ناول کی تعریف نقادوں نے کئی طرح سے کی ہے لیکن یہ قاعدہ ہے کہ جو چیز جتنی آسان ہوتی ہے اس کی تعریف اتنی ہی مشکل ہوتی ہے۔ شاعری کی تعریف آج تک نہ ہوسکی، جتنے نقاد ہیں اتنی ہی تعریفیں ہیں۔ کسی دو نقادوں کی رائیں اک دوسرے سے نہیں ملتیں۔ ناول کے بارے میں بھی یہ بات کہی جا سکتی ہے۔ اس کی کوئی ایسی تعریف نہیں ہو سکی جس پر سب لوگ متفق ہوں۔
میں ناول کو انسانی کردار کی مصوری سمجھتا ہوں۔ انسان کے کردار پر روشنی ڈالنا اور اس کے اسرار کو کھولنا ہی ناول کا بنیادی مقصد ہے۔
کسی بھی دو انسانوں کی صورتیں نہیں ملتیں۔ اسی طرح انسانوں کے کردار بھی نہیں ملتے۔ جس طرح سب آدمیوں کے ہاتھوں پاؤں آنکھیں کان ناک منہ ہوتے ہیں۔ لیکن اس مشابہت کے باوجود ان میں فرق موجود رہتا ہے۔ اسی طرح آدمیوں کے کردار میں بھی بہت کچھ مشابہت کے باوجود کچھ فرق ضرور ہوتا ہے۔ کرداروں کے بارے میں یہی مشابہت اور اختلاف یکسانیت میں تضاد اور تضاد میں یکسانیت دکھانا ناول کا بنیادی فریضہ ہے۔
اولاد کی محبت انسانی کردار کی فطری خصوصیت ہے۔ ایسا کون ہوگا جسے اپنی اولاد سے پیار نہ ہو لیکن اولاد کی محبت کے مختلف درجے ہیں، مختلف معیار ہیں۔ کوئی تو اولاد کے لئے مر مٹتا ہے۔ اس کے لئے کچھ چھوڑ جانے کے لئے خود طرح طرح کی تکالیف برداشت کرتا ہے لیکن مذہبی عقیدت کی وجہ سے وہ ناجائز طریقوں سے روپیہ جمع نہیں کرتا۔ اسے خوف ہوتا ہے کہ کہیں اس کا انجام اس کی اولاد کے حق میں برا نہ ہو۔ کوئی ایسا ہوتا ہے کہ جائز اور ناجائز کا ذرا بھی خیال نہیں کرتا۔ جس طرح بھی ہو کچھ نہ کچھ دھن جوڑنا وہ اپنا فرض سمجھتا ہے۔ چاہے اس کے لئے اسے دوسروں کا گلا ہی کیوں نہ کاٹنا پڑے۔ وہ اولاد کی محبت پر اپنے ضمیر کو بھی قربان کر دیتا ہے۔ ایک تیسری اولاد کی محبت وہ ہے جہاں اولاد کا کردار اہمیت رکھتا ہے۔ جب والدین اولاد کو برے راستہ پر دیکھ کر دکھی ہو جاتے ہیں۔ اس کے لئے کچھ چھوڑ جانا وہ فضول سمجھتے ہیں۔ اگر آپ غور کریں گے تو اسی اولاد کی محبت کے مختلف مراتب آپ کو ملیں گے۔ اسی طرح دوسرے جذبات اور انسانی اوصاف کی بھی مختلف نوعیتیں ہیں۔ ہمارا کرداروں کا مطالعہ جتنا واضح اور وسیع ہوگا اتنا ہی کامیابی سے ہم کرداروں کی مصوری کر سکیں گے۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ناول نگار کو ان کرداروں کا مطالعہ کر کے ان کو قاری کے سامنے بجنسہ رکھ دینا چاہئے؟ کیا ان میں اپنی طرف سے کاٹ چھانٹ، کمی بیشی کچھ نہ کرنا چاہئے۔ یا کسی مقصد کی تکمیل کے لئے کیا کرداروں میں کچھ تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے؟ یہیں سے فن ناول نگاری کے دو دبستاں ہوگئے ہیں۔ ایک آدرش وادی (مثالیت پسند) اور دوسرا حقیقت پسند۔
حقیقت پسند کردار کو قاری کے سامنے اس کے اصلی روپ میں عریاں کر دیتا ہے۔ اسے اس سے کچھ سروکار نہیں کہ برے چلن کا انجام برا ہوتا ہے۔ یا اچھے چلن کا اچھا۔ اس کے کردار اپنی کمزوریاں اور خوبیاں دکھاتے ہوئے اپنی زندگی کا کھیل ختم کر دیتے ہیں۔ دنیا میں ہمیشہ نیکی کا پھل نیک اور بدی کا نتیجہ بد نہیں ہوتا بلکہ اس کے بر عکس بھی ہوا کرتا ہے۔ نیک سیرت آدمی دھکے کھاتے ہیں۔ مصیبتیں سہتے ہیں اور برے آدمی چین سے رہتے ہیں۔ نامور ہوتے ہیں جاہ و منصب حاصل کرتے ہیں۔
حقیقت پسند تجربات کی بیڑیوں میں جکڑا ہوتا ہے۔ اور چونکہ دنیا میں برے کرداروں کی ہی اکثریت ہے، یہاں تک کہ صاف ترین کردار میں بھی کچھ نہ کچھ داغ دھبے رہتے ہیں۔ اس لئے حقیقت پسندی ہماری کمزوریوں، برائیوں اور بے راہ رویوں کی ہوبہو تصویر ہوتی ہے۔ اور اس طرح حقیقت پسندی ہمیں قنوطی بنا دیتی ہے۔ انسانی سیرت پر سے ہمارا اعتقاد اٹھ جاتا ہے۔ ہم کو اپنے گرد وپیش برائی ہی برائی نظر آنے لگتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ حقیقت پسندی، سماج کی برائیوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کرانے میں بہت مددگار ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر ممکن ہے کہ ہم برائی دکھانے میں مبالغہ سے کام لیں اور تصویر کے اس رخ کو اس سے زیادہ تاریک دکھائیں جتنا کہ وہ فی الاصل ہے۔ لیکن جب ان کمزوریوں اور برائیوں کی تصویر کشی حد اعتدال سے گزر جاتی ہے تو قاری کے لئے عذاب ہو جاتی ہے۔ پھر انسانی فطرت کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ جس مکر وفریب کی دنیا میں سانس لیتا ہے اس کی دوبارہ تخلیق اسے محفوظ نہیں کر سکتی۔ وہ کچھ دیر کے لئے ایسی دنیا میں اڑ کر پہنچ جانا چاہتا ہے جہاں اس کے دل کو ایسے پست اور ادنیٰ جذبات سے نجات مل جائے۔ وہ بھول جائے کہ میں فکروں میں گرفتار ہوں، جہاں اسے شریف نیک اور درد مند ہستیوں کے درشن ہوں جہاں ریاکاریوں، سازشوں اور باہمی جھگڑوں کا ایسا غلبہ نہ ہو۔ اسے خیال ہوتا ہے کہ جب ہمیں قصے کہانیوں میں بھی ان ہی لوگوں سے سابقہ ہے جن کے ساتھ آٹھوں پہر رہنا پڑتا ہے تو پھر ایسی کتاب پڑھیں ہی کیوں؟
اندھیری گرم کوٹھری میں جب ہم کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں تو خواہش ہوتی ہے کہ کسی باغ میں نکل کر تر و تازہ ہوا کا لطف اٹھائیں۔ آدرش واد اسی کمی کی تلافی کرتا ہے۔ وہ ہمیں ایسے کرداروں سے متعارف کراتا ہے جن کے دل پاک و صاف ہوتے ہیں، جن میں خود غرضی اور بو الہوسی کا شائبہ تک نہیں ہوتا جن کا مسلک درویشانہ ہوتا ہے۔ اگرچہ ایسے کردار عملی زندگی میں کامیاب نہیں ہوتے۔ اپنی سادگی سے وہ دنیوی معاملات میں دھوکا کھاتے ہیں۔ لیکن کائیاں پن سے اکتائے ہوئے انسانوں کو ایسے شریف النفس کرداروں کے درشن سے ایک خاص مسرت حاصل ہوتی ہے۔
حقیقت پسندی اگر ہماری آنکھیں کھول دیتی ہے تو آدرش داد ہمیں اٹھاکر کسی سکون بخش مقام پر پہنچا دیتا ہے۔ لیکن جہاں آدرش واد میں یہ خوبی ہے وہاں یہ خوف بھی رہتا ہے کہ ہم ایسے کرداروں کی تخلیق نہ کر بیٹھیں جو محض عقائد کی مورت ہوں، بے جان ہوں کسی دیوتا کا تصور اور اس کی آرزو مشکل نہیں لیکن اس دیوتا میں انسانی روح پھونکنا مشکل کام ہے۔
اس لئے وہی ناول اعلیٰ درجہ کے سمجھے جاتے ہیں جن میں حقیقت اور آدرش آمیز ہوگئے ہوں۔ اسے آپ آدرش وادی حقیقت پسندی کہہ سکتے ہیں۔ آدرش کو زندگی دینے کے لئے ہی حقیقت کا استعمال ہونا چاہئے اور اچھے ناول کی خوبی بھی یہی ہوتی ہے کہ ناول نگار کا کمال اس میں ہے کہ وہ ایسے کرداروں کی تخلیق کرے جو اپنے حسن عمل اور طرز فکر سے قار ی کی دلچسپیوں کو جذب کرلے۔ جس ناول کے کرداروں میں یہ خوبی نہیں وہ دو کوڑی کا ہے۔
کردار کو پرکشش اور مثالی بنانے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ بالکل معصوم ہو۔ اعلیٰ سے اعلیٰ انسان میں بھی کچھ نہ کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں، کردار کو دلکش بنانے کے لئے اس کی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ یہی کمزوریاں اس کردار کو انسان بنا دیتی ہیں۔ ایسا کردار جو سراپا معصومیت ہو، فرشتہ ہو جائے گا اور ہم اسے سمجھ ہی نہ سکیں گے۔ اس نوع کے کردار ہمیں کسی طرح متاثر نہیں کر سکتے۔ ہمارے قدیم ادب پر آورش کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ وہ صرف دل بستگی کا ذریعہ نہیں تھا۔ اس کا بنیادی مقصد تفریح کے ساتھ روح و قلب کی صفائی اور شائستگی بھی تھا۔ ادیب کا کام صرف قارئین کا دل بہلانا نہیں ہے۔ یہ تو نقالوں، مداروں اور مسخروں کا کام ہے۔ ادیب کا منصب اس سے کہیں بلند ہے وہ ہمارے راستہ کا رہنما ہوتا ہے۔ وہ ہماری انسانیت کو بیدار کرتا ہے ہمارے اندر اعلیٰ و ارفع خیالات پیدا کرتا ہے۔ ہماری نظر کو وسعت بخشتا ہے۔ کم از کم اس کا آدرش یہی ہونا چاہئے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اس کے کردار مثبت ہوں۔ جو حرص و طمع کے آگے سر نہ جھکائیں بلکہ ان پر غلبہ حاصل کریں۔ جو بو الہوسانہ خواہشات کے پنجہ میں نہ پھنسیں بلکہ ان کو شکست دیں جو کسی فاتح کی طرح دشمنوں کو تاراج کر کے اپنی فتح یابی کا نعرہ لگاتے ہوئے نکلیں۔ ایسے ہی کرداروں سے ہم سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
ادب کا سب سے اونچا آدرش یہ ہے کہ اس کی تخلیق فن کی تکمیل کے لئے کی جائے ’فن برائے فن‘ کے اصول سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا لیکن وہی ادب قابل قدر ہو سکتا ہے جس کی بنیاد انسانی فطرت کے مظاہر پر رکھی جائے محبت اور رقابت، غصہ اور حرص، عقیدت اور نفرت، تکلیف اور آسائش، یہ سب ہماری مختلف ذہنی حالتیں ہیں۔ ان ہی کی جھلکیاں دکھانا ادب کا بنیادی مقصد ہے اور بغیر مقصد کے تو کوئی ادبی تخلیق ہو ہی نہیں سکتی۔
جب ادب کی تخلیق کسی سماجی سیاسی یا مذہبی عقیدہ کی اشاعت کے لئے کی جاتی ہے تو وہ اپنے منصب سے گر جاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں لیکن آج کل حالات اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں ایسے نئے نئے تصورات سامنے آ رہے ہیں کہ شاید ہی اب کوئی ادیب ادب کےاس آدرش کو اپنا کر لکھ سکے۔ یہ بہت مشکل ہے کہ ادیب ان حالات سے متاثر نہ ہو۔ اس سے دوچار ہوکر اس کے اندر کوئی ردعمل پیدا نہ ہو۔
یہی سبب ہے کہ آج کل ہندوستان کے ہی نہیں یورپ کے بڑے بڑے ادیب اور عالم بھی اپنی تخلیقات کے ذریعہ کسی نہ کسی ’ازم‘ کی اشاعت کر رہے ہیں۔ وہ اس کی پروا نہیں کرتے کہ اس سے ہماری تخلیق زندہ رہے گی یا نہیں۔ اپنے عقائد کا اظہار اور ان کا تحفظ ہی ان کا نصب العین ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کوئی خواہش نہیں۔ مگر یہ کیونکر مان لیا جائے کہ جو ناول کسی نظریہ کے اظہار کے لئے لکھا جاتا ہے وہ ادبی وقعت کے لحاظ سے کم تر ہوتا ہے۔ وکٹر ہیوگر گو کے ’لے میزریبل‘ ٹالسٹائیؔ کی بہت سی تصانیف، ڈکنس کی کتنی ہی کتابیں ایسی ہیں جن میں کسی نہ کسی نظریہ اور عقیدہ کی اشاعت کی گئی ہے لیکن اس کے باوصف وہ اعلیٰ درجہ کی تخلیقات ہیں۔ اور اب تک ان کی کشش کم نہیں ہوئی۔ آج بھی شاؔ اور ویلس جیسے بڑے بڑے ادیب اپنے عقائد کی اشاعت ہی کے مقصد سے لکھتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کیوں نہ ایک باشعور ادیب اپنی تخلیقات میں اپنے عقائد کا اظہار اس خوبصورتی سے کرے کہ ان میں انسان کے جذبات اور خیالات کی کشمکش بھی منعکس ہوتی ہے۔ ’ادب برائے ادب‘ کا وقت وہ ہوتا ہے جب ملک میں آسودگی اور خوشحالی ہو۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہم مختلف قسم کے سیاسی اور سماجی بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہیں جدھر نگاہ اٹھتی ہے دکھوں اور تکلیفوں کے بھیانک منظر نظر آتے ہیں۔ ستم زدوں کی آہ وبکا سنائی دیتی ہے تویہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی حساس انسان کا دل نہ دہل اٹھے۔ ہاں ناول نگار کو اس بات کی کوشش ضرور کرنا چاہئے کہ اس کے خیالات غیر محسوس طور پر قارئین تک پہنچیں۔ ان کی وجہ سے ناول کی روانی اور دلچسپی میں کسی طرح کی رکاوٹ نہ ہو۔ ورنہ ناول بے کیف ہو جائے گا۔
پک وک‘ کا نام ایک شکرم گاڑی کے مسافروں کی زبان سے ڈکفلس کے کان میں آیا۔ بس نام کے آتے ہی کردار صورت، لباس، سب کی تخلیق ہوگئی۔ ’سائلس ماریز‘ بھی انگریزی کا ایک مشہور ناول ۱ ہے۔
جارج ایلیٹ نے لکھا ہے کہ اپنے بچپن میں انہوں نے ایک پھیری لگانے والے جولاہے کو اپنی پیٹھ پر کپڑے کے تھان لادے ہوئے کئی بار دیکھا تھا۔ اس کی تصویر ان کے دل پر نقش ہوگئی تھی اور پھر اس ناول کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ ’اسکارلٹ لٹر‘ بھی ہاتھارن کی بہت خوبصورت اور قابل قدر تخلیق ہے۔ اس کتاب کا بنیادی خیال انہیں ایک پرانے مقدمے کی مسل سے ملا۔ ہندوستان میں ناول نگاروں کی زندگی کے حالات ابھی لکھے نہیں گئے۔ اس لئے ہندوستان کے افسانوی ادب سے کوئی مثال دینا مشکل ہے۔
’’چوگان ہستی‘‘ (پریم چند کا ناول) کا ماخذ ایک اندھا بھکاری ہے۔ جو ہمارے گاؤں میں رہتا تھا۔ ایک ذرا سا اشارہ، ایک ذرا سا بیج ناول نگار کے دماغ میں پہنچ کر اتنا بڑا درخت بن جاتا ہے کہ لوگ اس پر حیرت کرنے لگتے ہیں۔ ایک مشہور ناول نگار کا قول ہے کہ اسے اپنے ناولوں کے کردار اپنے پڑوسیوں سے ملے۔ وہ گھنٹوں اپنی کھڑکی کے سامنے بیٹھ کر لوگوں کو توجہ کے ساتھ آتے جاتے دیکھا کرتا تھا اور ان کی باتوں کو غور سے سنتا تھا۔ ’جین آئیر‘ قارئین نے ضرور پڑھی ہوگی۔ دو خاتون ادیبوں میں اس مسئلہ پر بحث ہو رہی تھی کہ ناول کی ہیروئن خوبصورت ہونا چاہئے یا نہیں؟ ’جین آئیر‘ کی مصنفہ نے کہا۔ ’’میں ایسا ناول لکھوں گی جس کی ہیروئن خوبصورت نہ ہوتے ہوئے پرکشش ہوگی۔‘‘ اس بحث کا نتیجہ ’جن آئیر‘ کی صورت میں ظاہر ہوا۔
دنیائے ادب میں کچھ ایسے پلاٹ بھی ہیں جن پر ہزاروں سال سے ادیب کہانیاں لکھتے آئے ہیں، اور شاید ہزاروں سال تک لکھتے رہیں گے۔ ہمارے ’پرانوں‘ کے قصوں کی بنیاد پر نہ جانے کتنے ڈرامے اور افسانے لکھے گئے۔ یورپ میں بھی یونانی دیومالا شاعرانہ فکرکو مہمیز کرتی رہی ہے۔ ’دوبھائیوں کی کہانی‘ جس کا سراغ مصر کی تین ہزار برس پرانی تحریروں میں ملتا ہے، فرانس سے لے کر ہندوستان تک ایک درجن سے زائد مشہور زبانوں میں منتقل ہوکر شائع ہو چکی ہے۔ یہاں تک کہ بائبل میں اس کا ایک واقعہ بحنسہ ملتا ہے۔
لیکن یہ سمجھنا بھول ہوگی کہ لکھنے والا تخیل یا فکری قوت کی کمی کے سبب سے قدیم کہانیوں کا سہارا لیتا ہے۔ بات یہ ہے کہ نئے قصوں میں وہ ’رس‘ اور وہ دلفریبی نہیں جو پرانے قصوں میں پائی جاتی ہے۔ ہاں وہ ایک نئے قالب میں ہونا چاہئے۔ ’شکنتلا‘ پر اگر کوئی ناول لکھا جائے تو وہ کتنا دلآویز اور دلچسپ ہوگا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
تخلیقی صلاحیت کم وبیش بھی انسانوں میں ہوتی ہے۔ جنہیں مشق ہوتی ہے انہیں پھر کسی طرح کی جھجک نہیں ہوتی۔ قلم اٹھایا اور لکھنے لگے۔ لیکن نئے ادیبوں کو پہلے پہل ایسی جھجک ہوتی ہے جیسے وہ دریا میں کودنے جا رہے ہوں۔ اکثر کسی معمولی واقعہ سے ان کو تحریک ملتی ہے۔ کسی کا نام سن کر، کوئی خواب دیکھ کر، کوئی تصویر دیکھ کر ان کا تخیل بیدار ہو جاتا ہے۔ کسی شخص پر سب سے زیادہ کون سی چیز محرک کا کام کرتی ہے، اس کا انحصار اس کی شخصیت پر ہوتا ہے۔ کسی کا تخیل فلسفیانہ مضامین سے حرکت میں آتا ہے، کسی کا خوشبو سے، کسی کو نئے مقامات کی سیر سے بڑی مدد ملتی ہے۔ ندی کے کنارے تن تنہا چہل قدمی کرنے سے بھی نئے نئے خیالات ذہن میں آتے ہیں۔
اس سلسلہ میں قدرت کی دی ہوئی صلاحیت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ جب تک فطری میلان اور ملکہ نہ ہو۔ مقصد تعلیم اورمشق سب بیکار ہوتے ہیں۔ مگر یہ ثابت کیسے ہوکہ کس میں ناول لکھنے کی صلاحیت ہے اور کس میں نہیں؟ کبھی اس کا ثبوت ملنے میں برسوں گزر جاتے ہیں، اور برسوں کی محنت ضائع ہو جاتی ہے۔ امریکہ کے ایک مدیر نے اس بات کی آزمائش کرنے کا ایک نیا ڈھنگ نکالا ہے۔ وہ ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کسی مشہور آدمی کا نام لکھ دیتا ہے اور امیدوار کو وہ ٹکڑا دے کر اس نام کے بارے میں پے بہ پے سوال کرنا شروع کرتا ہے۔ اس کے بالوں کا رنگ کیا ہے؟ اس کے کپڑے کیسے ہیں؟ کہاں رہتا ہے؟ اس کا باپ کیا کام کرتا ہے؟ زندگی میں اس کی سب سے بڑی آرزو کیا ہے؟ وغیرہ۔ اگر امیدوار نے اطمینان بخش طور پر ان سوالوں کے جواب نہ دیے تو انہیں نااہل سمجھ کر رخصت کردیا جاتا ہے۔ جس کی قوت مشاہدہ اتنی کمزور ہو وہ اس کے خیال میں ناول نگار نہیں بن سکتا۔ اس نوع کے امتحان میں ایک نیاپن ضرور ہے، لیکن غلط فیصلہ کا امکان بھی کم نہیں ہے۔
ناول نگار کے لئے ایک نوٹ بک رکھنا ضروری ہے۔ اگرچہ راقم الحروف نے کبھی نوٹ بک نہیں رکھی لیکن اس کی ضرورت کا وہ اعتراف کرتا ہے۔ کوئی نئی چیز، کوئی انوکھی صورت، کوئی خوبصورت منظر دیکھ کر نوٹ بک میں درج کرلینے سے بڑا کام نکلتا ہے۔ یورپ کے ادیب اس وقت تک ایک نوٹ بک ضرور رکھتے ہیں جب تک کہ ان کا ذہن اس قابل نہیں ہوتا کہ ہر قسم کی اشیاء کو الگ الگ خانوں میں محفوظ کر سکے۔ اس میں شک نہیں کہ برسوں کی مشق کے بعد یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے لیکن ابتدائی زمانہ میں نوٹ بک انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ اگر ناول نگار چاہتا ہے کہ اس کے مناظر میں زندگی ہو، بیانات میں حقیقت کا رنگ ہو تو اسے لازمی طورپر اس سے کام لینا پڑے گا۔ ایک ناول نگار کی نوٹ بک کا یہ نمونہ دیکھئے،
’’۲۱؍ اگست۔ بارہ بجے دن، ایک کشتی پر ایک آدمی، سیاہ رنگ، سفید بال، آنکھیں ترچھی، پلکیں بھاری، ہونٹ اوپر کو اٹھے ہوئے اور موٹے، مونچھیں اینٹھی ہوئیں۔‘‘
’’یکم ستمبر۔ سمندر کا منظر، بادل سیاہ اور سفید۔ پانی میں سورج کا عکس کالا ہرا چمکیلا۔ لہریں پھین دار، ان کا اوپری حصہ اجلا۔ لہروں کا شور، ان سے اڑتا ہوا سے جھاگ اڑتا ہوا۔‘‘
ان ہی حضرت سے جب پوچھا گیا کہ آپ کو کہانیوں کے پلاٹ کہاں سے ملتے ہیں تو انہوں نے کہا، ’’چاروں طرف سے۔ اگر ادیب اپنی آنکھیں کھلی رکھے تو اس کو ہوا میں سے بھی کہانیاں مل سکتی ہیں۔ ریل گاڑی میں، کشتیوں پر، اخباروں میں، لوگوں کی گفتگو میں اور ہزاروں جگہوں سے خوبصورت کہانیاں بنائی جا سکتی ہیں۔ کئی برسوں کی مشق کے بعد مشاہدہ میں ایک خاص سلیقہ پیدا ہو جاتا ہے۔ نگاہ آپ ہی آپ مطلب کی چیزیں منتخب کر لیتی ہے۔ دو سال ہوئے ہیں ایک دوست کے ساتھ سیر کرنے گیا۔ باتوں ہی باتوں میں یہ بحث چھڑ گئی کہ اگر دو آدمیوں کے سوا دنیا کے تمام افراد مار ڈالے جائیں تو کیا ہو؟ اس بحث سے میں نے کئی اچھی کہانیاں سوچ نکالیں۔‘‘
اس مسئلہ پر تو فن ناول نگاری کے سبھی نقاد متفق ہیں کہ ناولوں کے لئے کتابوں کے بجائے زندگی ہی سے مواد لینا چاہئے۔ والٹر مومنیکٹ اپنی کتاب ’’ناول کا فن‘‘ میں لکھتا ہے، ’’ناول نگارکو اپنا مواد میز پر رکھی ہوئی کتابوں سے نہیں ان انسانوں سے لینا چاہئے جو اسے ہر روز اپنے گرد و پیش ملتے ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اکثر لوگ اپنی آنکھوں سے کام نہیں لیتے۔ کچھ لوگوں کو یہ وہم بھی ہے کہ انسانوں میں جتنے اعلیٰ نمونے کے کردار تھے وہ سب قدیم زمانہ کے لکھنے والوں کی تخلیقات کا موضوع بن گئے۔ اب ہمارے لئے کیا رہا ہے؟ یہ صحیح ہے کہ لیکن اگر پہلے کسی نے بوڑھے، بخیل، فضول خرچ، جواری، شرابی، رنگین مزاج نوجوانوں اور ایسے ہی دوسرے کرداروں کی تصویر کشی کی ہے تو کیا اب اسی جماعت کے دوسرے کردار نہیں مل سکتے؟‘‘
فن ناول نگاری میں یہ بات بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ ناول نگار کیا لکھے اور کیا چھوڑے؟ پڑھنے والا بھی قوت تخیل کا مالک ہوتا ہے۔ اس لئے وہ ایسی باتیں پڑھنا پسند نہیں کرتا جن کو وہ اپنے تخیل کی آنکھ سے آسانی سے دیکھ سکتا ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ ناول نگار سب کچھ کہہ ڈالے اور اس کے فکر و تخیل کے لئے کچھ بھی نہ چھوڑے۔ وہ کہانی کا صرف ایک خاکہ چاہتا ہے جس میں وہ اپنے مذاق کے مطابق رنگ بھر لیتا ہے۔ اچھا ناول نگار وہی ہے جو یہ اندازہ لگالے کہ کون سی بات قاری خود سوچ لے گا اور کون سی بات اسے لکھ کر واضح کر دینا چاہئے۔ ناول اور افسانہ میں پڑھنے والے کی سوچ کے لئے جتنی زیادہ گنجائش ہو اتنا ہی وہ کامیاب ہوگا۔
کسی کردار کا خاکہ بنانے کا یا کسی منظر کو دکھانے کے لئے تفصیل نگاری کی ضرورت نہیں۔ دوچار جملوں میں خاص خاص باتیں کہہ دینا چاہئے۔ کسی منظر کو دیکھ کر فوراً اسے بیان کرنے سے بہت سی غیرضروری باتیں آجانے کا خوف رہتا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد غیرضروری باتیں آپ ہی آپ ذہن سے نکل جاتی ہیں۔ صرف اہم باتیں ذہن میں نقش بن کر رہ جاتی ہیں۔ تب اس منظر کے بیان کرنے میں بے جا تفصیلات نہیں آسکیں گی۔
نوٹ
(۱) پریم چند ڈڈڈڈڈڈڈڈ اور جارج ایلیٹ کے بعض دوسرے ناولوں مثلاً ڈڈڈڈڈڈڈڈ سے بے حد متاثر رہتے ہیں۔ اول الذکر ناول کا ترجمہ (تلخیص) انہوں نے ہند ی میں شائع کیا ہے۔ اس میں فضا اور کرداروں کے نام ہندوستانی ہیں۔ ڈڈڈڈڈڈ کا کردار سکھ داس کے ہندوستانی روپ میں سامنے آتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ’’چوگان ہستی‘‘ کے مرکزی کردار ’سورداس‘ کی تخلیق میں مارنرؔ کے کردار کا خاصہ اثر رہا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.