نئی زمین نئے آسمان کا شاعر۔اختر جمال
مہاراشٹر آزاد ہندوستان کی واحد عظیم ریاست ہے جہاں اردو کو گلے ہی نہیں سینے سے لگا کر رکھا گیا ہے۔ہندی کو حکومت کی زبان بنانے کے باوجود ممبئی ،بھیونڈی۔ مالیگاؤں اورنگ آباد پونہ اور ناگپور اس کے ساتھ ساتھ اردو کے دوسرے کئی قصبے جہاں آج بھی اردو پڑھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اْردو اسکولوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ مذکورہ شہر شاعروں سے بھرا ہوا ہے۔اس کے علاوہ بھی مہاراشٹر کے تقریباً ہر گاؤں اور شہر میں اردو لکھنے پڑھنے والے اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔انگریزی تعلیم کے فروغ کے لئے جہاں جہاں تمام کوششیں جاری ہیں وہاں اردو شاعروں اور ادیبوں کی تعداد بھی کم نہیں ہو رہی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک اردو والے اردو کو نہیں مٹائنگے اس وقت تک اردو زندہ رہے گی۔پرانے زمانے میں آگرہ ممبئی روڈ آگرہ سے بھیونڈی تک تھا۔اس کے آگے عربین سمندر کی کھاڑی (ندی)تھی۔ابتدا سے ہندوستان کے تقریباً تمام حج کرنے والے اسی شہر میں رک کر یہاں سے ہی تیار ہو کر حج کے لیے جاتے تھے۔ممبئی کو جوڑنے والاکھاڑی کا پل 1935 کے بعد بنا بھیونڈی پہلے ممبئی اسٹیٹ میں تھا، 1960 میں ایک الگ ضلع تھانہ بنا کر اس میں شامل کر دیا گیا۔ بھیونڈی کی ادبی تاریخ کوئی زیادہ پرانی نہیں ہے کیونکہ یہ علاقہ مراٹھی جاننے والے کوکنی مسلمانوں اورچند گجراتی مسلمانوں پر مشتمل تھا-چونکہ اسلام مذہب کا سارا اثاثہ اردو میں ہے اس لیے بھی ابتدا سے اس علاقے کے لوگوں نے اردوعربی کو سنبھال کر رکھا تھا۔ حالانکہ ان کی مادری زبان کوکنی ہے جو مراٹھی کی ایک شکل ہے پھر بھی انہوں اپنی اولاد کو مراٹھی میڈیم سے نہیں اْردو میڈیم سے پڑھایا۔اگر مراٹھی سے پڑھایا ہوتا تو مہاراشٹرحکومت کے عہدوں پر زیادہ سے زیادہ فائز ہوتے ۔ کوکنی مسلمانوں میں ابتدا سے غلام رسول آغا ، شاداب مدعو ، فیضی نظام پوری ، ظریف نظام پوری ،عرفان فقیہ ،یونس اگاسکرجیسے اردو کے دانشور بھی پیدا ہوئے۔ اْردو سے جڑنے کی دوسری وجہ بھیونڈی دکن کے علاقے میں تھا اس لیے بھی لوگوں کا لگاؤ اْردو سے تھا۔ پرانے وقتوں میں باہر سے آنے والے لوگوں کو ہندوستانی کہا جاتا تھا۔یہاں کے مقامی لوگوں نے باہر سے آنے والوں کو اپنانے میں فراغ دلی کا ثبوت دیا۔ یہ بات درست ہے کہ یہاں اردو کو فروغ دینے والے باہر سے آنے والے لوگ ہیں۔ان کے آنے کے بعد ہی اس زبان کے پڑھنے والوں اور لکھنے والوں کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھی۔ آج بھی اس چھوٹے سے شہر میں سو سے زیادہ شعراء موجود ہیں۔آپسی اختلاف کے باجود ہر شاعر اپنے اپنے طور پر اْردو کو فروغ دینے میں لگا ہوا ہے۔ ہاں یہ بات سچ ہے کہ چند ہی شعرا ایسے ہیں جنہیں شہر سے باہر دوسرے اضلاع میں پہچانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر تو شعرا ایسے ہیں کہ باہر جانا پسند ہی نہیں کرتے۔ اْنہیں یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ پونہ یا مالیگاؤں کدھر ہے۔ وہاں کیسے جا یا جاتا ہے۔ ایسے میں اختر جمال کا ممبئی اور اطراف کے مشہور و معروف شعرا اور ادبا میں کافی اچھی طرح جانا پہہچانا نام ہونا بھیونڈی کی خوش نصیبی ہی تو ہے۔
اختر جمال یکم جون ۱۹۵۹ء کو بھیونڈی میںپیدا ہوئے۔ابتداء میں رہنمائی مشہور و معروف شاعر قیصرؔ الجعفری سے ملی۔ ’’دھوپ میں بیٹھی ہوئی ایک شام‘‘ ان کے مجموعے کا نام ہے جو عنقریب شائع ہونے والا تھا مگر شائع نہیں ہو سکا۔ ان کے ایک دوست شکیل احمد شکیل نے ایک محفل میں بتایا کہ پہلے صرف اختر نام تھا ۔ان کے ایک خاص دوست کا نام جمال تھا جس کا انتقال جوانی میں ہی ہو گیا۔اختر اسے بہت چاہتے تھے،اس کی یاد کو اپنے نام کے ساتھ ملا لیا اور اختر جمال کہلانے لگے۔ایسی مثال بہت کم ہی ملتی ہے۔ کسی کو اتنا چاہنے والوں کو کبھی کبھی تکلیف بھی ہوتی۔کبھی انہوں نے اس مصرع پر عمل نہیں کیا۔
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
اور جب یہ رشتہ ٹوٹتا تھا تو اس کو برداشت نہیں کر پاتے تھے۔گھنے پیڑ کی اسے ہمیشہ تلاش تھی لیکن چندہی دنوں میں اس کے سائے سے انہیں دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔
ٓٓٗمستقل مزاجی نہیں تھی ۔کامیابی کبھی بھی کسی کی مستقل مزاجی کا اچھی طرح جانچ کر سند نہیں دیتی ہے۔اس کے لئے انتظار کے دوران دم توڑنے والے منزل تک نہیں پہونچتے ہیں۔اور یہ سچ ہے کہ جن لوگوں میں اس کی کمی ہوتی ہے وہ کبھی کامیاب نہیں پوتے۔
ٹی ۔و ی اورمشاعروں میں خوب کامیاب ہوتے تھے۔ممبئی کے کامیاب شعراء اور ادباء سے ان کے گہرے مراسم ہیں۔ ان کے ساتھیوں میں حامد اقبال صدیقی،عبید اعظم اعظمی وغیرہ خاص تھے۔ پڑھنے کا انداز بھی بڑا نرالا ہے۔ مشاعرے کرتے اور کرواتے بھی تھے۔روائتی انداز کی شاعری کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔انہوں نے ایسے مشاعرے کا نام ادبی مشاعرہ رکھا تھا۔ اختر جمال کی شاعری کوئی تقلیدی نہیں اور نہ ہی اجتہادی ہے۔ نہ مکھی پر مکھی مارنے کی کوشش ہے بلکہ اس میں ایک فکری حسن و شعورکی رو ہے۔ان کی شاعری نئے طرز اظہار کی شاعری تھی،فہم و ادراک کی شاعری تھی۔عام لوگوں کے سر سے گذر جانے والی بات بھی کرتے تھے۔شاعری میں بڑا تنوع ہے۔ایسا نہیں ہے کہ مرنے کے باد یہ سب بیان کر رہا ہوں کیونکہ لکھنے والے اکثر ایسا ہی کرتے ہیں،میں نے بارہا ایسا کہا اور لکھا ہے۔شعری اثاثہ کچھ زیادہ نہیں ہونے کے بعد بھی وہ اپنے ہمعصروں میں مقبول تھے۔ان کا شعری مجموعہ ٹائپسٹ کے پاس موجود ہے میں نے اس کی اشاعت کے ان کے وارث کو کہا بھی تھا مگر اس نے دھیان نہیں دیا۔ اسے کہاں خبر تھی کہ ان کے تیار کئے گئے شعری مجموئے کو وہ شائع نہیں کر پائیں گے کیونکہ مالی اعتبار سے تو اختر کافی مضبوط تھے اور کرونا کے دوران ۲۴ جون ۲۰۲۰ ء کو اس دنیا سے کوچ کر جائے گا۔اور اس طرح جانے میں کسی نے چاپ بھی نہ سنی جو شخص برسوں اس شہر میں جیا۔اختر جمال نے یہ بتا دیا کہ صرف یہ چار دیواریں ہی زندگی نہیں ہوتی ہیں۔ہر گھر کو گھر نہیں کہتے ہیں۔ہر بات کسی کی من و عن مان لینا دوستی نہیں ہوتی یہ تو نوکری ہے۔اور محفلیں سجانے والے کو کیا معلوم تھا کہ اس کی قسمت میں تنہائی ہی تنہائی ہے۔شہہ رگ سے قریب شخص کی قربت نے اسے وہ تلخیاں دیں جنہیں وہ برداشت نہیں کر سکے۔مختلف بیماریوں نے آہستہ آہستہ انہیں اپنے شکنجے میں کس لیا۔ سب کچھ تھا صرف ذہنی یکسوئی نہیں تھی ۔ا کثر ادب کا میدان چھوڑ کر اپنی روزی روٹی کے کام میں لگ جاتے ہیں ۔ایسی حالت میں وہ پکے بزنس مین بن جاتے ۔اس لئے بھی ادب میں کوئی خاص مقام نہیں بنا سکے۔شاعری مسلسل کوشش چاہتی ہے نہیں تو دونوں ہاتھ نہیں آتے ہیں۔ان کیساتھ بھی کچھ ایسا بھی ہوا۔گھر کی پریشانیاں اس قدر تھیں کہ ہر ملاقات میں اس کا حل چاہتے تھے۔اپنی شعری اور ذاتی پریشانیوں کا بر ملا اظہار کرتے تھے۔کسی شاعر کی کسی حرکت سے ناراض ہوتے تو نام بدل بدل کر دور دور کے اخباروں میں لمبا چوڑا مضمون لکھ دیتے تھے۔ایک بار تو شہر کے ایک استاد شاعر کو بھی نہیں بخشا تھا۔اس اخبار کی سیکڑوںکاپیاں منگواکرشہر میں مفت بنٹوا دیا۔اس طرح وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے میں خوش ہوتے۔ایسی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی بن سکتے تھے،مگر شاعری کو ہی اپنایا۔وہ اپنی حرکتوں سے شعری میدان کے پرانے بت کو توڑنا چاہتے تھے۔اچھے شعر کی پہچان جانتے اور اس کو برتنا بھی جانتے تھے۔
متفرق اشعار
بادلوں کی چھاؤں پر سورج نے قبضہ کر لیا
جانے کب سے دھوپ میں بیٹھی ہوئی اک شام ہے
بند دروازے سے ہو کر بھی ہوا آتی ہے
جھلملاتی ہوئی یہ شمع کہاں لے جاؤں
بستی والو! سڑکوں پر آجاؤ تم
دروازوں کو توڑا بھی جا سکتا ہے
جہاں سے اس نے میرا ساتھ چھوڑا
وہاں سے شہر جنگل ہو گیا تھا
ہم پہاڑوں کو روند آئے تھے
جب سلیقہ نہیں تھا چلنے کا
ہم نہیں تھوڑے میں بکنے والے
اور بازار اچھالا جائے
کس بنا پر تجھے شکایت ہے
اپنے حق میں بھی تو برا ہوں میں
بجھ چکے ہیں الاؤ خوابوں کے
راکھ کے ڈھیر پر کھڑا ہوں میں
غزلوں کا انتخاب اس لئے درج کر رہا ہوں کہ ان کی کوئی کتاب نہیں شائع ہوئی ہے۔
1
نئی غزل نئے لہجے کی آبرو ہم تھے
وہ ایک دور تھا مو ضوعِ گفتگو ہم تھے
کسی نے پچھلے پہر ‘ نیند سے جگایا ہمیں
جو آنکھ میچ کے دیکھا تو ہو بہو ‘ ہم تھے
تمہاری شمع ہدایت تو ‘ جل بجھی تھی مگر
تمام رات ہوائوں کے رو برو ‘ ہم تھے
تڑپ رہے تھے ‘ جبینِ نیا ز میں سجدے
مگر وہ پاس سے گزرا ‘ توبے وضو ہم تھے
کوئی نہیں تھا ‘ تمہارے سوا یہاں غالبؔ
یہ اور بات ہے اختر ‘ کبھو کبھو ہم تھے
2
حقیقت سامنے آئے گی ‘ خوابوں کے حوالے سے
یہاں دریا اُبلتے ہیں ‘ سرابوں کے حوالے سے
ہمارے بعد آوارہ بگولے ‘ رقص کرتے ہیں
تمہیں اب کون چھوتا ہے ‘ گلابوں کے حوالے سے
سلگتے ذہن کے سب راستے ‘ سیراب ہو جاتے
برس جاتا کوئی ہم پر ‘ سحابوں کے حوالے سے
وہ ہم پر لا کھ جنت کے دریجے ‘ کھول دے لیکن
اُسے ہم جان لیتے ہیں ‘ عذابوں کے حوالے سے
ہماری صبح اپنی ہے ‘ ہماری شام ہے اپنی
ہمارا نام مت لینا ‘ کتابوں کے حوالے سے
یہاں سے اپنے خوابوں کو‘ اکیلا چھوڑ دیتے ہیں
بہت دن جی لئے اختر ‘ حسابوں کے حوالے سے
3
بے مکانی راس آئے گی‘مکاں ہونے کے بعد
یہ زمیں روئے گی مجھ کو ‘آسماں ہونے کے بعد
اچھی باتیں‘اچھے لوگوں کی تمنا چھوڑئے
دل کو سمجھایا بہت ‘لیکن زباں ہونے کے بعد
ایک پل خوش فہمیوں کا‘لے گیا سارا ہنر
ڈھونڈتا پھرتا ہوں خود کو‘رائیگاں ہونے کے بعد
میں اکیلا تھا‘تو کتنی منزلیں سَر ہوگئیں
ٹوٹ کر بکھرا ہوں میرِ کارواںہونے کے بعد
آسمانوں سے اتر آئے تھے اخترؔ کس لئے
شمع کی چوکھٹ پہ بیٹھے ہو‘ دھواں ہونے کے بعد
4
بھیڑ جب کوچہ و بازار کی چھٹ جاتی ہے
رات بچّے کی طرح مجھ سے لپٹ جاتی ہے
زندگی تو ہی بتا تجھ کو پکاروں کب تک
چیختے چیختے آواز ہی پھٹ جاتی ہے
ایک دریا جو چلا جاتا ہے جنگل کی طرف
ایک ندّی جو مرے شہر سے کٹ جاتی ہے
کوئی آثار نہیں پار اترنے جیسا
پائوں جس کشتی پہ رکھتا ہوں پلٹ جاتی ہے
میں تجھے دیکھوں تو جاگ اٹھتی ہے جینے کی ہوس
اور سوچوں تو مری عمر ہی گھٹ جاتی ہے
میرے کمرے میں کوئی چاند نہ اترا اخترؔ
روشنی میرے دریچے سے پلٹ جاتی ہے
5
دل کا موسم بدل چکا ہوگا
دشت ویران ہوگیا ہوگا
دھوپ آنگن میں ناچتی ہوگی
کوئی کمرے میں سو رہا ہوگا
آگ دل میں سلگ رہی ہوگی
کوئی سگریٹ پی رہا ہوگا
منزلیں سر تو ہو گئی ہوں گی
راستہ بند ہوگیا ہوگا
سرحدِ رنگ و بو سے کچھ آگے
سارا منظر نیا نیا ہوگا
شام ہوتی ہے گھر چلو اخترؔ
کوئی دہلیز دیکھتا ہوگا
6
چاندنی یوں مرے آنگن میں اتر آئی ہے
رات جیسے تری تصویر چُرا لائی ہے
اپنے بکھرے ہوئے خوابوں کو کہاں لے جائوں
جو سمجھ سکتی تھی وہ آنکھ بھی پتھرائی ہے
یادِ جاناں مری آنکھوں میں تو آنسو بھی نہیں
اس اندھیرے میں کہاں تو مرے گھر آئی ہے
خود پہ یہ طنز ہے یا تیری مسیحائی پر
آج تالاب سے اک لاش ابھر آئی ہے
اپنے قدموں کے نشاں بھی نہیں ملتے مجھ کو
جانے کس سمت ہوا مجھ کو بہا لائی ہے
اس تبسم میں کوئی راز چھپا ہے اخترؔ
تم سمجھتے ہو محبت کی پذیرائی ہے
7
زندگی آگ کا دریا ہیں بتائیں کسکو
ڈوبے ڈوبے سے ہمیں خود میں بچائیں کسکو
ہاتھ چھونے سے بدن ان کا پگھل جاتا ہے
برف کے جسم ہیں ہم ہاتھ لگائیں کسکو
ہر حسیں پھول سے بارود کی بو آتی ہے
دل کے گلدانوں میں ہم لوگ سجائیں کسکو
کوئی دیوانہ سا لگتا ہے ذرا دیکھو تو
رات بھر گلیوں میں دیتا ہے صدائیں کسکو
ہم نے میخانے کا ہر زہر پیا ہے اخترؔ
ترکِ مے نوشی کی دیتے ہو یہ رائیں کسکو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.