہلے کے لوگوں میں ایک حد تک صاحب قراں دہلوی اور ان سے بھی پہلے میر جعفر زٹلی) کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ جنسی لذت یا گدگدی پیدا کرنے سے انھیں دلچسپی تھی؟ ظاہر ہے کہ رفیع احمد خاں کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے۔ رفیع احمد خاں کو یقیناً دنیا اور معاملات دنیا سے دلچسپی تھی اور ان کے تصور حیات میں طنز (Irony) کو بہت عمل دخل تھا۔
صاحب قراں کا سارا کلام فحش نہیں ہے اور انھوں نے فحش اور غیرفحش میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ کبھی کبھی تو پوری غزل سیدھی سادی کہنے کے بعد مقطع میں وہ کوئی فحش بات ڈال دیتے ہیں۔ جعفر زٹلی اول تو طنزنگار ہیں، پھر بگڑے دل اور زمانہ و ابنائے زمانہ پر برہم سخت تلخ فکروتلخ کام جوان ہیں، پھر اس کے بعد کہیں وہ کھرے فحش نگار ہیں اور ان کے فحش کلام میں پھکڑپن، فحش برائے لذت یا ہولی کے فلک سیر کی پیدا کردہ افزوں خیالی (exuberance) کے ابلتے، لہراتے ہوئے اظہار جیسے کئی رنگ ملتے ہیں۔ ڈاکٹر اشرف عریاں کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے یہاں ’’ادب برائے فحاشی‘‘ کا انداز زیادہ حاوی ہے۔
لیکن یہ سب لوگ بہرحال فحش گو تھے، برازیات ان کا میدان نہ تھا۔ جعفر زٹلی سے زیادہ سخت فحش گو ہمارے یہاں شاید کوئی نہیں ہوا، لیکن انھیں برازیات سے برائے نام ہی شغف ہے، اور وہ برازیات کے عالم سے الفاظ اسی وقت لاتے ہیں جب ان سے معنی کا کوئی نادر پہلو پیدا ہوتا ہو۔ مثلاً وہ ایک ’’چہرہ‘‘ لکھتے ہیں جس میں صاحب چہرہ کا نام ’’چھجامل پرنالہ سنگھ‘‘ لکھ کر اسے ’’ساکن سنڈاس پور‘‘ لکھتے ہیں اور اس کی ’’گوزدانی‘‘ کو ’’فراخ‘‘ بتاتے ہیں۔ سودا اور میر کی ہجویات میں کہیں کہیں برائے نام برازیات ملتی ہیں۔ داستان امیر حمزہ میں البتہ برازیات سے احتراز نہیں ہے، لیکن وہاں تو دنیا کی تقریباً ہر شے موجود ہے۔
دوسری بات یہ کہ چرکین کو داستان سے شغف رہا ہو، اس کے بارے میں ہم صرف قیاس ہی کر سکتے ہیں۔ بہرحال شعر کی حد تک برازیات کی کوئی روایت ہمارے یہاں ایسی نہیں نظر آتی، جس کو اپنے تہذیبی ورثے کا حصہ سمجھ کر چرکین نے اسے اختیار یا قبول کیا ہو۔ لاطینی اصطلاح میں چرکین بالکل sui generis (از خود پیدا شدہ) معلوم ہوتے ہیں۔ بظاہر ان کا کوئی پیش رو نہیں، پیرو البتہ بہت نکلے، تو پھر چرکین نے یہ رنگ کیوں اختیار کیا؟
یہ سوال بظاہر غیرضروری معلوم ہوتا ہے اور اس کا جواب شاید کبھی مل بھی نہ سکے، الا کہ ہم یہ کہیں کہ چرکین کا رجحان طبع برازیات کی طرف تھا۔ لیکن یہ جواب سراسر دوری (Circular) ہے، اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ چرکین کے کلام کا مطالعہ کریں تو پہلی نظر میں وہ ہمیں خلاف تہذیب باتیں نظم کرنے والے ہزال معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن ذرا ٹھہر کر اور تنقیدی نظر کے ساتھ ان کا کلام پڑھا جائے تو دنیا کچھ مختلف دکھائی دیتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ چرکین نے غزل کے مضامین یوں لکھے ہیں کہ مضمون آفرینی بھی حاصل ہوئی ہے اور غزل کے مقبول عام طرز کی پیرو (ڈ) ی بھی ہو گئی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پیروڈی نگار بظاہر تو اصل عبارت یا متن کا مذاق اڑاتا ہے لیکن دراصل وہ اسے خراج تحسین وعقیدت پیش کرتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ پیروڈی نگار کو اپنے ہدف کے طرز بیان، اس کی کمزوریوں اور مضبوطیوں، اس کی ذہنی ساخت، ان سب پر مکمل دسترس ہوتی ہے یا ہونی چاہئے۔ ایسا نہ ہو تو پیروڈی کا لطف اور اس کی تنقیدی معنویت جاتی رہےگی، لہٰذا چرکین اگر کامیاب پیروڈی نگار ہیں (اور بیشک ایسا ہے) تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ چرکین کو اپنے زمانے کے مقبول طرز غزل گوئی اور خود غزل گوئی کے نظری مباحث کا پورا احساس تھا۔ وہ غزل کے مزاج آشنا تھے، اسی باعث وہ اپنی غزل میں نہ صرف یہ کہ مروجہ مضامین کا نہایت کامیاب خاکہ اڑاتے ہیں، بلکہ نئے مضامین بھی ایجاد کرتے ہیں۔ بالکل شروع دیوان کی غزلوں سے یہ چند شعر دیکھئے،
پڑگیا مہتر پسر کے چاند سے منھ کا جو عکس
چاہ مبرز بے تکلف چاہ نخشب ہو گیا
مختلف پیشوں کے لڑکوں کے بارے میں تعریفی یا نیم مزاحیہ نیم تعریفی، یا طنزیہ شعر کہنا دراصل شہر آشوب کی روایت ہے۔ کلیم ہمدانی نے اسے عورتوں کی طرف منتقل کرکے بعض عمدہ غزلیں کہی ہیں،
ز حسن شستۂ دھوبی چہ گویم
ازاں بے پردہ محبوبی چہ گویم
یہاں دھوبن کی رعایت سے ’’شستہ‘‘ کس قدر عمدہ ہے، یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میر نے مختلف پیشوں سے متعلق لڑکوں کا ذکر کیا ہے، مثلاً،
افسانہ خواں لڑکا کیا کہئے دیدنی ہے
قصہ ہمارا اس کا یارو شنیدنی ہے
یہاں بھی ’’افسانہ خواں‘‘ کی مناسبت سے ’’کیا کہئے‘‘ اور پھر ’’کیا کہئے‘‘ کی مناسبت سے ’’دیدنی ہے‘‘ کی خوبی ظاہر ہے، اسی طرح ’’افسانہ خواں‘‘ کی مناسبت سے ’’قصہ ہمارا اس کا‘‘ کی خوبی بھی ظاہر ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ چرکین بھی انھیں دونوں کی روایت کے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں ’’مہتر پسر‘‘ اور ’’چاہ مبرز‘‘ کی مناسبت داد سے مستغنی ہے۔ اسی طرح ’’چاند سے منھ‘‘ کی مناسبت سے ’’چاہ نخشب‘‘ بھی نہایت عمدہ ہے لیکن چرکین نے ان مضمون آفرینیوں کے ساتھ معنی کی بعض باریکیاں بھی رکھ دی ہیں۔ ملاحظہ ہو،
(۱) ’’مہتر‘‘ کے معنی ’’حلال خور، بھنگی‘‘ بھی ہیں اور ’’سردار قوم‘‘ بھی۔
(۲) اگر وہ سردار قوم کا بیٹا ہے تو اس کے چہرے کو ’’چاند‘‘ سا فرض کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ حلال خور کا بیٹا ہے تو چاند سا چہرہ رکھنے کے لئے ممکن ہے کہ اس کے نطفے میں کچھ ’’شریف‘‘ خون بھی شامل ہو۔
(۳) چاہ مبرز پر مہتر پسر کے چاند سے چہرے کا عکس پڑنے کے معنی یہ ہیں کہ متکلم یا تو ننگا اور اوندھا پڑا ہوا تھا اور مہتر پسر نے اس کے مبرز میں تھوک دیا۔
(۴) یا پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ مہتر پسر متکلم کے مبرز کی صفائی پر مامور تھا۔
(۵) دونوں صورتوں میں معمولہ ظرافت کے علاوہ خود پر ہنسنے یا اپنا ہی مذاق اڑانے کی کیفیت نمایاں ہے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ یہ شعر محض ’’برازیات‘‘ کا شعر نہیں، کچھ معنوی تہ داری بھی ہے۔ ایک دو شعر اور دیکھئے،
گوہا چھی چھی پر مزاج یار پھر مائل ہوا
غیرسگ سیرت کی پھر صحبت میں وہ داخل ہوا
’’گوہا چھی چھی۔‘‘ جیسا کہ سب جانتے ہیں، تین لفظوں سے مرکب ہے، گو، ہا، چھی چھی۔ یعنی کسی شخص کا پاؤں یا نگاہ گو پر پڑی اور اس نے، یا دیکھنے والے نے معاً پکارا، ’’گوہا! چھی، چھی۔۔۔!‘‘ لہٰذا اس کلمے میں نجاست میں آلودگی اور نجاست سے آلودگی، شور غل، فجائیہ انداز گفتگو، یہ سب شامل ہیں۔ اس کلمے کے استعاراتی یا مستعمل معنی حسب ذیل ہیں، غلاظت، نجاست، بک بک جھک جھک، بدتہذیبی، رسوائی، ذلت وخواری۔
معشوق کی سفلہ پروری یا خود معشوق کی سفلگی ہماری کلاسیکی غزل کے عام مضمون ہیں۔ اب ان مضامین اور مندرجہ بالا معنی کی روشنی میں شعر پر غور کریں،
(۱) معشوق کا مزاج بار بار سفلگی کی طرف مائل ہوتا ہے۔
(۲) معشوق ایسے لوگوں کو نگاہ پسندیدگی سے دیکھتاہے جو سفلہ مزاج ہوں۔
(۳) ایسے لوگوں کا (اور اس لئے خود معشوق کا) مزاج کتوں جیسا ہے کہ وہ ہروقت اور ہر چیز پر لڑتے اور شور مچاتے رہتے ہیں۔
(۴) اس میں معشوق کی ذلت اور رسوائی ہے، لیکن اسے پروا کب ہے؟
ایک اور شعر دیکھئے،
جا نہ اہل آبرو کو دے کبھی گندہ مزاج
حوض پاخانہ میں کب تعمیر فوارہ ہوا
یہ شعر تمثیلی انداز کا ہے، یعنی ایک بات کہی یا ایک دعویٰ کیا، پھر اس کے ثبوت کے لئے کوئی عمومی بیان لائے جو مبنی برحقیقت ہو یا حقیقت قرار دے دیا گیا ہو۔ ناسخ اور غالب نے اس طرح کے شعر بہت کہے ہیں کہ یہ سبک ہندی کا خاص رنگ ہے۔ ناسخ،
رتبۂ اعلیٰ میں ظالم ترک کردیتے ہیں ظلم
پاؤں سے کاہش نہیں خار سر دیوار کو
پہلے مصرعے میں ایسا دعویٰ کیا جو ثابت ہی نہیں ہو سکتا۔ لیکن دوسرے مصرعے میں نہایت پیچیدہ (اور صحیح) دلیل لائے کہ ظالم کو کبھی نہ کبھی مظلوم کے ہاتھ پامال ہونا پڑتا ہے۔ کانٹے ظالم ہیں، پاؤں میں چبھتے ہیں۔ لیکن جب ان کا رتبہ بڑھ جاتا ہے (یعنی وہ خار سر دیوار بنا دیے جاتے ہیں) تو وہ کسی کو چبھتے نہیں، لہٰذا کسی کا پاؤں انھیں پامال بھی نہیں کرتا۔ چرکین کا شعر بھی اسی طرح کے دعوے اور دلیل پر مبنی ہے۔ پہلے مصرعے میں ایسا دعویٰ کیا جس کی دلیل ممکن نہیں۔ لیکن دوسرے مصرعے میں عام زندگی سے دلیل لائے کہ بیت الخلا میں فوارہ نہیں بنایا جاتا۔ مشکل زمینوں میں چرکین نے ایسے نادر گل کھلائے ہیں کہ شاہ نصیر اور ناسخ وآتش کی یاد آتی ہے،
جیسی کرتا ہے کوئی ویسی ہی پیش آتی ہے
کھائے جو آگ ہگےگا وہی انگارے سرخ
بے قراری ہےتری، اے دل ناشاد عبث
بے اثر گوز کے مانند ہے فریاد عبث
وصف لکھنا ہے تری کانچ کا اے سیم اندام
کیوں نہ ہو رنگ محرر دم تحریر سفید
گوہا چھی چھی کے جو مضمون تھے تحریر اس میں
یار نے موت کے دریا میں بہایا کاغذ
ساغری چرتی ہے ساقی جب یہاں آتی ہے شمع
تیرے رخ کے سامنے پروانہ بن جاتی ہے شمع
اس پری نے واہ نام حسن کیا روشن کیا
مقعد دیوانۂ عریاں میں جلواتی ہے شمع
کسی کا قول ہے کہ برازیات نہایت اہم موضوع ہے، کیونکہ ہمارے سارے جسم کے نظام سے اس کا تعلق ہے۔ جو کچھ اندر جاتاہے وہی کسی نہ کسی روپ میں باہر آتا ہے۔ یہ بات کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی، بلکہ ایک عام مشاہدے پر مبنی ہے۔ چرکین کو بول وبراز اور اس کے متعلقات (بالخصوص گوز اور بواسیر) سے جو دلچسپی ہے اور جس جس طرح انھوں نے ان مضامین کو اپنے شعر میں باندھا ہے وہ ایک اور حقیقت کی طرف ہماری توجہ منعطف کرتاہے یعنی معشوق ہو یا شیخ، کسی کو بھی ان معاملات سے مفر نہیں۔ چرکین کی برازیات معشوق کو بیت الخلا کی سطح پر لاکر ہمیں یقین دلاتی ہے کہ معشوق بھی ہم جیسا انسان ہے اور اس سے بھی وہی افعال سرزد ہوتے ہیں جو ہم عام، گندے، غیرنفیس، بدصورت انسانوں کے معمولہ افعال ہیں۔
ڈکنس (Charles Dickens) کی ہیروئنوں کے بارے میں والٹر ایلن (Walter Allen) نے دلچسپ بات کہی ہے کہ انھیں ہمیشہ قبض رہتا ہے یعنی وہ اس طرح ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہیں گویا کوئی انسانی فعل (خاص کر بیت الخلائی فعل) ان سے سرزد ہی نہ ہوتا ہو۔ بائرن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نوالہ منھ میں ڈالنے، چبانے اور حلق سے اتارنے کو اس قدر ’’غیرنفیس‘‘ فعل سمجھتا تھا کہ کسی عورت کو کچھ بھی کھاتے دیکھ نہ سکتا تھا۔ اسی طرح ایک بار کسی انتہائی خوبصورت اور نازک اندام نوجوان لڑکی کو دیکھ کر کسی کے منھ سے بے ساختہ نکل گیا، ’’کیا ان جیسیوں کے ساتھ بھی وہی کام کیا جاتا ہوگا؟‘‘ لہٰذا چرکین کی ایک بڑائی یہ بھی ہے کہ انھوں نے معشوق کے رومانی، بلکہ فرضی پیکر کی جگہ ایک زندہ انسان رکھ دیا،
گو اچھالے گا سڑی ہوگا چنےگا تنکے
وہ پری گھر میں جو چرکین کے مہمان آئے
نظر پڑی تری اے یار جب سے موت کی بوند
ذلیل آنکھوں میں در خوش آب رہتا ہے
حاجت جو اس نگار کو استنجے کی ہوئی
آنکھوں کے ڈھیلے عاشق بدنام کے لئے
اس مہر کو گھر سے آتے دیکھا
ہگنے کے لئے جو تڑکے اٹھے
رونق افزا ہو جو پاخانے میں وہ رشک بہار
گل ہو لینڈی گو کی شبنم قطرۂ پیشاب ہو
کانچ اس کی دیکھ کر چرکیں نہ ہو کیوں باغ باغ
خوش نما ہوتا ہے ایسا پھول کب کچنال کا
چرکین کے کلام میں نئے (یا ہمارے لئے نامانوس) لفظ بہت ہیں اور زیادہ تر فرہنگیں ان سے خالی ہیں۔ ’’اردو لغت، تاریخی اصول پر‘‘ (ترقی اردو بورڈ، کراچی) نے دیوان چرکین کو اپنے مآخذ میں شامل کیا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اغلاط کتابت کے سبب سے چرکین کاکوئی مطبوعہ دیوان معتبر نہیں ہے۔ خود میرے پاس جو نسخہ اب تک تھا وہ بالکل بے ڈھنگا اور ناقص تھا۔ اسلم محمود نے از راہ کرم مجھے 1273 (1856/1855) کے مطبوعہ ایک نسخے کی فوٹو نقل عطا کی جو میرے نسخے سے بہت بہتر ہے۔ میں ان کا ممنون ہوں۔ لیکن اس نسخے میں بھی اغلاط کتابت بہت ہیں اور کئی نامانوس الفاظ کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہو گیا ہے کہ وہ واقعی نامانوس ہیں یا ان میں سہو کتابت ہے۔
ہمیں جناب شاطر گورکھپوری کا ممنون ہونا چاہئے کہ انھوں نے کئی مطبوعہ اور مخطوطہ نسخوں کی مدد سے دیوان چرکین کا یہ بہت اچھا نسخہ تیار کیا ہے۔ علاوہ بریں، ان کی یہ جرأت رندانہ بھی لائق داد ہے کہ انھوں نے ترتیب وتدوین نو کے لئے چرکین جیسے مشکل اور اکثر لوگوں کی نظر میں محض ہزال واضحو کہ شاعر چرکین کا دیوان منتخب کیا۔ مجھے یقین ہے کہ دیوان چرکین کی یہ جدید اشاعت ثابت کر دےگی کہ چرکین نرے ہزال اور ہنسوڑ قسم کے فحش گو نہیں ہیں، بلکہ ان کے کلام میں شاعرانہ فن کاری، لسانی دروبست، استعارہ سازی اور مضمون آفرینی کے بھی رنگ چوکھے ہیں۔
شاطر گورکھ پوری نے دیوان پر ایک مبسوط دیباچہ بھی لکھا ہے جس میں چرکین کی زندگی، ان کے کلام کی مختلف اشاعتوں اور تذکروں میں ان کے ذکر جیسے اہم معاملات پر گفتگو ہے۔ مجھے امید ہے کہ دیوان چرکین کی یہ اشاعت نو، اور شاطر گورکھپوری کا دیباچہ، دونوں ہی ادب کے شائقین کے لئے نادر تحفہ ثابت ہوں گے۔ جان صاحب نے دیوان چرکین کی تاریخ طبع لکھی تھی،
ر
گل آدم نے ہر اک صفحے کو گلشن بنا دیا ہے
ہوا ہے شہد سے شیریں نئے آئین کا نسخہ
عجب تاریخ یہ گوہیل کہی ہے جان صاحب نے
سنا بی جان باجی کل چھپا چرکین کا نسخہ
1273
میر یار علی صاحب اگر آج ہوتے تو یقین ہے یہ شعر اضافہ کر دیتے،
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں ہم یہ کہتے ہیں
کہ پھر چھاپا میاں شاطر نے چرک آئین کا نسخہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.