نذیر احمد کی ہیروئن
(ذیل کا مقالہ جناب صلاح الدین احمد کی ان توسیعی تقریروں میں سے ایک ہے جو انہوں نے پچھلے دنوں اردو ایم۔ اے طلبا کے سامنے کیں۔ فاضل مقالہ نگار نے اس مقالے میں اردو کے پہلے ناول نگار کی ہیروئن کے خاص اوصاف پر روشنی ڈالی ہے۔
ادارہ ادبِ لطیف صلاح الدین احمد صاحب کے اس قابل قدر اور فاضلانہ مقالے کا خاص طور پر شکرگزار ہے۔)
آج سے کم و بیش اسی برس پیشتر جب اردو کا پہلا ناول مرأۃ العروس منظر عام پر آی تو کسے معلوم تھا کہ یہ ہمارے ادب کے سب سے بڑے عنصر یعنی فکشن کے بابِ زرّیں کی کلید ثابت ہوگا۔ اور اس افسانے کو جنم دے گا جس نے ایک نہایت مختصر مدت میں اپنی بے نظیر صلاحیتوں کی بناء پر چشم عالم میں وہ اعتبار و امتیاز حاصل کیاجو آج بہت سی دیگر زبانوں کے افسانوی ادب کو اپنی طویل عمر اورقدیم روایات کے باوجود میسر نہیں ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ جدید اردو افسانہ نگاری کا بانی یعنی نذیر احمد خود بنیادی اور شعوری طور پر افسانہ نگار نہیں تھا۔ بلکہ محض ایک قلم کار تھا۔ جس نے اپنے دیگر مشاغل و مساعی کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کی مقتضیات اور اپنے طبقے کے مصالح اور ضروریات کو سامنے رکھ کرافسانے کو اپنے نظریات کے اظہار و اشاعت کاذریعہ بنایا اور اپنے ماحول کی سازگاری اور اپنے مخاطبین بلکہ مخاطبات کی موزونیت اور اثرپذیری کی بدولت اپنے مشن میں بے نظیر کامیابی حاصل کی۔ لیکن اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وہ تجدد کی ایک غیرمعمولی صلاحیت لے کرآیا تھا۔ اور اس نے ایک ہی جست میں ہمیں بوستانِ خیال اور فسانہ عجائب کی طلسمی دنیا سے نکال کرمغربی طرز کے افسانوی ماحول میں پہنچا دیا۔ اور ہمارے قصہ نما افسانے کو اپنے قلم کی ایک ہی جنبش سے ناول کے سانچے میں ڈھال دیا۔ یہ اس کا فنی اجتہاد تھا۔ اور ہم اس کے لیے اس کی عظمت کے جتنے بھی معترف ہوں، کم ہے۔ یہ نکتہ، البتہ، قابل غور ہے کہ وہ طبعاً ایک افسانہ نگار تھا۔ یہ ایک ریفارمر یا محض ایک عمرانی رہبر جو زمانے کی ہوا کارخ پہچان کر اپنے طبقے کے لیے ایک مفید راہِ عمل تجویز کر رہا تھا۔ میری ناچیز رائے میں اس کی آخرالذکر حیثیت حقیقت سے قریب ترین ہے۔ اور اس حیثیت میں اس نے اپنے پیش نظر سماج کے امراض کو دور کرنے کاجو کڑوا کسیلا نسخہ مرتب کیا۔ اسے اس نے مریض کو پلانے سے پہلے کہانی کے شہد میں سمودیا تاکہ وعظ کی تلخی افسانے کی شیرینی سے مل کر بیمارکے حلق سے فی الفور اترجائے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے اپنے فن کی تکنیکی تکمیل کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اور وہ کردار نگاری کے وہ مراحل طے نہیں کرسکا جو فن کے اعلیٰ تقاضوں سے نسبت رکھتے ہیں۔ حسنِ اتفاق سے اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فضا بہت سازگار میسر آئی۔ جس نے اس کے کام کو آسان کردیا۔ لیکن اسی لیے اس کے فنی پہلو کو ابھرنے اور بلندقدروں تک پہنچنے کا موقع نہیں ملا۔ فضا کی سازگاری میں دوعناصر کارفرما تھے۔ ایک تو حکومتِ وقت کی حوصلہ افزائی اور دوسرے طبقۂ متوسط کے اس گروہ کی اعانت جو ماضی سے اپنا رشتہ توڑ کر اسے مستقبل کی افادی قدروں سے جوڑ رہا تھا۔
نذیر احمد کے تخلیقی عمل کو سمجھنے کے لیے اس کے پس منطر پر ایک نگاہ ڈالنااز بس ضروری ہے۔ اس نے جس زمانے میں لکھناشروع کیا۔ وہ ہماری سیاسی اور سماجی تاریخ کا ایک نہایت اہم دور ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ستاون کے ہنگامہ آزادی اور اس کی ناکامی کے بعد شمالی ہندوستان کے مسلمان دوفریقوں میں بٹ چکے تھے۔ ایک فریق اپنے شاندار ماضی کے غم اور ایک خواب ناک مستقبل کے تصور میں کھویا ہوا تھا۔ اس میں امراء بھی شامل تھے۔ اور عوام بھی۔ امراء اپنی عظمتِ رفتہ کی لاش سے اور عوام خود فراموشی اور سہل روی کے اس اندازِ زندگی سے چمٹے ہوئے تھے۔ جسے ایک شخصی نظامِ حکومت اور سیاسی بدنظمی نے تعمیر کیا تھا۔ ان کے خلاف دوسرافریق طبقۂ متوسط کے اس گروہ پر مشتمل تھا جونئے حاکموں سے رشتۂ موالات استوار کرکے اوراجتماعی زندگی کی نئی اقدارقبول کرکے اپنی انفرادی زندگیوں میں آسائش ہمواری اور توازن پیداکرنا چاہتاتھا۔ نذیر احمد اس فریق کے مفکر اور رہبر تھے۔ اور اگرچہ ان کا نصب العین سرسید کے اجتماعی اور قومی پروگرام سے براہِ راست کوئی قدرِ مشترک نہیں رکھتا تھا۔ مگر وہ اپنے محدود دائرہ عمل میں اس کا ممد اور معاون ضرور تھا۔ مگر سرسید اور ان کے رفقاء ایک وسیع سیاسی اور ملی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف تھے۔ وہ مسلمانوں کی قومی زندگی کو ایک نئے سانچے میں ڈھال رہے تھے۔ اور اس میں حرکت اور عمل پیدا کرنے کے لیے مختلف مذہبی، تعلیمی اور نیم سیاسی ادارے قائم کرتے چلے جارہے تھے۔ چنانچہ ان کی بیشتر توجہ سیاسی جوڑتوڑ اور انتظامی معاملات پر صرف ہوتی تھی۔ ان کے مقابلے میں نذیر احمد کادائرہ عمل گھر کی چاردیواری تک محدود تھا۔ اس کی نکتہ رس اور دوربین نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ نئے دور کی اقدار اسی صورت میں فروغ پاسکتی ہے جب کہ گھریلو زندگی کوازسرنو مرتب کیا جائے۔ اس کی بنیادیں مستحکم کی جائیں اور ان تمام عناصر پرقابو پایا جائے جو ہمیں بدنظمی۔ بے راہ روی۔ غربت اورمادی تنزل کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ مسلمانوں کو ایک بہت بڑی مہم درپیش ہے۔ ایک طرف انہیں اپنے ماضی سے دامن چھڑانا ہے۔ جو ان کی دنیوی ترقی اور خوشحالی کے راستے میں حائل ہے۔ اور دوسری جانب اسلاف کی مذہبی اور ایک حدتک معاشرتی روایات کو بھی برقرار رکھناہے۔ کیونکہ یہی روایات ان کی ملی وحدانیت کی ضامن ہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک نئی پود کے لیے لازم تھا کہ وہ اپنی انفرادی اور خانگی زندگی میں حددرجہ نظم و ضبط پیدا کرے۔ اور اپنی تمام ذہنی اورجسمانی صلاحیتیں تعلیم حاصل کرنے اور تعلیم کے بعد ملازمتوں اور تجارت پر قابو پانے میں صرف کردے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک زنان خانے کی فضامیں سکون اور آسودگی میسر نہ ہو۔ اس وقت تک یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنی معاشی تگ و دو میں کامیابی حاصل کرسکیں۔ گھر کی فضا کو پرسکون اور سازگار بنانے کی ذمہ داری عورت پر بھی ہے اور مرد پر بھی۔ عورت پر شاید مرد سے بہت زیادہ۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے اپنے تنظیمی منصوبے میں عورت کومرد پرترجیح دی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کے عمرانی مقالوں یعنی ان کے ناولوں میں عورت ہی پیش پیش نظر آتی ہے۔ اور جہاں کہیں انہوں نے اپنے کسی کردارکو اپنی خوشنودی سے نوازا ہے۔ وہاں وہاں وہ اتفاق سے عورت ہی نکلی ہے۔ ان کے ہاں ہمیں ہیرو کا سراغ کہیں نہیں ملتا۔ البتہ ایک یا ڈیڑھ ہیروئن ضرور ہے۔ ایک تو زنانہ لباس میں وہ خود ہیں۔ یعنی اصغری انہیں کی ہمزاد ہے۔ اور آدھی ایامی والی آزادی بیگم ہیں۔ جنہیں انہوں نے مصلحتاً منزلِ مقصود پر نہیں پہنچایا۔ بلکہ اَدھر ہی میں مارڈالا ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم مولوی صاحب کے ان کرداروں کا کوئی تفصیلی جائزہ لیں۔ ہمیں ایک دو نکتے نگاہ کے سامنے رکھنے چاہئیں۔ ایک تو یہ کہ مولوی صاحب کے پیش نظر نہ امراء تھے اور نہ عوام۔ عوام کو تو وہ درخورِ اعتنا ہی نہیں سمجھتے تھے۔ اور ان کے مسائل کو وہ سوچنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ یہ سعادت بعد میں پریم چند کے حصے میں آئی۔ مولوی صاحب خود درمیانے طبقے کے نچلے درجے سے تعلق رکھتے تھے۔ اور اسی طبقے کو وہ انگریز کے سایۂ عاطفت میں پروان چڑھانا چاہتے تھے۔ رہے امراء تو وہ ان کی طرف سے بدظن اور بددل تھے۔ وہ انہیں نئے دور اورنئی اقدار کا دشمن سمجھتے تھے۔ اور چونکہ جو مادی فوائد وہ خود حاصل کرناچاہتے تھے۔ وہ ضمناً امراء کے طبقے کو پہلے ہی سے حاصل تھے۔ اس لیے امراء نہ ان کے مخاطب تھے نہ ہوسکتے تھے۔ البتہ امراء کارسوخ اور ان کی وقعت وہ ضرور کم کرنا چاہتے تھے۔ اور اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ ان اقدار پر وار کریں۔ جن پر ان کا بھرم اور عزت قائم تھی۔ چنانچہ وہ ایک طرف فنونِ لطیفہ مثلاً شاعری اور موسیقی کو کہ امراء ان کے سرپرست تھے۔ اپنے نادک کانشانہ بناتے ہیں۔ اور دوسری جانب طبقۂ نسواں میں لباسِ فاخرہ زرد جواہر۔ شان و شوکت کو نظرو ں سے گراتے ہیں کہ یہی سازو سامان دوسروں کی نظروں میں امیر عورتوں کے امتیاز و عزت کا ضامن تھا۔ وہ اپنے طبقے کے سامنے (Puritanism) ایک سادہ اور معریٰ زندگی کا نصب العین اس دوہری مصلحت سے پیش کرتے ہیں کہ ایک طرف تو انہیں اپنی سادگی اور کم سامانی پر اعتماد پیدا ہو اور شان و شکوہ کا دبدبہ ان کے دلوں سے دور ہو۔ اور دوسری جانب وہ روپیہ بچاکر اور کفایت شعاری سے کام لے کر اپنی بنیادیں مضبوط کریں۔ تاکہ اس سیاسی اور سماجی مقابلے میں جو امراء سے پیش آنے والا ہے۔ بقا انہیں کے حصے میں آئے۔ یہی مصلحت فنونِ لطیفہ کی مخالفت میں پیش نظر تھی۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی فن کااکتساب کسبِ زر سے مانع ہوتا ہے۔ اور ذہن کو مادی اقدار سے بے نیاز کردیتا ہے۔ مولوی صاحب کی نگاہ میں حالات کا تقاضا یہی تھا کہ ان کے طبقے کے زن و مرد دونوں کی توجہ فنونِ لطیفہ یا امور نفیسہ کی بجائے کسبِ زر اور صرفِ زر کی باریکیوں کی طرف سے منعطف رہے اور وہ مادی اعتبار سے بہت جلد اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوجائیں۔ تاکہ وہ خلعت شرافت و عزت جو امراء کے جسم پر ڈھیلا ہوکر کچھ سرک رہا تھا۔ ان کے بڑھتے ہوئے تن و توش پر راست آجائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تخلیقات میں جومثالی کردار پیش کیے ہیں۔ وہ ان کے انہی نظریوں کے جسمانی مظاہر ہیں۔ پس ہمارے لیے ان کے مطالعے سے پیشتر ان کے خالق کے مقاصد کا سمجھنا ضروری ٹھہرا۔
تعلیمِ نسواں کے معاملے میں وہ سرسید کی عام تعلیمی تحریک سے متاثر نہیں تھے۔ سرسید کے سامنے ایک بہت عریض و وسیع تعلیمی منصوبہ تھا۔ اور اگرچہ انہوں نے تعلیم نسواں کو براہِ راست اس میں کوئی خاص مقام نہیں دیا۔ لیکن وہ یہ جانتے تھے کہ عورتوں کی مغربی انداز کی تعلیم ان کے مردوں کی اسی انداز کی تعلیم کاایک ضروری ضمیمہ اور نتیجہ ہوگی۔ اور وہ اس کے عین ساتھ لگی ہوئی ہمارے نظامِ معاشرت میں داخل ہوجائے گی۔ چنانچہ شیخ عبداللہ کا زنانہ کالج علی گڑھ کالج ہی کے ایک ضمیمے کی حیثیت سے قائم ہوا۔ لیکن مولوی صاحب کی نگاہیں اپنے طبقے کے دائرے سے پار نہیں جاتی تھیں۔ اور شاید وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اعلیٰ نسوانی تعلیم کے حلقے میں امراء اور اونچے درمیانے طبقے کااثر غالب آجائے گااور ان کے طبقے کو یہاں نیچا دیکھنا پڑے گا۔ نیز تعلیم نسواں سے ان کافوری مقصود اسی قدر تھا کہ نچلے درمیانے طبقے کی عورتیں اپنابیشتر وقت اورتوجہ اپنی معاشرت کومنظم اور اپنے گھروں کوخوشحال اورآسودہ بنانے میں صرف کریں۔ وہ عورتوں کو غالب اور شیکسپئر سے متعارف کرانے کی بجائے یہ بہتر سمجھتے تھے کہ وہ اچھی خانہ داری کے اسرار ورموز پر حاوی ہوجائیں۔ اور اقلیدس کی اشکال حل کرنے کی بجائے اپنے بجٹ کو متوازن کرنے کی صورتیں نکالیں۔ تاکہ ان کے مرد اطمینان سے اپنی دنیوی ترقی کے امور میں منہمک رہیں اور بہت جلد ان منزلوں کو جالیں جو انقلابِ حکومت کے طفیل ان کے سامنے آگئی تھیں۔
کم و بیش کچھ ایسا ہی اندازِ نظر وہ مذہب کے متعلق رکھتے تھے۔ عورتوں کے مذہبی فرائض کے متعلق ان کا معیار یہی تھا کہ وہ علوم و صلوٰۃ کی پابند رہیں۔ اور اسی پابندی کے نتیجے میں وہ دنیوی امور میں بھی پابندیٔ اوقات اور پابندیٔ ضوابط پر قادر ہوجائیں۔ ان کے ہاں ہمیں صبح خیزی کی برکات اور افطاری کی رونقوں کاچرچاجابجا ملتا ہے۔ اور ثواب و عذاب کے نقشے قدم قدم پر سامنے آتے ہیں۔ لیکن خیر برائے خیر کے تصور کا سراغ ڈھونڈھے سے نہیں ملتا۔ وہ مذہبی رسوم و ظواہر کی پابندی کو نجاتِ اُخروی اور فلاحِ دنیوی دونوں کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور اپنے طبقے کی عورتوں کو اس سے آگے لے جاکر مفت میں پریشاں کرنا نہیں چاہتے۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان کی “Scheme of things” نظامِ امور میں جذبات کو کوئی مقام حاصل نہیں۔ اور اگر ہے تواسی حدتک ہے جس حدتک وہ انسان کی جسمانی اور دنیوی ضروریات کی تسکین سے متعلق ہیں۔ چنانچہ اپنے مثالی کرداروں کو انہوں نے یا تو ان سے بالکل محروم کردیا ہے۔ یا فقط اسی قدر حصہ دیا ہے کہ وہ اپنے جسمانی و طبعی مسائل کے جائزے میں ان سے بھی کچھ مددلے سکیں۔ اس لیے ان کے ایسے کرداردو اور دوچار بلکہ پانچ توآسانی سے کرلیتے ہیں۔ لیکن وہ فتوحات جو محض جذبات ہی سے ممکن ہیں۔ اور وہ منازل جو جذبات ہی کے سہارے طے ہوتی ہیں، ان کی نگاہِ تصور سے بھی دور رہتی ہیں۔ اصغری خانم اپنی جز رسی کی بدولت خانم کے بازار میں تمیزدار بہو کاوہ عالیشان محل تو کھڑا کر لیتی ہیں جو بقول مولوی صاحب آسمان سے باتیں کرتاہے لیکن اپنے پڑھنے والیوں کے دل میں کوئی ایسا گھروندا بھی نہیں بناپاتیں جس میں ان کے سنہرے سپنے کبھی کبھی سرچھپالیا کریں۔
اصغری کے کردار کی تعمیر میں مولوی صاحب نے بہت تعجیل سے کام لیا ہے۔ اور یہ تعجیل اس میں شروع سے لے کر آخر تک نمایاں ہے۔ ہم پہلی بار جب اصغری سے متعارف ہوتے ہیں تو وہ گیارہ سال کی ایک بچی ہے۔ جو اپنے بہنوئی محمد عاقل کی گود میں بیٹھ کر ان کے اصرار سے ماں کی طرف بالارادہ دیکھ کر ان سے عیدی کا روپیہ لے لیتی ہے لیکن دوسری صبح جب ابھی سب گھروالے سو رہے ہوتے ہیں، جن میں اس کی ماں اور بہن بھی شامل ہیں، تو وہ گھر بھر میں جھاڑو دے کراور بہنوئی کے وضو کے لیے پانی گرم کرکے فارغ ہوچکی ہے۔ اور اس کے زکام کے پیش نظر اس کے لیے مسالے دار چائے بھی تیار کرلیتی ہے۔ اور گرم چائے کے ساتھ ساتھ اسے زکام اور اس کے علاج اور احتیاط و اہتمام پر ایک لیکچر بھی پلادیتی ہے۔ اور یہ یاد رہے کہ وہ اسی اکبری کی چھوٹی بہن ہے جو دس بجے سوکر اٹھتی ہے۔ اور ذرا سی بات پر خفا ہوکر پلنگ پر رکھی ہوئی پٹاری کو لات مار کر بچھونے کو کتھے، چونے سے لت پت کردیتی ہے، عید والے دن شوہر سے فرمائش کرکے جھڑ بیری کے بیر منگاتی ہے۔ اور اس کے لوٹنے سے پہلے اپنی سہیلی زلفن کوساتھ لے کر ڈولی کرائے پر منگا اپنے میکے پہنچ جاتی ہے۔ پھر اسی سہیلی کی بدولت اپنے ہاں کے برتن اور کپڑے چوری کرادیتی ہے۔ اور اس کے مہینہ بھر کے اندراندر اپنا سارا زیور ایک چلتی پھرتی بی حجن کے حوالے کردیتی ہے۔ اور گھر میں کھانا پکانے کی بجائے خود بازار کی چکھوتیوں پر ہتھے صاف کرتی ہے۔ اور شوہر کو ماں کے گھر کا راستہ دکھا دیتی ہے۔ خیال کرنے کی بات ہے کہ دونوں بہنیں ایک ہی ماں اور ایک ہی باپ کی اولاد۔ دونوں ایک ہی ماحول کی پروردہ اور کردار میں زمین و آسمان کا فرق۔ انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ وہ ایک بڑی حدتک تو ریث کا اور تقریبااتنا ہی تعلیم و تربیت کا اثر قبول کرتی ہے۔ اصغری اور اس کی بہن یہ دونوں عناصر مشترک ہیں۔ اور ان کی ماں جو تربیت کی سب سے بڑی کفیل ہوتی ہے کردار کی اعلیٰ اخلاقی قدروں سے متصف نہیں ہے۔ چنانچہ وہ داماد کے سامنے اکبری کے بارے میں صاف جھوٹ بولنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ اس کے باوجود اکبری اگر سراپا تقصیر ہے تو اصغری عقل و خیر مجسم۔ اس معمے کا حل ہمیں اس کے سوا اور کچھ نہیں سوجھتا کہ مولوی صاحب اپنے طبقے کی دنیوی ترقی کی جو ممکنات اس کے سامنے رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی تمثیل کے جوش میں انہوں نے نہ صرف کردار کی تعمیر کے ضروری اور منطقی عناصرکونظرانداز کردیا بلکہ خود فطرت کے عمل کی طرف سے بھی آنکھیں بندکرلیں۔
اصغری کے بچپن اور اس کے شباب میں ہمیں کوئی امتیازی کیفیت نظر نہیں آتی۔ وہ بچپن میں بھی ویسی ہی بوڑھی بڑما تھی جیسی جوانی میں۔ چنانچہ جب چائے والے واقعے کے کوئی برس ڈیڑھ برس بعد اس کی شادی ہوتی ہے اور محمد عاقل اپنی ماں سے اس کے لیے یوں وکالت کرتے ہیں کہ ’’اماں میں سچ کہتاہوں، اصغری ہزار لڑکیوں میں ایک ہے، عمر بھر چراغ لے کرڈھونڈو گی تو اصغری جیسی لڑکی نہ پاؤگی۔ صورت، سیرت دونوں میں خدا نے اس کو فائق اور لائق بنایا ہے۔ ہرگزاندیشہ مت کرو۔ بسم اللہ کرکے بیاہ کرڈالو اور بڑی بہن پر جو خیال کرو تو آپ نے سنا ہوگا،
نہ ہر زن زن است و نہ ہر مرد مرد
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد!
اپنا اپنا مزاج ہے اور اپنی اپنی طبیعت،
گل جو چمن میں ہیں ہزار دیکھ ظفر ہے کیا بہار
سب کاہے رنگ الگ الگ سب کی ہے بو الگ الگ
تمہاری بڑی بہو کو لاحول ولاقوۃ اصغری سے کیا نسبت ہے۔ چہ نسبت خاک را باعالمِ پاک۔ خدا راست لائے۔ بیاہ کے بعد میری بات کا تم کو یقین ہوگا۔‘‘ تو ہمیں اگرچہ مصنف کی طرف سے اصغری کے کردار کی اس کیفیت کا کوئی منطقی جواز ارزانی نہیں ہوتا۔ لیکن ہم صبر شکر کرکے اس صورتِ حالات کو وقتی طور پر قبول کرلیتے ہیں۔ لطف توتب آتا ہے جب عین بیاہ کے قریب اصغری یہ سن کر کہ اسے اپنے والد کے ازدیادِ مراتب وذرائع کی بدولت اکبری کی بہ نسبت بہترجہیز دیاجانے والا ہے۔ تو وہ اس کی مخالفت کرتی ہے۔ اور اگرچہ مخالفت کی ظاہری وجہ یہی ہے کہ وہ بڑی بہن سے ناانصافی نہیں کرناچاہتی۔ لیکن آگے چل کر کھلتاہے کہ چونکہ اسے اسی گھر میں جاناہے، جہاں اکبری موجود ہے۔ اور بڑی بہن کے تیور وہ اچھی طرح پہچانتی ہے۔ اس لیے دواندیشی کاتقاضا یہی ہے کہ اسے کسی شرارت یا فساد کا موقع نہ دیا جائے۔ یہاں یاد رکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ اس وقت اصغری کی عمر تیرہ برس کی بھی نہیں اور اس سے پانچ برس پہلے سے یعنی آٹھ سال کی عمر سے باپ کے گھر کا سارابوجھ اٹھائے ہوئے تھی۔ وہ مثل ہے کہ پانچوں انگلیاں پانچوں چراغ۔ یہاں وہ بھی بے کارہوگئی ہے۔ اصغری کی پانچوں انگلیاں شاید روشنی کے پانچ مینار تھے کہ جن کی ضو سے میکے سے لے کر سسرال تک اجالا ہی اجالا ہوگیا اور چند ہی برس میں یہ اجالا دہلی سے لاہور اور لاہور سے سیالکوٹ تک پھیل گیا۔
اس کے بعد اس کی خانہ داری کی زندگی شروع ہوتی ہے۔ جو اقتصادی جدوجہد اور حصول مقاصد کی ایک طویل داستان ہے۔ محمد کامل اس کاشوہر اس کے ہاتھ میں مٹی کے ایک لوندے کی طرح ہے۔ جسے وہ جس طرح چاہتی ہے ڈھالتی چلی جاتی ہے۔ مولوی صاحب نے اپنی تحریروں میں عورت اور مرد کو بار بار گاڑی کے دوپہیوں سے مشابہ قراردیا ہے۔ لیکن مراۃالعروس اور بنات النعش کی شاہراہ پر ہمیں ایک ہی پہیے والی گاڑی نظر آتی ہے۔ جو شاید مولوی صاحب کے بتائے ہوئے کسی وظیفے کی تائید سے چلتی ہے۔ چلتی کیا دوڑتی ہے اور ترقیوں کے فرسخ ومیل آن کی آن میں طے کرتی چلی جاتی ہے۔ بعض دفعہ مجھے ایسا بھی محسوس ہواہے کہ اصغری کے اقتصادی منصوبے کی گاڑی ایک ٹرائیسکل کی مانند ہے، جس کا اگلااور بڑاپہیہ وہ خود ہے۔ اور پچھلے دوپہیے اس کے شوہر اور اس کے خسر کی نمائندگی کرتے ہیں۔
اصغری کی جارحانہ شخصیت مولوی صاحب کی اپنی شخصیت کاعین مین چربہ ہے۔ اور اس کے کردار کی فائدہ پرستانہ کیفیت بھی انہی کے مزاج اورنصب العین کا عکس۔ وہ پردے میں بیٹھ کر اس خصوص میں وہ وہ فتوحات کرلیتی ہے جو چنگے بھلے باہوش مردوں سے بھی ممکن نہیں۔ چنانچہ کنبے کے ساہوکارسے معاملہ کرنااور اسے مات دینا محمد کامل کی ملازمت اورترقی کے سارے مدارج طے کرنا، اس کے دوستوں اورحاشیہ نشینوں کو نکال باہر کرنا، نوابوں کے خاندان سے اپنی نند محمودہ کا پیوند لگانااور اپنے غیر معمولی اقتصادی سلیقے اورجوڑ توڑ سے ایک بڑی جائداد کاکھڑا کرلینا، انیسویں صدی کی ایک پردہ دارخاتون سے جو ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہو۔ اور جس کے شوہر کی تنخواہ دس روپے سے اور ملازمت روزنامچہ نویسی سے شروع ہوئی ہو۔ کیونکر ممکن ہے۔ میرے پاس اس کا جواب یہی ہے کہ یہ اسی طرح ممکن ہے جس طرح خود مولوی صاحب کچہری کی اہل کاری سے بڑھتے بڑھتے حیدرآباد کے بورڈ آ ریونیوکے ممبر بن گئے۔ اور پھر تجارت کی ریوڑی کے پھیر سے لاکھوں کے پھیر میں چلے گئے۔ مولوی صاحب نے اپنی ہیروئن میں فائدہ پرستانہ کردار کے محاسن اتنی بڑی تعداد میں اور ایسے کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔ اور اسے انسانی جذبات اور کمزوریوں سے اس حدتک محروم کردیا ہے کہ ایک عام ناظر کو اس سے کوئی ہمدردی پیدا نہیں ہوتی۔ اور محاسن کااژدھام اور کمزوریوں کا فقدان اسے بے جان کرکے رکھ دیتا ہے۔ میری ناچیز رائے میں اکبری اس سے بہت زیادہ جاندار ہے۔ اور اس کی برائیاں اور کمزوریاں، خواہ ان میں کیسا ہی مبالغہ ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک جذب اور کشش ضرور پیدا کرتی ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ہیروئن کواس جنسِ گراں قدر سے کوئی حصہ نہیں ملتا۔ اور اسے محض اس مشکوک مدح وتحسین پر قناعت کرنی پڑتی ہے جو اس کے خالق کے خیال کے مطابق اس کی اقتصادی اور تنظیمی معرکہ آرائیوں پر اسے ملنی چاہیے۔ لیکن جس کا کوئی منطقی جواز اس نے پیش نہیں کیا۔ ہمیں تعجب ہے کہ راشد الخیری نے بھی جو نذیر احمد سے بدرجۂ غایت متاثر تھے، اپنی ہیروئن کے کردارکی تعمیر میں جذباتی اندازِ نظر اختیار کیا اور اس میں بے حد کامیاب رہے۔ شام زندگی کی ہیروئن نسیمہ کاکردار اگرچہ ضرورت سے زیادہ جذباتی ہے لیکن وہ اس وصف سے بدرجۂ اولےٰ ممتاز ہے جو کسی ہیروئن کا پہلا حق ہے۔ یعنی ناظر کی ہمدردی جو ہیروئن کو درحقیقت ہیروئن بناتی ہے۔ یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مصنف کی کوئی کاوش اور کسی قسم کی صنعت گری کسی کردار کو مصنوعی زندگی اور قبولیت عطا نہیں کرسکتی تاآنکہ اسے اپنے ناظرین کا جوابی تعاون اور ہمدردانہ ردعمل حاصل نہ ہو۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ اپنی تخلیق کو زندگی کے حقیقی سانچوں میں ڈھالے اور اس بات کااہتمام کرے کہ اس کے کردار کے دل کی ہر دھڑکن اس کے ناظر کے دل کی ہردھڑکن سے ہم آہنگ ہوجائے۔ یہی فن کی معراج اور یہی اس کافودِ عظیم ہے۔ افسوس ہے کہ اردو کا پہلا ناول نگار اپنے سب سے نمایاں کردار کی تعمیر میں اس معیار کو نہ پہنچ سکا لیکن جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں، اس کے پیش نظر نہ کہانی لکھنا تھا اور نہ کسی فنی احساس کی ترجمانی کرنا۔ وہ محض ایک نظریہ ساز تھا۔ اور اسے افسانے سے اپنے نظریات اور مقاصد کی تبلیغ کا کام لینا تھا۔ ازبسکہ وہ زبان کاماہر اور مکالمے کابادشاہ تھا۔ اور اس نے اپنی تبلیغ کے لیے عورتوں کا حلقہ انتخاب کرلیا تھا۔ اور عورتوں کو مزیدار باتیں کہنا اور مزیدار باتیں سننا دونوں مرغوب ہیں۔ چاہے ان میں حقیقت اسی قدر ہو۔ جتنی ان کی ہنڈیا میں نمک، اس لیے جب وہ خود ان کی کہانی انہی کی زبان میں بیان کرنے لگا۔ درآں حال یہ کہ اس سے پہلے انہوں نے جنات اور پریوں اور بادشاہوں اور شہزادیوں کی کہانیوں کے سوااورکوئی کہانی نہیں سنی تھی۔ تو انہوں نے اسے کمال توجہ سے سنا اور اس کی تخلیقات کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور کلیجوں سے لگایا۔ ان میں سے ایسی تو شاید ہی کوئی نکلی ہو، جسے سچ مچ اصغری بننے کی توفیق ارزانی ہوئی ہو۔ ہاں انہوں نے اپنی بہت سی بچیوں کا نام اصغری رکھ دیا۔ اوراگرکسی بچی کانام اکبری تھا تو اسے جھٹ سے بدل دیا۔
لیکن اس میں کوئی کلام نہیں کہ مولوی صاحب نے خانگی زندگی کا جو سانچہ پیش کیا تھا۔ اس میں ہمارے نچلے درمیانے طبقے کی آسودگی اور خوش حالی خوب خوب ڈھلی۔ اور انیسویں صدی کے آخر سے لے کر پہلی جنگ عظیم تک ڈھلتی ہی چلی گئی۔ تا آں کہ موجود دور کے عوامل نے زندگی کی قدروں میں ایک بنیادی انقلاب برپا کر دیا۔ اور آج ہماری گزشتہ قدریں مستقبل کی قدروں سے لرزہ بر اندام ہیں۔ اور ہمارے عمرانی نظام کی باگ ڈور درمیانے طبقے کے ہاتھوں سے نکل کر عوام کے ہاتھوں میں جارہی ہے۔ آج اصغری کی اپیل بے کار ہوچکی ہے۔ منفعت بازی اور سرمایہ اندوزی کا دور گزر چکاہے۔ اور آج کی عورت اپنی زندگی کے دور دراز افق پر ایک ایسا چھوٹا سانشان دیکھ رہی ہے۔ جو لخط بہ لخط بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور جو شاید اس کے لیے آزادی، مساوات اور معاشی فراغت کا ایک پیامِ تازہ لے کر آرہا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.