Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نئی روشنی

سید عابد حسین

نئی روشنی

سید عابد حسین

MORE BYسید عابد حسین

     

    ستمبر 1947ء کو دلی میں جو قیامت صغرا برپا ہوئی تھی اس کا ذکر میں نے اس دور سے پونا میں سنا، جہاں بڑی سالانہ تعطیل بسر کرنے گیا تھا۔ مصیبتیں زندگی میں بہت دیکھی تھیں اور تھوڑی بہت اٹھائی بھی تھیں، مگر یہ مصیبت ایسی نہ تھی، جس نے نہ صرف ہاتھ پاؤں، دل و دماغ کو سن کر دیا بلکہ ایمان کی جڑوں کو ہلا دیا۔ یعنی خدا پر اور انسان پر جو پکا بھروسا تھا وہ پورا ہو گیا۔ اس وقت سے شروع جنوری 1948ء تک جب مجھے جامعہ نگر پہنچ کر برادران جامعہ سے ملنا نصیب ہوا، چلتا پھرتا، کھاتا پیتا ضرور تھا۔ زندگی کی ظاہری علامتیں موجود تھیں، مگر ذہن اور روح پر ایک مردنی سی چھا کر رہ گئی تھی۔ جامعہ میں آنے کے بعد سخت جاں اور سخت ایماں ساتھیوں کی صحبت نے دل میں کچھ گرمی پیدا کی اور پھر30 جنوری کو گاندھی جی کی شہادت نے تو روحانی جمود کو سچے غم کی آگ میں پگھلا کر رکھ دیا۔ مایوسی کا زہریلا اثر دور ہوا اور دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو یہ بات سمجھ میں آئی کہ جو اندھیر تقسیم ہند کے بعد مچا ہے، وہ عارضی جنون اور مستقل جہالت کا نتیجہ ہے۔ جنون کا طلسم تو گاندھی جی کی شہادت نے توڑ دیا۔ اب جہالت کے اندھیرے سے نبٹنا ہے۔ چنانچہ میں نے ایک ہفتہ وار اخبار ’’نئی روشنی‘‘ کے نام سے نکالنے کا ارادہ کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ مذہب، سیاست، معیشت غرض کہ زندگی کے ہر شعبے کو عہد وسطیٰ کی تاریک خیالی سے جو اب تک ہمارے ملک پر طاری ہے نجات دی جائے۔ اس اخبار کا پہلا پرچہ 16 جون 1948ء کو یعنی عین اس روز نکلا جس کے بارے میں سارے ہندوستان اور پاکستان میں ایک مدت سے یہ خبر گرم تھی کہ سچ مچ قیامت کا دن ہوگا۔

    ’’نئی روشنی‘‘ کا پس منظر
    15 اگست 1947ء کو ہنودستان کے ہر حصے میں جشن آزادی بڑی دھوم سے منایا گیا، جس کسی نے یہ شاندار منظر دیکھا ہے وہ جیتے جی اسے بھول نہیں سکتا۔ لاکھوں گھروں، دکانوں اور درختوں پر آزادی کا ترنگا جھنڈا فخر و مسرت سے جھوم رہا تھا اور سرکاری عمارتوں پر یونین جیک کو بے دخل کرکے لہرا رہا تھا۔ کروڑوں آدمیوں کی رگوں میں خوشی اور جوش کی لہر اس طرح دوڑ رہی تھی جیسے بجلی کی صدا تار پر دوڑتی ہے۔ کلکتہ، دہلی، بمبئی اور دوسرے شہروں میں فرقہ وارانہ فساد کی آگ جو مہینوں سے لگی ہوئی تھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک دم سے بجھ گئی ہے۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی دلی دوستوں کی طرح حقیقی بھائیوں کی طرح گلے مل رہے تھے۔

    دیکھتے دیکھتے منظر بدل گیا، ہوا پلٹ گئی، پنجاب کا فتنہ و فساد چند روز دبے رہنے کے بعد بھڑک اٹھا، باہمی نفرت کا زہر جو سارے ہندوستان میں برسوں سے پھیلایا جا رہا تھا، پنجاب کے سادہ دل، دلیر جنگجو باشندوں کی رگوں میں پہنچ کر زہر ہلا ہل بن گیا، مشرقی اور مغربی پنجاب میں، پنجاب کی اور متصل علاقے کی ریاستوں میں ماردھاڑ اور آتش زدگی، وبا کی طرح پھیل گئی، بڑھتے بڑھتے، فساد کی وبا ہندوستان کی راجدھانی دہلی پہنچی اور دہلی پر قیامت گزر گئی۔ معلوم ہوتا تھا کہ حکومت کا تختہ الٹ جائے گا اور سارا دیش بدامنی اور نراج کا شکار ہو کر تباہ ہو جائے گا۔ اگر ہمارا اسیّ سال کا بوڑھا باپ جس نے اپنے آپ کو مٹا کر ہندوستان کو بنایا تھا، خود قید کی سختیاں اٹھا کر ملک کو آزاد کرایا تھا، وقت پر نہ پہنچ جاتا تو خدا جانے کیا ہو جاتا، اس نے اپنی تلقین اور ریاضت سے، اپنی روحانی قوت سے غصے اور نفرت کی آگ کو دھیما کیا اور پھر اپنے خون کے چھینٹوں سے اس کو تو ایک بار بجھا ہی دیا ورنہ شاید وہ ہندوستان کو پھونک کر بس نہ کرتی بلکہ ساری دنیا کو جو ہر وقت آگ پکڑنے کو تیار ہے، جلا کر بھسم کر دیتی۔

    آج جب ہمارے دکھے ہوئے ٹوٹے ہوئے دل مہاتما گاندھی کا سوگ منا رہے ہیں اور ہمارا رواں رواں ان کے احسانات کا شکریہ ادا کر رہا ہے۔ ہمارے دماغوں کو یہ سوچنا ہے کہ اس بیماری کی جڑ کیا ہے، جس کی وجہ سے ہندوستان پر تقسیم کا عمل جرّاحی اس بے دردی سے کرنا پڑا کہ نہ جانے کتنا خون بہہ گیا، کتنی طاقت زائل ہو گئی اور ایسا گہرا زخم لگا کہ جس کے بھرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ اس بیماری کا سبب معلوم کرنا اور اس کا علاج کرنا ہماری قومی زندگی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ فتنہ و فساد کی دبی ہوئی چنگاریاں اب بھی موجود ہیں اور ان کے بھڑک اٹھنے کا ڈر اب بھی ہمارے دل و دماغ پر مسلط ہے۔ مذہبی تعصب ہمارے ملک میں ہمیشہ سے تھا، لیکن اس حد تک نہ تھا کہ قتل و غارت کا محرک بن جائے، عہد وسطیٰ میں جب عیسائیت اور اسلام میں صلیبی جنگیں چھڑی ہوئی تھیں، عہد جدید کے شروع میں جب کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ فرقوں کی باہمی جنگ نے یورپ کو تباہ کر دیا تھا، ہندوستان خالص مذہبی لڑائیوں سے محفوظ رہا۔ پھر کیا وجہ کہ اس آزاد خیالی کے زمانے میں ہندوستان میں مذہب کے نام پر خانہ جنگی برپا ہوئی؟

    ذرا غور کیجیے تو یہ معمہ حل ہو جائے گا۔ یہ در اصل فرقہ وارانہ لڑائی کی تہہ میں تہذیب کی دو تحریکوں، تاریخ کے دو زمانوں، عہد وسطیٰ اور عہد جدید کی ٹکر ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں ہندوستان کو نئی نئی تحریکوں سے سابقہ پڑا، ہندوستانی طالب علم یورپ اور امریکہ جانے لگے۔ ہندوستان میں تہذیب و معاشرت کی اصلاح کی کوششیں شروع ہوئیں۔ پہلے رام موہن رائے نے اور پھر سر سید احمد خان اور رانا ڈے نے ہمیں تجدید کا سبق پڑھایا، لیکن مغربی تعلیم اور جدید تہذیب ہندوستان میں برطانوی حکومت کے ساتھ آئی تھی اور بدیسیوں کے سیاسی تلسط کی نشانی تھی، اس لیے آزادی کی تحریک نے ایک حد تک اس کے خلاف بھی بغاوت شروع کی۔ ان کی تعلیم مشرقی روحانیت پر بنی تھی، مگر اس میں عہد جدید کے تمام رجحانات موجود تھے، تحقیقی فکر، تنقیدی نظر، جمہوریت اور اس کے لوازم، انفرادی آزادی، شخصی ذمہ داری، اخوت، مساوات، رواداری، لیکن عام سیاسی تحریک نے ہر فرقے کے لوگوں میں کٹر مذہبیت کا ایسا جذبہ پیدا کر دیا، جس میں اپنوں کی محبت کم اور غیروں سے نفرت زیادہ تھی۔ ادھر انگریزوں نے ہماری تحریک قومیت کی کمر توڑنے کے لیے فرقہ وارانہ نمایندگی اور جداگانہ انتخاب کا جھگڑا کھڑا کر دیا، جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ سیاست کے میدان میں وہی لوگ کامیاب ہونے لگے جو اپنے فرقے کے مذہبی تعصب کو زیادہ سے زیادہ ابھار سکتے تھے۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ ان کو برطانوی حکام کی پوری تائید اور مدد حاصل تھی۔

    فرقہ پرستی کے زور پکڑنے کے لیے یہی محرکات کچھ کم نہ تھے۔ اس پر طرہ یہ ہوا کہ بہت سے مستقل حقوق کے مالک جو اپنے آپ کو کانگریسی تحریک، سوشلزم اور کمیونزم کی وجہ سے خطرے میں پاتے تھے، کچھ اپنی طبعی افتاد سے اور کچھ اغراض کی وجہ سے فرقہ پرستی کے سر پرست بن گئے۔ جنگ کے زمانے میں جب مہاتما گاندھی اور تحریک آزادی کے دوسرے علمبردار جیل میں تھے اور کانگریس قریب قریب کچل دی گئی تھی، مستقل حقوق کے مالک سرمایہ دار اور ان کے سائے میں فرقہ پرست سیاسی جماعتیں خوب پھلی پھولیں، اور انھیں زور شور سے مذہبی تعصب پھیلانے کا موقع ملا، جنگ کے بعد جب برطانوی حکومت اپنی اندرونی کمزوری کی وجہ سے ہندوستان کی تحریک آزادی سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوئی اور اس کا امکان نظر آنے لگا کہ ہندوستان میں آزاد حکومت قائم ہو جائے گی تو ان سب رجعت پسند لوگوں میں جس کا وجود برطانوی حکومت کے ساتھ وابستہ تھا، ایک ہل چل مچ گئی۔ تحریک آزادی کی کھلم کھلا وہ مخالفت تو کر نہیں سکتے تھے، ان کے سامنے بس ایک ہی راستہ تھا کہ فرقہ وارانہ تعصب کی آگ کو بھڑکا کر ملک میں ایسی بدامنی پھیلا دی جائے کہ لوگ آزادی کے نام سے کانوں پر ہاتھ رکھیں اور انگریزوں سے کہیں کہ خدا کے لیے آپ نہ جایئے۔ تحریر و تقریر میں فرقہ وارانہ نفرت کا ایک ہولناک جہاد شروع ہوا، نجی فوجیں بھرتی ہوئیں، ہتھیار جمع کیے گئے اور ہر موقع پر زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر فساد برپا کرائے گئے۔ دنیا نے کوئی مصلحتوں سے اگر شہہ نہیں دی تو کم سے کم روکنے کی مطلق کوشش نہیں کی۔

    اگر برطانیہ میں لیبر حکومت برسراقتدار نہ آجاتی تو غالباً ہندوستان میں انگریز سویلین اپنی حکومت کچھ دن اور قائم رکھنے میں کامیاب ہو جاتے۔ لیکن لیبر حکومت نے دور اندیشی سے کام لے کر اس پالیسی کی مخالفت کی اور حکومت ہندوستانیوں کے سپرد کرنے پر تیار ہو گئی۔ تاہم فرقہ وارانہ جھگڑے اس حد تک پہنچ گئے کہ اسے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا معقول بہانہ مل گیا۔ سیاسی وحدت کے حامیوں نے یہ سمجھ کر کہ چار صوبوں کی مسلم اکثریت ہندوستان سے الگ ہونے اور ایک الگ ریاست بنانے پر تلی ہوئی ہے اور اس کے مطالبے کو بغیر شدید خانہ جنگی کے رد نہیں کیا جا سکتا، ملک کی تقسیم کو منظور کر لیا، اسی کے ساتھ اس پر اصرار کیا کہ بنگال اور پنجاب کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرکے مغربی بنگال اور مشرقی پنجاب کو جن کی اکثریت پاکستان میں نہیں رہنا چاہتی، ہندوستان میں شامل کر لیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غم و غصہ کا جیسا شدید طوفان وحدت کے حامیوں میں ہندوستان کی تقسیم سے اٹھا اور ویسا ہی تفریق کے حامیوں میں پنجاب اور بنگال کی تقسیم سے برپا ہو گیا، یہ جلے ہوئے انگریز حکام اور ملک کی رجعت پسند قوموں کے لیے زریں موقع تھا۔ یوں تو ہر جگہ فساد برپا کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن پنجاب اور میوات میں جہاں لوگ سپاہی پیشہ تھے، جنگجو اور مسلح تھے، پورا زور لگا دیا گیا۔ صوبے کی تقسیم سے جو انتظامی ابتری پیدا ہوگئی تھی، اس نے سیاسی فتنہ انگریزوں کے کام کو آسان کر دیا۔ انھوں نے تعصب اور نفرت کی آگ کو اس طرح بھڑکایا کہ ہر جگہ اکثریت، اقلیت پر وحشیانہ مظالم توڑنے لگی اور جرائم پیشہ لوگ اور بددیانت سرکاری ملازم اس کا ہاتھ بٹانے لگے۔

    یہ تھا پس منظر ان ہولناک فسادات کا، جنھوں نے ہمارے ملک کو دنیا میں بدنام اور خود اپنی نظر میں ذلیل کردیا۔ آپ کہیں گے کہ یہ ایک عارضی نفسی کیفیت تھی، جنون کی ایک لہر تھی جو سیاسی انقلاب کے ہیجان خیز موقع پر اٹھی اور گزر گئی۔ لیکن ذرا غور سے کام لیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ عارضی کیفیت کسی مستقل حالت مرض کا پتا دیتی ہے۔ یہ جنون کی لہر ہمارے قومی مزاج کی ناہمواری کو ظاہر کرتی ہے اور وہ یہ کہ ہم عہد جدید کے ماحول میں رہتے ہیں، لیکن ہمارے ذہن ابھی تک عہد وسطیٰ کے رنگ مین رنگے ہوئے ہیں۔ یہ مانی ہوئی بات ہے کہ انسان کے ذہن کا اپنے ماحول سے مطابق نہ ہونا شدید نفسی مرح پیدا کرتا ہے جو انتہائی شکل میں جنون کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔

    عہد جدید کی فضا ہمارے ملک میں ایک حد تک انگریزوں کے زمانے سے پہلے فطری ارتقاء کی بدولت پیدا ہوچکی تھی۔ اکبر اعظم کے زمانے میں غیر مذہبی یا دنیاوی ریاست کا تصور جو عہد کے جھگڑوں میں الجھائے رکھیں۔ اس کے علاوہ انگریزوں کے اثرات، سطح کے اوپر اور نیچے اب بھی اس کام میں مدد دے رہے ہیں۔ شاید یہ اثرات پاکستان کے مقابلے میں ہند میں بہت کم ہیں، مگر کمزور جسم کو بیمار کرنے کے لیے تھوڑا سا فاسد مادّہ بھی کافی ہوتا ہے۔ اگرہم چاہتے ہیں کہ فرقہ پرستی کی ایسی وبا سے جیسے پچھلے سال آئی تھیں، محفوظ رہیں تو ہم کو اس مشکل اور صبر طلب کام کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ قدامت پسندی اور رجعت پسندی کے جراثیم کو اپنی قوم کے خون سے دور کر دیں تاکہ وہ حیوانوں اور دماغی مریضوں کی زندگی کے بجائے انسانوں کی طبعی اور صحت مند زندگی بسر کر سکے۔

    ’’نئی روشنی‘‘ کا اجرا اس سے بڑے مقصد کو حاصل کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ اس مقصد کے مختلف پہلو ہیں، جن پر ہم آئندہ اشاعتوں میں روشنی ڈالیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے اہل فکر اور اہل قلم ان تصورات کی وضاحت اور اشاعت کے ذریعے ان کی مدلل تائید یا تعمیری تنقید کے ذریعے ہندوستانی زندگی کی تعمیر نو میں مدد دیں گے۔ ’’زندگی کی تعمیر نو‘‘ یہ نام اس قدر رعب دار اور یہ کام اس قدر زبردست معلوم ہوتا ہے کہ پہلے پہل ہمارا دل چھوٹ جاتا ہے اور ہمت پست ہو جاتی ہے، لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کام قدیم زمانے کی بے پناہ قوت کی تحریک سے غیر محسوس طور پر کر رہی ہے، زندگی کی تعمیر نو ہمارے ان کمزور ہاتھوں سے خود بخود ہو رہی ہے۔ سوال ہے صرف سوچ سمجھ کر، دیکھ بھال کر سلیقے اور طریقے سے کرنے کا تاکہ ’’عمارت بے ڈھنگی کمزور‘‘، تنگ اور تاریک، نہیں بلکہ سڈول، خوشنما، پائیدار، وسیع اور روشن ہو۔

    بیا تا گل بافشانیم و مے در ساغر اندازیم
    فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم

    اگر غم لشکر انگیزد کہ خونِ عاشقاں ریزد
    من و ساقی بہم سازیم و بنیادش بر اندازیم

    (نئی روشنی کے پہلے پرچے کا اداریہ)

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے