Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نداؔئے احتجاج: ندا ؔفاضلی

وسیم فرحت علیگ

نداؔئے احتجاج: ندا ؔفاضلی

وسیم فرحت علیگ

MORE BYوسیم فرحت علیگ

    غالبؔ نے کہا تھا کہ ،

    سنگ و خشت از مسجد ویراں می آرم بہ شہر

    خانہ ای در کوی ترسایان عمارت من کنم

    (میں ٹوٹی مسجد کے پتھر اور اینٹ کو شہر میں لاکر بت پرستوں کے محلے میںگھر بنا رہا ہوں)

    ندا ؔفاضلی کے بیش تر نقادوں نے (بشمول وارث علوی)ان کے رویہء احتجاج کی جانب کچھ کم کم ہی توجہ کی ہے۔میرے اس مختصر مضمون کا مقصد نداؔ کی شاعری کے اس ایک خاص حصہ پر روشنی ڈالنا ہے جہاں نداؔ احتجاج کی لیَ بلند کیے ہوئے ہیں۔اس سے پیش تر ان کے شعری میلان کا مختصر جائزہ ملاحظہ فرمائیں۔

    ٹھیک ویسے ہی جیسے چند احساسات اپنی زبردست تاثر انگیزی سے اپنے عنوانات کی معنویت کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں،اچھی شاعری خانہ بندی اور تحریکوں کے ایقان سے کئی میل آگے بڑھ جاتی ہے۔وہ شاعری ہی کیا جو محض اپنے متعینہ محدود دائرے میں قید ہوجائے۔شاعری اظہار کا ذریعہء ماورا ہے۔نثر میں اظہار مکاں کے اردگرد گردش کرتا ہے،قطع نظر اس کے،شاعری میں حدود ِ لامکاں تک جا پہنچتا ہے۔یہی اک اچھی شاعری کی علامت بھی ہے۔اب اس تناظر میں آپ نداؔ فاضلی کی شاعری کو دیکھیئے،ایک تروتازہ آواز پوری معنویت کے ساتھ ادائے مستانہ سے لہراتی ہوئی،ذات کے داخلیت اور خارجیت کی دیواروں سے ٹکراتی ہوئی صدائے بازگشت کا سا سماں باندھتی ہے۔یہ وہی صدائے بازگشت ہے جسے ہم تاثر پذیری کے نام سے جانتے ہیں۔یہ وہی ندرت آمیز آواز ہے جو کبھی تو بندرابن کے کرشنا تٹ پر سنائی دیتی ہے،کبھی مسجد سے دور کسی معصوم بچے کے مسکراتے ہوئے لبوں پر کھیلتی ہے،کبھی پنگھٹ پر گوریوں کی چھنچھناہٹ سے پیدا ہوتی ہے اور کبھی گرجا کی دعاوئوں اور گنبدوں کی اذانوں میں سنائی دیتی ہے۔یہی آواز نداؔکا شعری آہنگ ہے۔

    ندا فاضلی کی شاعری کو ترقی پسندی کی رخصت اور جدیدیت کی آمد کے گورکھ دھندوں میں الجھانا،ظلم سے کسی طور کم نہ ہوگا۔ان کا لہجہ ان کا اپنا لہجہ ہے،ان کے یہاں نہ ترقی پسندیوں کی جگالی نظر آتی ہے اور نہ جدیدیوں کی بیانیہ ڑولیدگی۔موضوعات کے انتخاب میں بھی نداؔ اپنے فوری پیش روئوں میں کسی سیبھی متاثر نظر نہیں آتے۔حتیٰ کہ کبیر،تلسی اور سور،ان تینوں داسوں سے ندا کا متاثر ہونا محض اتفاقی ہوسکتا ہے۔نظیر اکبر آبادی کے سماجی تفکرات بھی نداکی شاعری سے محض اس قدر ہی تعلق رکھتے ہیں جتنا ذاتی پسند یدگی کے لییدرکار ہو،بجز اس کے،ندا کی سرشت ان کی اپنی طبع زاد ہے۔

    ندا کی شاعری کاکل کی آرائش،لبوں کی ستائش،دور از قیاس تمثیلات اور بے محابہ نگاری کے فیشن ایبل عیبوںسے یکسر پاک ہے۔داخلیت اور خارجیت کے باہمی ٹکرائو میں نہ الجھتے ہوئے نداؔ فرد پر اپنی توجہ صرف کرتے ہیں،ان کی نگاہ میں فرد،صیغہء واحد نہ ہوکر ایک عالم کا نمائندہ ہے جس کی ذہنی پرداخت از حد ضروری ہے۔جس کے معاشرتی مسائل اور ان کے حل کے لیے سماجی محاسبہ ہونا چاہیے۔اور ایسا نہ ہونے پر ندا اس کا احتجاج بھی اپنی شاعری میں درج کراتے ہیں۔لہجہ کا یہی کھرا پن،واقعات کی شفافیت اور متکلم کی حاضری انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے۔ڈاکٹر راہی معصوم رضا نے لکھا ہے کہ ’جن تحریروں میں احتجاج نہیں ہوتا ،میں انہیں کھڑکی کے باہر پھینک دیتا ہوں‘۔ڈاکٹر صاحب کے طے شدہ کلیہ پر آپ ندا کی شاعری کو پرکھیے تو آپ محسوس کریں گے کہ جہاں کوئی ظلم ہوتا دکھائی دیا،ندا نے اپنی آواز بلند کی،اپنے شعروں اپنی نظموں سے احتجاج بلند کیا۔جہاںکہیں کوئی معصوم جرم ِ بے گناہی پر سزاوار ٹہرایا گیا،آپ نداؔ کو وہیں پائیں گے۔ملک کی تقسیم ہو،مذہب کے ٹھیکے داروں کی شدت پسندی ہو،فرد کا کرب ہو،قوم کے قائدین کی بے راہ روی ہو،غرض کہ ہر وہ شئے جو اپنے محور سے ہٹ گئی ہے، ندا اس کے خلاف اپنی سخت رائے کا اندراج اپنی شاعری سے کرتے ہیں۔

    یہ بات بھی قابل ِ غور ہے کہ نداؔ کا احتجاج محض چیخ و پکار نہ ہوکر اپنی منطقی اساس رکھتا ہے جس سے معاشرے کو مفید اور کار اؔمد وسائل مہیا ہو سکتے ہیں۔وگرنہ فی زمانہ احتجاج کینام پر بموں،توپوں اور قتل و غارت گری کے علاوہ کوئی اور شئے اردو شاعری میں دکھائی نہیں دیتی۔ندا کی شاعری میں احتجاج بھی خوش سلیقگی کے ساتھ اپنا تلخ و شیریں کام کرجاتا ہے۔نہ زیادہ گھن گرج اور نہ بہ طرز ِ سر گوشی۔ایک متوازن اور معتدل رویّے سے نداؔ اپنا احتجاج دنیا تک پہنچا دیتے ہیں۔ندا کے یہاں سماجی برائیوں کے خلاف احتجاج میں شاد عارفی کی طرح پھکڑپن نہیں ہے اور نہ حبیب جالب کی طرح اکہرا پن۔بلکہ شعری چاشنی اور تہذیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔یہی وہ امتیاز ہے جو دیگر وجودی اور احتجاجی شعرا سے ندا کو مستثنیٰ کرتا ہے۔

    ندا فاضلی کی شاعری علی الخصوص منظومات و علی العموم غزلیات میں نری جذباتیت ہی کارفرما نہیں ہے۔وہ جذبات اور منطق کی کچھ اس ڈھب سے آمیزش کرتے ہیں کہ ان کی شاعری صرف’ بڑے بروگ کی صدا‘ بن جانے سے بچ رہتی ہے۔ان کی نظمیں جذبہء وفور کے تحت اپنے عنوان سے نہیں ہٹتی ہیں۔ایک خاص تسلسل اور روانی کے ساتھ ساتھ منطقی لمس کی بناء پر ندا کی نظمیں دیر پا اثر رکھتی ہیں۔ندا کے ساتھیوں میں بشیر بدر،محمد علوی،کمار پاشی،زیب غوری وغیرہ اور نداؔ کابنیادی فرق یہی ہے کہ ندا فرد کو ایک مکمل اکائی سمجھتے ہیں جب کہ دوسروں کے یہاں یہی فر د مختلف خانوں میں بٹا معلوم ہوتا ہے۔بلکہ مجھے عرض کرنے دیجیے کہ اردو شاعری میں ابتداء ہی سے فرد مختلف کاموں پر مامور ہے۔خواجہ میردردؔ کے یہاں یہی فرد طریقت و عرفان میں غرق ہے،میرؔ کے یہاں دہلی کی تباہی کا عینی شاہد ہے،غالب کے یہاں تشکیک و عقیدہ کے مسائل کا حل تلاش کرتا نظر آتا ہے،ناسخ،داغ،راسخ،آرزو کے یہاں زبان کی تراش خراش میں مصروف دکھائی دیتا ہے،اقبالؔ کے یہاں خودی کا نعرہ بلند کرتے نظرآتا ہے۔غرض کہ ہر شاعر نے اسے اپنی اپنی فطرت کے مطابق حسب ِ دلخواہ امور پر معمور کر رکھا ہے۔استاد یگانہؔ چنگیزی پہلے شاعر ہیں جن کے یہاں فرد زندگی کے تمام رنگارنگیوں سے لطف اندوزاور تمام محرومیوں سے نبردآزما ہوتا دکھائی دیتا ہے۔یگانہؔ نے فرد کو مکمل اکائی کی طرح ایک مکملہ ذات سے روشناس کیا۔ٹھیک ویسے ہی نداؔ فاضلی کے یہاں بھی فرد اپنے رنج و اندوہ،غیص و غضب،فرحت و مسرت وغیرہ سے آنکھیںملاتا انہیں بھوگتا محسوس ہوتا ہے۔یہاں دیگر اساتذہ اور یگانہؔسے نداؔ کا تقابل میرا مقصد ہرگز نہیں ہے،ہو بھی نہیں سکتا۔

    نداؔجب اسی فرد کو معتوب دیکھتے ہیں تو اپنی خاض وضع سے اس کا احتجاج ضروری خیال کرتے ہیں۔یہی وہ وابستگی ہے جو انہیں سیدھا عوام کے دلوں میں پہنچا دیتی ہے۔ان کے شعروں میں لوگوں کو خود بیتی محسوس ہوتی ہے۔ان کے شعر محض احتجاجی لہجہ ہی نہیں رکھتے بلکہ قاری و سامع سے دلی وابستگی کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔قاری ان کی شاعری میں ہمدردی محسوس کرتا ہے۔اور اسی ہمدردری اور اپنائیت کی بناء پر نداؔ عوام کے دلوں میں مقام پیدا کرلینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔بقول جگرؔ،

    وہ نوائے دلبری ہو کہ ادائے عاشقانہ

    جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتحِ زمانہ

    یا پھر جگرؔ کی اسی غزل سے یہ شعر بھی نداؔ پر صادق آتا ہے،

    میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں

    ترا درد دردِ تنہا مرا غم غم ِ زمانہ

    سنجیدہ ادب کے علاوہ نداؔ صاحب کی دیگر فنون ِ لطیفہ کے ذریعے عوام تک رسائی بھی ان ہی کا حصہ ہے۔مختلف گلوکاروں نے ندا کی غزلیں و نظمیں کو ْسروں سے سجایا ہے۔یہاں بھی ندا خوش قسمت واقع ہوئے ہیں۔علم ِ موسیقی میں شاعری سے بھی کچھ نکلتی ہوئی اہمیت دْھنکو حاصل ہے۔دْھن اچھی ہو تو خراب شاعری بھی لوگ سننا پسند کر لیتے ہیں،حتیٰ کہ تیلگو سنیما کے گیت مہاراشٹر میں محض اپنی اچھیدْھن کی وجہ سے پسند کیے جاتے ہیں۔ندا کی بیش تر

    تخلیقات کو خوبی ِ قسمت سے دْھنیں بہت اچھی میسر آئی ہیں۔غلام علی،جگجیت سنگھ،پنکج ادھاس وغیرہ گلوکاروں نے بہترین طرزوں میں ندا کی شاعری کو منظر ِ عام پر لایا ہے۔نداکی مقبولیت میں ان گلوکاروں نے بھی بہت اہم کردار نبھایا ہے۔اچھی دْھنیں بھی ندا کے لیے تبرک کا درجہ رکھتی ہیں۔وگرنہ ان ہی گلوکاروں کی خراب دْھنوں میں استاد یگانہؔ و سیماب کی غزلیں بھی اول سماعت میں ہی پسندنہیں کی گئیں۔بہر کیف۔

    نداؔ فاضلی کی شاعری دلوں میں گھر کر لینے والی شاعری ہے۔ان کا شعری احتجاج بہ ہر طور قابل ِ ستائش ہے۔خود فراموشی اور فریب ِ آرزو کے خلاف یہی ندائے احتجاج انھیں جدیدیوں کے ہجوم میں انفرادیت بخشتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے