پانچ سطریں
قاسمیؔ صاحب، آپ کو غلط فہمی ہوئی
ہم شاعر ہیں، حاجت مندنہیں
حاجت مندوں کی بے لوث اِمداد کرنا آپ کا شیوہ ہے
ظاہر ہے اِس میں آپ کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں
بس خدمت ہی ہے!
سرمایہ دارانہ نظام میں آدمی کی شناخت کے اصول بیکار ہوگئے ہیں۔ انسانی روابط کو پہچاننے کے لیے اقدارکا کوئی قابل قبول سلسلہ باقی نہیں رہا۔ شروع شروع میں نیک و بد کی تفتیش مادی استحصال، ظلم اور ناانصافی کے سرچشموں تک لے گئی۔ تو عافیت پسندوں نے اچھائی اور برائی کی اصطلاحوں کو رائج کیا۔ جو ہر خاص کی جستجو جب نفسیات سے گتھم گتھا ہوئی تو سب کچھ ملمع دکھائی دیا۔ اعتبارات کی گنجائش گھٹتے گھٹتے صفر تک پہنچ گئی۔ ہر معاملہ مشکوک ہوگیا۔ اس بے یقینی کے عالم میں فن کاروں نے دعویٰ کیا کہ نئی اقدار کی داغ بیل ان کے دم قدم سے پڑے گی۔ بار بار کے تقاضوں کے باوجود فنکاروں سے اپنی نا اہلی کو چھپانے اور دعویٰ کو قائم رکھنے کے لیے کچھ بن نہیں پڑا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ محاسبے کے باوجود فنکاریہ بلند بانگ دعویٰ کرنے سے باز نہیں آتے۔ آئے دن اس کی تجدید ہوتی رہتی ہے۔
عمومی استدلال یہ ہے کہ جہاں کہیں آدمی کی شناخت گم ہوئی ہے۔ وہیں صنعت نے روزافزوں ترقی کی ہے۔ اس لیے ہو نہ ہو، یہ سب کچھ مشینوں کی ایجاد سے ہوا ہے۔ یہ سوچ کر فنکار مطمئن ہوتے ہیں، صنعتی دور کی مخالفت میں کمربستہ ہوتے ہیں اور کارآمد ہونے کے احساس سے سرشار ہوتے ہیں۔ جب مشینوں کی بدولت مہیا ہونے والی سہولتوں اور آسائشوں کا خیال آتا ہے تو غم و غصے کی شدت برقرار نہیں رہتی۔ فنکارمخمصے میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور ان کے لیے صنعتی دور پر الزام دھرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ اپنی ذات پر بے اعتمادی کیے بغیر چارہ دکھائی نہیں دیتا۔ چاروناچار پرخطر، مہم جویانہ، ہرچہ باداباد اور لاتعلق اندازِ نظر اختیار کرتے ہیں تاکہ اپنی ذات سے آمناسامنا نہ ہونے پائے۔ بے خطر کود پڑنے کا یہ عمل درحقیقت اپنے آپ کولاجہت اور پاش پاش کرنے کا ہے۔ وہ جو خودنگری اور خودشکنی کے مرحلے سے، کہ ایک ہی عمل کی دوصورتیں ہیں، گزرنے کے مقام پر ہوں، انہیں خودتنقید کامشورہ ارزانی کرنا کہاں کی معاملہ فہمی ہے؟
جو لوگ خودشکنی کے امکانات سے پوری طرح واقف نہیں ہیں، ان کے لب ولہجہ کی قطعیت دیدنی ہے۔ ڈاکٹر وزیرآغا لکھتے ہیں۔
’’ایک تحریک تونظم میں منطقی ربط ہی کے خلاف ہے اور محض لفظی ربط کو نظم کے لیے ناگزیر قرار دیتی ہے۔ اس تحریک کے علمبرداروں نے اظہار کو تو شاید کچھ اہمیت دی ہے۔ لیکن ابلاغ کی سرے سے نفی کردی ہے۔ نظریہ ان کا یہ ہے کہ نظم اگرچند بکھرے ہوئے لفظی اشاروں سے اس فضا کو قائم کردے جسے کبھی شاعر نے محسوس کیا تھا تو نظم کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ان کے نزدیک نظم میں خیال کی اکائی اور اس کا ابلاغ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ نظم کی تعمیر میں لفظ کو مفہوم یا معنی کے لبادے سے جدا کرکے پیش کرنا چاہیے تاکہ وہ جذبے کواس کی ہوبہو صورت میں پیش کرسکے۔ ملارمےؔ اور اس کے ہمنواؤں نے شاعری اور موسیقی کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے لفظ کو اس کے مفہوم سے جداکرکے استعمال کرنے کی جو تحریک چلائی تھی، متذکرہ بالاتحریک دراصل اسی کی صدائے بازگشت ہے۔ جس طرح ملارمےؔ کی وہ تحریک داخلی توانائی کے فقدان کے باعث ازخود ختم ہوگئی تھی، بالکل اسی طرح اردو نظم کی یہ منفی تحریک بھی بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس تحریک کے علمبردار ایک بنیادی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے مصوری، موسیقی اور بت تراشی کی تقلید کی دھن میں اس بات کو فراموش کردیا ہے کہ لفظ بنیادی طور پر رنگ، سنگ یا سُر کی طرح مفہوم یا معنی سے ناآشنانہیں۔ ہر لفظ کے گردمفہوم کا ایک دائرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ جس کامطلب یہ ہوا کہ لفظ بجائے خود ابلاغ کی ایک صورت ہے۔ چونکہ نظم رنگ، سنگ یا سُر کے بجائے لفظ کے حربے کو استعمال کرتی ہے اس لیے لامحالہ ابلاغ اس کا اہم ترین مقصد قرار پاتاہے۔ اگر وہ اپنے اس منصب سے دست کش ہوجائے تو اس کامطلب یہ ہوگا کہ اس نے اپنے وجود ہی کی نفی کردی ہے۔ نئی تحریک کے علمبردار جوانی کے جوش میں اس حقیقت سے چشم پوشی کر رہے ہیں اور اسی لیے ان کی مساعی کے مشکور ہونے کے امکانات صفر کے برابرہیں۔‘‘
اس اقتباس میں مساعی کے نامشکور ہونے کی اس قطعیت کے ساتھ پیشین گوئی کرنے کے لیے جوزائچہ تیار کیا گیاہے، اس میں واقعاتی غلط بیانیاں ہی نہیں، فکری تضادات بھی موجود ہیں۔ ملارمےؔ کی موجودگی ہی سے داخلیت پسندی کو تقویت ملی۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ داخلی توانائی کے فقدان کی تہمت بھی اسی تحریک پر لگ رہی ہے۔ اِس فیصلہ کن انداز تخاطب کے درپردہ ایک بے بسی کی کیفیت جھلک رہی ہے۔ ہر اعتبار سے شکست خوردگی کے بعد یہ تمنا ہی کی جاسکتی تھی کہ جدید نظم کی موجودہ تحریک ازخود ختم ہوجائے۔ چنانچہ اس خواہش کابڑا برملا اظہار ہوا ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا کے استدلال میں صرف ایک بات یعنی ’’منفی تحریک‘‘ صحیح ہونے کے قریب ہے، تاہم اطلاق اس کا بھی درست طریقے سے نہیں کیا گیا! ’’منفی تحریک‘‘ کے ضمن میں چند مزید تصریحات قابل ذکر ہیں۔ ’’یوں محسوس ہوتاہے کہ جب کوئی مبتدی نئی نظم کی اس تحریک میں شامل ہوکر حلفِ وفاداری اٹھالیتا ہے تو اس کے ہاتھ میں نئی نظم کا ضابطہ تھما دیا جاتاہے۔ اس ضابطے کی کئی شقیں ہیں۔ پہلی یہ کہ جدید دور کی میکانکی زندگی کو اجاگر کرنے کے لیے ڈیزل، پٹرول، ریڈیو، سائن بورڈ، لفٹ وغیرہ الفاظ بے محابا استعمال کرو۔ دوم رنگوں سے اپنی وابستگی ظاہر کرنے کے لیے زرد، نیلا، کالا اور سبز کام میں لاؤ مثلاً سورج کو کالا، ہوا کو سبز، نفرت کو سفید اور رات کو نیلا کہنے سے نظم کا جدید رنگ ابھرآئے گا۔ سوئم جنسی علامات کو پوری طرح سطح پر لاؤ۔ چہارم نظم کے مختلف مصرعوں میں اگر ربط باہم پیدا ہونے لگے تو اس کی سختی سے سرکوبی کرو۔ آخری یہ کہ میٹر جگہ جگہ سے توڑدو۔‘‘ استہزائی لہجہ سے قطع نظر، یہ تلخیص و تجزیہ ٹھیک ٹھاک ہے۔ یہ تحریک میٹر کی سالمیت، منطقی ربط، رنگوں کے طبیعی مناسبت کے مطابق استعمال اور جنسی اخفاء کی یقیناً نفی کرتی ہے۔ اس لحاظ سے اسے منفی تحریک کی بجائے ’’نفی کی تحریک‘‘ کہنازیادہ مناسب ہوگا۔
نفی کی اس تحریک کا، جو نئی شاعری کے رگ و پے میں ہے، خودشکنی سے گہرا تعلق ہے۔ علاج گردشِ لیل و نہار سے عہدہ برآ نہ ہوسکنے کے بعد خودشکنی کے معروضی تلازمے ڈھونڈنااظہار کی ایک صورت ہے۔ خودشکنی پر صرف ہونے والی قوتوں کو غیرخودپر استعمال کرنااظہار کی دوسری صورت ہے۔ جوشخصیت عین خودشکنی کے عالم میں ہونے کے ساتھ ساتھاپنی قوتوں کو غیرخودکی شکست و ریخت کے لیے بروئے کارلارہی ہو، اس کے لیے اظہار کی یہ دوصورتیں اور ان کی معکوسی شکلیں، نفی کل کاجوازبنتی ہیں۔ نفی کل جس لامحدود آزادی کے تصور کی غمازی کرتی ہے، اس کے رشتے بالاخر انتشارسے جاملتے ہیں۔ شعوری انتشار کے گردونواح میں تخلیقی قوتوں کااجتماع ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ ان تخلیقی قوتوں سے بہرہ ور ہونے کے لیے انتشار کے ظاہری اور باطنی اسالیب کو اپنانا پڑتاہے۔ یہ بڑا ہی جان لیوا کام ہے۔
نئی شاعری کی ساخت میں انتشارکی ظاہری عناصر مثلاً میٹر کی توڑ پھوڑ اورزبان کی قلبِ ماہیت کو سبھی پہچان لیتے ہیں لیکن خودشکنی، نفیٔ کل، انتشار اور آزادی کے باطنی عوامل کو ڈھونڈ نکالنا کچھ آسان نہیں۔ ان عناصر کو دریافت کرکے ہمدردانہ رویے سے ان کے اثرونفوذ کو برداشت اور قبول کرنا، ہر ایک کے بس کاروگ نہیں۔ تاہم اتناضرور کہاجاسکتاہے کہ جانکنی کا یہ عالم بصیرت والوں کے لیے یقیناً جاننے کی چیز ہے۔ ہوا یہ ہے کہ ہمارے گردوپیش میں تغیرات کاایک سیلاب امڈآیا ہے۔ انسان کی تخریبی اورتخلیقی قوتوں کو سنبھالنے والے ذرائع ختم ہوگئے ہیں۔ جھوٹ اور سچ کی حدِّفاصل دھندلی ہوگئی ہے کہ جھوٹ اور سچ کے تصورات از خود غیرواضح ہوگئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حتمی فیصلہ کرنے کاحوصلہ نہیں رہا۔ لے دے کے اپنی ذات پر ہی بس چلتا ہے۔ سو فنکار اس کی توڑ پھوڑ میں مشغول ہیں۔ ان حالات میں ابلاغ ایسے سطحی تقاضوں کی کسے پروا ہے؟
خودشکنی اور آزادی کے عمل نے فنکاروں کے لیے جو مشکلات پیدا کی ہیں، ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر کریم الدین احمد لکھتے ہیں۔
’’تجریدی شاعر بھی اپنے دور کا شعور رکھتے ہیں۔ گو ان کااحساس بڑی حدتک منفی ہے۔ فرد کی آزادی اور معاشرے سے بے تعلقی نے انہیں بڑی حدتک اس دوراہے پر کھڑا کردیا ہے جہاں سارتر کاوجودی کھڑا ہے۔ یہ دوراہا جس طرح وجود کو انتخاب کی جدوجہد میں پھینک دیتا ہے۔ اسی طرح تجریدی شاعر اپنی آزادی کے ہاتھوں مجبورہے۔ اس نے ماضی کی ہیئت و موضوع کی تمام قیود کو توڑدیا ہے۔ لیکن اب اس کے سامنے ویرانہ ہے۔ اور ویرانے میں راستہ معلوم کرنا اور منزل متعین کرنا مشکل کام ہے۔ ایک طرف اس کو آزادی دلانے والے مغربی ادیب اور ان کی تمام تحریکیں ہیں اوردوسری طرف اس کااپنا ماضی، زبان و بیان، مضامین اور ایرانی ادب! ماضی کی قیود توڑنا ضروری تھا۔ وہ ٹوٹ گئیں۔ لیکن اب کیا ہو؟ یعنی ہماراتجریدی شاعر کدھر جائے! جن ادیبوں اور تحریکوں نے اسے ماضی سے نجات دلائی، جن کے ناموں کی یہ مالا جپتا ہے، ان سے اس کی واقفیت سرسری، سنی سنائی اور افسوس ناک حد تک محدود ہے۔ ان تمام حالات سے تو وہ واقف ہی نہیں جنہوں نے مغرب میں ان تحریکوں کو جنم دیا۔ اس کی ناواقفیت افسوس ناک ہی نہیں بلکہ مجرمانہ ہے۔ کیونکہ اسے اردو میں ایک نئی تحریک کو جنم دینا ہے۔ یا اس کی نیو کو مضبوط کرنا ہے۔ ایسے حالات میں اگر وہ اپنے کام سے واقف نہیں تو صرف پرانی اقدار والوں ہی کے نزدیک گہنگار نہیں بلکہ خود اس نئی تحریک کا گہنگار ہے۔ ان کی باتیں دلچسپ ہیں اور ایسی بالکل نہیں جنہیں سرسری طور پر رد کیا جاسکتا ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ اردو کی پوری شاعری ایرانی استعارے میں ہے۔ زبان، بیان، طرزِ ادا، استعارے، تشبیہ غرض سب کے سب فارسی سے آئے ہیں اور جاگیردارانہ معاشرے کی ثقافتی احتیاجات پوری کرتے ہیں۔ ہمیں جن خیالات کو پیش کرنا ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کے ہیں اور مغرب سے آئے ہیں۔ اپنی نوعیت اور تجربہ میں مختلف ہیں۔ اس لیے ہیئت کی تبدیلی ایک لازمی چیز ٹھہری۔ یہ خیالات سلجھے ہوئے اور مربوط نہیں بلکہ الجھے ہوئے اور غیر مربوط ہیں۔ ان کی یہ باتیں بڑی حدتک صحیح ہیں اس لیے ہم تجریدی شاعروں کوبہت زیادہ موردِ الزام قرار نہیں دے سکتے۔‘‘
اس اقتباس میں سے بہت سی باتیں حذف کی جاسکتی تھیں، لیکن میں نے ذائقے کی خاطر انہیں رہنے دیا۔ قیود کی توڑپھوڑ اور آزادی کی دستیابی سے نئے فن کاروں پر کوئی بوکھلاہٹ طاری نہیں ہوئی۔ وہ تو تندہی سے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ البتہ ان کی صورتِ حال کا تجزیہ ٹھیک ڈھنگ سے نہیں ہو رہا۔ ڈاکٹر کریم الدین احمد نے جو ظاہری شناخت و دریافت کی ہے۔ وہ بڑی حدتک ڈاکٹر وزیر آغا کے نتائج سے مماثل ہے۔ ایک واضح فرق یہ ہے کہ آزادی کاجو تصور نئی شاعری میں مبہم طور پر کارفرما ہے، ڈاکٹر کریم الدین احمد اس تک جاپہنچے ہیں، جب کہ ڈاکٹر وزیر آغا فروعی مسائل میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ صرف یہی نہیں، ڈاکٹر کریم الدین احمد تنقیص کی حدود تک پہنچنے کے باوجود، ڈاکٹر وزیر آغا کے برعکس، معروضی اور نسبتاً معتدل ہیں۔ عبید اللہ علیم وغیرہ کی غراہٹ اور اکا دکاعف عف کے شور میں ڈاکٹر کریم الدین احمد کی آواز یقیناً ایک خوشگوار حیرت کا موجب ہے۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ ایک مقام پر گنہگار ٹھہرا کر دوسرے مقام پر بری الذمہ قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر کریم الدین احمد کے معصوم ذہن کو کوئی دھچکا نہیں لگتا۔ جس بنیاد پر تجریدی شاعر، مطعون ہوتے ہیں، کم و بیش اسی استدلال کی بناپر ان پر عائد کیے جانے والے الزامات کالعدم ٹھہرتے ہیں۔
آزادی کاادّعاتو ہر کَہہ ومِہ کو ہے، لیکن حتمی طور پرآزادی کی واردات کی نفیٔ کل سے ہم کنار ہو، محض چند دعووں کاقصہ نہیں۔ اس کے لیے انانیت اور مطلق العنانیت کے گہرے ربط کو جانتے ہوئے اس امر کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا کہ نامناسب ذرائع پیدا وار کی تقسیم کن کن طریقوں سے انسان کی نمو اور توانائی کو سلب کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں صنعت کی افزائش قباحتوں کی بنیاد نہیں۔ قباحتیں اُس تاجرانہ گرفت سے جنم لیتی ہیں جو مناسب، صحت مند اور صالح ذرائع کی بجائے منفعت کو مقدم رکھتی ہے۔ اخلاقی قوتوں کو تاجرانہ مفاد کی بالادستی تہہ وبالاکرکے رکھ دیتی ہے۔ انسان کی انفرادی قوتوں کو نامعلوم کارٹل مجبوری کے ریلے میں لیے چلے جاتے ہیں۔ انسان کی اکائی گم ہوجاتی ہے تخریبی اورتعمیری قوتوں کے یکساں اظہار کے مواقع چھن جاتے ہیں۔ گھٹی ہوئی، بند، پریشان، اظہار سے محروم، تاجرانہ مفاد کی تابع اور مجبور شخصیت کبھی صنعتی دور کو برا کہتی ہے، تو کبھی اس کی آسائشوں کوشرفِ قبولیت بخشتی ہے۔ گومگو کے عالم میں اپنے تجزیے کو شک کی نظر سے نہیں دیکھتی، خودشکنی پر اُترآتی ہے۔ خودشکن فنکار انانیت اور مطلق العنانیت کا مظہر ہوتاہے۔ آج کا ادب اسی انانیت اور مطلق العنانیت کا علامیہ ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ علامت کی معنویت اپنے سیاق و سباق پر منحصر ہوتی ہے۔ کیا آپ خودشکنی کی شکار شخصیت کے لیے کوئی وسیع سلسلۂ سیاق و سباق دریافت کرسکتے ہیں؟ اگر آپ کاجواب نفی میں ہے تو یقین جانیے ادب سے آپ کا رشتہ نمائش اور فیشن کاہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.