نئی کہانی آندولن اور کملیشور کا فن
ہندی نئی کہانی محض موضوعات کی بنا پر ہی پرانی کہانی سے ممتاز نہیں ہوئی بلکہ تکنیک اور اسلوب کی وجہ سے بھی اسے خاصی اہمیت حاصل ہوئی۔ ہندی افسانہ نگاروں کے ایک طبقے نے مغربی کہانی کاروں کے اسلوب اور تکنیک کو اپنانے کی کوشش کی، یعنی نئی کہانی سے وابستہ متعدد کہانی کار انگریزی ادب سے متاثر نظر آتے ہیں۔ انھوں نے اپنی روایت سے رشتہ نہیں جوڑا۔ اپنی کہانی کی زمین ’’جاتک کتھاؤں’’اور ’’پران‘‘ کی کہانیوں میں تلاش نہیں کی بلکہ مغربی افسانہ نگاروں اور فلسفیوں کے نظریات کو مشعل راہ بنایا۔
ہندی نئی کہانی میں جب عورت مرد کے رشتے پر قلم اٹھایا گیا تو فرائیڈ کے نظریۂ جنس کو بنیادی حیثیت دی گئی۔ کافکا، کامیو، ورجیناوولف اور سارتر کے انداز کو اپنانے کی کوشش کی گئی۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہونے لگا کہ نئی کہانی کا جسم اور روح دونوں ہی غیر ملکی ہیں۔ فضا بھی ہندوستان کی بجائے یورپ کی نظر آئی۔ غالباً اسی وجہ سے کہانی کا رشتہ گاؤں سے ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا، لیکن اس دور کے ہر کہانی کار پر یہ بات صادق نہیں آتی۔ پھنیشور ناتھ رینونے نہ صرف دیہات سے اپنا رشتہ قائم رکھا بلکہ گاؤں کے پورے ماحول اور رنگ کوپیش کرتے ہوئے اسے علامت کی شکل دے دی ہے۔ اسی طرح منوبھنڈاری اور کملیشور نے بھی چھوٹے قصبے اور گاؤں کے پس منظر کو اپنی کہانیوں کا محور بنایا ہے اور پریم چند کی کہانی سے اپنا رشتہ قائم رکھا۔
کہانی جب اپنے محدود دائرے سے نکل کر باہر آئی اور زندگی کی پیچیدگیوں سے جوجھنے لگی تو فطری طورپر اس میں سماج کے پیچیدہ مسائل کے ساتھ نئی فکر درآئی اور رفتہ رفتہ کہانی نئے سماج کا آئینہ بن گئی۔ اب کہانی زیادہ سچّی نظر آنے لگی۔ کملیشور کے ایک مضمون کے اردو ترجمے کا اقتباس ملاحظہ ہو،
’’صدیوں جھوٹی بنی رہنے کے بعد اب کہانی سچی ہو گئی ہے۔ صدیوں کے اس پاپ سے نجات پانے کے لیے کہانی کو خود اپنے سے اور اپنے چاروں طرف کے ماحول سے زبردست جہاد کرنا پڑا ہے۔ وقت اور بنی نوع انسان کے تفکرات کو اپنے دائرے میں سمیٹ کر کہانی نے ایک انتہائی زوردار اور مؤثر ادبی صنف کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ رفتہ رفتہ کہانی نے سبھی انسانی فکروں کو اپنے دائرے میں سمیٹ لیا جو دور حاضرہ کے اہم مسائل ہیں اور جوہر ذی ہوش انسان کو ذہنی اور روحانی سطح پر پریشان کرتے ہیں۔‘‘
(ہندی کہانی کا سفر، رسالہ معلم اردو لکھنؤ، ہندی کہانی نمبر، نومبر 1984ء)
1947ء کے دوران جو اتھل پتھل ہوئی تھی، اس کا اثر تقریباً دس سال قائم رہا لیکن ان دس برسوں میں ہندوستان کے ماحول پر ایک جمود سا طاری ہو گیا تھا۔ اس جمود کا اثر ادب پر بھی پڑا، افسانے کی دنیا بھی اس جمود سے محفوظ نہ رہ سکی۔ ایسے حالات اور ماحول میں نئی کہانی کا جنم لینا قابل تحسین عمل تھا اور اسے اس دور کے کہانی کاروں کا ایک شاندار کارنامہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں کملیشور کا بیان، جس کا اردو ترجمہ معلم اردو لکھنؤ میں شائع ہوا، ملاحظہ ہو۔
’’ایسی ٹھہری ہوئی رفتار یا کچھ بھی نہ بدل پانے والی تبدیلی میں بدلاؤ اتنا کم آیا ہے کہ بنیادی مسئلوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ آزادی کے بعد لولی لنگڑی ترقی نے ایک بہت بڑے طبقے کے لیے اس ٹھہراؤ کو اور بھی تکلیف دہ بنایا ہے۔ اقتصادی و سیاسی میدان کی باتیں چھوڑ بھی دیں تب بھی Established Institutions نے نظریات کی سطح پر اور بھی خطرناک انجماد کا ثبوت دیا ہے۔ ایسے میں کہانی نے ایک خاص کردار ادا کیا ہے۔ اس نے سوالات بدل دیے ہیں۔ ادب اور زندگی کی فکروں کو اپنی بےپناہ صلاحیتوں سے سمیٹ کر ایک ایک پرت کو ادھیڑ دیا ہے۔ نیا پن ہوتا بھی یہی ہے کہ وقت کے ساتھ فکر اور سوال بدل جاتے ہیں۔ جب حالات اور ماحول بدلتا ہے تو سب کچھ بدلتا ہی ہے، لیکن جب کوئی تغیر نظر نہ آئے، لیکن اس کے باوجود فکر کو بدل دینا ایک تاریخ ساز کارنامہ ہی ہوتا ہے۔
گذشتہ تین دہائی کی کہانی نے مسلسل اس ذمہ داری کو قبول کیا ہے۔ بھٹکنے اور جمود کے وقتی لمحات کے باوجود کہانی نے روحانی، انسانی، تخلیقی، مادی اور ذہنی یہاں تک کہ معمولی سے معمولی چبھن تک کو الفاظ دیے ہیں۔ ہر سماجی اور اقتصادی ناانصافی اور نابرابری اور روایتی جمود کے ریشے ریشے کو دھن کر رکھ دیا ہے۔ ماحول کا یہ شورو شغب اسی انسانی روح کا ہے جسے کہانی نے سوالوں سے بھردیا ہے یا جس کے سوالوں نے کہانی کو زبان دی ہے۔ ہندی کہانی ہی کیوں، بھارتی کہانی آج اس جگہ اور وہاں کھڑی ہے، جہاں پر ٹھیک زمانہ کھڑا ہے۔‘‘
(کملیشور: ہندی کہانی کا سفر۔ معلم اردو۔ ہندی کہانی نمبر حصہ اول، نومبر 1984ء، ص:7)
کملیشور کے ان نظریات کی روشنی میں اگر ہم ان کی کہانیوں کا جائزہ لیں تو کملیشور کی کہانیوں میں موجود فکر کی تازگی، موضوعات کی وسعت اور فن کی گہرائی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ کملیشور نے ہندی کہانی کو نئے موضوعات سے روشناس کرایا۔ انھوں نے محسوس کر لیا تھا کہ اب لوگوں کے زندگی گزارنے کا انداز بدل رہا ہے، عورتیں خود کو جسمانی اور روحانی طورپر آزاد محسوس کرتے ہوئے اپنی مرضی سے زندگی کے فیصلے کرنے پر مصر ہیں۔ لہٰذا فطری تھا کہ ستی ساوتری اور آدرش وادی ناری کی بجائے خود کو ہمہ جہت آزاد محسوس کرنے والی ’’عورت‘‘ کملیشور کی کہانیوں کا موضوع بنے۔
ان موضوعات پر لکھتے ہوئے کملیشور نے اپنے کرداروں کی داخلی کیفیات کو نہایت فنکارانہ ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ ان کی مشہور کہانی ’’کھوئی ہوئی دشائیں’’ کا قصہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک روز کافی دنوں بعد چندر کو خیال آیا کہ اس کی پرانی شناسا بلکہ محبوبہ، جو اسی شہر میں اپنے پتی کے ساتھ رہ رہی ہے، اس سے ملنے چلا جائے۔ وہ بڑے شہر کی تھکن سے چور اندرا کے گھر پہنچ گیا،
’’اور اندرا اسے ویسے ہی ملی۔ وہ اپنے شوہر کا انتظار کر رہی تھی۔ بڑی اچھّی طرح اس نے چندر کو بٹھایا اور بولی، ’’ادھر کیسے بھول پڑے آج۔۔۔‘‘ اس کی آنکھوں میں وہی پہچان کی پرچھائیاں تیر رہی تھیں۔ کچھ لمحوں بعد اندرا نے کہا تھا، ’’اب نو بج گئے ہیں۔ آٹھ بجے ہی فیکٹری بند کرکے لوٹ آتے ہیں، پتا نہیں آج کیوں دیر ہو گئی۔ اچھا چائے تو پیوگے؟‘‘
’’چائے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔۔۔‘‘ چندر نے بڑی گرم جوشی سے کہا تھا اور کرسی پر آرام سے ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا تھا۔ اس کی ساری تھکان جیسے اتر گئی تھی اور من کا اکیلاپن کہیں ڈوب گیا تھا۔
نوکرانی آکر چائے رکھ گئی۔ اندرا پیالے سیدھے کرکے چائے بنانے لگی۔ وہ اس کی بانہوں، چہرے اور ہاتھوں کو دیکھتا رہا۔۔۔ سب کچھ وہی تھا، ویسا ہی تھا۔۔۔ شناسا۔ اسی وقت اندرا نے پوچھا، ’’چینی کتنی دوں؟‘‘
اور ایک جھٹکے سے سب کچھ بکھر گیا۔ چندرکا گلا سوکھنے لگا اور جسم پھر تکان سے بھاری ہو گیا۔ ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ پھر بھی اس نے پہچان کا رشتہ جوڑنے کی ایک کوشش اور کی اور بولا، ’’دوچمچ۔۔۔‘‘ اور اسے لگا کہ ابھی اندرا کو سب کچھ یاد آ جائےگا اور وہ پوچھے گی کہ کیا دو چمچ چینی سے اب گلا خراب نہیں ہوگا؟ لیکن اندرا نے دو چمچ چینی ڈال دی اور پیالہ اس کی طرف بڑھا دیا۔ زہر کے گھونٹوں کی طرح وہ چائے پیتا رہا۔ اندرا ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی، جس سے مہمان نوازی کی بو آ رہی تھی اور چندر کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ چیختا ہوا یہاں سے بھاگ جائے اور کسی دیوار سے اپنا سر ٹکرا دے۔‘‘
ان سطور میں کملیشور نے چندر کے کردار میں بہت گہرائی تک جاکر اس کی داخلی کیفیت بیان کی ہے۔ جب اس کی پرانی محبوبہ اس سے پوچھتی ہے کہ چینی کتنی دوں؟ تو اس وقت کملیشور، چندر کے محض سطحی احساسات کا اظہار نہیں کرتے یعنی وہ مثلاً یہ نہیں لکھتے کہ ’’آج وقت نے ہمارے درمیان اتنا فاصلہ قائم کر دیا ہے کہ اب تمھیں یہ بھی یاد نہیں کہ میں کیسی چائے پیتا تھا۔‘‘ اور نہ اس موقع پر کملیشور نے کسی ایسے پرانے واقعے کا ذکر ہی کیا ہے جس سے چائے ا ور چینی سے متعلق کوئی روشنی پڑتی ہو۔ بڑے سیدھے سادے انداز میں کہانی کار نے چندر کے دل میں اٹھنے والے طوفان کا ذکر کیا ہے اور ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کی عکاسی کی ہے۔ چندر کو یہ توقع تھی کہ ’’دو چمچ‘‘ کہنے پر اندرا کو ضرور یاد آ جائےگا کہ وہ چائے میں چینی برائے نام ہی پیتا ہے، وہ چونکے گی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
کردار کے اندر پیدا ہونے والی باریک سے باریک خواہش یالا شعور میں دبی کسی نازک ترین سوچ کو ابھار کر قارئین کے سامنے رکھ دینے کا فن کملیشور نے بڑی خوبی سے انجام دیا ہے اور زندگی کے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو اپنی گرفت میں لیا ہے۔
کبھی کبھی کملیشور خود کلامی کے ذریعے وہ تمام باتیں، تمام واقعات، داخلی کیفیت، نفسیات، کردار کا ارتقا، کہانی کار کی کہانی کے ساتھ گہری وابستگی تک کا اظہار بڑی خوبی کے ساتھ کر دیتے ہیں۔ انھوں نے متعدد کہانیوں میں مونولاگ کی تکنیک سے کام لیا ہے، لیکن اتنی طویل خود کلامی کہ پوری کہانی ایک مونولاگ۔۔۔
’’راجا نربنسیا‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو،
’’آخر وہ خود ایک آدمی ہے۔۔۔ بےکار۔۔۔ یہ مانا کہ اس کے سامنے پیٹ پالنے کا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، وہ بھوکوں نہیں مر رہا ہے، جاڑے میں کانپ نہیں رہا ہے، لیکن اس کے دو ہاتھ پیر ہیں۔ جسم کا پنجرہ ہے، جو ’’کچھ‘‘ مانگتا ہے۔۔۔ کچھ۔۔۔‘‘
اور وہ سوچتا،
’’یہ کچھ کیا ہے؟ سکھ؟ شاید ہاں۔۔۔ شاید نہیں۔ وہ تو دکھ میں بھی جی سکنے کا عادی ہے۔۔۔‘‘
اس اقتباس میں کردار خود کلامی میں مبتلا ہے۔ کردار خود کو ’’میں’’کی بجائے ’’وہ‘‘ کہہ کر اپنے آپ سے سوال کرتا ہے اور خود کو ہی جواب دیتا ہے۔ ’’میں تو دکھ میں بھی جی سکنے کا عادی ہوں۔‘‘ کی جگہ کملیشور اس کی سوچ ظاہر کرتے وقت لکھتے ہیں، ’’وہ تو دکھ میں بھی جی سکنے کا عادی ہے۔‘‘ کبھی کبھی شک ہوتا ہے کہ کہانی کار اپنا بیان دے رہا ہے لیکن بغور مطالعہ کرنے پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ’’وہ‘‘ کا صیغہ دراصل کردار خود اپنے لیے استعمال کر رہا ہے اور وہ خود کلامی کا اسیر ہے۔ اصل میں یہاں رچناکار اپنے کردار کی ذات سے اس قدر وابستہ ہو گیا ہے کہ اس نے خود کو مکمل طور پر اپنے کردار کی ذات میں ڈھال لیا ہے، اسی لیے یہاں ’’میں’’اور ’’وہ‘‘ کا فرق مٹ جاتا ہے۔ لیکن یہ مونولاگ زیادہ دیرتک نہیں چل پاتا اور کہانی کار درمیان ہی میں مداخلت کرکے اس سلسلے کو منقطع کر دیتا ہے اور پھر آگے کی خود کلامی کو اس کی سوچ بتاکر جاری رکھتا ہے۔ مثلاً کہانی کار کی طرف سے یہ جملہ تحریر کیا گیا ہے۔
’’اور وہ سوچنا۔۔۔‘‘
دراصل یہ جملہ اس کی خود کلامی کے سلسلے کو منقطع کرنے کے لیے لکھا گیا ہے۔ غالباً مصنف کو قاری کی اکتاہٹ کا خیال ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہاں کملیشور ان آدھونک کہانی کاروں سے الگ دکھائی پڑتے ہیں جو پاٹھک کو سرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں اور کہانی کو کہانی کے بجائے کوئی الجھی ہوئی پہیلی بنا دیتے ہیں۔ کملیشور کے دل میں جو درد ہے، وہ کوشش کرتے ہیں کہ پاٹھک بھی اپنے دل میں وہی درد محسوس کرے اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔
جب نئی کہانی اپنی شناخت بنانے میں کوشاں تھی، مسائل اور موضوعات میں بھی تغیر پیدا ہونے لگا تھا۔ موضوعات کی سطح پر سب سے پہلے جو انقلاب رونما ہوا وہ تھا، ’’روایت سے انحراف۔۔۔‘‘ جب نئی کہانی نے روایت سے انحراف کیا تو یہ انحراف نہ صرف ہیئت اور اسلوب کا تھا بلکہ نئے موضوعات کی جستجو بھی شامل تھی۔ اقدار میں تبدیلی پیدا ہوئی اور مروجہ اقدار سے نہ صرف گریز بلکہ کسی حدتک بیزاری کا اظہار بھی نئی کہانی میں پایا جانے لگا۔ علاوہ ازیں سماجی اور اخلاقی پابندیوں سے بغاوت کا جذبہ بھی نئی کہانی کا خاص موضوع بنا۔ ان تغیرات کے نتیجے میں بدلتے رشتوں کی کشمکش نے سر ابھارا اور ہرچیز پر ایک سوالیہ نشان لگا ہوا محسوس کیا۔
پرانے رشتوں، قدیم روایتوں اور آدرشوں کی جگہ اجنبی پن، مایوسی، خوف وہراس، انسانی ذات کی شناخت، تنہائی اور لاتعلقی جیسے مسائل نے لے لی اور ان مسائل کے کرب سے گتھے ہوئے انسان کو نئی کہانی کے لیکھکوں نے سہارا دیا اور ان کے دکھ درد کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔ جب پرانی قدریں مٹتی ہوئی نظر آنے لگیں، قدیم روایتیں اپنا وجود کھونے لگیں اور صدیوں پرانے رشتے بے معنی ہوکر رہ گئے تو نئے لکھنے والوں نے نئے رشتوں کی تلاش کا بیڑا اٹھایا۔
کملیشور آگے آگے تھے اور اپنے ہم عصروں کی رہنمائی کر رہے تھے۔ انھوں نے محسوس کر لیا تھا کہ آزادی کے بعد نئی سوچوں اور نئے ارادوں کو اپنی خواہشات کے دامن میں سمیٹے ’’نئی عورت‘‘ کا جنم ہو گیا ہے۔ اس کے مسائل بدلے ہیں، اچھے بڑے کے پیمانے بدلے ہیں۔ نیک وبد میں تمیز کی کسوٹی تبدیل ہوئی ہے۔ اس طرح پورے طور پر آزاد عورت کملیشور اور ان کے ہم عصروں کی کہانیوں کی روح بن کر سامنے آئی۔
نئی کہانی کی بھومیکا میں کملیشور نے جدید عورت کی تصویر کچھ اس طرح کھینچی ہے،
’’جدید عورت اب اپنی پوری آب وتاب، اصل عزت اور جسم کی تہذیب کے ساتھ آئی ہے۔۔۔ نئی عورت کے لیے جنس اب گناہ نہیں، ایک حقیقت یا ضرورت کی شکل میں اختیار کی جا چکی ہے۔ اب وہ کہانی کار کے لیے لذت اور چٹخارے کی چیز نہیں، اس کے کرداروں کی جسمانی ضرورتوں کی مانگ ہے۔ وہ جھوٹی ستی یا طوائفیں نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نئی کہانی میں ویلن کا تصور مٹ گیا ہے جب کہ پرانی کہانیوں میں ویلن کی ہر قدم پر ضرورت پڑتی تھی۔ اب رشتوں کے دو مرکز ہیں۔ ایک عورت اور ایک مرد۔۔۔ عورت کا جسم اب اس کے اپنے فیصلے کا پابند ہے۔‘‘
کملیشور کی کہانی ’’تلاش‘‘ بھی دراصل اسی طرح کے نئے رشتوں کی تلاش کی کہانی ہے۔ اس میں ایک تعلیم یافتہ لڑکی اور ماں کے روایتی رشتوں کے درمیان سے ’’بیٹی‘‘ کا ابھرتا ایک نیا کردار اس کہانی کا موضوع ہے۔ اس کہانی میں محض ماں بیٹی کے بدلتے رشتوں کی تلاش ہی نہیں کی گئی ہے بلکہ زمانے اور ماحول کی بدلتی ذہنیت، بدلتے جذبات، بدلتے اخلاق اور تبدیل ہوتی فکر کی طرف بھی اشارے کیے گئے ہیں۔ اس قسم کی متعدد ایسی تلخ حقیقتیں ہی کملیشور کی کہانیوں کا موضوع بنی ہیں۔ کملیشور نے عورت کی بے باکانہ آزادی کا دامن تھاما اور انسان کی ذات کے کئی روپ اجاگر کیے اور نئے رشتوں کی تلاش کو اپنا مطمح نظر بنایا۔ اسی لیے ان کو نہ صرف ہندی بلکہ ارد و کے بھی مشہور ادیبوں نے سراہا۔ کرشن چندر لکھتے ہیں،
’’ہندی افسانے میں کملیشور نے بہت نمایاں رول ادا کیا ہے۔ وہ اپنے گھر کی چار دیواری سے باہر نکال کر کھیت، چوپال، سڑک اور فٹ پاتھ پر لے آئے ہیں۔ کملیشور کے افسانوں میں ہمیں بیسویں صدی کے ہندوستان کے مسائل کی دھمک محسوس ہوتی ہے۔ کملیشور کا انداز بھی نرالا اور دلکش ہے۔ وہ ہندی کو عوام کی سطح پر لے آئے ہیں اور ایسے لہجے میں بات کرتے ہیں کہ عام لوگوں کو وہ اپنی کہانی معلوم ہوتی ہے۔
مشکل لہجے میں بات کرنا آسان ہے لیکن آسان لہجے میں پیچیدہ اور مشکل بات کرنا بہت مشکل ہے۔ کملیشور نے اپنی حِسّی قوت سے اس مسئلے کو بخوبی حل کر لیا ہے۔‘‘
(کرشن چندر، فن اور شخصیت، کملیشور نمبر مارچ 1977ء)
سردار جعفری کا خیال ہے کہ، ’’کملیشور ہندی زبان کے اعلیٰ درجے کے افسانہ نگار اور ادیب ہیں۔ وہ روشن خیال ہیں، ترقی پسند ہیں اور فنی اعتبار سے ہندوستان کے ادیبوں کی صف اول میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔
(فن اور شخصیت، مارچ 1977ء، ص:34)
اردو کے مشہور کہانی کار راجندر سنکھ بیدی نے بھی ان کے بارے میں لکھا ہے کہ،
’’ہندوستان کے مصنفین میں کملیشور ہی واحد شخصیت ہیں جو ہندی کے ادیب ہوتے ہوئے بھی بڑی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ اردو کا استعمال کرتے ہیں اور جن کی بات ہر آدمی کی سمجھ میں آتی ہے۔ ان کا کہانی لکھنے کا انداز بھی ان کی گفتگو کی طرح سے سلجھا ہوا اور صاف ہے۔‘‘
(فن اور شخصیت، مارچ 1977ء، ص:34)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.