Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ناول کا فن

ناز قادری

ناول کا فن

ناز قادری

MORE BYناز قادری

    ناول نگاری کافی دنوں تک اعتبار فن سے محروم رہی لیکن بورژوا نظام کے عروج نے اس کے آرٹ کی حصار بندی کی۔ ناول اور حقیقت نگاری کے ضمن میں لکھتے ہوئے رالف فاکس نے اس طرف بھی خاصی توجہ دی ہے۔ فن ناول نگاری کو موجودہ صورت و سیرت اور ہیئت تک پہنچنے میں ارتقا کی کئی منازل سے گزرنا پڑا ہے جن سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ ناول ایک نثری صنف ادب ہے جو قصہ گوئی کے لیے مخصوص ہے اس لیے اس کی بے شمار اصطلاحی تعریفیں ملتی ہیں۔ مختلف زبان وادب کے فنکاروں اور نقادوں نے اپنے اپنے طور پر ناول کے متعلق نظریات و خیالات کا اظہار کیا ہے اور اپنے آئینہ خیال اور پیمانہ افکار کے نتائج کے طور پر ناول کی تعریفیں بھی کی ہیں۔ یہ تعریفیں اتنی وافر، متضاد اور مختلف ہیں کہ تمام کا احاطہ اور تنقید و تجزیہ کرنا ایک مستقل موضوع ہے۔ اس لیے یہاں اجمالی طور پر اس صنف کی تعریف و توصیف اور فنی و جمالیاتی انفرادیت کے تعین کی کوشش کی جائے گی۔ اس مقصدکے لیے ناول کی تعریف کے سلسلے میں اہم نقادوں کے افکار و آراءکو سامنے رکھتے ہوئے ناول کے جمالیاتی اقدار و معیار کا تحلیل و تجزیہ کیا جائے گا۔

    ناول کا لفظ اطالوی زبان سے مشتق ہے۔ سب سے پہلے یہ لفظ چودہویں صدی عیسوی میں سامنے آیا ۔ اس کی اصل Novella Storia ہے یہ اصطلاح تازہ کہانی کا مفہوم رکھتی تھی لیکن بعد میں ناول کا لفظ اس کہانی کے لیے مخصوص ہوگیا جو نثرمیں لکھی گئی اور جس میں رومانی اثرات ملے۔ بوکیشیو (Boccaccio) کا ذکر کرتے ہوئے A.C.Rickett نے اٹلی کو ناول کا مولد و مسکن قرار دیا ہے ۔٭ اب تک کی تاریخی تحقیق کے مطابق ناول کا سلسلہ ¿ نسب اطالوی زبان کی مذکورہ بالا اصطلاح سے ملتا ہے ۔ بوکیشیو (Boccaccio) کے بعد اس صنف کے ساتھ ساتھ یہ لفظ بھی دوسری زبانوں میں پہنچا اور رفتہ رفتہ نثر میں قصہ گوئی کی ایک مخصوص ماہیت اور نوعیت کو ناول کا اصطلاحی نام دیا گیا۔ بعد میں مختلف عہد اور مختلف زبانوں میں مختلف فنکاروں نے ناول کی مختلف تعریفیں کیں۔ ناول کی تعریف کرتے ہوئےRalph Fox لکھتا ہے:

    It is the great folk art of our civilization, the successor to the epic and the chanson de geste of our ancestors and it will continue to live.٭٭

    اس میں کوئی شک نہیں کہ ناول ہماری تہذیبی زندگی کی وہ کہانوی صنف ہے جس کو آج وہی اہمیت حاصل ہے جو کسی زمانے میں لوک کہانیوں کو حاصل تھی۔ رالف فاکس کی یہ تعریف ناول کی اہمیت اور قدر و قیمت کی طرف اشارہ کرتی ہے‘ اس کی صنفی ماہیت کی وضاحت نہیں کرتی۔ سرایفورایوانس (Sir Ifor Evans) نے اپنے طور پر ناول کی نسبتاً زیادہ واضح اور تفصیلی تعریف کی ہے:

    Thus the novel can be described as a narrative in prose, based on a story, in which the author may portray character, and the life of an age, and analyse sentiments and passions, and the reactions of men and women to their environment. This he may do with a setting either of his own times, or of the past. Further, begining with a setting in ordinary life he may use the novel for fantasy, or some portrayal of the supernatural.٭

    ناول کی درج بالا تعریف بڑی وسعت رکھتی ہے۔ اس تعریف کے دائرے میں ناول کی تمام قسمیں آجاتی ہیں۔ یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ ناول کا فن اس مخصوص کہانوی ہیئت و ماہیت سے عبارت ہے جس نے کہانی کے پس پردہ سماجی شعور کی تنقید و ترجمانی زیادہ حقیقت پسندانہ انداز میں شروع کی۔ ناول کی سب سے بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ ناول سماجی کش مکش اور طبقاتی آمیزش و آویزش کو زیادہ معروضیت اور حقیقت پسندی کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ داستان اور ناول کے فن کے درمیان ایک خط امتیاز ہے بلکہ یہی وہ بنیادی اور حقیقی معیار ہے جو فنی اور جمالیاتی سطح پر پست و بلند اور کامیاب و ناکامیاب ناول کے درمیان افتراق و امتیاز میں ممدو معاون ہے۔

    ناول کے سلسلے میں سماجی حقیقت نگاری اور طبقاتی تصادم و آویزش کا بنیادی اور حقیقی معیار اس لیے قرار دیا گیا کہ ان کا تعلق روحِ فن سے ہے یعنی یہ داخلی فنی پیمانہ ہے خارجی سطح پر ناول کے دوسرے فنی اور جمالیاتی تقاضوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جن کے دائرے میں کردار نگاری، واقعہ طرازی، پلاٹ وغیرہ آتے ہیں۔ لیکن فن کے صرف ان خارجی تقاضوں کی روشنی میں کسی بھی تخلیق کے متعلق حتمی اور قطعی فیصلہ بہر طور منصفانہ اور معروضی نہیں قرار دیا جاسکتا کہ کوئی بھی فن اپنی داخلی اور خارجی قدروں کی حد تک اس قدر ہم آہنگ و یک رنگ ہوتا ہے کہ دونوں کے مابین واضح خطِ امتیاز نہیں کھینچا جاسکتا ہے۔ یہ پھول اور خوشبو کے رشتے کی نوعیت ہے، جسم اور روح کا تعلق ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے درمیان خطِ امتیاز کھینچنا تحصیل حاصل ہے۔ یہی حال فن کا ہے۔ فن کا خارجی ڈھانچہ روح فن سے لباس اور جسم کا تعلق نہیں رکھتا بلکہ جسم اور روح کا تعلق رکھتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے بیشتر نقاد فن یا تو صرف فن کی داخلی اقدار کی روشنی میں فیصلہ صادر کرتے رہے ہیں یا صرف خارجی معیار کو سب کچھ سمجھتے رہے ہیں۔ مثال کے لیے ایک طرف ترقی پسند نقادوں کو رکھا جاسکتا ہے اور دوسری طرف کلیم الدین احمد کو وہی تنقید معروضی، منصفانہ، حقیقت پسند اور متوازن قرار دی جائے گی جو فن کے خارجی اور داخلی اقدار و معیار کے اشتراک و مفاہمت اور احساسِ ہم سفری کو سامنے رکھے۔ فن میں خارجی اور داخلی قدریں متوازی سطح پر چلتی ہیں لیکن فن کی یہ متوازی سطحیں ریاضی کی طرح ایک دوسرے سے کوئی بُعد اور فاصلہ نہیں رکھتیں بلکہ یہ لہریں متوازی ہونے کے باوجود اس حد تک ہم آہنگ و یک رنگ ہیں کہ یہ خوشبو اور گلاب، جسم اور روح سے مشابہہ ہیں۔ اس لیے کہ ہر تخلیق، ہر فن ، ادب اور آرٹ کا ہر نمونہ ایک زندہ مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی بھی زندہ مخلوق کا تصور نہ صرف جسم سے اور نہ صرف روح سے بلکہ ان دونوں کی ہم آہنگی اور یک رنگی سے کیا جاتا ہے۔ Engene Jonesco اپنے مضمون The Problem of a Writer میں لکھتا ہے :

    For work is a living being, or a live world, and it is the fact of being this live- that is, true world, which is important.٭

    ظاہر ہے کہ جب ہر فنی تخلیق ایک زندہ جاوید شخصیت سے عبارت ہے تو اس کے متعلق کوئی بھی فیصلہ روح یا جسم کو نظر انداز کر کے نہیں کیا جاسکتا۔لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ صرف اردو نقادوں کے یہاں یہ کمزوری نہیں ملتی بلکہ عالمی ادب کے ناقدین فن بھی اس کمزوری سے مبرا نہیں۔

    ادب اور فن کے سلسلے میں اس حقیقت کے عرفان کے بعد اگر ناول کے معیار و اقدار کی تعیین کی جائے تو اس کے خارجی و داخلی دونوں پہلووں کو سامنے رکھنا ضروری ہے ناول کے فن کی تعریف کے سلسلے میں رالف فاکس اور سرایفور ایوانس کی رائے پیش کی جاچکی ہے۔ اب کچھ دوسرے نقادوں اور ادیبوں کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔ ڈینیل ڈفو کے نزدیک ناول کے فن کے لیے دو اجزا کا ہونا لازمی ہے یعنی حقیقت نگاری اور اخلاقی نقطہ نظر۔ سید علی عباس حسینی نے اپنی تصنیف ناول کی تاریخ اور تنقید“ میں ڈینیل ڈیفو کا یہ قول نقل کیا ہے :

    ”قصہ بنا کر پیش کرنا بہت ہی بڑا جرم ہے، یہ اس طرح کی دروغ بافی ہے جو دل میں ایک بہت بڑا سوراخ کردیتی ہے جس کے ذریعے جھوٹ آہستہ آہستہ داخل ہو کر ایک عادت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔“

    اس کے برعکس فیلڈنگ ناول کو منثور طربیہ کہانی کہتا ہے۔ اُس کی اِس تعریف سے رچرڈسن کے نظریہ فن کی تکذیب و تردید ہوجاتی ہے کہ ناول اخلاق اور نیکی کی ترویج کرتا ہے کیونکہ فیلڈنگ کے نزدیک یہ ایک نثری طربیہ کہانی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور اس طرح فیلڈنگ کی رائے کو صحیح مان لیا جائے تو ناول کا فن تفریحِ طبع اور تفننِ مزاج کے محدود دائروں میں اسیر ہوجاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ناول کی یہ تعریف ایک ایسا لباس ہے جو ناول کے جسم پر بہت تنگ ہے۔ اسی عہد میں اسمولٹ نے بھی ناول کی صنفی تعریف و توصیف کی ہے۔ اس کا خیال ہے:

    ”ناول ایک پھیلی ہوئی بڑی تصویر ہے‘ جس میں ایک مقررہ پلاٹ کے واضح کرنے کے لیے زندگی کے کردار مختلف جماعتوں کے ساتھ رکھ کر مختلف پہلووں سے دکھائے جاتے ہیں۔“

    لیکن اس تعریف میں نقص یہ ہے کہ یہ ناول کے فن میں صرف کردار اور پلاٹ کو اہمیت دیتی ہے اور ظاہر ہے کہ ناول کا فن نہ صرف پلاٹ ، نہ صرف کردار سے عبارت ہے۔ دوسرا بڑا نقص اس تعریف کا یہ ہے کہ اس میں پلاٹ کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے اور کردار کو ضمنی۔ حالانکہ پلاٹ اور کردار میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ کردار اور پلاٹ کی فنی خصوصیات سے اگلی سطور میں بحث کی جائے گی۔ یہاں صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ناول کے فن کو ان دونوں خصوصیات تک محدود و مقید کرنا ایک بڑی لغزش ہے۔ وکٹورین عہد کے مصنف اسٹونسن نے ناول کی تعریف اس طرح کی ہے:

    ”ناول ایک ایسی نقل نہیں کہ اس کا فیصلہ اصل پر رکھ کر کیا جائے‘ بلکہ وہ زندگی کے کسی خاص پہلو یا نقطہ نظر کی وضاحت ہے اور اس کی فنا و بقا اسی وضاحت کی اہمیت پر مبنی ہے۔ ایک اچھا لکھا ہوا ناول اپنے مقصد و غرض کو اپنے ہر باب ، ہر صفحے، اور جملے سے پکارتا اور دہراتا ہے۔“

    اس میں اختصار و ایجاز پر زیادہ زور دیا گیا ہے لیکن وہ اس بات کو فراموش کر گیا کہ ناول کا فن زیادہ وسیع کینوس رکھتا ہے۔ یہ مختصر افسانے کی طرح زندگی کے صرف ایک پہلو، گوشے، نظریہ خیال‘ مقصد وغیرہ کی ترجمانی نہیں کرتا بلکہ ناول بہر طور سماجی کشمکش اور طبقاتی انتشار و اختلال کو زیادہ وسیع اور متنوع سطح پر پیش کرتا ہے۔ اگر اسٹونسن کی اس تعریف کو صحیح مان لیا جائے تو عالمی ادب کے بے شمار بڑے ناول غیر معیاری سمجھے جائیں گے۔ لیکن اسٹونسن اس لیے قابل معافی ہے کہ اس کے عہد تک ناول کا فن تخلیقی جہت میں وہ تنوع، بو قلمونی، رنگا رنگی اور وسعت و بے پایانی حاصل نہیں کرسکا تھا جو اس کے بعد کے عہد میں حاصل ہوئی۔ عہد وکٹوریہ تک ناول نگار رومانویت کی فضا سے دامن نہیں بچا سکے تھے۔ بعد کے ناول نگاروں نے سائنسی تہذیب اور فلسفیانہ تجزیہ زندگی کے نتیجے میں زیادہ بلند اور ہمہ گیر سطح و جہت پر تخلیقی شعور کے لیے راہیں ہموار کیں اور ناول کا فن سماجی زندگی اور تہذیبی حسیت کا ترجمان بنا۔ انگریزی کی مصنفہ کلارا ریوز نے نسبتاً ناول کی زیادہ بہتر تعریف کی ہے۔ وہ لکھتی ہے:

    ناول اس زمانے کی زندگی اور معاشرے کی سچی تصویر ہے جس زمانے میں وہ لکھا جائے۔“

    یعنی ناول اپنی عصری زندگی اور معاشرہ کی سچی پیش کش کا نام ہے۔ ایملی زولا ناول کی تعریف اس انداز میں کرتا ہے:

