Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نیا ادب اور ترقی پسند ادب: ایک مباحثہ

سیداحتشام حسین

نیا ادب اور ترقی پسند ادب: ایک مباحثہ

سیداحتشام حسین

MORE BYسیداحتشام حسین

     

    یہ بحث ادب کے ان طالب علموں کے لیے بہت مفید ہوگی جو علمی طور پر ادبی تحریکات کے صحیح خط وخال اور تاریخی پس منظر سے واقف ہونا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر آج ادب کا کوئی حصہ شعوری طور پر ادب کے مقصد اور سماجی ارتقا کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر ادبی کارناموں میں لگا ہوا ہے تو وہ ترقی پسند ادب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب ملک کا سوچنے والا طبقہ آزاد ہو کر اور تعصب سے بچ کر اس مسئلے پر غور کرےگا تو وہ بھی اس نتیجے پر پہنچےگا کہ یہ ملک کا صالح ترین ادب ہے۔

    یہ بحث شروع یوں ہوتی ہے کہ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ’’ترقی پسند ادب‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مقالہ سپرد قلم کیا۔ وہ ’’آج کل‘‘ دہلی اور متعدد دوسرے رسائل میں شائع ہوا۔ مجھے اس کے بعض اجزا سے اختلاف تھا۔ اس اختلاف کو ظاہر کرنے لیے آج کل ہی میں مختصر سا مضمون میں نے بھی لکھا۔ جس میں عام نئے ادب اور ترقی پسند ادب میں جو فرق ہے، اسے کم سے کم لفظوں میں بیان کرنے اور پروفیسر موصوف کے بعض شکوک کو رفع کرنے کی کوشش کی۔ میرا مضمون ذیل میں درج ہے۔

    (۱)
    یہ بڑی مسرت کی بات ہے کہ ہمارے بزرگوں نے بھی ترقی پسند ادب کے متعلق غور کرنا شروع کر دیا ہے اور پہلا سنجیدہ، مبسوط اور اہم مضمون جو اس سلسلے میں شائع ہوا ہے وہ اردو ادب کے ایک ذمے دار نقاد اور پرخلوص خدمت گذار کے قلم سے نکلا ہے۔ میری مراد پروفیسر رشید احمد صدیقی (مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ) کے اس مضمون سے ہے، جو آفتاب، علی گڑھ اور آج کل، دہلی میں شائع ہوا اور ہندوستان کے مختلف رسائل میں نقل کیا گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پرانے لکھنے والوں نے ترقی پسندی کے متعلق کوئی رائے نہیں دی۔ ضرور دی لیکن تقریباً ان سب میں خلوص کی کمی، غیض وغضب کی زیادتی، غور وفکر سے گریز اور سنی سنائی باتوں پر یقین کے پہلو اتنے واضح ہیں کہ تنقید میں انہیں کوئی اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ اسی وجہ سے پروفیسر رشید احمد صدیقی کے مقالے کو پہلا سنجیدہ اور اہم مقالہ کہا جا سکتا ہے۔ اس مضمون کی تہہ میں خلوص کی ایسی کارفرمائی ہے کہ موصوف کے جن خیالات کے متعلق سخن گسترانہ طور پر کچھ کہا بھی جا سکتا ہے وہ مناظرے یا مخالفت کے انداز میں نہیں بلکہ واقعی تبادلۂ خیال کے طور پر عرض کیا جا سکتا ہے۔

    ادب میں ترقی پسندی، زندگی میں ترقی پسندی سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر ترقی پسند کے سامنے ایک مخصوص فلسفۂ حیات ہے جس سے زندگی کے ہر شعبے میں حرکت اور تغیر کو سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ چیز ٹکڑوں میں سامنے آتی ہے اور اپنے مخصوص سیاسی، معاشی اور ذہنی ماحول کی وجہ سے کہیں ٹھیک معلوم ہوتی ہے کہیں غلط۔ ترقی پسندی سے دل چسپی رکھنے اور ترقی پسندی کو برتنے یا ترقی پسند ہونے میں یہی خاص فرق ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ترقی پسندی کو ایک منصف کی طرح سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ کچھ باتیں ایسی ہیں جن سے انہیں کوئی اختلاف نہیں، کچھ ایسی ہیں جنہیں وہ ادب کے لیے مضر سمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ترقی پسندی یا تو شروع سے آخر تک درست ہے یا الف سے ی تک نادرست۔ وہ ٹکڑوں میں صحیح یا غلط نہیں ہو سکتی۔

    زیر نظر مقالے میں اس کے علاوہ ایک اور بات غور طلب ہے ترقی پسند ادب کے متعلق بعض ایسی خرابیاں یا کمزوریاں منسوب کی گئی ہیں، جن کا تعلق ترقی پسند ادب سے نہیں۔ اگر اس مقالے کی سرخی ’’ترقی پسند ادب‘‘ کی جگہ ’’نیا ادب‘‘ یا ’’جدید ادب‘‘ وغیرہ ہوتی تو یہ عرض کرنے کی ضرورت نہ پیش آتی۔ یہ دو باتیں ہیں جن کے متعلق چند سطروں میں تبادلۂ خیال کی گنجائش بھی ہے اور ضرورت بھی۔

    رشید احمد صدیقی صاحب کے مقالے میں کچھ ایسی چیزیں بھی ملتی ہیں کہ اگر ترقی پسند اس موضوع پر کچھ لکھتا تو بہت ممکن تھا کہ اس کے یہاں بھی یہ جملے مل جاتے۔ ’’ادب سنت اللہ نہیں ہے کہ اس میں تبدیلی نا ممکن ہو۔ شعر و ادب انسانوں کی بنائی ہوئی چیز ہے اور انسانوں کو اس کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق اسے ڈھالتے رہیں۔‘‘

    ’’ترقی پسند ادب کو محض اصطلاح بن کر نہ رہنا چاہیے اس کو واوین ’’( )‘‘ کی تنگنائے سے نکل کر زندگی کی وسعتوں پر محیط ہو جانا چاہیے۔‘‘

    ’’ذہنی دنیا میں رہنا یا داخلی شاعری کی آڑ پکڑنا میرے نزدیک یکسر مہمل ہے۔ اگر شاعر اپنے آپ کو خارج سے بے نیاز کر لے اور خارج کو توڑنے، مروڑنے اور سلجھانے سنوارنے میں خون پسینہ ایک نہ کر دے یا نہ کر سکے۔‘‘ مگر ان جملوں کے ساتھ وہ اختلافی مقامات بھی ہیں جن کا تذکرہ آئندہ کی سطروں میں آئےگا۔

    ترقی پسند ادب کی یہ تعریف کہ اس سے، ’’ایک خاص قسم کا ادب مراد ہے یعنی وہ ادب جو گزشتہ کم و بیش چوتھائی صدی کی گوناگوں مقتضیات تحقیقات اور تجربوں کے کسر و انکسار سے بہ روئےکار آیا۔‘‘ اس لیے درست نہیں ہے کہ جہاں تک ترقی پسند ادب کی اصولی اور اساسی حیثیت کا تعلق ہے، اس کی بنیاد اسی فلسفیانہ مادّی جدلیت اور تاریخی مادّیت پر ہے جس پر ہمہ گیر اور عملی حیثیت سے انیسویں صدی کے وسط میں نظر ڈالی گئی، جسے بعد میں آزمائش کی کسوٹی پر کسا گیا اور ہر شعبۂ حیات میں کارآمد پایا گیا۔ رہا مقتضیات کا سوال سو اس کا یہ حال ہے کہ وہ قائم اور ساکن نہیں ہیں۔ چنانچہ ترقی پسند ادیبوں کی انجمن نے اپنے گزشتہ سالانہ جلسے میں ادیبوں کو یہ بتایا ہے کہ ترقی پسندی اگر ہر لحظہ بدلتی اور بڑھتی ہوئی زندگی کے ساتھ آگے نہیں بڑھتی تو وہ ناقص ہے۔ آج ترقی پسندوں کو اپنی زیادہ توجہ جنگ سے پیدا ہونے والے سوالات، حفاظت، فاشزم سے اختلاف، ہندو مسلم اتحاد، یعنی ان تمام مسائل پر رکھنی چاہیے جن سے آج زندگی کی اعلا قدریں برسر پیکار ہیں اور جن کا تحفظ انسانی فریضہ ہے۔

    ایسا ادب تو اسی لیے پروپیگنڈے کے لیے بدنام ہے کہ وہ ہر لحظہ بدلنے والی زندگی کا ساتھ دیتا ہے، وہ ان ابدی اقدار کی جستجو نہیں کرتا جو ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف کے ان الفاظ کا واقعی مفہوم سمجھنے میں مجھے دشواری پیش آئی۔ ’’اس وقت سے اب تک (یعنی تقریباً ۱۹۳۳ءسے اب تک) ملک میں، ملک سے باہر اور خود نئے ادب میں مختلف تبدیلیاں راہ پاتی رہیں۔ لیکن جہاں تک نئے ادب کے بنیادی تصورات کا تعلق ہے کوئی اہم تبدیلی نہیں پیدا ہوئی۔‘‘

    اگر بنیادی تصورات سے مراد یہ ہے کہ ادب کو انسانوں کی معاشی، معاشرتی جدوجہد کا مظہر، یا طبقاتی کشمکش کا آئینہ دار یا پیداوار اور تقسیم کی اقتصادی بنیاد پر بننے والے تہذیبی ڈھانچے کا ایک شعبہ سمجھا جاتا ہے تو یہ تصور طبقاتی کشمکش کی حد تک صرف اس وقت بدلےگا جب انسانی سماج میں طبقات کا وجود نہ رہےگا۔ لیکن اگر اس سے مراد وہ عام تغیرات ہیں جو انسانی ضروریات اور عملی زندگی کی کشمکش کی وجہ سے پیدا ہوتے رہتے ہیں، تو اس کے لیے صرف یہ عرض کیا جا سکتا ہے کہ تغیر کا حامی ترقی پسند ادب سے زیادہ اور کوئی نہیں ہے۔

    اسی طرح ترقی پسند ادب کی تعریف کے سلسلے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ترقی پسند ادب کے علم برداروں کا یہ خیال ہے کہ ترقی پسند ادب کے علاوہ جو ادب ہے، وہ ترقی پذیر نہیں ہے اور وہ زندگی کی عکاسی نہیں کرتا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی کا خیال ہے کہ یہ صحیح نہیں بلکہ ’’ہماری زندگی نے ادب کا اور ادب نے زندگی کا ساتھ دیا ہے۔‘‘ ترقی پسند اگر اس خیال پر تنقید کرتا ہے تو صرف اس حد تک کہ ادب کا محض زندگی کا ساتھ دینا ترقی پسندی نہیں، اسے بہتر بنانے کی جدوجہد میں آلے کی حیثیت سے کام کرنا ترقی پسندی ہے۔

    اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ادب میں روح عصر کسی نہ کسی حد تک ضرور پائی جاتی ہے کیونکہ ادیب اور شاعر کا شعور مادی زندگی سے اثرپذیر ہوتا ہے۔ لیکن اس طرح محض اثر لینا اور اس کی عکاسی کرنا فعلیت کی کمی کا پتہ دیتا ہے۔ سماج کے ایک مفکر کی حیثیت سے اس کا فرض یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ جدوجہد کی ترجمانی کرتے ہوئے واقعی ترقی پسند عناصر کے ساتھ ہو جانا ضروری ہے۔ یہی وہ خط فاصل ہے جو ترقی پسند اور غیر ترقی پسند ادب کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔ ادیب کے شعور کی پیدائش کے سلسلہ میں پروفیسر صاحب موصوف کے ان الفاظ سے بھی ترقی پسندی کو اختلاف ہے۔

    اب سائنس اور فلسفے کی تحقیقات اور تجربے انسانوں کے بطون کو زیر زبر کرتے ہیں، تصوّرات وافکار کے انقلاب سے زندگی کی رَو اور روانی میں تغیّرات برپا ہوتے ہیں، ترقی پسندی جس اساس پر قائم ہے، اس میں اس حقیقت کا سمجھنا ضروری ہے کہ مادّی حالات اور ضروریات کا احساس ہی تمدن کے ارتقاء میں معین ہوتا ہے اور مادّی حالات سے خیالات اور افکار پیدا ہوتے ہیں۔ خیالوں سے زندگی کی رَو نہیں بدلتی بلکہ معاشی، معاشرتی حالات سے۔ حالانکہ بہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ خیالات ہی تمام تغیرات کا منبع ہیں۔ یہ بنیادی فرق ادب کی تاریخ اور اس کے مطالعے کے طریقوں کو بھی یکسر بدل دیتا ہے۔

    پروفیسر صدیقی کے اس مقالے میں دو مقامات پر یہ جملے ملتے ہیں۔ ’’جدید ادب میں جن امور پر اکثر زور دیا جاتا ہے وہ وہی ہیں جن کی طرف سطور بالا میں اشارہ کیا گیا۔‘‘

    ’’جدید اردو ادب کا مسلک وہی ہے جس کی وضاحت سطور بالا میں ملتی ہے۔‘‘ اور دونوں جگہ ’’سطور بالا‘‘ میں جن چیزوں کا ذکر ہے ان میں سے بعض یہ ہیں۔ ’’جرمن قوم دنیا میں امام لاقوام کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے وہ جو کچھ کرے حق بہ جانب ہے۔‘‘

    ’’مذہب کا کوئی دخل زندگی میں نہ ہونا چاہیے۔‘‘

    ’’فائدہ حاصل کرو خواہ وہ چین ہی میں کیوں نہ ہو۔‘‘

    ’’ہر انسانی فعل کے محرک اعظم جنسی میلانات ہیں۔ اس لیے ان میلانات کا مظاہرہ ہر موقع و محل پر جائز ہی نہیں بلکہ ضروری بھی ہے۔‘‘

    ’’زندگی وہی ہے جس میں جنسی میلانات یا نفسانی خواہشات کی تسکین کے سامان ہر شخص فرداً فرداً اور فی الفور ملتے ہوں۔‘‘

    ’’ہر موقع پر خیرہ سری اور مطلق العنانی کا لوہا دنیا مانتی ہے۔‘‘

    ’’اپنے سے مایوسی، دوسروں سے بیزاری، نفس کی حیوانی خواہشوں کو اصل حیات سمجھنا اور ان کو تسکین دینے میں اتنہائی بے باکی سے کام لینا۔‘‘

    ’’نوجوان مرد یا عورت کے سامنے زندگی بہ حیثیت مجموعی نہیں ہوتی بلکہ اس کا صرف ایک پہلو ہوتا ہے یعنی جنسی اشتہا کی تسکین۔‘‘

    ’’فسق و فواحش اور قتل وغارت ہی زندگی کا حاصل ہے۔‘‘

    ’’ہم سب جس خدا، مذہب اور اخلاق یا زندگی کی دوسری قدروں پر زور دیتے ہیں وہ اس کو تسلیم نہیں کرتے۔‘‘

    پروفیسر صدیقی ہی کے الفاظ میں جدید ادب کے من جملہ اور عنوانوں کے چند عنوانات یہ ہیں جو اوپر لکھے گئے ہیں۔ یقیناً جدید ادب کے یہ عنوانات بھی ہیں لیکن صرف اسی وقت تک جب تک کہ جدید اور ترقی پسند میں فرق ملحوظ نہ رکھا جائے۔ شروع ہی میں یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ ترقی پسندی کو جدید ادب یا موجودہ زندگی کے تمام رجحانات سے کوئی تعلق نہیں اور اس فرق کو سمجھنا جس طرح ترقی پسندی کے حق میں مفید ہوگا اسی طرح اس سے دل چسپی لینے والوں کے حق میں بھی۔

    ترقی پسندی کی اساسی حیثیت کا تھوڑا بہت ذکر ابھی ہو چکا ہے جس سے بڑی آسانی کے ساتھ یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ترقی پسندی کو تقریباً ان تمام باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ہے تو اخلاقی یا تنقیدی حیثیت سے ترقی کے لیے کوئی قوم امام الاقوام کی حیثیت نہیں رکھتی۔ جرمن سے تو اس کا باپ مارے کا بیر ہے۔ اس امام الاقوام نے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لیتے ہی ترقی پسندوں کو اپنے یہاں سے خارج البلد کر دیا۔ دونوں میں قطبین کا فاصلہ ہے۔ ترقی پسندوں کی ہر سطر ہٹلر، مسولینی اور اس کے قبیل کے تمام خیرہ سروں کے تابوت میں کیل گاڑ رہی ہے۔ اس وقت تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں۔ ترقی پسندوں کی ہر تحریر اس کے ثبوت میں دیکھی جا سکتی ہے۔

    ترقی پسندوں نے مذہب کی بھی مخالفت نہیں کی ہے۔ ان کی بالکل ابتدائی تحریروں میں، جب جوش زیادہ اور شعور کم تھا، اس وقت کے بعد سے اب تک انہوں نے مذہبی دلآزاری نہیں کی ہے۔ انفرادی طور پر ان کے عقائد جو کچھ بھی ہوں لیکن انہوں نے اپنے ادب میں مذہب کی مخالفت نہیں کی ہے۔ نفع خوری، سرمایہ داری، ہر ملک کو بازار بنانے کی کوشش، ترقی پسندی ان خیالات سے دور کا تعلق بھی نہیں رکھتی۔ ترقی پسندی تو چین میں نفع اٹھانے والوں ہی کو بری نظر سے دیکھتی ہے، نفع حاصل کرنے کا کیا سوال!

    فحاشی اور عریانی پر ادھر کچھ دنوں میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ترقی پسندوں نے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت اچھی طرح کر دی ہے جس کے بعد کم سے کم ترقی پسند ادب پر تو یہ الزامات لگاتے وقت ان کی تحریروں کو ضرور دیکھ لینا چاہیے۔ پروفیسر صاحب موصوف نے سب سے زیادہ پر جوش طریقے پر اسی میلان کے متعلق لکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ادب کے لیے یہ کوئی نیا یا انوکھا میلان نہیں ہے، کسی دور اور کسی ملک کا ادب ایسا نہیں ہے جس میں جنسیت کا پوشیدہ یا عریاں اظہار نہ پایا گیا ہو، پروفیسر صدیقی نے قدماء کے یہاں ’’گناہ‘‘ کا تذکرہ تو کیا ہے لیکن یہ بھی کہا ہے کہ ’’ان کے ہاں فحاشی یا بدزبانی مقصود بالذّات نہ تھی۔‘‘

    میں ان بزرگوں کی بے حد عزت کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود میرا خیال ہے کہ جب شاعری کا مقصد محض شاعری اور تفریح تھا، جب اس کی بڑی خصوصیت عدم افادیت اور محض جمالیاتی تسکین تھی، اس وقت کی عریانی اور فحاشی مقصود بالذّات ہونے کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ میں اسے آج فحاشی کے لیے جواز کی حیثیت سے نہیں پیش کر رہا ہوں۔ فحاشی کا مقصود بالذّات ہونا ہر حال میں برا ہے۔ بہر حال یہ سوالات ہیں بہت ہی پیچیدہ کہ آج کے ادب میں فحاشی کیوں زیادہ ہے ؟ اس کی نوعیت کیا ہے؟ فن میں اس کی کتنی جگہ ہے؟ لیکن انہیں حل کیا جا سکتا ہے، قدما نے جو حدیں قائم کی ہیں ان کی روشنی میں نہیں بلکہ جدید سماجی علوم اور مقتضیات کی روشنی میں۔

    علم طب اور علم النفس میں جنسیات کا تذکرہ برابر آیا کیا ہے اور انہیں کو سامنے رکھ کر علم الاخلاق کی تدوین کرنے والوں نے بھی کبھی سماجی ضروریات کی روشنی میں کبھی انفرادی آمریت کے جذبے سے معمور ہو کر اس کا تذکرہ کیا ہے۔ پھر عشق کے جذبے کی شدت نے اسے اتنا عام کر دیا کہ اس سے عملی دل چسپی لینے والوں نے اخلاقیات سے قدم قدم پر ٹکر لی جس کی مختلف تاویلیں اور توجیہیں پیش کی گئی ہیں۔ فحاشی کی کوئی مستند تاریخ دیکھی جائے تو انسانی فطرت کی معصوم لغزشوں کا پتہ ہر صفحے پر ملےگا۔ بہت دنوں تک اخلاق نے ان پر کڑی نگاہ رکھی کیونکہ علوم نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ ان لغزشوں کے اسباب بتا سکیں۔

    پھر فرائڈ اور اس کے ساتھیوں نے جنسی محرکات کا انکشاف کیا، شعور وتحت شعور کی تہیں کھولیں، اخلاق کی بنیادوں کی تشریح کی، جنسی دباؤ اور سماجی احتساب کے نتائج بیان کئے، بہت سی ذہنی بیماریوں اور جنسی خواہشوں میں رشتہ ڈھونڈ نکالا، فنون لطیفہ میں لاشعور کی کارفرمائی کا تجزیہ کیا۔ گویا پہلی دفعہ بہت سے افعال واعمال کے جنسی محرکات تک ذہن کی رسائی ہوئی۔ اس لیے نئے لکھنے والوں نے جب فطرت انسانی کا ذکر کیا تو اس جدید علم کی روشنی میں کیا اور لازمی طور پر جنسیت کو اہمیت حاصل ہو گئی۔

    ترقی پسندوں نے فرائڈ کو کبھی اپنا امام تسلیم نہیں کیا بلکہ بہت ہی احتیاط سے اس کے نتائج فکر کا مطالعہ کیا۔ کیونکہ ترقی پسندی اجتماعی زندگی کو اصل بنیاد قرار دیتی ہے اور تحت شعور، جنسی دباؤ، ذہنی بیماریوں کو بھی وقت کے معاشی، معاشرتی حالات سے وابستہ سمجھتی ہے۔ محض تجزیۂ نفس سے دل چسپی لینے والے فر دمیں اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ سماجی انسان نظر انداز ہو جاتا ہے۔ وہ تحت شعور اور لاشعور کی دھندلی اور اندھیر ی دنیا میں پہنچ کر زندگی کے ان خارجی اثرات کو نظر انداز کر جاتے ہیں جن سے داخلیت تربیت پاتی ہے۔

    ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کے یہاں جنسی میلان کا ذکر اس حیثیت سے کم ہوتا ہے بلکہ ایک سماجی ضرورت کے طور پر انسان کی زندگی میں جنسی توازن تلاش کرنے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے۔ جنس، انسانی سماج کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے۔ ترقی پسندی اس پر رائے دینا ضروری سمجھتی ہے، اگرچہ سب کچھ ادب ہی کے زریعے سے ممکن نہیں معلوم ہوتا۔ ترقی پسندوں کا خیال ہے کی جنسی عدم توازن زندگی کے عام عدم توازن کا ایک حصہ اور جب تک معاشی اور اقتصادی بنیادوں پر زندگی کے پورے نظام کو استوار نہ کیا جائےگا، اس وقت تک اس کا صحت بخش بیان ممکن نہیں ہے۔ اس سے زیادہ تفصیل اس وقت ممکن نہیں ہے۔ جنسیت کے ذکر میں اس کے مقصود بالذّات ہونے اور کسی اہم سماجی نتیجے تک پہنچنے کے لیے حقیقت نگاری پر مبنی ہونے میں فرق کیا جائے تو مسئلہ آسانی سے سمجھا جا سکےگا۔

    تمام وہ نئے لکھنے والے جو جدید کہے جا سکتے ہیں ترقی پسند نہیں ہیں، نہ ان کی فحاشی اور عریانی کا ذمے دار ترقی پسند ادب کو ٹھہرانا چاہیے۔ ترقی پسند ادیبوں کا رسالہ نیا ادب کئی سال تک لکھنؤ سے نکلا ہے اور اب بمبئی سے سہ ماہی رسالے کی شکل میں نکل رہا ہے۔ اس کی کسی سطر میں فحاشی یا عریانی کے ثبوت میں غالباً کچھ نہ نکالا جا سکےگا۔ ایک آدھ مضامین کے لیے یہ سمجھنا چاہیے کہ ایڈیٹر کا نامہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ترقی پسند جنسیت کے مسئلے کو فن کے حدود میں اس وقت بیان کرنا چاہتا ہے جب اس سے کسی سماجی مسئلے پر روشنی پڑے اور جنسیت کا ذکر مقصود بالذّات نہ ہو۔

    اس طرح پروفیسر صاحب نے ترقی پسند ادب کے جن موضوعات کا تذکرہ کیا تھا ان کے بارے میں ترقی پسند ادب کا نقطۂ نظر واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم اگر ترقی پسند کبھی لغزش کر جاتا ہے تو پروفیسر صاحب موصوف کے الفاظ میں یہ سمجھنا چاہیے کہ ’’زندگی پر ان دنوں شدید بحران طاری ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے اچھے اچھے لوگوں کو بھی یہ نہیں سوجھتا کہ کدھر جائیں اور کیا کریں۔‘‘ ترقی پسندوں میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں جو اپنے ماضی کے بنے ہوئے نظریۂ حیات کو چھوڑ کر نئی راہ اختیار کر رہے ہیں۔ اس لیے معمولی اختلاف خیال کا پایا جانا کوئی تعجب کی بات بھی نہیں۔

    پروفیسر رشید احمد صدیقی کے ایک بنیادی خیال سے مجھے اختلاف ہے اور وہ بات تضاد کی حامل بھی ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ ’’نیا ادب جن حالات و حوادث کے ماتحت وجود میں آیا، جن تیلیوں پر اس کا ڈھانچا قائم ہے، جس روپ میں اور جن لوگوں کی معرفت وہ ہم تک پہنچا، وہ تمام تربدیسی ہیں۔‘‘ یہ نتیجہ خود موصوف کے بیانات کی روشنی میں درست نہیں معلوم ہوتا۔ میں پہلے پروفیسر موصوف کے چند جملے نقل کرنا چاہتا ہوں۔

    ’’میں مانتا ہوں کہ ہندوستان میں وہ خرابیاں موجود ہیں جن کو نیا ادب پیش کرتا ہے۔‘‘

    ’’زندگی پر ان دنوں شدید بحران طاری ہے۔‘‘

    ’’پرانے ادب کے پیروؤں کو بھی دنیا کے موجودہ مسائل اور مصائب کو ان کے اصلی رنگ میں دیکھنا اور اس کا حل پیش کرنا چاہیے۔‘‘

    ’’یہ تغیرات بڑے دیر پا اور اہم ہوتے ہیں اور ان سے عہد بر آ ہونا بڑا مشکل کام ہے، اس لیے یہ زندگی کی قدریں بدل دیتے ہیں۔‘‘

    ’’شعر وادب میں ہم اس بدلی ہوئی زندگی کے تارو پود دیکھ کر برہم اور بدحواس ہو رہے ہیں۔ ایسے ہی مواقع پر برہمی اور بدحواسی سب سے زیادہ بے محل ہوتی ہے۔‘‘

    ’’نئے ادب کی تحریک بے جان نہیں ہے۔‘‘

    ’’گزشتہ پچاس سال میں ہندوستان میں نسبتاً کم اور اس سے باہر بہت زیادہ اور بڑے شدید انقلابات ہوئے ہیں۔‘‘

    ایسے چند جملوں کے لکھنے کے بعد موصوف نے یہ نتیجہ نکالا کہ’’ ترقی پسندی کی تحریک تمام تر بدیسی ہے۔ اس کے بر عکس میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ خود اس ملک کی زندگی اس موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں تاریخی جبریت کام کرتی ہے اور نئے زاویے پیدا ہو جاتے ہیں۔‘‘ ترقی پسندی کے فلسفے کا کسی مغربی فلسفے پر مبنی ہونا اس کے بدیسی ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ علوم سارے انسانوں کی ملک ہیں، اگر وہ ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔ یورپ کے صنعتی نظام کی ترقی نے یورپ والوں کو اس کا موقع پہلے دیا کہ وہ ایسے فلسفے کی ضرورت محسوس کریں اور حالات کا تجزیہ کر کے اسے عمل کا جامہ بھی پہنا دیں، ہندوستان کی زندگی میں وہ وقت دیر میں آیا۔ اس لیے ایک ایسے انقلاب انگیز فلسفے سے مدد لینا، جس نے کہیں اور جنم لیا تھا لیکن جس کا تاریخی نقطۂ نظر ہر ملک کے لیے یکساں ہے، کسی حیثیت سے نقالی نہیں ہے۔

    ملک کی حالت نے خود وہ سارا مواد فراہم کر دیا جس سے ترقی پسند ادب کی تشکیل ہو سکتی تھی۔ اگر ہم بدیسی ہونے کے اس نظریے کو درست مان لیں تو پھر سر سید اور ان کے رفقاے کار کا خلوص بے معنی ہو جائےگا۔ کیونکہ حالی نے تو ’’پیروی مغربی‘‘ کا اعتراف بھی کیا اور دعوت بھی دی لیکن جس طرح سر سید وغیرہ کے لیے تغیر اور اصلاح کی منزل سے گزرنا اس وقت کے مادی حالات کا نتیجہ تھا، اسی طرح ترقی پسندوں کا آج تغیر اور انقلاب کی رو سے گزرنا آج کے تاریخی اور مادّی حالات کا تقاضا ہے۔ اگر خود اپنے سماجی حالات میں کسی خاص نقطۂ نظر کے لیے وجہ جواز ہو تو یہ نقالی نہیں ہے۔ اگر احساس اور خلوص سے ہندوستان کی سماجی کشمکش کا مطالعہ کیا جائے تو اعتراف کرنا پڑےگا کہ ہم خود آگ اور خون کی منزل سے گزر رہے ہیں، صرف تماشائی نہیں ہیں۔

    مختصر یہ کہ ترقی پسند ادب نہ تو بدیسی ہے، نہ فحاشی اور عریانی کی حمایت کرتا ہے، نہ مذہب سے بیزاری یا خدا کی توہین اس کے مسلک میں شامل ہے، نہ قتل وغارت گری، فسق و فجور و دہشت پسندی کو زندگی کے کسی شعبے میں جگہ دینا چاہتا ہے، بلکہ زندگی کی کشمکش کے لیے جو ترقی پذیر عناصر ہیں، انہیں تقویت پہنچاتا ہے۔ دنیا کو ہر قسم کے ظلم وجور، ناانصافی ونفع خوری، مایوسی اور شکست خوردگی سے بچانے کا متمنی ہے، چاہے اس پر پروپیگنڈے کا الزام لگایا جائے لیکن وہ انسانیت کی اعلاقدروں کو چند برگزیدہ لوگوں کی نہیں بلکہ عام انسانوں کی ملک بنا دینا چاہتا ہے۔ اس کی یہ خواہشیں ایسے تاریخی تقاضوں پر مبنی ہیں کہ اگر شعور کو رہ نما بنا کر کام کیا جائے تو کامیابی یقینی ہے۔

    یہ چند سطریں نہ تو اعتراض کی حیثیت رکھتی ہیں اور نہ جواب کی، بلکہ جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا گیا، صرف تبادلہ خیال کی نیت سے پیش کی گئی ہیں اور طوالت سے بچنے کے لیے صرف اشاروں سے کام لیا گیا ہے۔ لیکن جن لوگوں کے سمجھنے کے لیے یہ سطریں حوالۂ قلم کی گئی ہیں ان کے لیے اشارے ہی کافی ہیں۔

    (۲)
    جنوری ۱۹۴۴ء میں نئے ادب اور ترقی پسند ادب کی مخالفت میں مضامین نظم ونثر کا ایک مجموعہ ’’مداوا‘‘ کے نام سے لکھنؤ میں شائع ہوا۔ اسے غلام احمد صاحب فرقت بی۔ اے (اب ایم۔ اے ہیں) نے مرتب کیا تھا۔ میرے محترم بزرگ مولوی سید اختر علی تلہری نے اس کی ترتیب اور تدوین میں خاطر خواہ اخلاقی اور قلمی امداد فرمائی تھی۔ کتاب کا خیرمقدم ادبی حلقوں میں ملا جلا ہوا۔ کسی نے تعریف کی کسی نے برائی۔ ترقی پسند ادیبوں نے اسے کوئی اہمیت نہ دی۔ کیونکہ اوّل تو اعتراضوں کی نوعیت عالمانہ اور ناقدانہ نہیں تھی، دوسرے یہ کہ وہاں ترقی پسندی کے مفہوم کے سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی ہوگی۔ پھر اکتوبر ۱۹۴۴ء کے رسالہ ’’عالمگیر‘‘ لاہور میں محترمی مولوی سید اختر علی کا ایک مضمون شایع ہوا جس میں ان لوگوں کے مضامین یا خیالات پر تنقید کی گئی تھی جو ’’مداوا‘‘ سے اختلاف رکھتے تھے یا رکھ سکتے تھے۔ موصوف کا خیال تھا کہ اس کتاب نے نئے ادیبوں اور ترقی پسندوں کی صفوں میں ہل چل ڈال دی اور بہت سے لوگوں کی رہنمائی کر دی۔

    میں نے اپنے کسی مضمون میں ’’مداوا‘‘ کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا لیکن موصوف نے کسی طرح یہ نتیجہ نکالا کہ احتشام حسین نے ترقی پسند ادب اور نئے ادب میں جو فرق نکالنا اب شروع کیا ہے وہ ’’مداوا‘‘ کے اعتراضات کا نتیجہ ہے یا اس سے محفوط رہنے کی تدبیر۔ جس جگہ مولانا کو یہ بات نظر آئی تھی وہ میرا ہی مضمون تھا جو اوپر درج ہوا۔ جہاں تک میرے مضمون پر اعتراضات کا تعلق ہے، موصوف کے مضمون کے خاص نکات کو یوں مختصراً بیان کیا جا سکتا ہے۔

    (۱) ’’مداوا‘‘ کی اشاعت کے بعد سے نئے ادب اور ترقی پسند ادب میں فرق کیا جانے لگا ہے، پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔

    (۲) ترقی پسندوں کے نزدیک ترقی پسند ادب اور اشتراکی ادب دو چیزیں نہیں ہیں بلکہ ترقی پسندوں کا مقصد ہی کمیونزم کی اشاعت ہے اور موصوف نے میرے مضمون مندرجہ بالا کے ایک لفظ پہ نتیجہ نکال لیا۔

    (۳) ترقی پسند ادب کی تعریف منطقی طور پر ہونا چاہیے لیکن ترقی پسند اس سے گریز کرتے ہیں۔

    دسمبر۱۹۴۴ء کے ’’عالمگیر‘‘ میں میں نے حسب ذیل مضمون کے ذریعے اپنی جانب سے صفائی پیش کی۔

    اکتوبر ۱۹۴۴ء کے عالم گیر میں جناب محترم مولوی سید اختر علی صاحب تلہری نے ایک بار پھر نئے ادب اور نئے ادیبوں کی کوتاہیوں اور الجھنوں کا ذکر کیا ہے۔ جو لوگ مولانا کے مضامین اس سلسلے میں دیکھتے رہتے ہیں انہیں یہ ضرور محسوس ہوگا کہ موصوف ترقی پسند ادب کی بعض تشریحات سے مطمئن ہوتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ مشکک ہونے کی وجہ سے ترقی پسندوں کے خلوص کو شبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سیدھی سادی باتوں کی تاویل انہیں الجھا دیتی ہے کیونکہ بین السطور میں وہ ’’نیت‘‘ کا پتہ بھی لگانا چاہتے ہیں۔ جناب فرقت کاکوروی نے آزاد نظم گوئی، جدید ادب، ترقی پسند ادب وغیرہ کے خلاف نظم ونثر میں ایک کتاب ’’مداوا‘‘ مرتب کی۔

    جہاں تک میری یاد کام دیتی ہے، ’’مداوا‘‘ جنوری۱۹۴۴ء میں شائع ہوئی۔ ۱۵؍ جنوری ۱۹۴۴ء کو ناگ پور اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے ایک تازہ ترین جلد (جن میں جلد ساز کے مسالے کی نمی موجود تھی) میرے ہاتھ میں بھی تھی۔ مولوی اختر علی صاحب کا خیال ہے کہ ’’مداوا‘‘ کی اشاعت کیا ہوئی، ’’نئے ادب اور ترقی پسند ادب کی دنیا میں بھونچال آ گیا۔‘‘ اور نئے ادیبوں نے اپنا محاذ بدل دیا، گالیاں بکنے لگے، الجھی الجھی باتیں کرنے لگے، متضاد دلائل پیش کرنے لگے۔ ’’مداوا‘‘ کے حملوں سے گھبرا کر نئی کروٹ لی، تاکہ اپنی اور ترقی پسند ادب کی آبرو بچا سکیں۔ اس سلسلے میں موصوف نے حسن عسکری، میراجی اور راقم الحروف (احتشام حسین) کے بعض جملوں اور بعض خیالات کے متعلق خاص طور سے اظہار خیال فرمایا ہے۔ جہاں تک اور لوگوں کا تعلق ہے وہ اگر چاہیں گے تو کچھ لکھیں گے، میں حفاظت خود اختیاری کے طور پر صرف ان خیالات کے متعلق چند جملے عرض کرنا چاہتا ہوں۔

    محترمی اختر علی کی ایک اہم تنقیح یہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنے تئیں ترقی پسند کہتے ہیں، ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ترقی پسند ادب کے لیے نئے ادب کا لفظ استعمال کرتے تھے، چنانچہ اس رسالے کا نام بھی ’’نیا ادب‘‘ ہے اور ابتدا میں یہی لفظ ترقی پسند ادب کا مترادف تھا، پہلے ان لفظوں کے استعمال میں تفریق نہیں کی جاتی تھی، اب کی جانے لگی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ’’مداوا‘‘ (۱۹۴۴ء) کی اشاعت کے بعد سے ترقی پسندی کے عیوب ظاہر ہوگئے اور ترقی پسند ادیبوں نے اپنے قلعے محفوظ رکھنے کے لیے نئے ادب سے اختلاف ضروری سمجھا۔ دلیل کے طور پر میرے ایک مضمون کی چند سطریں موصوف نے نقل کی ہیں جن میں میں دونوں کا فرق ظاہر کر نے کی کوشش کی ہے لیکن مولانا موصوف کو ایک جانب تو یہ شک ہے کہ ایسا کرنا محض ایک چال ہے، دوسری طرف وہ میرے تجزیے میں نئے ادب اور ترقی پسند ادب کے درمیان حد فاصل قائم کرنے کے لیے جتنے تضاد کی ضرورت ہے وہ بھی نہیں پاتے۔

    اس کے متعلق یہ عرض ہے کہ عام ادب کا ایک حصہ یارخ یا پہلو نیا ادب ہے۔ اسی طرح نئے ادب کے ایک حصّے یا پہلو یا رخ کو ترقی پسند کہا جا سکتا ہے اور میں نے جان بوجھ کر اس میں خاص عام مطلق کی نسبت قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہر ترقی پسند ادب نئے ادب اور ادب میں شامل ہے جیسے ہر نیا ادب ادب میں شامل ہے۔ لیکن جس طرح ہر ادب نیا ادب نہیں اسی طرح ہر نیا ادب ترقی پسند ادب نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ معمولی سی منطقی صورت ہے جس پر زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ترقی پسند ادب چند ایسی خصوصیتیں رکھتا ہے کہ اگر وہ ادب کے کسی حصّے میں پائی جائیں تو وہ ترقی پسند ادب کہلائےگا۔

    نیا ادب اگر رجعت پسند عناصر کا ہم نوا ہے تو یقیناً وہ ترقی پسند نہیں کہا جائےگا۔ اور یہ اتنی بڑی تفریق ہے کہ اس کے بعد کسی مزید تشریح کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ مولانا نے رجعت پسندی کو پرانے ادب کا جز دو لازم قرار دیا ہے۔ میں یہ تسلیم نہیں کرتا۔ کسی عہد کا سارا ادب رجعت پسند نہیں جس طرح آج کا سارا ادب ترقی پسند نہیں ہے۔ معلوم نہیں موصوف نے میرے کس لفظ سے یہ نتیجہ نکالا کہ قدیم ادب ضرور رجعت پسند ہوگا۔ ممکن ہے یہ خود مولانا کا خیال ہو۔ بہ ہر حال میں اس سے اتفاق نہیں رکھتا۔

    ہم نے کیوں نئے ادب اور ترقی پسند ادب کو ایک ہی مفہوم میں استعمال کیا اور اب کیوں نہیں استعمال کرتے۔ اس کے متعلق یہ عرض ہے کہ ہم اب بھی ترقی پسند ادب کے لیے ادب یا نئے ادب کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے کیوں کہ ترقی پسند ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ادب بھی ہے اور نیا ادب بھی، لیکن ابتداً اس بات کی زیادہ ضرورت نہیں محسوس ہوئی تھی کہ اسے عام نئے ادب کی بعض خصوصیتوں یا خرابیوں سے الگ کیا جائے۔ ہمارے خیال میں تو نئے ادب کو ترقی پسند ہی ہونا چاہیے۔ تاہم میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمیں نہ پہلے یہ غلط فہمی تھی کہ نئے ادب میں خامیاں نہیں ہیں یا ترقی پسند ادب میں کم زوریاں نہیں ہیں، اور نہ اب ہے۔ اس لیے اگر آج کچھ برے عناصر نئے ادب میں واضح ہو گئے ہیں اور ہم اس کے ایک حصّہ کو، جسے ترقی پسند کہتے ہیں، ان خامیوں سے بچانا چاہتے ہیں تو کیا خرابی ہے۔

    اسی وجہ سے اس وقت دونوں میں تفریق کرنا یا اس کی وضاحت کرنا زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پہلے چیز زیادہ واضح معلوم نہیں ہوتی تھی اب ہو گئی ہے۔ اس لیے نئے ادب کی بعض خصوصیات سے علاحدگی ترقی پسند ادب کے متعلق غلط فہمی دور کرنے میں معین ہوگی۔ میں نے عرض کیا ہے کہ ایسے عناصر کا ہمیں یقینی علم اب سے چند سال پہلے نہ تھا جو اب پیدا ہو گئے ہیں۔ انہیں قومی اور بین الاقوامی حالات نے پیدا کیا ہے۔ تاہم احتیاط کے تقاضے سے ہم نے تمام نئے ادب کو ترقی پسند ادب کہنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ اور کچھ مداوا (۱۹۴۴ء) سے ڈر کر ایسا کہنے کی ضرورت نہیں پیش آئی ہے۔ میں اپنے دو مضامین کی چند سطریں پیش کرتا ہوں جو ۱۹۴۴ء سے پہلے لکھے گئے ہیں۔ ایک مضمون میں نئے رجحانات کا ذکر ہے۔ یہ مضمون میں نے ۱۹۴۰ء میں لکھا تھا،

    ’’کچھ ادیب تو اس سلسلے میں ایسے ملیں گے جن کا نقطۂ نظر جذباتی ہے، جو بنیادی باتوں سے واقف نہیں ہیں۔ لیکن موجودہ تمدن کے تضاد سے پریشان ہیں۔ بہک بہک کر اندھیرے میں راستہ ڈھونڈتے ہیں، کبھی راہ مل جاتی ہے، کبھی قدم بہک جاتے ہیں لیکن ایک جماعت ایسے ادیبوں کی بھی ہے جنھوں نے راستہ پا لیا ہے، انہیں اپنی منزل کا نشان معلوم ہے، وہ ان راہوں سے واقف ہیں جدھر انہیں جانا ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین باقاعدہ طور پر ایسے ہی شاعروں اور ادیبوں کو اپنی جانب بلاتی ہے۔‘‘

    پھر۱۹۴۰ء ہی میں ایک دوسری جگہ میں نے لکھا ہے کہ ترقی پسند ادب کے کچھ نادان دوست ہیں۔، ’’یہ نادان دوست جذباتی ہمدردی رکھتے ہیں، اسی لیے وہ سماج اور ادب، تاریخ اور زندگی صحیح رفتار کا اندازہ کیے بغیر بس نئے ادیب ہیں اور نئے ادب کو تاریخی حقیقت نہیں بلکہ ایک جدّت سمجھ کر اس کی طرف جھکتے ہیں۔ ایسے لوگ ادب کی تشریح اور تفسیر میں، اس کی تحلیل اور تعبیر میں غلطیاں کر جاتے ہیں۔ کیونکہ حقیقتیں لازمی طور پر جذبات سے ہم آہنگ نہیں ہوا کرتیں۔‘‘

    اسی طرح ۱۹۴۲ء میں ترقی پسندی کی روایت پر مضمون لکھتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ اس وقت بہت سی جدید ادبی تحریکیں ہیں جو ترقی پسندی کے نام سے چل رہی ہیں۔ اسی طرح میرے لیے نئے ادب کے بعض حصوں کی مخالفت اور ترقی پسندی کی وضاحت کرتے ہوئے ان سے علاحدگی کا اظہار کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ نہ تو جدید کروٹ ہے اور نہ ’’مداوا‘‘ کا رد عمل۔ جو بات میرے یا ایسے ہی دوسرے لکھنے والوں کے لیے کل تک بہت واضح نہ تھی آج واضح ہو گئی۔ اس لیے آج اس پر کسی قدر زور دینے کی ضرورت پیش آئی۔ یہ نہ تو گھبراہٹ کا نتیجہ ہے اور نہ سیاسی چال ہے، نہ اپنی کہی ہوئی باتوں سے اختلاف ہے اور نہ نئے ادب کی مخالفت کرنے والوں کو پریشان کرنے کی تدبیر۔ میں نے اسی مضمون میں جس کے پڑھنے کے بعد محترمی اختر علی کو لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی، کم سے کم جگہ میں اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان خصوصیات کی مثبت اور منفی صورتیں پیش کردوں جن سے ترقی پسند ادب اور عام نئے ادب میں فرق واضح ہو سکے۔

    وہ مضمون اس وقت پیش نظر نہیں ہے لیکن جہاں تک یاد سے کام لے سکتا ہوں، میں نے یہی لکھا تھا کہ ترقی پسند ادب بدیسی نہیں، فحاشی اور عریانی کا حامی نہیں، فسق وفجور کا دوست نہیں ہے۔ فرائڈ کو اپنا امام یا پیشوا نہیں سمجھتا، مذہب کی توہین اس کا مسلک نہیں۔ جن نئے ادیبوں کے یہاں یہ باتیں اثبات میں پائی جاتی ہیں، ترقی پسندی انہیں اپنا نہیں بنا سکتی، زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہے کہ ایسے نئے ادیبوں کی ان تحریروں کو پسند کرے جن میں ترقی پسند عناصر پائے جاتے ہیں اور ان کو نا پسند کرے جن میں خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ اتنی وضاحت کے بعد بھی مولانا اختر علی کا یہ فرمانا کہ فرق واضح نہیں ہوتا، معلوم نہیں کس ابہام کی بنا پر ہے۔ اگر اس وقت لکھنے میں کسی قسم کا ابہام تھا تو میں اب اسے صاف کرنے کی کوشش کروں گا۔

    جس مضمون کا ذکر ہے، اس میں ترقی پسند ادیب کا ذکر کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ صرف حقیقت کی عکاسی سے ایک ادیب ترقی پسند نہیں ہو جاتا اور سماج کے ایک مفکر کی حیثیت سے اس کا فرض یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ جدوجہد کی ترجمانی کرتے ہوئے واقعی ترقی پسند عناصر کے ساتھ ہوجانا ضروری ہے۔ اس جملے میں ’’واقعی‘‘ کا لفظ مولانا کو ’’شک‘‘ میں ڈال رہا ہے اور اس کے متعلق فرماتے ہیں، ’’مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ترقی پسند عناصر میں ’’واقعی‘‘ کا ضمیمہ لگا کر لائق مقالہ نگار نے ترقی پسند عناصر کی تخصیص سوشلزم اور کمیونزم کے سیاسی اور اقتصادی عناصر میں کرنا چاہی ہے اور اس طرح ترقی پسند ادب اور اشتراکی ادب مترادف قرار پا جاتے ہیں۔‘‘

    اگر کوئی شخص یہ ’’محسوس‘‘ کرے کہ ’’واقعی‘‘ کا مطلب سوشلزم اور کمیونزم ہے تو اسے یقیناً یہی نتیجہ نکالنا چاہیے۔ لیکن میں بہت ادب سے گزارش کروں گا کہ میرے جس لفظ، جس فقرے اور جس جملے نے اس نتیجے تک رہ نمائی کی ہے اس کا ذکر ضروری تھا۔ میں نے شروع ہی میں کہا ہے کہ مولانا مشکک ہونے کی وجہ سے نیتوں کا پتہ بھی لگانا چاہتے ہیں اور اسی پر یہ خیالی عمارت کھڑی ہو جاتی ہے۔ ’’واقعی‘‘ کا مطلب سوشلزم ہی کیوں ہو؟ ایک شخص جو ترقی پسند ادب پر کمیونسٹ ہونے کا الزام لگانا چاہتا ہے، اسے ’’واقعی‘‘ کے لفظ میں کمیونزم ملےگی۔ جو لامذہب کہنا چاہتا ہے وہ واقعی کا مطلب لامذہبیت لے سکتا ہے، جو اسی قبیل کا کوئی اور جرم ترقی پسند ادب کے سرمنڈھنا چاہتا ہے وہ واقعی کا وہی مفہوم لے لےگا جو اس کے لیے مفید ہوگا۔ لیکن میں عرض کروں گا کہ ایسا کرنے کے لیے وجہ تو ہو!

    میں نے ’’واقعی‘‘ کا لفظ صرف اس لیے استعمال کیا تھا کہ وہ بھی اپنے کو ترقی پسند کہتے ہیں جو صرف آزاد نظم کے پرستار ہیں، وہ بھی جو ہئیت میں مختلف تجربے کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی جو فحاشی اور عریانی کی اشاعت ہی کو ادب یا ترقی پسندی سمجھتے ہیں، وہ بھی مغرب سے شعروادب کی شریعت مرتب کرتے ہیں، وہ بھی جو فرائڈ ہی کو فلسفۂ نفس کا آخری تاج دار قرار دیتے ہیں، وہ بھی جو زبان وبیان کی لغزشوں کی پروا نہیں کرنا چاہتے۔ اس طرح کے اور بہت سے لکھنے والے ہیں۔ ان کو الگ کرنے کے لیے واقعی لفظ مجھے ضروری معلوم ہوا۔ واقعی کا مطلب سوشلزم اور کمیونزم کیسے ہوا، یہ میں نہیں سمجھ سکتا۔

    شاید سارے مضمون میں سوشلزم یا کمیونزم کا لفظ نہ ہوگا یا اگر ہوگا بھی تو واقعی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ واقعی کا لفظ ترقی پسند عناصر کے دائرے کو محدود کرتا ہے۔ چند عناصر کی یقیناً تخصیص کرتا ہے، لیکن سوشلزم یا کمیونزم کی نہیں۔ اتنا تو میں اس کے متعلق کہنا چاہتا تھا۔ اب رہا دوسرے قسم کے شکوک کا سد باب، وہ بھی اسی مضمون میں موجود ہے۔ لیکن انہیں دوسرے لفظوں میں دوہرانا چاہتا ہوں تاکہ اس سلسلے میں ’’واقعی ترقی پسند عناصر‘‘ کی اور وضاحت ہو جائے۔

    یہ سوال بار بار اٹھایا جا رہا ہے کہ ترقی پسند ادب کی تعریف کیا ہے؟ یہ سوال مجھے اس لیے کچھ عجیب سا معلوم ہو رہا ہے کہ وہی لوگ جو یہ سوال کرتے ہیں کیا واقعی ادب اور شعر کی ایسی تعریف کر سکتے ہیں جسے تمام ادیب، شاعر اور نقاد تسلیم کر لیں؟ پھر اگر ادب کی تعریف غیر متعین ہے تو ترقی پسند ادب کی تعریف پر اس قدر اصرار کیوں ہے؟ اور اگر میں یا کوئی اورشخص ترقی پسند ادب کی کوئی تعریف منطقی حیثیت سے تیار بھی کر دے تو کیا تمام لوگ اسے تسلیم کر لیں گے؟ تعریف کا مطالبہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو ادب اور شعر کو جامد سمجھتے ہیں، ہر زمانے میں ادب کی تعریف مختلف لفظوں میں کی گئی ہے اور اس زمانے کے لحاظ سے ادب میں کچھ چیزیں شامل کی گئی ہیں، کچھ نکالی گئی ہیں۔

    تشریح اور توضیح سے البتہ بعض باتیں سمجھ میں آتی ہیں مگر توضیح اور تشریح میں دشواری یہ ہوتی ہے کہ چونکہ، ہر شخص کا شعور اس کے مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور جمالیاتی تصورات کی وجہ سے نیز اقتصادی، معاشی اور معاشرتی روابط کی وجہ سے قدرے مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے تشریح میں ان عناصر کی جھلک آ جاتی ہے اور جو لوگ صرف اعتراض ہی کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں، انہیں کئی لکھنے والوں کے خیالات اور انداز بیان کو سامنے رکھ کر خیال آرائی کا ایک دل چسپ مشغلہ ہاتھ آ جاتا ہے۔

    نئے ادب، ترقی پسند ادب یا ادب کی تعریف مشین سے ڈھل کر نہیں نکل سکتی۔ اس لیے اگر لفظی طور پر اختلاف پایا جائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ہاں بعض بنیادی مسائل کے متعلق کسی قدر واضح اور سلجھا ہوا انداز نظر ترقی پسند اور غیر ترقی پسند کے فرق کو نمایاں کر سکتا ہے۔ میں اسی کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ اس وقت بھی اسی کی کوشش کروں گا۔ شاید اس طرح ’’واقعی‘‘ کا مطلب اور صاف ہو جائے، گو اس کے بعد بھی بالکل میکانکی زاویۂ نظر رکھنے والوں کے لیے، ادب کو دو اور دو چار کی حیثیت سے سمجھنے والوں یا اپنی بات پر اڑے رہنے والوں کے لیے بہت سے شبہات کی گنجائش باقی رہ جائےگی۔

    ترقی پسند ادیب ادب کو مقصود بالذّات نہیں سمجھتا بلکہ زندگی کی ان کشمکشوں کی توجیہہ، تشریح اور اظہار کا آلہ سمجھتا ہے جن سے زندگی کی نشو ونما ہوتی ہے اور اسے ان مقاصد کے حاصل کرنے کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے، جن سے آزادی، امن اور ترقی عبارت ہے۔ ادب اس کے لیے اسی جدوجہد، اسی کشمکش حیات کا مظہر ہے۔ ادب زندگی ہی کی طرح تغیر پذیر ہے۔

    ایسی حالت میں ترقی پسند ادیب واقعیت اور حقیقت کو تخیل کی بے راہ روی اور بےکار پرواز پر ترجیح دینا ضروری سمجھتا ہے۔ حقیقت خود بھی بدلتی رہتی ہے اور ایک ہی حقیقت طبقات کے نقطۂ نظر سے بھی مختلف ہوتی ہے۔ اس کے لیے حقیقت کا حرکی تصور ضروری ہے۔

    ترقی پسند ادیب جمہوریت کا خواہاں ہوتا ہے، وہ کلچر کو چند انسانوں کی ملک بنانے کے بہ جائے تمام انسانوں کے فائدے کی چیز بنا دینا چاہتا ہے، وہ انسانی ترقی کے لیے اسے ضروری سمجھتا ہے کہ عوام بھی مسرور اور خوش حال ہوں۔ انسان پرستی اور انسان دوستی کو وہ محض اخلاقی فریضہ نہیں سمجھتا بلکہ دنیا کو اس سے بھر دینا چاہتا ہے، اس پر عمل کرنا اور کرانا چاہتا ہے۔

    وہ ان تمام لوگوں سے اتحاد کرنا چاہتا ہے جو آزادی کی تحریک کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور اتحاد دشمن طاقتوں سے برسر پیکار ہیں اور یہ آزادی، ظاہر ہے انسانوں کی مشترک ملک ہوگی، کسی خاص جماعت کی نہیں۔ جس عہد میں اس تحریک آزادی کی جو نوعیت ہو، اس کا سمجھنا بھی اس کے لیے ضروری ہے۔

    یہ چند اساسی حقائق ہیں جن سے ترقی پسند ادیب کے ذہن اور شعور کی تشکیل و تعمیر ہوتی ہے۔ وہ محبت اور نفرت، مناظر فطرت اور حسن کے گیت بھی گاتا ہے تو یہ باتیں پس منظر کی حیثیت سے اس کے ذہن میں موجود رہتی ہیں۔ انہیں مرکز قرار دے کر اس کا ذہن افسانے، ڈرامے، نظمیں، تنقیدی مضامین لکھتا ہے، لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ ترقی پسند ادیب پر کوئی دوسرا اثر پڑتا ہی نہیں۔ وہ انسان ہوتا ہے، اس کے اپنے معاشی، معاشرتی روابط ہوتے ہیں، اس کے انفرادی جوش و ہیجان کے لمحات ہوتے ہیں جن پر وہ کبھی قابو پا لیتا ہے اور کبھی نہیں پاتا، کبھی ان لمحات کو ان اساسی حقائق کی روشنی میں دیکھتا ہے، کبھی نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے اس کے یہاں کچھ اور باتیں بھی ملتی ہیں۔

    لیکن جن باتوں کا ذکر میں نے کیا ہے یہ اس کے ذہن کے لیے محور کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہی محور میرے خیال میں اس کے شعور کی سب سے مضبوط چٹان ہے جس کو پشت پناہ بناکر وہ دوسری حقیقتوں میں بھی زور بھر لیتا ہے، انہیں مقاصد کے اظہار کے سلسلے میں وہ دوسری باتیں بھی لکھتا ہے، کبھی کامیاب ہوتا ہے کبھی ناکام۔ اگر ادب میں ان مقاصد کو وہ اہمیت نہ دے تو وہ سب کچھ ہے، ترقی پسند نہیں۔ اس طرح جس کی ہر تحریر میں یہ بنیادی مسائل ادبی اور شاعرانہ خصوصیات کو برقرار رکھتے ہوئے پاے جائیں وہ ترقی پسندی کے نقطۂ نظر سے زیادہ قابل غور ہوگا جو عام طور سے انہیں مقاصد کو سامنے رکھ کر لکھتا ہے اور کبھی کبھی جذبات کی زد میں بہہ جاتا ہے۔ وہ اس حد تک ضرور ترقی پسند ہے جتنا کہ اس کی تحریریں ہمیں زندگی کی بنیادی کشمکش کے سمجھنے اور راستہ پانے میں مدد دیتی ہیں۔

    معلوم نہیں بات صاف ہوئی یا نہیں لیکن میں نے ’’واقعی ترقی پسند عناصر‘‘ کا ضمیمہ اسی لیے لگایا تھا۔ کمیونزم یا سوشلزم کی اشاعت مقصود نہ تھی۔ اگر کوئی لکھنے والا ان باتوں کو پس پشت ڈال کر ترقی پسندی کا کوئی اور مفہوم لیتا ہے، عریانی کو، مغربیت کو، آزاد نظم گوئی کو، ابہام کو، نراج اور انفرادی نقطۂ نظر کو، ہر اس تحریر کو جو ۱۹۴۴ء میں لکھی گئی، ہر اس مضمون یا نظم کو جو قدیم سے کسی حیثیت سے مختلف ہے، لامذہبیت کو ترقی پسندی کا نام دیتا ہے تو جو کچھ میں ترقی پسندی کے معنی سمجھے ہیں، اس سے اس شخص کا تعلق نہیں۔ چونکہ بہت سے نئے ادیب اور ان کے نقاد، ان کے معترض اور تعریف کرنے والے صرف انہیں باتوں کو ترقی پسندی سمجھتے ہیں، اس لیے ’’واقعی‘‘ کا ضمیمہ میرے خیال ناقص میں ضروری تھا۔

    اخلاق اور ادب وغیرہ کے متعلق جو کچھ مولوی اختر علی صاحب نے فرمایا ہے، اس کے لیے میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں اپنے خیالات کئی بار ظاہر کر چکا ہوں، پھر دہرانا نہیں چاہتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم اور وہ ایک جگہ نہ آ سکیں گے۔ موصوف ادب کو لفظوں کا حسن استعمال سمجھتے ہیں۔ میں اسے معنی اور لفظ کے ایک ایسے امتزاج کا نتیجہ سمجھتا ہوں جس میں بہ ہر حال پہلی جگہ معنویت کی ہے۔ موصوف کے لیے ادب خود ہی مقصد ہے، میں اسے زندگی کا ترجمان، نقاد، کشمکش کا مظہر اور ادیب کے اس شعور کا آئینہ دار جانتا ہوں جو مادّی کشمکش کا نتیجہ ہوتا ہے۔ موصوف اخلاق کی قدروں کو ہمیشہ کے لیے مانتے ہیں، میں اسے سماج کے بڑھتے اور پھیلتے، مٹتے اور ترقی کرتے ہوئے عناصر کے ساتھ بدلتا ہوا مانتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ انسانی فطرت بدلتی رہتی ہے، بدل رہی ہے، بدلےگی اور اگر حالات بدل دیے جائیں تو کوشش سے بھی بدلی جا سکتی ہے۔ موصوف لفظوں کے مفہوم کو لیتے ہیں اور اسی سے فیصلہ کر لیتے ہیں۔ میں لفظوں کو استعمال کرنے والے اور استعمال ہونے کی حالت کے مطابق تغیر پذیر مانتا ہوں، اس لیے میں بعض چیزوں کے معانی اس سے مختلف سمجھتا ہوں جو موصوف سمجھتے ہیں۔

    اس طرح کی اور کئی باتیں ہیں جن پر شاید ہم کبھی ایک نہ ہوں گے، ممکن ہے کسی قدر قریب آ سکیں۔ میں کیا کروں، تھورا بہت ادب، فلسفہ، فلسفۂ معاشرت، تاریخ اور سائنس پڑھنے کے بعد میں انہیں نتائج کو صحیح سمجھتا ہوں اور ابھی تک ان کے تبدیل ہونے کی کوئی وجہ میرے سامنے نہیں آئی ہے۔ عالمگیر، اکتوبر۱۹۴۴ء والے مضمون میں میرے خیالات سے محترمی اختر علی صاحب نے اختلاف کیا تھا۔ میں نے مختصر الفاظ میں اپنا خیال ان اختلافات کے متعلق ظاہر کر دیا اور جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں، بحث کے لیے نہیں صرف حفاظت خود اختیاری کے طور پر، غلط فہمی کو دور کرنے اور اپنے خیالات پر پھر ایک ناقدانہ نظر ڈالنے کے لیے۔ مداوا کے پڑھنے کے بعد میرے خیالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ اگر ہوئی ہوتی تو اعتراف کرتے ہوئے مجھے جھجھک بھی نہ ہوتی کیونکہ میں صحیح راہ پانے ہی کے لیے پڑھتا لکھتا ہوں۔

    مندرجہ بالا مضمون کے ذریعے سے میں نے اپنے خیال میں ترقی پسند ادب کی خصوصیتوں کی وضاحت کر دی تھی۔ لیکن اس نے محترمی مولوی سید اختر علی صاحب تلہری کو مطمئن نہیں کیا اور موصووف نے مئی۱۹۴۵ء کے عالمگیر میں جواب الجواب تحریر فرمایا۔ اس میں اصل بحث کے بہ جائے موصوف منطقی موشگافیوں کی جانب مائل ہو گئے اور یہ فرمانے کی زحمت نہیں گوارا فرمائی کہ ترقی پسند ادب کی خصوصیات اسے کام کا ادب بناتی ہیں یا نہیں۔ بلکہ نئے مسائل پیدا کر دیے۔ مولانا نے جو اعتراض میرے مضمون (۲) پر فرمائے، مختصراً یہ ہیں،

    (۱) احتشام حسین صاحب مداوا سے ضرور متاثر ہوئے گو مداوا ۱۹۴۴ء میں نکلی لیکن اس کے بعض مضامین اور پہلے شایع ہو چکے تھے ان کا اثر ہوا ہوگا۔

    (۲) ہر جگہ ترقی پسند ادب کو نئے ادب میں شامل بتایا گیا ہے لیکن ایک جگہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ احتشام حسین صاحب قدیم ادب میں بھی ترقی پسندی کے قائل ہیں۔ منطقی حیثیت سے یہ درست نہیں کیونکہ جس طرح نیا ادب قدیم ادب کی نفی کرتا ہے، اسی طرح ترقی پسند ادب بھی قدیم ادب کے باہر کی چیز قرار پائےگا۔ یہ منطقی سقم اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ احتشام صاحب کے ذہن میں دونوں کا فرق واضح نہیں۔

    (۳) کسی زمانے میں احتشام حسین صاحب ابہام کو پسند کرتے تھے، اب نہیں کرتے۔ ن۔ م۔ راشد کی تعریف کرتے تھے۔ اب ان کا ذکر تنقیدی انداز میں کرتے ہیں۔

    (۴) احتشام صاحب لاکھ کہیں لیکن ترقی پسند ادب کا مقصد اشتراکیت اور اشتراکی ادب کی اشاعت کے سوا اور کچھ نہیں۔ مولانا پوچھتے ہیں کہ کیا ترقی پسند ہونے کی حیثیت سے (وہ ترقی پسند نقاد) اس ادب کو جو واقعیت پر مبنی ہو، جو آزادی چاہتا ہو، جو عوام کا بہی خواہ ہو، مارکس اور لینن کا مخالف ہو اور مذہب اسلام کو ان باتوں کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہو، ترقی پسند ادب ماننے کے لیے تیار ہوں گے؟

    (۵) احتشام صاحب نے مولانا اختر علی صاحب کے ادبی عقائد کی غلط ترجمانی کی۔ موصوف کو ادب برائے ادب کا حامی بتایا، خیال پرست کہا اور لفظوں کو خیالات پر اہمیت دینے والا قرار دیا جو صحیح نہیں۔

    جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے، بحث کسی قدر اپنے اصل موضوع سے ہٹ گئی تاہم مزید وضاحت کے لیے ان خیالات پر رائے دینے کی ضرورت مجھے محسوس ہوئی اور حسب ذیل مضمون اسی احساس کا نتیجہ ہے۔ یہ مضمون میں نے مدیر رسالہ عالمگیر کے نام ایک خط کی شکل میں لکھا۔

    (۳)
    محترمی جناب ایڈیٹر صاحب عالمگیر تسلیم!
    جب آپ نے مجھے اطلاع دی تھی کہ محترمی اختر علی صاحب کا مضمون میرے مضمون کے جواب میں شائع ہو رہا ہے تو میں نے لکھا تھا کہ میں جواب نہ لکھوں گا کیونکہ آج تک میں نے ایسی بحثوں کا خاتمہ اس وقت تک نہیں دیکھا ہے جب تک ایڈیٹر گھبرا کر خود اپنے اخبار یا رسالے میں بحث کے بند ہونے کا اعلان نہ کر دے۔ ہم میں بدقسمتی سے نہ جانے کیوں یہ فراخ دلی بھی نہیں ہے کہ اگر بات سمجھ میں آ جائے تو اپنی شکست کا اعتراف کر لیں۔ ایک وجہ میری سمجھ میں آتی ہے، شاید دل چسپ ہو، اس لیے آپ سے بھی اس کا اظہار کرتا ہوں۔ بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایسی بحثیں تھوڑی دیر کے بعد وہ شکل اختیار کر لیتی ہیں کہ ان کی حیثیت لفظی نزاع سے زیادہ نہیں رہ جاتی ہے۔ چاہے اصل موضوع سے اتفاق بھی ہو جائے لیکن لفظوں کے استعمال، ان کے معنی متعین کرنے، ان کے لب و لہجے سے نئے مطالب نکالنے کی کافی گنجائش ہر وقت باقی رہتی ہے۔ اس لیے جب تک جی چاہے ایسی بحثیں چلائی جا سکتی ہیں۔ ہر دفعہ کچھ نہ کچھ بحث کے لیے مل ہی جائےگا۔ اور جس کے قلم میں زور، دماغ میں سکت، دل میں حوصلہ اور فرصت مجادلہ ہے وہ دل چسپی برقرار رکھ سکتا ہے۔

    اس لیے میں نے لکھا تھا کہ میں جواب اور جواب الجواب کو مفید نہیں سمجھتا اور اگر کبھی اس کی جرأت کرتا بھی ہوں تو اپنے خیالات کا جائزہ لینے کے لیے یا کسی ایسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے جس کی وجہ سے مسئلے میں نئی الجھنیں پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہو۔ ان باتوں کے علاوہ کوئی تین چار مہینے سے میری صحت اچھی نہیں ہے اور لکھنے پڑھنے کا شغل تقریباً متروک ہے۔ پڑھنے کا کام تو برا بھلا ہو بھی جاتا ہے لیکن لکھنا بند ہے۔ تاہم جب مولوی اختر علی صاحب کا مضمون میں نے پڑھا تو چند مسائل پر اظہار خیال کو جی چاہا مگر میں نے اسے مضمون کی شکل میں لکھنے کے بہ جائے آپ کے نام خط کی شکل میں لکھا ہے تاکہ جواب الجواب کی نوعیت باقی نہ رہے۔ مولانا کا جی چاہے تو اسے میری شکست سے تعبیر کر لیں۔ میں اس طنز اور تلخی سے مولانا کے قلم کو بچانا چاہتا ہوں جو اس دفعہ جواب لکھتے ہوئے ان کے وہاں ذرا زیادہ راہ پا گئے ہیں۔

    میں نے ابھی جو یہ کہا کہ لفظی نزاع کا ختم ہونا آسان نہیں، اس کی سب سے اچھی مثال یہ ہے کہ اگر مولانا اختر علی صاحب ہندوستان کی آزادی، دنیا میں امن و سکون، ترقی اور جمہوریت کو پسند کرتے ہیں، شاعر اور ادیب کے خلوص کے منکر نہیں ہیں اور ساری دنیا کو گھسیٹ کر اس مرکز پر نہیں لانا چاہتے، جہاں موصوف خود ہیں، کلچر اور ثقافت کو عام انسانوں کی ملک بنانا چاہتے ہیں تو پھر بحث کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ بنیادی طور پر میں نے انہیں چیزوں کو ترقی پسندی قرار دیا تھا اور اس سلسلے میں سوشلزم کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ لیکن مولانا اختر علی صاحب نے اسلام اور سوشلزم کا مقابلہ شروع کر دیا۔ اگر ادب کے معاملے میں مندرجۂ بالا مقاصد کسی شاعر یا ادیب کے پیش نظر ہوں تو اسلام یا سوشلزم کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔

    یہ بحثیں اصل مقصد سے دور ہٹاتی ہیں اور لفظی نزاع کی نئی صورتیں پیدا کرتی ہیں۔ اگر میں نے کسی جگہ لکھا یا کہا ہو کہ اشتراکی ادب اور ترقی پسند ادب دونوں ایک ہی چیز ہیں تو یہ سوال پیدا کیا جا سکتا تھا کہ کیا اشتراکی ادب کے علاوہ کوئی اور ادب ترقی پسند نہیں ہو سکتا؟ میرے مضامین کا مطالعہ کرنے والے اور میرے جاننے والے اسے اچھی طرح جانتے ہیں کہ دونوں کو ایک نہیں سمجھتا۔ میں بہت سے غیر اشتراکی ادیبوں کو پڑھتا اور پسند کرتا ہوں، ان کے متعلق لکھتا ہوں، قدیم ادب کو بے معنی اور لغو نہیں سمجھتا، پھر اس سلسلے میں اشتراکی ادب اور اسلامی ادب کی بحث صحیح نہیں ہو سکتی یہ حر بے بحث میں کام تو آتے ہیں لیکن ایک ایسی دھند پھیلا دیتے ہیں کہ اصل مقصد کی شکل ہی بدل جاتی ہے۔

    اگر مولانا آزادی کی حمایت میں، رجعت پسندی کی طاقتوں کی مخالفت میں، عوام کو علم اور کلچر سے آشنا بنانے کے لیے، انسانیت کو سربلند کرنے کے لیے، دنیا کو ترقی کی راہ پر لگانے کے لیے، حقیقتوں سے روشناس کرانے اور حالات کے بدلنے پر آمادہ کرنے کے لیے لکھیں تو میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ کوئی ترقی پسند انہیں غیر ترقی پسند نہ کہے گا۔ ترقی پسندی کا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ ادیب اشتراکی بن جائے لیکن اگر کوئی ترقی پسند اشتراکیت کو ایک معقول نظام حیات سمجھتا ہے اور اس کے متعلق لکھتا ہے تو اس خطا پر کہ اسے اشتراکیت سے دل چسپی ہے اور اس کے خیالات میں اس کی جھلک پائی جاتی ہے، اسے ترقی پسندی سے الگ بھی نہیں کیا جا سکتا۔

    کیا میں نے یا کسی ترقی پسند نقاد نے کبھی کسی کو اس بنا پر غیر ترقی پسند کہا ہے کہ وہ مسلمان یا ہندو ہے؟ محترمی اختر علی صاحب کے دل میں یہ خیال صرف اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ موصوف مذہبی مضامین لکھتے ہیں اور عقاید میں ترقی پسند نہیں ہیں۔ اس لیے جب انہیں غیر ترقی پسند کہا جاتا ہے تو ترقی پسند پر یہ الزام لگانا چاہتے ہیں کہ وہ سوائے اشتراکی ادیب کے اور کسی ادیب کو ترقی پسند نہیں سمجھتے! کیا قیامت ہے کہ ہم میر، غالب، انیس، میر امن، آزاد، حالی، شیکسپئیر، ملٹن، فردوسی، اقبال، حافظ، سعدی، کالی داس، تلسی داس اور ہزاروں دوسرے شاعروں اور ادیبوں کی تعریف کریں تو کچھ نہیں، اگر دو لفظ کسی ایسے ادیب کی تعریف میں لکھ دیں جو اشتراکی ہو تو بس ہم نے صرف اشتراکیت کو ادب قرار دے دیا۔ اور جو کچھ اس کے علاوہ کہا ہے، وہ غیر مخلصانہ یا جھوٹ ہے۔

    مولانا نے ان تمام ضروری باتوں کو، جن سے ترقی پسندی کی وضاحت ہوتی تھی پس پشت ڈال دیا اور چند الفاظ یا جملے لے کر ان میں منطقی اسقام تلاش کرنا شروع کیا۔ مجھے یقین ہے کہ مولانا کی تحریروں کا کوئی پڑھنے والا موصوف کو آزادی پسند، مجموعی حیثیت سے انسانی مسرت کا حامی، جمہوریت کا علم بردار قرار نہیں دے سکتا۔ اس لیے موصوف کا یہ کہنا کہ وہ ادب برائے زندگی کے قائل ہیں، الفاظ کے ساتھ معانی کے بھی قائل ہیں، سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ یقیناً موصوف کے یہاں زندگی اور معنویت کے وہ مفاہیم ہیں جن سے لوگ عام طور پر واقف نہیں ہیں۔ موصوف فرماتے ہیں کہ احتشام صاحب نے ’’میرے ادبی عقائد‘‘ کی غلط ترجمانی کی۔

    میں بہت ادب سے پوچھتا ہوں کہ موصوف کے ادبی عقائد کیا ہیں؟ اگر واضح خیالات کی عدم موجودگی میں، میں نے موصوف کے ادبی عقاید ان کی تحریروں سے تلاش کیے تو کیا غلطی کی۔ موصوف نے ابھی تک اپنے ادبی یا کسی عقیدے کا واضح اظہار نہیں کیا ہے۔ ہمیشہ تخریبی اور منفیانہ رخ پیش کیا ہے اور جب ایک شخص اس شدت کے ساتھ ترقی پسندی کی مخالفت کرےگا تو پڑھنے والا اس کے متعلق یہی نتیجہ نکالےگا کہ وہ ترقی پسندی کے عام بنیادی عقاید یعنی آزادی، مساوات، جمہوریت، حقیقت پسندی اور عوام دوستی کا مخالف ہے۔ مولانا کا یہی رویّہ ہے جس نے یہ نتائج نکالنے پر مجبور کیا۔ اور میں کیا، جو شخص بھی موصوف کے مضامین پڑھے گا، یہی نتیجہ نکالے گا۔ بحث مباحثہ کے لیے تخریبی یا منفی رخ اختیار کرنا ضرور مفید ہوتا ہے لیکن اس سے کوئی تعمیری مقصد پورا نہیں ہوتا۔

    میں نے ترقی پسندی کی تعریف کے سلسلے میں اپنی بے بضاعتی کا اظہار کیا تھا بلکہ اس کی جگہ ترقی پسندی کی توضیح اور تشریح اچھی طرح کر دی تھی۔ لیکن مولانا تعریف پر مصر ہیں۔ میں نے کہا تھا کہ کسی نے آج تک شعروادب کی مکمل تعریف نہیں پیش کی۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ایسا ہوا کرے، ترقی پسندی کی تعریف تو کرنا ہی پڑے گی۔ میں نے کہا تھا کہ ہر شخص کے شعور، اس کے مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور جمالیاتی تصورات کی تعریف آسان نہیں۔ مولانا فرماتے ہیں، ہاں یہ تو ٹھیک ہے لیکن پھر بھی آپ تعریف کیجئے۔ اگر میری تشریح اور توضیح کے بعد بھی ایک منطقی تعریف کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے تو میں جواب میں خاموشی اختیار کرتا ہوں، بلکہ شکست مانتا ہوں کیونکہ ایسی حالت میں مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ موصوف میری بات کو سمجھنا نہیں چاہتے، بحث کرنا چاہتے ہیں۔

    میں اپنی بصیرت کے لیے موصوف سے استدعا کروں گا کہ وہ شعر، ادب، غزل اور اسی قسم کے اور اصناف کی منطقی تعریف فرما دیں تو نہ صرف مجھ پر بلکہ ساری ادبی دنیا پر احسان ہوگا۔ موصوف مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ اشتراکیت کی کئی قسمیں ہیں اور ایک نقطۂ نظر دوسرے سے کتنا مختلف ہے۔ اس لیے جب موصوف ترقی پسندی کو اشتراکیت کہتے ہیں تو کون سی اشتراکیت مراد ہوتی ہے؟ رسولؐ اسلام کی آنکھ بند ہوتے ہی اسلام کو مختلف شکلوں میں پیش کیا گیا۔ آج بھی نئی شکلوں میں پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ کیا چیز ہے جسے موصوف اسلام کہہ کر مراد لیتے ہیں۔ اگر اسلام کے تحت معمولی اختلافات رکھنے والے رکھے جا سکتے ہیں تو ترقی پسندی کے تحت میں معمولی اختلافات رکھنے والوں کا پایا جانا کیونکر تعجب کی بات قرار پا سکتا ہے! اس میں اشتراکی بھی ہوں گے، مسلمان بھی۔ لیکن سب کے سب بنیادی طور پر آزدی، مساوات، جمہوریت، حقیقت اور ترقی کے حامی ہوں گے۔ اس لیے مقصد کو سمجھنے کے لیے تعریف سے زیادہ تشریح کی ضرورت ہے اور عام طور پر کام اسی طرح چل رہا ہے۔

    مولانا اختر علی تلہری اب بھی اس بات پر مصر ہیں کہ میرے یہاں بعض تبدیلیاں مداوا کے مضامین پڑھ کر پیدا ہوئی ہیں۔ فرماتے ہیں، ’’اگر مداوا جنوری۱۹۴۴ء میں شائع ہوئی تو اس کے چند مضامین اس سے پہلے شائع ہو چکے تھے۔‘‘ میرا خیال ہے کہ مداوا میں کوئی مضمون ۱۹۴۳ء سے پہلے کا لکھا ہوا نہیں ہے، اس لیے اگر میں نے اپنے ۱۹۴۰ء اور ۱۹۴۲ء کے مضامین کا حوالہ دے کر یہ لکھا تھا کہ میں بہت پہلے سے سارے نئے ادب کو ترقی پسند ادب نہیں سمجھتا تو معلوم نہیں موصوف اسے کیوں نہیں ہاور کرتے۔

    میرے پیش نظر وہ مضامین نہیں ہیں جو موصوف نے یا میں نے سرفراز، لکھنؤ میں اکتوبر۱۹۴۳ء یانومبر۱۹۴۳ء میں لکھے۔ اس لیے میں یقین کے ساتھ ان کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ان میں میں نے کیا لکھا۔ البتہ مولانا نے جو بات لکھی ہے وہ میری سمجھ میں نہیں آئی۔ موصوف فرماتے ہیں، ’’ان مضامین کی اشاعت کے بعد سے ایسا ضرور محسوس ہوتا ہے کہ جناب موصوف (احتشام) ہمارے ان اعتراضات سے جو نئی شاعری کے الہامی پہلو (؟) سے متعلق تھے، بہت کچھ متفق ہو گئے ہیں اور انھوں نے اس سلسلے میں اپنے خیالات کا رخ کسی قدر بدل دیا ہے۔ اس کے ثبوت میں سرفراز، لکھنؤ کے وہ پرچے پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں انہوں نے نئی شاعری سے بحث کرتے ہوئے اس کے الہامی عنصر (؟) کی استحسانی توجیہہ فرمائی تھی۔‘‘

    میں ان لفظوں کا مطلب نہ سمجھ سکا، اس لیے کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر اس سے ابہام مراد ہے اور میں نے ابہام اور طرز اظہار کی پیچیدگی کو غلط کہا ہے تو کسی کے مشورے سے نہیں بلکہ بہت دنوں سے یہ جانتا ہوں کہ جس کی بات سمجھ میں نہ آئے وہ اچھا فنکار نہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں اس بات پر بھی غور کر لینا چاہیے کہ کہیں نہ سمجھنے کی وجہ ہماری اپنی کم علمی اور بے بضاعتی تو نہیں ہے؟ ابہام اور طرز اظہار کی پیچیدگی کا مطلب ایسی حالت میں کچھ اور ہی ہو جائےگا۔

    اس سلسلے میں موصوف نے میری ایک غلطی اور پکڑی ہے۔ میں نے کہیں ن۔ م۔ راشد کی شاعری کا ذکر عقیدت مندانہ لہجے میں کیا تھا، پھر تقریظی حدود سے نکل کر تنقیدی حدود میں آ گیا۔ اس کے متعلق دو جملے خاص طور سے لکھنا چاہتا ہوں۔ موصوف اسے نقطۂ نظر کی تبدیلی سمجھتے ہیں تو مجھے تعجب ہوتا ہے۔ ہم جب کسی شخص یا چیز کے بارے میں کچھ کہتے ہیں تو ہر جگہ اس کے متعلق ہر بات نہیں کہہ دیتے بلکہ سلسلۂ کلام میں جس بات کی ضرورت ہوتی ہے اسی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ایک طرف طوالت جاں سوز ہو جائے، دوسری جانب بلاغتِ کلام کا خون ہو۔ اس لیے اگر میں نے ن۔ م۔ راشد کے کسی مخالف سے راشد کی شاعری کی چند خصوصیتیں بیان کر دیں تو اس کا مطلب یہ کسی طرح نہیں ہوا کہ راشد کے متعلق میرے خیالات کا ذخیرہ ختم ہو گیا۔

    جب میرا تخاطب راشد کے کور مقلدین سے ہوگا تو اس وقت میں راشد کی شاعری کے عیوب بیان کروں گا۔ اس لیے مولانا کا یہ فرمانا کہ میں نے اپنا نقطۂ نظر موصوف کا مضمون پڑھنے کے بعد بدل دیا ہے، صحیح نہیں ہے۔ میں نے ہمیشہ راشد کے اکثر خیالات سے اختلاف کیا ہے۔ میں ان کے خیالات کو صحت بخش نہیں سمجھتا لیکن یہ بھی کہتا ہوں کہ انہیں اپنے خیالات پر غیرمعمولی قدرت ہے اور کبھی کبھی جب ان کے خیالات مجھے اپنے خیالات سے ملتے ہوئے معلوم ہوئے ہیں تو ان کا اثر مجھ پر کافی ہوا ہے۔ جون ؁۱۹۴۳ء میں بھی میں نے لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے تقریر کرتے ہوئے راشد کے خیالات کو غیر صحت مند کہا تھا۔

    ایک بات اور واضح کر دینا چاہتا ہوں، اگر کبھی کوئی بات میری سمجھ میں آ گئی ہے جسے میں پہلے دوسری نظر سے دیکھتا تھا تو میں اپنی رائے نئے علم کی روشنی میں ضرور بدل دوں گا اور خوش ہوں گا۔ اور اگر یہ تبدیلی مولوی اختر علی صاحب کے کسی مضمون کو پڑھ کر ہوئی تو مجھے اور زیادہ خوشی ہوگی کیونکہ میں جانتا ہوں کہ موصوف کافی غور وفکر کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی قابل غور ہوتے ہیں۔

    ایک اور جگہ جہاں مولانا نے غیرمعمولی منطقی احتیاط سے کام لے کر میری غلطی نکالی ہے، وہی نئے ادب اور ترقی پسند ادب کا فرق ہے۔ معلوم نہیں موصوف میری بحث کی روح سے متفق ہیں یا نہیں کیونکہ یہ تو ایک معمولی سی لفظی قباحت ہے جو شاید میری بداحتیاطی اور زودنویسی کی وجہ سے واقع ہو گئی ہے۔ لیکن جس کا اثر نفس مضمون پر نہیں پڑتا۔ میں نے ان الفاظ کو دو بارہ پڑھا۔ میرے لیے تو بات صاف ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مولانا کو دقت پیش آئی ہو۔ میں اسے پھر واضح کرنا چاہتا ہوں اور اگر اب مولانا میرے الفاظ پڑھیں گے تو موصوف کو دشواری نہ ہوگی اور وہ منطقی سقم بھی نظر نہ آئےگا جس کا تذکرہ موصوف نے کیا ہے۔

    میں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ’’ہر ترقی پسند ادب نیا ادب ضرور ہوتا ہے لیکن ہر نئے ادب کا ترقی پسند ہونا ضروری نہیں۔‘‘ اس کے بعد میں نے لکھا تھا کہ ’’ترقی پسند ادب چند ایسی خصوصیتیں رکھتا ہے کہ اگر وہ ادب کے کسی حصے میں پائی جائیں تو وہ ترقی پسند ادب کہا جائےگا۔‘‘ مولانا نے اس سے یہ بالکل صحیح نتیجہ نکالا کہ اس طرح (دوسرے جملے کی وجہ سے) قدیم ادب میں بھی ترقی پسند ادب پایا جا سکتا ہے اور چونکہ پہلے جملے میں ترقی پسند ادب کو نئے ادب کی خصوصیات میں شامل بتایا گیا ہے، اس لیے یہ بات صحیح نہیں ہو سکتی۔ اگر مولانا کو بحث مقصود نہ ہوتی اور میرا مطلب سمجھنا چاہتے تو موصوف میرے ایک جملے سے یہ معلوم فرما سکتے تھے کہ میں قدیم ادب میں بھی ترقی پسندی کا قائل ہوں۔ جس مضمون کا جواب مولانا نے لکھا ہے اس میں یہ جملہ بھی ہے کہ ’’کسی عہد کا سارا ادب رجعت پسند نہیں جس طرح آج کا سارا ادب ترقی پسند نہیں۔‘‘

    میں اس کا بارہا اعتراف بھی کر چکا ہوں اور متذکرہ بالا جملے میں بھی یہ بات موجود ہے کہ قدیم ادب میں بھی زندگی کے مخصوص ادوار کے لحاظ سے ترقی پسندی پائی جا سکتی ہے۔ لیکن چونکہ مولانا کی منطق بھی ان کے مقصد ادب کی طرح جامد ہے، اس لیے وہ حقیقتوں کوو قت کے رشتے میں نہیں دیکھتی۔ اس کے نتیجے میں موصوف نے یہ سمجھ لیا کہ اگر ترقی پسندی، جدید ادب کا جزد ہے تو قدیم ادب میں نہیں پائی جا سکتی۔ میرے بیان میں کسی قسم کی پیچیدگی اس وقت نظر آ سکتی ہے جب اس پر غور کرنے والا ادب کے تسلسل کا قائل نہ ہو، ادب اور زندگی کے معاشی معاشرتی تعلق کا قائل نہ ہو۔ اپنے پچھلے مضمون میں چونکہ میں نئے ادب اور ترقی پسند ادب کے فرق پر گفتگو کر رہا تھا، اس لیے میں نے اس فضا کا لحاظ رکھتے ہوئے انہیں دونوں کے فرق کو واضح کیا اور ترقی پسندی کا لفظ نئے ادب کے رشتے میں استعمال کیا ورنہ صحیح تو یہ ہے کہ جو کل جدید تھا وہ آج قدیم ہے۔ یہی نہیں، بلکہ جو کل کے نقطۂ نظر سے ترقی پسند تھا وہ آج کے لحاظ سے ترقی پسند نہیں ہے۔

    ایک زمانے میں ’ہوم رول‘ کا تقاضا ترقی پسند تقاضا تھا، آج مکمل آزادی کے مطالبے کے مقابلے میں یہ مطالبہ ترقی پسند نہیں ہے، گو خالص منطقی لحاظ سے اگر ایک تقاضا ترقی پسندا نہ ہے تو وہ رجعت پسندانہ ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن تاریخی طاقتوں کے بڑھتے اور گھٹتے اثرات اور زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے سامنے ترقی پسندی کی شکلیں مختلف ہوں گی۔ قدیم ادب میں بھی ترقی پسندی تھی اور وہ اس سے مختلف تھی جو جدید ادب میں ہے، اس وقت بھی لوگ جیتے تھی، زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد کرتے تھے، اپنی زندگی میں مسرتوں کا اضافہ کرنا چاہتے تھے، جو لوگ اپنی مصلحتوں کی وجہ سے حقیقتوں کو نہ دیکھتے تھے، انہیں اس سے آشنا بناتے تھے۔ ایسے لوگ اپنے خیالات میں ترقی پسند تھے کیونکہ وہ جہد حیات میں ان قدروں کو عزیز رکھتے تھے جن سے انسانیت سر بلند ہوتی ہے، جن سے زوال آمادہ طاقتوں پر چوٹ پڑتی ہے۔

    اصولی حیثیت سے ایسے لوگ ترقی پسند کہے جا سکتے ہیں۔ ان کے لیے جو معرکہ گرم تھا اس میں انہوں نے زندگی کے اہم ترین مسائل پر غور کیا۔ خیر اس وقت تو اس امر کی بحث بھی نہیں کہ قدیم ادب کے سلسلے میں ترقی پسندی کا کیا مطلب ہے، ۔ میں تو اتنا ہی کہنا چاہتا تھا کہ نئے ادب کا ذکر کرتے ہوئے میں نے اس قسم کی ترقی پسندی کا ذکر کیا جو آج معرض بحث میں ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اگلے وقتوں کے لوگ اپنی حدوں میں ترقی کے مفہوم سے ناواقف تھے۔

    میرے مضمون کے جن خاص مطالب میں مولانا نے لفظی یا منطقی گرفت کی تھی ان کا تذکرہ ہو چکا۔ لیکن خلاصے کے طور پر چند سطریں اور ضروری معلوم ہوتی ہیں۔ کوئی شخص جو ادب کو تاریخی طاقتوں کا اور زندگی کی کشمکش کا مظہر سمجھتا ہے، جو آزادی چاہتا ہے، جو عام انسانوں کو انسان سمجھ کر ان میں تمدن کی تمام برکتوں کی اشاعت کرنا چاہتا ہے، جو جمہوریت پسند ہے، جو حقیقت پسند ہے اور جو ادب کو مقصود بالذات نہیں سمجھتا وہ آج ترقی پسند ہے، کل کیا ہوگا یہ نہیں کہ جا سکتا۔

    آج ترقی پسند کے لیے مسلمان، ہندو اشتراکی اور لامذہب ہونے کا سوال نہیں ہے، ممکن ہے کبھی ہو۔ آزاد، مساوات اور جمہوریت کے بڑے محاذ پر جو لوگ ایک ساتھ صف آرا ہیں، وہ ترقی پسند ہیں۔ ان میں کندھے سے کندھا جوڑے ہوئے مختلف مذہب وملت کے لوگ ہو سکتے ہیں، فنی حیثیت سے ان میں خلوص، شعریت، ادبیت، لفظ ومعنی کا توازن ہونا چاہیے۔ بس اگر یہ ہے تو مذہب و ملّت کا سوال نہیں۔

    مولانا نے مذہب کی بحث پیدا کر کے بہت سے لوگوں کو ترقی پسندی سے بدظن کرنا چاہا ہے۔ لیکن قومی اور بین الاقوامی حالات ایسے ہیں کہ لوگ زندگی کے اصل مطالبات سمجھیں گے۔ اگر کوئی ترقی پسند اشتراکی ہے اور اپنی ادبی کاوشوں میں اشتراکیت کی اشاعت کرتا ہے تو اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ترقی پسندی اور اشتراکیت مترادف ہیں۔ ترقی پسندی زندگی کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں پائی جا سکتی ہے۔ چونکہ آج کل نئے ادب کے سلسلے میں اس کا تذکرہ آتا ہے اس لیے نئے ادب ہی کے ساتھ مخصوص کر دیا جاتا ہے لیکن مقصود یہ نہیں ہوتا کہ دوسرے ادوار حیات میں ترقی پسندی سے انکار کیا جائے۔

    میں مولانا سے درخواست کروں گا کہ موصوف کبھی اپنے ادبی عقائد کا واضح اثباتی تذکرہ، دوسروں پر طنز وتعریض کے وار چلائے بغیر کریں تو ہم سب کوفائدہ پہنچے۔ خط بہت طویل ہو گیا، میں معافی چاہتا ہوں لیکن اس سے کم جگہ میں بات صاف نہ ہوتی۔ مجھے مولانا اختر علی صاحب کے مضامین پڑھ کر بار بار یہی محسوس ہوتا ہے کہ موصوف عینیت پسند ہیں۔ موصوف کی فلسفیانہ اور منطقی توجیہیں اسی افتاد نظر کا نتیجہ معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن وہ حقیقتوں کو بھی سمجھنا چاہتے ہیں۔ عینیت پسندی کے بس میں نہیں کہ وہ حقیقتوں کا صحیح ادراک کر کے، حقیقتوں کی حرکت اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کو واضح طور پر سمجھ سکے۔ میں جانتا ہوں کہ موصوف کو یہ باتیں نہ تو اچھی معلوم ہوں گی نہ صحیح۔ لیکن میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہ ساری دشواریاں اسی وجہ سے ہیں۔ موصوف تغیر کو عینیت کے فلسفے سے سمجھنا چاہتے ہیں۔

    ابھی چند دن ہوئے میں نے ایک کتاب پڑھی WHAT IS PHILOSOPHY? (فلسفہ کیا ہے؟) لکھنے والا ایک امریکی عالم HOWARDSELSAM (ہووَرڈ سل سیم) ہے۔ اس کتاب میں اس مسئلے پر بڑی دل کش بحث کی گئی ہے۔ میری خواہش ہے کہ مولانا بھی اسے پڑھیں اور آپ بھی۔

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے