ہمارے عہد کے ادبی مباحث کا المیہ یہ رہاہے کہ بعض الفاظ اور اصطلاحات کو اچھی طرح سمجھے بغیر ہم ان پر ایسے حکم لگا دیتے ہیں کہ ان کا کردار صرف مسخ شدہ صورت میں ابھرتا ہے۔ روایت کا لفظ بھی انہیں بدنصیب الفاظ کی صف میں شامل ہے۔
مصیبت یہ ہے کہ یہ لفظ بالذاتہ ایک مسئلے کی حیثیت بھی رکھتا ہے، جس کے بارے میں اپنی رائے قائم کرنے کا حق یقیناً ہر شخص کو حاصل ہے لیکن استحقاق سے پہلے ذمہ داری اور استعداد کی شرط عاید ہوتی ہے۔ اس شرط کو پوراکرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم روایت کو پہلے سے کوئی حرف ناروا سمجھے بغیر اپنے ذہنی تحفظات اور رواج کے جبر سے آزاد ہوکر اس کااچھی طرح تجزیہ کریں اور حقیر مصلحتوں سے بے نیاز ہوکر نتائج کی جستجو اور ان کی قدر و قیمت کے تعین کی طرف قدم اٹھائیں۔ روایت کی حیثیت فن اور فکر کے ارتقاء میں اساسی ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے قطع نظر زندہ اور فعال حقیقتوں سے مملو روایت بہ یک وقت آیندہ حقیقتوں کے محرک اور ان کے امتحان کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ وہ ماضی اور حال دو زمانوں میں ایک ساتھ زندہ رہتی ہے اور وقت سے اس کا رشتہ محض ایک تاریخی واقعے یا پس منظر کی شکل میں نہیں استوار ہوتا بلکہ ارتقا پذیر میلانات کے ساتھ اس کے وجود اور معنویت کا احساس اور زیادہ مستحکم ہوتا جاتا ہے۔
جب ہم کسی حقیقت یا تصور کے وجود سے انکار کرتے ہیں تو ہمارے انکار میں یہ رمز بھی شامل ہوتا ہے کہ ہم نے اس کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے۔ اس طرح ادب کی تاریخ میں اچھی یا بری روایت کے اعتراف و ادراک کے بغیر کسی نئے راستے کی تلاش ممکن نہیں۔ کوئی بھی نظریہ، مکتب فکر، ادبی تصور یا تہذیبی رجحان گذرے ہوئے زمانوں سے کلیتاً الگ کرکے نہ تو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ ماضی اچھا ہو یا برا اس کا کوئی نہ کوئی جز و حال کی ذات کا بھی حصہ ہوتاہے۔ کبھی اس کی قوت بن کر اور کبھی ایک متضاد لیکن ناگزیر حقیقت کی شکل میں۔ جو حضرات روایت کے وجود سے یکسر منحرف ہوتے ہیں اور جدت یا جدیدیت کو اپنے ذہنی افق پر خلا یا آسمان سے حاصل شدہ روشنی کا منبع قرار دیتے ہیں، ان کی منطق صرف ایک گڑھا کھودنے کے عمل سے مماثل ہوتی ہے جس میں عمل کا سفر اوپر سے نیچے کی طرف ہوتا ہے،
بصورت دیگر ہر عمل خواہ اپنے پیش رو عمل کا اثبات کرتا ہو یا اس کی نفی، بہرحال اس کی سطح پر اپنے قدم جماتا ہے۔ مجنوں صاحب کے لفظوں میں، ’’ماضی کو اپنے سر کا بھوت بنا لینا تو یقیناً آسیب قسم کی بیماری ہے لیکن ماضی سے یکسر انکار کر دینا (یا اس سے غافل ہو جانا) بھی وہ دماغی عارضہ ہے جس کو اصطلاح میں نسیان کہتے ہیں۔ ہم رجعت کے بغیر ماضی کی قدر کرسکتے ہیں اور اس کے صالح عناصر کو مستقبل کی تعمیر میں لگا سکتے ہیں۔۔۔ ادب کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی آبائی میراث کو قبول کرے اور اس کو صحیح طور پر کام میں لاکر ترقی کے نئے اسباب مہیا کرے اور آنے والی نسل کے لئے پہلے سے بڑی میراث چھوڑے۔۔۔ زندگی کے اکتسابات کی طرح ادب بھی بیک وقت وارث اور مورث دونوں ہوتا ہے۔‘‘ (نقوش و افکار ص ۶۶)
انسانی تاریخ وتہذیب کے کسی بھی دور میں یہ نہیں ہوا کہ فکر وفن کا کوئی تصور محض ایک جامد حقیقت بن کر امروز اور فردا دونوں سے غیر متعلق ہو جائے۔ ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہے جب وقت ساکت ہو جائے، ذہن ماؤف اور حرکت، تبدیلی یا ترقی کی ہر آرزو اور جبلت عناصر کا ساتھ چھوڑ دے۔ ایک عقیدے کے مٹنے اور نئے عقیدے کے حصول کا درمیانی وقفہ زمانی اعتبار سے مختصر ہوتے ہوئے بھی فکر اور احساس کے زاویۂ نظر سے لاحاصلی، آزمائش اور جستجو کا بے حد طویل زمانہ ہو سکتا ہے۔ اس عبوری دور میں اندھیرے اور اجالے کی کشکمش چند مہینوں یا چند برسوں کی بات ہوکر بھی ماضی اور مستقبل کے صحرا میں طویل مسافتیں طے کرتی ہے اور اس کے بعد ہی کسی نئی منزل کا سراغ ملتا ہے، اس نئی منزل تک پہنچنے میں جو قوتیں ممدومعاون ہوتی ہیں ان میں لازمی طور پر ماضی کی قوتوں کا بھی کوئی نہ کوئی حصہ شامل ہوتا ہے۔
اس لئے جب اس نئی منزل کی بنیاد پر آگے کاسفر شروع ہوتا ہے تو ماضی بعید کے نقوش کی جگہ ماضی قریب کے نقوش لے لیتے ہیں۔ سفر زیادہ تیز ہو تو اس مقام پر پہنچ جانا غیر فطری نہیں جہا ں سے ماضی بعید کے خال وخط بعض اعتبارات سے بالکل بگڑے ہوئے، دھند لے یا معدوم نظر آئیں لیکن سفر کی مکمل روداد مرتب کرنی ہوتو دور افتادہ ماضی کے وجود کا اثبات ضروری ہے۔
مظفر علی سید نے اپنے ایک مضمون’’غالب کی بغاوت‘‘ (مطبوعہ فنون’ لاہور، شمارہ۔ ۱۵ اشاعت، مئی، جون ۱۹۶۹ء) میں لکھا ہے کہ، ’’اردو ادب کی جدید تحریک جس کا آغاز ہی غالب سے ہوتا ہے اب اپنی فکری نہج اور فنی اظہار کے سانچوں کے سلسلے میں غالب سے بہت دور جا چکی ہے، پھر بھی غالب کی رہبری کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ تاکہ ہم نت نئے تجربوں کی دھن میں اپنی تہذیب اور اس کے کمالات سے بالکل ہی لاتعلق ہو کر ہوا میں معلق نہ ہوجائیں۔ بغاوت کے لئے بھی مضبوط فکری بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ہماری سب شوریدگی ہوا میں ہی تحلیل ہوکر نہ رہ جائے۔‘‘ یہاں اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ بغاوت کے لئے مضبوط فکری اور تہذیبی بنیادیں قائم کرتے وقت ماضی کے بعض عناصر کو خام مواد کی حیثیت سے کام میں لانا صرف اختیاری مسئلہ نہیں ہے بلکہ تاریخ کے جبر کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اس سے رو گردانی شاید کسی بھی صورت میں ممکن نہیں۔ غالب ہی نے یہ بات بھی کہی تھی کہ،
پیش ایں آئیں کہ دارد روزگار
گشتہ آئین و گر تقویم پار
یعنی آئین روزگار کے سامنے انہیں پچھلے تمام آئین فرسودہ اور مجہول نظر آئے لیکن ان کے شعری احساس اور عملی زندگی کے تمام زاویے اپنے ماضی سے لاتعلق نہ ہوسکے۔ وہ اپنے عہد کے ساتھ خاجی طور پر سمجھوتہ کرنے کے باوجود اپنے ماضی میں بھی سانس لیتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ مٹتی ہوئی قدروں اور نئے تہذیبی تصورات کے مابین جو کشمکش جاری تھی اس کی رزم گاہ خود غالب کا شعور بھی بنا۔
کشمکش کا یہ احساس اردو غزل کے تاریخی ارتقاء میں ہر اس منزل پر زیادہ شدت کے ساتھ ابھرا ہے جہاں تہذیبی اور فکری دباؤ کے باعث پرانی منزلوں کی حیثیت کے از سر نو تعین اور نئے راستوں کو اختیار کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ جب بھی نئے راستوں کو اختیار کیا جاتا ہے، اس کی قیمت اپنے وجود (اس کے کسی جزو) کی مسلسل قربانیوں کے ذریعہ ادا کرنی پڑتی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی شخصیت کے جن اجزا سے رفتہ رفتہ کنارہ کش ہوتے جاتے ہیں، ان کی جگہ نو دریافت حقیقت اور قوتیں لیتی جاتی ہیں اور اس طرح ہر محرومی اپنا صلہ پاتی جاتی ہے اور تخلیقی استعداد کا جوہر برقرار رہتا ہے۔ اس موقع پر کھونے اور پانے کے درمیا ن توازن کی ضرورت کے علاوہ انتخاب، امتیاز اور انفرادی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر نودریافت اور تازہ کار عناصر کیفیت اور مقدار کے اعتبار سے کمتر رہے تو ماضی کی روایت ان پر غالب آجاتی ہے۔ مثال کے طور پر فراق کے چند شعر دیکھئے۔
کسی کاپی کے وہ لینا چمن میں انگڑائی
یہ رنگ دیکھ کے غنچوں کا مسکرا دینا
ستم سے لطف بھی خالی نہیں ترا ظالم
ہنسا ہنسا کے وہ مجھ کو ترا رلانا دینا
فراق شعر وہ پڑھنا اثر میں ڈوبے ہوئے
کہ یاد میرؔ کے انداز تم دلا دینا
کیوں نہ خراب ہوں وہ جو مارے ہوئے ہیں اے جنوں
نرگس مست یار کے گردش ِ روزگار کے
پوچھ نہ رات بزم میں دیکھ گئے جو انقلاب
دیکھنے والے اے فراق گردش چشم یار کے
داغ دل ابھرے تصور سے رخ رنگیں کے
کھل اٹھا مل کے گلستاں سے گلستاں کوئی
گل نہیں باد بہاری کے ابھر آئے ہیں داغ
ہائے سمجھا ہی نہیں حالِ گلستاں کوئی
ہوں وہ غمگیں کہ لہو روئیں گی میری آنکھیں
زخم ہوگا بھی مرے دل کا جو خنداں کوئی
ان اشعار میں غزل کے کسی بدلے ہوئے رنگ کی بات تو دور رہی، خود فراق کے حقیقی شعری رویوں کانشان نہیں ملتا۔ انہیں پڑھتے وقت اس بشارت کی تلاش بھی بے سود ہے جو اعلیٰ ادبی تخلیقات کو حال کے ساتھ مستقبل کی چیز بھی بنا دیتی ہے۔ ایک شعر میں فراقؔ نے میرؔ کا انداز یاد دلانے کی بات کہی ہے لیکن خود فراق نے اپنے نقطہ ارتفاع تک پہنچنے کے بعد میرؔ کے لہجے، احساس اور مزاج کو جذب کرتے ہوئے جو اشعار (بعض اوقات پوری غزلیں) کہے ہیں ان میں اور متذکرہ اشعار میں کوئی ربط، کوئی مشترکہ قدر نظر نہیں آتی۔ لیکن فراق کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس رنگ پر قانع نہیں ہوئے۔ مسلسل کوشش، جذبے کی تہذیب، اور شعری احساس کی تربیت نے بہت جلد انہیں اس درجے تک پہنچا دیا جہاں خود ان کا ماضی ان کے لئے اجنبی بن جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب فراق کے حقیقی کارناموں کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ان کے متذکرہ اشعار یا ان کی شعری صلاحیتوں کی کمزوری اور تھکن کے بعد ظہور میں آنے والی پچھلے دس بارہ سال کی غزلوں کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ اور جب فراق کا نام غزل کے مجتہدین کے ساتھ لیا جاتا ہے تو ان کے معمولی اشعار پیش نظر نہیں ہوتے۔
ایسے لوگ جو غزل کی پوری روایت، مذاق عامہ، مشاعروں کی مقبولیت اور عام پسندیدگی کے رجحانات سے اچھی طرح واقفیت نہیں رکھتے، فراق کیا میر اور غالب کی غزلوں میں بھی ایسے اشعار دیکھ کر متحیر ہوں گے جو اپنے زمانے کی عام او ر فرسودہ شاعری کی سطح سے اوپر اٹھتے نظر نہیں آتے، لیکن ہر تجربہ کسی نہ کسی حد تک خام صرف اس لئے ہوتا ہے کہ اپنی روایت کے پس منظر میں اس کے خال وخط ابھر نہیں پاتے۔ ہر تجربہ پہلے خود اپنی روایت کے غلاف میں چھپا ہوا ہوتا ہے اور اس اعلی تخلیقی استعداد کا منتظر جو نہ صرف یہ کہ اسے غلاف سے باہر نکالے بلکہ اس کی خارجی اور داخلی ہیئتوں میں نئے رنگوں کی آمیزش کرنے کے بعد اسے ایک نئے وجود سے ہم کنار کرسکے۔ غزل کی صنف اردو شاعری کی دوسری تمام صنفوں کے مقابلے میں زیادہ پختہ کار رہی ہے اور بیسویں صدی سے پہلے ولیؔ، میرؔ، سوداؔ، قائمؔ، دردؔ، مصحفیؔ، آتشؔ، ناسخؔ، غالبؔ، مومنؔ اور حالیؔ کے وسیلے سے اس نے اچھی شاعری کا جو معیار قائم کیا ہے، اس کی مثال کسی دوسری صنف سے نہیں دی جا سکتی۔ یہ معیار غزل کی قوت اور کمزوری دونوں کا مظہر بن گیا۔ ایک طرف اس معیار نے ہر عہد میں غزل کی شاعری کو ایک خاص سطح تک پہنچایا تو دوسری طرف یہ اس کے پاؤں کی زنجیر بھی بنا رہااور کسی بھی عہد کی غزل گو ئی اپنے پیش رو شعراء کے اثر سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکی۔
یہی وجہ ہے کہ غالبؔ کے ساتھ میرؔ، حالیؔ کے ساتھ غالبؔ، حسرتؔ کے ساتھ مومنؔ اور فراقؔ و فیض کے ساتھ ان کے پیش رو ایک صف اور فطری تسلسل کی لکیر میں شامل دکھائی دیتے ہیں لیکن ان میں کوئی بھی ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی نہیں ہوتا۔ غزل کی روایت زینہ بہ زینہ ان سب کو ایک ہی داستان کے مختلف ابواب کی شکل میں مرتب کرتی جاتی ہے اور ارتقائے مسلسل کی زنجیر انیسویں صدی کی تہذیبی نشاۃ ثانیہ کے ساتھ اصلاحی شاعری کے غلغلے، اس کے بعد جوش اور عظمت اللہ خاں کے اعتراضات اور ترقی پسند تحریک سے متاثر اور کبھی کبھی مضروب ہونے کے باوجود ٹوٹتی نہیں۔
ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق کے قیام کے ساتھ اردو شاعری واضح طور پر ایک ساتھ دو سمتوں میں جاتی ہوئی دکھائی دی۔ ترقی پسند تحریک اپنے دور آغاز میں قدیم ادبی تصورات کے پیش نظر ویسی ہی جدید اور غلط رو سمجھی گئی اور اسے ویسے ہی شک و شبہ کی نظر سے دیکھا اور اس کے خلاف وہی رویہ اختیار کیا گیا جو آج پرانے حلقوں کی طرف سے نئی شاعری کے سلسلے میں اختیار کیا جاتا ہے۔ اس وقت ہیئت اور موضوع کی ہر وہ شکل جو روایتی شاعری کے سانچوں میں سما نہیں سکتی تھی، ترقی پسند شاعری سے تعبیر کی گئی اور اس سلسلے میں غلط فہمیاں اس حد تک عام ہوئیں کہ حلقہ ارباب ذوق سے تعلق رکھنے والے اور ترقی پسند قائدین کی نظروں میں معتوب شعراء بھی محض اپنے نئے پن کی وجہ سے ترقی پسند سمجھے گئے۔
ترقی پسند تحریک بنیادی طور پر ارضی حقیقتوں اور مجرد حیثیت رکھنے والے تہذیبی مقاصد کی شاعری تھی۔ چونکہ اس کا منشور فرانس سے ہندوستان لایا گیا تھا اس لئے ہندوستان کی روایتوں اور اس منشور کے درمیان ایشیا اور یورپ کے امتیازات کے علاوہ طبیعی، جغرافیائی اور عمرانی امتیازات کی دیوار بھی حائل رہی۔ اس وقت تک ادب سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں ایک بین الاقوامی تہذیبی مزاج اور سائنس کی ترقیوں کے باعث رونما ہونے والی وسعت فکر ونظر کا احساس عام نہیں ہو سکا تھا۔ یہ صورت حال ہندوستان کی علاقائی زبانوں میں سب سے زیادہ اردو کو درپیش تھی کیونکہ اردو نے ۱۸۵۷ء کے انقلاب، انگریزی حکومت کے قیام، انیسویں صدی کی تمام اصلاحی تحریکات اور فکر وفن کے تمام شعبو ں می تہذیبی نشاۃ ثانیہ کے فروغ کے باوجود جاگیر دارانہ مزاج کے اثرات سے اپنے آپ کو رہا نہیں کیا تھا۔
وہ لوگ جن کے ذہن روشن تھے، زندگی کے تمام معاملات میں نئی تہذیب کی روشنیوں کو قبول کرنے کے باوجود خاص طور سے اردو شاعری کے معاملے میں خاصے کٹر اور قدامت پسند تھے۔ مشاعروں اور نشستوں کی روایت، ادب کے تفریحی تصور اور ادب کو اپنے پسندیدہ مذاق کی آسودگی کا ذریعہ سمجھنے کے رجحان نے انہیں شاعری کے معاملے میں بالعموم اپنے عہد سے پیچھے رکھا۔ حلقۂ ارباب ذوق کی شاعری نفسیاتی، حسی اور اعصابی الجھنوں نیز ایک گہری، پر پیچ اور کبھی کبھی ناقابل فہم داخلیت کی شاعری ہونے کے باعث جس ذہنی ریاضت اور تربیت کی متقاضی تھی اس کا بار اٹھانا شاعری سے عام دلچسپی رکھنے والوں کے لئے آسان نہیں تھا۔ دوسری طرف ترقی پسند تحریک جس ادبی تصور کو عام کرنا چاہتی تھی وہ اخبار اور پریس کی موجودگی میں ثقہ طبیعتوں کو غیر ضروری معلوم ہوتا تھا اور ترقی پسند شاعری کی خارجی اپیل بے رس محسوس ہوتی تھی۔
غزل کے متوازی خطوط پر چلنے والے یہ دونوں رجحانات زیادہ دور تک قابل قبول نہیں ہو سکتے تھے۔ حلقہ ارباب ذوق کے شعراء کی توجہ بیشتر نظم کی طرف رہی۔ ترقی پسندوں نے غزلیں بھی کہیں اور اس میں شک نہیں کہ فیضؔ، مخدومؔ مجروحؔ اور اسی کے ساتھ ساتھ جذبی اور مجاز کی کوششوں سے غزل اپنے حدود میں رہ کر بھی نئی معنویت سے روشنا ہوئی۔ شعری امتناعات کے سلسلے میں کسی بڑی جسارت کا ثبوت ان میں سے کسی نے نہ دیا اور ان کی شاعری کا بیشتر حصہ غزل کے معروف علائم اورشعری پیکروں سے آراستہ رہا، پھر بھی فضا کسی نہ کسی حدتک تبدیل ضرور ہوئی۔ ان شعراء میں صرف فیض نے اپنے بعد کی غزل گوئی پر کچھ اثر ڈالا۔ مخدوم کے لہجے کی غنائیت گہری اور دور رس تھی لیکن اس کی اپیل سماعت کی حدوں سے زیادہ آگے نہ جا سکی۔ مجروحؔ، جذبیؔ اور مجاز کے یہاں احساس اور فکر کی محدودیت کے باعث دوسروں کو اس حد تک متاثر کرنا کہ ان کا رنگ سخن کوئی نیا معیار بن جائے ممکن نہ ہوسکا۔
میراجی نے بہت وجد آفریں غزلیں کہیں اور اس میں شک نہیں کہ ان کے ہر شعر پر ان کے مزاج کی انفرادیت کانشا ن ثبت ہے، لیکن ان کی غزل گوئی روایت نہ بن سکی۔ اس کا سبب شاید یہی تھا کہ میراجی بجائے خود ایک نئے ادبی مزاج یا طرز فکر کا علامیہ تھے جس کی تقسیم شاعری کی مختلف صنفوں کی صورت میں ممکن نہ تھی۔ بیسویں صدی کے کسی دوسرے شاعر نے مقصد اور نظریے کے اشتراک کے بغیر ایسی زبردست خلاقانہ قوت، گہری، وسیع المعنی اور سحر آفریں بصیرت اور ذہنی زرخیزی کا ثبوت نہیں دیاجس کی مثال میراجی تھے۔
وہ بیک وقت قدیم بھی تھے اور جدید بھی اور ان کا شعری احساس اور شعور وقت کے تسلسل اور کائنات کے مختلف النوع مظاہر پر قادر ہونے کے باوجود صرف ان کی ذات کا حصہ محسوس ہوتا تھا۔ ان کی شاعری ارضی صداقتوں اور افادی و اصلاحی مقاصد کے رد عمل کی شکل میں ابھری اور بہت جلد اس نے بجائے خود ایک ایسے عمل کی حیثیت اختیار کر لی جس کی رسائی اشیاء اور موجودات کی اوپری سطح سے گذر کر اندرون تک ہوسکتی تھی۔ مجموعی طور پر میراجی کے اشعار کا سکوت نئی شاعری کی آواز بن گیا اور نئی شاعری نے تمام صنفوں میں کبھی براہ راست اور زیادہ تر بالواسطہ طور پر میراجی کے شعری رویے سے بہت گہرا اثر قبول کیا۔
فراقؔ، یگانہؔ اور شادؔعارفیؔ کی آوازیں تین مختلف سمتوں اور سطحوں کاپتہ دیتی ہیں۔ فراقؔ نے ذاتی تجربوں کی رمزیت میں گہرے اور وسیع معافی تلاش کئے۔ میرؔ کا سادہ، دلآویز اور غیر رسمی لہجہ اختیار کیا اور پھر اس لہجے کی شیڈس سے اپنی آواز کو سنوارا۔ یگانہ کی حیثیت تصنع اور تکلف سے آراستہ شعری ماحول میں ایک ناراض، اکھڑ اور حوصلہ مند بوڑھے کی تھی۔ شاد عارفی ذاتی محرومیوں کے باعث خستہ وپریشان حال فرد بن کر اپنے معاشرے کو طنز، تضحیک اور سرزنش کاسزا وار سمجھتے تھے۔ ان تینوں شعراء کے یہاں اپنی ذات سے والہانہ عقیدت، اپنے احساس اور شعور کی شدید بصیرت اور انفرادیت کی قوت کا احساس ملتا ہے۔ شاد عارفی کی فکر کا دائرہ اور علم کی حدیں نسبتاً محدود تھیں۔ اس لئے ان کی شاعری بہ یک وقت شیخی بازی اور فقرے بازی دونوں کی مثال بن گئی۔ خودترحمی اور خودتزئینی کی سطح سے بلند ہوکر جہاں کہیں انہوں نے اپنی نظر کو آزاد کیا ہے، لفظ اور معنی کے خاصے تاب ناک اور نوکیلے پیکر ان کی گرفت میں آئے ہیں۔
یگانہ کے یہاں ذاتی زندگی میں عزت نفس کے تحفظ کا احساس بہت گہرا تھا۔ اسی احساس نے ان کے شعری مزاج میں ایک تندو تیز اور سرکش جذبے کی صورت اختیار کر لی جس نے انہیں اس حد تک پہنچا دیاکہ وہ اردو شاعری کے دو غالب ترین رجحانات یا سر چشموں، غالب اور اقبال کی عظمت کے منکر ہو گئے۔ یہ انکار دراصل غالب اور اقبال کے شعری کمال کے اثبات کا خارجی رد عمل تھا۔ چنانچہ یگانہ کے یہاں ان دونوں کی آوازوں کا سراغ ملتا ہے۔ فراقؔ نے نثر ونظم کے ذریعہ جا بجا میرؔ کے اثرات کا خود اعتراف کیا ہے۔ میرؔ سے قطع نظر ان کی ابتدائی شاعری پر داغؔ اور امیرؔ اور بعد کے کلام پر قایمؔ، مصحفیؔ اور آتش کے اثرات بھی بہت واضح ہیں۔ ان تینوں شعراء کی اہمیت کا سبب ان کی انفرادیت ہے جوان کی منتخبہ روایت کے دائروں میں رہ کر بھی اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے اور تخلیقی عمل کے خو ش نصیب لمحوں میں ایک نئی روایت کی تشکیل کا سامان بھی مہیا کرتی ہے۔
یہاں فطری طور پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر غالب سے لے کر فراقؔ و فیضؔ تک مختلف ادوارمیں غزل نے اپنی روایت کے عناصر کو جذب کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا، تو نئی غزل کے امتیازات کا تعین کس طرح ہو سکےگا۔ فن اور فکر کی بعض دائمی قدریں ہر عہد کی اچھی شاعری کا خاصہ ہوتی ہیں لیکن چوں کہ اچھی شاعری اور نئی شاعری ہم معنی الفاظ نہیں ہیں، اس لئے نئی غزل کے فکری اور فنی امتیازات کیا ہوں گے جواس کے اور اچھی غزلیہ شاعری کے درمیان ایک حد فاصل قائم کر سکیں؟ نئی شاعری ترقی پسند تحریک کے رد عمل کا پتہ دیتی ہے۔ متعدد ایسے شعرا جو ترقی پسند تحریک کی پیش رو ادبی روایت سے الگ ہوکر اس تحریک میں صرف اس لئے شامل ہوئے تھے کہ یہاں انہیں فکر واحساس کی تازہ کاری کے لئے بہتر فضا ملنے کی توقع تھی، رفتہ رفتہ اس تحریک کے سماجی اور اجتماعی مقاصد اور بڑی حدتک غیر ادبی فریق کار سے دل برداشتہ ہوکر اس سے الگ ہو گئے۔ اس طرح نئی شاعری کی روایت کا آغاز باغیانہ اقدام کی حد تک کم و بیش انہیں خطوط پر ہوا جو ترقی پسند تحریک نے اختیار کئے تھے۔ جو بات ان خطوط کو ایک دوسرے سے مختلف اور آزاد حیثیت عطا کرتی ہے، وہ سمتوں کا اختلاف ہے۔
نئی غزل کا نقش اول ناصر کاظمی کی غزلیں ہیں۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ ’’برگ نے‘‘ کی اشاعت غزل کے ایک نئے طور کا تعارف ہے۔ ہندوستان میں نئی غزل کا آغاز خلیل الرحمن اعظمی کے ساتھ ہوتا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی کی تربیت جس شعری فضا میں ہوئی اس پر روایت اور ترقی پسندی دونوں کے اثرات خاصے روشن تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندی سے وابستگی کے زمانے میں بھی ان کی شاعری ماضی بعید کے ان شعرا سے قطع تعلق نہ کر سکی جو ذہنی اعتبار سے ترقی پسندی سے غیر ہم آہنگ ہونے کے باوجود خود نگری کے اس رجحان کی نمائندگی کرتے تھے جسے کسی بھی عہد کی اچھی شاعری میں اہمیت حاصل رہے گی۔ میری مراد میرؔ، آتشؔ اور فراقؔ سے ہے جن کا ادبی مزاج غزل کی عام روایت سے ہم رشتہ ہوکر بھی وجودی اور انفرادی تجربوں کے اظہار کو اولیت دیتا ہے۔ میرؔ کی دروں بینی اور خود نگری، آتش کی سرشاری اور لب و لہجے کی مردانگی اور فراق کا مدھم اور پرسوز اور کھردرا لیکن مہذب احساس، اس تثلیث کی مرکزی معنویت، ذات اور اس کے تناظر میں کائنات کے اسرار و رموز کا احاطہ کرتی ہے۔
ان تینوں شعرا کے یہاں داخلیت کی آنچ اتنی تیز ہے کہ ہر جذبہ سیال ہوکر پورے وجود پر پھیل جاتا ہے لیکن جس طرح میرؔ، آتشؔ اور فراقؔ کے حقیقی مزاج کو سمجھنے کے لئے ان کی شاعری کے مجموعی تاثر میں ان کے انفرادی لہجے کی دریافت ضروری ہے، اسی طرح خلیل الرحمن اعظمی کی غزلیہ شاعری میں بھی نئی غزل کے عناصر کی پہچان کے لئے انتخاب اور امتیاز کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی کی غزل اپنے ابتدائی دور میں میرؔ اور آتش کے علاوہ غزل کی مروجہ روایت سے بھی متاثر تھی۔ غالبؔ اور فراقؔ کی ابتدائی شاعری میں بھی ان کے انفرادی احساس اور وجدان کا رنگ نہ ہونے کے برابر تھا لیکن جس طرح محض سنگ بنیاد کی روشنی میں اس پر قائم ہونے والی دیوار کی قامت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، اسی طرح ان کی شاعری کے ابتدائی دور میں نمو پذیر رجحانات سے ان کے مکمل ادبی کردار کا تعین ممکن نہیں۔
غزل کے فارم کی حد بندیاں، علائم اور لفظیات کے محدود دائرے اور اشارے و کنائے کی زبان کے حدود کسی بھی نئے غزل گو کی خلاقانہ جسارت پر کئی احتسابات عائد کرتے ہیں۔ شعری عمل کی پہلی منزل پر موزونی طبع کا امتحان درپیش ہوتا ہے۔ جب یہ موزونی مزاج کا جزو بن جاتی ہے تو اس کی اہمیت کا احساس بھی زائل ہو جاتا ہے لیکن خود اعتمادی کے اس مقام تک پہنچنے کے لئے فکری وفنی ریاضت کی ایک مدت ضرور درکار ہوتی ہے۔ یہ ریاضت ایک خارجی، بیرونی اور منطقی عمل ہے جس کا شعر کے باطن اور اس کی داخلی منطق سے صرف اتنا علاقہ ہے کہ یہ غیر مرئی حسی تجربوں کو مشہود یا محسوس پیکر عطا کرتی ہے۔ گزشتہ صفحات میں فراق کے حوالے سے جو اشعار نقل کئے گئے ہیں، ان سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شعر گوئی کے ابتدائی زمانے میں ان کا کلام چند ایسے جذبات کے منظوم اظہار سے مختلف نہیں تھا جو غزل کی شریعت میں ان دنوں لازمے کی حیثیت رکھتے تھے۔
آج جب ہم ان اشعار پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کا تاثر ہمارے احساس یا شعور کے لئے کوئی اپیل نہیں رکھتا۔ ان کے زمانی پس منظر میں یہی اشعار بے رنگ اور بے جان ہونے کے باوجود ایک عمومیت زدہ وجود رکھتے ہیں۔ انحراف سے پہلے اکتساب کی منزل آتی ہے۔ اکتساب بہر صورت ایک خارجی عمل ہے اور جب تک انفرادی مزاج کے جزو لازم کی حیثیت سے اس میں مدغم نہ ہو جائے، اس کی ہیئت اور معنویت مصنوعی نیز حسی شدت اور وفور سے عاری حقیقت کی ہوتی ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی کی ابتدائی شاعری میں ایسی مثالوں کا مل جانا فطری ہے جن میں ان کی انفرادیت کے خال و خط نمایاں نہیں، بلکہ ان کی روایت میں اس طرح پیوست ہیں کہ انہیں الگ کرنا بھی محال ہے۔ پھران کی نظر فراقؔ، یگانہ اور شادؔ عارفی کے REJECTIONS، میراجی اور حلقہ اربابِ ذوق کی دروں بینی اور ترقی پسند تحریک کے شور اور شکست پر پڑی۔
دراصل شعری روایت کی یہی منزل بڑی روایتی شاعری، اچھی روایتی شاعری، ترقی پسند شاعری اور نئی شاعری کے امتیازی اوصاف کی نشاندہی کاپہلا نقش ثبت کرتی ہے۔ شعور، اجتماعی لاشعور، وراثت، بیرونی جبر اور تخلیقی عمل کی داخلی پیچیدگیاں، مقصد اور زندگی کی لایعینیت کا تصادم، قدامت پسند معاشرے اور سائنسی وصنعتی تہذیب کے باہمی تنازعات، ان تمام مسائل پر یہیں سے باقاعدہ غور و فکر کا سلسلہ شروع ہوا۔ ۱۹۴۷ء کے فسادات کی شب گزیدہ سحر نے کئی اوہام کے اصنام خیالی کو ریزہ ریزہ دیکھا۔ پاکستان میں ناصر کاظمی نے ہجرت کے المیے، وطن میں بے وطنی کے تجربے، ایک مٹتی ہوئی دل آویز تہذیب کے ماتم اور خوف، ویرانی اور پرشور سناٹے سے گراں بار فضا کو ملا جلا کر اس دنیا کی تشکیل کی جو ان کے احساس میں موجود اور آنکھوں سے اوجھل تھی۔ اجتماعی جرائم میں ایک حساس اجنبی کا جبریہ اشتراک اور رد عمل کی شکل میں ابھرنے والی ذاتی محرومی، ناکامی اور لاحاصلی کا درد انہیں میر صاحب کے درد سے مماثل نظر آیا، جنہوں نے شہاں کی آنکھوں میں پھرتی ہوئی سلائیوں کی اذیت اور گرد وپیش کی خوں آشام فضا سے مغائرت کے باوجود اس کا کرب ذاتی المیے کی حیثیت سے قبول کیا تھا۔
آفاق کی کارگہہ شیشہ گری کی نزاکت، دونوں ہاتھوں میں سنبھالی ہوئی دستار کی بے حرمتی کے اندیشے، پورب کے ساکنوں میں ایک عظیم المرتبت تہذیبی مرکز کے مقہور اور مغرور اجنبی کی تنہائی کے احساس نے میرؔ کو جس لازوال اور بیکراں سکوت سے آشنا کیا، وہی ان کی آواز کا خمیرہے۔ ناصر کاظمی کی آواز کے حسیاتی محرکات بھی اسی خمیر سے ہم آہنگ ہیں۔ اسی لئے ان کی آواز میں میرؔ کی ہم صفیری کے باوجود وہ فرق بھی دکھائی دیتا ہے جو ایک ہی المیے سے دوچار دو افراد کے مابین، ذات اور ذات کے مابین فرق سے پیدا ہوتا ہے۔ ہندوستان کی اردو شاعری میں اسی موڑ پر مختلف البنیاد عناصر کی آمیزش ہوئی۔ خلیل الرحمن اعظمی کی شاعری ایک کلچر اور اس کی قدروں کے زوال کے بعد کسی نوزائیدہ تہذیبی قدر کی ترجمانی یا اجڑے ہوے کلچر کا نوحہ یا محرومی کے احساس کو زائل کرنے کے لئے کسی سیاسی اور تہذیبی انقلاب کا نقیب بننے کے بجائے ایک بے کلچر معاشرے میں ایک فرد کی آواز بن گئی۔
وہ بہت جلد میرؔ کے اثر سے آزاد ہو گئے کیونکہ میر ایک منتشر اور محصور تہذیبی فضا سے الگ ہوکر بھی شعری رویے اور انفرادی تجربے کے اعتبار سے ایک منظم اور بامعنی معاشرے کے فرد تھے، جس کی ترتیب و تہذیب حالات کی تلخیوں سے متاثر ہوکر بھی بعض اصولوں پر قائم تھی۔ اس کے برعکس خلیل الرحمن اعظمی کی غزل گوئی جس مقام پر ہندوستان کی نئی غزل کا حرف اولیں بنتی ہے، وہاں زندگی کے تمام اصول، نظریے، بیرونی رشتے اور معتقدات ہمارے عہد کے تہذیبی افلاس اور پراگندگی کی زد میں آکر ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ یہیں سے ان کی شاعری میر کے طرز فکر اور ترقی پسند تحریک کے ادعائی زاویہ نظر دونوں سے الگ ہوکر ان کے باطن سے ایک براہ راست اور قائم بالذات رشتہ استوار کرتی ہے۔ 1
زندگی کی رفتار، اس کے شور شرابے اور بے معنویت کے سیل کی زد میں فرد کی بےچارگی اور ذات کے تحفظ کے مسائل اس شکل میں اس سے پہلے کبھی نہ ابھرے تھے۔ متصوفانہ شاعری میں انسان اور کائنات کے مظاہر کے درمیانی روابط کا جو ادراک ملتا ہے اور جس کا عکس میرؔ، غالبؔ اور آتشؔ سب کے یہاں دکھائی دیتا ہے، دراصل ایک وسیع اور شش جہت خواب کی بنیادوں پر قائم تھا۔ ترقی پسند تحریک نے شاعری کو خواب محض یا مجہول اور غیر متحرک زندگی کے جال سے رہا کرکے اسے مجرد حقیقتوں کے بالمقابل لانے کی کوشش کی اور اس میں شک نہیں کہ یہ رویہ اپنے پس منظر میں زیادہ حقیقی، فعال اور زندہ سچائیوں سے قریب تر ہے، لیکن ایک تو یہ کہ اس رویے کے رشتے ادب کی قائم بالذات صداقت سے زیادہ اپنے عہد کے سیاسی اور معاشرتی و معاشی مسائل سے مربوط تھے، دوسرے یہ کہ اس حقیقت پسندی کا سرچشمہ آزاد بصیرت کے بجائے ایک متعین اور مضبوط سیاسی منشور تھا جس ک امنتہا یہ تھا کہ ایک مخصوص معاشی اور تہذیبی سماج کی تشکیل کی جائے۔
یہ رویہ سماجی اعتبار سے خواہ کتنا ہی اہم اور کارکشا کیوں نہ ہو لیکن ادبی تصور کی حیثیت سے بہت جلد خام اور ناقص ثابت ہوا۔ ’’نیا عہد نامہ‘‘ کے پیش لفظ میں خلیل الرحمن اعظمیؔ نے خاصی تفصیل کے ساتھ اپنے اس ذہنی سفر کی رو داد بیان کی ہے جو روایت اور ترقی پسندی سے گزر کر عصری استفسارات اور ہمارے عہد کی ذہنی وجذباتی کشمکش، اضطراب اور جستجو سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اختر الایمان، وحید اختر، باقر مہدی، عمیق حنفی، قاضی سلیم، شہاب جعفری، شاذ تمکنت، عزیز قیسی، بلراج کو مل، ان سب کے یہاں تبدیلی کی وہ فضا ملتی ہے جس کا ایک سرا ترقی پسند تحریک سے اور دوسرا نئی شاعری کے اساسی پہلوؤں سے مربوط ہے۔ بزرگ ادیبوں میں فراق گورکھپوریؔ، آل احمد سرور، 2 اور شاعری کی حد تک سردار جعفری، مخدومؔ اور احمد ندیم قاسمی کے یہاں بھی معینہ نتائج تک لے جانے والی شاعری سے ناآسودگی اور انحراف کا عنصر نمایاں ہے۔
خلیل الرحمن اعظمی کی شاعری کے دوسرے دور، یعنی ترقی پسند تحریک سے علیحدگی اور قطع روابط کے بعد کی غزلوں میں سب سے پہلے وہ فضا نمودار ہوئی جو قصیدے کے گریز سے مماثل ہے۔ یعنی یہ کہ جس کا ایک سرا اپنی روایت (تشبیب) سے منسلک ہے اور دوسرا نئی شاعری اور نئی شاعری کے توسط سے ادب میں متعارف ہونے والی نئی زندگی کی یادوں سے مربوط ہے۔ یہیں سے ہندوستان میں نئی غزل کی زبان اور اس کے داخلی لہجے میں بھی تبدیلی کا آغاز ہوتا ہے۔ اردو غزل میں مقبول عام روایتوں کا بار کم ہوتا ہے اور برس ہا برس کے استعمال سے مضمحل لفظی اور حسی پیکروں میں نئے خون اور نئی معنویت کی گردش کا احساس ہوتا ہے۔ انتشار، بے ترتیبی اور اصوات اور احساسات کی سطح پر مرتکز ذہنی ماحول کی حدیں قائم ہوتی ہیں،
قفس رنگ سے نکلی تو ٹھکانہ نہ ملا
بوئے گل جب سے اڑی اور بھی بے حال رہی
زندگی تیرے لئے سب کو خفا ہم نے کیا
اپنی قسمت ہے کہ اب تو بھی خفا ہم سے ہوئی
سر اٹھانے کا بھلا اور کسے یارا تھا
بس ترے شہر میں یہ رسم ادا ہم سے ہوئی
بار ہستی تو اٹھا، اٹھ نہ سکا دست سوال
مرتے مرتے نہ کبھی کوئی دعا ہم سے ہوئی
کچھ دنوں ساتھ لگی تھی ہمیں تنہا پاکر
کتنی شرمندہ مگر موج بلا ہم سے ہوئی
وادیٔ غم میں مجھے دیر تک آواز نہ دے
وادیٔ غم کے سوا میرے پتے اور بھی ہیں
ٹھنڈی ٹھنڈی سی، مگر غم سے ہے بھرپور ہوا
کئی بادل مری آنکھوں سے پرے اور بھی ہیں
شب گزشتہ بہت تیز چل رہی تھی ہوا
صدا تو دی پہ کہاں تک تمہیں صدا دیتے
بھلا ہوا کہ کوئی اور مل گیا تم سا
وگر نہ ہم بھی کسی دن تمہیں بھلا دیتے
بار ہا سوچا کہ اے کاش نہ آنکھیں ہوتیں
بار ہا سامنے آنکھوں کے وہ منظر آیا
زندگی چھوڑنے آئی مجھے دروازے تک
رات کے پچھلے پہر میں جو کبھی گھر آیا
تیری دیوار کا سایہ نہ خفا ہو مجھ سے
راہ چلتے یوں ہی کچھ دیر کو آ بیٹھا تھا
اے شب غم مجھے خوابوں میں سہی، دکھلادے
میراسورج تری وادی میں کہیں ڈوبا تھا
میں ڈھونڈنے چلا ہوں جو خود اپنے آپ کو
تہمت یہ مجھ پہ ہے کہ بہت خود نما ہوں میں
جب نیند آ گئی ہو صدائے جرس کو بھی
میری خطا یہی ہے کہ کیوں جاگتا ہوں میں
اے عمر رفتہ! میں تجھے پہچانتا نہیں
اب مجھ کو بھول جاکہ بہت بے وفا ہوں میں
سوتے سوتے چونک پڑے ہم، خواب میں ہم نے کیا دیکھا
جو خود ہم کو ڈھونڈ رہا ہو ایسااک رستہ دیکھا
دور سے ایک پرچھائیں دیکھی، اپنے سے ملتی جلتی
پاس سے اپنے چہرے میں بھی اور کوئی چہرا دیکھا
رات وہی پھر بات ہوئی نا، ہم کو نیند نہیں آئی
اپنی روح کے سناٹے میں شور سا اک اٹھتا دیکھا
ابلتے دیکھی ہے سورج سے میں نے تاریکی
نہ راس آئےگی یہ صبح ز رنگار مجھے
عمر بھر مصروف ہیں مرنے کی تیاری میں لوگ
ایک دن کے جشن کا ہوتا ہے کتنا اہتمام
وہ لوگ اب کہاں ہیں وہ چہرے کدھر گئے
اے ثمر حسن کس کی تجھے بد دعا لگی
سایے سے کچھ قریب ہوکر گذر گئے
پچھلے پہر کو آنکھ ابھی تھی ذرا لگی
بس اک حُسین کا نہیں ملتا کہیں سراغ
یوں ہر زمیں یہاں کی ہمیں کربلا لگی
ان اشعار میں خلاقانہ جسارت اور باغیانہ حوصلہ مندی کاوہ اندازنہیں ملتا جو اینٹی غزل کا طرہ امتیاز ہے۔ ان میں وہ شعری کرتب اور لسانی داؤں پیچ بھی بردئے کار نہیں لائے گئے ہیں جن کا حوالہ بعض لوگوں کے نزدیک نئی غزل کے ساتھ ضروری ہے۔ دھواں، آسیب، کھنڈر، دشت، ریت، سایہ، ہوا، شہر، جنگل، پیاس، بادل جیسے الفاظ جنہیں مقلدانہ نئی شاعری میں ناگزیر لفظی ومعنوی علائم کی حیثیت حاصل ہے، متذکرہ اشعارمیں اپنے مخصوص اور متعین اصطلاحی معنوں میں کہیں استعمال نہیں ہوئے۔ ان کا مجموعی آہنگ اچھی غزل کے مروجہ آہنگ کے ساتھ بے جوڑ نہیں دکھائی دیتا لیکن ان سے احساس و ادراک کی جو شعاعیں پھوٹتی ہیں اور اجتماعی زندگی کے رد عمل کی شکل میں ابھرنے والے جن وجودی تجربوں کی فضا خلق ہوتی ہے وہ ہمارے عہد کی فضا ہے۔ انسانی تہذیب کے ارتقاء کی ابتدائی منزلوں سے اب تک کوئی بھی عہد فنون لطیفہ کی شکل میں یکسر نئے موضوعات کے ساتھ ہمارے سامنے نہیں آیا۔ موضوعات کی اہمیت، ان کا درجہ اور تناسب، ان کی اپیل اور ان کے آئینے میں منعکس ہونے والے ذہنی، جذباتی، عقلی اور وجدانی رویے انہیں رنگا رنگی اور تازگی عطا کرتے ہیں۔
مختلف سیاسی، تہذیبی، مادی اور معاشی حالات کے تحت جو صداقتیں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہیں وہ مجرد ہیئت کے ساتھ ادب یا فن کے دائروں میں جگہ نہیں پاتیں۔ اس کے لئے انہیں فن کار کے شعور سے اس کے جذبے تک اور پھر جذبے کی وساطت سے احساس کی اس منزل تک جہاں اس کی ذات اور احساس کے درمیان کوئی حجاب نہ ہو، پہنچنا پڑتا ہے۔ اسی منزل پر خون جگر معجزہ فن کی نمود کا وسیلہ بنتا ہے۔ اوپر جو اشعار نقل کئے گئے ہیں ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک عام شعری روایت کس طرح ایک انفرادی تخلیقی تجربے کا جزو بنتی ہے۔ ان اشعار میں رفتگاں کی آوازوں کا سراغ ملتاہے لیکن لمحہ بہ لمحہ معدوم ہوتا ہوا۔ ناصر کاظمی، احمد مشتاق، شہزاد احمد، ابن انشا، سلیم احمد، ظفر اقبال، منیر نیازی، اور ان کے بعد شہر یار، ساقی فاروقی، شکیب جلالی سے لے کر عدیم ہاشمی تک کے یہاں ماضی کے فنی تصورات، غزل کی مجبوریوں میں گھری ہوئی آزادی کے مانوس مظاہر اور غزل کی مروجہ زبان میں صرف اپنی بات کہنے کا انداز ملتا ہے۔ کبھی کبھی روایت کی لے اتنی تیز بھی ہو جاتی ہے کہ نئے غزل گو کا لہجہ دبتا ہوا محسوس ہوتا ہے،
زندگی نے ہاتھ سے خنجر نہ رکھا ایک پل
ہم قتیل غمزہ و ناز بتاں ہوتے رہے
زبیر رضوی
یا تیرے علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے
یا اپنی محبت پہ بھروسہ نہیں ہم کو
شہریار
ہیں ختم اہل درد پہ یہ وضع داریاں
جس موڑ پر ملے تھے اسی پر جدا ہوئے
شہر یار
وہ دوستی تو خیر اب نصیب دشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا
ناصر کاظمی
یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
ناصر کاظمی
جانے کس عالم میں تو بچھڑا کہ ہے تیرے بغیر
آج تک ہر نقش فریادی مری تحریر کا
احمد فراز
داغ ہے اس کے نہ ہونے سے دلوں میں اب تک
اڑ گیا مثل صبا، گل کی حقیقت دیکھو
منیر نیازی
اے صبا آکہ دکھائیں تجھے وہ گل جس نے
باتوں ہی باتوں میں گلزار کھلا رکھا ہے
سلیم احمد
ظلم کرتے ہو مگر اف نہیں کرنے دیتے
تم سے اچھے کہ تڑپنے تو دیا کرتے تھے
شہزاد احمد
آخر کار ہوئے تیری رضا کے پابند
ہم کہ ہر بات پر اصرارکیا کرتے تھے
شہزاد احمد
کبھی حرم میں ہے کافر تو دیر میں مومن
نہ جانے کیا! دل دیوانہ تیرا مذہب ہے
عمیق حنفی
وحشت آمادہ رسوائی ہے بے خوف جہاں
ضبط کا ہے یہ تقاضہ کہ تماشہ نہ بنے
وحید اختر
گھر اپنا تو بھولی ہی تھی آشفتگی دل
خود رفتہ کو اب در بھی ترا یاد نہیں ہے
وحید اختر
وہ تجلی کی شعاعیں تھیں کہ جلتے ہوئے تیر
آئینے ٹوٹ گئے آئینہ بردار گرے
شکیب جلالی
مثال ایسی ہے اس دور خرد کے ہوش مندوں کی
نہ ہو دامن میں ذرہ اور صحرا نام ہو جائے
شکیب جلالی
مفہوم نوائے راز کیا تھا
آواز شکست ساز کیا ہے
شہاب جعفری
میں رقص کرتا رہا ساری عمر وحشت میں
ہزار حلقہ زنجیر بام و در میں رہا
ساقی فاروقی
کچھ تو سراغ مل سکے موسم درد ہجر کا
سنگ جمال یار پر نقش کوئی بنائے
احمد مشتاق
یہ سب تری مہکی ہوئی زلفوں کا کرم ہے
اک سانس میں اک عمر کا دکھ بھول گیا ہوں
محمد علوی
پھر صباسوئے چمن آنے لگی
بوے گل زنجیر پہنانے لگی
محمد علوی
کچھ آبلہ پا سے فروزاں ہے رہ زیست
کچھ روشنی شمع یقیں ہے مرے دل میں
ظفر اقبال
اصنام سے دیرینہ تعلق کی بدولت
میں کفر کا، ہر دور میں ایمان رہاہوں
سلیمان اریب
دامن یار پہ حق اپنا جتایا نہ کبھی
اشک امڈے بھی تو پلکوں میں چھپائے ہم نے
سلیمان اریب
جیسے پہلوئے طرب میں کوئی نشتر رکھ دے
آج تک یاد ہے تیری نگہ یاس مجھے
شاذ تمکنت
جامِ خوش رنگ تہی ہے، مجھے معلوم نہ تھا
اپنی ٹوٹی ہوئی توبہ پہ ہنسی آئی ہے
شاذ تمکنت
راہ وفا دشوار بہت تھی، تم کیوں میرے ساتھ آئے
پھول سا چہرہ کمھلایا اور رنگ حنا پامال ہوا
اطہر نفیس
ان سے پیمان وفا جن سے تعلق نہ لگن
ہم نے کیا کیا نہ کئے تجھ کو بھلانے کے جتن
محمود ایاز
اندھیرے میں بڑی ہی روشنی ہو
اگر پلکوں پہ تارے جھلملائیں
پرکاش فکری
جب اس گل رو گل دامن کی بات چھڑی مستانوں میں
ساغر ساغر کلیاں مہکیں پھول کھلے پیمانوں میں
بمل کرشن اشک
خوشی کلی نہ بنی غم میں بے کسی نہ رہی
کبھی کبھی تو کہیں کوئی روشنی نہ رہی
ندا فاضلی
خوشبوئے زلف یار کی مے پی کے آئی ہے
باد صبا یونہی تو نہیں لڑکھڑائی ہے
جس کی گلی میں جان بچانا محال ہے
اس کی گلی میں جانے کی پھر دھن سمائی ہے
عادل کسی کی چشم غزالیں میں اشک غم
یوں لگ رہا ہے جیسے قیامت ہی آئی ہے
عادل منصوری
قریب تھا کہ میں کارجنوں سے باز آؤں
کھنچی خیال میں تصویر کو ہکن کیا کیا
عبید اللہ علیم
ان کا خیال ہر طرف، ان کا جمال ہر طرف
حیرت جلوہ روبرو، دست سوال ہر طرف
شمس الرحمن فاروقی
مشکل پسندیوں سے طبیعت جو خوش ہوئی
دشواریوں کو حیلہ آسان مل گیا
حسن نعیم
اب چراغوں کی ضرورت بھی نہیں
چاند اس دل میں چھپا ہو جیسے
بشیر بدر
اوپر جو اشعار میں نے نقل کئے ہیں وہ سب کے سب ہمارے عہد کی غزلوں سے لئے گئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی شاعری کے بارے میں دورائیں نہیں ہیں اور عام طور پر انہیں نئی شعری روایت سے منسوب کیا جاتا ہے۔ طوالت کے خیال سے میں نے مثالیں اور زیادہ نہیں جمع کیں، ورنہ ہمارے عہد کے تقریباً سبھی نئے غزل گویوں کے یہاں اس رنگ کے دائرے میں آنے والے اشعار بآسانی مل جائیں گے۔ ظفر اقبال کے ’’آب رواں‘‘ اور ناصر کاظمی کے ’’برگ نے‘‘ میں ایسی غزلیں بھی مل جائیں گی جن کا مجموعی تاثرمحولہ بالا اشعار کی فضا سے قریب ہوگا۔ ان اشعار میں لفظوں، مرکبات، علائم، استعاروں اور کنایوں سے قطع نظر خیال اور جذبے کی بھی وہی بنیادیں اور سطحیں ملتی ہیں جو اردو غزل کی روایت میں عام ہیں۔ ان میں کہیں کہیں شاعر کی انفرادیت روایتی آب ورنگ پر اس طرح غالب آ گئی ہے کہ اس کا ذاتی احساس لفظوں اور علائم کی فرسودگی کے باوجود پنی زمین میں جذب نہیں ہو سکا ہے، لیکن بیشتر اشعار اپنی روایت کی سطح سے بلند ہوتے ہوئے نہیں دکھائی دیتے۔
تغیر پذیر فکری اور فنی میلانات کی فضا میں سرتا پا مختلف آہنگ اور احساس کی تعمیر ممکن بھی نہیں۔ اوپر جن شعرا کے حوالے دیے گئے، ان میں سے بیشتر نے آگے چل کر اپنی روایت اور ذاتی تخلیقی عمل کے درمیان ایک فاصلے کا احساس دلایا اور ایسے شعر بھی کہے جو خود ان کے ابتدائی شعری مزاج سے بہت زیادہ مطابقت نہیں رکھتے۔ ایسا ہونا بھی بالکل فطری ہے کیونکہ جیسے جیسے نئے محرکات اور نامانوس حقائق تجربے کامعمول بنتے جاتے ہیں، ان کے انوکھے پن کے رد عمل سے ابھرنے والی استعجابی کیفیت کم ہوتی جاتی ہے۔
آج غزل کی خارجی اور داخلی ہیئت میں ایسی تبدیلیاں آچکی ہیں کہ ماضی بعید کی روایت کا کوئی سرا کبھی کبھی اس سے وابستہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ نسبتاً کم عمر شعرا نے ظفر اقبال، شکیب جلالی یا احمد مشتاق کے جن معیاروں کو اپنے لئے نمونہ بنایا، وہ تجربوں کی ایک طویل شاہراہ سے گذر کر توانا اور مستحکم معیار کی حیثیت اختیار کر سکے تھے۔ خام اور ناپختہ اذہان نے تربیت اور ریاضت کی ایک لازمی حد کو عبور کئے بغیر تقلید کی جس روش کو اختیار کیا ہے اس کے نتائج بظاہر تو دلچسپ، شگفتہ اور غیر رسمی معلوم ہوتے ہیں لیکن اس موقع پر مارسل پر وست کے یہ جملے بھی یاد رکھنے کی چیز ہیں، ’’اگر ہمارے بارے میں ہر شخص یہ کہہ رہاہے کہ ایسے ذہین لوگ کبھی پیدا نہیں ہوئے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انداز بیان کے کچھ ایسے طرز ہیں جو متعدی ہیں اور جنہیں ایک صحافی، جس میں ذرا بھی صلاحیت ہے، چند سال میں سیکھ سکتا ہے، بالکل ایسے جیسے کسبی اپنے پیشے کو سیکھ لیتی ہے۔‘‘ (ترجمہ جمیل جالبی، نیا دو کراچی، شمارہ ۱۱، ص۵۵)
ترقی پسند تحریک کے زمانہ عروج میں بھی مقصد سے والہانہ دل بستگی اور نظم میں ہیئت و فکر کے مختلف النوع تجربوں کی کو رانہ تقلید نے غزل کے لفظی پیکر اور معنوی فضا کو بری طر ح متاثر کیا تھا۔ غزل کی روایت نئی ہو یا پرانی، مشرقی شاعری کے چند ناگزیر فنی تقاضوں سے الگ کرکے قائم نہیں رکھی جا سکتی۔ اس کی ساخت اور اختصار اس کا عیب بھی ہے اور حسن بھی۔ میر سے لے کر ظفر اقبال تک نے اسے جب تک اس کی مخصوص اور منفرد ہیئت، مزاج اور اس کے ناگزیر فنی مطالبات کے ساتھ اختیار کیا، یہ ہر عہد میں اس عہد کے تہذیبی رمز اور تخلیقی معنویت کا استعارہ بنتی رہی۔ گلافتاب کے ساتھ ظفر اقبال نے ’’اردو مستقبل کا جو خواب نامہ‘‘ مرتب کیا ہے، وہ اس وقت تک بجائے خود ایک سوال بنا رہےگا جب تک کہ غزل اس کی تعبیر بن کر بھی اپنی سرخ روئی کو برقرار نہ رکھ سکے۔
حاشیے
(۱) THE ONLY JOB WHERE YOU START AT THE TOP IS DIGGING A HOLE--- THE FURROW.
(۲) THE PROGRESS OF AN ARTIST IS A CONTINUAL SELF SACRIFIE, A CONTINUAL EXTINCTION OF PERSONALITY.--- T.S. ELIOT
(۳) ابھی یہ مضمون نامکمل تھا کہ ایک معاصر سہ ماہی میں ’’نئی شاعری۔۔۔ نئی تنقید‘‘ کے نام سے ایک مضمون نظر سے گزرا۔ صاحب مضمون نے ایک مضمون کے حوالے سے ہندوستان میں نئی غزل کے آغاز کے سلسلے پر بھی اظہار خیال کیا ہے اور وہی رویہ اختیار کیا ہے جو ذہنی تعصبات میں الجھنے کے باعث تنقید کو سنجیدہ، بامعنی اور بصیرت افروز بنانے کے بجائے طنز و تشنیع اور غم و غصہ کے اظہار کی دستاویز بنا دیتا ہے۔ صاحب مضمون نے یہ وضاحت کرنے کے بجائے کہ ہندوستان میں نئی غزل کا نقطہ آغاز کیا ہے اور کس شاعر کے یہاں روایت اور نئی شاعری کی درمیانی کڑی کا سراغ ملتا ہے، اپنے مضمون میں صرف اتنا کہنے پر قناعت کی ہے کہ خلیل الرحمن اعظمی کے چند اشعار میں، جنہیں وہ زیر بحث لائے ہیں، الفاظ کے تخلیقی استعمال کا سلیقہ بھی نہیں ملتا۔ اس لئے انہیں جدید غزل کا بانی قراردینا غلط ہے۔
انہوں نے جس مضمون کی بنیاد پر سوالات اٹھائے ہیں اس میں خود یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ اس وقت جب پورے برصغیر میں نئی غزل باقاعدہ وجود میں نہیں آئی تھی، جب ابن انشا ’’دو ایک برس میں تیس ہمارا سن ہوگا‘‘ کہہ کر گزرتی ہوئی زندگی کو الھڑپن کی روک لگا کر روکنے کی کوشش کررہے تھے، خلیل الرحمن اعظمی کی غزل کچھ اس قسم کی تھی،
ایسی راتیں بھی ہم پہ گزری ہیں
تیرے پہلو میں تیری یاد آئی
متاع درد منداں اور کیا اس دشت غربت میں
نگاہِ مہرباں اک بار جو آئی تھی سمجھانے
وغیرہ وغیرہ۔ محولہ بالا اقتباس میں یہ بات کہیں نہیں کہی گئی کہ انہیں اشعار کی بنیاد پر خلیل الرحمن اعظمی کی غزل گوئی نئی غزل کا سنگ بنیاد قرار پاتی ہے بلکہ یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ ’’ان اشعار پر جدید کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔‘‘ لیکن ’’نئی شاعری۔۔۔ نئی تنقید‘‘ کے مصنف نے خلیل الرحمن اعظمی کی غزل گوئی کے بارے میں ایک رائے کی تردید سے زیادہ خلیل الرحمن اعظمی کو اپنی تنقید کا ہدف بنایا ہے اور اس سلسلے میں چند ایسے اشعار ڈھونڈ لائے ہیں جن میں ان کے خیال کے مطابق زبان و بیان کی خامیاں اور فرسودگی ملتی ہے۔ انہوں نے تین اشعار نقل کئے ہیں جن میں پہلا شعر یقینا ًمعمولی ہے اور ایسے معمولی اشعار میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ، فراقؔ، فیضؔ، اور اس عہد کے تمام شاعروں کے یہاں کثرت سے مل جائیں گے۔ اس موقع پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ’’بانگ درا‘‘ میں داغ کے رنگ کی غزلوں کو دیکھ کر کیا اقبال کے شعری مزاج اور حیثیت کا تعین کرنا مخلصانہ ادبی تنقید، دیانت اور خوش مذاقی کے مترادف ہوگا۔
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
جیسے اشعار میں کیااس اقبالؔ کی دریافت ممکن ہے، جسے نئی حسیت کے ایک پیش رو کی حیثیت دی جاتی ہے۔ صاحب مضمون نے دوسرے شعر کے بارے میں الگ سے کوئی بات نہیں کہی۔ البتہ تیسرے شعر،
ہمیں نہ جانو فقط ڈوبتا ہوا لمحہ
ہمارے بعد اندھیرانہیں اجالا ہے
کے بارے میں یہ کہہ کر کہ ’’مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔‘‘ ظہیر کاشمیری کا ایک شعر نقل کیا ہے،
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
صاحب مضمون نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ’’ظہیر کاشمیری کا شعر تقریباً ۱۸ سال پہلے کہا گیا تھا اورخلیل الرحمن اعظمی کے شعر کی عمر ڈیڑھ دو سال سے زائد نہیں۔‘‘ مجھے اس سے بحث نہیں کہ صاحب مضمون نے ایسا سہواً کیا ہے یا ارداۃ ً۔ بہرحال خلیل الرحمن اعظمی کا متذکرہ بالا شعر میں جن رسائل میں بھی دیکھا، حسب ذیل دیکھا،
ہمیں نہ جانو فقط ڈوبتا ہوا لمحہ
ہمیں یقیں ہے کہ ہم ہی نشان فردا ہیں
(جس غزل میں یہ شعر شامل ہے گفتگو ممبئی کے علاوہ دوسرے رسائل میں بھی چھپی تھی۔ ’’ادبی تبصرے‘‘ دہلی میں اس غزل پر تبصرہ بھی شائع ہوا تھا۔)
صاحب مضمون نے سہواً یا ارادۃًا س شعر کو غلط نقل کیا ہے۔ ایسی غلطیاں اگر اس وقت اختراع کی جائیں جب کوئی شخص پہلے ہی سے مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہو تو ان کی تہہ میں ادبی تنقید کی متانت کے بجائے خالصۃً ذہنی اور انفرادی تعصبات کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ یہی تعصبات ادب اور صحافت کے درمیان خط فاصل کھینچتے ہیں اور ان کے ساتھ دیانت دار ادبی تجزیہ و تفہیم تو دور کی بات ہے، غلط معلومات عام کرنے یا حقائق کو اپنے طور پر توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا رجحان بھی فروغ پاتا ہے۔ اسی طرز تنقید کی مذمت کرتے ہوئے ایلیٹ نے لکھا تھا کہ دیانت دارانہ تنقید شاعر کے بجائے شاعری پر مرکوز ہوتی ہے۔
(۴) اس فرق کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ فراق صاحب کے یہاں ترقی پسند تحریک سے برگشتگی نے اردو غزل کی قدیم روایت کی طرف مراجعت کی شکل اختیار کر لی، جب کہ سرور صاحب کے مضامین میں ان تبدیلیوں کے نشانات ملتے ہیں جو ترقی پسند تحریک کے بعد عالمی سطح پر نئے تہذیبی افکار اور پہلے سے زیادہ پر پیچ لیکن بامعنی فنی اور فکری میلانات کی اساس بنیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.