    ”ناول خیالات انسانی کا تجزیہ ہے اور ان کے مظاہر کا ایک ریکارڈ“

    بہ الفاظ دیگر ناول نگار انسانی تجربات و احساسات کے تجزیے اور ان کے مظاہر و آثار کی دستاویز پیش کرتا ہے۔ ایملی زولا فرانسیسی ناول نگار ہے۔ اس کی یہ رائے مبہم اور بے حد بے معنی ہے۔ ایک دوسرا فرانسیسی مصنف فورٹیر (Faiortier) کی رائے ناول کے فن کے سلسلے میں یہ ہے کہ ناول کی کہانی اور اس کے کرداروں کی سیرت و شخصیت کو ہماری عصری زندگی کا جیتا جاگتا نمونہ ہونا چاہئے۔ یہ تعریف اس حد تک غنیمت ہے کہ اس میں عصری زندگی ہے اور سماجی نظام کی اہمیت کا اعتراف ہے۔ حالانکہ ناول کا نقاد ہارٹن ناول کے لیے صرف پلاٹ کو اہمیت دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پلاٹ سے کسی ناول کے وجود کا اثبات ممکن نہیں دوسری طرف اس تعریف میں ایک منطقی کج بینی یہ بھی ہے کہ پلاٹ دوسرے کہانوی اصناف کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر صرف پلاٹ کی بنیاد پر ناول اور دوسرے اصناف قصہ گوئی میں امتیاز کی کوئی بھی کوشش مثبت نتائج کی حامل نہیں ہوسکتی۔ سروالٹر ریلے نے اپنی تصنیف The Englis Novel میں ناول کی نسبتاً زیادہ بہتر تعریف کی ہے ۔ وہ ناول کے لیے حقیقت نگاری اور عصری زندگی سے موضوع کے انتخاب کو لازمی قرار دیتا ہے ۔ اس میں گرچہ اختصار و ایجاز کی وجہ سے جامعیت و معنویت کی بے حد کمی ہے۔ لیکن یہ تعریف بہر طور ناول کی روح کی نشاندہی کرتی ہے۔ ناول کی تعریف کے سلسلے میں پروفیسر بیکر کی رائے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کی رائے ملاحظہ ہو:

    ”ناول نثری قصے کے ذریعے انسانی زندگی کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ بجائے ایک شاعرانہ و جذباتی نظریہ حیات کے ایک فلسفیانہ سائنٹفک یا کم سے کم ایک ذہنی تنقید حیات پیش کرتا ہے۔ قصے کی کوئی کتاب اس وقت تک ناول نہ کہلائے گی جب تک وہ نثر میں نہ ہو‘ حقیقی زندگی کی ہو بہو تصویر یا اس کے مانند کوئی چیز نہ ہو، اور ایک خاص ذہنی رجحان (نقطہ نظر) کے زیر اثر اس میں ایک طرح کی یک رنگی و ربط نہ موجود ہو۔“

    پروفیسر بیکر کی رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے علی عباس حسینی نے جن خصوصیات کی نشاندہی کی ہے یعنی ناول ایک قصہ ہو جو نثر میں زندگی کی عکاسی تنظیم و تسلسل کے ساتھ کرے، یہ تعریف ناول کے فن کی بڑی حد تک مناسب توضیح کرتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ بیکر نے تفصیلی طور پر ناول کے فنی معیار و اقدار کی وضاحت نہیں کی ہے لیکن قصہ گوئی، زبان و بیان، تنظیم و تسلسل اور زندگی کی تصویر بہ الفاظ دیگر سماجی آئینہ سامانی کی شرط لگا کر ناول کے فن کو دوسرے اصناف قصہ گوئی سے ممیز کردیا ہے۔ آرنلڈ بینٹ اسی بنیاد پر ناول کے فن کی پُر زور حمایت کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کرتا ہے کہ ذریعہ اظہار اور فنی اقدار کی روشنی میں ناول جس درجہ و مقام و مرتبہ کا حامل ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی کی تعبیر و تشریح اور تبصرہ و تنقید کے لیے قصہ گوئی کی اس سے بہتر کوئی دوسری صنف نہیں۔

    ناول کی تعریف و توصیف کے سلسلے میں اردو ناقدین کے یہاں بھی مختلف اور متنوع رائیں ملتی ہیں۔ ان ہی میں سے چند کا جائزہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ سہیل بخاری لکھتے ہیں:

    ”ناول اس نثری قصے کو کہتے ہیں جس میں کسی خاص نقطہ نظر کے تحت زندگی کی حقیقی و واقعی عکاسی کی گئی ہو۔ شیکسپیئر تو زندگی کو ڈراما کہتا ہے لیکن ہمارے نزدیک حیات ارضی ایک مہتم بالشان ناول ہے جس کا مرکزی کردار انسانیت ہے۔ اب اگر ہم اس ناول کا مطالعہ کرنا چاہیں تو ہمیں اپنی تمام تر توجہ اسی مرکزی کردار پر صرف کرنا ہوگی۔ کائنات کو ہم محض اس نظر سے دیکھیں گے کہ اس نے انسانیت کے بنانے یا بگاڑنے میں کہاں تک حصہ لیاہے مختلف افراد کی زندگیاں اپنی جگہ کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ یہ تو عالم انسانیت کے مرکزی قصے کے ضمنی پلاٹ ہیں ۔ ناول انہیں افراد کی زندگیاں پیش کرتا ہے اس لیے ہمارا مرکز توجہ ایک شخص (مرکزی شخص قصہ) اور اس کے واسطے سے اس کا ماحول یا معاشرہ ہوتا ہے۔ جس طرح کائنات سے الگ انسانیت کا تصور نا ممکن ہے‘ بالکل اسی طرح مخصوص ماحول یا معاشرے سے جدا ہو کر انفرادی زندگی کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے۔ اس لیے ہمیں ان واقعات کا مطالعہ بھی ناگزیر ہے جو اس سے اثر پذیر بھی ہوئے اور اس پر اثر انداز بھی اور اس طرح ناول انسان کی باطنی اور خارجی زندگی کے تصادم کا ایک مسلسل نثری قصہ ہے جوقدیم افسانوں کی بہ نسبت ہماری زندگی سے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔“

    سہیل بخاری کی یہ تعریف مبہم، پیچیدہ اور غیر واضح ہے اس لیے کہ انہوں نے ناول کی تعریف کی بجائے ناول کے فنی اقدار کی روشنی میں اس کی صنفی حیثیت کی تعیین کی کوشش کی ہے اور اس میں بھی وہ ناول کے کردار ہی پر تمام توجہ صرف کرنے کی بات کرتے ہیں اور اس کے واسطے سے ماحول‘ معاشرہ اور واقعات کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ناول کے فنی اقدار و معیار کا معروضی شعور نہیں رکھتے۔ یہی نہیں مندرجہ بالا اقتباس کا آخری جملہ بھی بے حد عمومیت کا شکار ہے۔ ان کا یہ کہنا ناول انسان کی باطنی اور خارجی زندگی کے تصادم کا ایک مسلسل نثری قصہ ہے جو قدیم افسانوں کی بہ نسبت ہماری زندگی سے زیادہ قریب ہوتا ہے سطحیت اور عمومیت کا اظہار ہے۔ کوئی بھی قصہ ایسا نہیں ہوتا جو انسان کی باطنی و خارجی زندگی کے تصادم سے بے نیاز ہو۔ دوسری بات قدیم افسانے بھی اپنے عصری پس منظر میں اُس عہد کی زندگی سے قریب تر رہے تھے کہ اپنی عصری حسیت اور شعور کے ترجمان تھے۔ در اصل سہیل بخاری کی رائے بھی صرف ہیئت اور سانچے تک محدود ہے، روح فن سے اس کو تعلق نہیں ہے اور جیسا کہ عرض کیا گیا‘ یہ لغزش تنقید کی دنیا میں ایک روایت بن گئی ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ ناول نثر میں کہانی کی وہ صنف ہے جو عصری زندگی کی سماجی حسیت، تہذیبی شعور اور تمدنی اسباب و عوامل کو تنظیم و تسلسل کے ساتھ فنی اور جمالیاتی طور پر پیش کرتی ہے۔ احتشام حسین اردو ناول اور سماجی شعور“ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

    تاریخ کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو ناول ایک صنف کی حیثیت سے عہد سرمایہ داری کی پیداوار ہے جب فرد اور سماج کی کش مکش بڑھی‘ جاگیر داری دور کی قدروں کے متعلق شک کا اظہار کیا جانے لگا اور جب سائنس نے عقاید اور روایات کی پرکھ پر آمادہ کیا‘ اُس وقت انسان اور اُس کے مسائل کو بہت سے پہلووں سے دیکھنے کی ضرورت محسوس کی گئی‘ گویا ناول ایک پیچیدہ سماج کا مظہر ہے۔ اٹھارہویں صدی سے یورپ میں ناول نے شاعری اور ڈرامے سے اہم ادبی اصناف کو نیچا دکھا کر یا کم سے اُن کی اونچی مسندوں سے انہیں ہٹا کر سب سے اہم ادبی فارم کی حیثیت اختیار کر لی اور ہر قسم کے سنجیدہ فلسفیانہ‘ فکری اور گہرے خیالات کے اظہار کے لیے اس صنفِ ادب سے کام کیا جانے لگا ۔“

    آل احمد سرور نے کوئی نئی بات نہیں کہی ہے۔ وہ لاشعوری طور پر جمالیاتی اقدار کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

    ”قصہ گوئی انسانیت کی ابتدا سے ملتی ہے مگر ناول مہذب انسانوں کی ایجاد ہے۔ سرمایہ داروں نے افراد سے دلچسپی پیدا کی اور اس دلچسپی نے ناول کو جنم دیا۔“

    مسیح الزماں نے ناول کی باضابطہ تعریف تو نہیں کی ہے لیکن ناول کی تکنیک سے بحث کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

    ناول میں انسان کی معاشرتی زندگی کی تصویر پیش کی جاتی ہے یہ تصویر واقعات‘ حالات‘ افکار کے میل جول سے اس طرح مرتب کی جاتی ہے کہ اس سے پڑھنے والے پر زندگی کا وہ نظریہ یا وہ تصور واضح ہوجائے جو ناول نگار کے ذہن میں ہے۔ ناول نگار انسانوں کی زندگی کو دیکھتا ہے‘ وہ اس زندگی کی جو تصویر پیش کرتا ہے وہ اپنی جگہ سچی اور اصل ہونے کے ساتھ ساتھ مجموعی حیثیت سے ایسی ہوتی ہے کہ پڑھنے والے پر ایک خاص اثر چھوڑ جاتی ہے۔

    قمر رئیس ناول کی صنفی حیثیت سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    ناول اپنی موجودہ فنی اور صنفی ہیئت میں صنعتی دور کی تخلیق ہے۔ یورپ میں نشاة ثانیہ کے بعد جب علم و فن کی روشنی پھیلی‘ سائنسی ترقی ہوئی‘ مادی وسائل بدلے اور ایک نظام زندگی وجود میں آیا جس میں فرد یا عام انسان کی شخصیت‘ صلاحیت اور قوت نمایاں ہوئی تو اس کی تفسیر و ترجمانی کے لیے ادب میں ناول جیسی صنف پیدا ہوئی۔ یہ نئی سائنس، صنعتی اور سرمایہ دارانہ معاشرت اپنی ساری کش مکش اور ہما ہمی کے ساتھ جوں جوں ترقی کرتی گئی ناول کے فن میں نکھار آتا گیا۔ بقول رالف فاکس ناول عہد جدید کا رزمیہ ہے جس میں فرد سوسائٹی اور نیچر کے خلاف برسر پیکار نظر آتا ہے۔ یہ صنفِ ادب ایک ایسے ہی معاشرہ میں نشو و نما پاسکتی ہے جہاں فرد اور سوسائٹی کے درمیان توازن اٹھ گیا ہو اور جس میں انسان اپنے ہم جنسوں اور نیچر سے نبرد آزما ہو۔“

    ان کا یہ خیال رالف فاکس کے درج ذیل افکار سے متاثر ہے جس کا اعتراف انہوں نے کیا ہے:

    It is the main argument of this essay that the novel is the most important gift of bourgeois, or capitalist, civilization to the world's imaginative culture. The novel is its great adventure, its discovery of man. It may be objected that capitalism has also given us the cinema, and this is trues, but only in a technical sense, for it has proved so far unable to devalop it as an art. The drama, music, painting and sculpture have all been developed by modern society, either for better or for worse, but all these arts had already gone through a long period of growth, as long almost as civilization itself, and their main problems were solved. With the novel, only one problem, the simplest one of all, that of telling a story, had been solved by the past.

    وقار عظیم داستانوں کا جائزہ لیتے ہوئے فنِ ناول نگاری کا سراغ لگاتے ہیں اور اس خیال کا اظہار کرتے ہیں:

    زمانے نے ادیب اور فن کار سے کہانی کی ایک ایسی صنف کا تقاضا کیا تھا جو رومان کی رنگینیوں کے بجائے زندگی کی سادہ اور پر پیچ حقیقتوں کی حامل ہو ایک ایسی صنف جس میں فن کار کے تخیل اور تصور کی جدت پسندی نہیں بلکہ تفکر کی گہرائی شامل ہو‘ جس میں انسان زندگی کی تلخیوںسے گھبرا کر ایک ان دیکھی دنیا کی سیر کرنے کی جگہ اس کی کش مکش سے دوچار اور نبرد آزما ہو، جہاں اسے زندگی سے فرار کی نہیں، اس سے الجھنے اور اس کی الجھنوں کو سلجھانے کی تعلیم ملے جہاں فن کار محض مصور نہیں، مبصر، نقاد اور معلم کے فرائض اور منصب پورے کرنے کی خدمت انجام دے ، جہاں جذبات اور احساسات پر فن کی منطق حاوی اور غالب نظر آئے۔ زمانے کی اسی طلب اور تقاضے نے ناول کی تخلیق کی اور آہستہ آہستہ اس نے داستان کی جگہ لے لی۔“

    مختصر یہ کہ ناول کے فن نے داستان کی بنیاد پر اپنی انفرادیت کی تعیین کی اور بدلتے ہوئے سماجی نظام و اقدار کی ترجمانی و آئینہ داری کی خدمت اپنے ذمہ لی اور ناول بتدریج فنی پختگی اور ارتقائی منازل سے گذرا۔

    ناول قصہ کہنے کا فن ہے، فن کی حیثیت سے اس کی کچھ خصوصیات ہیں، کچھ جمالیاتی اقدار اور کچھ فنی تقاضے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں بھی ابتدا، وسط اور انتہا کی منزل آتی ہے کہ یہ فن بھی انسان کی زندگی کا ترجمان و نقاد ہے اور انسان ہی کی طرح ابتدا، ارتقا اور انتہا کے پہلو رکھتا ہے۔ ناول کے فنی تقاضے اور جمالیاتی اقدار کے سلسلے میں ناقدین فن کے یہاں اختلاف رائے ہے۔ اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے اپنے مضمون ناول فنی نقطہ نظر سے میں جن قدروں کو اہمیت دی ہے۔ ان کی تفصیل کا یہ اجمالی نتیجہ سامنے آتا ہے۔ (۱) پلاٹ (۲) کردار نگاری (۳) واقعہ طرازی (۴) ماحول (۵) بیانیہ انداز (۶) فضا بندی (۷) اسلوب (۸) نصب العین۔

    ابو اللیث صدیقی نے ناول کی جن فنی قدروں کا ذکر کیا ہے وہ ساری کی ساری ناول نگاری کے فن کی بہت اہم قدریں ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی ناول کے کچھ اور فنی تقاضے ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سید علی عباس حسینی ناول کے عناصر ترکیبی میں پلاٹ، کردار، مکالمہ، مناظر، زمان ومکان، نظریہ حیات اور اسلوب بیان کو شمار کرتے ہیں۔(۱) ڈاکٹر مسیح الزماں نے ناول کی جن جمالیاتی قدروں کا ذکر کیا ہے (۲) وہ بھی اہم ہیں لیکن یہ اصول بھی مکمل نہیں۔ ان میں بعض قدروں کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر محمد احسن فاروقی اور نور الحسن ہاشمی نے اپنی مشترکہ تصنیف ناول کیا ہے“ ناول کے عناصر کے لیے ان قدروں کو ضروری قرار دیا ہے۔ قصہ پن، پلاٹ، کردارنگاری، قصہ، ماحول، مکالمہ، انداز بیان، جذبات نگاری، فلسفہ حیات، زبان، تکنیک یا فنکاری۔ یہ رائے ناول نگاری کے فن کے سلسلے میں زیادہ وسعت نظر رکھتی ہے اور زیادہ معروضی ہے لیکن اس میں خلط مبحث اورابہام کا احساس ہوتا ہے۔ مریم ایلوٹ نے ناول کی فنی قدروں کا جائزہ اس طرح لیا ہے، اس کی رائے ملاحظہ ہو:

    How small a part 'story' plays in comparision with other elements in his craft appears in the subsequent discussion; the 'finer growths' are investigated under these general headings and sub-headings:

    (i) Structural Problems

    Unity and Coherence

    Plot and Story

    The Time-factor

    (ii) Narrative Technique

    (iii) Characterization

    (iv) Dialogue

    (v) Background

    (vi) Style. ٭

    ان تمام مختلف افکار و آرا کو سامنے رکھ کر ناول کی فنی قدروں کی تعیین زیادہ بہتر طور پر اس طرح کی جاسکتی ہے (۱) قصہ گوئی (۲) دلچسپی کا عنصر (۳)واقعہ طرازی (۴) کردار نگاری (۵) ماحول (۶) منظر نگاری (۷) جذبات نگاری (۸) نصب العین (۹) مکالمہ (۰۱) پس منظر (۱۱) پلاٹ (۲۱) اسلوب ناول کی فنی قدروں میں ان تمام عناصر کی متوازن و معتدل ہم آہنگی اور یک رنگی ناگزیر ہے۔ اب انفرادی طور پر ناول کے عناصر ترکیبی کے ہر پہلو کا تنقیدی جائزہ لیا جائے گا۔

    ۱۔ قصہ گوئی: ناول کے لیے کسی نہ کسی قصہ کا ہونا ضروری ہے۔ کسی کہانی یا قصہ کے بغیر ناول کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اس لیے کہ اس کی سماجی حیثیت و نوعیت قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور وہ زندگی کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔ فورسٹر کی رائے ”قصہ ناول کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔“(۱) اظہار حقیقت کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ قصے کے بغیر ناول کا تصور نہیں ہوسکتا۔(۲) مسیح الزماں ، سیدعلی عباس حسینی اور سہیل بخاری نے ناول کے اجزائے ترکیبی میں قصہ گوئی کا ذکر نہیں کیا ہے حالاں کہ ناول کے فن کی یہ اساسی قدر ہے لیکن واقعات اور کردار کا ذکر کرتے ہوئے بلا واسطہ طور پر مذکورہ نقادوں نے قصہ گوئی کے وجود کا اقرار کیا ہے۔ ابو اللیث صدیقی نے بھی قصہ گوئی کو بنیادی قدر کی حیثیت سے نہیں دیکھا ہے بلکہ پلاٹ ہی کا ایک حصہ قرار دیا ہے۔ علی عباس حسینی، سہیل بخاری، ابو اللیث صدیقی اور مسیح الزماں اس مغالطے کا شکار ہوئے ہیں کہ قصہ اور پلاٹ ایک ہی مفہوم کے امین ہیں حالانکہ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ قصہ یا کہانی پلاٹ کا ایک جزو ہوتے ہوئے بھی انفرادی حیثیت کا حامل ہے اور ناول کے فن کی یہ بنیادی قدر ہے۔ ابو اللیث صدیقی تو قصے کو پلاٹ اور واقعات سے خلط ملط کرتے ہیں۔(۱) حالانکہ قصہ، واقعات اور پلاٹ تینوں مختلف قدریں ہیں۔ قصہ مختلف واقعات کے ارتقائی سلسلہ کا نتیجہ ہے ۔ اس لیے قصہ کو ایک الگ فنی قدر کی حیثیت حاصل ہے جو ای ایم فورسٹر کے الفاظ میں ناول کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔“ میریم ایلوٹ نے بھی شکوہ کیا ہے کہ عموماً ناول نگاروں نے ان دونوں عناصر (پلاٹ اور قصہ) کی وضاحت سے گریز کیا ہے اور اس کی کچھ ذمہ داری اس نے اٹھارہویں صدی کے نو کلاسیکیت پسندوںپر بھی عاید کی ہے۔

    ۲۔ دلچسپی کا عنصر: ناول کے قصے میں دلچسپی کے عنصر کا ہونا ضروری ہے۔ چونکہ دلچسپی کے عنصر کی تخلیق مختلف طریقوں سے کی جاسکتی ہے اس لیے یہاں اس کو ایک الگ قدر کی حیثیت دی گئی ہے۔ ناول نگار اور قاری کے درمیان یہی بنیادی رشتہ ہے۔ ناول میں جس حد تک دلچسپی کے عنصر کی کمی ہوگی اس حد تک ناول ناکامیاب رہے گا۔ انسانی مزاج میں تجسس کا عنصر جبلی طور پر موجود ہے اور چوں کہ ناول کا فن انسانی زندگی کی بلندیوں، پہنائیوں اور گہرائیوں کو قصے کے اسلوب میں خوبصورتی سے پیش کرنے کا فن ہے اس لیے اس کے قصے میں تجسس کی لہر موجزن ہوتی ہے۔ ناول نگار کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ قصے کو زیادہ سے زیادہ دلچسپ بنائے۔ قصہ میں دلچسپی کا عنصر واقعات کی ترتیب و تنظیم اور فطری پیش کش اور انداز بیان کی جامعیت پر منحصر ہے۔ ناول میں جب دلچسپی کا عنصر رہے گا تو سامع یا قاری کا انہماک و ارتکاز لمحہ بھر کے لیے بھی منحرف نہیں ہوگا اور واقعاتی نشیب و فراز میں وہ پوری طرح مبتلا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ قصہ گوئی کی صنف کے طور پر ناول کے فن میں دلچسپی کے عنصر کو انفرادی قدر کی حیثیت دی گئی ہے۔ تمام نقادوں نے غیر واضح طور پر ہی سہی ناول کی اس جمالیاتی قدر کا اقرار کیا ہے۔

    ۳۔ واقعہ طرازی : واقعہ طرازی ناول کی فنی قدروں میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ قصہ واقعات کے ارتقائی سلسلے کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ مختلف واقعات کے اجتماع ہی سے قصے کی تخلیق و تکمیل ہوتی ہے۔ اس لیے واقعہ طرازی بڑی پختہ فنکاری اور معتبر تخلیقی شعور کی طالب ہے۔ ناول نگار واقعہ نگاری نہیں کرتا بلکہ واقعہ طرازی کرتا ہے اور اس لیے واقعہ نگاری کی اصلاح پر واقعہ طرازی کو ترجیح دی گئی ہے۔ واقعہ طرازی کی پہلی شرط ہے کہ اس کو فطری سماجی زندگی کا آئینہ دار اور روز مرہ کی زندگی کا عکاس بنایا جائے۔ اگر واقعہ طرازی نیچرل یا فطری نہیں ہوئی تو اس کا اثر دلچسپی کے عنصر، قصہ اور کردار نگاری پر پڑے گا اور اس طرح ناول کا پورا فن منفی طور پر متاثر ہوجائے گا۔ اس لیے ناول نگار کو واقعہ طرازی کے لیے زبردست تخلیقی شعور سے کام لینا پڑتا ہے۔ اسی گفتگو سے واقعہ طرازی کی یہ صفت بھی سامنے آتی ہے کہ اس میں تنظیم، تسلسل اور ارتقا ہونا چاہئے۔ ناول نگار اگر واقعات میں تنظیم و تسلسل‘ ربط و تعلق اور تعمیر و ارتقا اس طرح پیدا نہ کرسکا تو قاری کی دلچسپی سے محروم ہوجائے گا۔ قصہ کی اثر انگیز پیش کش کے لیے واقعات کے انتخاب، ان کے باہمی ارتباط، ان کے آغاز و وسط اور انجام کی آرائش کے مرحلوں میں ناول نگار کو نہایت خوبصورت ہنر مندی اور خوش سلیقگی سے کام لینا پڑتا ہے۔ ناول نگار واقعات کو محض رسمی طور پر ایک دوسرے سے متعلق نہیں کردیتا بلکہ وہ واقعات کا انتخاب کرتا ہے۔ انتخابِ واقعات کا مرحلہ بھی بہت کٹھن ہے ۔ منتخب واقعات کی پیش کش سے ترتیب و تنظیم، ربط و تسلسل کی صفت پیدا ہوگی ورنہ واقعات کی بہتات سے اکتاہٹ اور بیزاری کا ماحول پیدا ہوگا ۔ سہیل بخاری نے انتخاب واقعات کو بڑی اہمیت دی ہے۔(۱) محمد احسن فاروقی اور محمد نور الحسن ہاشمی نے قصے اور واقعہ طرازی میں کوئی فرق محسوس نہیں کیا ہے۔ وہ دونوں کو ایک ہی سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ انتخاب واقعات پر غیر شعوری انداز میں زور بھی دیتے ہیں۔(۲) بہر کیف، انتخاب واقعات پر ہر نقاد نے زور دیا ہے۔ اس لیے کہ اس کے بغیر کہانی میں دلچسپی کا عنصر اور قصے میں تاثر کی کمی رہ جائے گی اور ناول ناکامیاب ہوجائے گا۔ سید علی عباس حسینی نے غیر شعوری طور پر قصہ گوئی، دلچسپی، اور واقعہ طرازی اور پلاٹ کو الگ الگ قدروں کی حیثیت میں تحریر کیا ہے لیکن شعوری سطح پر وہ ان قدروں کی انفرادیت کی تعیین سے قاصر رہے ہیں۔(۱) محمد احسن فاروقی اور نور الحسن ہاشمی قصے کی تعریف کرتے ہوئے دلچسپی کا عنصر اور واقعہ طرازی کا غیر شعوری ذکر بھی کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قصہ گوئی، دلچسپی کا عنصر اور واقعہ طرازی مختلف چیزیں ہیں۔ لیکن مذکورہ مصنفین ان تینوں کو تقریباً مترادف سمجھتے ہیں۔(۲) بہر کیف واقعہ طرازی کے لیے ترتیب و تسلسل ، انتخاب اور ارتقا ضروری ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسے فطری اور ارضی ہونا چاہئے تاکہ وہ اجنبی معلوم نہ ہو اگر ناول نگار واقعہ طرازی کے تینوں صفتوں پر قدرت حاصل کر لے تو اس کو کامیابی یقینی حاصل ہوجاتی ہے۔ واقعہ طرازی کا اثر کردار نگاری پر بھی پڑتا ہے جب واقعات میں ترتیب و تسلسل اور تیزی ہو تو کرداروں کی شخصیت اور سیرت کا اظہار ہوتا ہے اور ان کی انفرادی و امتیازی خصوصیات سامنے آتی ہیں۔ غرض یہ کہ واقعہ طرازی تخلیقی شعور کی یکسوئی‘ وسعت اور تنوع کی متقاضی ہے اور اس لیے یہ کار مشکل ہے۔

    ۴۔ کردار نگاری: کردار نگاری ناول کے فن کی بہت ہی بنیادی اور اہم قدر ہے۔ عام طور پر قصوں میں دو طرح کے کردار آتے ہیں، کچھ بڑے اور کچھ چھوٹے بڑے کرداروں میں ہیرو، ہیروئن اور ویلین کا کردار شامل ہے۔ ان کرداروں کے علاوہ دوسرے کردار چھوٹے کرداروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ہیرو اور ہیروئن کا کردار زندگی کی صالح، تعمیری، انسانی اور اعلیٰ قدروں کی نمائندگی کرتا ہے اور ویلین کا کردار زندگی کے تخریبی، غیر صحت مند اور منفی پہلوو ¿ں کا ترجمان ہوتا ہے۔ ان دونوں کرداروں کے تصادم اور ٹکراو ¿ سے واقعے سامنے آتے ہیں اور قصہ آگے بڑھتا ہے۔ اس لیے کردار نگاری بڑا مشکل فن ہے کہ یہ واقعہ طرازی کو بھی متاثر کرتا ہے اور قصہ گوئی کو بھی۔ چھوٹے چھوٹے کردار عام طور پر بڑے کردار کی شخصیت و سیرت اور نفسیات و فطرت کو اجاگر اور منور کرنے کے لیے لائے جاتے ہیں چونکہ کردار کے سہارے واقعات کی تخلیق ہوتی ہے اور قصہ ارتقائی منزلیں طے کرتا ہے اس لیے کردار نگاری ہنر مند فنکارانہ شعور کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ان کی کئی شرطیں ہیں جن میں پہلی شرط یہ ہے کہ واقعات کی طرح کرداروں کو بھی فطری ہونا چاہئے یعنی وہ قاری کے لیے اجنبی ، غیرارضی اور مافوق الفطری نہ ہوں تاکہ قاری ان کو اپنی سماجی زندگی سے ہم آہنگ سمجھ کر ان میں دلچسپی محسوس کرے۔

    کردار اور اس کے عمل میں فطری مناسبت ہو تاکہ کردار کی شخصیت کا نفسیاتی عمل و رد عمل واضح ہوسکے۔ اس طرح کردار کے فطری اعمال کو کردار نگاری کے لیے ضروری سمجھنا چاہئے۔ کردار نگاری میں یہ خوبی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب کردار با عمل، متحرک اور جاندار ہوتے ہیں۔ چونکہ کرداروں کے عمل کے ذریعہ ناول نگار اپنے مقصد، نصب العین اور نظریہ و افکار کی آئینہ داری بھی کرتا ہے اس لیے کرداروں کو فنکار کے تخلیقی شعور کی مختلف کیفیتوں کا اعلانیہ سمجھنا چاہئے۔ جب تک کرداروں میں مذکورہ بالا صفتیں پیدا نہیں ہوں گی اس وقت تک وہ فنکار کے جذبہ و احساس اور تجربہ و مشاہدہ کی حقیقی نمائندگی سے قاصر رہے گا۔ اس لیے تمام نقادوں نے کرداروں کی ان صفتوں کو ضروری قرار دیا ہے۔ اس میں ایک رمزیہ بھی ہے کہ کردار نگاری بے جان، بے روح، حرکت و عمل سے عاری ہوتی ہے اور مصنف کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتی ہے تو قاری کی توجہ سے محروم ہوجاتی ہے کرداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ امتیازی اور انفرادی خصوصیات کے حامل ہوں اور آئندہ زندگی سے مطابقت رکھتے ہوں، سماجی شخصیت کے علم بردار ہوں اور کتاب کے صفحے سے بلند ہو کر متحرک اور با عمل انداز میں قاری کی نگاہوں کے سامنے رقص کناں ہوجائیں۔ کامیاب کردار نگاری کی یہی پہچان ہے۔ کردار نگاری کا تجزیہ کرتے ہوئے محمد احسن فاروقی اور محمد نور الحسن ہاشمی نے ای ایم فورسٹر کے خیالات پیش کیے ہیں:

    ناول کی ادبی اہمیت اس کی کردار نگاری پر منحصر ہے اور اگر کوئی ناول نگار کردار نگاری کی قوت نہیں رکھتا تو وہ صحیح معنی میں ناول نگار کہلائے جانے کے لایق نہیں ہے.... کردار کی زندگی عام زندگی نہیں ہوتی بلکہ ناول نگار کی قوت متخیلہ اس کو ایسی نئی زندگی بخش دیتی ہے کہ وہ عام لوگوں سے زیادہ پر کیف اور پر اثر ہوجاتی ہے۔“

    خورشید الاسلام رقم طراز ہیں:

    ناول نگار کردار کی زندگی اور اس کے مفروضہ اعمال میں قطع و برید کرتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کردار کے سارے خارجی اعمال دکھائے جائیں۔ یہ بھی ہر گز ضروری نہیں کہ اسے ایک خیال سے دوسرے خیال یا ایک احساس سے دوسرے احساس تک پہنچتے ہوئے دکھایا جائے۔ ذہنی زندگی کی لہروں میں سے بھی انتخاب کرنا چاہئے اور صرف اس داخلی عمل کو ناول میں جگہ دینی چاہئے جس کے بغیر صداقت کے ادھورے رہ جانے کا اندیشہ ہو۔ یہی نہیں بلکہ وہ داخلی عمل ایسا ہونا چاہئے جسے ہماری عقل آسانی کے ساتھ قبول کرے۔ دوسرے الفاظ میں زندہ فرد کے ذہنی اور خارجی اعمال ہمارے قابوں میں نہیں ہوتے مگر ناول کا کردار ہمارے دستِ قدرت کی گرفت میں ہوتا ہے۔“

    ناول نگار مورخ یا مصور کی طرح کرداروں کے تاریخی یا ظاہری حالات یا خارجی شخصیت کا ذکر نہیں کرتا بلکہ اس کے نفسیاتی عمل و رد عمل‘ پیچ و خم اور نشیب و فراز کا اظہار کرتا ہے ۔ یعنی ناول نگار کسی کردار کو بیان نہیں کرتا۔ بقول آندرے ژید:

    کرداروں کی تفصیلات کا بیان بھی در حقیقت ناول کے فن کا حصہ نہیں ہے۔“

    آل احمد سرور کے الفاظ میں:

    ناولسٹ اپنی افسانوی دنیا کا خدا ہے جو اوپر سے اپنے کرداروں کو دیکھتا ہے اور ان کی حرکات کی نگرانی کرتا رہتا ہے۔“

    محمداحسن فاروقی اور نور الحسن ہاشمی نے اس سلسلے میں درج ذیل رائے کا اظہار کیا ہے :

    ”ناول نگار اپنے کردار کی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے پہلو کو سامنے لے آتا ہے بلکہ اپنی تخلیقی قوت کے ذریعے سے وہ اپنے کردار کی ان حرکات اور صفات تک پہنچ جاتا ہے جو ان کی مکمل ہستی کا کامل خاکہ کھینچنے کے لیے ضروری ہیں اور ان ہی چیزوں کا اظہار کر کے وہ اپنے کردار کو عام زندہ لوگوں سے زیادہ زندہ بنا دیتا ہے ۔ کردار کی زندگی عام زندگی نہیں ہوتی بلکہ ناول نگار کی قوت متخیلہ اس کو ایسی نئی زندگی بخش دیتی ہے کہ وہ عام لوگوں سے زیادہ پرکیف اور پر اثر ہوجاتی ہے۔“

    فاروقی اور ہاشمی نے کردار نگاری کے سلسلے میں جن شرطوں کی تعیین کی ہے وہ کہانوںصنف کے لیے ضروری ہیں خواہ وہ افسانہ ہو کہ ناول یا ڈرامہ۔ چو نکہ ناول میں کسی کردار کی مکمل شخصیت و سیرت کا اظہار کیا جاتا ہے اس لیے کردار نگاری کو اساسی اہمیت حاصل ہے۔

    ورجینا وولف کردار نگاری کے سلسلے میں اس خیال کا اظہار کرتی ہے:

    It is to express character---- not to preach doctrines, sing songs, or celebrate the glories of the British Empire, that the form of the novel, so clumsy, verbose and undramatic, so rich, elastic and alive, has been anvolved. ٭

    اور مارٹین ٹرنل (Martin Ternell) کی رائے ہے :

    A character is a verbal construction which has no existence outside the book. It is a vehicle for the novelist's sensibility and its significance lies in its relations with the auther's other constructions. A novel is essentially a verbal pattern in which the different 'characters' are strands, and the reader's experience is the impact of the complete pattern on his sensibility. ٭

    ورجینا وولف اور مارٹین ٹرنل کردار نگاری کے سلسلے میں جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں ان سے اتنی بات سامنے آتی ہے کہ بہتر کردار نگاری کے بغیر کامیاب ناول کی تخلیق ممکن نہیں ہے اور یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ناول کے فنی تقاضے ایک دوسرے سے گہرے طور پر وابستہ اور متعلق ہونے کے باوجود اپنی انفرادی حیثیت رکھتے ہیں۔

    ناول میں کردار نگاری کبھی بیانیہ انداز میں سامنے آتی ہے اور کبھی ڈرامائی انداز میں۔ ناول نگار جب کسی کردار کا تعارف کراتا ہے اور اس کی شخصیت و سیرت کے پس منظر کی وضاحت کرتا ہے تو ایسی صورت میں تشریحی یا بیانیہ کردار نگاری سامنے آتی ہے لیکن کردار اپنے اعمال و حرکات اور مکالمات کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے نتیجے میں جو نفسیاتی گھتیاں سلجھتی ہیں وہ ڈرامائی کردار نگاری سے تعبیر کی جاتی ہے دونوں صورتوں میں کردار نگاری میں ارتقا کا عنصر ضروری ہے ۔ وہ کردار جو ارتقائی منزلوں سے نہیں گزرتے بے اثر اور بے جان ہوجاتے ہیں۔ کامیاب ناول نگار ناول کی رفتار اور واقعہ طرازی کے ارتقا کے ساتھ ساتھ اپنے کرداروں کی شخصیت و سیرت کی تبدیلی و تغیر کو بھی سامنے لاتا ہے۔ ارتقائی کیفیت کے بغیر صرف یہی نہیں کہ کردار نگاری مجروح ہوتی ہے بلکہ اس کا اثر دوسرے فنی تقاضوں پر بھی ہوتاہے۔

    کردار نگاری کے سلسلے میں ای ایم فورسٹر کی تقسیم بندی کو پیش نظر رکھتے ہوئے محمد احسن فاروقی اور محمد نور الحسن ہاشمی نے کردار کی دو قسمیں سادہ اور مکمل بتائی ہیں اور انہوں نے سادہ (Flat) اور مکمل (Round) کردار کو ادب برائے ادب اور ادب برائے اخلاق کے مسئلے سے وابستہ کرتے ہوئے ایک طویل بحث کی ہے جس میں الجھنا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ در اصل مسئلہ یہ ہے کہ کرداروں کی ساخت، تخلیق و تشکیل میں ناول نگار کو جن بنیادی خصوصیات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ وہ ان کی سماجی حیثیت، عصری عکاسی، ارتقائی کیفیت، نفسیاتی وضاحت، جد و جہد اور عمل و حرکت وغیرہ، خواہ وہ کردار سادہ ہو یا مکمل، اس سے بحث نہیں۔ کردار نگاری کے سلسلے میں دنیا کے تمام ناول نگاروں اور اہم نقادوں نے کسی نہ کسی نظریہ کا اظہار کیا ہے۔ یہاں ان تمام نظریے کا تفصیلی اور تنقیدی جائزہ لینا ممکن نہیں ولیم ہنری ہڈسن ناول میں کردار نگاری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اس خیال کا اظہار کرتا ہے:

    In passing from plot to characterisation in fiction we are met at the outset by one of those elementary questions of which even the most uncritical reader is certain to feel the force. Does the novelist succeed in making his men and women real to our imaginations? Do they, in Trollope's phrase stand upright on the ground? That the great creations of our great novelists fulfil this initial condition is a fact too familiar to need particular illustration. They lay hold of us by virtue of their substantial quality of life; we know and believe in them as thoroughly, we sympathise with them as deeply, we love and hate them as cordially, as though they belonged to the world of flesh and blood. And the first thing that we require of any novelist in his handling of character is that, whether he keeps close to common exprience or boldly experiments with the fantastic and the abnormal, his men and women shall move through his pages like living beings and like living beings remain in our memory after his book is laid aside and its details perhaps forgotten. ٭

    ولیم ہنری ہڈسن کی مندرجہ بالا رائے کردار نگاری کی واضح خصوصیات و صفات کی آئینہ داری کرتی ہے۔ ان سے بے نیاز اور محروم ہو کر کوئی کردار کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کامیاب اور بڑے ناول نگار کو کردار نگاری کی ان فنی اور جمالیاتی نزاکتوں اور قدروں کا شعوری احساس کرنا پڑتا ہے۔

    ۵۔ ماحول۔ ناول میں ماحول سازی کی بھی بڑی قدر و قیمت ہے ۔ قصہ کسی نہ کسی خاص عہد، طرز حیات، عصری زندگی اور سماجی اقدار ،اخلاق اور رسوم و روایات سے متعلق ہوتا ہے۔ لہٰذا ناول میں قصہ کے ماحول کی پیش کش ایک اہم مرحلہ ہے۔ اکثر ناول نگار اس کو اہمیت نہیں دیتے، جس کے نتیجے میں ان کی تخلیق اثر و تاثیر کے اعتبار سے کمی کا شکار ہوجاتی ہے۔ ماحول سازی بھی شعوری احساس و ادراک کی متقاضی ہے کہ قصہ کی بنیاد اسی پر ہوتی ہے‘ اسے فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ ای ایم فورسٹر نے قصہ کو ناول کی ریڑھ کی ہڈی سے تعبیر کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ فورسٹرکا خیال صداقت اور حقیقت پر مبنی ہے۔ اس میں اتنی ترمیم کی جاسکتی ہے کہ جس طرح قصہ ناول کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے اسی طرح ماحول قصے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کو نظر انداز کر کے کوئی بھی ناول نگار قصے کی سچی، حقیقی، ارضی اور سماجی قدروں کو اثر و تاثر کے ساتھ پیش نہیں کرسکتا۔ محمد احسن فاروقی اور محمد نور الحسن ہاشمی نے ماحول کی اہمیت کا اثبات کر کے وسعت نظر کا ثبوت دیا ہے لیکن افسوسناک بات ہے کہ وہ ماحول اور منظر کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔(۱) ماحول کا تعلق سماجی زندگی کی خارجی اور داخلی قدروں سے ہوتا ہے اور منظر نگاری کا تعلق فطرت اور انسان کے رشتے کے خارجی اور داخلی اقدار سے ہوتا ہے۔ منظر نگاری ناول کے لیے بے حد اہم ہے لیکن یہ ایک انفرادی قدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کو ماحول کے ساتھ ہم آہنگ کرنا کج فہمی ہے۔ میریم ایلوٹ نے ناول نگاری کے لیے بیک گراونڈ کی اہمیت کی وکالت کی ہے۔ بیک گراونڈ کے لیے اردومیں مناسب متبادل لفظ پس منظر ہے لیکن چونکہ منظر نگاری اور پس منظر کی اصطلاحوں میں ژولیدگی فہم کے اشکال کا خدشہ ہے اس لیے بیک گراونڈ کے لیے ماحول کے لفظ کو بہتر نمائندہ سمجھتا ہوں۔ بہر کیف‘ میریم ایلوٹ بیک گراونڈ کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے اس خیال سے متفق ہے:

    The artistic self-consciousness which compels the novelist to make 'things of truth' from 'things of fact' by adjusting them to their new context has gradually seen to it that the background and setting of his 'scene' shall be as integral to his design as his plot, his characters, his dialogue and his narrative technique.

    ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی بھی ماحول اور پس منظر کو ایک ہی صفت سمجھتے ہےں۔ڈاکٹر موصوف اس منطقی اور جمالیاتی مغالطے کے شکار ہیں جس مغالطے کی گرفت میں فاروقی اور ہاشمی آئے ہیں۔ یہاں ایک بار پھر وضاحت کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ ماحول اور منظر نگاری میں بڑا فرق ہے۔ منظر نگاری فطری ہوتے ہوئے بھی فنکار کے رجحانات و میلانات کے نابع ہے اور ماحول سازی میں فنکار کو عصری زندگی کا تابع رہنا پڑتا ہے۔ ماحول در اصل عصری، تہذیبی و تمدنی زندگی کے قدر و معیار کی ترجمانی اور نمائندگی سے عبارت ہے۔ اس میں بدلتی ہوئی عصری حسّیت کے ساتھ تبدیلی و تغیر کے تمام امکانات چھپے رہتے ہیں۔ منظر نگاری چیزے دگر ہے ۔

    ماحول سازی کے لیے فنکار کو کم و بیش انہیں جمالیاتی مرحلوں سے گذرنا پڑتا ہے جن سے وہ کردار نگاری، واقعہ طرازی وغیرہ سے گذرتا ہے یعنی سماجی زندگی کی جانی پہچانی تصویر کشی، انتخاب، ارتقا اورمعروضیت و حقیقت پسندی حاصل گفتگو یہ ہے کہ مناسب ماحول سازی کی کمی بھی کسی ناول کی ناکامیابی کا سبب بن سکتی ہے۔

    ۶۔ منظر نگاری: منظر نگاری ایک مشکل مرحلہ ¿ فن ہے۔ یہ اصطلاح بڑی وسعت اور نیرنگی کی حامل ہے۔ عام طور پر منظر نگاری کو بہت ہی سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے لیکن منظر نگاری وہ صفت ہے جو ناول کی روح سے متعلق ہوتی ہے۔ عالمی ادب میں منظر نگاری کی چار صورتیں ملتی ہیں۔ منظر نگاری کی پہلی صورت ہو بہو عکاسی کی ہے۔ شاعر یا فنکار مناظر فطرت یا سماجی زندگی اور تہذیبی نقوش کی ہو بہو عکاسی اور آئینہ داری سے اپنے فن کی فضا بندی کرتا ہے۔ لیکن منظر نگاری کی یہ صورت ادب و فن کی دنیا میں بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ اس لیے کہ فنکار بہر کیف محض فوٹو گرافر یا عکاس فطرت نہیں ہوتا‘ وہ مناظر فطرت کے پس پردہ انسانی جذبات و احساسات کا اعتراف بھی کرتا ہے۔ اس لیے منظر نگاری کی دوسری قسم وہ ہے جس میں فطرت کے مظاہر کی عکاسی کے پس پردہ فنکار انسانی جذبات و احساسات کی ہم آہنگی کی قدروں کی جستجو کرتا ہے۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت میں فنکار کسی المیہ کو پیش کرتے ہوئے مناظر فطرت کو بھی المیہ انداز میں پیش کرتا ہے یعنی اگر فنکار افسردہ خاطر ہے تو فطرت کے تمام مظاہر و آثار میں اسے افسردگی کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ یہ صورت مناظر فطرت سے جذبات و احساسات کی ہم آہنگی کی بنا پر سامنے آتی ہے۔ دوسری صورت متضاد منظر نگاری بھی پیش کی جاتی ہے یعنی فنکار فطرت کے تمام مظاہر و مناظر کو ترو تازہ ، شاداب، خوشگوار اور حسین و جمیل محسوس کرتا ہے لیکن اس کے درمیان کوئی کردار بے حد اداس، غم زدہ اور افسردہ خاطر ہوتا ہے اور اس طرح اس کے زخم کی تپک اور اس کے درد کی کسک دو بالا ہوجاتی ہے۔ مصوری میں بھی منظر نگاری کی یہ دونوں صورتیں عام طور پر نظر آتی ہیں۔

    منظر نگاری کی تیسری صورت میں فنکار فطرت کے آثار و مظاہر میں روحانی اور متصوفانہ قدروں کی تلاش و جستجو کرتا ہے۔ عالمی ادب میں بڑے فنکاروں کے یہاں منظر نگاری کی یہ صورت زیادہ واضح اور مقبول ہے۔ انگریزی کے رومانوی دور کے شعرا کے یہاں فطری مناظر میں روحانی‘ فلسفیانہ اور متصوفانہ قدروں کی تلاش و جستجو غالب رجحان کی حیثیت رکھتی ہے منظر نگاری کی چوتھی صورت میں فنکار مناظر فطرت کو انسانی زندگی کی راہ میں حوائل و موانع کی حیثیت سے دیکھتا ہے اونچے پہاڑ پھیلے ہوئے صحرا، بکھرے ہوئے دریا اور غصیل سمندر انسان کی راہِ ارتقا میں زبردست رُکاوٹوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسان کا ہر لمحہ ان سے نبرد آزما ہوتا ہے منظر نگاری کی یہ صورت اعلیٰ ترین صورت مانی جاتی ہے۔ لیکن ادب و فن میں ایسی منظر نگاری کم ہی نظر آتی ہے۔ علامہ اقبال کے یہاں ’ساقی نامہ‘ میں اس طرح کی منظر نگاری پائی جاتی ہے۔

    ناول میں بھی ہو بہو عکاسی کو زیادہ مقبولیت حاصل رہی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسی منظر نگاری جاندار نہیں ہوتی۔ منظر نگاری کی دوسری صورت‘ جس میں فنکار فطرت کو اپنے جذبہ و احساس سے ہم آہنگ یا بے نیاز محسوس کرتا ہے‘ کو اردو کے ابتدائی ناولوں میں غالب رجحان کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ناول میں منظر نگاری کے عنصر سے بحث کرتے ہوئے ہمارے ناقدوں نے منظر نگاری کے ان فنی رموز و نکات کو نظر انداز کیا ہے اور عمومی بحث سے آگے ان کی رسائی نہیں ہوئی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ منظر نگاری کے سلسلے میں ہمارے نقادوں نے زمان و مکان کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بنیادی طور پر زمان و مکان ناول کا ایک مستقل اور منفرد فنی تقاضا ہے، اس کو منظر نگاری سے خلط ملط کرنا مناسب نہیں ہے۔ محمد احسن فاروقی اور محمد نور الحسن ہاشمی نے جیسا کہ قبل عرض کیا گیا ماحول اور منظر نگاری کو لازم و ملزوم سمجھ لیا ہے۔ یہی حال ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کا بھی ہے۔ سہیل بخاری نے منظر نگاری کو ایک الگ قدر کی حیثیت سے اہمیت ضرور دی ہے لیکن ان کا نظریہ بھی حد درجہ عمومیت کا شکار ہے۔ سہیل بخاری کا یہ کہنا ہے کہ منظر نگاری بذات خود ”کوئی اہمیت اور معنی نہیں رکھتی۔“ (۱) بے حد لغو ہے۔ منظر نگاری کسی بھی فن کے لیے داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر بہت ہی ناگزیر قدر کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے لیے بے حد فنکارانہ صناعانہ شعور و ادراک کی ضرورت ہے۔ منظر نگاری کی اہمیت کو سید علی عباس حسینی بھی سمجھتے ہیں۔ وہ اسے ناول کا پانچواں عنصر سمجھتے ہیں لیکن منظر نگاری کی حقیقت و ماہیت سے انہوں نے بحث نہیں کی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مسئلہ سنجیدہ ہے اور غور و فکر کا طالب ہے جس کی گنجائش ان کے موضوع کی پیش کش میں نہیں تھی لیکن منظر نگاری کا تعارف انہوں نے جس انداز میں کیا ہے حد درجہ تشنہ ہے۔ سید علی عباس حسینی نے منظر نگاری اور محاکات کو ایک ہی سمجھ لیا ہے۔ (۲) حالانکہ دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ محاکات کا تعلق واقعہ نگاری سے ہے۔ اگر منظر نگاری سے اس کا ربط تلاش کیا جائے تو یہ منظر نگاری کی محتلف خصوصیتوں اور صنعتوں میں ایک صفت ہوسکتی ہے لیکن محاکات کو منظرنگاری سمجھنا حد درجہ غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔

    منظر نگاری کی مذکورہ بالا اہمیت کے پیش نظر یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ جس طرح کردارنگاری یا واقعہ طرازی میں فنکار کو چابکدستی اور پختگی سے کام لینا پڑتا ہے اسی طرح منظر نگاری میں بھی اس بات کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے کہ مناظر اجنبی بے جان، بے معنی اور غیر متعلق نہ ہوں اور تصنع و تکلف سے محفوظ ہوں یعنی مناظر کو فن کار تخلیقی سطح پر پیش کرے۔ جب فنکار احساساتی اور تخلیقی سطح پر منظر نگاری کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہوتا ہے تو ناول یا کوئی بھی فن دلچسپی ، تاثر اورمعنویت کے اعتبار سے گرانقدر ہوجاتا ہے۔

    ۷۔ جذبات نگاری: احساس اور جذبہ کو الفاظ کا پیرہن عطا کرنا کسی منظر یا کسی شئے کی لفظی تصویر کشی سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ احساسات و جذبات کسی مادی پیکر کے حامل نہیں ہوتے۔ اسی لیے ان کا مشاہدہ چشم دل کے وا ہونے کا مطالبہ کرتا ہے۔ احساس اور جذبے کی تہوں تک پہنچنا اور پھر انہیں ایسا لفظی پیکر بخشنا کہ ہر شخص اسے اپنے ذاتی تجربے کی نگاہوں سے دیکھ سکے‘ ایک ایسا فن ہے جو لطیف بھی ہے اور دشوار بھی جذبات نگاری کو منظر نگاری کا ہم معنی نہیں سمجھنا چاہئے اس لیے کہ منظر نگاری خارجی زندگی اور فطرت کے انواع و آثار کے داخلی ردِ عمل سے عبارت ہے اور جذبات نگاری کا تعلق خصوصیت کے ساتھ حالات و واقعات کے عمل و رد عمل سے ہے۔ بعض اہل فکر و نظر نے جذبات نگاری اور منظر نگاری کو مترادف سمجھ لیا ہے‘ جس طرح بعض نقادان فن نے ماحول اور منظر نگاری کو سمجھ لیا۔ اس لیے یہاں اس کی وضاحت ضروری محسوس کی گئی کہ جذبات کی پیش کش منظر کی تخلیق و تشکیل سے مختلف اور متضاد سمت رکھتی ہے۔ جذبات نگاری کے سلسلے محمد احسن فاروقی اور نورالحسن کی یہ رائے قابل غور ہے:

    ”ناول کے قصہ یا کردار کا تعلق ہمارے جذبات سے بھی ہے کیوں کہ ناول کی دنیا جذبات سے بھری ہوتی ہے۔ کبھی پورا قصہ حزنیہ ہوتا ہے ، کبھی پورا نشاط انگیز۔ لیکن عام طور پر کچھ حصہ حزنیہ ہوتا ہے اور کچھ حصہ نشاط انگیز، ناول میں ہم جن چیزوں سے بحث کرتے ہیں ان میں بعض خوبصورت ہوتی ہےں بعض شاندار،بعض الم ناک اور بعض نشاط انگیز، اور ناول نگار ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کر کے اپنی جودتِ طبع صرف کرتے ہیں۔ حالاں کہ بہترین ناول نگار وہی ہے جو ان تمام اقسام کو جذباتی اثرات کو مناسب طریقہ پر ادا کرنے کی قابلیت رکھتا ہو۔“(۱)

    محمد احسن فاروقی اور محمد نور الحسن ہاشمی نے جذبات نگاری کے سلسلے میں بات تو پتے کی کہی ہے لیکن انداز بیان میں ترتیب و تسلسل اور تنظیم کی کمی ہے اور اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ اس کی ماہیت و اہمیت سے زیادہ اس کے اقسام پر زور دیتے ہیں۔ جذبات نگاری میں بھی فنکار کو انہیں تخلیقی مرحلوں سے گذرنا پڑتا ہے جن سے وہ دوسرے فنی تقاضوں کی تکمیل میں گذرتا ہے یعنی قصہ گوئی، واقعہ طرازی ، کردار تراشی، منظر نگاری وغیرہ۔ جذبات نگاری کا بہت گہرا تعلق کرداروں کی شخصیت و سیرت سے ہے۔ اس لیے جذبات کی مصوری کرتے ہوئے فنکار کے سامنے صرف یہی ایک فنی قدر نہیں ہوتی بلکہ ناول کا پورا سانچہ، پورا کینوس ہوتا ہے اور ناول کے تمام فنی اقدار۔ باشعور فنکار اس حقیقت سے باخبر ہوتا ہے کہ جذبات نگاری گہرے طور پر کردار تراشی اور واقعہ طرازی کو متاثر کرتی ہے۔ یہ بات سامنے آچکی ہے کہ کردار نگاری، واقعہ طرازی کو اور واقعہ طرازی کردار نگاری کو متاثر کرتی ہے اور اس طرح ان کا اثر قصہ گوئی، دلچسپی کا عنصر اور ناول کے دوسرے فنی تقاضوں پر پڑتا ہے۔ اس لیے جذبات کی تصویر کشی کرتے ہوئے فنکار نفسیاتی حقیقت و صداقت اور ماحول کی مناسبت کو سامنے رکھتا ہے تاکہ جذبات میں تکلف، تصنع اور تخشع نہ آنے پائے اور ناول کی ہمواری مجروح نہ ہو۔ اس میں بھی بڑے تناسب ، توازن اور اعتدال کی ضرورت ہے۔

    ۸۔ نصب العین: ناول میں نصب العین نظریہ ¿ حیات‘ مقصدِ فن یا فلسفہ ¿ زندگی کی اہمیت کو واضح طور پر محسوس کیا گیا ہے۔ یہ تمام اصطلاحیں ہم معنی اور مترادف ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی ناول نگار یا فنکار اپنے صدفِ فن کی آغوش میں کوئی خاص گوہرِ معنی رکھتا ہے جس کی تفصیل ، تشریح، وضاحت، تنقید، ترجمانی یا عکاسی اورآئینہ داری کے لیے وہ تخلیقی کرب کی منزلوں سے گذرتا ہے۔ یہی شے اس کے فن کی تحریک بنتی ہے۔ اپنے فن کے اس محرک و منہج کو پیش کرنے کے لیے فنکار فنی اور جمالیاتی قدروں کے پل صراط سے گذرتا ہے جہاں ذرا سی لغزش بھی قعر ناکامی میں پہنچا سکتی ہے۔ اس لیے فنکار اس کی طرف بہت ہی حساس، با شعور، جمالیاتی اور تخلیقی ردِ عمل کا اظہار کرتا ہے۔ اس فنی قدر کی اہمیت کو پیش کرتے ہوئے محمد احسن فاروقی اور محمد نور الحسن ہاشمی لکھتے ہیں:

    ہر ناول ایک فلسفہ ¿ حیات کا عکس پیش کرتا ہے خواہ وہ عکس کتنا دھندلا کیوں نہ ہو۔“(۱)

    ناول انسانی زندگی سے متعلق معاملات و مسائل معاشرتی رشتے رابطے اور تہذیبی شعور کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس کی پیش کش کے سلسلے میں فطری طور پر ناول نگار کا کوئی نہ کوئی نقطہ نظر پلاٹ کی سطح زیریں میں کار فرما ہوتا ہے۔ زندگی کے واقعات و تجربات کے ردِ عمل ہی میں ناول نگار کسی بلند نصب العین ، کسی اعلیٰ مقصد کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس کی یہی مقصدیت پسندی اس کے نقطہ نظر کو مقرر اور واضح کرتی ہے جسے وہ نہایت احتیاط اور خوش اسلوبی کے ساتھ ناول کی مجموعی ساخت میں ضم کر کے سامنے آتا ہے۔ آل احمد سرور نے ناول کی تکنیک کے دو پہلو بتائے ہیں، اول زبان کا تخلیقی استعمال“ اور دوم نقطہ نظر کی موجودگی جس سے ڈرامائی حدبندی کے ساتھ ساتھ طرح موضوع کا بھی تعین ہوتا ہے۔(۱) سید علی عباس حسینی اور مسیح الزماں نے بھی ناول میں نظریہ حیات، نقطہ نظر اور نصب العین کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے ۔ ناول کا موضوع ہی ناول میں کسی نہ کسی فلسفہ حیات کی پیش کش کا سبب بنتا ہے۔ اسی لیے خورشید الاسلام لکھتے ہیں:

    ناول کی قدر و قیمت کا اندازہ کر نے کے لیے یہ قطعاً ضروری ہے کہ پہلے اس کے موضوع کو دریافت کیا جائے۔ یہ اس لیے کہ ہر موضوع چند مخصوص امکانات رکھتا ہے اور اس کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ ناول نگار کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ان امکانات کو بروئے کار لائے‘۔ ان تقاضوں کو پورا کرے اور فطرت کی ان لہروں کو بہتا ہوا دکھائے جو واقعات اور کرداروں کی ساخت پرداخت کرتی ہیں۔“

    یعنی ایک معیاری اور کامیاب ناول میں موضوع کی بنیادی اہمیت ہے۔ ناول نگار اپنے موضوع ہی سے وابستہ امکانات کو تخلیقی طور پر برتتا ہے۔ اس تخلیقی برتاو کے مرحلے میں اس کے شعور و بصیرت کی کرنیں کسی خاص نقطہ نظر اور کسی خاص فلسفہ حیات پر روشنی ڈالتی چلی جاتی ہیں۔ ولیم ہنری ہڈسن بھی ناول کی اس جمالیاتی قدر کو خاص اہمیت دیتا ہے۔ ناول کی اس فنی قدر اور جمالیاتی خصوصیت کا اعتراف ناول کے تمام نقادوں نے کیا ہے، کسی نے بالواسطہ طور پر کسی نے بلا واسطہ طور پر ۔ حاصل گفتگو یہ ہے کہ جس وقت کوئی ناول نگار اپنے قلم کو تخلیقی جنبش دیتا ہے اس وقت زندگی اس کے سامنے اپنی کسی مخصوص تجلی کو بے نقاب ضرور کرتی ہے۔ ہر فنکار اپنے فن کے پس پردہ کسی معنویت کا احساس ضرور رکھتا ہے اور یہی معنویت اس کے نقطہ نظر‘ فلسفہ حیات یا نصب العین سے عبارت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ناول نگار کسی مخصوص نظریہ کی ترویج و اشاعت کے فنی مرحلوں سے گذرتا ہے بلکہ وہ کسی نہ کسی سطح پر زندگی کے کسی نہ کسی مخصوص پہلو کی آئینہ داری اور تنقید کرتا ہے۔ یہ تنقید یا آئینہ داری فلسفہ حیات یا نقطہ نظر کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں مسئلہ وابستگی یا ناوابستگی سے متعلق ہوجاتا ہے لیکن میری بحث کا دائرہ عمل یہ نہیں ہے۔ اس لیے اس سے قطع نظر کرتے ہوئے جون مین ڈر کی اس رائے کو پیش کیا جاتا ہے:

    Any writer is commited in the sense that his writing seeks value in a valueless world.

    جب فنکار اپنی تخلیق کے پس پردہ کسی معنویت کو سنگ بنیاد کی حیثیت میں رکھتا ہے اسی وقت اس کے مخصوص نقطہ نظر یا فلسفہ زندگی کی تشکیل و تعمیر ہوجاتی ہے جو پورے فن میں بتدریج ارتقائی نشیب و فراز سے گذرتا ہے۔

    فلسفہ حیات کی پیش کش میں فنکار مبلغ، قاضی یا خطیب کا انداز اختیار نہیں کرتا ہے کہ اس کا فن پروپیگنڈہ یا نعرہ بازی کا فن نہیں ہوتا بلکہ بڑے دھیمے‘ سبک اور نرم اندازمیں بتدریج پورے پلاٹ کے تناظر میں اس کی وضاحت کرتا ہے۔ اس سلسلے میں بھی حقیقت و اصلیت اور صداقت و معروضیت سے کام لینا ناگزیر ہے۔ ظاہر ہے کہ تہذیبی ، اخلاقی اور مذہبی قدریں زمانے کے تغیر کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں اس لیے اگر فنکار اپنی مقصدیت سے حد درجہ وابستہ ہوجائے تو اس کے فن میں ابدیت و سرمدیت کی خوبیاں پیدا نہیں ہوسکیں گی۔ اس پہلو پر نقادِ فن نے تفصیلی بحث کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فنکار اپنے نصب العین اور نظریہ حیات کو ناول کے تمام فنی اور جمالیاتی اقدار و معیار کی روح بنا کر پیش کرتا ہے اور دلکشی اور خوبصورتی اثر و تاثر اور اعتدال و توازن کے ساتھ اظہارِ خیال کی منزلوں سے عہدہ بر آ ہوتا ہے۔ نصب العین یا نظریہ زندگی کی پیش کش کا یہی معیار ہے۔

    ۹۔ ناول نگاری کا ایک اہم جزو مکالمہ بھی ہے۔ مکالمہ حقیقتاً فن ڈراما نگاری کی بنیادی خصوصیت ہے‘ وہیں سے یہ عنصر ناول میں بھی در آیا۔ ناول کے تمام نقادوں نے مکالمہ نگاری کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے ۔ مکالمہ اسلوب بیان کا ایک حصہ ہوتا ہے اور اس سے ناول میں ڈرامائیت کی شان پیدا ہوتی ہے۔ یہی نہیں، مکالمہ نگاری سے کرداروں کی شخصیت و سیرت بھی سامنے آتی ہے اور کرداروں کی رفتار و حرکت بھی متاثر ہوتی ہے۔ احساس و فکر کی سطح پر کردار جن رجحانات میں مبتلا ہوتے ہیں ان کو ہٹا کر کرداروں کے چہرے کو روشن کرنے اور ان کی شخصیت کی انفرادی خصوصیات کو واضح کرنے کا وسیلہ مکالمہ ہی ہے۔ اس سے واقعہ طرازی کا حسن بھی نکھرتا ہے اور قاری کی توجہ بھی قصے کی طرف مرکوز رہتی ہے۔ اس لیے لازمی طور پر ناول نگار کو مکالمہ نگاری کے سلسلے میں غایت احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔ ناول کا مقصود یہ نہیں ہے کہ مکالمہ نگاری کا کمال دکھایا جائے۔ مقصود یہ ہے کہ ناول کے فنی کمال کے مظاہرے کے لیے مکالمہ کو بھی ایک آلہ کار کی طرح سلیقہ مندی اور خوش اسلوبی سے برتا جائے، استعمال کیا جائے۔ سید علی عباس حسینی نے بے حد اجمالی طور پر مکالمہ نگاری کی وضاحت کرنے سعی فرمائی ہے۔ لیکن اس سے خاص نتیجہ سامنے نہیں آتا البتہ محمد احسن فاروقی اور محمد نور الحسن ہاشمی کی رائے سے ناول میں مکالمہ نگاری کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مکالمہ حقیقتاً ہفت پہلو اہمیت رکھتا ہے۔ پہلی اور سب سے اہم چیز ہے کہ اس سے فنکار کا انداز بیان ممتاز و منفرد ہوتا ہے اور اس سے خود فنکار کے تخلیقی شعور کا اظہار ہوتا ہے۔ مکالمہ نگاری کے سلسلے میں مریم ایلوٹ کی رائے ملاحظہ فرمائیے:

    Dialogue, as one of the novelist's aids to characterization, certainly deserves a section to itself as one of the most exacting techniques of fiction. In order to convey the sense of individual indentity, the 'dial-plate' novelist, as we have said, relies heavily on descriptions of appearance, on idiosyncratic gestures, clothes, actions, habits, mannerisms; while the 'inner-workings' novelist likes to record and analyse hidden movements of feeling and thought. Both, however, get many of their best effects through dialogue, an element which imports into the novel something of the dramatist's discipline and objectivity. It requires enormous patience and skill to 'get right' because its authenticity depends, as it does in the theatre, on a nice adjustment of the 'real' and the stylized.٭

    مکالمہ نگاری کے فن سے بحث کرتے ہوئے مریم ایلوٹ نے جو رائے دی ہے وہ ناول نگاری کے سلسلے میں رہنمائی کا درجہ رکھتی ہے۔ محمد احسن فاروقی اور نور الحسن ہاشمی نے بھی مکالمہ نگاری کے فن سے بحث کرتے ہوئے عمدہ مکالمہ نگاری کے لیے دو شرطیں رکھی ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ مکالمہ کے عنصر کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ وہ ناول ہی کا ایک اہم جزو ثابت ہو اور پلاٹ کے ارتقائی مرحلوں کی تشکیل میں یہ معاون ہو۔ ایسی مکالمہ نگاری کرداروں کے عادات و خصائل ، اطوار و مزاج اور ان کی خصوصیات کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ دو کرداروں کی مزاج کی تفاوت ، نقطہ نظر کے فرق اور جذبہ و خیال کی الگ الگ کیفیات کا انعکاس بھی مکالموں سے ہوجاتا ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ مکالمے فطری، صاف ستھرے، برجستہ و موزوں اور معنویت سے بھر پور ہوں۔ مکالمہ نگاری کے فن سے بحث کرتے ہوئے فاروقی اور ہاشمی لکھتے ہیں:

    مکالمہ لکھنا بھی ایک فن ہے۔ مکالمہ لکھتے وقت ناول نگار پورے طور پر ڈراما نگاری کے دائرے میں آجاتا ہے، اچھا مکالمہ قصہ کو ایک روشنی بخشتا ہے اور ڈرامائی قوت کو ظاہر کرتا ہے۔ قصہ کے ارتقا میں مکالمہ کا بہت کافی حصہ ہوتا ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے واقعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔“

    ولیم ہنری ہڈسن نے بھی مکالمہ نگاری کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا مکالمہ کا اثر واقعہ طرازی، کردار نگاری، پلاٹ، قصہ اور ناول کے دیگر فنی تقاضوں پر براہ راست ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ہڈسن کی رائے ملاحظہ ہو:

    Dialogue, well managed, is one of the most delighful elements of a novel; it is that part of it in which we seem to get most intimately into touch with people, and in which the written narrative most nearly approaches the vividness and actuality of the acted drama. The expansion of this element in modern fiction is, therefore, a fact of great significance. Any one who watches an uncritical reader running over the pages of a novel for the purpose of judging in advance whether or not it will be to his taste, will notice that the propotion of dialogue to compact chronicle and description is almost always an important factor in the decision. Nor is the uncritical reader to be condemned on this account. His instinct is sound. Good dialogue greatly brightens a narrative, and its judicious and timely use is to be regarded as evidence of a writer's technical skill.

    چونکہ مکالمہ اتنے وسیع اور متنوع طور پر ناول کے فن کو متاثر کرتا ہے اس لیے ضروری ہے مکالمہ مختصر‘ برجستہ‘ موزوں اور دلکش و دل نشیں ہو۔ یہی نہیں، مکالمہ کے لیے فطری ہونا بھی لازمی شرط ہے اس لیے کہ مکالمہ ہی کے ذریعہ کرداروں کی انفرادی شخصیت و سیرت کی تعیین ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مکالمہ کے لیے ایک لازمی شرط یہ بھی ہے کہ اس کو روز مرہ کی زبان کے قریب ہونا چاہئے تاکہ اس میں عام فہمی کا انداز پیدا ہوسکے۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی۔ روز مرہ زبان کا حصہ ہونے کے باوجود مکالمہ نگاری ایک سلیقہ چاہتی ہے‘ ایسا سلیقہ جو مکالمہ نگاری کو جمالیاتی دلکشی دے سکے۔ ناول نگار کو مکالمہ کے سلسلے میں خاص طور پر توجہ دینا پڑتی ہے اور اس کے لیے تخلیقی شعور کی نزاکت و نفاست اور ہنر مندی و صناعی سے کام لینا پڑتا ہے۔ مکالمہ نگاری بھی ناول کی کامیابی و ناکامیابی کے لیے بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔

    ۰۱۔ پس منظر یا زمان و مکان: زمان و مکان ناول کی فنی قدر کی حیثیت سے کافی توجہ طلب ہے۔ اس سلسلے میں دو عناصر کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قصہ کس سماجی ، معاشی اور تہذیبی پس منظر میں رونما ہوا اور دوسری یہ کہ کس عصر و عہد کی نمائندگی کا درجہ اسے حاصل ہوا۔ اول الذکر مکانی پس منظر کی وضاحت کرتا ہے اور آخر الذکر زمانی پس منظر کی ۔ بہر کیف ، کوئی بھی قصہ کسی نہ کسی خاص وقت میں اور خاص جگہ پر رونما ہوتا ہے۔ ناول نگار اس مخصوص وقت کے پیش نظر اُسی دور میں پیدا ہونے والے مطالبات و مسائل کو پیش کرتا ہے، اس دور کی تحریکات اور ذہنی لہروں کی آغوش میں پلنے اور پرورش پانے والے افراد کی کہانی ان کے فطری تقاضے کی روشنی میں بیان کرتا ہے۔

    تغیر زمانہ اور تبدیلی مقامات کے ساتھ ساتھ زندگی کی رسوم و روایات اور حالات و واقعات میں انقلاب و تبدیلی لازمی ہے۔ فنکار کو اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ وہ زمان و مکان کی وحدت کو سامنے رکھے اور اگر ان میں تغیر رونما ہو تو اسی جہت سے واقعات و کردار کی پیش کش میں فطری تبدیلی سامنے آئے۔ اگر زمان و مکان کے احساس سے ناول نگار غافل رہا تو اس کی غفلت و حدتِ تاثر اور دلچسپی کے عنصر کو مجروح کرتی ہے۔ محمد احسن فاروقی نے زمان و مکان کے تعلق سے اپنے خیال کی وضاحت کرتے ہوئے ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے:

    ”عام طور پر ناول نگار اپنے مانوس ماحول کا نقشہ کھینچتا ہے اور اپنے ذاتی تجربہ کو واضح کرتا ہے اس لیے ناول کی بابت یہ کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں مقام کی فلاں زمانے میں تصویر ہے مگر ناول عظیم دائرے میں جب ہی آتی ہے جب کہ وہ ایک زمانہ اور مقام کی تصویر ہر زمانے اور ہر مقام والوں کے لیے ہوجائے۔ یہ قطرے میں دجلہ دکھائے اور جزو میں کل۔“

    ایک خوبصورت اور کامیاب ناول کی یہ پہچان بہت اہم ہے کہ اسے ہر دور میں دلچسپی سے پڑھا جائے اور تادیر یاد رکھا جائے۔ ناول نگار کی تخلیقی بصیرت ایک مخصوص دور اور خاص زمانے سے وابستہ واقعات میں ایسی تازگی اور توانائی پیدا کردیتی ہے کہ اس کی ہمہ گیر کیفیت اور خصوصیت نمایاں ہوجاتی ہے اور اس کی محدودیت بھی آفاقیت کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ زمان و مکان کے سلسلے میں علی عباس حسینی نے عمومی بحث و تمحیص کا سہارا لیا ہے پھر بھی ان کی گفتگو سے بڑی حد تک ناول نگاری کے اس اہم پہلو کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ بالعلوم واقعات اور کردار اور قصہ کسی خاص زمانی پس منظر‘ سلسلہ‘ تنظیم اور ترتیب کے ساتھ وقوع پذیرہوتا ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ انداز نظر کلاسیکی ہے ڈراما نگاروں اور ناول نگاروں کے یہاں اس تصور میں کافی تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ نئے لوگ زمان و مکان کے قائل نہیں ہیں۔ اس لیے جدید ترین ناولوں میں پلاٹ اور زمانے کا تصور نہیں ملتا۔ بہر کیف مریم ایلوٹ نے زمانے کے عنصر سے بحث کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا ہے:

    All novelists are bound alike by their allegiance to time.٭

    مریم ایلوٹ نے ہنری جیمس کی درج ذیل رائے پر تنقید کی ہے۔ جیمس کی رائے ملاحظہ ہو:

    This eternal time-question is-------- always there and always for midable; always insisting on the effect of the great lapse and passage, of the dark backward and abysm.٭٭

    اس نظریہ پر مریم ایلوٹ کی تنقید بھی ملاحظہ ہو:

    He is attaching himself to the distinction which most decidedly separates novelists from their predecessors in other literary forms. We sometimes speak of eighteenth- -century literature as occupying itself primarily with generalities, but in fact the intellectual climate fostering the novel's growth is remarkable for its emphasis on the particular and the individual. The concept of individuality, which owes much to Lockeian and Cartesian influences, depends on particularity of place and time, and it is this precise spatial and temporal location of individual experience which is really the 'novel' aspect of fiction.٭

    مریم ایلوٹ کی رائے حقیقت پسندانہ تجزیے کا نتیجہ ہے۔ زمان و مکان کی اہمیت کو نظر انداز کر کے کوئی بھی ناول نگار کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔

    ۱۱۔ پلاٹ: پلاٹ کے سلسلے میں نقادوں کے یہاں اختلاف رائے ملتا ہے عام طور پر پلاٹ یا واقعہ طرازی یا قصہ گوئی کو ایک ہی سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ پلاٹ‘ واقعہ طرازی اور قصہ گوئی ناول کے مختلف اجزائیں ہیں جو ایک رشتہ میں منسلک ہونے کے باوجود اپنی اپنی انفرادیت رکھتے ہیں۔ پلاٹ کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کی فنکارانہ تخلیق و تعمیر پر ناول کی نصف سے زیادہ کامیابی منحصر ہے۔ محمداحسن فاروقی اور نور الحسن ہاشمی نے اپنی مشترکہ کتاب ناول کیا ہے“ میں پلاٹ کی اہمیت کی وضاحت تو ضرور کی ہے لیکن اس میں عمارت کی تشبیہ(۱) بہت زیادہ مناسب نہیں معلوم ہوتی اس لیے پلاٹ یا تعمیر ماجرا محض خارجی فنی اور جمالیاتی قدر نہیں بلکہ یہ داخلیت و خارجیت کے سنگم سے عبارت ہے۔ فاروقی اور ہاشمی نے پلاٹ کے جن پانچ حصوں (۲) کا ذکر کیا ہے وہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ ناول میں ضرور ہی پائے جائیں۔ عین ممکن ہے کہ فاروقی اور ہاشمی کے نظریہ تعمیر ماجرا (پلاٹ) سے قطعی متضاد و متخالف پلاٹ کی تعمیر و تخلیق بھی ایک اچھے ناول کی اختراع کے امکانات رکھے۔ ولیم ہنری ہڈسن نے ناول میں پلاٹ کو ایک بے حد ضروری عنصر قرار دیا ہے۔ اس کی رائے غور و فکر کے نئے آفاق روشن کرتی ہے:

    In dealing with the element of plot our first business will always be with the nature of the raw material out of which it is made and with the quality of such material when judged by the standards furnished by life itself. ٭

    اس سے پتہ چلا کہ پلاٹ کا تعلق عصری زندگی اور سماجی و معاشی حالات و حادثات سے ہے‘ اس لیے اس کو قصہ گوئی یا واقعہ طرازی کا مترادف سمجھنا کج روی کے سوا کچھ اور نہیں۔ پلاٹ کے سلسلے میں سید علی عباس حسینی لکھتے ہیں:

    پلاٹ واقعات کے اس خاکے کو کہتے ہیں جو ناول نویس کے پیش نظر شروع ہی سے رہتا ہے۔ قصہ کی ساری دلچسپیاں اسی کی ترتیب پر مبنی ہیں۔ اسے جاننا چاہئے کہ وہ کیوں کر قصہ چھیڑے گا۔ ناظر کی دلچسپی کس کس طرح بڑھے گی اور اس دلچسپی میں مد و جزر کہاں پیدا کرے گا۔ اسے قصہ اس طرح کہنا ہے کہ وہ موثر ہو، اس مقصد و غرض کے حاصل کرنے میں کامیاب ہو، جس کے لیے وہ ناظر کو زحمت دینا چاہتا ہے۔ “(۱)

    سید علی عباس حسینی نے پلاٹ کی تعریف میں ٹھوکریں کھائی ہیں۔ پلاٹ واقعات کے خاکے سے عبارت نہیں۔ اگر پلاٹ اور واقعات کا خاکہ ایک ہی شے ہے، واقعہ طرازی کے ضمن میں اس بحث کو ختم ہونا چاہئے۔ لیکن ایسی بات نہیں ہے۔ مریم ایلوٹ نے پلاٹ کی تعریف کے سلسلے میں بڑی واضح اور قیمتی رائے دی ہے:

    The internal logic of the imagination and the emotion, however compulsive it may be, does not mean that the novelist can dispense with a narrative or a plot. These constitute skeleton of his work, deplore it as he may.٭

    یہ صحیح ہے کہ ناول نگاروں نے قصہ اور پلاٹ کی تفریق کی وضاحت اور تفصیل سے گریز کیا ہے ۔ بعض حضرات نے قصہ اور پلاٹ کے فرق کو کہانی اور عمل (Fable and action) کی اصطلاحوں میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ وضاحت منطقی اعتبار سے مکمل نہیں ہے ۔ ای ایم فورسٹر نے پلاٹ کے سلسلے میں بڑے پتے کی بات کہی ہے :

    A plot is also narrative of elements, the emphasis folling on causuality.

    حقیقت یہ ہے کہ جب ناول کے مختلف واقعات میں کوئی منطقی ربط‘ اندرونی ہم آہنگی، داخلی نظم و تسلسل ہوتا ہے تو پلاٹ کی تخلیق ہوتی ہے اور ان خصوصیات کی عدم موجودگی میں ناول اپنے پلاٹ سے محروم ہوجاتا ہے اور اگر یہ خصائص اپنی جمالیاتی اور فنکارانہ پیش کش میں ناول کے دوسرے عناصر و اجزائے ترکیبی کے مقابلے میں کمزور ہوتے ہیں تو پلاٹ بھی اسی مناسبت سے کمزور ہوتا ہے۔ ای ایم فورسٹر کی رائے٭٭ پر مریم ایلوٹ کی تنقید ٭٭٭ اس کو مزید واضح اور منور کردیتی ہے۔ بادشاہ کا مرجانا اور پھر ملکہ کا مرجانا دو مختلف واقعات ہیں‘ جن میں کوئی منطقی ربط و تسلسل اور نظم و ضبط نہیں۔ اس لیے ان دونوں واقعات میں کوئی پلاٹ نہیں۔ لیکن بادشاہ کی موت کے صدمے کے نتیجے میں ملکہ کا انتقال کر جانا دونوں واقعات کو ایک سلسلے میں مربوط کردیتا ہے اور یہی ارتباط داخلی پلاٹ کی تخلیق کرتا ہے۔ نیتشے کے نظریہ ¿ زندگی سے متاثر ہونے والے فنکار ناول کی اس فنی قدر کی ضرورت سے انکار کرتے ہیں۔ چنانچہ Warnock لکھتا ہے :

    We cannot prented that absolute moral laws to bind us, that any path of duty is mapped out for us, or that we can have a function or a mission: 'Human life is absurd, in that there can be no final justification for our projects. Everyone is de trop; every thing is dispensable.٭

    آج مغرب کا عام رجحان یہی ہے۔ انگریزی اور فرانسیسی کے تمام موجودہ بڑے ناول نگاروں نے بے معنویت (Absurdity) کے نظریے کو کھل کر پیش کیا ہے۔ کامو کافکا، سارترے، ہیمنگو وغیرہ نے کسی نہ کسی جہت سے زندگی کی بے معنویت کو اجاگر کیا ہے۔

    John D. Jump اس مسئلے پر کامو کے حوالے سے لکھتا ہے:

    The Absurd, for Cammus, is an absence of correspondence between the mind's need for unity and the chaos of the world. The mind experiences, and the obvious response is either suicide or, in the opposite direction, a leap of the faith ٭٭

    اور کافکا کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے و کامو، ہیمنگو، سارتر کے نظریات کا اجمالی جائزہ اس طرح لیتا ہے:

    For Kafka the universe is full of signs we cannot understand, where as for Camus the human predicament stems from the absence of any such signs.٭

    یہی وجہ ہے کہ مغرب کے جدید ناولوں میں پلاٹ کا اہتمام نہیں ملتا اور قصے کی تعمیر و تشکیل کے سلسلے میں اہل مغرب نے کسی منطقی اور عقلی ربط و تعلق کا انکار کیا ہے۔ یہی حال کردار نگاری کا بھی ہے۔ پلاٹ اور کردار سے بے نیاز کہانیاں اور ڈرامے آج فرانسیسی اور انگریزی ادب میں زیادہ مقبول ہیں۔ اردو میں افسانوں کی حد تک ایسی کہانیاں لکھنے کی کوششیں کی گئی ہیں جنہیں Plotless stories کہہ سکتے ہیں لیکن چونکہ ابھی مشرق کے مزاج میں بے معنویت صحیح معنوں میں فلسفیانہ رجحان کی حیثیت حاصل نہیں کرسکی ہے اس لیے Plotless کہانیوں کا معیار بلند نہیں ہوسکا ہے اور ناول تو خیر لکھے ہی نہیں گئے۔ Beckett کا ڈراما Waiting for godot اور Endgame میں پلاٹ اور کردار کو بالکل ہی نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں Bonko کی تصنیف 'AVANT-GARDE'کے صفحہ ۷۵ پر یہ رائے ملاحظہ کیجئے:

    Both these plays show a lack of plot and also, in the conventional sense, of character, for character presumes that personality matters, just as plot assumes that events in time have significance-and both these postulates are questioned in the plays٭٭

    اور اس وجہ سے مغربی ذہن کا یہ ایقان ہے کہ کوئی بھی شئے حقیقی وجود نہیں رکھتی اور سچ مچ کوئی شے حقیقی وجود رکھتی ہے تو وہ ہماری معلومات سے باہر کی شے ہے۔ نتیشے نے Death of God کا تصور ضرور دیا تھا اور یہ بھی صحیح ہے کہ وہیں سے نئے رجحانات کی ابتدا ہوتی ہے لیکن مغرب کی صنعتی بلکہ مکانیکی زندگی نے فسلفیانہ طور پر ایک خلا کا احساس کیا ہے جس نے اس خیال کو عام کیا ہے:

    I know that outside time and space lies Nothing, and that I, in the ultimate of my reality, am Nothing also.٭

    ڈاکٹر جعفر رضا کا یہ کہنا :

    یہ خیال زندگی کے مطالعے میں فن کار کے ذاتی رویہ میں اختلاف کی بنا پر پیدا ہوتا ہے کیوں کہ انسانی زندگی کی خارجی حقیقتوں کو نظر انداز کردینے پر کہانی کار کو مضطرب، منتشر اور غیر یقینی کیفیتوں کے اظہار اور شعور کی داخلی کیفیتوں تک محدود ہوجانا پڑتا ہے۔ زندگی کے صنعتی عمل نے اس طرح کے رجحانات و خیالات کو تقویت دی ہے اور مغربی ادب میں خصوصیت سے اس کی جلوہ آرائی نظر آتی ہے۔ لیکن زندگی کی ارتقائی قوتوں پر اعتماد کرنے والے نظام و منصوبہ کی افادیت کے پیش نظر ادب میں بھی تسلسل اور تنظیم کی ضرورت پر زور دیتے ہیں کیوں کہ اس کے بغیر انسان کی اجتماعی قوت بے عمل نظر آتی ہے۔ کہانی کے پلاٹ کی تنظیم میں تبدیلی کی کئی نوعیتیں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ موجودہ کہانی کاروں نے پلاٹ یا قصہ یا اس سے متعلق دیگر عناصر کو ترک نہیں کیا ہے بلکہ ان کا جذباتی معیار تبدیل کردیا ہے۔ جدید کہانیوں میں واقعات کا بیان ہوتا ہے لیکن ان کا تعلق زیادہ تر ذہنی اور تصوراتی ہوتا ہے۔“

    مندرجہ بالا اقتباس حقیقتِ فن کی نارسائی کا مظہر ہے۔ زندگی کی خارجی حقائق کو نظر انداز کرنے سے یہ رجحان پیدا نہیں ہوا بلکہ زندگی کی خارجی اور داخلی حقیقتوں کی فلسفیانہ تعبیر و تفسیر اور وجود کے حقیقی شعور کے نتیجے میں کائنات کی بے معنویت اور زندگی کی بے ترتیبی سامنے آتی ہے۔ جو لوگ ادب میں تسلسل ، تنظیم اور افادیت پر زور دیتے ہیں اور جنہیں اس کے بغیر انسان کی اجتماعی قوت بے عمل نظر آتی ہے وہ لوگ سیاسی اعتبار سے نظریاتی و ابستگی کے شکار ہیں۔ لیکن جدید ادباو فنکار انفرادیت کی تعیین اور تشکیل کو سامنے رکھتے ہیں اور کائنات کے وسیع پس منظر میں ایک فرد کے وجود کی معنویت اور زمان و مکان سے اس کے رشتے کی نوعیت کی جستجو کرتے ہیں اور تب انہیں احساس ہوتا ہے:

    ٭ Nothing is more real than nothing

    یہ احساس مشرق تو دور کی بات ہے امریکہ کے لکھنے والوں میں بھی کم ہی مقبول ہوسکا اس لیے کہ امریکہ کی طرز زندگی ایسے فلسفیانہ انتشار کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اردو کے جن افسانہ نگاروں نے Plotless کہانیوں کی تخلیق کی ہے وہ زمان و مکان (Time and space) کی فلسفیانہ بے معنویت سے شعوری طور پر واقف نہیں ہیں۔ احتساسی سطح پر تو ان کی قربت زیادہ مشکل مرحلہ ہے۔ لہٰذا اردو کی حد تک ابھی یہ بحث بہت زیادہ موزوں نہیں ہے۔ عبد اللہ حسین کے ناول اداس نسلیں“ اور ان کی کہانیاں ”ندی“ اور جلا وطن“ میں اس رجحان و میلان کی آئینہ داری ہوئی ہے۔ قرة العین حیدر کے ناول ”آگ کا دریا“ میں یہ فلسفیانہ پہلو تو سامنے آتا ہے لیکن یہ احساس نہیں ابھرتا ہے۔ شوکت صدیقی کے ناول خدا کی بستی“ میں سماجی انتشار کی اچھی آئینہ داری کی گئی ہے لیکن فلسفیانہ اور احتساسی طور پر اس میں نئے رجحان و میلان کی نشاندہی نا ممکن ہے۔

    بہر کیف، ناول کی سب سے اہم فنی اور جمالیاتی قدر پلاٹ ہے خصوصاً یہ اردو ناول کے فنی تقاضوں میں آج بھی مرکزی اہمیت رکھتا ہے جب کہ مغرب خصوصاً فرانس اور انگریزی کے ڈراما نگاروں، ناول نویسوں اور کہانی کاروں نے اس کو غیر ضروری سمجھ لیا ہے۔

    ۲۱۔ اسلوب: اندازِ بیان یا اسلوب کی بحث فن میںمیکانکی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ یہ فن کے عضویاتی نظام سے گہرے طور پر منسلک ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اسلوب بیان کو خارجی سطح پر بہت زیادہ اہمیت دی گئی اور داخلی سطح پر اس کی اہمیت کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ سید علی عباس حسینی اسلوب کو کسی حد تک اکتسابی اور کسی حد تک وہبی سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ نظریہ فلسفیانہ غور و فکر سے عاری ہے۔ اس لیے کہ وہ اسلوب کو فنی شاہکار کے لیے ناگزیر سمجھتے ہوئے بھی زیادہ تر اس خارجی اہمیت کا اعتراف کرتے ہیں(۱)، سہیل بخاری نے ناول میں زبان و بیان کی بحث کرتے ہوئے جس نظریے کا اظہار کیا ہے(۲)۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انداز بیان موضوع اور مواد سے الگ کوئی خارجی حیثیت رکھتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اسلوب بیان اپنے موضوع سے اتنے گہرے طور پر ہم آہنگ ہوتا ہے کہ اس کو الگ کر کے دیکھنا تخلیقی عمل کے بنیادی تقاضوں کو نظر انداز کرنا ہے۔ اسلوب کے موضوع پر مریم ایلوٹ نے لکھا ہے :

    The Novelist's difficulties with dialogue remind us more sharply than his other problems that style plays a peculiarly important part in his success or failure, but it is obvious that of the other activities explored in this chapter there is not one that could even begin to be carried out without some fealing for the possibilities of language. Every thing in a novel is part of a diversified verbal pattern: only by mastering the range and flexiblity of style which this pattern demands can the novelist finally convince us that his concern lies with something other than the abstract and the ideal. It must be said at once that this does not mean that in order to be a good novelist it is necessary to be an accurate stylist.

    اسلوب یا انداز بیان کا تعلق واضح طور پر زبان یا Languageسے ہے۔ زبان ہی وہ ذریعہ اظہار ہے جس کے ذریعہ ادیب اپنے تخلیقی تجربات کو فنی روپ دیتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فن سے زبان کا خارجی یا میکانکی رشتہ ہوتا ہے بلکہ یہ بالکل ہی حقیقی اور عضویاتی تعلق ہے جس طرح روح و جسم کا رشتہ ہوتا ہے اسی طرح اسلوب کا اپنے فن سے ہے ، یہ جسم اور لباس کا رشتہ نہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ عام طور پر اسلوب اور فن کے رشتہ کو جسم اور لباس کے رشتہ کے تعلق سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ زبان کے سلسلے میں یہ بات سامنے رکھنی چاہئے کہ زبان کا استعمال روز مرہ کی زندگی میں ہر لمحہ ہر قدم پر کیا جاتا ہے اور اس طرح سے جو ذریعہ اظہار فنکار کا ہے وہ کثرتِ استعمال کا شکار ہے۔ سر ایفو ر ایوانس (Sir Ifor Evans) نے زبان کی کثرتِ استعمال پر بڑی دلچسپ بات کہی ہے :

    Each art has it own medium: the painter his pigments, the musician his sounds, and the writer, words. The difficulty of the writer is that words are used for all everyday purposes, so that they become worn, like coins rubbad by long use.٭٭

    جہاں تک سرایفور ایوانس کے نظریہ کا سوال ہے، اس میں دم خم نہیں ہے۔ زبان کثرتِ استعمال سے نکھرتی ہے اور ارتقائی منازل سے گذرتی ہے۔ یہ زبان کا بنیادی مزاج ہے اس لیے یہ کہنا کہ کثرت استعمال سے زبان سکّے کی طرح گھس جاتی ہے۔زبان اور اہل زبان کے احتساسی رشتے سے لا علمی کا نتیجہ ہے۔ پھر یہ کہ فنکار زبان کا استعمال عام سطح پر نہیں کرتا بلکہ وہ زبان کا استعمال تخلیقی سطح پر کرتا ہے اور اس طرح وہ زبان کو نفاست‘ نزاکت‘ ارتقا اور ارتفاع کی طرف لے جاتا ہے۔ زبان کی طرف فنکار اور عام لوگوں کے رویہ میں فرق ہوتا ہے۔ عام لوگ زبان کو عملی سطح پر دیکھتے ہیں اور اس کو براہ راست استعمال کرتے ہیں لیکن فنکار کا رویہ زبان کی طرف عام لوگوں جیسا نہیں ہوتا۔ زبان کی طرف عام لوگوں اور فنکار کے رویوں میں وہی فرق ہوتا ہے جو تجربات و حادثاتِ زندگی کی طرف ان دونوں کے رویے میں ہوتا ہے۔ عام لوگ تجربہ زندگی یا حادثہ ہستی کو براہ راست اور عملی سطح پر دیکھتے ہیں لیکن فنکار ان کی طرف جمالیاتی اور احتساسی نگاہ ڈالتا ہے اور یہیں سے ان کا تخلیقی شعور بیدار ہوتا ہے۔ اس طرح زبان کی طرف فنکار کا رویہ جمالیاتی اور احتساسی ہوتا ہے۔ زبان کے عملی استعمال اور استعاراتی استعمال میں فرق ہے۔ الفاظ کی جذباتی اور احتساسی سطح کو چھونا اسی وقت ممکن ہے جب احساس اور زبان کے رشتے کو سامنے رکھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان الفاظ ہی کے ذریعہ سوچتا بھی ہے اور محسوس بھی کرتا ہے۔ سارتر نے بڑے پتے کی بات کہی ہے:

    Our thought is only as good as our language and this is by our language that we must be judged.٭

    زبان کے سلسلے میں یہ سب سے زیادہ معروضی رائے ہے۔ غور سے دیکھئے تو زبان ہماری رگوں میں دوڑتے ہوئے لہو کی رفتار کا نام ہے۔ یہ باہر سے مستعار لائی ہوئی کوئی شے نہیں ہے اگر کوئی فنکار زبان کا تخلیقی استعمال نہیں کرتا‘ بہ الفاظ دیگر اگر وہ لفظوں کی حسیاتی اور جذباتی سطح کو چھونے میں ناکام رہتا ہے تو اس کی تخلیق اپنی انفرادیت کھو دیتی ہے۔

    سارتر نے 'WHAT IS LITERATURE' میں زبان کے سلسلے میں درج ذیل نظریہ کا اظہار کیا ہے:

    If words are sick, it is up to us to cure them. Instead of that, many writers live off this sickness. In many cases literature is a cancer of works...... There is nothing more deplorable than the literary practice which, I believe, is called poetic prose and which consists of using words for the obscure harmonics which resound about them and which are made up of vague meanings which are in contradiction with the clear meanings. I know: the purpose of a number of writers was to destroy words as that of the sur-realists was to destroy both the subject and the object; but it was the extreme point of the litaratures of consumption. But today, as I have shown, it is necessary to construct. If one starts depring the inadequacy of language to reality...... one makes oneself an accomplice of the enemy, that is, of propaganda. Our first auty as a writer is thus to re-establish language in its dignity. After all, we think with words. We would be quite vain to believe that we are concealing ineffable beauties which the word is unworthy of expressing. And then I distrust the incommunicable; it is the source of all violence.٭

    ظاہر ہے جب سوچنے اور محسوس کرنے کے لیے بھی زبان ہی ذریعہ استعمال کے طور پر کام آتی ہے تو زبان کے سلسلے میں بغیر کسی تامل کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلوب حقیقتاً فنکار کی تخلیقی شخصیت کا مادی اظہار ہے۔ فن میں لا شعوری سطح پر فنکار اپنی شخصیت کا اظہار کرتا ہے، شعوری سطح پر بھی فنکار کی شخصیت کے مختلف پہلو اظہار کی منزلوں سے گذرتے ہیں۔ اس عالم گیر حقیقت کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلوب فنکار کے تخلیقی احساس و شعور کی رو کا خارجی اظہار ہے۔ یہ سمندر کی اوپری سطح ہوتی ہے لیکن جو سمندر کی نچلی سطح سے اتنی ہم آہنگ ہے کہ ان کو ایک دوسرے سے کسی طرح الگ سمجھنا ممکن نہیں جو فنکار اپنے اسلوب کے فنی تقاضوں کی طرف جتنا ذمہ دار ہوگا وہ احتساسی اور فکری طور پر اتنا ہی بالیدہ، نفیس اور مہذب ہوگا۔ یہی معیار ہے جس پر مختلف فنکاروں کے درمیان امتیاز و تفریق کی جاسکتی ہے اور الگ الگ فنکاروں کے منصب کی تعیین بھی۔ اگر فنکار الفاظ کو اسی سطح پر استعمال کرتا ہے جو عوام کی سطح ہے یعنی وہ الفاظ کی تخلیق، جذباتی، احتساسی اور استعاراتی سطح تک نہیں پہنچا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ زندگی اور کائنات کی طرف اس کا رویہ نابالغانہ ہے۔ دستو ویسکی، ڈی ایچ لارنس اور ہنری جیمس کی طرح ناول نگار جب پیمبرانہ نقطہ ¿ نظر اختیار کرتا ہے تو اس کا اسلوب دانشورانہ منطق سے زیادہ شاعرانہ تخیئل کا پابند ہوتا ہے اور جس کا اظہار علامتوں اور استعماروں کے ذریعہ ہوتا ہے۔ انداز بیان میں بے تکلفی اور سیل رواں کی مانند ایک فطری بہاو ¿ کا پایا جانا ضروری ہے۔ فکری پہلو اتنا غالب نہ ہو کہ ناول ایک فلسفیانہ صحیفہ بن جائے اور نہ احساسات کی آنچ اتنی تیز ہو کہ وہ جذباتی داستان بن جائے، مقصدیت اتنی حاوی نہ ہو کہ ناول پروپیگنڈا کا وسیلہ ثابت ہونے لگے اور تفریح و تجسس ایسا سطحی رنگ نہ اختیار کرلے کہ ناول محض تفنن طبع کے لیے ایک پھلجھڑی کی شکل میں بدل جائے۔ اسلوب کسی فنکار کے فنی اور جمالیاتی شعور کی پختگی اور عدم پختگی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ٹالسٹائی کے بیان کے مطابق ہر بڑا فنکار اپنا اسلوب خود وضع کرتا ہے۔ اسٹیونسن نے اس خیال میں یہ اضافہ کیا ہے کہ حقیقی فنکار ہر نئے موضوع کے ساتھ اپنے اسلوب میں مناسب ترمیم کرتا جاتا ہے۔

    حاصل گفتگو یہ ہے کہ عالم گیر طور پر ناول کے لیے جن فنی اور جمالیاتی قدروں کی ضرورت کا احساس کیا گیا ہے ان کا خلاصہ اور نچوڑ درج بالا سطور میں پیش کیا گیا اور ناول کی فنی قدروں سے انتقادی بحث کی گئی۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ ناول نگاری کے لیے مذکورہ بالا فنی قدروں کا متوازن اور معتدل احساس ہی وہ پیمانہ ہے جس پر کسی بھی ناول کے محاسن و معائب کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور اس کی کامیابی اور ناکامیابی کے درجہ و منصب کی تعیین کی جاسکتی ہے۔ بہرکیف،ناول کے تمام عناصر کو خوبصورت ہم آہنگی، دلکشی، توازن اورفن کارانہ سلیقہ مندی کے ساتھ پیش کردینا ہی ناول نگاری کی کامیابی کی دلیل ہے ناول نگاری کا فن تخلیقی بصیرت اور صبر و ریاضت دونوں ہی کا طالب ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے