Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نئی اور پرانی نسل

مجتبی حسین

نئی اور پرانی نسل

مجتبی حسین

MORE BYمجتبی حسین

    کیا آپ نے موجودہ دور کی ادبی تخلیقات کو پڑھتے ہوئے کبھی محسوس کیا ہے کہ ہمارے ادب میں بحیثیتِ مجموعی پہلی جیسی جاذبیت، اثرانگیزی اور بلند نگہی نہیں رہ گئی ہے اور ہم موجودہ ادب کو خصوصاً نئے لکھنے والوں کی تخلیقات کو اس طرح ٹوٹ کر نہیں پڑھتے جیسے پہلے پڑھا کرتے تھے۔ پہلے کوئی نیا افسانہ، نظم یا غزل چھپ جاتی تھی تو ہم گھنٹوں اس پر بحث کیا کرتے، اس کو پڑھ کرایک دوسرے کو سناتے اور نئے رسالوں کے اشتیاق میں سرگرداں رہتے تھے۔ مگر اب وہ بات نہیں رہ گئی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یا تو یہ ہے کہ ہمارے نئے لکھنے والوں کی تخلیقات میں واقعی وہ بات نہیں ملتی جو پہلے پائی جاتی تھی یا پھر خود ہمارا مذاق ادب ایک منزل پر آکر رُک گیا ہے او رہم موجودہ افسانوں، غزلوں، نظموں اور دیگر تخلیقات سے متاثر ہونے اور لطف لینے کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔

    یہ دونوں سوال ایسے ہیں جن پر غیرجانب داری سے بحث کرنا بہت مشکل ہے۔ ادب کے معاملے میں ہمارا ذوق ہمیں یہ باور کرانے پر ہمیشہ مصر رہتا ہے کہ ہماری رائے مستند اور معتبر ہے، ہم ادیبوں اور ادب کا غلط اندازہ لگا ہی نہیں سکتے اور جب ہم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہیں تو یقیناً وہ چیز ناپسند کرنے کے لائق ہوگی۔ اس میں لازماً خرابیاں ہوں گی اور ہم صرف ناپسندیدگی کے اظہار ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کے اسباب اور دلائل بھی تلاش کرلیتے ہیں۔ ان میں بعض دلائل اور اسباب صحیح بھی ہوسکتے ہیں۔ بڑے سے بڑے ادیب کی تخلیقات کے بارے میں اختلافات کی گنجائش نکل سکتی ہے اور نکلتی رہی ہے۔

    ادب کی بلندی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے سلسلے میں ہرشخص کواظہار رائے کی اجازت دے دیتا ہے۔ صرف شرط یہ رکھتا ہے کہ یہ رائے پڑھے لکھے آدمی کی ہو جو ادب سے واقعی دلچسپی رکھتا ہو۔ ادب نے اپنی وسعت قلبی سے کام لے کر ادبی تنقید کوجنم دیا۔ یہ اس کا کارنامہ ہے۔ دنیا کے کسی بھی علمی اور فنی شعبے میں تنقیدی مضامین شاید اتنی کثرت سے نہ ملیں گے جتنی کثرت سے ادب کے شعبے میں ملتے ہیں، ادب کو ہماری تہذیب کا سب سے بڑا مظہر بنانے کی ایک وجہ غالباً یہ بھی رہی ہے۔

    ادب میں فکری اختلافات کو ہمیشہ فال نیک سمجھا گیا۔ یہ اس کو کمزور کرنے کے بجائے تنومند اور بالغ نظر بناتے رہے۔ ادب کی اسی وسعت، لچک اور بلند ظرفی سے فائدہ اٹھاکر ہم ادب کے بعض مسلمہ اصول اور قوانین سے بھی انحراف کربیٹھتے ہیں۔ اسی لیے جب اپنے مذاق کو حق بجانب کہنے کا سوال اٹھتا ہے تو ہم دلائل کے ساتھ آسانی سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ لکھنے والوں کی تحریر وں میں کوئی قابل ذکر بات نہیں رہ گئی ہے۔ ان دلائل کو توجہ سے بہرحال سننے کی ضرورت ہے۔ ہماری ادبی تربیت کا ایک اہم تقاضہ یہ بھی ہے۔ ہم اِن دلائل کو صرف اتنا کہہ کر نہیں ٹال سکتے کہ یہ محض اپنے ذوق کی ’’پچ‘‘ میں پیش کیے گئے ہیں اور ان میں خودپسندی اور انانیت سے کام لیا گیا ہے۔

    ہمیں ہرشخص کو خواہ وہ ادب کا طالب علم ہو یا ادیب اس بات کی تھوڑی سی اجازت دینا ہوگی کہ وہ اپنے ذوق پر بھروسہ کرسکے اور اس کی ’’پچ‘‘ کرسکے۔ اس حسن ظن یا ’خودپسندی‘ کے بغیر کوئی بھی شخص ادب سے نہ لطف لے سکتا نہ اسے سمجھ سکتا۔ یہی جذبہ قاری یا ادیب میں ادب سے گہری اور خصوصی وابستگی پیدا کرتا ہے۔ ورنہ یوں امتحان پاس کرنے کے لیے سب ہی تھوڑا بہت ادب کا مطالعہ کرلیتے ہیں۔ ادب کا ایک بڑا کام یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دلچسپی لینے والے میں اس ضروری خوداعتمادی کو پیدا کردیتا ہے جس سے کسب زر کا نظام اُسے اکثر و بیشتر محروم کیے رہتا ہے۔ زندہ رہنے کی توانائی اور زندگی سے لطف لینے کی صلاحیت اسی ادبی خوداعتمادی اور اپنے مذاق پر اعتبار کرنے کی عادت کی عطا کردہ ہوتی ہے۔ ادب کے بارے میں کوئی بھی ایسی رائے قائم نہیں کی جاسکتی جو ذاتی ذوق اور پسند کی یکسر نقیض ہو کیونکہ ایسی صورت میں اس کے ایک ہی معنی ہوتے ہیں کہ ایسا شخص ادب پر سرے سے کوئی رائے نہیں رکھتا۔ اسی لیے ہم موجودہ ادب اور نئے لکھنے والوں کی تخلیقات کی خوبیوں سے انکار صرف دو ہی طرح کرسکتے ہیں یا تو سوچ سمجھ کر جس میں ذاتی ذوق کی پاسداری یقیناً شامل ہوتی ہے یا پھر بغیرسوچے سمجھے اور صرف اپنے ذوق کی پاسداری میں۔ پہلی صورت میں نئے لکھنے والوں کی تحریروں کے بارے میں جن خیالات کااظہار ہوسکتا ہے اس کی طرف توجہ ضروری ہے البتہ دوسری صورت میں جن خیالات سے ہمیں سابقہ پڑسکتا ہے اس پر غصہ نہیں بلکہ درگزر کرنے کی ضرورت ہے۔

    دوسری طرف نئے لکھنے والوں یا ان کو پسند کرنے والوں کی جانب سے اسی شدومد سے کہا جاسکتا ہے کہ آپ کا ذوق ناقص ہے اور آپ کی رائے جلدبازی اور حقیقت ناشناسی پر مبنی ہے۔ اچھا اور برا ادب آج بھی پیش کیا جارہا ہے۔ بات صرف اتنی ہوئی ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے اور آپ نہیں بدلے۔ جدیدترین افسانوں، نظموں اور غزلوں میں زندگی کے جدید ترین پہلوؤں سے بحث کی گئی ہے اور انہیں پسند کرنے کے لیے آدمی میں اتنی دیانت ضرور ہونی چاہیے کہ وہ اپنی پسند ہی کو سب کچھ نہ سمجھ بیٹھے اور دوسروں کو اس کا حق دے کہ وہ اپنی پسند سے بے نیاز ہوکر بھی اچھی چیزوں کے لکھنے کی صلاحیت رکھ سکتے ہیں۔ ساری خوش مذاقی صرف ایک شخص یا چند اشخاص پر ختم نہیں ہوگئی ہے۔ یہ خوش مذاقی اُن بے شمار لکھنے والوں میں پائی جاتی ہے جوآج پرانے لکھنے والوں کے مقابلے میں زیادہ لکھ رہے ہیں اور اگر ان سے اچھا نہیں لکھ رہے ہیں تو اُن سے بُرا بھی نہیں لکھ رہے ہیں۔ اگر نئے لکھنے والوں میں برائی یہی ہے کہ وہ پرانے لکھنے والوں کے ایسا نہیں لکھ رہے ہیں تو یہ ایک لحاظ سے نئے لکھنے والوں کی انفرادیت کا اعتراف ہے۔ وہ بدلے ہوئے حالات میں جب دنیا آئے دن فکرو نظر کی نئی راہوں سے گزر رہی ہے پرانی چیزیں لکھ ہی نہیں سکتے۔ وہ تو وہی لکھیں گے جو آج لکھا جاسکتا ہے اور جو کل نہیں لکھا جاسکتا تھا۔ نئے لکھنے والوں کایہ جواب اپنی جگہ بہت مسکت ہے۔ واقعی یہ کچھ عجیب سی بات ہوگی کہ زمانہ بدلتا رہے اور ادبی مذاق میں کوئی تغیر نہ ہو۔ یہ ادب کے تخلیقی ارتقا کو جھٹلانا ہوگا اور خود اپنی بدمذاقی اور ادب ناشناسی کی دلیل ہوگی۔

    اسی لیے ہمیں نئی ادبی تخلیقات کو محض کم حقیقت اور غیروقیع سمجھ کر نظرانداز نہیں کردینا چا ہیے بلکہ پوری توجہ اور ذہنی آمادگی کے ساتھ اُن کے مطالعے سے اپنے ذوق کو برابر تازہ اور ادبی مطالعے کو وسیع تر کرتے رہنا چاہیے۔ ادب کے طالب علم، ناقد یا خود ادیب کے حق میں ’’غنودگی‘‘ کبھی سودمند ثابت نہیں ہوئی۔ ادبی دلچسپی مستقل بیداری کا تقاضہ کرتی ہے۔

    ممکن ہے کہ نئے لکھنے والوں کی حمایت میں اٹھنے وا لی یہ آواز ضرورت سے زیادہ پرجوش ہو اور اس میں بھی اپنے ذوق اور اپنے عہد کی ’’پچ‘‘ کرنے والا جذبہ پایا جاتا ہو لیکن اس کے معنی یہ کبھی نہیں ہوتے کہ ہم ’’ادبی اشتعال انگیزی‘‘ کا شکار ہوکر تمام نئی تحریروں کو سطحی اور بے معنی قرار دے دیں۔ ادب کا ذوق اتنا ذاتی بھی نہیں ہوتا کہ صرف ذاتیات میں الجھ کر رہ جائے۔

    یہ ذوق، جسے ہم ذاتی سمجھتے ہیں، مختلف کتابوں اور تنقیدوں کے مطالعے، مختلف ادیبوں اور ادب کے طالب علموں سے گفتگو اور مباحثے، سماجی، تہذیبی، سیاسی تحریکات اور گزشتہ ادبی روایات سے مل کر بنتا ہے اور ذاتی صلاحیت کے تحت ایک انفرادی رویے کی شکل میں ابھرتا ہے جسے ہم ذاتی ذوق کہہ سکتے ہیں۔

    ان دوجوابات کے علاوہ ایک تیسرا جواب اور ہوسکتا ہے۔ اچھے ادب کے لیے اچھے ادیب کی ضرورت ہے۔ جس وقت اچھا ادیب سامنے آجائے گا آپ خود ہی پہچان لیں گے یا آپ نہ بھی پہچانیں نہ بھی مانیں وہ اپنی جگہ اچھا دیب رہے گا۔ وہ آپ کی پسندیاناپسندیدگی کا پابند نہیں ہوتا۔ اسے قبول یا رد کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ وہ تو اپنے کو قبول کرواکے رہتا ہے۔ یہ جواب جس قدر آسان اور صحیح معلوم ہوتا ہے اسی قدر تشنہ اور گمراہ کن بھی ہے۔ اس میں اولاً تو ادیب کو مافوق البشر او ر مسیح موعود کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے ادیب کا یہ تصور اس قدر رومانی اور جذباتی ہے کہ اس کی شخصیت ایک افسانہ ہوکر رہ جاتی ہے جس میں حقیقت کی کوئی جھلک نہیں ملتی۔ مزید برآں اس میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ اس طرح سوچنے سے ادبی ارتقاءکی تمام کڑیاں بکھر کر رہ جاتی ہیں اور تحقیق اور تنقید کی تمام راہیں بند ہوجاتی ہیں۔ کسی بھی ادبی مسئلے پر بحث اس وقت تک کے لیے موقوف اور بے سود ہوجاتی ہے جب تک یہ ’’ادیب موعود‘‘ تشریف نہ لائے۔ یہ ادبی انتظار ادبی تعطل اور جمود یا ترقی اور حرکت کے تمام سوالات کو ختم کردیتا ہے کیونکہ یہاں ہر سوال کا ایک ہی جواب ملتا ہے کہ ابھی ٹھہرو، ایک بڑے ادیب کو آنے دو پھر کسی مسئلہ پر غور کرنا۔ اس جواب سے مطمئن ہونے کے ایک ہی معنی ہیں کہ دس پانچ سال یا دس پانچ ہزار سال کے لیے قلم رکھ دیا جائے۔ حالانکہ یہ ناممکن ہے نہ اس کی ضرورت ہے۔ بڑا ادیب یقیناً روز روز نہیں پیدا ہوتا اور جب وہ آتا ہے تو مخالف یا موافق تنقیدوں اور آرا، پرانی اور نئی اقدار اور تحریکات کے دائروں سے گزرتا ہوا آتا ہے۔ مگر وہ ان تمام چیزوں سے بے نیاز نہیں ہوتا۔ وہ ان سے بلند ہوتا ہے۔ چھوٹے تمام ادیب اس کی تحریروں کو غذادیتے رہتے ہیں۔ وہ ادب کی جملہ سمتوں اور تقاضوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ جزوسے کل کی طرف بڑھتا ہے اور یوں ایک تکمیل شدہ شخصیت کی صورت میں ابھرتا ہے۔ لیکن اگر تمام ادبی مباحثے اور تحریکیں روک دی جائیں تو بڑا ادیب کبھی پیدا نہیں ہوسکتا۔

    بہرحال ہمیں ان تین باتوں کو ذہن میں رکھ کر اس مسئلہ پر غور کرنا ہے کہ موجودہ دور میں واقعی اچھا ادب نہیں پیدا ہو رہا ہے یا یہ صرف ہمارے چند ادیبوں وار ادب کے طالب علموں کے ذاتی ذوق اور اس کی تشنگی کا مسئلہ ہے اور اس کو حقیقت سے کوئی سروکار نہیں ہے یا اگر ہے تو بہت کم۔ دوسری طرف یہ بھی سوچنا ہے کہ کیا واقعی حالات اس طرح بدل گئے ہیں کہ جدید ترین ادب کے محاسن کو صرف بدلے ہوئے پس منظر میں سمجھا اور پسند کیا جاسکتا ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ بڑا ادب اسی وقت پیدا ہوگا جب بڑا ادیب آئے گا سو اس سے نہ انکار کیا جاسکتا نہ اقرار۔ جب تک بڑا ادیب نہیں آتا یہی کہا جائے گا کہ بڑا ادب تخلیق نہیں ہو رہا ہے (اگر واقعی ایسا ہے) اور جب بڑا ادیب آجائے گا تو پھر بڑے ادب کے تخلیق نہ ہونے کاشکوہ ہی بے معنی ہوجائے گا۔ چنانچہ اس امر پر فی الحال زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

    پہلی دوباتوں کے سلسلے میں ہمارا ذہن معاً نئی اور پرانی نسل کی آویزش کی طرف دوڑجاتا ہے اور جیسا کہ اوپر کہا جاچکا ہے طرفین کا اس مسئلہ پر ٹھنڈے دل او رغیرجانب داری سے غور کرنا قدرے مشکل بھی ہوسکتا ہے۔ مگر نئی اور پرانی نسل کی آویزش کے علاوہ بھی اس مسئلے کے کئی اور اہم پہلو ہیں جن کی طرف توجہ ضروری ہے ورنہ یہ ساری بحث ادب، ادبی ذوق، ادبی اقدار اور معیار سے ہٹ کر صرف صف بندی اور زور آزمائی پر ختم ہوجائے گی۔ دونوں نسلیں ایک دوسرے کو سمجھنے سے انکار کردیں گی اور اس طرح ادبی تاریخ کا تسلسل یک بیک ٹوٹ کر رہ جائے گا اور پھر ادب ایک ایسے مقام پر پہنچ جائے گا جہاں کوئی چیز اس کے آگے ہوگی نہ پیچھے۔

    ادب میں نئی اورپرانی نسل کا تصور بعینہ ویسا نہیں رہا ہے جیسے معاشرے میں ہوتا آیا ہے کہ ایک مخصوص معاشرے کی پرانی نسل آپ کو انگرکھے میں نظر آرہی ہے اور دوسری نسل کوٹ پتلون میں۔ اولاً تو معاشرے کی اتنی قطعی، حتمی اور واضح تقسیم بذاتہ مصنوعی اور انتہائی ناقص ہے دوسرے خود معاشرے میں معاشی اور سیاسی نظام کی تبدیلیوں کے سوا کوئی اور تبدیلی اچانک طور پر ممکن نہیں۔ معاشی اور سیاسی نظام میں تو البتہ دفعتاً ایک انقلاب لایا جاسکتا ہے مگر تہذیبی اور تمدنی اقدار کو یک لخت اور فوراً بدلنا ممکن نہیں۔ ان اقدار کی تبدیلی کی رفتار بہت سست اور بسااوقات غیرمحسوس طور پر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض پرانی اقدار کو ہر آنے والا معاشرہ اپنے مزاج اور تصورات کے مطابق اپناتا رہتا ہے۔ اسی بناپر ہم مختلف ممالک کی تہذیبوں کے مخصوص قومی رنگ سے متعارف اور آگاہ ہوتے ہیں اور ان میں امتیاز کرتے ہیں۔ ادب کی دنیا میں پہنچ کر یہ تغیر اور بھی آہستہ روی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کے مختلف اسباب ہیں۔ ادب اب صنفی اور فکری ارتقا کی جس منزل پرپہنچ چکا ہے وہاں کوئی اچانک تغیر ممکن نہیں۔ کسی جھٹکے کے ساتھ اس کے تسلسل کو توڑدینا تقریباً محال ہے۔ اس نے اپنے معینہ اصناف کے ذریعہ سے خود کو بیرونی حملوں سے بڑی حدتک محفوظ رکرلیا ہے۔ جو کچھ لکھا گیا ہے، لکھا جارہا ہے اور لکھا جائے گا وہ کم و بیش انہیں حدود میں رہ کر لکھا جاتا رہا ہے، لکھا جارہا ہے اور لکھا جائے گا جو متفقہ طور پر تسلیم کرلیے گئے ہیں۔ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے ہی بڑے سے بڑے تجربات کیے جاسکتے ہیں۔ کبھی کبھی ان حدود کو توڑنے کی کوشش بھی کی گئی ہے مگر ان کوششوں کے پیچھے بھی انہیں حدود کو وسیع تر کرنے کے جذبات کارفرما رہے۔

    مروجہ اور متعینہ اصناف سے گریز کرنے کا استحقاق ہی انہیں اصناف کا دیا ہوا ہے۔ نظم آزاد ہو کہ نظمِ معریٰ یہ کوئی ایسی نئی چیز بھی نہیں ہے جس کو شاعری کے دیگر اصناف پہچان بھی نہ سکیں۔ بحور اور قوافی سے انحراف کے باوجود نظم آزاد یا نظم معریٰ اپنے اندرونی نظم اور بیرونی شباہت میں نثر نہیں معلوم ہوتی۔ یہ شاعری ہی معلوم ہوتی ہے اور شاعری ہی رہتی ہے۔ اسی طرح انسانوں اور ناولوں میں بھی زمان و مکان کے باہمی ربط کو توڑ کر تجربات کیے گئے ہیں اور تحلیل نفسی کی بناپر متعدد اچھے ناول اور افسانے لکھے گئے ہیں مگر وہ اپنی مخصوص فضا، پیرایہ اظہار، مدعا اور غرض و غایت میں افسانے اور ناول ہی رہے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس نوع کے افسانے ناول معلوم ہونے لگیں یا ناول افسانے بن جائیں یا پھر ناول اور افسانے دونوں ڈراموں کی صف میں پہنچ جائیں۔ پھر بھی یہاں اتنی بات ضرور کہی جاسکتی کہ نظم آزاد اور نظم معری کی تخلیق اردو میں اسی زمانے میں ہوسکتی تھی غاؔلب یا داؔغ کے عہد میں اس کا امکان نہیں تھا اور یہ بات صحیح بھی ہے جسے نئی اور پرانی نسل دونوں بغیر کسی بحث و تمحیص کے قبول کرلے گی۔ اس موقع پر یہ کہنا کہ غاؔلب یا داؔغ یا اس سے بھی پہلے کی نسل یہاں تک سعدی کے زمانے میں بھی شعراء کے ذہن میں اصنافِ شاعری میں امکانی تغیر و تبدل کے تصور تھے یا پرانے زمانے کے شعراء نے کہیں کہیں خود اس قسم کی کوشش کی ہے، کچھ زیادہ وزنی نہیں ہے اس لیے کہ موجودہ نظم معریٰ و نظم آزاد یکسر موجودہ حالات کا تقاضہ ہے۔ پھر بھی نئی اور پرانی نسل کے مابین حد فاصل کھینچنے کے سلسلے میں صرف نظم آزاد اور نظم معریٰ کی تخلیق کو زیادہ اہمیت دینا ٹھیک نہیں ہے۔ اس نوع کی نظمیں ہمارے نئے شعراء کے یہاں بھی زیادہ نہیں پائی جاتیں اور نہ یہ ہماری شاعری کا غالب صنفی مزاج بن پائی ہیں۔ ان سے نئے دور کی افتاد طبع کا کچھ پتہ تو ضرور چلتا ہے مگر یہ کلی طور پر نئے مزاج کی ترجمانی نہیں کرسکتیں۔ غالباً خود آج کی یا آج سے بیس پچیس سال قبل پیدا ہونے والی نسل صرف اتنی سی بات کو نئے اور پرانے دور کی پہچان بنانا پسند نہ کرے گی کہ پہلے ایسی نظمیں نہیں لکھی جاتی تھیں اور اب لکھی جارہی ہیں۔ یہی بات افسانوں کے جدید ترین تجربات پر بھی صادق آتی ہے۔

    نظموں اور افسانوں کے جدید ترین تجربات میں قدیم ترین بات کہی جاسکتی ہے اور کہی جاتی رہی ہے۔ اسی لیے ادب میں سانچوں کی تبدیلی کے لازماً معنی خیالات کی تبدیلی کے نہیں ہوتے اور نہ سانچوں کی یہ تبدیلی آئے دن یانسل درنسل ممکن ہے۔ ادب کے صنفی تقاضوں نے ادب میں بحیثیت مجموعی بہت زیادہ اجنبی پن کو گوارا نہیں کیا ہے۔ ادب میں ایک نوع کی قدامت پسندی بھی پائی جاتی ہے۔ یہ ذہنی نہیں بلکہ ہیتی ہوتی ہے۔ اس نے اپنی وضعداری کو سخت سے سخت حالات میں نباہا ہے۔ فکری حیثیت سے ادب میں زبردست تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں لیکن چونکہ ان تبدیلیوں کا تعلق ہنگامی حالات سے زیادہ نہیں رہا ہے اور ادب کے سامنے ہمیشہ زندگی کے اساسی سوالات رہے ہیں جن کو وہ اپنے عہد کی طرز فکر کے مطابق سلجھانے میں منہمک رہا ہے، اسی لیے یہ تبدیلیاں ایک ہموار سطح پر ہوتی رہی ہیں۔ اس میں کوئی ایسی تبدیلی کبھی نہیں ہوئی جو بے جوڑ ہو اور ادب کی مخصوص سنجیدہ فصا میں کھپ نہ سکے۔ میؔرا اور اقبؔال کی فکر میں بڑا فرق ہے۔ لیکن دونوں کی سطح بلند ہے۔ ادب کی یہ ’’ہم سطحی‘‘ اور بلند نظری اس کے ہموار اور متوازن ارتقاء کا باعث بنتی ہے اور جس دور میں یہ ’ہم سطحی‘ برقرار نہیں رہتی اس دور کا ادب چھوٹا پڑجاتا ہے۔ اسی ’ہم سطحی‘ نے مختلف زمانے کے مختلف ادیبوں کو ایک ہی خاندان کے افراد میں بدل دیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس خاندان میں پہنچنا بہت مشکل ہے۔ مگر ایک بار پہنچ جانے کے بعد یہاں زمان و مکان کا بُعد مٹ جاتا ہے۔ اس خاندان کا کوئی فرد کبھی مرتا نہیں اور فکری اور جذباتی طور پر منفرد ہونے کے باوصف ایک ہی نسل کا معلوم ہوتا ہے۔ یہ افراد سیاسی شخصیتوں کی طرح جنہیں زمانے کے سیاسی رجحانات مقبول اور غیرمقبول بناتے رہتے ہیں ڈوبتے اور ابھرتے نہیں رہتے۔ یہ اصیل نسل سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا وہی ہوسکتا ہے جو ادب کے شجرہ نسب سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتا۔ ادب میں کسی بہت بڑے تغیر یا کسی ایسی بیگانگی اور اجنبیت کی تلاش جس میں ایک دور کے ادیب دوسرے دور کے ادیب کو پہچان نہ سکیں غیرضروری کاوش ہے۔

    چنانچہ اب ہم جس نتیجہ پر پہنچتے ہیں وہ یہ ہے کہ ادب میں صنفی تغیر بہت کم ہوتا ہے اور اگر ہوتا بھی ہے تو اس کی اہمیت جزوی ہے۔ اہمیت جس چیز کو دی جاسکتی ہے وہ طرزِ فکر ہے یا ہر دور کے مخصوص مسائل۔ مگر ان مسائل سے بھی بحث کرتے وقت ادب اپنی ایک سطح اور بلندی ہمیشہ برقرار رکھتا ہے۔ یہ بات یوں بھی کہی جاسکتی ہے کہ ہر دور کا ادب اپنے چند مخصوص موضوعات بھی رکھتا ہے۔ لیکن موضوع اور اس کے سلسلے میں نئی اور پرانی نسل کے ردعمل پر بحث سے پہلے ہمیں نئی اور پرانی نسل کی اس تقسیم اور پہلوؤں کو بھی دیکھنا ہے جو بدلتے ہوئے حالات کی بناپر کی جاسکتی ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ حالات بدل گئے ہیں تو غالباً اس کے یہ معنی کبھی نہیں ہوتے کہ ایک مخصوص معینہ دن، تاریخ یا سن کے بعد پیدا ہونے والے یا باشعور ہونے والے اشخاص ہی بدل سکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس سے پہلے جو اشخاص پیدا ہوچکے ہیں یا باشعور ہوچکے ہیں وہ اب نہیں بدل سکتے۔ یہ اعلان کہ حالات بدل چکے ہیں بذاتِ خود اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسی کے ساتھ ایک مخصوص معاشرے میں رہنے والوں کی کثیر تعداد بھی بدل چکی ہے اس واسطے کہ حالات کے بدلنے کا اندازہ ہی ہم لوگوں کی بدلتی ہوئی معاشرت اور طرزِ فکر سے لگاتے ہیں۔ یہ تغیر صرف چند آدمیوں کی زندگی یا ان کے طرز فکر کے بدلنے سے رونما نہیں ہوتا اور نہ پہچانا جاسکتا ہے۔ یہ بحیثیت مجموعی آہستہ آہستہ رونما ہوتا ہے اور اس تغیر کو لانے میں نئی نسل، پرانی نسل، بوڑھوں اور جوانوں سب کا کم و بیش ہاتھ ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ حالات بدل جانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہر بیس پچیس سال کے بعد ایک نیا معاشرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک پورا عہد ختم ہوچکا ہے یا تبدیل ہو رہا ہے۔ اس عہد کے پیچھے صدیوں کے معاشرتی اور معاشی عوامل کارفرما رہتے ہیں اور جب وہ بدل جاتے ہیں یا بدلنے لگتے ہیں تو ایک نیا معاشرہ ابھرتا ہے اور ہم میں یہ احساس پیداہونے لگتا ہے کہ حالات بدل گئے ہیں یا بدلنے والے ہیں۔

    یورپ میں جاگیری دور کے خاتمے اور صنعتی دور کے آغاز نے وہا ں کی جدید اور قدیم معاشرت کے فرق اور خصوصیات کو نمایاں کردیا تھا اور اس طرح حالات کے بدل جانے کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا تھا۔ لیکن یہ حالات منٹ منٹ پر یا ہماری فوری خواہشات کے مطابق نہیں بدلا کرتے۔ ان کے بدلنے میں بسااوقات خاصی دیر لگتی ہے اور اس دوران میں کئی نئی نسلیں پرانی ہوچکتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ کبھی کبھی بعض تاریخی اہمیت رکھنے والے واقعات ان حالات کو تیزی سے بدلنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ مثلاً کوئی بہت بڑی عالمی جنگ، کوئی بہت بڑی سائنسی دریافت یا کوئی اہم معاشی انقلاب۔ لیکن اولاً تو ایسے واقعات روز روز رونما نہیں ہوتے، دوسرے خود ان اہم واقعات کے ردعمل کا سلسلہ کوئی فوری تبدیلی نہیں پیدا کرتا، تیسرے، ان واقعات کا دنیا کے تمام ممالک کے نظامِ زندگی پر یکساں اثر نہیں پڑتا۔ چوتھے یہ لازمی نہیں ہے کہ حالات کا تغیر معاشرے کی فلا ح کا باعث ہی ہو۔ مگر ہم اس جگہ یہ فرص کیے لیتے ہیں کہ حالات کے بدل جانے سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ اب انسان کی ترقی کے لیے زیادہ بہتر اور سازگار ماحول پیدا ہوچکا ہے۔ اسی ضمن میں ایک اور بات کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ ’’حالات کا بدل جانا‘‘ کچھ غیرواضح‘‘ قدرے غیرمحتاط اور ڈھیلا ڈھالا پیرایۂ اظہار ہے۔ اس کے استعمال میں جتنی آسانی ہوتی ہے اتنی ہی اس کے اثرات اور نتائج کو سمجھنے اور سمجھانے میں دقت اور الجھن پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ معاشری، معاشی اور سیاسی مسائل کی تبدلیاں مجموعی طور پر حالات کی تبدیلی کی صورت میں رونما ہوتی ہیں۔ لہٰذا غیر ضروری سیاسی یامعاشی اصطلاحات سے بچنے کے لیے یہ بہتر ہوگا اگر ہم حالات کو مسائل سے بدل دیں تاکہ ہم ان مسائل کا ایک واضح تصور کرسکیں جو آج ہیں اور کل نہیں تھے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ بات حالات کے بدل جانے کی تھی جو اپنے ساتھ آدمیوں کو بدلتے رہتے ہیں اور اس طرح نئی باتوں کے سوچنے، سمجھنے کی امکانی صلاحیت ہر شخص میں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا نئے حالات سے کسب فیض کا دروازہ کسی پر بند نہیں رہتا۔ اس میں تاریخ پیدائش کا اتنا دخل نہیں ہے جتنا ذہنی بیداری اور آمادگی کا۔ نئے اور بدلے ہوئے حالات میں نئی اور پرانی دونوں نسلوں کے لکھنے والوں کی فکر اور انداز تحریر کی کوئی قطعی تقسیم مشکل ہے۔ لکھنے والوں کے علم او رمعلومات، مطالعے اورمشاہدے، معاشرتی مسائل سے وابستگی یا عدم وابستگی اور انداز نظر کے تحت ان کی تحریروں کے مختلف مدارج اور نوعیتیں ہوسکتی ہیں جن کو ہم مختصراً مندرجہ ذیل طور پر بیان کرسکتے ہیں،

    (۱) یہ ممکن ہے کہ حالات کے بدل جانے کے باوجود نئی نسل کے بعض ادیب و شاعر دقیانوسی فکر کے تحت لکھتے رہیں۔

    (۲) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پرانی نسل کے بعض ادیب شاعر فکری تغیر اور ارتقاء کا برابر ساتھ دیتے رہیں اور ان کی فکر جدید فکر سے کلی طور پر ہم آہنگ ہو۔

    (۳) یہ بھی ممکن ہے کہ نئی اور پرانی نسل کے کچھ لکھنے والے جدید یا قدیم فکر سے جزوی طور پر وابستہ ہوں۔

    (۴) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بعض نئے اور پرانے لکھنے والے دونوں جدید دور کے فکری رجحانات کے تحت لکھ رہے ہوں اور دونوں میں سے کسی ایک نسل کے لکھنے والوں کی فکر میں زیادہ نیاپن، تازگی، وسعت اور جدید دور سے گہری وابستگی ہو۔

    (۵) اس کا بھی امکان ہوسکتا ہے کہ دونوں قسم کے لکھنے والوں کی فکر میں قدیم یا جدید اقدار میں سے کسی ایک سے قربت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہو۔

    (۶) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں نسل کے ادیبوں اور شاعروں کا اندازِبیان جدید قدیم افکار میں سے کسی ایک کو اپنانے کے باوجود روایتی یا غیرروایتی ہو۔

    اور آخر میں ہمیں اس بحث کے ایک اور پہلو کو بھی نظرانداز نہ کرنا چاہیے۔ نئے حالات میں یہ ضروری نہیں ہے کہ نیا لکھنے والا نئے عہد کو لبیک ہی کہے۔ وہ نئے حالات کو ممکن ہے زندگی کے لیے فال نیک نہ سمجھے اور نئی اقدار کو مسترد کرکے قدیم زمانے ہی میں لوٹ جانا چاہتا ہو یا قدیم اور جدید دونوں سے بیزار ہوکر اپنی ہی ذات کی تلاش میں کھوجائے اور اسی کو اپنی فکر کا حاصل سمجھے، بعینہ اسی طرح کاردعمل پرانی نسل کے لکھنے والوں میں ہوسکتا ہے اگرچہ ان کے ردعمل کی توجیہ ایک حدتک کی جاسکتی ہے اس لیے کہ یہ پرانے دور سے نئے دور میں آنے کامسئلہ ہوتا ہے جس کے لیے ان کی فکر ممکن ہے آمادہ نہ ہو اور وہ نئے عہد کو کوئی خوشگوار تبدیلی نہ سمجھتے ہوں۔ اس نوع کا ردعمل اکثر و بیشتر اس لیے پایا جاتا ہے کہ ایسے لکھنے والوں کا فکری مزاج پہلے ہی سے تعمیر ہوچکا ہوتا ہے اور ان کا فکری تسلسل نئے دور میں ٹوٹ جانے یا آسانی سے بدل جانے کی جگہ خود کو برقرار رکھنے ہی کو تخلیقی عمل سمجھتا ہے۔ لیکن ان تمام توجیہات کے باوجود یہ بھی ممکن ہے کہ پرانی نسل کے بعض لکھنے والے نئے اور پرانے دونوں عہد سے بیزار یا غیرمطمئن ہوں اور انہوں نے دونوں ادوار کو مسترد کردیا ہو۔ اس مقام پر پہنچ کر بعض نئے اور پرانے لکھنے والوں میں لب و لہجے اور انداز بیان کے فرق کے باوجود فکری یکسانیت ہوسکتی ہے۔ دونوں مجموعی طور پر نئے اور پرانے ادوار سے غیرمطمئن، بیزار اور گریزاں ہوسکتے ہیں۔ جب ہم اس پہلو سے اس قسم کے لکھنے والوں کی اندازِ فکر پر غور کرتے ہیں اور ان کے کے اس مخصوص ردعمل کے اسباب کو متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بحث لامحالہ فرد اور اجتماع کے داخلی اور خارجی روابط کو دیکھنا پڑتا ہے۔ ایکسرے (X-RAY) کی اس پلیٹ پر ان باہمی روابط کو دیکھے بغیر ہم فرد کی اس آواز کو نہ سن سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں جو یہ کہتی ہے ’’دل ہمہ داغ شد‘‘ ۔ مگر معاشرتی مسائل کی اس بحث کو جو نئی اور پرانی نسل کو متعین کرنے میں اہم ترین رول ادا کرتی ہے ہم بعد میں اٹھائیں گے۔ یہاں صرف اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ نئی اور پرانی نسل کے فرق کو واضح اور متعین کرنے کے لیے ’’سالگرہ‘‘ اور ’’برسی منانے ہی پر اکتفا کرلینا زیادہ مستحسن طریقۂ کار نہیں ہے۔

    طبعی عمر اور ذہنی عمر میں مطابقت اور عدم مطابقت دونوں ممکن ہے۔ دونوں نسلوں کی فکر قدیم بھی ہوسکتی ہے جدید بھی، سطحی بھی ہوسکتی ہے گہری بھی، نئی فکر ہونے کے باوصف غیر دلکش ہوسکتی ہے اور قدیم فکر ہونے کے باوجود موثر ہوسکتی ہے۔ ادبی شعری لحاظ سے ان دونوں نسلوں کی تخلیقات جدت اور قدامت سے قطع نظرپست اور بلند دونوں ہوسکتی ہیں۔ اور اس چیز کو بھی دیکھتے چلیے کہ شعر و ادب ہو یا سائنس و معاشیات، فلسفہ ہو یا نفسیات، ملکی امور ہوں یا بین الاقوامی غرض کہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اس میں معتبر مستند ذمے دار اور بالغ فکر انہیں لوگوں کی سمجھی جاتی رہی ہے جو عمر کی اس منزل پر ہوتے ہیں جہاں نئی نسل پرانی ہوکر پہنچتی ہے۔ ایک سیاست ہی کو لے لیجیے جو بدنام ہونے کے باوجود ہمارے پورے نظام زندگی کا وہ شعبہ ہے جہاں سب سے زیادہ متحرک، ترقی پذیر اور جدید فکر کے دروازے کھلے رہتے ہیں یا ان کو کھلا رہنا چاہیے۔ سیاسی اختلافات سے قطع نظر غالباً اس سے سب کو اتفاق ہوگا کہ زندگی کا یہ شعبہ نسبتاً زیادہ فعال ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم سیاست کے اس بڑے ہال میں داخل ہوتے ہیں تو یہاں ہم کو بالعموم بوڑھے سر ہی جنبش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جن کے بال سفید ہوچکے ہیں اور جو رات دن فکر میں ڈوبے ہوئے اپنے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق روشن مستقبل کے خاکے تیار کرتے رہتے ہیں۔ سیاست بری ہو یا بھلی مگر اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور شاید اس سے بھی انکار مشکل ہے کہ ہماری زندگی کے اس سب سے فعال شعبے میں نئی نسل سے زیادہ پرانی نسل کے افراد نظر آتے ہیں حالانکہ فعالیت نئی نسل کا خصوصی امتیاز ہے۔

    اب جب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے تو ہم کچھ ایسا محسوس کرنے لگتے ہیں کہ یہ ساری دلیلیں صرف نئی نسل کی بیخ کنی کے لیے ہیں اور ان کا ایک ہی مطلب ہے کہ نئی نسل کے پاس کہنے سننے کی نہ کوئی چیز ہے اور نہ وہ اپنے عہد کو کوئی نئی چیز دے ہی سکتی ہے۔ اس کا عدم، وجود برابر ہے اور اس کے سپرد صرف یہ کام ہے کہ وہ بوڑھی ہوجایا کرے، تب کہیں جاکر اس کی باتیں درخود اعتنا ءسمجھی جاسکتی ہیں۔ اس بات پر ممکن ہے پرانی نسل کے چند ادیب و شاعر خوش ہوجائیں اور نئی نسل کے چند شعراء اور ادباء غصے میں آجائیں۔ ہمارا اشارہ ان ’’غصہ ور نوجوانوں‘‘ کی طرف نہیں ہے جنہیں اپنے غصے سے محبت ہے اور معاشرتی نشوونما کے اسباب دریافت کرنے سے نفرت۔ اسی لیے ان کا غصہ قہردرویش برجان درویش ہوکر رہ گیا اور ان کی تحریک اعصاب زدگی کی بناپر ٹوٹ گئی۔ بہرحال ان باتوں کا مقصد ایک نسل کو گھٹانا وار دوسری نسل کو بڑھانا نہیں ہے۔

    نئی نسل یقیناً تاریخی وجود رکھتی ہے اور تاریخی ارتقاء کی ایک ضروری کڑی ہوتی ہے۔ لیکن نئی اور پرانی نسل میں غیرضروری امتیازات پیدا کرنے سے بچنے کی ہمیشہ ضرورت ہے۔ ادیبوں کی نئی نسل فیشن نہیں ہے۔ یہ نئی تخلیق اور نئی ضرورت ہے۔ مگر اسے پرانی نسل کا یکسر حریف یا یکسر ضد سمجھ لینا خود نئی نسل کے ساتھ ناانصافی اور معاشرے کے ارتقائی رشتوں سے ناواقفیت ہوگی۔

    نئے اور پرانے عہد میں تمام تر اختلافات کے باوجود ایک چیز اور ہوتی ہے جسے ہم قدر مشترک کہتے ہیں اور اسی بناپر ایک دور کا ادب اپنے دور کے ختم ہوجانے کے باوجود بھی اہم زندہ اور دلکش ہوتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات یہ اپنے دور کے مقابلے میں آنے والے ادوار میں زیادہ توجہ سے پڑھا جاتا ہے اور اپنی دلکشی کو زیادہ نمایاں کرتا ہے۔ اس کی دلکشی کو ابھارنے اور چمکانے میں نئے دور اور نئی نسل ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بہرصورت اسی قدر مشترک کی بناپر ہم میؔر اور غاؔلب کو آج بھی پڑھتے اور پسند کرتے ہیں اور نئی نسل کا بڑے سے بڑا موئید بھی انہیں صرف یہ کہہ کر نہیں ٹرخاسکتا کہ میر و غالب پرانے ہوچکے ہیں۔ انہیں پرانی نسل سے تعبیر کرتے وقت بڑے تامل سے کام لینا ہوگا۔

    بات یہ ہے کہ ادب نئی اور پرانی نسل کے معنوں میں نیا یا پرانا نہیں ہوتا۔ ادب میں عجائب خانے نہیں پائے جاتے جہاں پرانی نسل کے ادیبوں کی تخلیقات رکھی جاتی رہیں کیونکہ اس طرح سوچنے پر ہر نئی نسل پرانی ہوتی چلی جائے گی اور ادب کا کام زندگی کی تعمیر کی جگہ صرف عجائب خانوں کی تعمیر رہ جائے گا۔

    پھر نئی نسل کیا چیز ہے؟ اس کی امتیازی خصوصیات کیا ہوسکتی ہیں؟ اس سوال کے جواب سے قبل یہ بھی سوچیے کہ مختلف ادوار کے ادب میں قدر مشترک کا پایا جانا اپنی جگہ صحیح تو ہے لیکن کیا ہر دور کے ادب کی الگ الگ خصوصیتیں بھی ہوتی ہیں؟ اس طرح سوچنے پر شاید نئی نسل کی خصوصیتوں کو متعین کرنے میں آسانی ہوجائے۔ اب طلسم ہوشربا کی داستانوں اور پریم چند کے افسانوں کو سامنے رکھیے اور اس بات پر غور کیجیے کہ ان دونوں میں زبان و بیان کے علاوہ اور بھی کچھ فرق پایا جاتا ہے؟ اور اگر یہ فرق پایا جاتا ہے تو اس کی نوعیت کیاہے۔ اس طرح غور کرنے پر سب سے اہم فرق اس معاشرت میں ملے گا جو پریم چند کے دور میں پائی جاتی تھی اور جو طلسم ہوشربا کے دور میں نہیں پائی جاتی تھی اور نہ پائی جاسکتی تھی۔ یہاں ہمیں دو جداگانہ ماحول ملیں گے۔ ان دو مختلف ماحول کے آدمی ہاتھ پیر، آنکھ ناک کا ن میں ایک جیسے ہونے کے باوجود دوجداگانہ راہوں پر چلتے اور سوچتے ملیں گے۔ ان کے دماغ مختلف ہوں گے۔ اور ہم تھوڑی سی کاوش کے بعد اس نتیجے پر یقیناً پہنچ جائیں گے کہ مختلف ادوار میں مشترک اقدار کے باوجود علیحدہ اقدار بھی ہوتی ہیں۔ نئے دور کی بعض اقدار اپنے پیشرو دور کی اقدار سے نہ صرف جدا ہوتی ہیں بلکہ بعض اوقات ان کی ضد بھی ہوتی ہیں۔ یہ اقدار مختلف معاشرتی مسائل کا نچوڑ یا مظہر ہوتی ہیں۔ لہٰذا سیدھی سادی زبان میں یوں کہہ لیجیے کہ نیا عہد اپنے ساتھ نئے معاشرتی مسائل بھی لے کر آتا ہے جو نئی فکر کو جنم دیتاہے۔ اب ہمارے سامنے پھر وہی بحث آجاتی ہے جسے ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ ان مسائل کو سمجھنے، سلھانے اور حل کرنے ہی سے نئی فکر اور رجحان کا پتہ چلتا ہے۔

    ادبی بحث کے سلسلے میں معاشرتی مسائل کا ذکر ممکن ہے۔ بعض طبائع کو مکدر اور آزردہ کردے مگرمجبوری کچھ ایسی ہے کہ جیتے جی ان مسائل سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں۔ یہ مسائل لفظ نہیں آدمی ہوتے ہیں جو ہمیشہ سے ادب کا مرکزی کردار رہے ہیں اور ہر قسم کے افکار اور خیالات انہیں کے گرد گھومتے رہے ہیں۔ نئی نسل نئے مسائل کی بیک وقت پروردہ بھی ہوتی ہے اور انہیں پیدا بھی کرتی ہے۔ اس کا تعلق اپنے دور کے مسائل سے پرانی نسل کے مقابلے میں زیادہ قریبی اور گہرا ہوتا ہے یا ہونا چاہیے۔ تاریخ جب ایک دور ختم کرکے نئے موڑ پر پہنچ جاتی ہے اور حالات بدلنے لگتے ہیں اور نئے حالات رونما ہونے شروع ہوجاتے ہیں تو نئی اور پرانی نسل میں حدفاصل کھینچنا ممکن ہوجاتا ہے۔ ہر چند اس حدفاصل کو سن و سال کے لحاظ سے متعین کرنے میں الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں اور بعض اوقات ہم غلط نتائج اخذ کرسکتے ہیں لیکن اس امر میں بھی صداقت ہے کہ نئے زمانے کو قبول کرنے میں طبعی عمر کا بھی فیض شامل ہوتا ہے۔ نئی نسل پرانی نسل کی بہ نسبت زیادہ آسانی اور کھلے دل سے نئے تغیرات کو قبول کرسکتی ہے۔ اس میں نئے حالات کو پرکھنے، سمجھنے اور اپنانے کے سلسلے میں جو لہک اور تازگی پائی جاتی ہے وہ پرانی نسل میں نسبتاً کم ہوتی ہے۔ لیکن طبعی عمر کا یہ عمل دخل صرف ایک حدتک اپنے اثرات چھوڑتا ہے۔ آگے چل کر کچھ ایسی کٹھن راہیں ملتی ہیں جہاں ناتجربے کاری اور تجربے کاری کے فرق اور مضمرات کو سمجھے بغیر مسائل سے عہدہ برا ہونا مشکل ہے۔ اسی لیے نئی نسل کو اس طرف سے بھی چوکنا رہنے کی بڑی ضرورت ہے کہ کہیں یہ اس کی ناتجربہ کاریاں تو نہیں ہیں جن کو وہ ادبی تجربات کا نام دے کر خوش اور مطمئن ہو رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ نئی فکر کی بنیادیں اسی وقت سے پڑنا شروع ہوجاتی ہیں جب نئی نسل کے ادباء اور شعراء عنفوانِ شباب کے نئے خوابوں کی طرح نئے دور کو بھی اپنے سینے میں کھلتا اور مہکتا ہوا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ان کی فکر اسی خوشبو سے پہچانی جاسکتی ہے۔ لیکن بات اگر یہیں ختم ہوجاتی تو پھر نئی نسل کا کام بہت آسان ہوتا اور اس کے ذمے صرف خواب دیکھنا رہ جاتا۔ دل تو یہی چاہتا ہے کہ کاش ایسا ہی ہوتا مگر ایسا ہوتا نہیں۔ ان خوابوں کی تعبیر سے نئی نسل کا اتنا ہی تعلق ہے جتنا خواب دیکھنے سے۔ چنانچہ وہ وقفہ یا فاصلہ جو خواب اور اس کی تعبیر کے درمیان ہوتا ہے نئی نسل کو پہچنوانے اور اس کو معتبر بنانے کے سلسلے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں پہنچ کر نئی نسل کے ادیبوں اور شاعروں کے مجموعی طو رپر دو رویے ہوجاتے ہیں۔ نئے دور کو قبول کیا جائے یا رد! ؟

    لیکن آگے بڑھنے سے قبل یہ مناسب ہوگا کہ نئے دور کی تھوڑی سی وضاحت کردی جائے ورنہ غلط فہمیوں اور الجھنوں کے دوبارہ پیدا ہوجانے کا امکان ہے۔ نئے دور کی اصطلاح یہاں وسیع تر معنوں میں استعمال کی جارہی ہے جس سے مراد یہ ہے کہ مجموعی حیثیت سے ایک تاریخی دور دنیا بھر میں ختم ہوچکا ہے یا ختم ہورہا ہے اور ایک نیا تاریخی دور شروع ہوچکا ہے یا شروع ہو رہا ہے ورنہ یوں مخصوص حالات میں ہر تغیر کو نہ نیا کہا جاسکتا اور نہ اسے تاریخی ارتقاء سے تعبیر کیا جاسکتا۔ چنانچہ نئے دور میں نئی نسل کے ادیبوں اور شاعروں کے رویے اور انداز فکر کی دوجداگانہ نوعتییں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ نئی نسل زندگی کی ارتقائی منزلوں ہی کی منکر ہوجائے اور نئے مسائل سے گریز کرنے ہی کو نئی فکر سمجھنے لگے۔ دوسری یہ کہ وہ اس ارتقاء سے ہم آہنگ ہوکر ترقی پذیر زندگی کا ساتھ دے۔ پھر یہ بھی ظاہر سی بات ہے کہ نئی نسل کے ادیب و شاعر ایک دن ایک ساتھ مل کر نہ یہ عہد کرتے ہیں اور نہ کرسکتے ہیں کہ وہ سب کے سب اپنے دور کو قبول کر رہے ہیں یا رد کر رہے ہیں۔ لہٰذا اب خود نئی نسل مختلف خانوں میں بٹنا شروع ہوجاتی ہے اور اس طرح اس کے ایک سے زیادہ رویے ہوسکتے ہیں۔ کچھ نئے دور کے منکر ہوسکتے ہیں، کچھ اس کے مُقر ہوسکتے ہیں اور کچھ اپنے کو بین بین رکھ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں نئی نسل کے ادیبوں اور شاعروں کی فکری سمتوں کا کوئی مجموعی تصور محال ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان سب کی فکر اپنی اپنی جگہ نئی ہے اس لیے کہ وہ نئے دور، نئے حالات، نئے مسائل کے ردعمل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ لیکن ان تمام امور کے باوجود نئی نسل کا یہ منقسم تصور خود نئی نسل کی نفی کرنے لگتا ہے۔ جب ہم نئی نسل کہتے ہیں تو اس سے مراد چند افراد نہیں ہوتے بلکہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد جو مجموعی حیثیت سے نسل کے نام سے تعبیر کی جاسکتی ہے اور جو معاشرے کے ایک غالب رجحان کو نمایاں کرتی ہے۔ ورنہ اگر سوال ایک مخصوص معاشرے یا دور میں صرف ’’ردعمل‘‘ کا ہے تو پھر اس میں نئی اور پرانی نسل میں امتیاز کرنے کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ ردعمل تو ہر لکھنے والے کا خواہ نیا ہو یا پرانا کسی نہ کسی سمت میں ہوگا ہی۔ لہٰذا بحث کو ایک خط مستقیم پر رکھنے کے لیے بہتر ہوگا کہ ہم نئی نسل کو ہٹاکر نئے شاعروں اور ادیبوں کے رویے سے بحث کریں اور یوں اس مبہم، غیرمتعین اور بڑی حدتک غیرضروری اصطلاح سے بچنے کی کوشش کریں جو کثرتِ تعبیر سے پریشاں ہوکر نسل درنسل میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    نئے لکھنے والوں کا رویہ بالعموم دوقسم کا ہوسکتا ہے۔ انفرادی یااجتماعی یعنی یا تو وہ اجتماعی مسائل سے دامن چھڑاکر صرف خودبینی ہی کو اپنا شعار بناسکتے ہیں جسے مہذب اور ادبی اصطلاح میں ’’دروں بینی‘‘ بھی کہتے ہیں یا پھر انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ربط دے کر اپنے اور بیگانوں کے مسائل کو ایک وحدت میں سمجھنے اور پرکھنے کے طریقہ کار کو اپناسکتے ہیں۔ صرف اپنی ذات کو کریدتے رہنے کا مشغلہ انفرادی طور پر ممکن ہے دلچسپ اور بڑا اہم ہو لیکن اجتماعی طور پر اسے ایک بیماری سمجھا جاتا ہے یا منفی رویہ کہا جاتا ہے۔ اس میں ایک دشواری یہ بھی ہے کہ اس قسم کے ’’منفرد‘‘ لکھنے والے جو معاشرتی مسائل کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے اتنے منفرد ہوتے ہیں کہ ان میں آپس میں کوئی فکری یاباطنی ربط نہیں ہوتا یا نہیں ہوسکتا اور نہ اسے ہونا چاہیے۔ رہ گئے ایسے ادیب جو نقطۂ نظر کے اختلافات کے باوجودمسائل سے واسطہ رکھتے ہیں وہ البتہ کسی نہ کسی طرح ایک خاندان اور ایک نسل کا تصور پیدا کردیتے ہیں۔ بہرحال نئے لکھنے والوں میں کچھ ایسے ہوسکتے ہیں جو صرف اپنی ذات کو ’’کل‘‘ سمجھتے ہوں اور کچھ ایسے جو ذات اور کائنات دونوں کے مجموعے کو ’’کل‘‘ سمجھتے ہوں۔

    وہ نئے ادیب جو ادب کو اجتماعی زندگی کا ترجمان سمجھتے ہیں ان کے نئے پن کو سمجھنے میں کم دشواری ہوتی ہے اس لیے کہ ان کی فکر نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتی ہے اور یوں وہ نئے مسائل کی ترجمانی کے واسطے سے پہچانے جاسکتے ہیں۔ حالانکہ نئے مسائل کو ادب بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب نئے مسائل آج اقوام متحدہ کے منشور میں بڑی خوبی اور وضاحت کے ساتھ ایک فہرست کی صورت میں درج کردیے گئے ہیں۔

    زندگی میں خیروبرکت پیدا کرنے اور اس خیروبرکت کو ادب کے ذریعے ابھارنے کی تحریک پیدا کرنے میں اس منشور سے بہتر ایک آدھ ہی منشور اور ہوں گے اس منشور میں جسے دنیا کی تمام قوموں نے مل کر مرتب کیا ہے وہ تمام معاشرتی، معاشی، سیاسی، قومی اور بین الاقوامی مسائل دے دیے گئے ہیں جنہیں ادب اپنا آدرش بناتا رہا ہے۔ ان مسائل سے ہٹ کر کوئی نئی بات کہنا آسان چیز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ مسائل صرف نئے لکھنے والوں کی دسترس میں نہیں ہیں بلکہ پرانے لکھنے والے بھی ان تک پہنچ سکتے ہیں۔ بہرصورت بات یہ ہو رہی تھی کہ تنہا نئے مسائل کی جستجو ہی نئے ادب کی تخلیق کے لیے کافی نہیں بلکہ ان سے پوری ذہنی اور جذباتی ہم آہنگی کی ضرورت ہے جس کے بغیر ادب تخلیق نہیں ہوپاتا اور نہ نئے لکھنے والے پہچانے جاسکتے ہیں۔

    دوسری طرف وہ نئے ادیب جو ان مسائل پر دھیان نہیں دیتے اور صرف اپنا گیان حاصل کرنا چاہتے ہیں ممکن ہے ’نیاپن‘ تو پیدا کرلیں مگر ادب یقیناً تخلیق نہیں کرسکتے اس لیے کہ نئے ادب کی تخلیق کے لیے نئی اقدار کو اپنائے بغیر چارہ نہیں۔ ہر نیا دور اپنے ساتھ کچھ نئی اقدار لاتا ہے اور انہیں اقدار کی ترجمان اور تشریح کی بناپر نئے لکھنے والوں کی سمت اور رفتار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ ان نئی اقدار سے کیا مراد ہے تو جواب بس یہی دیا جاسکتا ہے کہ وہ اعلیٰ اقدار جو زندگی کو سمجھنے سمجھانے اور آگے بڑھانے میں ممد ہوتی ہیں لیکن اگر اس کے بعد میں بھی سوال کیا جائے کہ یہ اعلیٰ اقدار کیا ہیں تو سیدھا جواب یہی ہے کہ یہ اعلیٰ اقداروہی ہیں جن کو آپ اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ زندگی میں بہرصورت اعلیٰ اقدار کا کوئی نہ کوئی تصور تو آپ کو رکھنا ہی ہوگا خواہ انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر۔ ان اعلیٰ اقدار کے تصور کے بغیر ہمارے لیے خود ادیب کا تصور خواہ وہ کسی نقطہ نظر کا حامل ہو محال ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اعلیٰ اقدار کی بحث میں الجھنے کی جگہ ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری مراد انہیں اعلیٰ اقدار سے ہے جنہیں آپ اعلیٰ اقدار سمجھتے ہیں اور جن سے منکر ہوکر آپ تخلیق کے ہر جذبے کو کھو بیٹھیں گے۔

    چنانچہ اس مقام پر یہ سوال بے جا نہ ہوگا کہ وہ نئے لکھنے والے جو معاشرتی اقدار کی نفی کرتے ہیں کن اقدار کی ترجمانی کے دعویدار ہیں؟ وہ کون سی اقدار ہیں جو ان کے ادب کے لیے فیضان ہیں اور وہ کس بناپر پہچانے جاسکتے ہیں؟ کیا ان کے نئے پن کی پہچان محض اتنی ہے کہ ان کا ادب غیرمعاشرتی ہے۔ یہاں آسانی سے جنسی تحریکات اور ذاتی میلانات کا سہارا ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ لیکن کیا جنسی تحریکات اور ذاتی میلانات کا معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان تحریکات او رمیلانات کو ابھارنے، بگاڑنے یا بنانے، تیز کرنے یا دھیما کرنے میں اس نئے دور کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا جس میں نئے لکھنے والے لکھ رہے ہیں؟ اگر واقعی ان کی تخلیقات نئے دور کے معاشرتی مسائل سے بالکل ’’پاک‘‘ اور ’’منزّہ‘‘ ہوتی ہیں اور ان میں کوئی کھوٹ اور ملاوٹ نہیں تو پھر وہ کس بناپر نئی کہلائے جانے کی مستحق ہیں اور ان کے اشعار اور میر سوز یا شاہ نصیرکے اشعار میں کیونکر امتیاز کیا جاسکتا ہے یا ان کی فکر نظیر اکبرآبادی کی فکر سے کیونکر نئی ہوئی۔؟

    یہ فکر الگ تو ہوسکتی ہے مگر نئی کیونکر ہوئی؟ شاید لب و لہجے، انداز بیان، الفاظ اور علامتوں کے نئے پن اور نئے استعمال کے باوصف پرانی فکر کو یا ایسی فکر کو جو اپنے عہد کی منکر ہو نیا کیوں کر کہا جاسکتا ہے؟ نئی فکر کی اساس نئی اقدار پر ترجمانی کے لیے نئے لب و لہجے اور انداز بیان کی طالب بھی ہوسکتی ہیں (نئے اسلوب کو احتیار کرنے کا جواز ہی یہ ہے کہ ہم نئے دور میں آگئے ہیں) لیکن اگر ہم صرف اندازِبیان کے انوکھے پن کو غلطی سے نیاپن سمجھ لیں اور اسے نئی فکر کا بدل قرار دیں تو پھر ہمارے لیے اپنے کو نیا کہلوانے کی چنداں حاجت نہیں رہتی۔ اس نوع کے ادیب نہ نئے ہوئے نہ پرانے۔ ان کا رشتہ، ماضی، حال، مستقبل، کسی سے بھی ممکن نہیں کیونکہ اپنے معاشرے سے رشتہ توڑنے کے بعد ہر دور کے معاشرے سے رشتہ لازمی طور پر ٹوٹ جاتا ہے۔

    معاشرہ ایک تسلسل اور ارتقا ہے۔ یہ کسی ایک فرد کی ذات نہیں ہے۔ معاشرے سے رشتہ توڑنے کے بعد پھر الفاظ سے رتشہ توڑنا بھی واجب ہوجاتا ہے کیونکہ بدقسمتی سے الفاظ اپنی جگہ خود ایک معاشرہ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ایک ہی چارہ کار رہ جاتا ہے وہ یہ کہ ایک بالکل نئی ’’ویکوبلیری‘‘ (VOCABULARY) بنائی جائے جو اس قسم کے لکھنے والوں کی ذات کی کماحقہٗ ترجمانی کرسکے۔ یہی نہیں بلکہ اِن میں سے ہر لکھنے والے کو لامحالہ اپنے لیے علیحدہ علیحدہ ’’ویکوبلیری‘‘ بنانی ہوگی تاکہ اس کی ’’ذاتِ واحد‘‘ پر کسی بھی اجتماعی تصور کا سایہ نہ پڑسکے۔ ان تمام باتوں کے کہنے کا مقصد طنز یا استہزا نہیں ہے اور نہ نئی نسل کے وجود سے انکار ہے۔ نئی نسل کا وجود اتنا ہی حقیقی اور لازمی ہے جتنا نئے دور میں نئے مسائل کا وجود۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ نئی اور پرانی نسل کی بحث سے زیادہ اہم چیز یہ ہوگی کہ ہم اچھے اور برے ادب میں تمیز کریں اور ان مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں جو ادب کو اچھا یا برا بناسکتے ہیں۔ اس نئے شعور اور نئی نظر کو پیدا کیے بغیر نئے عہد، نئے ادیب، نئے ادب اور اس قسم کی تمام اصطلاحوں اور الفاظ کا استعمال نئے لکھنے والوں کے خط و خال کو واضح کرنے کے بجائے اور دھندلا دے گا۔

    مختصراً یوں سمجھیے کہ نئی اور پرانی نسل کی بحث اس پہلو سے تو اہم اور سودمند ہوسکتی ہے کہ اس سلسلے میں نئے او رپرانے عہد کے مخصوص موضوعات، مخصوص مسائل اور مخصوص فکر کی وضاحت اور تعین ہوسکتی ہے اور اس کے ساتھ ادبی نظریات، ادبی مطالبات اور طرزِنگارش کے عہد بہ عہد تغیرات اور پورے ادب پر مجموعی طور پر ان کے نیک وبد اثرات کا پتا چلایا جاسکتا ہے۔ مگر نئی نسل اگر صرف اسی بات کو سرمایہ افتخار اور طرہ امتیاز سمجھتی رہی کہ وہ نئی ہے اور اس کا کام اگلوں سے محض انحراف کرنا اور یکسر ذاتی تجربات کو لفظی اور ہیئتی تجربات کے ذریعے ادب میں سمونا ہے تو یہ نئے ادب کی بڑی بدقسمتی ہوگی۔

    اسے یہ نہ بھولنا چاہیے کہ ہر نئی نسل پرانی ہوجاتی ہے اور پرانی نسل کاہر ادیب اپنے عہد میں نیاہوتا ہے لیکن صرف اس بناپر نہ وہ بڑا ہوتا ہے نہ چھوٹا۔ اس کی بڑائی اس بات میں مضمر ہے کہ وہ ہر عہد میں بڑا سمجھا جائے۔ نئی نسل کے ادیب اگر لفظ و بیان کے تجربات اور ذاتی ہیجانات کو انوکھے انداز میں پیش کردینے ہی کو اصل تخلیق اور امتیازی خصوصیت سمجھتے ہیں تو اتنی ذراسی بات انہیں تاریخ ادب کے صفحات سے مٹ جانے سے بچا نہیں سکتی۔ اپنے عہد کے بدل جانے کے بعد وہ پرانے ہوجائیں گے اور اسی کے ساتھ ان کے سارے لفظی اور ہیئتی تجربات بھی پرانے ہوجائیں گے اور فکری طور پر تہی مایہ ہونے کی وجہ سے ان کو ادب میں یاد رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جائے گا۔

    اس قسم کے نئے لکھنے والے ادب کو غالباً نیا لباس سمجھتے ہیں اور ان کے پاس بالعموم عذر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات اپنی زبان میں کہنا چاہتے ہیں اور ذاتی تجربات ہی ان کے لیے اہم ہیں۔ باقی ساری دنیا سے انہیں کیا مطلب! لیکن یہ عذر نہ اس بات کو جھٹلا سکتا ہے کہ ان سے پہلے بھی بڑے ادیب گزرے ہیں جو ممکن ہے ان خطوط پر نہ سوچتے ہوں اور ان کے بعد بھی بڑے ادیب پیدا ہوں گے جو ممکن ہیں ان خطوط پر نہ سوچیں اور نہ یہ عذر اس بات کو ثابت کرسکتا ہے کہ وہ نئے ہونے کے ساتھ بڑے بھی ہیں۔

    بڑا ادیب ’’یکجہتی‘‘ نہیں ’’شش جہتی‘‘ ہوتا ہے۔ وہ ہرسمت میں پھیلتا اور بڑھتا ہے اور ہر سمت کو سمیٹتا ہے۔ اس کی فکر قدیم اور جدید سے مل کر بنی ہے اور اپنے عہد کے فکری ارتقاء کو اپناتی ہے جو گزشتہ عہد کے فکری ارتقا ءسے پیدا ہوکر زیادہ نکھرا، واضح اور پختہ شعور لے کر ابھرتا ہے۔ نئے لکھنے والے اگر فکر کی اس پختگتی سے عاری ہیں تو پھر انہیں اپنے کو نیا کہتے ہوئے دیانت داری سے کام لیناچاہیے۔ اس لیے کہ نئی نسل، نیا زمانہ، نئی نظر ہے اور اس نئی نسل کا کوئی تصور اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یہ فروعی اختلافات کے باوجود خود کو اپنے عہد کی اصل فکر یا غالب رجحان سے وابستہ اور ہم آہنگ نہ کرے۔

    اور آخر میں ایک اور بات۔۔۔ ادب میں ’’نسلی‘‘ امتیازات پرزیادہ زور دینے سے اجتناب بہتر ہوگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے