Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نسوانی اداؤں کی رمز شناس:عصمت چغتائی

وصیہ عرفانہ

نسوانی اداؤں کی رمز شناس:عصمت چغتائی

وصیہ عرفانہ

MORE BYوصیہ عرفانہ

    اردو افسانے کے منظر نامے میں عصمت چغتایٔ جو موضوعات ،مسائل اور انداز تحریر لے کر داخل ہوئیں،وہ ایک نئے عنوان سے عبارت ہے۔انہوں نے ایک سہمے سمٹے مسلم متوسط طبقے کے معاشرے کی بے اختیار اور مجبورعورتوں کے داخلی تضادات اور نفسیات کو ابھار کر ان کے مسائل کو نمایاں کیا۔اپنی کہانیوں کے حوالے سے عصمت نے عورتوں کے لئے مساوات اور سماجی انصاف کی آواز بلند کی۔گویا انہوں نے مروجہ اور فرسودہ رسوم و اقدار سے بغاوت کا اعلان کیا جو عورتوں اور مردوں کے لئے الگ الگ رویہ روا رکھتا ہے۔ان کا یہ انکشاف بھی تحیر خیزتھا کہ مقید اور محدود معاشرے میں عورتوں کے اندر بھی جنسی کج روی پنپ سکتی ہے،چنانچہ انہوں نے عورتوں کے لئے بھی جنسی آ زادی کو ضروری قرار دیا ۔ عصمت چغتائی کا مقصد دراصل سماج کی ان ناہمواریوں کی نشاندہی کرنا تھا جو استحصال کے نتیجے میں جنم لیتی ہیں۔وہ انسانوں کے مابین کسی بھی قسم کی تفریق کی روادار نہ تھیں، خواہ وہ طبقاتی ہو یا جنسی۔ان کے افسانے در حقیقت اسی تفریق کے خلاف احتجاجی آواز ہیں۔عصمت چغتائی نے اعلیٰ طبقے کی ریا کاریوں کا پردہ فاش کیااور متوسط طبقے کی مصلحت کوشیوں کو بھی نشانہ بنایا۔عصمت نے دو ٹوک،بے باک اور سرکش انداز میںسماجی مسلمات کی دھجیاں بکھیریں اور زندگی کی بعض خفیہ حقیقتوں کی عکاسی کی۔اس عکاسی میں وہ اپنے مخصوص طرز ادا اور اسلوب کے ذریعے جان ڈال دیتی ہیں۔متوسط طبقے کی بیگماتی اور محاوراتی زبان عصمت کے یہاں پہلی بار اپنی تخلیقی قوت سے آشنا ہوئی۔آل احمد سرور کا یہ خیال درست ہے :

    ’’وہ ایک باغی کا ذہن ،ایک شوخ عورت کی طلاقت لسانی،ایک فنکار کی بے لاگ اور بے رحم نظر رکھتی ہیں۔‘‘

    (’’تنقیدی اشارے‘‘، ادارہ فروغ اردو،لکھنؤ،اشاعت:۱۹۸۳ء ، ص:۴۲)

    عصمت چغتائی اپنے موضوعات کی ندرت،حقیقت کے بیان میں غیر معمولی جسارت اور بیانیہ پر مضبوط گرفت کی وجہ سے راجندر سنگھ بیدی،کرشن چندر،سعادت حسن منٹو وغیرہ جیسے عہد ساز افسانہ نگاروں کی صف میں شامل ہو کر اردو افسانے کا چوتھا ستون قرار پائیں۔

    عصمت چغتائی کا تخلیقی سفر بیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے شروع ہوتا ہے۔ یہی وہ عہد تھا جب ’انگارے‘ کی اشاعت نے نئی نسل کے طرز فکر و احساس پر انقلاب انگیز اثرات مرتسم کئے۔’انگارے‘ کے افسانے دراصل معاشرے کے مروجہ اخلاقی اقدار اور سماجی کجرویوں کے خلاف ایک بغاوت تھے۔انگارے نہ صرف موضوعاتی سطح پر روایت سے انحراف تھا بلکہ یہ فن اور تکنیک کا بھی نیا تصور تھا۔انگارے کے مصنفین میں ایک اہم نام تھا ڈاکٹر رشید جہاں کا جنہوں نے عورتوں کی معاشرتی حیثیت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔انہوں نے اپنی کہانیوں کی وساطت سے عورت و مرد کے لئے یکساں حیثیت اور یکساں ضابطہ اخلاق کی آواز بلند کی۔انہوں نے متوسط مسلم گھرانوں کی زندگی اور وارداتوں کا بیان اسی طبقے کی زبان اور محاوروں کے حوالے سے کیا۔دراصل رشید جہاں نے سماج کی جن نا ہمواریوں اور عورتوں کی دبی کچلی شخصیت کی جیسی جھلکیاں دکھائیں،عصمت کا افسانوی منظر نامہ اسی کی مکمل اور جاندار تصویر کشی سے عبارت ہے۔ عصمت چغتائی سے قبل خواتین افسانہ نگاروں کے افسانے زیادہ تر اخلاقی تعلیمات اور اصلاح معاشرہ جیسے موضوعات پر مبنی ہوا کرتے تھے۔ان کہانیوں کے کردار روایتی ہوا کرتے تھے جن میں عام معلومات کی بھی کمی رہتی۔روایت کے ایسے ہی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں عصمت نے ان باتوں کو بھی بہ بانگ دہل کہنا شروع کیا جنہیں عورتیں سرگوشیوں میں کرنا بھی اخلاقی طور پر برا سمجھتی تھیں۔قرۃالعین حیدر نے درست لکھا ہے :

    ’’عصمت چغتائی نے اردو افسانوں اور ناولوں میں جرأت و بے باکی کی ایک نئی مثال قائم کی۔ان شعلہ بار تحریروں نے ان لکھنے والیوں کو پس پشت ڈال دیا،جن کا انداز رومانی تھا اور جو دبے دبے الفاظ میں اپنی بات کہتی تھیں۔ادب میں ان کی جگہ باغیانہ سماجی حقیقت پسندی نے لے لی۔‘‘

    (بحوالہ صغرا مہدی،’’نیا افسانہ: مسائل اور میلانات‘‘ مرتبہ قمر رئیس ،اردو اکادمی،دہلی ،اشاعت:۱۹۹۲ء ،ص:۳۹)

    عصمت چغتائی اپنے افسانوں کے حوالے سے جس معاشرے کی زندگی کو پیش کرتی ہیں،وہ جاگیر دارانہ اور زمیندارانہ زوال پذیر معاشرہ تھا۔اس معاشرے میں عورتوں کی حالت سب سے زیادہ قابل رحم تھی جسے تعلیم کی روشنی سے محروم رکھا جاتا تھا لیکن وفا شعاری،شوہر پرستی اور پاکبازی کی تلقین گھول گھول کر پلائی جاتی تھی تاکہ وہ کسی بھی قسم کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرأت نہ کریںاور مردانہ سماج کی ہر روش پر سر تسلیم خم کرنے کی خوگر ہوں۔عصمت نے اپنے افسانوں کے حوالے سے مردوں کی جبریت کے اسی پیراہن کو تار تار کرنے کی کوشش کی،ساتھ ہی انہوں نے عورتوں کی کمزوریوں کو بھی نشانہ بنایا۔عصمت کا احساس شدید اور مشاہدہ گہرا تھا۔وہ چھوٹی سے چھوٹی بات کو وسیع پس منظر میں پیش کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ان کی نظر نہ صرف معاشرتی نا ہمواریوں پر رہتی ہے بلکہ وہ انسانی نفسیات کی گہرائیوں میں بھی غوطہ زن ہوتی ہیں۔انہوں نے خاص طور پر ایسی لڑکیوں کو اپنے مطالعے کا موضوع بنایا جن میں جنسی احساس پہلی بار موہوم کروٹ لے رہاہو۔ایسی لڑکیوں کے نفسیاتی پیچ و خم،ان کے خیالات و احساسات،ان کی نشست و برخاست اوردیگر چھوٹی بڑی باتوںکا تجزیہ وہ بڑے ماہرانہ اور فنکارانہ انداز سے کرتی ہیں۔عصمت کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے عورت ہونے کے ناتے عورتوں کے ذہن و دل کی پر پیچ اور دشوار گذار راہوں کا سفر نہایت باریکی سے کیا ہے۔اس سلسلے میں سعادت حسن منٹو کا خیال ہے:

    ’’عصمت اگر بالکل عورت نہ ہوتی تو اس کے مجموعوں میں بھول بھلیاں،تل،لحاف،اور گیندا جیسے نازک اور ملائم افسانے کبھی نظر نہ آتے یہ افسانے عورت کی مختلف ادائیں ہیں۔صاف۔شفاف۔ہر قسم کے تصنع سے پاک۔یہ ادائیں۔وہ عشوے،وہ غمزے نہیں جن کا تیر بنا کر مردوں کے دل اور کلیجے چھلنی کئے جاتے ہیں۔جسم کی بھونڈی حرکتوں سے ان اداؤں کا کوئی تعلق نہیں۔ان روحانی اشاروں کی منزل مقصودانسان کا ضمیر ہے جس کے ساتھ وہ عورت ہی کی انجانی ۔ان بوجھی مگر مخملیں فطرت لئے بغل گیر ہو جاتے ہیں۔‘‘

    (’’عصمت چغتائی‘‘ مشمولہ ماہنامہ ’مکالمات‘ عصمت چغتائی نمبر ،دسمبر ۱۹۹۱ء ،ص:۵۸)

    عصمت کے پہلے ہی افسانے ’گیندا‘ میں دو نو عمر لڑکیوں کی نفسیاتی وارداتوں اور لا شعوری دلچسپیوں کا نازک اور پر لطف بیان ملتا ہے۔یہ معصوم اور شریر بچپن کی حدوں سے نئی عمر کی سرحدوں میں داخل ہوتی ہوئی لڑکیاں ہیں جو اپنی فطرت کی تکمیل کے لئے دلہن دلہن کا کھیل چھپ چھپ کر کھیلتی ہیں۔فطری تبدیلیاں ان کے اندر مختلف اور پر اسرار احساسات پیدا کرتے ہیں مگر ان احساسات کی شناخت سے نا آشنا ان کا ذہن ہمیشہ’’ارے،مگر آخر کیوں؟‘‘وغیرہ پر آکر اٹک جاتا۔الجھا ہوا ذہن بے تعلقی اور بیزاری کی ایک بے نام سی کیفیت میں ڈوبنے لگتا گویا سارے راستے گم ہو گئے ہوں۔

    اس کہانی میں ایک نو عمر لڑکی اپنے بڑے بھائی اور کمسن دھوبن گیندا کے جنسی تعلقات اور باہمی اختلاط کا مشاہدہ کرتی ہے مگر یہ باتیں اس کی فہم و ادراک سے بالاتر ہیں۔اس لئے اس کے ذہن میں اتھل پتھل پیدا ہوتی ہے۔یہ بات اس کے لئے نہایت حیرت انگیز تھی کہ جس بھائی سے سبھی ڈرتے ہیں جن میں وہ خود بھی شامل ہے ،وہی بھائی گیندا کا طمانچہ کھانے کے بعد الٹا اسے سینے سے لگا کر پیار کرتا ہے۔یہی واقعہ اس کے اندر بھی جنسی بیداری کی لہریں پیدا کرنے کا محرک بن جاتا ہے اور وہ ان احساسات کے تجربے سے گذرنے کے لئے بوڑھے مالی کو اپنی طرف مائل کرنے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔احساسات کی لرزشوں اور نا آگہی کی کشاکش سے وہ نڈھال ہو جاتی ہے تو اس کیفیت سے نجات کی راہ گیندا سے پرسش میں ہی نظر آتی ہے۔

    ’’گیندا برآمدہ میں سے لپک کر اتری۔میں سمجھ گئی کہ میرے سوالوں کا جواب وہی دے سکتی ہے۔ گیندا مجھے کتنی باتیں بتاتی تھی۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا۔’’کچھ نہیں۔‘‘وہ مکاری سے اترائی۔مگر فوراًہی ایک تنہا گوشے میں بیٹھ کر ہم دونوں ’عجیب عجیب باتیں سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔گیندا نے افوہ! کتنی باتیں بتائیں۔’’ارے،مگر آخر کیوں؟ ‘‘ میں نے سب کچھ سن کر سوچا۔‘‘

    عصمت کی ابتدائی کہانیوں میں اشارے کنائے کا یہی انداز انہیں بڑی انفرادیت عطا کرتا ہے۔لڑکیوں کی آپسی نا گفتہ بہ باتوں کی تفصیل محض ایک اشارے ’کیوں،کیسے اورارے؟‘ کے ذریعے بیان کر کے وہ ایک وسیع پس منظر کی تشکیل کرتی ہیں۔عورت کی فطرت کی پر اسراریت کو عصمت بے پایاں فنی بصیرت اور غیر معمولی ادراک سے گرفت میں لیتی ہیں۔یہی گیندا جو اپنی عمر کے پیچ و خم سے ناواقف ہے،جب اعلیٰ طبقے کے ایک فرد کی جبر کا شکار ہو کر ایک ننھے سے بچے کی ماں بنتی ہے تو اس کے اندر ممتا کے جذبے کی ساری کروٹیں ابھرآتی ہیں۔وہ بچے کے پیر میں کالا ڈورا باندھتی ہے کہ کسی کی نظر نہ لگ جائے۔سماجی بندشوں کو توڑنے کی پاداش میں بے شمار اذیتیں سہنے کے باوجود اسے اپنے بچے سے پیارا کوئی نہ تھا اور وہ شخص بھی اسے بہت عزیز تھا جو اس بچے کے وجود کا باعث بنا۔یہ بھی عورت کی فطرت کا ایک انوکھا پہلو ہے جس کی جھلک عصمت نے نہایت کامیابی سے دکھائی ہے۔

    عصمت چغتائی نے ’گیندا‘میں نوعمر رجحانات کی عکاسی کی ہے تو ’جال‘ میں ان حسوں کی باز یافت کی ہے جو عہد بلو غیت سے منسوب ہوتی ہیں۔’جال‘ میں متوسط طبقے کی دو نوجوان لڑکیاں ہیں۔۔۔۔ صفیہ اور عطن، جن کی بڑی بہن کو ان کے ایک کزن تحفہ تحائف بھیجا کرتے تھے۔ایک دن دونوں لڑکیوں کو تحائف میں سے ایک ریشمی جال ہاتھ لگ جاتا ہے جو در اصل ایک خوبصورت چولی ہے۔اس جال کو پاکر وہ شرم بھی محسوس کرتی ہیں اور لذت بھی۔اس کے استعمال پر غور کرتے ہوئے ان کا ذہن الجھنے لگتا ہے۔ آخر کار عطن کی خوابیدہ حسیں جاگ اٹھتی ہیں اور۔۔۔۔۔

    ’’فیتوں کا مختصر سا جال اس کی انگلیوں میں الجھنے لگا۔اس نے دونوں ہاتھ سے بھینچا پھر چھوڑ دیا۔سر سے سانپ کی کینچلی کی طرح مچل کر بکھر گیا ۔دوسرے لمحے پر پرزوں سے آزاد ہو کر ٹھنڈے اوس میں بھیگے ہوئے پھولوں کے جال میں جکڑ گئی۔ایسا معلوم ہوا وہ اوپر اٹھنے لگی اور بہت اوپر ہلکی پھلکی مہکتی ہوئی تیتری کی طرح۔سانس زور زور سے چلنے لگی۔آنسوؤں کی چلمن نے پھولوںکے تختوں کو جھومتے دیکھا۔بیٹھے بیٹھے تشنج سے انگلیاں اینٹھنے لگیں ہنسی ہنسی سوئیاں کھٹکنے لگیں۔‘‘

    عصمت چغتائی بڑی دیدہ ریزی اور خلوص سے ایک خاص عمر کی لڑکیوں کی زندگی اور احساسات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ اس نوع کی عکاسی میں انہیں خاص مہارت حاصل ہے۔’’نیا افسانہ‘‘ میں وقار عظیم لکھتے ہیں :

    ’’عصمت نے شباب کی منزل میں پہلا قدم رکھنے والی لڑکیوں کی زندگی کے جو رنگ برنگے نقوش اپنے افسانوں میں ہمیں دکھائے ہیں،وہ انہوں نے گہرے مشاہدے اور براہ راست مطالعے سے حاصل کئے ہیں اور اس لئے ان تصویروں کے پردے میں ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے،اسے ہم اس طرح ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں جیسے کوئی ماہر فن اپنی ساری زندگی کے تجربہ اورتحقیق کا نچوڑ ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے۔‘‘

    (’’عصمت کا فن : افسانوں کی روشنی میں‘‘ مشمولہ’ عصمت چغتائی نقد کی کسوٹی پر‘ ، ص:۵۷۴)

    عصمت چغتائی کو اس بات پر بھی اصرار تھا کہ ان کے افسانوں کی اساس ان کے مشاہدات و تجربات پر ہے ،اس لئے ان کے افسانے حقیقت کی مصوری نہیں بلکہ فوٹو گرافی ہیں ۔ان کے اصرار کا وزن اس لئے بھی بڑھ جاتا ہے کہ ان کے زیادہ جرأت آمیز افسانے بیشتر صیغۂ واحد متکلم میں تحریر کردہ ہیں جس سے واقعات کے بیان میں خود نوشت کا تاثر ابھرتا ہے اور باتیں قرین قیاس معلوم ہونے لگتی ہیں۔دراصل جنس کا شعور ان کے یہاں بہت واضح ہے۔وہ نفسیاتی تجزئیے کے ذریعے جنسی مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔عصمت چغتائی کا مقصد عورتوں کو جنسی گھٹن،جنسی کشمکش اور جذباتی الجھنوں کے گھیرے سے نکالنا تھا۔ان کا مشاہدہ تھا کہ جنس کا موضوع گھٹے ہوئے ماحول اور پردے میں رہنے والی عورتوں کے لئے بہت اہم ہے جو بعض اوقات جنسی مرض کی شکل اختیار کر لیتا ہے،جس میں نو جوان لڑکیوں کے علاوہ کبھی کبھی با شعور عورتیں بھی گرفتار ہو جاتی ہیں ۔عصمت کی باریک بیں نظر ایسے تمام مذموم افعال تک پہنچ جاتی ہیں خواہ وہ ’لحاف‘ کے اندر وقوع پذیر ہو رہے ہوں۔

    ’لحاف‘ دراصل بے جوڑ شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی المناکیوں میں سے ایک صورت ہے۔بیگم جان کی شادی ایک پختہ عمر کے نواب صاحب سے ہوئی تھی۔بیگم جان کے غریب والدین نے ان کی پکی عمر کو اس نیکی کے طفیل نظرانداز کر دیا تھا کہ کبھی کوئی بازاری عورت ان کے یہاں نظر نہ آئی۔حالانکہ پس پردہ بات یہ تھی کہ نواب صاحب نو جوان اور نو خیز لڑکوں کی رفاقت میں غیر فطری طریقوں سے جنسی تسکین حاصل کرنے کے عادی تھے اور انہیں عورت میں کوئی دلچسپی نہیں محسوس ہوتی تھی۔نتیجہ یہ ہو ا کہ فطری تقاضوں سے مجبور ہو کر بیگم جان اپنی گھریلو ملازمہ کے ساتھ ہم جنس پرستی کی لعنت میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔اس کہانی کی راوی ایک کمسن بچی ہے جس کے معصوم تجسس کی آڑ میں واقعے کا گھناؤنا پن چھپ جاتا ہے اور موہوم اشاروں کے ذریعے قاری تک صورت حال کی تفصیل منتقل ہو جاتی ہے۔عصمت نے اس کہانی کے حوالے سے اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ ایک نا ساز گار ماحول،غیر تشفی بخش حالات اور مرد کا غیر فطری جنسی طریق اس کی شریف اور سیدھی سادی بیوی کو بھی غلط راستوں کا راہی بنا سکتا ہے۔

    عصمت چغتائی نے مختلف محرکات اور اسباب و عوامل کے نتیجے میں پنپنے والی جنسی کجرویوں کی متعدد صورتوں کو اپنے افسانوں کے حوالے سے پیش کیا ہے۔مثلاً سن بلوغت کے آ غاز میں پلنے والے جنسی گناہوں کی تصویریں ’گیندا‘ ، ’تاریکی‘ اور ’بھول بھلیاں‘ میں ملتی ہیں۔اونچے طبقے کی آزاد خیال عورت کی لغزشیں ’خدمت گار‘ میں نمایاں ہیں تو ’جوانی‘ اور ’تل‘ میں نچلے طبقے کی گمراہیوں کا بیان ہے۔خلاف وضع اور غیر فطری جنسی طریق کا تجزیہ ’لحاف‘ کے وسیلے سے پیش کیا ہے۔جبریہ شادی کی المناکیوں کا بیان ’نفرت‘ میں ملتا ہے۔عصمت کے یہاں یہ اشارے ملتے ہیں کہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں کامیاب اور مطمئن ازدواجی جوڑے اہم رول ادا کرتے ہیں۔ان کے خیال میں گہری واقفیت اور آپسی محبت کی بنیاد پر قائم ہونے والی شادیاں عموماً زیادہ کامیاب ہوتی ہیں خواہ ان میں مذہب اور ذات پات کی تفریق ہی کیوں نہ ہو۔’کافر‘ ،’ڈھیٹ‘ ،’میرا بچہ اور ’پنکچر‘ اس ذیل کے افسانوں میں اہم ہیں۔

    عصمت چغتائی نے اپنے افسانوں میں حقیقت نگاری کی ابتدا جنس کے توسط سے کی جس میں انہوں نے اشاروں کنایوں کا انداز اختیار کیا۔ابتدائی دور میں ان کا مشاہدہ بھی محدود تھا اور موضوعات کا پس منظر بھی۔وہ بیشتر افسانوں کا تانابانا گھر کی اندرونی فضا میں بنتی ہیں۔یہ الگ سی بات ہے کہ محدود موضوعات اور دائرہ عمل کوبھی وہ اپنی باریک بینی اور ژرف نگاہی سے وسعت عطا کر دیتی ہیں۔بعد ازاں،بمبئی میں قیام کے دوران ترقی پسند تحریک سے وابستگی اور اشتراکی نظریات سے ذہنی قربت کے نتیجے میں حقیقت نگاری کے روئیے نے ان کے فن میں دوسری کروٹ لی۔اب ان کے مشاہدے میں زیادہ گہرائی اور وسعت ملتی ہے اور سماجی شعور کی پختگی بھی نمایاں ہوتی ہے۔اشاروں کنایوں کا پردہ حائل نہ رہا۔انہوں نے جنسی حقیقتوں سے سماجی صداقتوں کی جانب قدم بڑھایا۔اس زمانے میں ملک کے نوجوانوں کے سامنے سب سے اہم مسئلہ معاشی مسئلہ تھا۔ ان مسائل کی شدتوں اور نزاکتوں کو عصمت نے نہایت گہرائی سے محسوس کیا۔ علاوہ ازیں ،بمبئی کی رہائش کے دوران ان کا واسطہ نچلے طبقے سے پڑا اور انہوں نے محسوس کیا کہ مسائل صرف متوسط طبقے کی گھٹی ہوئی فضا میں ہی جنم نہیں لیتے بلکہ ایک بڑے شہر کی کھلی فضا میں بھی طبقاتی کشمکش ،سیاسی ظلم و جبر اور جذباتی و معاشی استحصال جیسے مسائل پنپتے ہیں۔انہوں نے سماجی اور سیاسی نظام کے کھوکھلے پن کو محسوس کیا اور اپنے فنکارانہ شعور کے سہارے پر تصنع اور فرسودہ معاشرے کی ریاکاریوں کا پردہ فاش کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔اہم بات یہ ہے کہ اس نوع کی حقیقت نگاری کی پیشکش میں بھی انہوں نے بیشتر کہانیوں کا مرکز ’’گھر‘‘ کو ہی بنایا۔’بیکار‘ ، چوتھی کا جوڑا ‘، ’ننھی کی نانی‘ ،’دو ہاتھ‘ ، ’کلو کی ماں‘ ، ’نیند‘ ، ’بہو بیٹیاں‘ وغیرہ ان کے ایسے افسانے ہیں جن سے ان کا گہرا سماجی شعور واضح ہوتا ہے۔

    سماجی جبر اور اقتصادی بد حالی کس طرح ایک اچھے خاصے محبت کرنے والے کنبے کے مابین خلیج حائل کر دیتا ہے اور شکوک و محرومیوں کے جذبات رشتوں کو المناک انجام تک پہنچا دیتے ہیں،اس المیے کو عصمت نے ’بیکار‘ کے حوالے سے پیش کیا ہے۔’بیکار‘ ایک ستم زدہ جوڑے کی کہانی ہے۔باقر میاں کی بیکاری کے دوران جب ایک ایک کرکے سارے زیورات بک گئے اور مزید قرض ملنے کے امکانات نہ رہے تو ہاجرہ نے افراد خاندان کی پرورش کے لئے ایک اسکول میں عارضی ملازمت کرلی۔ لیکن یہ اقدام اس کے لئے بے شمار ذہنی اور جسمانی مسائل کھڑا کر دیتا ہے۔ایک جانب پڑوسنیں اسے مشتبہ نظروں سے دیکھتی ہیں تو دوسری طرف ساس کی فرسودہ دلیلوں اور شوہر کے شکی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مستزاد یہ کہ بڑی استانی کو رام کرنے کیلئے اسے تدریسی فرائض کے علاوہ اضافی کام بھی انجام دینے پڑتے ہیں اور بڑی استانی کے گھر کی سلائی بُنائی کی ذمہ داریاں بھی اٹھانی پڑتی ہیں۔ خانگی کشمکش اوراسکول میں کاموں کے بوجھ سے جوجھتے جوجھتے وہ اعصابی تناؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔محرومی اور بے بسی کے شکار باقر میاں بد مزاج اور چڑے چڑے ہو جاتے ہیں۔اس تمام صورت حال کے نتیجے میں دونوں کی ازدواجی زندگی کی بنیاد کھوکھلی ہونے لگتی ہے۔سماج کے طعنے اور ماں کی مختلف طرح کی کان بھرنے کی باتیں باقر میاں کے دل کو بیوی کی طرف سے پھیرتے ہی ہیں ،ان کے اپنے وجود کو بھی اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتے ہیں۔آخر کار وہ حالات سے مغلوب ہو کر خود کشی کر لیتے ہیں۔

    یہ کہانی اخلاق کی روایتی اور پامال قدروں کی آئینہ دار ہے ۔عصمت نے اس افسانے میں عورت اور مرد کے درمیان مساوات کی ضرورت پر وسعت نظری اور پختہ شعور کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔انہوں نے اس کہانی کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا ہے کہ مرد کما کر لاتا ہے تو بیوی اس کی خدمتیں کرتی ہے مگر جب بیوی کماتی ہے تو مرداسے اپنے خلوص اور محبت تک سے کیوں محروم کر دیتا ہے۔

    ’چوتھی کا جوڑا‘ان لڑکیوں کی علامت ہے جو اپنی غربت اورکسمپرسی کی وجہ سے بن بیاہی رہ جاتی ہیں۔کبریٰ ایک ایسے گھرانے کی لڑکی ہے جس کی حالت ماضی میںبہتر تھی لیکن وقت کی ستم ظریفی نے انہیں مفلوک ا لحال بنا دیا۔کبریٰ کا پیغام کہیں سے نہیں آتا۔کبریٰ کی ماں اپنی عسرت اور مفلسی کے باوجود اس کے جہیز کے لئے سامان سینت سینت کر رکھتی ہے۔ایک رشتہ دار نوجوان نا خواندہ مہمان کی حیثیت سے ان کے گھر آتا ہے۔اس توقع پر کہ وہ کبریٰ سے شادی کے لئے رضامند ہو جائے گا،اس کی استطاعت سے بڑھ کر خاطر مدارات کی جاتی ہے۔لیکن وہ اپنا وقت نکال کران کے گھر سے روانہ ہو جاتا ہے اور جاتے جاتے کبریٰ کی چھوٹی بہن کا جبریہ استحصال کر جاتاہے۔کبریٰ دق زدہ ہو کر موت کی بانہوں میں چلی جاتی ہے۔اس کے بعد کبریٰ کی ماں جو سلائی کی ماہر تھیں۔

    ’’کفن کے لٹھے کی کان نکال کر انہوں نے چو پرچہ تہہ کیا اور ان کے دل میں انگنت قینچیاں چل گئیں۔آج ان کے چہرے پر بھیانک سکون تھا جیسے انہیں پکا یقین ہو کہ دوسرے جوڑوں کی طر ح چوتھی کا یہ جوڑا سینتا نہ جائے گا۔‘‘

    یہ افسانہ نہ صرف معاشرے کی اخلاقی بد حالی کا مظہر ہے بلکہ ایک سوالیہ نشان بھی کھڑا کرتا ہے کہ کیا غریب لڑکیوں کو جوانی کی سناؤنی کی خبر سن کر ہی مر جانا چاہیئے ؟ محمد حسن اس کہانی کے سلسلے میں لکھتے ہیں :

    ’’عصمت کی کہانیوں کا ذکر ’چوتھی کا جوڑا‘ افسانے کے بغیر ادھورا رہے گا۔افسانے میں مسلم گھرانوں میں رشتوں کی تلاش دکھائی گئی ہے اور اپنے ہونے والے شوہر کے خواب دیکھنے والی لڑکیوں کے معصوم ارمانوں کی تصویر کشی اس خوبی سے کی گئی ہے کہ اس معاشرے کی پوری گھٹن،لڑکیوں کی بے زبانی اور مجبور جوانیوں کی کشمکش انسانی المیے کی شکل میں ابھر کر سامنے آ گئی ہے۔‘‘

    (’’ایک روشن خیال خاتون:عصمت چغتائی‘‘،ماہنامہ آجکل،جنوری ۱۹۹۲ء ،ص:۱۴)

    عصمت چغتائی بنیادی طور پر اپنے افسانوں کی اساس حقیقت نگاری پر رکھتی ہیں۔حالانکہ واقعات کے تجزئیے میں ان کے یہاں زیادہ تر خارجیت کا انداز ملتا ہے لیکن دردمندی کا احساس ان کے افسانوں میں جسم میں روح کی مانند جاری و ساری رہتا ہے۔اس سلسلے میں ممتاز شیریں کی یہ رائے بڑی اہمیت رکھتی ہے :

    ’’عصمت چغتائی بڑے مطمئن انداز میں مختلف ا لنوع موضوعات اور زندگی کے کئی پہلوؤںکو تیز نظروں سے جانچتی ہیں اور انہیں پورے قابو اور توازن کے ساتھ پیش کر دیتی ہیں،یوںتو ان کے موضوعات متنوع ہیں۔ان سب کو ایک عنوان کے تحت سمیٹا جا سکتا ہے یعنی انسانی رشتے اور ذاتی تعلقات۔‘‘

    (رسالہ نیا دور،کراچی نمبر،شمارہ ۲۹۔۳۰،ص:۴۳)

    عصمت چغتائی کا ذہن بہت زرخیز تھا۔معاشرے کی ہر کروٹ،ہر اشارہ ان کے لئے ایک کہانی کا عنوان بن جاتا ہے ۔ وہ محسوسات کے لطیف ارتعاشات کو بڑی مضبوطی سے گرفت میں لیتی ہیں۔انہوں نے زندگی کی پنہاں عمیق گہرائیوں پر بڑی باریک بینی سے نظر ڈالی ہے اور تمام جزئیات کے ساتھ انہیں اپنے افسانوں کے توسط سے پیش کر دیا ہے۔عصمت کے افسانے زندگی کی بعض مخفی صداقتوں کے حوالے سے نئی منزلوں کا پتہ دیتے ہیں۔

    ’اس کے خواب‘ ایک متوسط طبقے کے ایسے نو جوان کی فطری اور جبلی خواہشات کی نا آسودگی کی کہانی ہے جس نے زندگی میں کامیابی و کامرانی نہیں دیکھی۔ ’ایک شوہر کی خاطر‘ میں انہوں نے معاشرے کی اس ذہنیت کو تمسخرانہ انداز میں نشانہ بنایا ہے جو غیر شادی شدہ لڑکیوں کو عقابی نظر سے دیکھتا ہے اور انہیں قابل رحم سمجھتا ہے۔ ’کلو کی ماں‘میں عصمت نے معاشرے کے ایسے مجبور اور بے کس کردار کو پیش کیا ہے جسے ہم رشتہ دار مانتے ہوئے کتراتے ہیں اور بڑے حق کے ساتھ نوکروں والے حقوق سے بھی محروم رکھتے ہیں۔’وہ کون تھا؟‘میں انہوں نے دو نو زائیدہ بچوں کے توسط سے مختلف فرقوں کی سیاسی چالوں،ریا کاریوں اور مفاد پرستی کو پیش کیا ہے۔’امر بیل‘ ان مردوں کے ہوسناک رویوں کے لئے ایک تازیانہ ہے جو اپنی عمر کے حساب اور اپنی توانائی سے لا پرواہ ہو کر شباب بلا خیز کو گلے سے لگاتے ہیںاور با لآخر اپنی ہی احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔’پیشہ‘ میں ایک طوائف کے پیشہ ورانہ رویہ کا تجزیہ کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ہر پیشے کی اپنی ادائیں اور اپنے گُر ہوتے ہیں۔’اپنا خون‘میں ایک عیاش نواب کی بد کاریوں اورگمراہیوں کا بیان ہے اور اس پر قربان چڑھ جانے والی معصوم روحوں کی المناکیاں بھی اس میں نمایاں ہوئی ہیں۔’ساس‘ میں ساس بہو کا روایتی موضوع ہے تو ’ڈائن‘ میںساس کے تئیں داماد کے معاندانہ رویہ کا تجزیہ بڑے دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے۔بچپن کو بے فکری کا زمانہ اور مسرت سے لبریز گھڑیوں کا نا م تو سبھی نے دیا ہے مگر عصمت نے جس طرح ’بچپن ‘کی ٹانگ کھینچی ہے،وہ اپنے طرز کی واحد چیز ہے۔’اُف یہ بچے‘ بچوں کی جان لیوا شرارتوں اور معصوم قیامتوں کا پشتارہ ہے۔’عشق پر زور نہیں‘ دو ایسے ادھیڑ مرد و عورت کی کہانی ہے جو احساسات کی تنہا دنیا میں ایک دوسرے کے ہمسفر بن جاتے ہیں۔’نوالہ‘ یا ’بر کی طلب‘ ادھیڑ عمری میں بر کی تلاش کی کہانی ہے۔’چارپائی‘ میں چار شادیاں اور اس کے نتائج کا بیان ہے۔’لیڈی کلر ‘یا ’بھابھی‘ یا ’چٹان‘اس عاشق پیشہ مرد کی کہانی ہے جو ہر آن نئی نئی لہروںکو اپنے قدموںپر سر پٹکتے دیکھنے کی ہوس میں مبتلا تھا۔’نیرا‘ معاشرے کا ایک قابل رحم کردار ہے جو اعلیٰ طبقے کی عیاشیوں اور بد کاریوںکے نتیجے میںویشیا کی دہلیز تک جا پہنچتا ہے۔’بھیڑیں‘ ان آیاؤں کی درد بھری کہانی ہے جو دولت مند گھرانوں میں ملازمت کرتی ہیں۔’مٹھی مالش‘ اسپتال میں آیا کا کام کرنے اور اسقاط کرانے والی عورتوں کی المناک داستان ہے۔’بڑے شرم کی بات‘ میں بھی عصمت نے آیا کے طبقے کی ہی عکاسی کی ہے۔

    عصمت چغتائی کے یہاں واقعات بظاہر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بنٹے ہوئے ملتے ہیںلیکن ان میں ایک منطقی تسلسل پایا جاتا ہے۔ان کے یہاں کہانیاں عمل اور کشمکش کے دوران پھیلتی بڑھتی جاتی ہیں۔کش مکش کی نوعیت میں انفرادیت پائی جاتی ہے لیکن عمل میں زیادہ تیزی اور روانی نہیں ہوتی۔’چوتھی کا جوڑا‘ ، ’عشق پر زور نہیں ،’دو ہاتھ‘ ، ’ننھی سی جان‘ وغیرہ کے پلاٹ بہت احتیاط سے تیار کئے گئے ہیںجن میں واقعات مالا میں موتی کی طرح پروئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔چھوٹے موٹے بظاہر غیر اہم واقعات میں قاری کو اس طرح الجھا دینا کہ کچھ دیر کے لئے اس کا ذہن تاریکیوں میں گم ہو جائے اور کوئی سمت نہ ملے،پھر خاتمے کے قریب اچانک حقیقت کی اصلی صورت واضح کر کے قاری کو چونکادینے اور حیرت آمیز مسرت سے دوچار کر دینے کا ہنرعصمت کی ایک امتیازی خوبی ہے۔مثلاً بھول بھلیاں‘ میں رفیعہ اور صلو کی نوک جھونک اور آنکھ مچولیاں ،صلو کی شرارتیں اور رفیعہ کی عاقبت اندیشی لیکن ’’ایک دفعہ کو عاقبت بھی کھلکھلا پڑی‘‘ اور۔۔۔۔۔

    اور ان کی رنگت بدلی۔۔’’بیچارہ بچہ! مر گیا اس کا باپ شاید!‘‘تلخی سے کہا گیا۔’’خاک تمہاریمنہ میں۔خدا نہ کرے۔‘‘میں نے ننھے کو کلیجے سے لگا لیا۔’’ٹھائیں۔۔۔۔۔۔‘‘ ننھے نے موقع پا کربندوق چلائی۔ ’’ہائیں۔۔۔۔۔۔پاجی۔۔۔۔۔ابا کو مارتا ہے۔‘‘میں نے بندوق چھین لی۔

    ’ننھی سی جان ‘میں ایک خادمہ کی غلطی سے ایک چھوٹا سا مرغی کا بچہ مر جاتا ہے ۔وہ اسے خاموشی سے پچھوارے میں دفن کر دیتی ہے۔گھر کے نوجوان لڑکے لڑکیوں تک بات پہنچتی ہے اور پھر بیگم صاحبان تک۔کہانی کی ابتدا ہی سنسنی خیز انداز میں ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔’’تو آپا اب کیا ہوگا؟‘‘۔’’اللہ جانے ،کیا ہوگا۔مجھے تو صبح سے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘نزہت نے الجھے ہوئے بال نکال کر کنگھی میں لپیٹنا شروع کئے۔ذہنی انتشار سے اس کے ہاتھ کمزور ہو کر لرز رہے تھے۔

    لڑکیوں کے سہمے پن،آپسی سرگوشیوں اور مکالموں کے انداز سے قاری کا ذہن کسی نوزائیدہ ناجائز بچے کی طرف جاتا ہے۔پوری کہانی میں یہی فضا قائم رہتی ہے۔خاتمے پر یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ خادمہ نے اس خون آلود شئے کو کسی نوکر کی قمیض میں لپیٹ کر دفن کیا تھا،وہ دراصل منارہ مرغی کا بچہ تھا جسے صاحب خانہ نے خاص طور پر کان پور سے منگوایا تھا۔کہانی میں عام اور معمولی واقعات کی پیشکش کے باوجود قاری کی دلچسپی اور اس کے تجسس کو بنائے رکھنا عصمت کی ایک نمایاں خوبی ہے۔کرشن چندر نے عصمت کے اس وصف کاتجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

    ’’سمت کو چھپانے میں،پڑھنے والے کو حیرت و اضطراب میں گم کر دینے میں اور پھریکایک آخر میں اس اضطراب اور حیرت کو مسرت میں مبدل کر دینے کی صنعت میں عصمت اورمنٹو ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں اور اس فن میں اردو کے بہت کم افسانہ نگار ان کے حریف ہیں۔‘‘

    (پیش لفظ ’’چوٹیں‘‘ ،ص: ۷)

    عصمت چغتائی نے’انگارے‘ کے مصنفین کے اثرات سے نہ صرف سماج کی فرسودہ اور بناوٹی قدروں کو نشانہ بنانے کی تحریک حاصل کی بلکہ کردار نگاری اور سیرت نگاری کی تشکیل بھی انہیں خطوط پر کی۔انہوںنے معاشرے کے عا م اور بظاہر غیر اہم کرداروں کی محرومیوں اور مجبوریوں کو اپنے افسانوں کے حوالے سے بڑی دردمندی سے پیش کیا۔ ان کے بیشتر افسانوں کے مرکزی کردار انہیں کی طرح صاف گو،بے باک اور منہ پھٹ ہیں۔عصمت کو مرد کی بالادستی اور عورت کی کم مائیگی سے اختلاف رہا ۔چنانچہ انہوںنے ایسے ہی کردار تخلیق کئے جنہوں نے سماج کے اس غیر مساویانہ طریق کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کی۔ عصمت فنکارانہ سطح پر ایسے ماحول اور حالات ترتیب دیتی ہیں جہاں کرداروں کے اندر باغیانہ روش پنپتی ہے۔عصمت کا امتیاز یہی ہے کہ ان کے کردار ان کی آواز کی باز گشت بننے کے باوجود ان کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں نہیں بنتے۔البتہ عصمت کے ایسے افسانے جن میں وہ خود راوی کی حیثیت سے موجود رہتی ہیں،ارتقائے کردار کے لحاظ سے قدرے ناقص ہوتے ہیں۔ان کی اپنی شخصیت کا عمل دخل اور ان کے اپنے تاثرات و تعصبات کرداروں کی انفرادیت اور ارتقا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ایسا زیادہ تر ان کے انہیں افسانوں میں ہوتا ہے جن میں وہ واحد متکلم کی حیثیت سے کہانی بیان کرتے ہوئے گہری واقفیت اور حقیقت نگاری کا تاثر پیدا کرنا چاہتی ہیں۔اس ذیل میں لحاف،چھوٹی آپا،پنکچر،ننھی سی جان وغیرہ افسانے شامل ہیں۔کبھی کبھی افسانے کے حقیقی انجام کے بعد بھی وہ تبصرہ کرنے سے نہیں چوکتیں جو نہ صرف افسانے کی مجموعی فضا کو متاثر کرتا ہے بلکہ کرداروں کے غیر فطری روئیے کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے۔افسانہ ’دو ہاتھ‘ اور ’ننھی کی نانی‘ کے اختتامیہ تبصرے اس کی بین مثال ہیں۔

    اس کے بر خلاف ان کے ایسے افسانے جن میں وہ یا ان کی شخصیت شامل نہیں ہوتی،زیادہ فطری اور ارتقائے کردار کا بہترین نمونہ ہیں۔اس قبیل کے افسانوں میں وہ اپنے کرداروں سے ایک خاص فنی فاصلہ رکھتی ہیں۔وہ کہانی میں ہر جگہ اپنے وجود کا احساس تو دلاتی ہیں،دخل اندازی نہیں کرتیں ۔’’چوتھی کا جوڑا‘‘ کے مرکزی کردار کبریٰ کا تعارف کراتے ہوئے وہ ایک بے تعلق سی درد مندی کے ذریعے نہ صرف کبریٰ کے مکمل پیکر کو ابھار دیتی ہیں بلکہ اس طرح افسانے کی روح کی بھی عکاسی ہو جاتی ہے۔

    ’’کبریٰ جوان تھی۔کون کہتا تھا کہ جوان تھی۔وہ تو جیسے بسم اللہ کے دن سے ہی اپنی جوانی کی آمد کی سناؤنی سن کر ٹھٹھک کر رہ گئی تھی۔نہ جانے کیسی جوانی آئی تھی کہ نہ تو اس کی آنکھوں میںکرنیں ناچیں نہ اس کے رخساروں پر زلفیں پریشان ہوئیں نہ ا س کے سینے پر طوفان اٹھے اورنہ کبھی ساون بھادوں کی گھٹاؤں سے مچل مچل کر پریتم یا ساجن مانگے۔وہ جھکی جھکی سہمی سہمی جوانی جو نہ جانے کب دبے پاؤں اس پر رینگ آئی،ویسے ہی چپ چاپ نہ جانے کدھر چل دی۔میٹھا برس نمکین ہوا اور پھر کڑوا ہو گیا۔‘‘

    عصمت اپنے کرداروں کی دلی کیفیت اور ذہنی واردات دونوں پر نظر رکھتی ہیں۔کرداروں کا نفسیاتی تحلیل و تجزیہ کرنا بھی ان کا محبوب موضوع ہے۔’’تل‘‘ میں رانی کی جنس کے متعلق بے تکلفانہ گفتگو کے نتیجے میںمرکزی کردار چودھری کی ذہنی اور جذباتی کشمکش کی عکاسی عصمت نے بڑی خوبی سے کی ہے۔عمر کی پختگی اور کردار کی مضبوطی کے باوجود رانی کی تر غیبات جنسی کی وجہ سے چودھری کا ذہن بھٹکنے لگتا ہے لیکن وہ بڑی ثابت قدمی سے خود کو حسین گناہ کی لپیٹ میں الجھنے سے بچائے رکھتا ہے مگر اس کے اندر جنسی بیداری کی کشمکش ہوتی رہتی ہے۔اسی دوران رانی کے بطن میں کسی اور کا گناہ پرورش پانے لگتا ہے تو الزام چودھری پر آتا ہے۔رانی اس کے نامرد ہونے کا اعلان کر دیتی ہے۔یوں اس کی برأت تو ہو جاتی ہے لیکن اس کا ذہن ماؤف ہو جاتا ہے۔اس کی پاکبازی اور بے گناہی اس کے لئے جنسی ہتک کا باعث بن جاتی ہے۔

    عصمت کرداروں کا تجزیہ بڑی چابکدستی سے کرتی ہیں۔ایسی باتیں جو بظاہر عام اور معمولی معلوم ہوتی ہیں،عصمت کے کرداروں کے ذریعے ادا ہو کر نفسیاتی کیفیت کے نئے دروبست کھولتی ہیں۔تل،چوتھی کا جوڑا، نیند، نفرت،بیکار،کافر وغیرہ افسانے ان کی بہترین کردار نگاری کی مثالیں ہیں۔اختتامیہ کے چند غیر ضروری فقروں سے قطع نظر ’دو ہاتھ‘ اور’ ننھی کی نانی‘ کی کردار نگاری بھی اعلیٰ درجے کی ہے۔

    عصمت چغتائی کے کردار رومان یا تخیل کی دنیا سے نہیں آتے بلکہ ان کا تعلق زیادہ ترمتوسط یا نچلے طبقے کے جانے پہچانے ماحول سے ہوتا ہے ۔عصمت نے ان کی پریشانیوں،ان کی کربناکیوں،ان کے تذبذب،ان کے درد،انکی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور غموں کو اتنی دردمندی اور ملائمت سے پیش کیا ہے کہ ایک علیحدہ دنیا ان کے افسانوں میں آباد نظر آتی ہے۔وہ ایک ماہر نفسیات کی طرح اپنے کرداروںکی تحلیل نفسی کرتی ہیں،ان کے لاشعور کی گرہوں کو کھولنے کی کوشش کرتی ہیں اور ان کی وساطت سے پورے معاشرے کی خامیوں کو اجاگر کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ایسے کرداروں کی نشو و نما میں ان کی فنی معروضیت زیادہ ابھر کر سامنے آتی ہے جن سے وہ ذاتی واقفیت رکھتی ہیں۔اس ذیل میں بچھو پھوپھی،چابڑے،دوزخی،گھونگھٹ، گیندا وغیرہ کے کردار خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کرداروں کی گہرائی، تہہ داری اور باریکی پوری طرح نمایاں ہوئی ہے۔حالانکہ ذاتی واقفیت کی وجہ سے ایسے کرداروں کی تشکیل میں ان کا اپنازاویہ نظر بھی جھلکتا رہتا ہے ۔افسانوں میں خود ان کی موجودگی اور دخل اندازی کردار نگاری کے فن کو مجروح کرتا ہے لیکن وہ ایک حساس اور با شعور افسانہ نگار ہیں ،اس لئے فن کے دیگر لوازم کی مدد سے وہ کرداروں کی شناخت قائم رکھتی ہیں اور وہ اپنی انفرادیت اور تشخص بر قرار رکھتے ہوئے ارتقائی منزلوں سے گذرتے ہیں۔

    عصمت چغتائی کا فن بقول ابو ا لکلام قاسمی ’بیانیہ پرمضبوط گرفت ، ’زبان و بیان پر بے مثال قدرت اور اسلوب کی بلند آہنگی سے عبارت ہے۔ان کا اسلوب ایک بے تکلف اور رواں اسلوب ہے جس میں طنز و مزاح کی آمیزش نے ندرت پیدا کر دی ہے۔ ان کے اسلوب کا جادو پوری افسانوی فضا پر محیط رہتا ہے۔ان کے افسانوں میں جو شگفتگی اور رنگینی ملتی ہے، وہ ان کے اسلوب کا ہی کرشمہ ہے،ممتاز حسین نے اسے خواب سے بیدار کرنے والا اسلوب قرار دیا ہے جو لطیف طنزیہ پیرایہ کی وجہ سے قاری کے دل و دماغ تک پہنچتا ہے اور جذبہ و احساس میں تحریک پیدا کرتا ہے۔ڈاکٹر صادق نے ان کے اسلوب کو احتجاجی اسلوب سے موسوم کیا ہے جو ایک مخصوص نظام کی جبریت اور فرسودہ رسم و رواج کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔فضیل جعفری نے ایسا بے تکلف اور تخلیقی اسلوب قرار دیا ہے جس نے ان کے افسانوی ادب کو بے روح نہیں ہونے دیا اور جس کی گرفت پورے افسانے پر موت کی طرح مضبوط رہتی ہے۔

    عصمت چغتائی نے یو پی کے گرد و نواح میں بولی جانے والی عام محاوراتی زبان لکھی ہے۔ان کی زبان محض تحریری زبان نہیں ہے بلکہ وہ عورتوں لڑکیوں کی روز مرہ کی ایسی زبان استعمال کرتی ہیںکہ بے ساختہ بول چال کا لطف برقرار رہتا ہے۔ عصمت گھریلو عورتوں کے محاورے،طعنے تشنیع،کوسنے گالیاں حتیٰ کہ ان کے لب و لہجے تک کو گرفت میں لے لیتی ہیں:

    ’’الٰہی یا تو ان حرامی پلوں کی موت دے،یا میری مٹی عزیز کر لے۔نہ جانے یہ اٹھائی گیریکہاں سے مرنے کو آجاتے ہیں۔چھوڑ د ئیے ہیں جن جن کے ہماری چھاتی پر مونگ دَلنے کو‘‘

    طبقوں کے فرق سے زبان اور لب و لہجے میں جو اختلاف پیدا ہوتا ہے ،اس پر بھی ان کی نظر رہتی ہے۔وہ ہر ایک کی عمر، رتبے اور ماحول کے لحاظ سے زبان کا موزوں استعمال کرتی ہیں۔’بچھو پھوپھی‘ میں پھوپھی کے لہجے میں مغل فرمانرواؤں کا شان و شکوہ اور طنطنہ ہے جبکہ بھاوج کی زبان شیخ سلیم چشتی ؒ کے خاندان کے اثر سے نرم و نازک اور لطیف ہے۔افسانہ ’دو ہاتھ‘ میں مکھیائن اور مہترانی کی بول چال کا فرق نمایاں ہے:

    ’’کیوں ری چڑیل،تو نے بہو قطامہ کو چھوٹ دے رکھی ہے کہ ہماری چھاتی پر کودوں دلے، ارادہ کیا ہے تیرا۔کیا منہ کالا کرائے گی۔‘‘

    ’’کیا کروں بیگم صاحب،حرام کھور کو چار چوٹ کی مار بھی دئی سے تو روٹی بھی کھانے کو نا دئی، پر رانڈ میرے تو بس کی نہیں۔‘‘

    عصمت نے جہاں پامال اور مانوس الفاظ و تراکیب کو نئے معانی و مفاہیم میں استعمال کیا وہیں بہت سے الفاظ و محاورات بھی نئی ترتیب سے وضع کئے۔ان کی بہت سی لفظیات انہیں سے منسوب و مختص ہو گئی ہیں۔اشارے کنائے کے پیرایہ میں وہ گہری باتوں کو بھی لطیف انداز میں کہہ جاتی ہیں۔عصمت زبردست قوت اختراع کی مالک ہیں۔جس کی وجہ سے ان کے یہاں اظہار کے نئے نئے پیکر ملتے ہیں۔

    ’’ہے ہے بنو۔۔۔۔اے دلہن۔اللہ کا واسطہ یہ جہاز کا جہاز پلنگ گھسیٹ رہی ہو اور جو کچھ دشمنوں کوہو گیا تو۔۔۔۔سچ لاڈلی کتنی دفعہ کہا کنواری بیاہی ایک سمان نہیں۔بنو وہ دو لتیاں اچھالنے کے دن گئے۔بیٹی جان پنڈا سنبھال کے۔۔۔۔۔ چٹخا گھڑا سمجھو ٹھیس لگی اور لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔‘‘

    عصمت کے مخصوص اور منفرد ڈکشن میں حسوں کی کار فرمائی جا بجا نظر آتی ہے۔منٹو کے خیال میں حواس خمسہ کے رد عمل اور اصوات کا عصمت کے ادب سے گہرا تعلق ہے۔

    ’’گھر۔گھر۔پھٹ شوں۔فش۔باہر برآمدے میں موٹر بھننا رہی تھی۔‘‘ (پنکچر)’’مکھی تنن تنن کر کے وہ گئی۔‘‘ (ساس)

    ’’بلی کی طرح سپڑ سپڑ رکابی چاٹنے جیسی آوازیں آنے لگیں۔‘‘ (لحاف)

    ’’ایک پر اسرار قبرستانی سسکی ہوا میں لرزتی ہے۔‘‘ (جھری میں سے)

    زبان کا چٹخارہ عصمت کی ایک امتیازی خصوصیت ہے۔ان کے یہاں طنز کے تیرنکیلے چبھتے ہوئے ملتے ہیں۔ان کا فن دراصل نشتر زنی یا جراحی کا فن ہے۔وہ بغیر کسی رعایت کے معاشرے کی کھوکھلی بنیادوں پر کاری ضرب لگاتی ہیں۔

    ’’سمجھ میں نہیں آتا آخر اگر عریانی نظر آتی ہے لوگ بلبلا کیوں اٹھتے ہیں۔یورپ کے لڑکے لڑکیاں جب جنس کے بارے میں کچھ پڑھتے ہیں تو ان کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی اور یہاں سانپ پھنپھنانے لگتا ہے۔کیوں صاحب کیا ضروری ہے کہ اس مقدس سانپ کو اپنی آئندہ نسل کا خون چوسنے کے لئے چھوڑ دیں۔‘‘

    (’’ایک بات‘‘، عصمت کے شاہکار افسانے، مرتب: شاہد لطیف،پبلشر:بک کارنر،جہلم پاکستان، ص:۷۸)

    عصمت حسی تشبیہوں ،علامتوں اور استعاروں کی مدد سے بڑی جاندار اور زود فہم تصویریں کھینچتی ہیں۔کبھی کبھی وہ صورت حال کو شدید اور کبھی لطیف بنانے کا کام بھی انہیں علامتوں سے لیتی ہیں۔

    ’’اور جو گرمیاں تیز ہوئیں تو نل کے نیچے بیٹھ گئیں اور تڑا تڑ پانی پڑ رہا ہے۔ٹھنڈے ٹھنڈے پانی کی سلاخیں جسم کی شکنوں پر پھسل رہی تھیں۔پانی قل قل کرتا ،رانوں پر کودتا،شانوں پرپھسلتا موری میں جا گرتا جیسے کوئی شراب انڈیل رہا ہو۔نیند سی آنے لگتی اور ویسے بھی غسل خانہ کی فضا میں سوراج مل جاتا،پر پرزوں سے آزاد۔‘‘

    ’’وہاب چچا کی دلہن نے گریبان کھول کر لونڈے کا دستر خوان لگا دیا،اللہ کیا بدن تھا،ہم لونڈیاں بالیاںتو شرم کے مارے پانی پانی ہو جایا کرتی تھیں۔بچوں کے ناشتہ دان تھے کہ مرادآبادی لوٹے،پچھلااسقاط تو اسی لوٹے کے نیچے دب کر جاں بحق ہو گیا ،رات کو سوتے میں منہ میں دودھ دیا،نہ جانے کیسے نیند میں کروٹ لی کہ منہ اور ناک پر ڈھائی تین سیر گوشت آپڑا،بے چارے کا دم گھٹ گیا۔‘‘

    بلا شبہ بعض اوقات ان کی زبان سبک ہو جاتی ہے یا ان میں فحش نگاری کا تاثر پیدا ہو جاتا ہے۔جس کا سبب یہ ہے کہ عصمت ماحول ،کردار اور حالات کے موافق زبان اور لب و لہجہ استعمال کرتی ہیں۔اس سلسلے میں وہ یہ توضیح پیش کرتی ہیں:

    ’’میں نے اپنے افسانوں میں جو دیکھا اور سنا وہ قلم بند کر دیا۔۔۔۔۔اگر کہیں الفاظ میں بیہودگی آجاتی ہے اس کی ذمہ دار میںنہیں ہوں ۔ میں لکھتے وقت یہ نہیں سوچتی کہ یہ جملہ جو فلاں شخص کے منہ سے نکلا ہے وہ عام انسان کے سننے کے لائق ہے کہ نہیں ہے۔میں اس کو ویسے کا ویسا اپنے قلم سے لکھ دیتی ہوں کیونکہ میں مصور نہیں ہوں فوٹو گرافر ہوں۔‘‘

    (یونس اگاسکر :’’ عصمت چغتائی سے گفتگو‘‘ماہنامہ مکالمات،دسمبر ۱۹۹۱ء ،ص:۱۴)

    عصمت چغتائی کے اسلوب کے تجزئے سے جو ایک اہم نکتہ سامنے آتا ہے وہ ہے ان کی زبان و بیان کی تیز رفتاری۔ان کے مزاج اور شخصیت میں جو عاجلانہ کیفیت اور برق رفتاری تھی وہی ان کے قلم کی روح میں بھی شامل ہے۔منٹو نے لکھا ہے:

    ’’عصمت کا قلم اور اس کی زبان دونوں بہت تیز ہیں۔ لکھنا شروع کرے گی تو کئی مرتبہ اس کادماغ آگے نکل جائے گا اور الفاظ بہت پیچھے ہانپتے رہ جائیں گے۔باتیں کرے گی تو لفظ ایک دوسرے پر چڑھتے جائیں گے۔‘‘

    (’’عصمت چغتائی‘‘ ماہنامہ مکالمات،دسمبر ۱۹۹۱ء ،ص:۶۰)

    کرشن چندر عصمت کے بیانیہ کی رفتار کے بارے میں لکھتے ہیں:

    ’’ان افسانوں کے مطالعے سے ایک اور بات جو ذہن میں آتی ہے وہ ہے گھوڑ دوڑ۔یعنی رفتار،حرکت سبک خرامی اور تیز گامی۔نہ صرف افسانہ دوڑتا ہوا معلوم ہوتا ہے بلکہ فقرے،کنائے اور اشارے اورآوازیں اور کردار اور جذبات اور احساسات ایک طوفان کی سی بلاخیزی کے ساتھ چلتے اور آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔‘‘

    (پیش لفظ ’’چوٹیں‘‘ ،ص: ۷)

    عصمت کی زبان بہت ٹھوس اور مختلف کیفیات سے مملو زبان ہے۔اسی زبان کے سہارے انہوں نے اپنی کہانیوں کے متعدد فنی نقائص کو چھپا لیا ہے۔ان کی نکھری ہوئی زبان اور منفرد اسلوب نے نہ صرف اپنے عہد میں انہیںایک ممتاز حیثیت عطا کی بلکہ آج بھی اور آنے والے شب و روز میں بھی وہ اسی حوالے سے یاد کی جاتی رہیں گی۔

    غرض کہ عصمت چغتائی نے اپنی افسانہ نگاری کے حوالے سے ایسے نادر موضوعات کو پیش کیا جو معاشرے کی فرسودگی کے خلاف ایک للکار تھے،صدائے احتجاج تھے اور جنہوں نے

    ایک نئے طرز فکر کی دعوت دی۔انہوں نے سماج کی ان ڈھکی چھپی عیاریوں اور مکاریوں کا پردہ فاش کیا جو کمزور عناصر کا استحصال کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ عصمت نے عورتوں کے مسائل کو گہرائی سے محسوس کیا اور شدت خلوص سے پیش کر دیا۔عورت کے جذبات اور احساسات کی گہرائی ،باریکی اور لطافت کو انہوں نے نہایت مہارت سے گرفت میں لیا ہے اور اردو افسانے کو ان اداؤں سے روشناس کرایا ہے۔عصمت کے افسانوں نے جیتے جاگتے، جانے بوجھے اور متحرک کرداروںکو جنم دیا اور ان کی محرومیوں کو نہایت دردمندی سے پیش کیا۔عصمت کے یہاں بیگماتی اور محاوراتی زبان پہلی بار اپنی تخلیقی قوتوں سے آشنا ہوئی۔بقول پطرسؔ ان کے ہاتھوں اردو انشاء کو نئی جوانی نصیب ہوئی۔یہ درست ہے کہ ان کی سبھی کہانیاں فنی نقطہ نظر سے درجہ اوّل کی کہانیاں نہیں ہیں لیکن یہ بات بلا شک و شبہ کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے فرسودہ خیالی اور انسانی تفریق کے خلاف جاندار اور دل کو چھو لینے والی آواز بلند کی۔عصمت چغتائی نے اپنی اسی انفرادیت کی وجہ سے کرشن چندر،سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی جیسے عہد ساز افسانہ نگاروں کے عہد میں اپنی ایک الگ شناخت قائم کی اور وہ اردو افسانے کا ایک اہم ستون قرار پائیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے