نیا افسانہ: علامت، تمثیل اور کہانی کا جوہر
نیا افسانہ جس کی ابتدا اردو میں ۱۹۵۵-۶۰ء کے لگ بھگ ہوئی تھی، خیر سے اب اپنی جوانی کی منزل میں قدم رکھ رہا ہے۔ ۱۹۸۰ء میں میں نے اپنے مضمون ’’اردو افسانہ: روایت سے انحراف اور مقلدین کے لیے لمحہ فکریہ‘‘ میں بالخصوص اس طرف توجہ دلائی تھی کہ نئے افسانے نے بغاوت کی جو آگ روشن کی تھی، تقریباً چوتھائی صدی کے سفر کے بعد اب وہ آگ ٹھنڈی پڑنے لگی ہے اور نیا افسانہ ایک ایسے دو راہے پر آ گیا ہے، جہاں نئے سوال پیدا ہونے لگے ہیں کہ اب اس کا سفر کس سمت میں ہوگا۔
میں نے یہ بھی کہا تھا کہ نئی کہانی انحراف سے زیادہ اجتہاد اور انقطاع کے لمحوں کی پیداوار تھی۔ نئے افسانہ نگار فکر واحساس اور اظہار واسلوب کے یکسر نئے مسائل سے دوچار تھے۔ ان کے دلوں میں ایک انجانا کرب اور نئی آگ تھی، جس کی وجہ سے نئے افسانے کا آبگینہ تندی صہبا سے پگھلنے لگا تھا۔ اردو میں پریم چند سے لے کر منٹو اور پھر بیدی تک حقیقت نگاری میں کچھ ایسی سطحیں تھیں، جن سے علامتی مفاہیم کا اکھوا پھوٹ سکتا تھا، لیکن باقاعدہ علامتی کہانی کا آغاز ۱۹۵۵-۶۰ء کے لگ بھگ پاکستان میں انتظار حسین اور انور سجاد اور ہندوستان میں بلراج مین را اور سریندر پرکاش کی نسل سے ہوا، ان کے ساتھ ساتھ دوسرے افسانہ نگار اٹھے اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو افسانے کے زمین وآسماں بدل گئے۔
نئی کہانی کا سب سے بڑا مسئلہ حقیقت کا بدلتا ہوا تصور تھا، یعنی حقیقت صرف وہ نہیں ہے جو دکھائی دیتی ہے بلکہ اصل حقیقت وہ ہے جو اسما واشکال کی دنیا سے پرے حواس سے اوجھل رہتی ہے اور جسے لفظ کو محض نشان کے طور پر استعمال کرنے سے نہیں بلکہ لفظ کو استعارے اور علامت کے طور پر استعمال کرنے سے ظاہر کیا جا سکتا ہے، نیز یہ کہ کہانی صرف شعوری یا منطقی رشتوں کا نام نہیں، اس میں لاشعور کی کارفرمائیوں کا بھی عمل دخل ہے۔ چنانچہ وقت کے منطقی رشتے اور زمان ومکاں کی تعبیریں مسترد قرار پائیں اور وقت کا تصور ایک تسلسل کے طور پر دَر آیا۔
تخلیقی رویے کی اس بنیادی تبدیلی کے ساتھ ساتھ پچھلے دور کی سطحی رومانیت، کھوکھلی جذباتیت، اشتہاریت، برہنہ مقصدیت اور خارجیت سب زد میں آئے اور ان پر خط تنسیخ کھنچ گیا۔ نئی کہانی نے اپنی سب سے بنیادی پہچان تصور حقیقت اور اظہار کے پیرایوں میں تبدیلی سے کرائی، یعنی لفظ نرے لفظ نہیں تھے بلکہ ایسے استعاروں اور علامتوں کے طور پر استعمال ہونے لگے جن کے مفاہیم کو منطقی طور پر Para phrase کرنا ممکن نہیں۔ فرد کی فردیت، اس کے معمولی پن میں اس کی Uniqueness، چھوٹے چھوٹے دکھ سکھ اور بنیادی صداقتیں، یعنی زندگی کی نوعیت اور ماہیت، خوشی اور غم کی حقیقت، وجود کا اختیار اور جبر، جنس کی سچائی، عرفانِ ذات کی دہشت نیز طرح طرح کے موضوعات کی رنگا رنگی کہانی کی دنیا میں اپنی کیفیت دکھانے لگی۔
کہانی کی قدر شناسی کی سطح پر بڑی تبدیلی یہ آئی کہ موضوع سے چونکہ ادب کی تشکیل نہیں ہوتی، اس لیے موضوع اور اظہاری پیکر سے مل کر جو تخلیقی وحدت وجود میں آتی ہے، وہ افسانہ ہے۔ یوں ہندوستان اور پاکستان کے نوجوان باغی افسانہ نگاروں نے نئی فنی بلندیاں سرکیں اور بہت سے ایسے افسانے لکھے جو عہد جدید کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ناموں کے دہرانے سے کچھ حاصل نہیں ہے کیونکہ ایسے افسانوں پر بہت گفتگو ہو چکی ہے۔ لیکن پچھلے چند برسوں سے جو مسئلہ پریشانی کا باعث ہے، وہ یہ ہے کہ ۱۹۷۰ء کے بعد نئی کہانی کا جو منظرنامہ مرتب ہورہا ہے اس میں بعض چیزیں صاف نہیں ہیں۔ نئی نسل کچھ تو تقلید کے چکر میں پڑکر ادبِ لطیف اور انشائیے کو افسانہ سمجھ بیٹھی ہے اور کچھ دوراہے پر ’’ٹھٹکی ہوئی ہے‘‘ اور نہیں معلوم کہ کدھر جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ نئی تنقید کو بھی اس بارے میں جو فرض ادا کرنا چاہیے، وہ ابھی اس سے عہدہ بر آ نہیں ہو پائی۔
میں نے اپنے مذکورہ مضمون میں آواز اٹھائی تھی کہ علامتی کہانی ہر فنکار کی کہانی نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ نئی کہانی میں بھیڑ چال شروع ہو جائے اور ہر شخص علامتی، تمثیلی کہانی لکھنے لگے۔ میں نے سوال اٹھایا تھا کہ ’’نئے افسانے میں نئے افسانہ نگار کی اصل بغاوت کس سے تھی، خطیبانہ رومانیت، جذباتیت اور فارمولا زدہ کہانی سے، سیاہ اور سفید کی سطحیت سے، متوسط طبقے کی کھوکھلی اخلاقیات سے، نظریہ بازوں کی اشتہاریت سے اور خارجی تقاضوں کے تحت زندگی کی ادھوری، سطحی اور یک طرفہ ترجمانی سے یا اجتماعی لاشعور کے نہاں خانوں میں پڑی بھولی بسری کتھا اور کہانی کی روایت سے بھی، جو انسانی زندگی کے صدیوں کے ارتقائی تجربوں کو پیش کرتی ہے اور فطرت کے بھیدوں کو فاش کرتی ہے؟‘‘
میرا معروضہ یہ تھا کہ وہ افسانہ نگار جن کے تجربے کی شدت یا احساس و شعور کی پیچیدگی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ تو علامتی کہانی لکھیں گے ہی، ورنہ کیا ضرور ہے کہ وہ افسانہ نگار بھی جو سیدھی سادی کہانی لکھنے پر بھی قادر نہیں، وہ بھی علامتی کہانی کے چکر میں ایسی تحریروں کے انبار لگا دیں، جو کھینچ تان کر بھی نہ کہانی کہی جا سکتی ہیں اور نہ انشائیہ نہ کچھ اور۔ پچھلے دس بارہ برسوں میں علامتی کہانی کے نام پر اس طرح کی بے مزہ تحریریں اتنی بڑی تعداد میں شائع ہوئی ہیں کہ مقلدین کی اس یلغار سے نئی کہانی کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔
(۲)
راقم الحروف کی آواز صدا بصحرا ثابت نہیں ہوئی اور اس پر بہت ہائے توبہ مچی۔ زیادہ تر رونا دھونا اس بات کا ہوا کہ گوپی چند نارنگ علامتی کہانی کی مخالفت کر رہا ہے اور اردو کہانی کو پرانی ڈگر پر لے جانا چاہتا ہے، حالانکہ یہ بات میرے معروضات کے بالکل برعکس تھی۔ اس سلسلے میں ایک بحث ہندوستان کے رسالہ ’’آہنگ‘‘ میں چلی۔ اسی نوعیت کا مضمون پاکستان میں انیس ناگی نے رسالہ ’’معاصر‘‘ (شمارہ ۲، سال ۱۹۸۳ء) میں لکھا۔ دونوں جگہ لکھنے والوں کے غیرادبی تعصبات ان کی تحریروں میں در آئے۔ پیشتر اس کے کہ ان آرا سے بحث کی جائے اور اس بات کو جانچا جائے کہ کیا نئی کہانی کا کوئی رشتہ کتھا کہانی کی پرانی روایت سے ملتا ہے اور کیا کتھا کہانی کے علامتی تمثیلی عنصر سے نئے مفاہیم کے لیے استفادہ کیا جا سکتا ہے، نیز کیا حقیقت نگاری کی چھوڑی ہوئی راہ کو بھی نئے لطف واثر کے ساتھ اپنایا جا سکتا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان چار پانچ برسوں میں نئے افسانے کے حوالے سے جو کتابیں یا خاص خاص مضامین سامنے آئے ہیں، ان کو نظر میں رکھا جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ پچھلے چار پانچ برسوں میں دونوں ملکوں میں اردو افسانے پر خصوصی توجہ کی گئی ہے اور کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ رسالوں کے افسانہ نمبروں کا تو کوئی ٹھکانا ہے ہی نہیں۔ ہندوستان سے راقم الحروف کی مرتبہ ’’اردو افسانہ: روایت اور مسائل‘‘ (۱۹۸۱ء)، شمس الرحمن فاروقی کی ’’افسانے کی حمایت میں‘‘ (۱۹۸۲ء)، مہدی جعفر کی ’’نئے افسانے کا سلسلۂ عمل‘‘ (۱۹۸۱ء) اور ڈاکٹر صادق کی ’’ترقی پسند تحریک اور اردو افسانہ‘‘ (۱۹۸۲ء) شائع ہوئیں۔ پاکستان میں فرمان فتح پوری نے ’’اردو افسانہ اور افسانہ نگار‘‘ (۱۹۸۲ء)، مرزا حامد بیگ نے ’’افسانے کا منظر نامہ‘‘ (۱۹۸۲ء)، مرزا حامد بیگ اور احمد جاوید نے ’’تیسری دنیا کا افسانہ‘‘ (۱۹۸۲ء) اور شہزاد منظر نے ’’جدید اردو افسانہ‘‘ (۱۹۸۲ء) شائع کی ہیں۔ حال ہی میں مشی گن یونیورسٹی سے JOURNAL OF SOUTH ASIAN LITERATURE کا نہایت وقیع انتظار حسین نمبر شائع ہوا ہے۔ (۱۹۸۳ء)
وارث علوی کے مضامین جواز اور اظہار میں فکشن پر شائع ہوتے رہے ہیں۔ اسی طرح اوراق کے ایک حالیہ شمارے (مارچ اپریل ۱۹۸۴ء) میں ایک بحث شائع ہوئی ہے، ’’علامتی افسانہ، ایک منفی رجحان۔‘‘ محرک ہیں ڈاکٹر جمیل جالبی اور بحث میں حصہ لیا ہے پروفیسر حسین، انتظار حسین، ڈاکٹر انور سدید، خالدہ حسین، اے خیام اور زاہدہ حنا نے۔ بیشتر شرکا نے علامتی کہانی کے حق میں رائے دی ہے اور تجربے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ قطع نظر اس بحث سے زیر نظر مضمون میں ہمارا مسئلہ وہ کشمکش ہے جو علامتی کہانی اور تمثیلی کہانی میں جاری ہے۔ شمس الرحمن فاروقی اور وارث علوی نے اس کشمکش اور الجھن کا خصوصی طورپر ذکر کیا ہے جس کی طرف میں اوپر اشارہ کر چکا ہوں۔
اس بارے میں وارث علوی کا کہنا ہے کہ تمثیلی کہانی، افسانہ نگاری کا اسفل طریقہ ہے اور اس کو رد ہونا چاہیے۔ یہ سلسلہ انھوں نے پچھلے کئی برسوں سے شروع کر رکھا ہے اور اس سے بڑا کفیوژن پیدا ہورہا ہے۔ اپنے مضمون ’’تین نئے افسانہ نگار: انور خاں، سلام بن رزاق اور الیاس احمد گدّی‘‘ (مطبوعہ جواز، جنوری۔ مئی۱۹۸۳ء) میں ایک بات جو انھوں نے بار بار کہی ہے وہ علامت اور تمثیل کے رشتے کے بارے میں ہے۔ یہ تعریف عہد وسطیٰ کے ادب تک تو ٹھیک ہے، لیکن آج کے افسانے پر اس کی تطبیق کی جائے تو کئی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کے بعض بیانات دیکھیے،
’’سوائے دو تین افسانوں کے سب تمثیلی اور استعاراتی ہیں جو جدید افسانے کا مروجہ طریقۂ کار ہے۔۔۔ تمثیلی افسانے کو میں علامتی افسانہ اس لیے نہیں کہوں گا کہ جسے وہ علامتی افسانہ سمجھ رہے ہیں، وہ خشک ریت کا ایسا سراب ہے جس میں ان کا تخلیقی سوتہ دن بہ دن سوکھتا چلا جا رہا ہے۔‘‘ (ص، ۲۸)
’’سلام جانتے ہیں کہ تمثیل لکھ رہے ہیں۔ انھیں یہ بھی احساس ہے کہ تمثیل کو صاف ستھرے حقیقت پسندانہ اسلوب میں بیان کرنا چاہیے تاکہ اسے فنٹاسی، انشائیہ اور ادبِ لطیف کے ناپسندیدہ اثرات سے محفوظ رکھ سکیں۔ اس حد کے بعد ہی صحیح معنی میں علامتی افسانے کی کائنات شروع ہوتی ہے۔ اردو کا کوئی افسانہ نگار اس لکشمن ریکھا کو پار نہیں کر سکا۔ دوچار کہانیاں ایسی مل جائیں گی جو علامتی کہی جا سکتی ہیں، باقی سب تمثیل کے دائرے ہی میں حرکت کرتی ہیں جو فن کاری کا اسفل طریقۂ کار ہے کیونکہ اس میں تخیل، مشابہت اور مثال کی دریافت اور اس کے بیان کی سطح سے بلند نہیں ہو جاتا۔ جبکہ حقیقت پسند اور علامتی افسانہ میں وہ ایک ایسی حقیقت کی تخلیق پر قادر ہوتا ہے جس کی آگہی کسی اور علم کے ذریعے ممکن نہیں۔‘‘ (ص، ۲۸-۲۹)
وارث علوی کے اس طرح کے بیانات ان کے مغربی ادب اور مغربی علامت پسندی سے مرعوب ہونے کی چغلی کھاتے ہیں۔ اگر وہ اپنے ثقافتی ورثے، اجتماعی لاشعور اور اپنے ادبی سرمایے کی روایت کو نظر میں رکھتے تو تمثیل کو اس طرح رد نہ کرتے۔ ان کے ایسے بیانات کی تان اس پر ٹوٹتی ہے،
’’فن کار جب حقیقت نگاری اور علامت نگاری دونوں پر قادر نہیں ہوتا تو تمثیل، داستان، کتھا، حکایت اور پریوں کی کہانی کا آسان راستہ تلاش کرتا ہے۔ یہاں تخئیل، فنٹاسی میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ آرٹ کا ڈسپلن اور سوفسطائیت ازکار رفتہ وسائلِ اظہار کی PRIMITIVE سادگی اور سادہ لوحی پر قربان کر دی جاتی ہے۔ جدید اردو افسانہ کا یہی المیہ ہے۔‘‘ (ص، ۳۳)
وارث علوی کو شاید یہ معلوم نہیں کہ PRIMITIVE کہانیاں صرف سادگی اور سادہ لوجی کا اظہار نہیں۔ ان میں بھی انسانی تجربے کی صدیاں سمٹی ہوئی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہم REALISM کے چکر میں پڑکر ان میں پوشیدہ معنیاتی خزانوں کو دیکھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ جہاں تک نئے افسانے کو انشائیہ اور ادبِ لطیف کے ناپسندیدہ اثرات سے محفوظ رکھنے کا سوال ہے تو ظاہر ہے کہ وارث علوی وہی بات کہہ رہے ہیں جو میں بار بار کہتا آیا ہوں، لیکن انھوں نے تمثیل، علامت، کتھا اور حکایت میں جو گھپلا کیا ہے وہ یقیناً نئے افسانہ نگار کے لیے الجھن کا باعث ہوگا۔ اس سے ملتی جلتی بات باقر مہدی بھی کہہ چکے ہیں۔ ان کا بیان ہے، ’’نئے افسانے کا مقابلہ ترقی پسند افسانے سے نہیں ہے، بلکہ داستانوی کہانی سے ہے جس کے نمائندے انتظار حسین ہیں۔‘‘
صاف ظاہر ہے کہ باقر مہدی داستانوی کہانی کو نئی علامتی کہانی سے الگ کوئی چیز سمجھ رہے ہیں۔ یہی معاملہ بھائی وارث علوی کا بھی ہے ورنہ وہ ’’تمثیل، داستان، کتھا، حکایت اور پریوں کی کہانی‘‘ کو ایک ساتھ بریکٹ نہ کرتے، اور ان سب پیرایوں کو حقیقت نگاری اور علامت نگاری دونوں سے فروتر قرار نہ دیتے۔ پیشتر اس کے کہ مندرجہ بالا مقدمات پر تنقیحات قائم کی جائیں، اتنی بات تو واضح ہے ہی کہ ان حضرات کے نزدیک نئے افسانے میں تین دھارے بہ یک وقت رواں ہیں یعنی علامت نگاری کا افسانہ، حقیقت نگاری کا افسانہ اور داستانوی افسانہ۔ (جس کو وارث علوی نے تمثیل، کتھا اور حکایت سے ملا دیا ہے۔)
مزے کی بات ہے کہ وارث علوی باوصف اپنی شدید باغیانہ روش کے حقیقت نگاری کے افسانے کو علامت نگاری کے دوسرے تمام افسانوی اسالیب پر ترجیح دے رہے ہیں، جن میں MYTHS اور LEGENDS بھی ہیں اور تمثیلی داستانیں اور حکایتیں بھی۔ اس فریم ورک سے فکشن کا جو نظریہ سامنے آتا ہے، اس کی صحت یا عدمِ صحت کا اندازہ لگانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کا جو اطلاق وارث علوی نے افسانوں پر کیا ہے، اس سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں اور نیز یہ کہ تمثیل اور علامت میں، جس طرح کہ وہ نئے افسانے میں برتی جا رہی ہیں، کیا واقعی وہ فرق موجود ہے جس پر وارث علوی اتنا زور صرف کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے ALLEGORY کی یہ تعریف ملاحظہ فرمائیے،
A METHOD OF REPRESENTATION IN WHICH A PERSON, ABSTRACT IDEA OR EVENT STANDS FOR ITSELF AND FOR SOME THING ELSE. ALLEGORY MAY BE DEFINED AS EXTENDED METAPHOR. THE TERM IS OFTEN APPLIED TO A WORK OF FICTION IN WHICH THE AUTHOR INTENDS CHARCTERS AND THEIR ACTION TO BE UNDERSTOOD IN TERMS OTHER THAN THEIR SURFACE APPEARANCES AND MEANINGS. THE MOST FAMOUS AND THE MOST OBVIOUS OF SUCH TWO-LEVEL NARRATIVES IN ENGLISH IS BUNYAN’S PLILGRIMS PROGRESS. IN SPENSER’S FAERIE QUEENE. FIGURES ARE ACTUAL CHARACTERS AND ALSO ABSTRACT QUALITIES. PARTS OF DANTE’S DIVINE COMEDY AND TENNYSON’S IDYLLS OF THE KING ARE ALSO ALLEGORICAL.
(Harry Shaw)
اس سے واضح ہے کہ تمثیل میں معنی کا دوہرا عمل کارفرما رہتا ہے اور کوئی شخص، شے یا واقعہ اپنا وضعی مفہوم بھی رکھتا ہے اورSUBSURFACE یا EXTENDED غیروضعی معنی بھی دیتا ہے۔ تمثیل ازکار رفتہ نہیں، اس کا وہ تصور ازکار رفتہ ہے جس میں مجرد تصورات یعنی نیکی، بدی، خوف، ڈر، وہم، جفا، وفا کو شخصی دیا جاتا تھا۔ ایسا قدیم زمانے میں اخلاقی اور روحانی مقاصد کے لیے تھا۔ لیکن ضروری نہیں کہ تمثیل صرف انھیں مقاصد کے لیے استعمال ہو۔ ROGER FOWLER نے بھی تمثیل کو EXTENDED METAPHOR کہا ہے۔ وہ ORWELL کے 1984ء کو تمثیل کی بہترین مثال کہتا ہے۔ FOWLER نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ نئی تنقید اگرچہ تمثیل کے تئیں مخاصمانہ رویہ رکھتی ہے (جس کی تقلید اردو میں وارث علوی کرتے نظر آتے ہیں) تاہم تمثیل اور علامت میں عملی سطح پر فرق کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ FOWLER کے الفاظ میں،
THE COMMON DISTINCTION BETWEEN ALLEGORY AND SYSMBOLISM FALSIFIES THE FACTS OF LITERARY EXPERIENCE… THE CLEAR-CUT DISTINCTION BETWEEN ‘THE MUSIC OF IDEAS’ (RICHARDS ON ELIOT) AND THE ‘DARK CONCEIT’ OF ALLEGORY IS HARDER TO MAKE IN PRACTICE THAN IN THEORY: YEAT’S A VISION SYSTEMITISES AND EXPOUNDS THE MYSTERY OF HIS SYMBOLS MUCH AS SPENSER DID IN THE FAERIE QUEENE. CLEANTH BROOKS IN THE WELL WROUGHT URN (1947) ALLEGORISES ALL THE POEMS HE EXPLICATES, SO THAT THEY BECOME ‘PARABLES ABOUT THE NATURE OF POETRY’ AND NORTHROP FRYE IN THE ANATOMY OF CRITICISM (1957) SUMMED UP THIS TENDENCY BY POINTING OUT THAT ALL ANALYSIS WAS COVERT ALLEGORIZING.
LEWIS کی یہ رائے بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ تمثیل میں ضروری نہیں کہ اشیائے ظاہری ومعنوی میں ایک اور ایک کی نسبت ہو۔ بالعموم سمجھا یہ جاتا ہے کہ تمثیل میں ذہنی تجریدات مثلاًنیکی، بدی، خوف، محبت کو ٹھوس جسم مہیا کیا جاتا ہے اور ایک اور ایک کی معنوی نسبت پیدا ہوتی ہے لیکن لازمی نہیں۔ SYLVAN BARNET بھی اسی نتیجے پر پہنچا ہے،
THERE IS AN INCREASING TENDENCY TO BLUR THE DISTINCTION BETWEEN SYMBOL AND ALLEGORY, ESPECIALLY WHEN THE WRITER’S INVENTED WORD (USUALLY ASSOCIATED WITH ALLEGORY) HAS NO CLEAR EQUATIONS.
مغربی مصنفین کے حوالے دینا میرے نزدیک ہرگز ضروری نہ تھا، لیکن وارث علوی انگریزی کے لیکچرر ہیں اور مغربی ادب میں اس قدر پیرے ہوئے ہیں کہ بغیر ایلیٹ اور سارتر کے حوالے کے لقمہ ہی نہیں توڑتے ہیں۔ FOWLER کا یہ کہنا شاید ان کو پسند نہ آئےگا کہ وہ تو تمثیل کو TEXTURAL کے بجائے STRUCTURAL SYMBOLISM کا درجہ دیتا ہے۔ اسی کے الفاظ میں سنیے،
ALLEGORY’S DISTINCTIVE FEATURE IS THAT IT IS A STRUCTURAL, RATHER THAN A TEXTURAL SYMBOLISM: IT IS LARGE-SCALE EXPOSITION IN WHICH PROBLEMS ARE CONCEPTURALISED AND ANALYSED INTO THEIR CONSTITUENT PARTS IN ORDER TO BE STARTED, IF NOT SOLVED. THE TYPICAL PLOT IS ONE IN WHICH THE ‘INNOCENT’ GULLIVER, ALICE, THE LADY IN MILTON’S ‘COMUS’. K. IN KAFKA’S THE CASTLE -IS PUT THROUGH A SERIES OF EXPERIENCES, WHICH ADD UPTO AN IMAGINATIVE ANALYSIS OF CONTEMPORARY REALITY.
BARNET نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ علامت نگاری چونکہ HIGHER WORLD اور SUPER REAL کے رشتوں کی خبر لاتی ہے اس کا گہرا تعلق انسانی لاشعور سے ہے اور چونکہ اس کا گہرا تعلق انسانی لاشعور سے ہو سکتا ہے، اس کا گہرا معنوی رشتہ IMAGES اور MOTIFS کی اس دنیا سے بھی ہے جنھیں ینگ ARCHETYPES کہتا ہے اور جو MYTH اور LEGEND میں ملتے ہیں۔
اس وضاحت کے بعد کیا یہ بتانے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ وارث علوی کی THEORY OF FICTION کے مطابق، اوپر نئے افسانے کے جن تین پیرایوں کا ہم نے ذکر کیا تھا، وہ تین نہیں بلکہ اصلاً دو ہیں یعنی علامت نگاری کا افسانہ اور داستانوی افسانہ۔ یہ اگرچہ الگ لگ نظر آتے ہیں لیکن استعاراتی تفاعل یا SUBSURFACE معنیاتی رشتوں کی وجہ سے دراصل ایک ہیں۔ علامت نگاری کو چونکہ لاشعور سے الگ کیا ہی نہیں جا سکتا، اس کو ان لاشعوری بھیدوں سے بھی الگ نہیں کیا جا سکتا جن کی بعض شکلیں پرانے قصے کہانیوں، کتھاؤں، داستانوں اور حکایتوں میں ملتی ہیں، اس لیے علامتی کہانی اور داستانوی کہانی دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی تخلیقی رویے کے دو اسلوبیاتی مظہر ہیں گویا فرق اسلوب بیان کا ہے، ذہنی تخلیقی رویے کا نہیں۔ تاہم اس مقدمے کی توثیق اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اس کی اطلاقی نوعیت کو جانچا اور پرکھا نہ جائے۔
(۳)
وارث علوی نے چونکہ نئی کہانی کے سلسلے میں علامت اور تمثیل کا گھپلا سلام بن رزاق کی کہانیوں سے بحث کرتے ہوئے کیا ہے، اس لیے سب سے پہلے میں سلام ہی کے افسانے ’’بجوکا‘‘ کو لوں گا جسے وارث علوی نے ان کا شاہکار افسانہ قرار دیا ہے۔ اس کے بعد انتظار حسین کی ایک تازہ کہانی ’’نرناری‘‘ کو لیا جائےگا اور یہ دیکھنے کی کوشش کی جائےگی کہ کیا واقعی اردو کی نئی کہانی میں علامت اور تمثیل کو الگ الگ خانوں میں بانٹا جا سکتا ہے جیسا کہ بھائی وارث چاہتے ہیں، یا یہ کہ نئی کہانی میں علامت، تمثیل، کتھا اور داستان مل کر ایک نیا تخلیقی پیکر اختیار کر رہے ہیں جس کی قدر شناسی نہ کر سکنا دراصل اپنی بد توفیقی کا ثبوت دینا ہے۔
تیسرے یہ کہ حقیقت نگاری کی جس کہانی کو نظرانداز نہ کرنے کی طرف میں نے اپنے مذکورہ بالا مضمون میں توجہ دلائی تھی اور وارث علوی بھی جس ضمن میں میرے ہم نوا ہیں (لیکن ان کی زیادتی یہ ہے کہ وہ داستانوی کہانی کی خود ساختہ CATEGORY وضع کرکے خلط مبحث کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔) اس بارے میں شمس الرحمان فاروقی کا کہنا ہے کہ ’’سماجی حقیقت نگاری کی وہ کہانی جو تاریخی دستاویز کے طور پر پڑھی جا سکے، کلیتاً مسترد ہو چکی ہے۔‘‘ اس مضمون کے آخر میں اس مقدمے پر بھی نظر ڈالی جائےگی اور یہ دیکھنے کی کوشش کی جائےگی کہ کیا واقعی حقیقت نگاری کی کہانی مسترد ہو چکی ہے، یا اس میں قصور بیچاری کہانی کا نہیں ہماری تنقید کا ہے؟ یعنی سوال یہ ہے کہ کیا ایسی کہانی کو منہدم ہونا چاہیے یا ایسی تنقید کو جوحقیقت نگاری کی کہانی کو سماجی دستاویز کے طور پر پڑھتی ہے۔ بہرحال اس کی موجودہ شکل کیا ہے اور اس کے امکانات کیا ہیں، یہ دیکھنے کی شدید ضرورت ہے۔
آئیے اب سلام بن رزاق کی کہانی ’’بجوکا‘‘ کو لیں جس کی تعریف میں وارث علوی نے اپنی تنقید کے بہترین الفاظ ذبح کر دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ اردو فکشن کا ایک شاہکار افسانہ ہے۔ بجوکا نفسیاتی حقیقت نگاری کا افسانہ ہے لیکن حقیقت کا اظہار وہ بجوکا کی علامت کے ذریعے کرتا ہے جو تہہ دار اور معنی خیز ہے۔‘‘ اس میں دو کردار ہیں، بیوی اور میاں۔ بیوی گاؤں چھوڑکر شہر آتی ہے۔ شوہر اچھی ملازمت پر ہے۔ وہ اپنی بیوی کو خوب چاہتا ہے لیکن بیوی اس لیے خوش نہیں کہ اس کا شوہر اشوک اس کا بہت خیال رکھتا ہے، اسے کبھی روٹھنے یا ناراض ہونے کا موقع نہیں دیتا۔ بیوی اپنی زندگی کی یکسانیت سے اکتائی ہوئی ہے۔ بار بار اسے گاؤں کے مناظر، پھولی ہوئی شفق اور پیپل پر شور مچاتی چڑیاں یاد آتی ہیں۔ شوہر اس کو بے حد پیار کرتا ہے لیکن وہ چاہتی ہے کہ وہ اسے بری طرح پیٹے اور اس کا بدن لہولہان کر دے۔ کہانی کے آخر میں میاں بیوی کے پہلی بار گاؤں جانے کا منظر ہے، جہاں بیچ کھیت میں بجوکا کھڑا ہے، بیوی کے دل میں بجوکا کو پتھر مارنے کی خواہش جاگ اٹھتی ہے۔
یہ ہے وہ کہانی جسے شاہکار کا درجہ دیا گیا ہے اور یہ ہے وہ علامت جسے ہمارے معتبر نقاد نے ’’تہہ دار اور معنی خیز‘‘ کہا ہے۔ کہانی کے آخر میں یہ جملہ بھی ہے کہ ’’بجوکا کپڑے کا آدمی ہے جو ہلتا ڈلتا نہیں ہے مگر پرندے اس پتلے کو آدمی سمجھ کر دور رہتے ہیں۔‘‘ گویا بجوکا کی علامت ایک مثبت تفاعل کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ اندر سے اگرچہ کھوکھلا ہے لیکن اس کی ظاہری ہیئت سے پرندے اور جانور فصل سے دور رہتے ہیں۔ یعنی وہ فصل کی رکھوالی کا مثبت فریضہ انجام دیتا ہے۔ کہانی میں علامت کی اس مثبت جہت کا دور دور تک کوئی جواز نہیں۔ ہو بھی نہیں سکتا ورنہ کہانی باطل قرار پائےگی۔ اشوک سے بجوکا کی صرف اتنی نسبت ضرور ہو سکتی ہے کہ وہ اندر سے کھوکھلا آدمی ہے لیکن اگر ایسا ہے بھی تو اس کا کھوکھلا پن خود اس کی ناخوشی یا چڑچڑے پن سے بھی ظاہر ہوتا۔ کہانی میں دور دور تک اس کا کوئی شائبہ نہیں۔
اگر کھوکھلا پن تشبیہ ہے مردانگی کی کمی کی، تو اشوک کی محض حد سے بڑھی ہوئی چاہت مردانگی کی کمی کا جواز پیدا نہیں کرتی کیونکہ ایسا کسی دوسری نفسیاتی گرہ کی وجہ سے بھی ممکن ہے۔ تعجب ہے کہ ایسے کردار سے بحث کرتے ہوئے وارث علوی راجندر سنگھ بیدی کی مشہور کہانی ’’لاجونتی‘‘ کو کیسے بھول گئے۔ لاجو کا مسئلہ یہی تھا کہ وہی لال جو پہلے اسے ڈانٹتا مارتا تھا، دوبارہ گھر میں بس جانے کے بعد وہ اسے اتنا چاہنے لگا تھا کہ روٹھنے کا موقع ہی نہ دیتا تھا گویا مرد اور عورت کے بیچ میں خون کے اصلی رشتے سے جو توازن پیدا ہوتا ہے، اس کا غائب ہوجانا صرف مرد کی نسائیت کی وجہ سے نہیں ہوتا، اس میں دوسرے نفسیاتی عوامل کا عمل دخل بھی ہو سکتا ہے۔
دوسرے یہ کہ پوری کہانی میں افسانہ نگار نے بار بار گاؤں کی زندگی کی جھلک کو ریفرین کے طور پر استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ بیوی کی زندگی میں یکسانیت اور بوریت محض اشوک کی نسائیت کی وجہ سے نہیں بلکہ شہری تمدن کی میکانکیت کی وجہ سے بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اصلاً اس کہانی کی سچی توجیہ ہے ہی یہی۔ اور اگر ایسا ہے تو بجوکا کی مطابقت اشوک سے غیرضروری قرار پاتی ہے اور علامت کی معنوی حیثیت صفر ہو جاتی ہے نیز یہ بھی کہ جنسیات کا متبدیانہ علم رکھنے والا شخص بھی اس بات کو جانتا ہے کہ کوئی ایسا کردار جو چاہتا ہو کہ اس کا مد مقابل اسے بری طرح پیٹے اور اس کا بدن لہولہان کر دے اور اتنا پٹنے کے بعد وہ چیخے چلائے نہیں اور اسے احساس ہو کہ ’’پک کر ٹیس مارتا پھوڑا اچانک پھوٹ جائے اور سارا مواد بہہ نکلے‘‘ نیز یہ کہ جب بھی وہ کھیت کے پاس سے گزرے، بڑے ہونے پر بھی بجوکا کو اسے پتھر مارنے میں مزہ آئے، کیا یہ خاص نوعیت کا جنسی کردار نہیں۔
شاید خود افسانہ نگار اپنے ان جملوں کی معنویت سے پوری طرح باخبر نہیں۔ اگر وہ باخبر ہوتا تو بیوی کی بوریت کی ساری ذمہ داری اشوک (بجوکا) کے سر نہ رکھتا لیکن اگر افسانہ نگار نے کردار کی تشکیل ان جملوں کی مدد سے سوچ سمجھ کر کی ہے تو پھر بجوکا کی علامت نہ صرف باطل بلکہ لغو قرار پاتی ہے۔ گویا بوریت کی تمام تر ذمہ داری اشوک پر نہیں بلکہ خود عورت کے جنسی رویے پر عاید ہوتی ہے۔ غرض شہری تمدن کی میکانکیت پر جو زور قلم ہمارے نقاد نے صرف کیا ہے اس کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ سلام بن رزاق کے پاس اچھی کہانیاں نہیں، ہیں اور ضرور ہیں۔ اس مضمون کے آخر میں سماجی حقیقت نگاری کے تحت ان کے ایک کہانی کا تذکرہ آئےگا جو میرے نزدیک ان کی بہت اچھی کہانیوں میں سے ہے۔
(۴)
بجوکا کی نام نہاد علامت سے فراغت پانے کے بعد ذرا MYTH اور LEGEND، داستان اور کتھا کے جھگڑے سے بھی نپٹ لیا جائے، کیونکہ اس سے بھائی وارث علوی بہت ناخوش معلوم ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے اس میں مدد انتظار حسین کے فن سے لینی ہوگی۔ آئیے انتظار حسین کی ایک سامنے کی کہانی کو لیں جو ابھی سال بھر پہلے ’’شب خون‘‘ میں ’’نرناری‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی (مارچ، اپریل ۱۹۸۲ء) اس میں تین کردار ہیں، مدن سندری بیوی ہے، دھاول اس کا پتی اورگوپی بھائی ہے۔ پتی اور بھائی دونوں مندر کی انگنائی میں دیوی کی مورتی کے سامنے بلی چڑھ جاتے ہیں۔ خون سے لت پت دو لاشیں پڑی ہیں، سر الگ، دھڑ الگ۔ مدن سندری روتی ہے، پیٹتی ہے، دیوی کا گن گان کرتی ہے، بے بس ہوکر اسی تلوار کو اپنی گردن پر مارنے لگتی ہے تو دیوی پر سن ہوجاتی ہے۔ ’’جاسر کو دھڑ سے ملا۔ میں نے تیرے پتی اور بھیا کو جیون دان دیا۔‘‘
خوشی سے اس کی سدھ ماری جاتی ہے اور جلدی میں بھیا کے دھڑ پر پتی کا سر اور پتی کے دھڑ سے بھائی کا سر چپکا دیتی ہے۔ اپنی چوک کو ٹھیک کرنا ہی چاہتی ہے کہ دونوں جی اٹھتے ہیں اور بھائی اور پتی کا گھال میل ہو جاتا ہے۔ اب جو وہ پتی کے سنگ لیٹتی ہے تو وہ ہاتھ اور وہ بدن اسے انجانے لگتے ہیں۔ اسے چنتا ہوتی ہے کہ وہ بہن کس کی ہے اور پتنی کس کی؟ پھر پتی دُبدا میں پڑ جاتا ہے کہ وہ وہی ہے یا کوئی دوسرا اس میں آن جڑا ہے یا وہ کسی اور میں جا جڑا ہے؟ یہ دوہرا وسوسہ کہانی میں چلتا رہتا ہے اور اسی سے TENSION بنی رہتی ہے۔ آخر میں پر جاپتی اور اوشا کی مثال سے دونوں پر ان کی اصلیت کھلتی ہے۔
یہ کہانی علامتی ہے کہ تمثیلی۔ مدن سندری کون ہے؟ دھاول کون ہے؟ ظاہر ہے ان باتوں کا کوئی سادہ سا جواب نہیں یا یہ کہانی بھی ہے کہ نہیں۔ کسی بھی قاری سے پوچھیے۔ وہ کہے گا کہ بے شک یہ کہانی ہے۔ اس میں کردار ہیں اور واقعات ہیں اور کرداروں اور واقعات کے عمل در عمل سے کہانی آگے بڑھتی ہے۔ کہانی میں دیوی کا ذکر ہے جس کے وردان سے دونوں کے کٹے ہوئے سر دھڑ سے جڑ جاتے ہیں۔ کہانی کا مرکزی واقعہ MYTH اور LEGEND کا اثر لیے ہوئے ہے۔ بیانیہ کے واقعاتی بہاؤ کے باوجود یہ کہانی اساطیری فضا کی وجہ سے حقیقت نگاری کی کہانی تو کہی نہیں جا سکتی نیز اس میں کسی مجرد تصور یعنی نیکی، محبت، سچائی، خوف، وہم وغیرہ کی تجسیم بھی نہیں کی گئی، اس لیے یہ تمثیل کی سادہ تعریف پر بھی پوری نہیں اترتی تو پھر یہ ہے کیا؟
یعنی یہ تمثیلی کہانی بھی نہیں، حقیقت نگاری کی کہانی بھی نہیں، تو کیا افسانہ نگار نے محض بیتال پچیسی کی نوعیت کا ایک پرانا قصہ سنادیا ہے اور بس۔ لیکن ہمیں یہ سوال پوچھنے کا حق ہے کہ علاوہ اس بیانیہ کے جو قصے کی ظاہری ساخت ہے، کیا کہانی کے داخلی ساختیوں میں کچھ اور معنوی رشتے بھی ہیں؟ سر دھڑ کے جڑنے کے بعد سب سے پہلے مدن سندری وسوسے کا شکار ہوتی ہے۔ دن بھر کی تھکی ہاری مدن سندری جب سونے کے لیے دھاول کے سنگ آلیٹتی ہے اور بڑی چاہت کے ساتھ اس کی بانہوں میں آتی ہے تو اسے اچانک لگتا ہے کہ،
’’بدن کو کچھ ہو گیا ہے۔ یہ بدن تو خوب اس کا جانا پہچانا تھا۔ جب دونوں بدن ملتے تو کیسے گھل مل جاتے جیسے جنم جنم سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور وہ ہاتھ کیسی جانکاری کے ساتھ گرم بدن کے بیچ یاترا کرتا جیسے اس کے سب بھیدوں کو اس نے بوجھا ہوا ہے اور اس بجلی بھرے ہاتھ کے چھو جانے سے انگ انگ میں ایک لہر دوڑ جاتی اور پورا بدن جاگ جاگ جاتا۔ پر آج تو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بدن ایک دوسرے کو جانتے ہی نہ ہوں۔ کیا یہ وہی بدن نہیں جس سے روز لگ کر وہ سویا کرتی تھی۔‘‘ چنانچہ ایک دفعہ بے قابو ہوکر وہ بول پڑی، ’’یہ تو ہے۔‘‘ اور دھاول کی بانہوں سے نکل گئی۔
دھاول کی شخصیت یک لخت انجانی ہو جاتی ہے اور مدن سندری وسوسے میں گھر جاتی ہے کہ وہ شخص جسے میں اپنا سمجھ رہی ہوں، اتنا انجانا کیوں ہے۔ ان جملوں کو غور سے دیکھنے سے یہ حقیقت کھل جانی چاہیے کہ افسانہ نگار شاید شخصیت کی پہچان IDENTITY کا سوال اٹھا رہا ہے۔ جنم جنم کا رشتہ، بدنوں کا گھل مل جانا اور پھر انجانا پن، یہ کوائف کیا یہ سوال نہیں اٹھا رہے کہ دھاول میں ایک ایسے کردار کا استعاراتی تفاعل پیدا ہو رہا ہے جس کی جانی بوجھی شخصیت یک لخت ایک سے دو ہو گئی ہے۔ یہ مت بھولیے کہ یہ IDENTITY CRISIS اس لیے پیدا ہوا ہے کہ سر کسی کا ہے اور دھڑ کسی کا۔ دھاول چراغ جلاتا ہے اور مدن سندری سے کہتا ہے، ’’ہوش کی دَوا لے، لے دیکھ لے کیا میں نہیں ہوں؟‘‘ مدن سندری اپنے کہے پر شرمندہ ہوتی ہے، ’’ہاں، ہے تو یہ تو ہی۔‘‘ لیکن جب وہ پھر اسے ہاتھوں میں لیتا ہے تو وہ احتجاج کرتی ہے، ’’دھاول یہ ہاتھ تیرے نہیں ہیں۔‘‘ اور پھر اسے ساری تفصیل سناتی ہے کہ سر دھڑ کا گھپلا کیسے ہو گیا۔
انتظار حسین کے فن سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص بھی آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ سر دھڑ کے اس گھپلے کے معنیاتی ساختیے کیا ہو سکتے ہیں۔ وہ تمام مفاہیم جو کسی بھی SUPER REAL سے تعلق رکھتے ہوں یعنی جو علامت کی کارفرمائی کی خاص کائنات ہے انھیں PARAPHRASE کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ استعارے کے توسیعی تصرف اور علامت کے معنیاتی کردار کی سب سے بڑی پہچان یہی ہے کہ معنی محسوس تو کیے جا سکتے ہیں، حرفاً حرفاً بیان نہیں کیے جا سکتے۔ چنانچہ ہم بھی ایمائی طور پر صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ کیا افسانہ نگار کسی ایسی ثقافتی شخصیت کی بات تو نہیں کر رہا ہے جس میں زمینی اثرات اور آسمانی اقدار کے باہم جڑنے سے ایک نئی شخصیت سامنے آ گئی ہو، لیکن یہ شخصیت ہنوز اپنی پہچان کے بارے میں طرح طرح کے سوال اٹھا رہی ہو۔
اس کردار کا ایک اور علامتی پہلو بھی ہو سکتا ہے یعنی یہ کہ ہجرت کرنے والے جو متحرک سر تھے، قتل وخون کے ایک بھیانک (تاریخی) عمل سے گزرنے کے بعد وہ کسی دوسرے زمینی دھڑ سے جالگے اور اب دونوں کے امتزاج سے ہنوز ایسی ثقافتی شخصیت وجود میں نہیں آئی جو وحدانی ہو۔
مدن سندری، دھاول کو بار بار ٹھکرا دیتی ہے، کیوں؟ یہ مدن سندری کون ہے جو یوں وسوسے میں گھر گئی ہے؟ اس کے علامتی تفاعل پر نظر کیجئے تو کیا مدن سندری ایسا معاشرہ تو نہیں جو IDENTITY CRISIS کا شکار ہو۔ انتظار حسین اتنا معمولی فنکار نہیں کہ یہیں پر کہانی کو ختم کر دے۔ دونوں میں جب بحث بڑھتی ہے تو دھاول فیصلہ کن انداز میں کہتا ہے، ’’اری مدن جس طرح ندیوں میں اتم ندی گنگا ندی ہے، پربتوں میں اتم پربت سومیرو پر بت، اسی طرح انگوں میں اتم انگ مستک ہے۔ دھڑکا کیا ہے۔ یہ تو سب ایک سمان ہوتے ہیں۔ مانو اپنے مستک سے پہچانا جاتا ہے۔ سو مستک کو دیکھ وہ میرا ہے۔‘‘
کیا افسانہ نگار یہاں اس مکالمے کے داخلی ساختیوں میں ان بحثوں کی طرف اشارہ تو نہیں کر رہا ہے کہ زمینی رشتوں کا کیا ہے، دھڑ یعنی زمینیں تو سب ایک سی ہوتی ہیں، اصل چیز تو سر یعنی روحانی اور مذہبی اقدار ہیں۔ ثقافتیں اپنی مذہبی اقدار سے پہچانی جاتی ہیں۔ کیا یہ اس بنیادی سوال پر غور کرنے کی کوشش نہیں ہے کہ رہن سہن، طور طریقے، جمالیاتی احساس، موسیقی، راگ راگنیاں، فنون لطیفہ تو دھرتی کی دین ہے، لیکن آسمانی اقدار کی وجہ سے رشتہ کہیں اور بھی جڑا ہواہے اور یہ ایسی حقیقت ہے جو قائم ہو گئی ہے۔
بہرحال مدن سندری دھاول کی منطق سے قائل ہو جاتی ہے اور اس بات کو مان لیتی ہے کہ جس کا سر اسی کا دھڑ یعنی اب وہ دھاول کو دھاول مانےگی۔ لیکن ہوتے ہوتے خود دھاول دُبدا میں پڑجاتا ہے۔ یعنی معاشرہ تو مان بھی لے، تاہم ثقافت کے بھی تو اپنے مطالبات ہو سکتے ہیں۔ ’’دھاول اپنے انگ انگ کو دیکھتا ہے۔ ایک بار، دوبار، بار بار۔ ہے رام کیا یہ میں ہی ہوں۔ پھر وہم کی ایک اور لہر اٹھی۔ ایک میں ہی ہوں یا کوئی دوسرا مجھ میں آن جڑا ہے یا میں دوسرے میں جا جڑا ہوں تو میں اب سارا میں نہیں ہوں۔ وہ جتنا سوچتا اتنا ہی چکر میں پڑجاتا۔‘‘ ایک کرتب یہ ہوا کہ وہ خون خرابے کے بعد جی اٹھا۔ یہ دونوں مسافروں کے دوبارہ زندہ ہو اٹھنے کی طرف اشارہ ہے۔ دوسرا کرتب یہ ہوا کہ سرکسی کا اور دھڑکسی کا۔ یہ نئی ثقافتی شخصیت کی نمود ہے۔
رفتہ رفتہ دھاول کا دکھ بڑھتا گیا۔ اس کے اندر چو ربیٹھا ہوا تھا۔ بس ایک پھانس سی چبھتی رہتی ہے کہ یہ تن کسی اور کا ہے اور اسے اپنا پورا وجود انمل بے جوڑ دکھائی دیتا ہے۔ جو حضرات علامتوں، ان کے استعارارتی رشتوں اور مرئی لفظوں کے غیرمرئی معنوی انسلاکات کے رمز جانتے ہیں، ان کے لیے کہانی کے ان حصوں کی توضیح فضول ہوگی کیونکہ جن کلیدی جملوں کو اوپر پیش کیا گیا، شاید ہی کوئی صاحب ذوق ہو جو ان مکالموں کے ایمائی معنوں سے لطف اندوز نہ ہو سکتا ہو۔ یہاں دھاول کے علامتی کردار کو مزید عمق دینے کے لیے انتظار حسین ایک حکایت بیان کرتے ہیں۔ کہانی کے اندر کہانی کی کیفیت سے ان کے فن میں ہم اکثر دوچار ہوتے ہیں اور ایسا کہانی کے اصل علامتی مفاہیم میں مزید استحکام کے لیے ہوتا ہے۔
دھاول کو وہ راج کماری یاد آتی ہے جو ایک راکشس کی قید میں تھی۔ راکشس روز صبح راج کماری کی گردن مارتا اور اس کا سر چھینکے پر رکھ کر باہر نکل جاتا۔ دن بھر راج کماری کا دھڑ مسہری پر پڑا رہتا۔ سر چھینکے پر رکھا رہتا۔ اس سے بوندبوند خون ٹپکتا رہتا۔ شام پڑے راکشس چلاتا دہاڑتا آتا۔ سر کو دھڑ سے جوڑتا اور راج کماری جی اٹھتی۔ دھاول نے سوچا کہ راج کماری اگرچہ دکھی تھی، اسے ایک سکھ تو تھا کہ سر بھی اپنا تھا دھڑ بھی اپنا تھا۔ کہانی کے آخر میں دھاول کی یہ چنتا بہت بڑھ جاتی ہے۔ جب کسی طرح یہ گتھی نہیں سلجھتی تو وہ دونوں ایک رشی کے پاس جاتے ہیں اور اپنی رام کہانی سناتے ہیں۔ رشی دھاول کو گھور کے دیکھتاہے اور کہتا ہے، ’’مورکھ کس دُبدا میں پڑ گیا۔ سو باتوں کی ایک بات ہے تو نَر ہے، مدن سندری ناری ہے۔ جا اپنا کام کر۔‘‘
چنانچہ آنکھوں سے پردہ اٹھ جاتا ہے اور بیچ جنگل سے گزرتے ہوئے دھاول مدن سندری کو ایسے دیکھتا ہے جیسے جگوں پہلے پرجاپتی نے اوشا کو دیکھا تھا۔ اوشا پرجاپتی کی آنکھوں میں لالسا دیکھ کر بھڑکتی ہے، بھاگتی ہے اور پھر پسپا ہوجاتی ہے۔ صاحبانِ ذوق کے لیے شاید اس وضاحت کی ضرورت نہ ہو کہ نر کا کام ناری کے ساتھ بھوگ کرنا ہے اور ناری کا کام بھوگ کے لیے خود کو ارپن کرنا ہے یعنی کس چکر میں پڑا ہے، جامدن سندری تیری مملکت ہے اور تو اس کا آنند لینے اور بھوگنے والا ہے۔ یہ تیری دھرتی ہے۔ اس کے انگ انگ میں رچ بس جا اور اسے جی بھر کے بھوگ۔
یہ نر ناری ہی کا رشتہ نہیں۔ جو رشتہ نر ناری میں ہے وہ رشتہ فرد اور معاشرہ میں بھی ہے۔ نیز وہی رشتہ ثقافت اور زمین میں بھی ہے۔ ایک کا مقصد بھوگنا ہے دوسرے کا بھوگنے کے لیے خود کو فراہم کرنا ہے۔ کئی دوسرے معنوی ساختیے بھی کہانی میں کارفرما ہو سکتے ہیں یعنی ہجرت کی نوعیت بھی ایک اصل کے دوسرے اصل میں جڑنے کی ہوتی ہے اور ثقافت کی تشخیص کا عمل جاری رہتا ہے نیز خود ثقافتوں میں بھی آسمانی اور زمینی قدروں کے بیچ میں پیوند کاری ہوتی ہے اور تاریخ کے مختلف لمحوں میں یہ اختلاط نئے نئے سوال پیدا کرتا ہے اور نئی ثقافتوں سے نئی ہم آہنگیوں کے نئے سلسلے پیدا ہوتے ہیں۔
اب بتائیے کیا یہ کہانی صرف PRIMITIVE قصہ کہانی ہے یعنی کیا اس میں کوئی علامتی مفاہیم نہیں۔ اس وضاحت کی ضرورت بھی اب باقی نہیں رہ جاتی کہ ایسی کہانیوں میں علامتی مفاہیم صرف ایک وسیلے سے پیدا نہیں ہوتے۔ کٹے ہوئے سر کا دھڑ سے جڑ جانا یا راکشس کا شہزادی کا سر کاٹ کر چھینکے پر رکھ کر باہر چلے جانا اور پھر شام کو اسے جوڑنا یقیناً تمثیلی پیرایہ ہے لیکن یہ کہانی محض تمثیل نہیں۔ تمثیل اور تمثیلی پیرایے میں فرق ہے۔ تمثیلی پیرایہ علامتی معنی GENERATE کرتا ہے۔ کیا اوپر کے تجزیے میں قدم قدم پر یہ ثبوت فراہم ہوتا نہیں چلا گیا کہ مدن سندری اور دھاول محض تمثیلی کردار نہیں بلکہ ان کی علامتی معنویت بھی ہے۔ یوں یہ محض قصے کے کردار بھی ہیں اور اگر کوئی ان سے صرف کہانی کی اوپری سطح پر لطف اندوز ہونا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ تاہم یہ مرد اور عورت کے ایسے ARCHETYPES بھی ہیں جو مد مقابل کے وجود میں دوسرے وجود کی شناخت کرتے ہیں اور یوں اپنی شناخت کے عمل سے گزرتے ہیں۔
تیسرے یہ کہ سماجیاتی سطح پر یہ آج کے معاشرے اور ثقافت کی اس کشمکش کے آئینہ دار بھی ہیں جس سے فرد کا ذہن وشعور نبرد آزما ہے۔ اس ساری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نئے افسانے میں داستانوی افسانہ، علامتی افسانے سے الگ کوئی چیز نہیں ہے، نیز یہ بھی کہ علامت ہمارے لاشعور کو تمثیلی پیرایے ہی کے ذریعہ راس آتی ہے اور اردو کے نئے افسانے میں اکثر و بیشتر تمثیلی عنصر علامتی عنصر کے ساتھ باہم آمیز ہوکر آتا ہے۔ اس میں قدیم کتھا کہانی کی سادگی بھی ہے اور آرٹ کا ڈسپلن بھی۔ چنانچہ داستانوی یا تمثیلی کہانی کی الگ سے درجہ بندی غلط ہے اور یہ اصلاً نئی کہانی ہی کا ایک پیرایہ ہے۔
(۵)
اب اس حصے میں اسلام آباد کے ایک ایسے افسانہ نگار کی کہانی کو لیتے ہیں جس کا کہنا ہے کہ ’’میں سچی کہانی نہیں لکھنا چاہتا۔‘‘ لیکن وہ جھوٹی کہانی بھی نہیں لکھتا۔ وہ کہتا ہے، ’’میں افسانہ لکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ یعنی وہ سچی کہانی، جھوٹی کہانی اور افسانے میں فرق کرتا ہے۔ اس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ’’تخلیقات کو میں نظریے کی کھونٹی سے نہیں باندھتا۔‘‘ لیکن جس کے زیادہ کردار گرے پڑے مفلوک الحال اور بے توقیر لوگ ہی ہیں، خواہ وہ کوڈو فقیر ہو، علیانائی ہو، صاد وترکھان ہو، شید ومہترانی ہو، یا آگ میں گھری زیناں جو اس قدر حسین ہے کہ محض آئینہ دیکھ کر وقت گزار سکتی ہے لیکن جسے ایک بھینس اور گدھی کے عوض خریدا گیا تھا۔
محمد منشا یاد کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ’’بند مٹھی میں جگنو‘‘، ’’ماس اور مٹی‘‘ اور نیا مجموعہ ’’خلا اندر خلا‘‘ ۱۹۸۳ء میں شائع ہوا۔ اسی آخری مجموعے میں ایک کہانی ہے، ’’تماشا۔‘‘ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کہانی پڑھ کر ہم دم بخود رہ جاتے ہیں یا سارا خون ذہن میں ایک نقطے پر سمٹ آتا ہے۔ اچھے شعر کا معاملہ نسبتاً اتنا مشکل نہیں، اچھی کہانی کے ساتھ بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ درد کے کئی اَن دیکھے رشتے قائم ہو جاتے ہیں اور دبی دبی ٹیس رہ کر اٹھتی ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کسی سچی کہانی یا جھوٹی کہانی سے بچنے کے لیے محمد منشا یاد نے یہ افسانہ لکھا۔ بے شک یہ سچی کہانی بھی نہیں ہے، جھوٹی کہانی بھی نہیں اور جس طرح یہ لکھی گئی ہے، افسانہ بھی بن گئی ہے۔ یقین نہ آئے تو کہانی کے ان ساختیوں کو دیکھیے،
(۱) ایک مداری اوراس کا بیٹا تماشا دکھانے کے لیے نئی بستی کی تلاش میں سرگرم سفر ہیں۔
(۲) دریا کے کنارے چلتے چلتے اس پار انھیں بستی دکھائی دیتی ہے، لیکن وہاں تک پہنچنے کے لیے پل ہے نہ کشتی۔
(۳) دونوں دریا میں اترنا چاہتے ہیں تاکہ اسے پار کر سکیں لیکن بڑے کو رات کا بھیانک خواب یاد آ جاتا ہے اور وہ فیصلہ کرتا ہے کہ آج کا دن ان کے لیے اچھا نہیں۔ دریا میں نہیں اترنا چاہیے۔
(۴) دریا کے کنارے کنارے وہ جتنا چلتے ہیں، دوسری طرف بستی کی مسجد کے اونچے مینار بھی چلتے نظر آتے ہیں اور پل بھی اتنا ہی دور نظر آتا ہے۔
(۵) اچانک کتوں کے بھونکنے اور مویشیوں کے ڈکرانے سے انھیں اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں قریب ہی کوئی دوسری بستی ہے۔ دونوں فیصلہ کرتے ہیں کہ رات اس بستی میں گزار لیں، صبح سویرے تازہ دم ہوکر پھر چلیں گے۔
(۶) لیکن یہ بستی عجیب بستی ہے۔ بڑا بانسری اور ڈگڈگی بجاتا ہے۔ لوگ جمع تو ہو جاتے ہیں لیکن مرد عورتیں نہیں صرف بچے۔ یہ بچے بھی عجیب بچے ہیں۔ ان کے بال سفید ہیں اور چہروں پر جھریاں ہیں۔ ساری بستی میں پورے قد کا کوئی آدمی نہیں۔
(۷) بڑا سب سے پہلے تین گولے نکالتا ہے اور باری باری پیالے اٹھاکر انھیں غائب کر دیتا ہے۔ پھر ایک کے بعد ایک کئی تماشے دکھاتا ہے۔ خالی گلاس پانی سے بھر جاتا ہے اور بھرے ہوئے گلاس کو الٹ دینے سے پانی نہیں گرتا۔ وہ خود کو سانپ سے ڈسواتا ہے۔ منھ کے راستے پیٹ میں خنجر اتار کر نکال لیتا ہے۔ لیکن بچے تماشائی تالی نہیں بجاتے، داد نہیں دیتے۔ مداری پریشان ہو جاتا ہے۔
(۸) آخر میں وہ سب سے بڑے تماشے کا اعلان کرتا ہے کہ میں جمورے کے گلے پر چھری چلاؤں گا اور اسے ذبح کرکے دوبارہ زندہ کرکے دکھاؤں گا۔ اس پر بچے تماشائی زور زور سے تالیاں بجاتے ہیں۔ بڑا حیران ہوتا ہے کہ عام طور پر تماشائی اس کھیل کو پسند نہیں کرتے اور اسے منع کردیتے ہیں لیکن کیسے سفاک تماشائی ہیں کہ چھری چلانے کی بات سن کر تالیاں پیٹتے ہیں۔ جمورے کو لٹاکر اس پر چادر تان کر وہ چھری چلاتا ہے۔ تماشائی زور زور سے تالیاں بجاتے ہیں اور سکے پھینکتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا میدان خالی ہو جاتا ہے۔ بڑا جمورے کو آواز دیتا ہے مگر جمورا کوئی جواب نہیں دیتا۔ وہ گھبراکر چادر ہٹاتا ہے، کیا دیکھتا ہے کہ جمورا خون سے لت پت ہے اور اس کی گردن سچ مچ کٹی پڑی ہے۔
اوپر جو آٹھ ساختیے پیش کیے گئے، ان میں سے ہر ساختیہ باقی تمام ساختیوں کی مدد سے معنی حاصل کرتا ہے اور ہر ساختیہ میں کہانی کو کوئی دوسرا موڑ دینے کی گنجائشیں ہیں۔ افسانہ نگار کے لیے ہر شق میں ممکن تھا کہ وہ دوسری راہ اختیار کر لیتا اور پوری کہانی کا رخ بدل جاتا۔ مثال کے طور پر مداری اور اس کا بیٹا سفر میں ہیں۔ سفر کی ضد گھر ہے۔ انجان بستی کی طرف جتنا چلتے ہیں، اس کی طرف جانے والا پل اتنا دور ہوتا جاتا ہے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ پل پار کر لیتے اور انجانی بستی میں اتر جاتے، جس سے کہانی میں اسرار کی کیفیت ختم ہو جاتی اور لمحہ بہ لمحہ بھیدوں میں اترنے اور GROTESQUE کے بھیانک انجام تک پہنچنے کا عمل رونما نہ ہو سکتا۔
پھر یہ کہ جس بستی میں وہ پہنچتے ہیں وہ عجیب الخلقت بونوں کی بستی ہے جہاں سب (ناپخت بچے) مداری ہیں۔ اس کے برعکس بھی دکھایا جا سکتا تھا۔ لیکن کہانی میں وہ بات نہ بنتی جو اب بنی ہے۔ اسی طرح ہر شق اور ہر کڑی کو لیا جا سکتا ہے جس میں معنوی جہات تراشنے اور کہانی کو مرکزیت دینے کی دوسری معنوی اور اظہاری گنجائشیں موجود ہیں۔ آخر میں مداری کے تماشے سے کچھ اور نتیجہ بھی برآمد ہو سکتا تھا لیکن جس اچانک صدمے سے موجودہ انجام قاری کو دوچار کرتا ہے اور ذہن پر ضرب لگاکر قاری کو ایک تحیر زا بھیانک سوال کی زد میں لاکر چھوڑ دیتا ہے، کیا وہ کسی دوسری طرح ممکن تھا؟
سامنے کی بات ہے کہ کہانی میں پلاٹ ہے۔ واقعات ارتقائی عمل سے گزرتے ہیں، ان میں وحدتِ تاثر ہے۔ زماں اور مکاں کی ترتیب منطقی ہے۔ کہانی میں کردار بھی ہیں۔ مداری، جمورا اور تماشائی۔ کردار، واقعات اور مکالمات سے جڑے ہوئے ہیں۔ کہانی میں نقطۂ عروج بھی ہے اور انجام بھی۔ تو کیا یہ روایتی کہانی ہے؟ لیکن اس کی ساخت کی جو شقیں اوپر پیش کی گئی ہیں، ان کی روشنی میں شاید ہی کوئی ذی شعور آدمی یہ کہنے کی جرأت کر سکے کہ کہانی روایتی ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ روایتی کہانی نہیں ہے تو کیا یہ علامتی کہانی ہے؟ یا تمثیلی کہانی ہے؟ یا منشا یاد کے الفاظ میں ’’محض افسانہ‘‘ یعنی نہ سچی کہانی اور نہ جھوٹی کہانی۔ حق بات یہ ہے کہ ان سوالوں کا جواب اتنا سادہ نہیں جتناعام طور پر سمجھا جا سکتا ہے لیکن اتنا دقت طلب بھی نہیں کہ اس کی کوشش ہی نہ کی جائے۔
افسوس کا پہلو یہ ہے کہ بعض حضرات نے خانہ بندی بہت سخت کر رکھی ہے۔ آمد ورفت ممنوع ہے۔ دلیل وبرہان نہیں اور تجزیہ تنقید سے مفقود ہے۔ اوپر کے دو تجزیوں سے تو اتنی بات بہرحال واضح ہو چکی ہے کہ اردو میں علامتی اور تمثیلی کہانی عملاً ایک دوسرے سے اتنی الگ الگ نہیں جتنی بالعموم سمجھی جاتی ہے۔ زیادہ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں صرف چند امور کی طرف اشارہ کروں گا۔
ساختیاتی نظام کے بعد کہانی کے تمثیلی عنصر کو دیکھیے۔ جب دوسرے کنارے پربستی دکھائی دیتی ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لیے نہ پل ہے نہ کشتی، بڑا کچھ دیر تامل کرکے کہتا ہے، ’’اللہ کا نام لے کر ٹھِل پڑتے ہیں پُتر۔‘‘
لیکن پھر اسے رات والا ڈراؤنا خواب یاد آ جاتا ہے اور وہ اپنا فیصلہ بدل دیتا ہے۔
’’کیسا خواب ابا؟‘‘
’’بہت ڈراؤنا خواب تھا پُتر۔‘‘
’’کیا دیکھا تھا ابا؟‘‘
’’میں نے دیکھا جمورے کہ بہت بڑا مجمع ہے، میں تماشائیوں کے درمیان کوڑیوں والے کو گلے میں ڈالے کھڑا ہوں۔ بچے تالیاں بجا رہے ہیں اور بڑے زمین پر بچھی چادر پر سکے پھینک رہے ہیں۔ اچانک کوڑیوں والا جسے میں نے تمھاری طرح لاڈ پیار سے پالا تھا میری گردن میں دانت گاڑ دیتا ہے اور اپنا زہر انڈیل دیتا ہے۔‘‘
’’پھر کیا ہواا با؟‘‘
بڑا بتاتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگتا ہے اور وہ اپنی رسی سہی طاقت جمع کرکے بیٹے کو پکارتا ہے۔ پھر اپنی ہی چیخ کی آواز سن کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ دیکھتا ہے کہ آدھی رات کا وقت ہے۔ چاند ڈوب چکا ہے اور کتے رو رہے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ تم ٹھنڈ کی وجہ سے سمٹے ہوئے ہو۔ میں نے تمھارے اوپر چادر ڈال دی جیسے اکھاڑے میں تمہارے گلے پر چھری چلانے اور تمھیں دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ڈالا کرتا ہوں۔ مگر رات کے اس اداس پہر میں مجھے اپنا چادر ڈالنے کا یہ انداز بہت ہی نحس معلوم ہوا اور نیند اڑ گئی۔
کیایہ خواب کہانی کا وہ مرکزی تمثیلچہ نہیں جس کے چاروں طرف کہانی بنی گئی ہے۔ کہانی کے معنوی امکانات کو جس طرح اس خواب صورت تمثیل نے گہرا کر دیا ہے، کیا کسی اور طرح ممکن تھا؟ اول تو اس میں بھیانک پن اور دہشت کی وہ فضا ہے جس کے گرد پوری کہانی نمو پاتی ہے۔ دوسرے اس میں اپنوں کے ہاتھوں سفاکانہ ہلاکت کا جو منظر ہے وہ دوہری معنویت رکھتا ہے۔ کوڑیالے سانپ کو بڑے نے اپنی اولاد کی طرح لاڈ پیار سے پالا تھالیکن وہی اس کی گردن میں دانت گاڑ دیتا ہے۔ یہاں موت اولاد سے باپ کی طرف ہے جب کہ کہانی میں اس سفاکانہ عمل کی تقلیب ہوتی ہے اور چھری باپ کے ہاتھوں بیٹے کی گردن پر چلتی ہے۔ خواب کا دوسرا حصہ یعنی ’’رات کے اس اداس پہر میں مجھے اپنے چادر ڈالنے کا یہ انداز بہت ہی نحس معلوم ہوا‘‘ کہانی کے انجام سے مربوط ہے۔ لیکن کہانی کا انجام بہرحال تحیر زا اور غیرمتوقع ہے۔
علاوہ خواب کی تمثیل کے کہانی میں دوسرے تمثیلی عناصر بھی ہیں۔ باپ اور بیٹا دریا کے کنارے کنارے چلتے رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ بستی کی مسجد کے مینار بھی چلتے رہتے ہیں۔ صبح سے دوپہر ہو جاتی ہے مگر پل پھر بھی اتنا ہی دور نظر آتا ہے۔ اسی طرح جس بستی میں پہنچتے ہیں وہاں کوئی بالغ نہیں، سب بچے ہیں۔ لیکن ان کے بال سفید ہیں اور ان کے چہروں پر جھریاں ہیں۔ اگرچہ ان کی عمریں زیادہ ہو گئی ہیں لیکن ان کے ذہن ناپخت ہیں۔ گویا کہانی کی ساخت میں ایک نہیں تین شقیں سراسر تمثیلی ہیں۔ لیکن کیا اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کہانی محض تمثیلی ہے۔ لیکن یہ بات ابھی طے نہیں کی جا سکتی کیونکہ کہانی کے بہت سے دوسرے معنوی ابعاد پر ابھی ہم نے غور کیا ہی نہیں۔
بڑا کون ہے، چھوٹا کون ہے، کیا یہ صرف مداری اور اس کا بیٹا ہیں۔ یا اس پراسرار تماشے کا حصہ ہیں جو اس کار زارِ حیات میں ہر روز ہماری نگاہوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ ان کا سفر کیسا سفر ہے۔‘‘ اندھیرے کا طویل سفر‘‘ طے کرنے کے بعد وہ سورج طلوع ہونے تک دریا کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ کیا یہ زندگی کا سفر تو نہیں۔ اندھیرا ماضی تو نہیں جو پیچھے چھوٹتا چلا جاتا ہے اور کیا سورج کا طلوع ہونا لمحۂ حاضر تو نہیں جس میں ہم وقت کے دریا کے کنارے کنارے چل رہے ہیں۔ باپ بیٹا یعنی قدیم انسان اور آج کا انسان دریا کو پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وقت کے دریا کو کس نے پار کیاہے۔ انسان ہمیشہ ان دیکھی بستیوں کی کھوج میں مگن ہے لیکن وہ جتنا سفر کرتا ہے، زندگی کے بھید اتنے گہرے ہوتے جاتے ہیں۔ صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہو جاتی ہے۔ لیکن زندگی کے بھید جتنے حل ہوتے ہیں اتنے ہی زیادہ گہرے بھی ہو جاتے ہیں۔
’’عجیب بات ہے جمورے، پل آگے ہی آگے چلتا جاتا ہے۔‘‘
’’اور بستی بھی ابا، مینار ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔‘‘
’’عجیب بات ہے جمورے۔‘‘
’’بہت ہی عجیب ابا۔‘‘
’’یہ کوئی اسرار ہے پُتر۔‘‘
’’میرا خیال ہے ابا، ہم ہر روز لوگوں سے مذاق کرتے ہیں، آج ہمارے ساتھ مذاق ہو رہا ہے۔‘‘
بیٹا اپنے باپ کی مخلوق ہے۔ دونوں مل کر معاشرے کو رِجھاتے ہیں لیکن اب دونوں وقت کی ایسی منزل میں ہیں جہاں خود ان کے ساتھ بہت بڑا تماشا ہونے والا ہے۔ چلتے چلتے تھک جاتے ہیں۔ دونوں کے پاؤں زخمی ہو جاتے ہیں ا ور ہونٹوں پر پیڑیاں جم جاتی ہیں تو بڑا کہتا ہے، ’’رک جا پُتر۔
اس پار بستی تک پہنچنا شاید ہمارے مقدر میں نہیں۔‘‘
’’پھر کیا کریں ابا؟‘‘
’’واپس چلتے ہیں پتر۔‘‘
’’نہیں ابا، ہماری منزل تو اس پار کی بستی ہے۔‘‘
صاف ظاہر ہے کہ بیٹا جستجو میں باپ سے زیادہ گرم جوش ہے۔ نئی نسلیں اگر پچھلی نسلوں سے زیادہ پرجوش نہ ہوں تو پھر نئی نسلیں ہی نہیں۔ نئی نسل زیادہ ذہین اور برّاق بھی ہے۔ اس کا ثبوت دونوں کے مکالموں سے جگہ جگہ ملتا ہے۔ باپ یہ کہتا ہے، ’’نیں دی ڈو ہنگھی تلہ پُرانا شینھاں تاں پتّن ملّے۔‘‘ چھوٹا لقمہ دیتا ہے، ’’میں دی جاناں جھوک ر انجھن دی نال میرے کوئی چلّے۔‘‘ باپ بیٹے میں ایک رشتہ تو خالق اور مخلوق کا ہے، دوسرا پرانی اور نئی نسل کا۔ ایک اور پہلو بھی ہے یعنی معاشرے اور نظام کا۔ اور شاید یہی پہلو کہانی کے مرکزی سوال سے زیادہ جڑاہواہے۔
یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ساری کہانی میں بھید کی فضا ہے۔ عجیب بستی کے قریب پہنچنے پربڑا اچانک ٹھٹک کر کھڑا ہو جاتا ہے اور بیری کے درخت کو دیکھتا رہ جاتا ہے۔ جمورا مٹی کا ڈھیلا اٹھاکر مارتا ہے۔ بیر چکھتا ہے اور تھوک دیتا ہے۔ بڑا کہتا ہے، ’’رب خیر کرے بیری کے ساتھ دھر کونے، کوئی اسرار ہے پتر۔‘‘
چھوٹا منہ اٹھاکر آسمان کی طرف دیکھتاہے۔ بڑا کہتا ہے، ’’ابا بیلیں ہیں پتر۔‘‘
’’ہاں ابا پورا لشکر ہے۔‘‘
’’دانہ دنکا ڈھونڈ رہی ہوں گی پتر۔‘‘
’’کیا پتہ کچھ اور ڈھونڈ رہی ہوں ابا۔‘‘
’’اور کیا پتر؟‘‘
’’ہاتھیوں کو ابا۔‘‘
’’نہیں پتر، یہ وہ ابابیلیں نہیں، یہ تو ہاتھیوں پر بیٹھ کر چہچہانے والی ابابیلیں ہیں۔‘‘
’’یہاں سے نکل چلیں ابا، یہ ٹھیک جگہ نہیں۔‘‘
قرآن حکیم کی روایت کی طرف اشارہ وسیع تر معنیاتی تناظر فراہم کرتا ہے لیکن ابابیلیں یہاں خیر، نیکی اور رضائے الٰہی کی علامت نہیں، اس کا برعکس ہیں کیونکہ زندگی دراصل آسیب میں گھر گئی ہے۔ یہ جگہ واقعی ٹھیک جگہ نہیں۔ یاد رہنا چاہیے کہ کہانی کا عنوان ’’تماشا‘‘ ہے۔ یہ طنزیہ بھی ہو سکتا ہے، یہ بستی جس میں مداری اور جمورا پہنچتے ہیں، آسیب میں گھری ہوئی ہے۔ کہیں سماج کسی ایسے وقت میں تو گرفتار نہیں ہو گیا، جہاں وہ خود اپنے آپ کو یا نظام اقدار کو یا عزیز ترین تصورات کو ذبح کیے دے رہا ہے۔ بڑا انتہائی دردناک لہجے میں آخر کیوں کہتا ہے، ’’پتر جموریا، ڈگڈگی بجاتے بجاتے میرا بازو شل ہو گیا اور بانسری میں پھونکیں مارتے مارتے میرا اندر سکھناں (خالی) ہو گیا۔‘‘
کیا یہاں تک پہنچتے پہنچتے بڑا ہمارے عہد کی علامت نہیں بن جاتا، جو اقدار کے کرائسس کا شکار ہے۔ یعنی ڈگڈگی بجاتے بجاتے جس کے بازو شل ہو چکے ہیں اور بانسری میں پھونکیں مارتے مارتے جس کا باطن خالی ہو گیا ہے لیکن کسی پر اس کا کوئی اثر نہیں، کیونکہ ہر عین کی معنویت جاتی رہی ہے، خواہ وہ تین لوگوں کا تماشا ہو، دو کے چار بنانے کا، بھرے گلاس کو خالی کرنے کا یا خالی گلاس کو بھرنے کا، جلتے ہوئے سگریٹ کو نگلنے کا یا رومال کے رنگ کو تبدیل کرنے کا۔ کوئی تصور اکساتا نہیں، بس تماشا ہو رہا ہے۔ ہر قدر بے مایہ اور بے آبرو ہو گئی ہے۔ چاروں طرف نظر آنے والے تماشائی سب ناپخت ہیں۔ بستی میں اب ’’پورے قد کا کوئی آدمی نہیں رہا۔‘‘ یعنی معاشرہ ایسے انسانوں سے خالی ہوتا جا رہا ہے جو اقدار کی لذت سے آشنا تھے اور اس کے شیدائی تھے۔ یہ اقدار روحانی بھی ہو سکتی ہیں اور سماجی، سیاسی بھی۔
اس عہد میں ’’بچے‘‘، ’’کسی کو رہنے ہی نہیں دیتے‘‘، ’’ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔‘‘ یہ بچے کون ہیں یعنی ذہنی اعتبار سے ناپخت لوگ جنھوں نے آسیب زدہ بستی پر قبضہ کر رکھا ہے اور سب بڑوں کو ٹھکانے لگا دیا ہے۔ آخری تماشا جمورے کو زمین پر لٹاکر، اس پر چادر ڈال کر گردن پر چھری چلانا ہے۔ باپ کا جو رشتہ اولاد سے ہوتا ہے، وہی معاشرے کا اپنے عزیز ترین تصورات سے ہے۔ جمورا خون میں لت پت ہے اور اس کی گردن سچ مچ کٹی پڑی ہے۔ کیا انسان کے ہاتھوں اپنی اقدار کا قتل نہیں ہو رہا ہے۔ کیا معاشرہ اپنے عزیز ترین تصورات کا خود قاتل نہیں؟ کیا ہماری عزیزترین متاع خون میں لت پت نہیں پڑی ہے؟ کیا بانسری میں پھونکیں مارتے مارتے انسان کا باطن خالی نہیں ہو گیا؟ اور کیا وہ آوارہ اور بے خانماں کُو بہ کُو سرگرداں نہیں؟
ہم نے اس کہانی کی روایتی، تمثیلی اور علامتی تینوں توجیہیں آپ کے سامنے رکھ دیں۔ اب آپ آسانی سے اس سوال کا جواب خود ہی پا سکتے ہیں کہ یہ کہانی روایتی ہے، تمثیلی یا علامتی ہے۔ اتنی بات تو شروع کے ساختیاتی بیان کے بعد ہی واضح ہو گئی تھی کہ کہانی روایتی نہیں۔ دوسرے بیان سے یہ بات سامنے آئی کہ افسانہ نگار نے تمثیلی پیرایے کو بھی برتا ہے۔ تیسرے یعنی آخری بیان سے یہ حقیقت بھی سامنے آ گئی ہے کہ کہانی کی پوری بافت از اول تا آخر علامتی ہے اور تمثیلی عنصر بھی اسی علامتیت کا حصہ ہے۔ یوں تو کہانی کو محض لغوی سطح پر بھی لیا جا سکتا ہے اور اس اعتبار سے بھی یہ لطف واثر سے خالی نہیں لیکن اس کے لطف واثر کے تمام امکانات اسی وقت روشن ہوتے ہیں جب اس کے علامتی مفاہیم بھی نظر میں رہیں۔
علامتی مفاہیم کے کچھ اور پہلو بھی ہو سکتے ہیں، لیکن ارتکاز کی خاطر ہم نے صرف ان پہلوؤں کو پیش کیا جو ہمارے نزدیک اظہاری اعتبار سے زیادہ قابل قبول ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نئے اردو افسانے میں علامتی اور تمثیلی پیراے بالکل الگ نہیں ہیں۔ ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ یہ الگ الگ نہیں ہو سکتے۔ بالکل ہو سکتے ہیں اور اس کی مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں لیکن اردو کے نئے افسانے میں اکثر و بیشتر علامتی و تمثیلی پیراے مل جاتے ہیں اور تمثیلی عنصر اور وسائل سے علامتی ساخت کو خاصی معنیاتی تقویت ملتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار کرنا نئے افسانے کے تخلیقی مضمرات سے عدم واقفیت کا ثبوت دینا ہے۔ حق بات یہ ہے کہ کہانی کا ڈھانچہ یا اس کا ظہاری پیکر خواہ کچھ ہو، ضروری ہے کہ اس میں لطف واثر ہو، وہ دلچسپی کو قائم رکھ سکے اور حظ وانبساط اور لطف ونشاط سے سرشار کر سکے۔ کیتھارسس جو سچے ادب کی پہچان ہے، اس کی اصلی توجیہ بھی یہی جمالیاتی توجیہ ہے۔
کہانی خواہ علامتی ہو یا تمثیلی یا ملی جلی حقیقت نگاری کی کہانی ہو، یا سرائیلی کہانی ہو یعنی شعور سے زیادہ لاشعور کو انگیز کرتی ہو، ضروری ہے کہ وہ کسی قیمتی تجربے سے آشنا کرے، یعنی اس کے اظہاری قالب میں یہ طاقت ہو کہ دل پر چوٹ پڑے یا ذہن پر ضرب لگائے، استعجاب میں غرق کر دے یا سوچنے پر مجبور کردے یا زندگی کے بارے میں آگہی اور بصیرت کا کوئی نیا دریچہ کھول دے۔ یہ منصب کہانی کے جوہر کا ہے۔ علامتی یا تمثیلی پیرایے محض وسیلے ہیں۔ وسائل کچھ بھی ہو سکتے ہیں، اصل چیز ’’جوہر‘‘ ہے اور کہانی کے اسی جوہر کی حفاظت محمد منشا یاد نے کی ہے۔
(۶)
اس بحث کے بعد اب دیکھیے کہ ہندوستان کے نئے افسانہ نگار حقیقت نگاری کی کہانی کو کس تخلیقی سطح پر برت رہے ہیں۔ اس کے لیے سلام بن رزاق کی کہانی ’’انجام کار‘‘کو لیا جاتا ہے، جو پہلی بار ۱۹۷۴ء میں چھپی تھی اور جسے شاید اردو تنقید کے غلط رویوں کی وجہ سے مصنف نے اپنے مجموعے ’’ننگی دوپہر کا سپاہی‘‘ (۱۹۷۷ء) میں سب سے آخر میں جگہ دی ہے۔ مصنف نے پہلے اپنی علامتی کہانیوں کو لیاہے۔ یہ کہانی چونکہ حقیقت نگاری کی کہانی ہے، خود مصنف کی نظر میں اس کہانی کی اگر اہمیت ہوتی تو وہ شایداس کو اتنا دور نہ پھینکتا۔ سات سال پہلے اس کہانی کو پہلی بار پڑھنے کے بعد مجھے توقع تھی کہ جدید نقادوں میں نہ سہی، کم از کم ترقی پسند نقادوں ہی میں سے کوئی اس کے معنیاتی انسلاکات سے پردہ اٹھائےگا، کیونکہ اس میں وہ تمام نسخے ہیں جو ترقی پسند دوستوں کو دل سے مرغوب ہیں یعنی قانون، پولیس، شراب، بدکاری کا اڈا اور سماجی چکی میں پستا ہوا مظلوم غریب انسان۔
سلام بن رزاق کی کتاب پر تعریفی تبصرے تو بہت چھپے لیکن ان کی عمومی کیفیت وہی ہے یعنی محض موضوع اور مواد کی بنیاد پر تمغے عطا کرنے میں احباب نے فیاضی سے کام لیا ہے۔ کہانی کا ڈھانچہ سلام نے بڑی احتیاط سے تیار کیا ہے۔ کہانی میں ایک کلرک ہے جو کسی گندی بستی میں اپنی نئی بیاہتا بیوی کے ساتھ رہتا ہے۔ ایک دن شام کو جب وہ گھر لوٹتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کے دروازے کے سامنے گندے پانی کی نکاسی کے لیے جو نالی بنی تھی، اس میں شامو دادا کا ایک چھوکرا دیسی شراب کی کچھ بوتلیں چھپا رہا ہے۔ اس کے اعتراض کرنے پر پہلے تو چھوکرا چلا جاتا ہے مگر تھوڑی دیرمیں شامو دادا کو بلا لاتا ہے۔ نوجوان، غنڈوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن بحث بڑھ جاتی ہے اور چاقو نکل آتا ہے۔ قریب تھا کہ اس پر چاقو سے حملہ ہو کہ اس کی بیوی لپک کر اسے اندر گھسیٹ لیتی ہے اور دروازہ بند کر لیتی ہے۔
نوجوان کو یقین ہے کہ شامو دادا کا شراب کا دھندا غیرقانونی ہے اور قانون ضرور اس کی مدد کرےگا۔ وہ بیوی کے منع کرنے کے باوجود بچ بچاکر پولیس اسٹیشن جاتا ہے۔ رپورٹ لکھانا چاہتا ہے لیکن حولدار اور کانسٹبل کی سطح پر اس کی شنوائی نہیں ہوتی۔ وہ ہمت نہیں ہارتا۔ بالآخر انسپکٹر کے سامنے جاتا ہے لیکن انسپکٹر کہتا ہے، ’’مجھے اس کا افسوس ہے کہ تمھارے ساتھ زیادہ ہوئی ہے۔ ہم ابھی تمھارے ساتھ دوچار سپاہی روانہ کر سکتے ہیں اور اس کی مشکیں کسواکر یہاں بلا سکتے ہیں مگر سوچو اس سے کیا ہوگا۔ وہ دوسرے ہی دن ضمانت پر چھوٹ جائےگا اور پھر تمھیں وہیں رہنا ہے۔‘‘
’’مگر سرقانون۔۔۔‘‘
انسپکٹر کہتا ہے، ’’قانون کی بات مت کرو۔ قانون ہم کو بھی معلوم ہے۔ پولیس تمھاری رپورٹ پر ایکشن لے سکتی ہے۔ مگر چوبیس گھنٹے تمھاری حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتی۔‘‘ اسے سمجھایا جاتا ہے، ’’تم سیدھے سادے آدمی ہو۔ ہو سکے تو وہ جگہ چھوڑ دو اور اگر وہیں رہنا چاہتے ہو تو پھر ان غنڈوں سے مل کر رہو۔‘‘ وہ سکتہ میں آ جاتا ہے۔ جتنی توقعات کے ساتھ آیا تھا، اب اتنی ہی ندامت ہوتی ہے۔ خاموشی سے اٹھ کر وہ تھانے سے باہر آ جاتا ہے۔ اپنے محلے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھتا ہے کہ شامو کے اڈے پرویسی ہی چہل پہل ہے اور گلاسوں کی کھنک اور پینے والوں کی بہکی بہکی گالیاں فضا میں تیرتی پھر رہی ہیں۔ وہ اپنے گھر کی طرف مڑنے کے بجائے شامو کے اڈے کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ غنڈے اسے دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ شامو لنگی اور بنیان پہنے باہر نکلتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں اب یہاں کچھ ہونے والا ہے۔ شامو لنگی اوپر چڑھاتے ہوئے کڑک کر پوچھتا ہے، ’’اب کیا ہے؟‘‘ نوجوان نہایت پرسکون لہجے میں جواب دیتا ہے، ’’پاؤ سیر موسمبی اور ایک سادہ سوڈا۔‘‘
ظاہر ہے یہ سماجی حقیقت نگاری کی کہانی ہے لیکن کیا واقعی ایسا ہے۔ اس کا جواب دینے سے پہلے چند ضمنی باتوں کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ مثلاً ۱۹۶۰ء کے بعد کی نسل کو لفظوں کا جس طرح سے ہیضہ ہو گیا ہے اس کا یہاں کوئی شائبہ نہیں۔ سلام کو بیانیہ پر قدرت حاصل ہے اور وہ بے ضرورت صرف نہیں کرتا۔ یہ وہ رشتہ ہے جو منٹو اور بیدی کے اثرات سے نئی نسل تک پہنچا ہے۔ نئی نسل کے فن کار ان اثرات کے قائل تو ہیں لیکن نئی کہانی کے چکر میں عام طور پر لفظوں کا بے جا صرف کرتے ہیں۔ بیس اکیس صفحے کی اس کہانی میں نوجوان افسانہ نگار نے بیانیہ کی تشکیل جس چابک دستی سے کی ہے وہ دیکھنے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ چونکہ زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں، میں اس کے معنی خیز ریلسٹ انداز کی صرف ایک آدھ مثال ہی دوں گا۔ گندی بستی کی منظر کشی بیانیہ کی جان ہے۔
’’میں جیسے ہی گلی میں داخل ہوا، اس جانے پہچانے ماحول نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ٹین کی کھولیوں کے چھجوں سے نکلتا ہوا دھواں، ادھر ادھر بہتی نالیوں کی بدبو اور ادھ ننگے بھاگتے دوڑتے بچوں کا شور، کتوں کے پلے، مرغیاں اور بطخیں۔ دو ایک کھولیوں سے عورتوں کی گالیاں بھی سنائی دیں جو شاید اپنے بچوں یا پھر بچوں کے بہانے پڑوسنوں کو دی جا رہی تھیں۔‘‘
اس طرح مکالموں میں غنڈوں کا لہجہ بھی احتیاط سے لایا گیا ہے۔ جب مرکزی کردار گٹر میں بوتلیں چھپانے سے منع کرتا ہے تو شامو دادا کا چھوکرا پہلے تھوڑی دیرتک اسے گھورتا ہے پھر کہتا ہے، ’’اپن کو نہیں معلوم، دادا نے یہاں چھپانے کو بولا تھا۔‘‘ پھر نوجوان کے ڈانٹنے پر چھوکرا پہلے تو بوتلیں اپنے میلے جھولے میں رکھ لیتا ہے، لیکن جاتے جاتے مڑکر کہتا ہے،
’’ساب جاستی ہو سیاری دکھائےگا تو بھاری پڑےگا۔ یہ نہرو نگر ہے۔‘‘
گندی بستی کا نام نہرو نگر طنز کا پہلو لیے ہوئے ہے اور یہ بھی ملاحظہ ہو کہ غنڈے اس کو سب سے محفوظ ومامون جگہ سمجھتے ہیں۔ سلام کے حقیقت پسندانہ اسلوب کا ایک اور طاقت ور پہلو بیوی کے خوف اور گھبراہٹ کی تصویرکشی ہے۔ ایک طرف غنڈوں کی یلغار ہے۔ دوسری طرف نوجوان کی نیکی اور قانون کے نظام پر اعتماد ہے اور تیسری طرف بیوی کی سراسیمگی، جو ہر روز رات کو سونے سے پہلے ادھر ادھر کی باتوں کے درمیان گھر بدلنے کا ذکر کرتی ہے۔ نوجوان کی غنڈوں سے آویزش وپیکار کے بیچ بیچ میں جس فن کارانہ چابکدستی سے پانی کے ہنڈوں، سنڈاس کی لائن اور نل کے جھگڑوں، زلیخا کے آٹا ادھار مانگ کر لے جانے کی بپتا اور ہر اتوار کے سر پھٹول کی جو تصویریں بار بار ابھرتی ہیں، وہ بستی کے گھناؤ نے پہلو کو فن کارانہ معروضیت کے ساتھ بےنقاب کرتی ہیں۔
کہانی کے اس سیدھے سادے ریلسٹ ڈھانچے کے سیدھے سادے معنی یہ ہوئے کہ انسان بدی کا مقابلہ کرنا بھی چاہتا ہے تو کر نہیں سکتا۔ موجودہ بدکار نظام میں جہاں پولیس غنڈوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے، وہ بدی کے ساتھ مفاہمت کرکے رہنے پر مجبور ہے۔ یہ کہانی اگر اتنی سی بھی ہوتی تو بھی اچھی تھی۔ لیکن حقیقت نگاری کے اسلوب میں ہوتے ہوئے بھی یہ کہانی صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ یہ اس سے آگے بھی جاتی ہے۔ یوں تو ہم جدیدیت کی موافقت اور اس کے رو میں خاصا زور بیان صرف کرتے ہیں اور اس کی شعلہ بکف بغاوت کی باتیں کرتے ہوئے انتہائی ہیجان انگیزی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں، لیکن نہیں دیکھتے کہ یہ کہانی اگرچہ علامتی کہانی نہیں ہے اور واضح طور پر حقیقت نگاری کی کہانی ہے، لیکن یہی کہانی اگر تیس پینتیس برس پہلے لکھی جاتی تو مقصدیت کی دلدل میں پھنسی ہوتی اور افسانہ نگار نے قدم قدم پر جذباتیت کے طوفان اٹھائے ہوتے اور قاری کے جذبۂ ترحم کو بیدار کیا ہوتا اور کچھ نہ کچھ پند و نصائح کے دفتر بھی ضرور کھولے ہوتے۔
آج کا نیا افسانہ نگار خواہ وہ علامتی افسانہ نگار نہ بھی ہو، پھر بھی وہ حقیقت نگاری کے غیرتخلیقی، میکانکی اور جذبات زدہ رومانی رویوں سے خبردار ہو چکا ہے۔ آج اگر کہانی کے فنی اور ادبی تقاضوں کو سمجھا جانے لگا ہے تو یہ مستحسن ہے۔ یہاں شمس الرحمن فاروقی کی اس بات کا رد ضروری ہے کہ وہ کہانی جو تاریخی سماجی دستاویز کے طورپر پڑھی جا سکے، رد ہو چکی ہے۔ ’’انجام کار‘‘ آپ کے سامنے ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کے بدترین پہلوؤں کا طنزیہ ہے۔ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ کہانی رد ہو چکی ہے۔ البتہ جدیدیت کے اثرات اور کہانی کے باغیانہ شعور نے جو بنیادی طورپر معنی خیز اقدار کی بحالی کا شعور ہے، ان غیرمعنی خیز اور غیرتخلیقی رویوں کو بے شک رد کردیا ہے جو کہانی کو محض موضوع ومواد جانتے تھے۔
تحریکیں آتی ہیں گزر جاتی ہیں، رجحان پیدا ہوتے ہیں چلے جاتے ہیں لیکن جانے والے سیلاب نئی کھیتیوں کو سیراب کر جاتے ہیں اور نئی فصلوں کا پتہ دے جاتے ہیں۔ جدید افسانہ نگاروں میں بائیں بازو کے فنکار بھی ہیں۔ سیاسی، سماجی اور اخلاقی اسٹبلشمنٹ کے باغی ریڈیکل بھی اور وہ فنکار بھی جو قدیم ثقافتی یا مذہبی اقدار کے سرچشموں سے فیضان حاصل کرتے ہیں۔ نیا افسانہ COMMITMENT کا افسانہ بھی ہو سکتا ہے اور بظاہر ناوابستگی کا بھی۔ جیسے محض موضوع اور مواد کی بنا پر افسانے کے ادبی معیار کی ضمانت نہیں دی جا سکتی، اسی طرح وابستگی یا ناوابستگی بھی اس کے نئے پن کی واحد پہچان قرار نہیں پا سکتی۔ کہانی خواہ علامتی ہو یا حقیقت نگاری کی، میری حقیر رائے ہے کہ اصل مسئلہ اس کی اکہری سطح یعنی معنوی سطحیت یا معنیاتی تہہ داری کا ہے اور جیسا کہ میں دکھا چکا ہوں یہ کام تخلیقی رویے اور زبان کے استعاراتی تفاعل کا ہے، جو تمثیل کا بھی راز ہے اورعلامت کا بھی، اگرچہ اس کی توسیع اور تفرع الگ الگ طور پر ہوتا ہے اور یہ بہت کچھ فن کار کی اپنی ذہنی اور تخلیقی صلاحیت پر منحصر ہے۔
ایک نہایت معنی خیز علامت ایک معمولی فنکار کے ہاتھوں نہ صرف اپنا منھ چڑانے لگتی ہے بلکہ مہمل بن کے رہ جاتی ہے۔ دوسری طرف حقیقت نگاری کی کہانی میں خواہ علامت کا استعمال شعوری سطح پر نہ ہو، تاہم اگر فن کار کو بیانیہ اور اس کے معنیاتی انسلاکات پر قدرت حاصل ہے تو اس میں سے ازخود علامتی مفاہیم کی شعاعیں پھوٹنے لگتی ہیں۔ کاش اتنی گنجائش ہوتی تو میں ’’انجام کار‘‘ کے ایک ایک موڑ سے اس کی مثالیں پیش کر سکتا تھا۔ مختصراً اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ بات محض قانون کی بے بضاعتی کو بے نقاب کرنے اور بدی سے مفاہمت کرنے کی نہیں۔
اس کا نفسیاتی پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بدی انسانی فطرت میں رفتہ رفتہ نفوذ کرتی ہے۔ ہمارے وجود میں خیروشر دونوں ہیں۔ وہ نوجوان بدی کو بار بار ٹھکراتا ہے۔ ’’گلی کی گندگی جب تک گلی میں تھی تو کوئی بات نہیں تھی مگر اب وہ گندگی میرے دروازے تک پھیل آئی تھی، اور یہ بات کسی بھی شریف آدمی کے لیے چیلنج ہے۔‘‘ اگرچہ بیوی بار بار کہتی ہے، ’’جانے دیجئے، رکھ لینے دیجئے، اپنا کیا جاتا ہے۔‘‘ لیکن نوجوان کا بدی سے مقابلہ جاری رہتا ہے۔ تھانے میں جاکر، جو قانون کی پناہ گاہ ہے، ایک کے بعد ایک اسے اہانت آمیز سلوک کا سامنا ہوتا ہے اور ہوتے ہوتے نیکی کی فطری RESISTANCE کم پڑتی جاتی ہے اور بالآخر بدی غالب آ جاتی ہے۔
تیسری نفسیاتی جہت اور بھی ہے اور اس کا سررشتہ بھی پوری کہانی میں نوجوان کے کردار میں ملتا ہے۔ وہ معمولی طاقت اور معمولی وسائل کا انسان ہے۔ وہ جھگڑا مول لینا نہیں چاہتا ہے۔ پیار سے سمجھا بجھا کر شامو کے چھوکرے کو بھگا دیتا ہے لیکن جب شامو دروازے پر آ دھمکتا ہے، تب بھی وہ چاہتا ہے کہ بحث نہ بڑھے، لیکن غنڈے اس کے سامنے گٹر میں بوتلیں گاڑ دیتے ہیں۔ وہ غصے سے اندر ہی اندر کھولتا ہے۔ شامو کہتا ہے، ’’ارے تو کیا کرےگا ہماراتیری ماں کی۔۔۔ مادر۔۔۔ سالا۔ ایک جھاپڑ میں مٹی چاٹنے لگے گا۔ تیرے قانون کی ماں کی۔۔۔‘‘ پھر چاقو بھی نکل آتا ہے۔ اب بھاگنا بھی آسان نہیں۔ بھاگنے کا مطلب ہے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پڑوسیوں کی نگاہوں میں مر جانا۔ چنانچہ جب بیوی اسے لپک کر اندر کھینچ لیتی ہے تو وہ محسوس کرتا ہے، ’’میرا لاشعور بھی شاید اسی میں اپنی عافیت سمجھ رہا تھا۔۔۔ ندامت، غصہ اور خوف۔۔ میری عجیب کیفیت تھی۔‘‘
اب صرف بدلے کی خواہش باقی رہ گئی تھی۔ تھانے پہنچ کر بھی یہ بدلے کی خواہش پوری نہیں ہوتی۔ واپسی میں اڈے پرآکر بیٹھنے کا عمل محض بدی سے مفاہمت کا عمل نہیں ہے۔ یہ محض بدی کے فطرت میں نفوذ کر جانے اور نیکی کی RESISTANCE کے ختم ہو جانے کا عمل بھی نہیں۔ اس میں IRONY کا لطیف پہلو بھی ہو سکتا ہے۔ شاید ان حالات میں بدلہ لینے اور فتح مندی کے احساس سے سرشار ہونے کا واحد راستہ یہی تھا کہ اسی اڈے پر بیٹھ کر ’’پاؤ سیر موسمبی اور سادہ سوڈا‘‘ کا آرڈر دیا جائے۔ تبھی تو یہ سنتے ہی شامو کے ہاتھ سے لنگی کے چھور چھوٹ جاتے ہیں۔ افسانے کے یہ جملے بےمصرف نہیں ہیں۔
’’چند ثانیوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو، اس وقت وہ (شامو) مجھے بہت بے بس نظر آیا اور ان (غنڈوں) کی بے بسی کو دیکھ کر مجھے اندر سے راحت کا احساس ہوا۔‘‘ کہانی کا یہ آخری جملہ IRONY کے اس احساس کو اور بھی شدید کر دیتا ہے۔
چند سیکنڈ تک کوئی کچھ نہ بولا۔ میں نے اسی ٹھہرے ہوئے لہجے میں آگے کہا، ’’ایک پلیٹ بھنی ہوئی کلیجی بھی دینا۔‘‘
ظاہر ہے کہ کردار شکست و ریخت کے عمل سے گزرنے کے بعد تعمیرِ نو کی منزل سے گزرتا ہے۔ چوتھے یہ کہ اس کہانی کی وجودی معنوی جہت بھی ہو سکتی ہے، جس کے نشانات پورے بیانیہ میں ایک سے زیادہ مقامات پر روشن نظر آتے ہیں۔ کہانی شروع ہی اس طرح ہوتی ہے،
’’آج شام تو آفس سے گھر لوٹتے وقت تک میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ حالات مجھے اس طرح پیس کر رکھ دیں گے۔ میں چاہتا تو اس سانحے کو ٹال بھی سکتا تھا مگر آدمی کے لیے ایسا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ کچھ باتیں ہمارے چاہنے اور نہ چاہنے کی حدود سے پرے ہوتی ہیں اور شاید ایسے غیرمتوقع سانحات ہی کو دوسرے الفاظ میں حادثہ کہتے ہیں۔ جو بھی ہو، میں حالات کے غیرمرئی شکنجے میں جکڑا ہوا تھا اور اس سے نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔‘‘
حالات کے جبر کی یہ زیریں لہر پوری کہانی کے باطنی احساسات میں جاری وساری رہتی ہے۔ بیوی جانتی تھی کہ اس کامیاں کلرک ہے اور مالی حالت اچھی نہیں مگر پھر بھی ایک عام گھریلو عورت کی طرح ایک اچھے گھر کی خواہش کو وہ اپنے دل سے الگ نہیں کر سکتی، گندی بستی کے ماحول میں خاصی پر یشانی تھی۔ ’’مگر صرف پریشانی سے کب کوئی مسئلہ حل ہوتا ہے۔‘‘ جب چاقو کھلنے کی آواز آتی ہے تو،
’’جسم میں سر سے پیر تک چیونٹیاں رینگ گئیں۔ میرے انتہائی کوشش کے باوجود حالات میرے قابو سے باہر ہو چکے تھے۔ ایک لمحہ کو میں سر سے پیر تک کانپ گیا۔ میں زندگی میں پہلی دفعہ اس قسم کی سچویشن سے دوچار ہوا تھا۔‘‘
وہ کھولی میں رہنا نہیں چاہتا مگر رہنے پر مجبور ہے۔ وہ جھگڑا کرنا نہیں چاہتا مگر جھگڑا ہو جاتا ہے۔ وہ بے بسی سے بچنا چاہتا ہے مگر اسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ غصہ کرنا نہیں چاہتا لیکن غصے سے لرزتا ہے۔ وہ شامو کے دیسی اڈے کو برداشت نہیں کر سکتا لیکن سیخ کباب والے کی انگیٹھی کے کوئلے اس کے دل میں دہکتے ہیں۔ وہ تھانے جانا نہیں چاہتا لیکن جانے پر مجبور ہے۔ وہ بے ہودہ کا نسٹبل کو جو ہتھیلی پر تمباکو اور چونا ملتا نظر آتا ہے، قانون کا محافظ بنانا نہیں چاہتا لیکن اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ وجود کے جبر اور آزادی کے اختیار کی اس کشمکش سے نڈھال جب وہ تھانے سے نکلتا ہے تو اس کی ذہنی کیفیت یہ ہے، ’’نہیں مجھے کوئی کمپلین نہیں لکھوانی ہے۔‘‘
وہ بالکل خالی الذہن ہے۔ نالیوں سے اٹھنے والی بدبو کے بھبھکے اس کا استقبال کرتے ہیں اور بالآخر وہ وجود کی اس ناگزیریت میں حلول کرجاتاہے۔ گویا اس کہانی میں باوجود حقیقت نگاری کے پیرایے کے کئی معنوی ابعاد ہیں، جبکہ ’’بجوکا‘‘ میں جس کا ذکر پہلے آیا تھا باوجود علامت کے استعمال کے کہانی معنوی اعتبار سے کمزور ہے۔ گویا جس طرح یہ ممکن ہے کہ حقیقت نگاری کی کہانی میں تہہ داری پائی جائے، اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ علامت نگاری کے باوجود کہانی کمزور اور بودی ہو۔
(۷)
باتیں سامنے کی تھیں لیکن جب مسئلہ گمبھیر ہو تو سامنے کی باتوں کو بھی مدلل بیان کرنا پڑتا ہے۔ یہ تو بہرحال واضح ہو ہی چکا ہے کہ داستانوی افسانہ جس میں تمثیلی، استعاری، کتھا کہانی، قصہ، اساطیر سب شامل ہیں، علامتی تمثیلی افسانے سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اب اس بات کو ذہنوں سے نکال دینا چاہیے کہ صرف علامتی افسانہ ہی نیا افسانہ ہو سکتا ہے، کیونکہ حقیقت نگاری کا افسانہ بھی اگر وہ حقیقت کی سطحی تعبیر پر مبنی نہیں اور معنوی تہہ داری کی بھی خبر دیتا ہے تو وہ نئے کی ذیل سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس مضمون کے شروع میں ہم نے انیس ناگی کے اعتراضات کا ذکر کیا تھا۔ قطع نظر بعض فروعی باتوں کے ان کے جس بیان سے یہاں تعرض ضروری ہے وہ یہ ہے، ’’اردو میں نیا افسانہ لکھتے ہوئے کہانی سے گریز ریلسٹ اسلوب کی جبریت سے رہائی کی شکل ہے۔‘‘
گویا وہ صرف سر ریلسٹ افسانے ہی کو نیا افسانہ کہتے ہیں۔ مجھے اس بات کے تسلیم کر لینے میں کوئی تامل نہیں کہ سر ریلسٹ طریقہ کار برتنے کی کئی کوششیں نئے افسانے میں ہوئی ہیں۔ یہ وجود کی لاشعوری اور غیرمنطقی سطحوں کی ترجمانی کا عمل ہے۔ SURREAL کا اصل مطلب بھی یہی ہے کہ حقیقت سے ماورا حقیقت سے بعید۔ اس پیرایۂ بیان میں لفظوں کے بے ترتیب صرف اور CHANCE EFFECTS کو یا ان جھلکیوں کو بہت دخل ہوتا ہے جو خوابوں کی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں۔ انیس ناگی نے افتخار جالب کے ساتھ مل کر لسانی تشکیلات کے نام سے جو تحریک چلائی تھی، اس کا حشر سب کے سامنے ہے۔
اصل قصہ یہ ہے کہ بھائی لوگوں نے اردو بولنے والے معاشرے کی ذہنی افتاد، جمالیاتی مزاج اور ادبی روایت کو یکسر نظرانداز کر دیا۔ اِکا دکا ایسی تجرباتی کوششوں میں کوئی خرابی نہیں، لیکن پورے ادبی قافلے کو مغربی تقلید کی کورانہ ڈگر پر ڈالنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ یہ ادبی خدمت تو خیر ہے ہی نہیں، معاشرتی اور قومی سطح پر بھی، جس کے آج کل بعض لوگ بہت بڑے نقیب بنتے ہیں، شدید طور پر ضرر رساں ہے۔ نئی کہانی سے بحث کرتے ہوئے نہیں بھولنا چاہیے کہ زبان ہمیشہ پرانی ہوتی ہے، چند لفظوں کے داخل کرنے سے زبان نئی نہیں ہو جاتی۔ البتہ ہر عہد کا ادب یا ہر نیا رجحان جب احساس وشعور کی نئی کائنات کو دریافت کرنے کے عمل سے گزرتاہے تو ان ہی پرانے لفظوں کے DEEP STRUCTURE تخلیقی عمل کے فشار سے بدل جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ عام لفظ بھی دراصل علامتیں ہیں جو کثرت استعمال سے اپنے مفاہیم میں محدود ہو جاتے ہیں۔ میں لسانیات سے علاقہ رکھتا ہوں اور اس بحث کو بہت دور تک لے جا سکتا ہوں، لیکن یہاں نہ وقت ہے نہ گنجائش۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ لفظوں کی تعداد محدود ہے لیکن لفظوں کے استعمال کے امکانات لامحدود ہیں۔ کروڑوں اربوں بار لفظوں کو برتا گیا ہے اور خدا جانے کتنے اربوں کھربوں بار جب تک یہ زمین اپنے مدار پر گھومتی ہے کسی بھی زبان کے لفظ اپنی اپنی نئی شکلوں میں برتے جائیں گے۔ SAUSSURE کا کہنا ہے،
’’زبان میں عملی سطح پر SIGNIFIANT اور SIGNIFIE کو الگ کیا ہی نہیں جا سکتا اور زبان میں کوئی SIGNIFIE نہیں ہے جس کا SIGNIFIANT نہ ہو۔ اس کا الٹ بھی صحیح ہے، یعنی کوئی معنی، کوئی تصور، کوئی مفہوم اس وقت تک اپنا وجود نہیں رکھتا جب تک اس کو اس کا اظہاری پیکر نہ مل گیا ہو، خواہ وہ باطنی طور پر تخئیل کی وجہ سے ہو یا خارجی طور پر تقریر وتحریر کے ذریعے ہو۔‘‘
حق بات یہ ے کہ تخلیقی زبان میں SIGNIFIE ہرگز ہرگز DEFINABLE نہیں ہے۔ SIGNIFIANT جب خارجی سطح پر استعمال ہوتا ہے تو لفظ اور معنی میں بالعموم ایک اور ایک کی نسبت ہوتی ہے اور جب وہ خارجی کائنات سے پرے دیکھنے کے لیے یعنی SUPER REAL یا HIGHER WORLD کے لیے استعمال ہوتا ہے تو استعارے کا عمل دخل شروع ہو جاتا ہے۔ علامت اس استعاراتی عمل ہی کی توسیع شدہ شکل ہے۔ واضح رہے کہ علامت کا یہ تصور ہم نے مغرب سے لیا۔
چنانچہ اگر خالص علامتی افسانے بہت کم لکھے گئے تو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ علامت کے اتنے شور کے باوجود ایسا کیوں ہے؟ زبان کے استعاراتی تفاعل کے کتنے دوسرے پیرایے ہماری زبان کے جسم میں خون کی طرح جاری و ساری ہیں۔ شاعری میں مجاز، مجاز مرسل، اشارہ، رمز، کنایہ سب اسی کے روپ ہیں، اور پھر خود استعارے کی بیسیوں اقسام ہیں۔ فکشن میں زبان کا یہی استعاراتی تفاعل اساطیر، تمثیلوں، کتھاؤں، کہانیوں اور حکایتوں میں ملتا ہے۔ کیا یہ محض ایک حادثہ ہے کہ صدیوں تک عوامی اور ملفوظی فکشن کے یہ پیرائے ہماری جمالیاتی احساس کے تقاضوں کو پورا کرتے رہے ہیں اور زندگی کے بارے میں ہماری آگہی اور بصیرت کو بڑھا کر لطف و انبساط کا اسامان فراہم کرتے رہے۔ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ان کا سب سے قدیم خزانہ پنچ تنتر کی کہانیاں تھیں جن کی اصل وقت کی دھند میں کھو چکی ہے۔
پورن بھدر کا جو نسخہ دوسری صدی عیسوی کا دستیاب ہے، اس کا اثر پوری دنیا کے افسانوی ادب پر پڑتا رہا ہے۔ سوم دیو کی ’’کتھا سرت ساگر‘‘ جو کئی جلدوں میں ہے اور نارائن کی ’’ہتواپدیش‘‘ بھی پنچ تنتر کی کہانیوں سے بالکل الگ نہیں۔ یہی حال پرانوں کی سیکڑوں ہزاروں کہانیوں کا ہے۔
نوشیرواں عادل کے زمانے میں چھٹی صدی عیسوی میں پنچ تنتر کا ترجمہ پہلوی میں ہوا اور نویں صدی عیسوی تک اس کا عربی روپ ’’کلیلہ ودمنہ‘‘ کے نام سے پوری اسلامی دنیا میں پھیل گیا۔ آگے چل کر اسلام ہی کی وساطت سے ان کہانیوں کا نفوذ یوروپی ادب میں ہوا۔ بید پائے کی کہانیاں ہوں یا الف لیلیٰ کے قصے یا گلستاں کی حکایتیں، ان سب میں قدیم ہندوستانی روایت اسلامی ایرانی روایتوں کے پہلو بہ پہلو موجزن رہی ہے۔ یہی معاملہ پانچویں صدی قبل مسیح جاتک کہانیوں کاہے جو مہاتمابدھ سے متعلق ہیں یا تیرہویں صدی عیسوی کی مثنوی رومی کی حکایات کا ہے جن میں دنیا بھر کی حکایتوں کے نہایت وسیع سلسلے کہاں کہاں سے آکر عجیب وغریب روحانی وتخلیقی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔
اس ساری روایت میں اس ’’خالص علامت‘‘ کا کوئی تصور نہ تھا جسے ہم نے ابھی چند دہائیاں پہلے مغربی ادب سے لیا۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ افسانوی ادب کی ہماری صدیوں کی مہتم بالشان روایت میں استعاراتی تفاعل کے تقاضے جن پیرایوں سے پورے ہوتے رہے ہیں، ان میں ہمیشہ LEGEND, MYTH تمثیل، کتھا اورحکایتوں کا عمل دخل رہا ہے۔ یہ کون کہتا ہے کہ نیا افسانہ ان قصے کہانیوں کو جوں کا توں دہرانے سے اپنے عہد کے تقاضوں سے عہدہ بر آ ہو سکتا ہے۔
البتہ اس وسیع خزانے سے اگر نئی نئے علامتی اور تمثیلی مفاہیم پیدا کیے جا سکتے ہیں جیساکہ ’’نرناری‘‘ کے تجزیے سے اوپر دکھایا گیا تو اس سے پریشان ہونے اور ’’خالص علامت‘‘ کی دہائی دینے کی ضرورت نہیں ہے؟ ضرورت البتہ اس بات پر اصرار کرنے کی ہے کہ فکشن میں اصل معاملہ پہلو دار معنیات اور استعاراتی نظام کا ہے، خواہ وہ کسی بھی پیرایے سے زیردام لایا جاسکے اور یہ بات فن کار کی ذاتی تخلیقی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ کس پیرایے کا استعمال کس سطح پر کرتا ہے۔
آخر میں یہ بات بھی خاطر نشان رہنی چاہیے کہ افسانے کے بھی کچھ اپنے صنفی تقاضے ہیں۔ شب خونی ’’نری علامت نگاری‘‘ کے چکر میں پڑ کر انھیں یکسر فراموش کرنا اور مہمل نگاری اور ہذیان گفتاری کا شکار ہو جانا بھی کوئی قابل فخر بات نہیں۔ افسانے یا کہانی کی تعریف میں کتابوں کے صفحے کے صفحے بھرے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بات نظرانداز کر دینے کی نہیں کہ بحیثیت ایک صنف کے کہانی کا اپنا ایک جوہر ہے۔ اسے کہانی کا KERNEL کہیے یا تَتو، یہ جوہر تو لازماً افسانے میں ہونا ہی چاہیے۔ اس جوہر کی حفاظت میں ہمارے اساطیر، کتھاؤں اور حکایتوں نے صدیاں کھپادیں۔ اس جوہر کو کلیۃً مسترد کرنا دراصل خود اپنے کلچر کو رد کرنا ہوگا۔ شاید اسی جوہر کے جمالیاتی فشار کے لاشعوری تقاضوں کی بنا پر ہمارا نیا افسانہ اتناعلامتی نہیں جتنا تمثیلی ہے اور تمثیلی ہوتے ہوئے استعاراتی تفاعل کی معنیاتی تہہ داری سے بےنیاز نہیں۔
چنانچہ افسانہ خواہ تمثیلی ہو یا حقیقت نگاری کا ہو، اگر وہ کہانی کے صنفی جوہر سے تہی دامن نہیں اور اظہار کے گہرے معنیاتی تفاعل سے ذہن وشعور کی نئی سطحوں کو پیش کرتا ہے، نیز آج کے نئے مسائل سے بھی بے تعلق نہیں تو وہ یقیناً نیا افسانہ ہے اور ایسے افسانے میں ترقی کا سفر کبھی رک نہیں سکتا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.